کتاب”جمہوریت کا اختتام ” تعارف و تبصرہ اور ایک مختصر تنقیدی جائزہ

  • ۴۶۰

ترجمہ نجیب الحسن زیدی

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: پیش نظر تحریر ، جان میری گیانو {Jean Marie Guehenno}کی ایک سو پچاس صفحات پر مشتمل تصنیف ” جمہوریت کا اختتام”{La fine de la democratic} کے خلاصہ اور تنقیدی جائزہ پر مشتمل ہے۔ اس کتاب کا پرنٹ ہو کر آنے کے کچھ ہی دن میں مغرب کے روشن فکر محافل میں جم کر استقبال ہوا ،مغربی دانشور طبقے میں اس کی پذیرائی کا ایک سبب یہ بھی ہے کہ گیانو کے عقیدہ کے پیش نظر جمہوریت ہر انسانی سماج کے کمال کی انتہا و حد نہیں ہے جس کے چلتے تمام معاشرے یہ چاہیں کہ جیسے بھی ہو جمہوریت کے ہم نوا بن جائیں اور کسی بھی قیمت پر اسے حاصل کر کے ہی دم لیں اس لئے کہ آج جمہوریت تمام شمالی ممالک ( پہلی دنیا =مغرب) اور جنوبی ممالک (تیسری دنیا =مشرق ) میں بڑی رکاوٹوں سے دوچار ہے جن میں سے کچھ یہ ہیں :
سیاست سے گریز پا سماج
ہم حکومتوں کے اختتامی دور کی دہلیز پر کھڑے ہیں ، جسے اختتام عصر حکومت کہا جا سکتا ہے ، یہ حکومتوں کا اختتامی دور اپنے باطن میں فریب و نیرنگ کے بل پر چلنے والی سیاست کے دور کے تمام ہو جانے کے مفہوم کو لئے ہو ئے ہے ، دوسرے الفاظ میں یوں کہا جا سکتا ہے کہ آج سیاست سے گریز کا سرچشمہ یہ ہے کہ موجودہ جمہوریتوں میں سیاست ایک بدنام سی بد طینت شے ہے مثلا امریکہ کی سرکاری مشینری میں تیس ہزار ایجنٹوں کی لابی پائی جاتی ہے ، تیس ہزار افراد پر مشتمل ایجنٹوں کی لابی کا وجود بخوبی اس بات کو واضح کر رہا ہے کہ مارڈن دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت میں کسی بھی فیصلہ لینے کے مراحل کس قدر عمیق و پیچیدہ ہونے کے ساتھ الجھے ہوئے ہیں ، اس لئے کہ اگر یہ ایجنٹوں کی لابی مثلا اگر اپنے مافوق افسروں کے لئے اگر کچھ ایسی معلومات فراہم کرنے کا کام کرتی ہے جسکی روشنی میں کمپنیاں و کارخانے اپنے مفادات کا غیر قانونی ہونے کے باوجود دفاع کر سکتے ہیں وہ بھی صرف اس بنیاد پر کہ انہیں ان کی لابیوں نے ایسی اہم معلومات فراہم کی ہیں کہ جنہیں وہ ٹرسٹ اور ملٹی نیشنل کمپنیوں کی ورکنگ کمیٹی کے حوالے کر سکتی ہیں ،تویہ بالکل واضح ہے کہ یہ لابیاں بغیر اجرت ومفاد کے کام نہیں کرتی ہیں ، بلکہ جو بھی فائدہ ہو اس میں انکا کچھ حصہ ہوتا ہے اور زیادہ سے زیادہ فائدہ حاصل کرنے کی خواہش انہیں سرمایہ داروں کے مفادات کے دفاع کی طرف اور بھی کھینچتی ہے اسی بنیاد پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ امریکہ میں صرف ثروت مند افراد کے مفادات کا خیال رکھا جاتا ہے اور انہیں کے حقوق کا دفاع ہوتا ہے چنانچہ اب یہ تعجب کی بات نہیں ہے کہ ان ایجنٹوں کی لابی میں یہ کہا جاتا ہے کہ جو کچھ جنرل موٹرکے حق میں بہتر ہے وہی امریکہ کے حق میں بھی بہتر ہے ۔
اس بات کا یہ مطلب ہے کہ اب سیاست کا رزلٹ عمومی مفادات کا تحفظ نہیں ہے بلکہ سیاست کے معنی خصوصی مالکین کے مفادات کے حصول کی راہوں کو تلاش کرنا اور ان کے مسائل کا حل کرنا ہے یعنی ٹریڈ یونین اور سیاست ایک دوسرے کے لئے کام کرتے ہیں مفادات کے یونین اور خصوصی مالکین کے لئے مخصوص ہو جانے کی منطق اسکے بے شمار ذیلی شعبوں اور برانچوں کے وجود میں آنے کا سبب بنے گی اب یہ ایک فطری بات ہوگی کہ ہر ایک اپنے ذاتی مفادات کو زیادہ سے زیادہ حاصل کرنے کے لئے جو بن پڑے انجام دے گا ہر وہ طریقہ کار استعمال میں لائے گا جس سے زیادہ سے زیادہ اس کو فائدہ ہو سکے ،یعنی یہ وہ دنیا ہے کہ جسکی قدرت محرکہ یہ نہیں ہے کہ مشترک مفادات کو قانونی درجہ دیا جائے اور انہیں تسلیم کی کیا جائے بلکہ یہاں پر سب کی لڑائی سب سے ہوگی بالفاظ دیگر باہمی گتھا گھتی کا سماں ہوگا ، ایک ایسی گتھا گھتی و باہمی لڑائی کہ جس میں ایک انسان کی طاقت کی سرحد اپنے ہی ہمسایہ کی طاقت کی سرحد ہوگی ایسی ہولناک فضا کا ماحصل ایک ایسی دنیا کی صورت میں سامنے آئے گا کہ جس کی تعریف انسانی اصولوں کے دائرہ میں ممکن نہ ہوگی بلکہ اس فضا میں ایک دوسرے سے الگ پہچان ان مشکلات کے ذریعہ ہوگی جنہیں صرف ذاتی مفادات کے حصول کے شیووں ہی کے ذریعہ حل کیا جا سکتا ہے۔
ان تمام باتوں کے پیش نظر اب ایک سیاست مدار کا فریضہ یہ بنتا ہے کہ یونین اور خصوصی مالکین کے مسائل کو ادارہ کرے اس صورت میں سیاست مدار پہلے مرحلہ میں ایک بشارت دینے والا شخص ہے لیکن یہاں پر مشکل یہ ہے کہ اس کے پاس جو ذرائع و وسائل ہیں ان سے کچھ اپڑنے والا نہیں ہے اس لئے کہ و ہ ناامیدی کے سوا کسی کچھ اور نہیں دے سکتے ، دوسری بات یہاں پر یہ ہے کہ سیاست مدار رپوٹروں اور میڈیا کی شراکت میں معاشرے کے شعور و درک کو غلط راستہ پر ڈال کر ادارہ کرتا ہے تیسری بات یہ ہے کہ یہاں پر اس طرح کی یقین دہانی ہوتی ہے کہ سیاست مدار جس چیز کے بارے میں بول رہا ہے صرف وہی ہے اور جو کچھ وہ کہہ رہا ہے سب کچھ اپنی جگہ صحیح ہے اس لئے کہ اسکا فیصلہ اور اس کی تدبیر ہی درست ہے ۔چوتھی بات یہ ہے کہ جو معرفت عمیق اور گہرے ہونے کی شایستگی رکھتی ہے وہ علامتوں کی شناخت ہے نہ حقیقتوں کا کشف کرنا یعنی معرفت و شناخت کا کل مفہوم یہ ہے کہ یہ ان دستورات اور اصولوں کی پردہ کشائی کرتی ہے جو فردی ، خصوصی اور گروہی پیشرفت کا باعث ہوں نہ یہ کہ وہ قومی ، عمومی اور مجموعی طور پر پیشرفت کے اصولوں سے نقاب کشائی کریں ،اس سیاست کا نتیجہ ایسے سماج کی صورت میں سامنے آئے گا جہاں نہ کوئی شہری ہے اور نہ ہی اسکا کوئی ذاتی تشخص ہماری اس گفتگو کے پیش نظر یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ امریکہ ایک برتر جمہوریت کے آئیڈیل کی صورت میں سیاسی انسداد کا شکار ہے، اس لئے کہ معاشرہ کا پارہ پارہ ہو جانا اور خصوصی مالکیت کے مفادات کی ہوڑ اس بات کی سبب بنی ہے کہ متعدد ایسے محاذ اور گروہ وجود میں آئیں جو اپنا اپنا راگ الاپ رہے ہیں ،اور یہ اس وجہ سے ہے کہ چھوٹے چھوٹے فیصلوں کی ایک چھوٹی سی زنجیر ایک چھوٹے سے گروہ نے اپنے چھوٹے چھوٹے اہداف تک پہچنے کے لئے بنا لی ہے جسکے حلقے ایک دوسرے کے مختصر دائرہ میں اپنے مفادات کے تحفظ میں پیوست ہیں اس درمیان عمومی مفادات کو نظر انداز کر دیا گیا ہے جسکے نتیجہ میں یہ تعجب کی بات نہ ہوگی کہ پشرفتہ جمہوریتوں میں رائے دہندگان الیکشن میں کم سے کم حصہ لیں اور سیاست مداروں کی ساکھ روز بروز اپنے وطن میں کمزور ہوتی جائے ۔
اجتماعی دراڑیں اور فاصلے
جمہوریت ایک عالمی امپائر تشکیل دینا چاہتی ہے لیکن اس کام کے لئے اسے ایک ایسی بڑی طاقت میسر نہیں جس کے سایہ میں جمہوریت کو عالمی کیا جا سکے اس لئے کہ جمہوریت کا کوئی ایک نظری اور عملی مفہوم نہیں ہے مثال کے طور پر امریکی جمہوریت اور یورپین جمہوریت میں بہت فرق پایا جاتا ہے مثلا ایک فرق یہ ہے کہ یورپی جمہوریت ایک دوسرے کو جوڑے رہنے اور مل کر آگے بڑھنے کے عنصر پر زور دیتی ہے لیکن امریکی جمہوریت کا زیادہ زور آزادی پر ہے شاید یہی سبب ہے کہ ہر فرانسسی ، جرمنی اور برطانوی کی یہ آرزو ہے کہ ایر بس بوئنگ سے زیادہ کامیاب رہے ،البتہ خود یورپی لوگوں کے درمیان کافی تضاد دیکھنے میں آتا ہے مثال کے طور پر فرانس کے باشندوں کی یہ عادت ہے کہ وہ قومی مفادات پر سوال اٹھاتے ہیں ، لیکن جرمنی اپنے بارے میں بدگمانی کا شکار رہتے ہیں اور انکا رد عمل کچھ اور ہوتا ہے یعنی بدگمان رہنے کی وجہ سے فرانس کے باشندوں سے مختلف رہتے ہیں ، مفادات کا یہ تضاد اور جمہوریت میں انسجام و انصرام کا نہ ہونا اپنے اپنے ملکوں کے باشندوں کی پریشانی کا سبب بنتا ہے حتی قومی سطح پر امریکہ میں بھی یہ تضاد آشفتہ حالی کی کیفیت نظر آتی ہے لہذا یہ کہا جا سکتا ہے کہ واشنگٹن جب ٹکزاس ، کالیفورنیا ، اور نیویارک کے باشندوں کے متضاد مفادات کو ایک دوسرے سے نہیں جوڑ سکتا تو آخر سوئڈن ، پولینڈ ، اٹلی ، فرانس اور پرتگال کے لوگوں کے مفادات کو اپنے مفادات کے ساتھ کیسے جوڑ سکتا ہے؟
اس بات سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ نہ امریکہ اور نہ یورپ کوئی بھی عالمی طاقت میں تبدیل نہیں ہو سکیں گے ، لہذا بہتر یہی ہوگا کہ عالمی سطح پر ایک دوسرے سے جڑے ہوئے چینلوں یا چند قطبی دنیا کی بات کی جائے اس لئے کہ جس طرح موجودہ دور کی صورت حال سامنے آ رہی ہے اس کے مطابق جمہوریت عالمی سیاست کے ایک پیکر کو وجود بخشنے کے لئے ناکار آمد ہے بلکہ جو کچھ رونما ہو رہا ہے وہ ایک ایسے سلے ہوئے کپڑے کی صورت ہے جس کی سلائی آشکار و واضح نہ ہو ،یہ سلائی جو بھی ہو لیکن اس سے عالمی جمہوریت کی ایک بڑی طاقت ابھر کر سامنے آنے والی نہیں ہے جس کا نتیجہ ایک ایسی فضا کا وجود میں آنا ہے جس سے جڑ ے ہوئے ہر ایک ملک کے سیاسی ڈھانچہ کی جڑیں مقامی اور علاقائی اعتبار سے کافی گہرائی میں پیوست ہیں اور اسی بنیاد پر سیاسی نظام کی ہر یونٹ اپنے عالمی رول کو ادا کر سکتی ہے اور بقدر کافی دیگر ممالک اور دیگر سیاسی یونٹوں سے متصل رہ کر اپنے نقص وجودی کو کم کر سکتی ہے ۔
یہاں پر اس بات کا تذکرہ ضروری ہے کہ اپنے رول کی ادائیگی کے لئے اس بات سے آگاہ و باخبر ہونا ضروری ہے کہ اہرامی شکل کا وہ سلسلہ مراتب کہ جس کی عالمی توسیع کی درپے ڈیموکراسی ہے درحقیقت اب ختم ہوتا جارہا ہے اور نابودی کے کگار پر ہے اور اس کی جگہ قدرت کا ایک درخت نمونہ نما جانشین کے طور پر وجود میں آ رہا ہے ، اہرامی شکل کے سلسلہ مراتب کا ڈھانچے میں قدرت و طاقت کا مطلب کنڑول کرنا اور حکم دینا ہے اب یہ سلسلہ مراتب اپنی جگہ ایک ایسے ڈھانچہ کو دے رہا ہے جس میں کئی ایک دوسرے سے متصل حلقوں میں قدرت تقسیم ہو رہی ہے اس سیاسی ڈھانچہ میں قدرت و طاقت کا مفہوم ایک دوسرے سے جڑے رہنا اور دیگر سیاسی یونٹوں سے تعلق بنائے رکھنا ہے یہ ایسا ڈھانچہ ہے جس میں قدرت و طاقت کا تعین اثر رسوخ و نفوذ کی شرح کے ساتھ گھٹتا بڑھتا ہے اس میں اس ملک یا اس ملک پر لگام نہیں کسی جاتی ۔
قدرت و طاقت کے درختی تصور میں ایک ایسی سیال دنیا کا وجود سامنے آتا ہے کہ جس کا ثبات مختلف شعبوں اور تنظیمیوں کی بنیادوں پر نہیں ہے بلکہ اس کا ثبات تبدیلیوں پر استوار ہے، اس لئے کہ یہ ایک ایسی دنیا ہے جس میں زیادہ لچک پائی جاتی ہے اور یہ زیادہ با ثبات ہے ایک ایسی دنیا جسے حیاتیات{Biology.} کے پروگرام کے مطابق تعمیر کرنا ہوگا فزکس کے قوانین کے مطابق یہ وہ دنیا ہے جسے ڈیموکراسی کے ان اصولوں سے ماوراء ہو کر بنانا ہوگا کہ جن کی کوشش یہ ہے کہ واحد اور غیر لچک دار دستور کے مطابق ایک دوسے سے ہم آہنگ نظام کو دنیا میں پھیلا دیا جائے ۔
ناکار آمد فیصلوں کا مرحلہ وار عمل
فکرو اندیشہ ڈیموکراسی کو آزادی سے جوڑتا ہے ، لیکن آزادی کے معنی اگر اپنی سرنوشت کے انتخاب ، یا قدرت کو لگام دینے کے معنی ہیں تو یہ اب اپنے زوال کے دور سے گزر رہے ہیں قدرت کے نفاذ پر نظارت کا دور اب ختم ہوگیا ہے اور اس کے ساتھ پوری عالمی جمہوریت کی کشش کا رنگ اب پھینکا پڑ گیا ہے ۔
در حقیقت کچھ لوگوں کے ارادوں کو دوسروں کے سر تھوپنا اقلیت کی آزادی کے لئے ایک خطرہ ہے اس ڈیموکراسی کے کھیل کے اصول و ضوابط ہی ڈیموکراسی کو نافذ کرنے کے معیاروں کو معین کرتے ہیں اس میں کوئی حساب کتاب نہیں ہے اور سیاسی فیصلوں پر بھی کوئی جانچ پڑتال نہیں ہے جس کا نتیجہ یوں سامنے آیا ہے کہ ڈیموکریسی کے اس کھیل میں من مانی کرنے پر کوئی روک ٹوک نہیں ہے چنانچہ اجتماعی بھید بھاوئو اور چپقلشوں میں اضافہ ہوا ہے ، جبکہ جاپان کا سیاسی اور اجتماعی نظام امریکہ کے دیموکراسی کے کھوکھلے دعووں سے بہتر طور پر عمل کر رہا ہے ، اس لئے کہ اس میں کسی بھی سیاسی فیصلہ سے قبل مختلف میٹنگیں ہوتی ہیں ان میٹنگوں میں تمام نظریات کو سامنے آنے کا موقع ملتا ہے اور بغیر کسی ڈر اور خوف کے مختلف نظریات پیش کیے جاتے ہیں کسی ایک نتیجہ تک پہچنے کے لئے جلسوں اور میٹنگوں کی تعداد کا زیادہ ہونا ہرگز فرضی نہیں ہے بلکہ گفتگو کے اختتام پر بیان کیے گئے نظریات کو صیقل کیا جاتا ہے جس سے بہتر نظریات نمایاں ہو جاتے ہیں ، آخری فیصلہ تمام چھوٹے چھوٹے فیصلوں کو ملا کر کیا جاتاہے ، ان میٹنگوں کا ایک فائدہ یہ ہے کہ تمام وہ لوگ جو ان میٹنگوں میں حاضر ہوتے ہیں وہ اپنے فیصلوں کی آنے والی ذمہ داریوں میں شریک ہو جاتے ہیں اور اس طرح انہیں پتہ چلتا ہے کہ انکا فیصلہ صحیح تھا یا غلط چنانچہ اگر صحیح نہ ہو تو پھر اس کی اصلاح کرتے ہیں ، جاپان اس لحاظ سے بالکل امریکہ کے مقابل کھڑا نظر آتا ہے ، اس لئے کہ امریکائی منطق سب پر یہ حکم نافذ کرتی ہے کہ اپنے تمام امکانات و وسائل کا استفادہ اس جنگ میں کامیابی کے لئے کیا جائے جس میں حق و ناحق کا فیصلہ اجتماعی قرار دادوں کا قانون کرتا ہے، لیکن جاپان کی منطق اعتدال و احتیاط کی تاکید کرتی ہے ، فیصلہ لینے کے اس طریقہ کار میں نہ کوئی مرکز ہے نہ کوئی بڑی طاقت ، بلکہ یہاں ایسے بہت سے گروہ نظر آئیں گے جن کی کوشش یہ ہوتی ہے کہ اپنے ساتھی گروہ کی طاقت کو نقصان پہچائے بغیر فیصلہ لے سکیں اور اس کے نفاذ کی شرح میں اضافہ کر سکیں یہاں پر دونوں گروہ جب فیصلہ کی گھڑی آتی ہے تو دو طرفہ طور پر اپنے اپنے دائرہ میں رہ کر اپنی بات کو پیش کرنے کی دو بنیادی اصولوں کے پابند ہیں لہذا اس صورت میں اب کوئی اور ایسی قدرت کا وجود ہی نہیں ہوتا جو ان کی تابع ہو بلکہ جو کچھ ہوتا ہے وہ ایسی قدرت و طاقت کی شکل میں ہے جو تقسیم ہو چکی ہے یا یوں کہا جائے ذروں ذروں میں بکھرنے کے بجائے پھیل گئی ہے اور اسی وجہ سے آپسی ستیز و جنگ کو اس نے بے اثر بنا دیا ہے اس کے برخلاف امریکائی فیصلوں کے چینل میں اگر کوئی بڑی طاقت کہیں سر اٹھاتی ہے تو اسے فی الفور کچل دیا جاتا ہے یا اس مرکز کو تتر بتر کر دیا جاتا ہے ۔

 

کیا نیتن یاہو وادی اردن کے الحاق سے دستبردار ہو گئے؟

  • ۳۵۳

اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی۔ابنا۔ چند روز قبل اسرائیلی وزیر اعظم بنیامن نیتن یاھو نے مغربی کنارے کے الحاق کے منصوبے کا اعلان کیا تھا کہ وہ وادی اردن سمیت 30 فیصد فلسطینی اراضی کو اسرائیل سے ملحق کریں گے ، لیکن اب اطلاعات سامنے آ رہی ہیں کہ وہ اس منصوبے سے دستبردار ہو رہے ہیں اور چند ایک بستیوں کو ہی مغربی اردن میں واقع صہیونی قصبوں سے جوڑ سکیں گے۔
اسرائیلی وزیر اعظم بنیامن نیتن یاہو، جنہوں نے حالیہ عرصے تک وزیر جنگ بنی گانٹز کی مخالفتوں کے باوجود مغربی کنارے کو اسرائیل سے ملحق کرنے پر اصرار کیا اور بنی گانٹز کو دھمکی دی کہ یا مغربی کنارے کے الحاق کے منصوبے پر رضامندی کا اظہار کریں یا ملک میں دوبارہ انتخابات کی تیاری کریں۔
گانٹز اس بات کے قائل تھے کہ مغربی کنارے کے الحاق کے منصوبے کی حساسیت کی وجہ سے، اس منصوبے پر فوری عمل درآمد نہیں کیا جانا چاہئے۔ اختلاف رائے کے بعد نیتن یاہو نے گانٹز کو متنبہ کیا کہ وہ یا تو مغربی کنارے کے الحاق کے منصوبے پر راضی ہوجائیں یا نئے انتخابات کی تیاری کریں۔
نیتن یاھو نے ایسے حال میں یہ دھمکی دی کہ نیتن یاہو اور بنی گانٹز کا اتحاد کافی مشکلات کے بعد انجام پایا اور موجودہ صہیونی کابینہ تشکیل دی گئی۔
اب صیہونی حکومت کے چینل 12 نے اطلاع دی ہے کہ بنیامن نیتن یاہو نے فلسطینی اتھارٹی کے سربراہ ، محمود عباس کو ایک پیغام بھیجا ہے، جس میں انہیں بتایا ہے کہ مغربی کنارے کو الحاق کرنے کے منصوبے میں وادی اردن کو شامل نہیں کیا جائے گا۔
فلسطینی معا نیوز ایب سائٹ کی رپورٹ کے مطابق، فلسطینی اتھارٹی کے ایک سینئر عہدیدار نے بتایا ہے کہ اردن کے شاہ عبداللہ دوم کے ساتھ حالیہ ملاقات کے بعد اسرائیلی وزیر اعظم کا یہ پیغام موساد کے سربراہ ’یوسی کوہن‘ کے ذریعے محمود عباس تک پہنچا ہے .
رپورٹ کے مطابق ، الحاق دو یا تین بستیوں تک محدود رہے گا ، جن کا ابھی تک پتہ نہیں چل سکا ہے۔
اس خبر کے بارے میں دو اہم نکات ہیں ، ایک یہ کہ نیتن یاھو واقعا بین الاقوامی انتباہات خصوصا یورپین یونین، اسلامی ممالک اور فلسطینی اتھارٹی کے دباؤ کی وجہ سے مغربی کنارے کے 30 فیصد اراضی کو الحاق کرنے کے انتہا پسندانہ منصوبے سے دستبردار ہوگئے ہیں کہ ایسا ممکن نہیں لگتا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ انہوں نے گوالان کی پہاڑیوں کو صہیونی ریاست سے ملحق کرنے میں انتہا پسندی کا مظاہرہ کیا تھا چونکہ انہیں امریکہ کی گرم جوشی اور پشت پناہی حاصل تھی اگر چہ بین الاقوامی برادری اور یورپی یونین مخالفت کرتی رہی۔
صیہونی وزیر اعظم کے طرز عمل کے تجزیہ کے بارے میں دوسرا نکتہ ، جو حقیقت کے قریب ہے ، یہ ہے کہ اس منصوبے پر پہلے مرحلے میں محدود انداز میں عمل درآمد کیا جائے گا اور اس کے بعد مستقبل میں اس کا مکمل نفاذ کیا جائے گا۔ مستقبل میں ضروری مواقع کے حصول کے لئے فلسطین اتھارٹی کو مجبور کیا جائے گا۔
اس دعوے کا ثبوت رواں سال 28 جون کو عبرانی زبان کے اخبار "اسرائیل الیوم" کی وہ رپورٹ ہے ، جس میں لکھا گیا تھا کہ اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاھو مغربی کنارے کے کچھ حصوں کو دو مراحل میں مقبوضہ علاقوں میں ضم کرنے کے منصوبے پر غور کر رہے ہیں۔ پہلے مرحلے میں ،مغربی کنارے سے باہر واقع صہیونیوں کی بڑی بستیوں پر "اسرائیلی خودمختاری" کو وسعت دی جائے گی اور تقریبا ۱۰ فیصد مغربی کنارے کی اراضی کو اسرائیل سے ملحق کیا جائے گا۔
اس صہیونی اخبار کے مطابق ، الحاق منصوبے کے پہلے مرحلے پر عمل درآمد کے بعد ، تل ابیب دوسرے مرحلے میں فلسطینی اتھارٹی کی طرف رخ موڑے گا اور اس تنظیم کو مذاکرات کی میز پر مدعو کرے گا ، اور اگر فلسطینی اتھارٹی اس کارروائی کی مخالفت کرتی ہے تو ، الحاق کا منصوبہ دوسرے مرحلے میں داخل ہوجائے گا۔ دوسرا مرحلہ وادی اردن سمیت مغربی کنارے کے 30 فیصد حصے پر قبضہ ہوگا۔
صہیونی ریاست کا بنیادی منصوبہ امریکی حکومت کی حمایت سے مغربی کنارے کے 30 فیصد حصے پر سرکاری طور پر قبضہ کرنا ہے ، جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے فلسطین مخالف منصوبے کا حصہ ہے جسے صدی کی ڈیل کہا جاتا ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

 

بے شرم ریاست کا “شرمناک” تصور

  • ۳۱۰

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ کے مطابق، یہ خبر میڈیا میں عام ہونے سے پہلے ہی غائب ہو گئی جسکے مطابق وقتی طور پر رہائش کا انتطام کرنے والی ایک امریکن کمپنی نے مقبوضہ اردن میں قائم اسرائیلی بستیوں کے گھروں کو اپنی سائٹ سے یہ کہتے ہوئے خارج کرنے کا فیصلہ لیا تھا  کہ یہ  بستیاں متنازعہ ہیں ۔ اپنے آپ میں خبر خود قابل تامل تھی کہ وہ  آخر کونسی کمپنی ہے جو امریکہ میں ہے لیکن اسکے باوجود  پانی کے بہاو کے خلاف اس نے چلنے کا فیصلہ کیا ہے کیونکہ یہ حقیقت ہے کہ جتنی بھی یہودی بستیاں اسرائیل میں بسائی گئی ہیں ہر ایک میں کہیں نہ کہیں امریکہ کا ہاتھ ضرور نظر آتا ہے ۔ایسے میں اگر کوئی امریکن کمپنی اسرائیل کے مفادات کے خلاف قدم اٹھاتی ہے تو یہ ایک قابل غور بات ہے، اگر اس میں سچائی ہے تو کم از کم اتنا ضرور ہے کہ اب امریکہ میں  رہنے والے ایک طبقہ کو احساس ہو رہا ہے کہ و ہ اسرائیل کے ساتھ بلا وجہ تنازعہ کا شکار ہو رہے ہیں اور اسی لئے انکی کوشش ہے کہ متنازعہ مسائل سے دور رہیں ۔
تفصیلات کے مطابق عارضی رہائش حاصل کرنے کی سہولت فراہم کرنے والی امریکی کمپنی ایئر بی این بی کا کہنا بھی یہی تھا کہ وہ مقبوضہ اردن میں اسرائیلی بستیوں کے تمام گھروں کو اپنی ویب سائٹ سے خارج کر دے گی اس لئے کہ وہ کسی تنازعہ کا شکار نہیں ہونا چاہتی ۔بی بی سی کے مطابق “ایئر بی این بی کا کہنا ہے کہ انھوں نے یہ فیصلہ اس لیے کیا ہے کہ یہ بستیاں ’اسرائیلیوں اور فلسطینیوں کے درمیان تنازع کی جڑ‘[۱] ہیں۔اس خبر کے منظر عام پر آنے کے بعد متوقع دو رد عمل سامنے آئے ایک فلسطینیوں کی طرف سے اور ایک  اسرائیل کی جانب سے ۔فلسطینیوں نے جہاں  اس اقدام کو خوش آئند قرار دیا ہے  وہیں  اسرائیل نے نہ صرف ’شرم ناک‘ قرار دیا بلکہ  قانونی چارہ جوئی کی دھمکی  بھی دے ڈالی۔  یہ قانونی چارہ جوئی کی دھمکی ان حالات میں دی جا رہی ہے کہ  بی بی سی ہی کی رپورٹ کے مطابق “غربِ اردن میں قائم یہ اسرائیلی بستیاں بین الاقوامی قوانین کے مطابق غیرقانونی ہیں ”[۲]۔صہیونی حکومت کی یہ ڈھٹائی  اور بے غیرتی کو برملا کرنے کے لئے اتنا کافی ہے کہ  آبادی کے تناسب سے دیکھا جائے تو غرب اردن میں آباد کار یہودی کل آبادی کا ۱۶ فیصد ہیں جبکہ عملی طور پر وہ پورے غرب اردن کے ۴۲ فیصد علاقے پر قابض ہیں۔ غزہ کی پٹی پر قبضے کے بعد سے یہودی بستیوں کی تعمیر کے حوالے سے سینکڑوں منصوبوں پر مکمل عمل درآمد ہوچکا ہے۔ مسجد اقصیٰ سے۱۵۰ میٹر کے فاصلے پر ” معالیہ ازیتیم“ کے نام سے قائم کالونی میں ۱۳۲ رہائشی اپارٹمنٹس ہیں ، جبکہ ۲۶ بستیاں تو مقبوضہ بیت المقدس میں اور رملہ اور البریح ضلع میں ۲۴ یہودی بستیاں قائم کی گئی ہیں۔ [۳] علاوہ از ابھی زیادہ عرصہ نہیں گزرا کہ  اسرائیل نے نوف صیہون نامی بستی کے تحت نئے گھروں کی تعمیر کا فیصلہ کیا تھا جسے  صہیونی اتھارٹی نے منظور بھی کر لیا تھا  چنانچہ اس فیصلے کو منظوری ملتے ہی یہ خبر میڈیا میں آئی تھی کہ ” اسرائیلی حکام نے مشرقی یروشلم کے مقبوضہ فلسطینی علاقے میں یہودی آبادکاروں کی ایک بڑی بستی میں ایک توسیعی منصوبے کے تحت مزید پونے دو سو سے زائد نئے گھروں کی تعمیر کی منظوری دے دی ہے۔ اس یہودی بستی کا نام ’نوف صیہون‘ہے۔[۴]اسرائیل کی طرف سے مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں یہودی آبادکاری کے منصوبوں کی مخالفت کرنے والی کئی غیر سرکاری تنظیموں کے مطابق نوف صیہون (Nof Zion) نامی یہ بستی  نئی منظور شدہ توسیع کے بعد یہ یہودی بستی یروشلم شہر کے مقبوضہ فلسطینی علاقے میں سب سے بڑی اسرائیلی بستی بن جائے گی۔ اے ایف پی ایجنسی کے مطابق یہ یہودی بستی اسرائیل کی طرف سے اپنے ریاستی علاقے میں زبردستی شامل کر لیے جانے والے یروشلم شہر کے مشرقی حصے میں اس جگہ پر قائم ہے، جو اکثریتی طور پر فلسطینی آبادی والا علاقہ ہے اور جبل المکبر کہلاتا ہے۔۔ اسرائیل کی ایک اہم غیر سرکاری تنظیم ’پِیس ناؤ‘ (Peace Now) نے کہا ہے کہ مجوزہ توسیع کے بعد نوف صیہون نہ صرف مشرقی یروشلم بلکہ مقبوضہ مغربی اردن کے کنارے میں بھی کسی بھی فلسطینی رہائشی علاقے میں قائم سب سے بڑی یہودی بستی بن جائے گی۔ یاد رہے کہ مغربی اردن کے علاقے میں اکثر یہودی بستیاں فلسطینی رہائشی علاقوں سے باہر قائم ہیں اور وہ بالعموم وہاں مقیم یہودی آبادکاروں کی تعداد کے اعتبار  سے نوف صیہون سے بڑی ہیں۔اسرائیل نے مشرقی یروشلم پر ۱۹۶۷ء کی چھ روزہ جنگ کے دوران قبضہ کر لیا تھا اور بعد ازاں اسے اپنے ریاستی علاقے میں شامل کرنے کا اعلان بھی کر دیا تھا۔[۵] اسرائیل کی جانب سے مسلسل نئی بستیوں کی تعمیر ایسے میں ہو رہی ہے کہ جب یورپی یونین نے اسرائیل سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ مغربی کنارے کے مقبوضہ علاقے میں نئی یہودی بستیوں کی تعمیر لازمی طور پر بند کرے۔ یونین کے مطابق ان نئے آباد کاری منصوبوں سے فلسطینیوں کے ساتھ ممکنہ قیام امن کو خطرہ ہے۔چنانچہ بیلجیم کے دارالحکومت برسلز میں یورپی یونین کے صدر دفاتر سے بدھ اٹھارہ اکتوبر کو ملنے والی نیوز ایجنسی روئٹرز کی رپورٹوں کے مطابق یونین کے خارجہ امور کے شعبے کی طرف سے جاری کردہ ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ اسرائیل ویسٹ بینک کے مقبوضہ فلسطینی علاقے میں یہودی آباد کاروں کے لیے جو نئے گھر تعمیر کرنے کے منصوبے بنا رہا ہے، وہ تمام منصوبے فوری طور پر روکے جانا چاہییں۔
یورپی یونین نے اسرائیل سے مغربی کنارے کے مقبوضہ علاقوں میں نئی یہودی بستیوں کی تعمیر بند کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔برسلز میں یورپی یونین کے خارجہ سروس نے ایک بیان میں خبردار کیا کہ یہودی آبادکاری کے منصوبوں سے فلسطینیوں کیساتھ مستقبل میں کسی امن معاہدے کے امکانات ختم ہوکر رہ جائیں گے۔نئے آباد کاری منصوبوں سے فلسطینیوں کے ساتھ ممکنہ قیامِ امن کو خطرہ ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ بین الاقوامی قانون کے تحت مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں یہودی آباد کاری کی ہر قسم کی سرگرمیاں غیر قانونی ہیں۔ مسئلہ کے ۲ ریاستی حل کے قابل قبول ہونے کی بھی نفی ہو رہی ہےجبکہ اسرائیل مقبوضہ علاقوں میں ۱۳۰۰ سے زائد نئے رہائشی یونٹ تعمیر کرنے کی منصوبہ بندی کر رہا ہے۔[۶]  ان حالات میں ایک امریکن کمپنی اگر بین الاقوامی برادری کے ساتھ کھڑی ہونا چاہتی ہے تو اسرائیل کو یہ گوارا نہیں ہے اور اپنے غیر قانونی کاموں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے صہیونی حکومت نے اس کمپنی ہی کو قانونی چارہ جوئی کی دھمکی دے ڈالی ہے جو  کم از کم اس ایک مقام پر قانونی اور اخلاقی قدر کی پاسداری کا سوچ رہی ہے  جبکہ صاف طور پر اسرائیل کی جانب سے ان بستیوں کا بسایا جانا چوری اور سینہ زوری کے تحت آتا ہے  کہ یہ بستیاں نہ صرف غیر قانونی ہیں  بلکہ یہ کام  فلسطین لبریشن آگنائزیشن کے سیکریٹری  کے مطابق جنگی جرائم کی فہرست میں مندرج ہے   چنانچہ فلسطین لبریشن آگنائزیشن کے سیکریٹری جنرل صائب اریقات نے واضح طور پر  کہا ہے کہ یہ ’ایئر بی این بی کے لیے اہم تھا کہ وہ بین الاقوامی قانون کی پاسداری کرتے کہ اسرائیل ایک مقبوضہ طاقت ہے اور غرب اردن میں اسرائیلی آبادکاری، بشمول مشرقی یروشلم، تمام غیر قانونی ہیں اور جنگی جرائم کے زمرے میں آتی ہیں۔‘ اب چوری اور اس پر سینہ زوری ہی کا مصداق ہے کہ  جہاں  خود امریکن کمپنی تنازعات سے دامن جھاڑنا چا رہی ہے وہیں  صہیونی حکومت اسے شرمناک کہہ رہی ہے اور اتنا ہی نہیں بلکہ اسرائیلی وزیرسیاحت یاریف لیفین نے تو یہاں تک کہہ دیا  کہ اسرائیل اس کے جواب میں امریکی عدالتوں میں ایئر بی این بی کے خلاف قانونی چارہ جوئی میں ان بستیوں میں کرائے کے لیے جگہ فراہم کرنے والوں کی مدد کر سکتا ہے۔ دوسری طرف  اسرائیلی آبادکاروں کی نمائندگی کرنے والی یشا کونسل نے ایئربی این بی پر ’ایک سیاسی سائٹ‘ کا الزام عائد کہا ہے کہ اور ان کا کہنا ہے کہ یہ فیصلہ ’یا تو یہودی مخالفت یا دہشت گردی کے آگے ہتھیار ڈالنے یا ان دونوں کا نتیجہ ہے۔‘
کس قدر ڈھٹائی کی بات ہے کہ ایک طرف جہاں بین الاقوامی قوانین کی دھجیاں اڑاتے ہوئے ایسی بسیتاں بسائی جاتی ہیں جن کے بارے میں خود امریکہ جیسے حلیف ممالک کی کمپنیاں خود کو مطمئن نہیں کر پاتیں اور جب وہ عدم اطمینان کا اظہار کرتی ہیں اور تو انہیں قانونی چارہ جوئی کی دھمکی دی جاتی ہے جبکہ دوسری طرف غیر قانونی مقبوضہ فلسطین میں صہیونی ریاست کی جانب سے  المجدل شہر میں ایک تاریخی جامع مسجد کو شراب خانے اور عجائب گھر میں تبدیل کرنے کی اشتعال انگیز جسارت کی جاتی ہے  جس پر کوئی سوال نہیں اٹھاتا کہ آخر فلسطینی مقامات سے چھیڑ چھاڑ کیوں ؟چنانچہ مرکز اطلاعات فلسطین کے مطابق سنہ ۱۹۴۸ء کے مقبوضہ فلسطینی شہر کفر کنا کے قریب المجدل کے مقام پرواقع صلاح الدین ایوبی دور کی مسجد کو پہلے میوزیم میں تبدیل کیا جاتا ہے ۔ پھر مسجد کو مے خانےمیں تبدیل کر دیا جاتا ہے جسکے بارے میں یوں تفصیل تو  کہیں سامنے نہ آسکی  کہ اس بات کی تصدیق یا تکذیب ہو سکے لیکن ۔’اپنا وطن پہچانیے’ کےنام سے قائم کردہ ایک گروپ  کی جانب سے  سوشل میڈیا کی ویب سائیٹ ‘فیس بک’ پر ایک ویڈیو پوسٹ کو اگر صحیح مان لیا جائے جو  کہ اسرائیل کی اسلام او ر مسلمانوں سے دشمنی کے چلتے صہیونیوں سے  بعید بھی نہیں ہے تو اس مسجد کے مناظر بہت ہی عجیب  ہونے کے ساتھ صہیونی کی مسلمانوں سے دیرینہ  عداوت کے بیان گر ہیں    ویڈیو کے مطابق  جامع مسجد المجدل کے اندرونی ہال اور دیواریں دکھائی گئی ہیں جن پر جانوروں اور انسانوں کی تصاویر آویزاں کی گئی ہیں۔ اس کے علاوہ مسجد کے اندر انسانی مجسمے، مورتیاں اور فن پاروں کی آڑ میں دیگر توہین آمیز چیزیں رکھی گئی ہیں۔ مسجد کے ایک طرف شراب کی بوتیں دیکھی جاسکتی ہیں۔فلسطینی کارکنوں کا کہنا ہے کہ المجد جامع مسجد صلاح الدین ایوبی کے دور میں فلسطین کی صلیبیوں سے آزادی کے بعد تعمیر کی گئی تھی۔ یہ مسجد ممالک کے طرز تعمیر پر ڈیزائن کی گئی تھی۔فلسطینی قانون دان خالد زبارقہ نے اس فوٹیج کےبارے میں بات کرتے ہوئے تصدیق کی یہ جامع مسجد المجدل ہی کی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ مجد کی مسجد فلسطین کی تاریخی اور قدیم مساجد میں سے ایک اور فلسطین کے تاریخی وثقافتی ورثے کا حصہ ہے۔ اس کے منبرو اسکی محراب  اپنی مخصوص طرز تعمیر کی وجہ سے تاریخی فن پاروں کی حیثیت رکھتے تھے  اور اسلامی فن تعمیر کا شاہ کار تھے  لیکن اسرائیل نے انہیں بھی نہ چھوڑا دوسری طرف اب ان لوگوں کو بھی چھوڑنے کو تیار نہیں ہے جو زبردستی یہودی بستیوں کو بسانے والے اس کے غیر قانونی کاموں سے بیزاری کا اظہار کرتے ہوئے  ظاہری طور پر ہی سہی لیکن یہ اعلان کر رہے ہیں کہ ہم غیر جانبدار ہیں اور غیر قانونی کام نہیں کر سکتے  اس لئے ہم غیر قانونی طور پر بسائی گئی بستیوں کو اپنی سائٹ پر نہیں دیں گے جسکے جواب میں صہیونی حکومت انکے اس عمل کو نہ صرف شرمناک بتا رہی ہے بلکہ انہیں قانونی چارہ جوئی کی دھمکی بھی دے رہی ہے کتنا مضحکہ خیز ہے وہ ریاست قانونی چارہ جوئی کی دھمکی دے رہی ہے جو پوری کی پوری غیر قانونی ہے ۔ایسے میں صہیونی  حکومت کی جانب سے امریکن کمپنی کو دی گئی دھمکی کو دیکھ کر عام انسان تو کیا ایرئیل شیرون  جیسا سفاک بھی ہنس رہا ہوگا کہ بے شرم ریاست کا ،تصو ر شرمناک  لاجواب ہے ۔
تحریر: سید نجیب الحسن زیدی
حواشی :
[۱] ۔ https://www.bbc.com/urdu/world-46270026
[۲]  ۔ https://www.bbc.com/urdu/world-46270026
[۳] مزید تفصیلات کے لئے ملاحظہ ہو ۔ https://www.urdupoint.com/daily/article/flasteen-me-yahoodi-bastiyoo-ki-tameer-aman-ki-rahh-me-barii-rkawat-8049.html
[۴]  ۔ https://www.dw.com/ur/-
[۵]  ۔ https://www.dw.com/ur/
[۶]  ۔ http://www.urdunews.com/node/142281/
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

فلسطین کا سیاہ ترین دن

  • ۳۶۱

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: ۲۹ نومبر فلسطین کے ساتھ عالمی یکجہتی کا دن منایا جاتا ہے۔ یہ وہ سیاہ دن ہےجس میں اقوام متحدہ نے سنہ ۱۹۴۸ء میں فلسطین کی تقسیم کی قرارداد منظور کی۔ اقوام متحدہ کے فورم پر یہ قرار داد ۱۸۱ کہلاتی ہے۔
اقوام متحدہ کی فلسطین میں یہودی ریاست کے قیام کے لیے قرارداد نے ارض فلسطین اور فلسطینی قوم کی پیٹھ میں خنجر گھونپ کر رکھ دیا۔ یہ ایک ایسی قرارداد تھی جس نے فلسطینی قوم کے حقوق کو غصب کرنے کے لیے ایک لا متناہی سلسلے کا آغاز کیا، جس کے بعد ارض فلسطین کے اصلی باشندوں پرعرصہ حیات تنگ کرنے کا نہ ختم ہونے کا نیا عمل شروع ہوگیا جو آج تک جاری وساری ہے۔ فلسطینیوں کی جانیں محفوظ ہیں، نہ مال، نہ عزت وآبرو اور نہ زمین وطن۔ سب کچھ صہیونی درندوں کی بھینٹ چڑھا دیا گیا ہے اور اب اقوام متحدہ فلسطینیوں کو ان کےحقوق دلانے کے بجائے عالمی اوباشوں کے ہاتھوں میں بے بس ہو کر رہ گئی ہے۔
سنہ ۱۹۴۷ء کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے قرارداد ۱۸۱ منظور کی جس میں ارض فلسطین میں یہودیوں کو اپنا ملک بنانے کا حق دیا گیا۔ اس قرارداد میں فلسطینی سرزمین کو یہودیوں اور فلسطینیوں میں تقسیم کرنے کا ظالمانہ فیصلہ کیا گیا۔ اس قرارداد میں یہودیوں کے ساتھ ساتھ ایک فلسطینی ریاست کےقیام کی بھی اجازت دی گئی۔ صہیونیوں کی غاصبانہ ریاست تو قائم ہوگئی مگر فلسطینی قوم کو۷۱ سال کے بعد آج بھی یہ حق نہیں مل سکا ہے۔ زمین پرصہیونی ریاست موجود ہے مگر فلسطینی ریاست اب کاغذوں میں گم ہو کر رہ گئی ہے۔
تقسیم فلسطین کے روز عالمی سطح پر فلسطینیوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کا دن منایا جاتا ہے۔ اس روز فلسطینیوں کے حقوق کو عالمی فورمز پرتازہ کیا جاتا اور ان کے ساتھ کیےگئے وعدے دہرائے جاتے ہیں۔ دنیا کے سامنے فلسطینیوں کے ساتھ ہونے والے مظالم بیان کیے جاتے ہیں۔ دنیا جانتی ہے کہ تقسیم فلسطین کے ظالمانہ فیصلے کے نتیجے میں لاکھوں فلسطینیوں کو ان کے گھروں سے محروم کردیا گیا۔ یہ لاکھوں فلسطینی آج بھی اندرون اور بیرون ملک در بہ در ہیں۔
عالمی برادری اور بین الاقومی تنظیمیں ۲۹ نومبر کو فلسطینیوں کے ساتھ یکجہتی کا دن تو مناتی ہیں مگر بین الاقوامی برادری فلسطینیوں کو ان کے حقوق دلانے میں بری طرح ناکام دکھائی دیتی ہے۔ یہ سب کچھ ایک ایسے وقت میں ہو رہا ہے جب دوسری طرف عرب ممالک کے حکمرانوں کو اگرکوئی فکر ہے تو وہ اسرائیل کے ساتھ دوستی اور تعلقات کےقیام کی ہے۔ آئے روز اسرائیلی وفود عرب ممالک کے سرکاری دوروں پر جا رہے ہیں۔
سنہ ۱۹۴۷ء میں تقسیم فلسطین کے وقت فلسطینی آبادی آج کی نسبت بہت کم تھی مگر آج فلسطینی آبادی ۸ کروڑ تک جا پہنچی ہے۔ ۷۰ لاکھ کے قریب فلسطینی ھجرت کی زندگی گذار رہےہیں۔ عالمی طاقتیں اور امداد دینے والے ممالک اب فلسطینی پناہ گزینوں کی مالی امداد سے بھی ہاتھ کھینچ رہےہیں۔ آٹھ لاکھ فلسطینیوں کو ان کا دیرینہ حق، حق خود ارادیت نہیں دیا جاسکا۔ اقوام متحدہ اگر یہودیوں کو فلسطین میں‌بسا سکتی ہے تو وہ فلسطینیوں کو بھی ان کے ملک میں ان کا حق دلانے کی ذمہ دار ہے مگر جنرل اسمبلی، سلامتی کونسل اور یو این کے دیگر ادارے اب تک خاموش تماشائی ہیں۔ فلسطینی لٹ رہے ہیں۔ اسرائیل ان کے خلاف منظم ریاستی دہشت گردی کا مظاہرہ کر رہا ہے۔
تقسیم فلسطین کی قرارداد میں اسرائیل کو ایک محدود علاقے میں قائم کرنے کا فیصلہ کیا گیا مگر وقت گذرنے کے ساتھ یہودی، صہیونی ریاست عالمی اوباشوں کی مدد سے تاریخی ارض فلسطین میں اپنے پنجے پھیلاتی چلی گئی۔ صہیونی دشمن نے وسعت پزیری اور توسیع پسندی کی پالیسی پرچلتے ہوئے نہ صرف فلسطین کے ایک بڑے حصے پرغاصبانہ قبضہ جمایا بلکہ پڑوسی عرب ممالک کو بھی نہ بخشا۔ اس طرح عبرانی ریاست اپنے توسیع پسندی کی لالچ میں آ کر دوسرے عرب ممالک پر بھی چڑھائی کرتی رہی۔ صہیونی ریاست نے فلسطین کے ۷۷ فی صد رقبے پرغاصبانہ تسلط جما لیا۔ پہلے مغربی بیت المقدس اور بعد میں مشرقی بیت المقدس پر بھی قبضہ کر لیا۔
صہیونی ریاست اور فلسطینیوں کے درمیان کئی مواقع پر نام نہاد مذاکرات کی میراتھن بھی ہوتی رہی۔ میڈریڈ، جنیوا، اوسلو، واشنگٹن اور کیمپ ڈیوڈ سمیت کئی دوسرے ملکوں میں عرب۔ اسرائیل مذاکرات ہوئے۔ ان تمام مذاکراتی ادوار میں صہیونی ریاست نے یہ ثابت کیا کہ وہ حقیقی امن نہیں چاہتی۔ وہ محض مذاکرات برائے مذاکرات کی پالیسی پرعمل پیرا ہے اور اس طرح وہ صرف وقت گذارنے کی حکمت عملی پر چل رہی ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

 

امریکہ پر راج کس کا؟

  • ۳۵۰

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: یہودیوں نے ایک ایسے وقت فلسطین میں یہودی ریاست کی تشکیل کا فیصلہ کیا جب اس سرزمین کی ۹۵ فیصد آبادی مسلمانوں اور عیسائیوں پر مشتمل تھی۔ وہ ایک الگ ملک کی تشکیل کے لیے دو چیزوں “زمین اور عوام” کے محتاج تھے لہذا انہوں نے اپنی سرگرمیوں کو دو حصوں؛ اندرون ملک اور بیرون ملک میں تقسیم کیا۔
پہلی فرصت میں یہودیوں نے فلسطینیوں کی زمینوں کو خریدنا شروع کیا لیکن مسلمانوں کی ہوشیاری کی بنا پر وہ اس اقدام میں کچھ زیادہ کامیاب نہیں ہوئے لہذا انہوں نے دوسرے مرحلے میں دنیا بھر سے صہیونی یہودیوں کو ہجرت کے ذریعے فلسطین منتقل کرنا شروع کیا کہ جس میں برطانیہ کا تعاون سر فہرست ہے، برطانیہ نے یہودیوں کو فلسطین کی زمین تحفے میں دے کر دنیا بھر کے یہودیوں کو فلسطین منتقل کیا اور اس سرزمین میں یہودیوں کی آبادی میں ۳۰ فیصد کا اضافہ کر دیا۔
یہودیوں نے اپنے مقصد کو تیزی سے آگے بڑھانے کے لیے، مختلف دھشتگرد ٹولے جیسے “ایرگن”( Irgun) وجود میں لائے اور ان دھشتگرد ٹولوں نے مسلمانوں کا قتل عام کر کے انہیں ان کی آبائی زمینوں سے نکال باہر کیا۔ البتہ اس درمیان برطانوی حکومت بھی ان جرائم سے مبرا نہیں تھی۔ یہ امور اس بات کا سبب بنے کہ برطانیہ ۱۹۴۸ میں فلسطین سے اپنی سربراہی سے دستبردار ہو جائے اور فلسطینیوں کی سرنوشت کے تعین کو اقوام متحدہ کے سپرد کر دے۔
چونکہ اقوام متحدہ کے بنیادی اصولوں اور قوانین میں سے ایک جمہوریت اور اپنی سرنوشت کا تعین خود کرنا تھا لہذا اقوام متحدہ کو یہ چاہیے تھا کہ وہ منصفانہ طور پر اس سرزمین میں انتخابات منعقد کرواتی تاکہ وہاں کے باشندے اپنی سرنوشت کا تعین خود کرتے۔ لیکن صہیونیوں نے مختلف ممالک پر دباؤ ڈال کر اور اپنی لابیاں تشکیل دے کر اقوام متحدہ کو مجبور کیا کہ وہ غیر متعارف طور پر فلسطین کی ۵۵ فیصد سرزمین کو یہودیوں کے حوالے کر دیں۔ امریکہ نے اقوام متحدہ کے فیصلے کا خیر مقدم کرتے ہوئے اس کی حمایت کا اعلان کیا جبکہ بہت سارے امریکی عہدیداروں کے مطابق، امریکہ کا یہ اقدام خود ریاستہائے متحدہ کے قومی مفاد کے برخلاف تھا۔ لیکن سوال یہ ہے کہ امریکہ نے کیوں ایسا اقدام اٹھایا جو خود اس کے قومی مفاد کے خلاف تھا؟
امریکہ کی وزارت خارجہ بہت سختی سے فلسطین کی تقسیم کے منصوبے کی مخالفت کر رہی تھی۔ مثال کے طور پر مشرق وسطیٰ میں امریکی ادارے کے سربراہ اور وزارت خارجہ میں افریقی معاملات کے ڈائریکٹر مسلسل اس منصوبے کی مخالفت کر رہے تھے اور اس کے خلاف اپنا احتجاج درج کروا رہے تھے۔ لوئی ہنڈرسن (loy henderson) اس شعبے کی ڈائریکٹر بارہا خبردار کر رہے تھے کہ یہ منصوبہ امریکی مفادات کے لیے خطرے کی گھنٹی ہونے کے علاوہ فلسطینی عوام کی منشاء کے بھی خلاف ہے۔ وہ اس پر زور دے رہے کہ اگر امریکہ اس منصوبے کی حمایت کرتا ہے تو امریکہ کی علاقے میں اخلاقی اور سیاسی حیثیت کو شدید دھچکا لگے گا۔
ہنڈرسن نے واضح طور پر کہا کہ “ہم اپنی حیثیت کو کھو جائیں گے اور ہمیشہ ہمیں جمہوری اصولوں کی نسبت خائن کی نگاہ سے دیکھا جائے گا، وہ اصول جو ہم نے خود دوسری عالمی جنگ کے دوران وضع کئے”۔ ان کے بقول” یہ ایسا منصوبہ ہے جو اپنی سرنوشت کے تعین کا حق اور اکثریت کی حکمرانی کا حق جیسے اصولوں کو پامال کرتا ہے۔ یہ تجویز در حقیقت ایک دینی-قومی حکومت کے اصولوں کو قبول کرنے کے مترادف ہے جو مذہبی اور نسلی امتیاز کا سبب بن سکتی ہے”۔
بعد از آں، صہیونیوں نے ہنڈرسن کے گھر والوں کو دھمکی دی اور انہیں یہود مخالف (Anti-Semitic) ہونے کا لقب دیا۔ صہیونیوں نے امریکی وزارت خارجہ پر دباؤ ڈالا کہ وہ ان کی ٹرانسفر کر کے کسی دوسری جگہ منتقل کرے۔ اسی وجہ سے امریکہ کے اس دور کے صدر “ہیری ٹرومن” نے صہیونی یہودیوں کے دباؤ میں آکر، ہینڈرسن کو نیپال میں امریکہ کا سفیر بنا کر نیپال بھیج دیا۔
امریکی وزارت خارجہ کے سیاسی ڈائریکٹر نے ۱۹ جنوری ۱۹۴۷ میں ایک خفیہ دستاویز شائع کی جس میں یہ وضاحت کی گئی تھی کہ امریکہ کی جانب سے اس منصوبہ کی حمایت کے نتیجے میں، علاقے میں امریکہ کے مفادات خطرے میں پڑ جائیں گے۔
گورڈن پی مریام (Gordon P.merriam) نے بھی وزارت خارجہ کے شعبہ مشرق وسطیٰ کے سربراہ ہونے کے عنوان سے کچھ اخلاقی دلائل کے پیش نظر کہا کہ فلسطین کی تقسیم کا منصوبہ عربوں اور یہودیوں کی رضامندی کی طرف توجہ کئے بغیر اس بات کا باعث بنے گا کہ اپنی سرنوشت کے تعین کے حق کے اصول کو پامال کیا جائے۔ وہ اصول جو اقوام متحدہ کے منشور اور Atlontic charter میں بیان ہوئے ہیں۔
امریکی خفیہ ایجنسی سی آئی اے نے ۱۹۴۷ میں اپنی ایک رپورٹ میں اعلان کیا کہ صہیونی مقاصد سبب بنیں گے کہ مشرقی وسطیٰ میں سپرپاور طاقتوں کے مفادات خطرے میں پڑ جائیں۔
ہینری ایف گریڈی (Henry F grady) ایک امریکی سیاسی رہنما تھے کہ جنہوں نے مسئلہ فلسطین پر غور و خوض کرنے والے کمیشن کی سربراہی قبول کی، وہ اس بارے میں کہتے ہیں: “میں مختلف سرکاری کمیشنوں کی سربراہی کرتا رہا ہوں لیکن کہیں پر بھی میں نے ایسی خیانت اور پیمان شکنی نہیں دیکھی جیسی اس کمیشن میں دیکھی ہے”۔ گیراڈی اپنی گفتگو کے آخر میں یہ نتیجہ نکالتے ہیں کہ “امریکہ کو ذاتی طور پر عرب ریاستوں سے کوئی دشمنی نہیں، یہ صہیونی لابی کا دباؤ ہے جس کی بنا پر ایسے مسائل سامنے آئے ہیں”۔
اس کے مد مقابل “ہیری ٹرومن” ان تمام تجزیوں اور مخالفتوں کو نظرانداز کرتے ہیں اور اپنے مشیر “کلیفورڈ” جو ایک یہودی زادہ تھے کے مشوروں پر عمل کرتے ہیں اور آنے والے انتخابات میں کامیابی کی خاطر فلسطین کی تقسیم کے منصوبے کی حمایت کرتے ہیں۔ نتیجۃً یہ چیز باعث بنی کہ امریکہ کے وزیر خارجہ اس بات سے انتہائی غضبناک ہوں کہ ایک شخص اپنے ذاتی مفاد کی خاطر لاکھوں افراد کی زندگیوں کو داؤ پر لگا دے۔
ٹرومن نے بعد میں اپنی ایک یادداشت میں لکھا: “مجھے یاد نہیں ہے کہ وہائٹ ہاؤس میں اس موضوع کے علاوہ کسی بات پر مجھے اتنا دبایا گیا ہو”۔ البتہ وہ اس سیاسی اور سماجی دباؤ کے علاوہ یہودیوں کی مالی امداد سے بھی بہرہ مند ہو رہے تھے۔ مثال کے طور پر وہ امریکہ میں اپنے ریاستی دوروں کے دوران پیسوں سے بھرے بریف کیس اور تھیلے وصول کیا کرتے تھے۔
اس معاملے میں ٹرومن کو بہت سارے دیگر افراد نے بھی متاثر کیا۔ ان افراد میں سے ایک “ابراہم فین برگ” (Abraham feinberg) تھے جو ایک سرمایہ دار تاجر ہونے کی حیثیت سے صہیونیوں اور ٹرومن کے درمیان واسطے کا کام کرتے تھے۔ درحقیقت یہ فین برگ تھے جو ٹرومن کے لیے پیسوں کی گٹھیوں کا انتظام کیا کرتے تھے یہاں تک کہ ٹرومن انتخابات میں کامیابی کو فین برگ کا مرہون منت قرار دیتے ہیں۔
دوسرا شخص “ڈیوڈ کی نایلز” تھا جو ایک قابل اعتماد مشیر ہونے کی حیثیت سے امریکہ کی خفیہ اطلاعات کو اسرائیل منتقل کیا کرتا تھا لیکن جاسوسی کا پردہ چاک ہونے کے بعد وہ اپنے منصب سے مستعفیٰ ہونے پر مجبور ہوا۔ علاوہ از ایں، “اڈی جاکویسن” اور “سم روزنمن” بھی امریکی صدر اور صہیونیوں کے درمیان رابطہ پل تھے۔ چنانچہ یہ تمام عوامل اس بات کی عکاسی کرتے ہیں کہ ریاست ہائے متحدہ امریکہ کے فیصلہ سازاہم اداروں میں صہیونی لابی کسی قدر نفوذ رکھتی ہے!۔ در حقیقت صہیونیوں نے امریکہ کو یہودی ریاست کی تشکیل کے لیے ڈھال کے طور پر استعمال کیا اور اس درمیان یہ امریکی عوام تھے جنہوں نے اپنے حکمرانوں کے اس غلط تصمیم کا تاوان ادا کیا۔
منبع: انجم سری پروشیم، ویر، آلیسون، ترجمه: علیرضا ثمودی پیله رود، چاپ اول: ۱۳۹۴، تهران، خبرگزاری فارس، ص۷۵-۶۵
تحریر: میلاد پور عسگر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

یہودیوں کے کل اور آج کے مظالم کا سبب کیا ہے؟

  • ۳۶۸

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ کے مطابق، قرآن میں یہودیوں کے کھوکھلے خیالات اور بےبنیاد نعروں کی طرف اشارے ہوئے ہیں۔ وہ کہتے تھے: ہم اعلی نسل سے تعلق رکھتے ہیں اور اللہ کے چہیتے ہیں اور قیامت کو جہنم کی آگ ہمیں چند گنے چنے دنوں کے سوا، چھو تک نہیں سکے گی۔
استاد محسن قرائتی نےسورہ آل عمران کی آیت ۲۳ کے آخری الفاظ اور پوری آیت ۲۴ کی تفسیر میں نہایت عمدہ نکات بیان کئے ہیں:
آیت کریمہ:
“ذَلِکَ بِأَنَّهُمْ قَالُواْ لَن تَمَسَّنَا النَّارُ إِلاَّ أَیَّاماً مَّعْدُودَاتٍ وَغَرَّهُمْ فِی دِینِهِم مَّا کَانُواْ یَفْتَرُونَ”۔
ترجمہ: (اللہ کے حکم سے پھیرنے کا) سبب یہ تھا کہ اہل کتاب نے کہا: کبھی بھی دوزخ کی آگ ہمیں نہیں چھوئے گی سوا گنتی کے دنوں کے، اور ان گڑھی باتوں نے (اور بےبنیاد وہمیات) نے انہیں اپنے دین کے بارے میں دھوکے میں رکھا ہے۔
*نکتے:
قرآن میں یہودیوں کے کھوکھلے خیالات اور بےبنیاد نعروں کی طرف اشارے ہوئے ہیں۔ وہ کہتے تھے: ہم اعلی نسل سے تعلق رکھتے ہیں اور اللہ کے چہیتے ہیں اور قیامت کو چالیس ایام کے سوا ـ جب ہمارے اجداد نے بچھڑے کی پوجا کی تھی ـ ہمیں کسی گناہ، کسی قسم کے عذاب کا سامنا نہیں ہوگا۔ اور ان ہی خیالات اور وہمیات نے انہیں غرور اور دھوکے میں رکھا اور وہ گمراہ ہوگئے۔ آج بھی اسرائیل نامی ریاست بھی یہود کی نسلی برتری کی قائل ہے اور اس وہم کو عملی جامہ پہنا کر اپنی نسلی برتری کے اثبات کے لئے کسی بھی جرم و ظلم اور درندگی و خونخواری سے اجتناب نہیں کرتی۔
* پیغامات
۱- إعراض کا سرجشمہ خرافات، بےبنیاد تصورات اور خرافات ہیں: “وَهُم مُّعْرِضُونَ ذَلِکَ بِأَنَّهُمْ ۔۔۔” (اور وہ منہ پھیر کر پلٹ جاتے ہیں، اور اس کا سبب یہ تھا کہ یقینا وہ ۔۔)
۲- بےجا حساسِ برتری ـ خواہ دین کے لحاظ سے خواہ نسل کے لحاظ سے ـ ممنوع اور مذموم ہے۔ “لَن تَمَسَّنَا النَّارُ إِلاَّ ۔۔۔”
۳۔ کیفر کردار اور اپنے گناہوں کی سزا سے محفوظ ہونے کا احساس گمراہی کا سبب بنتا ہے۔ “وَغَرَّهُمْ فِی دِینِهِم ۔۔۔”
۴۔ یہودی قیامت اور دوزخ کو مانتے تھے اور اپنے گناہ کا اعتراف کرتے تھے۔ “لَن تَمَسَّنَا النَّارُ إِلاَّ أَیَّاماً مَّعْدُودَاتٍ۔۔۔”
۵۔ اللہ کی درگاہ میں سب ایک جیسے اور یکسان ہیں اور کسی کو برتری حاصل نہیں ہے۔ ” فَکَیْفَ إِذَا جَمَعْنَاهُمْ لِیَوْمٍ لاَّ رَیْبَ فِیهِ وَوُفِّیَتْ کُلُّ نَفْسٍ مَّا کَسَبَتْ وَهُمْ لاَ یُظْلَمُونَ” (۱)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ترجمہ: فرحت حسین مہدوی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
http://hawzahnews.com/detail/News/465184
۔۔۔۔۔۔۔۔
۱۔ آیت ۲۵؛ ترجمہ: اس کے بعد کیا ہو گا اس وقت جب ہم انہیں اکٹھا کریں گے اس دن کے لیے جس میں کوئی شبہ نہیں اور ہر ایک کو جو کچھ اس نے کمایا ہے پورا پورا ادا کر دیا جائے گا اور ان پر کچھ بھی ظلم نہیں ہو گا۔

 

ڈونلڈ ٹرمپ شکست خوردہ جمہوریت کی پیداوار: امریکی تجزیہ نگار

  • ۴۰۱

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گا: امریکی دانشور کرس ہیجز (۱) کا کہنا تھا کہ امریکہ کا ڈھانچہ زوال اور شکست و ریخت کا شکار ہے۔ اس ملک کے سیاسی اور سماجی اداروں میں ایک گہرا اعتقادی بحران جاری و ساری ہے۔ تنہائی اور خودکشی نے وبا کی صورت اختیار کی ہے۔ صارفیت (۲) نے جمہوریت اور بامعنی اور بامقصد شہریت اور شراکت داری کی جگہ لے لی ہے۔
جس معیار کے مطابق بھی حساب و کتاب کریں، لگتا ہے کہ ریاست ہائے متحدہ ایک بیمار معاشرہ ہے۔ اس ملک میں دولت اور آمدنی کے لحاظ سے معاشرتی طبقات کے درمیان عدم مساوات دنیا کے کسی بھی ملک سے زیادہ ہے۔ امریکہ کا شمار دنیا کے صاحب ثروت ممالک کے زمرے میں ہوتا ہے، لیکن ساتھ ہی ان ملکوں میں بھی شامل ہے جہاں نوزائیدہ بچوں کی موت کی شرح سب سے زیادہ ہے۔ امریکہ کے بڑی عمر کے افراد کے درمیان بھی غربت کی شرح میں اضافہ ہورہا ہے۔ صحت کی دیکھ بھال کا نظام بھی ناقص اور ناکافی ہے اور متوقع عمر کا رجحان کمی کی جانب ہے۔ ریاست ہائے متحدہ میں اسلحہ کے ذریعے قتل عام اور قیدیوں کی شرح تمام ممالک سے زیادہ ہے۔
امریکہ کے ڈھانچے تباہی اور شکست و ریخت کا شکار ہیں۔ اس ملک کے سیاسی اور سماجی اداروں میں ایک گہرا اعتقادی بحران جاری و ساری ہے۔ یہاں بڑی بڑی کمپنیوں کو مکمل حمایت اور پشت پناہی حاصل رہتی ہے اور یہ کمپنیاں ماحولیات کو مکمل طور پر تباہ کررہی ہیں۔ تنہائی اور خودکشی کے رجحانات نے وبائی صورت اختیار کرلی ہے، صارفیت نے جمہوریت اور بامعنی اور بامقصد شہریت اور شراکت داری کی جگہ لے لی ہے۔ منافرت پھیلانے والے سفید فام گروہوں اور دوسری دہشت گرد تنظیموں نے حالیہ چند عشروں میں سینکڑوں افراد کو موت کے گھاٹ اتارا یا زخمی کیا ہے۔ امریکہ کے اشرافیہ افراد اور دانشور و سیاستدان عوام سے مکمل طور پر دور اور ان کی رسائی سے خارج ہیں اور عوامی مطالبات سے لا تعلق ہیں۔
ڈونلڈ ٹرمپ ایک دیوالیہ جمہوریت کی پیداوار ہیں لیکن یہ ثقافتی اور تہذیبی بیماری اور یہ مرض ڈونلڈ ٹرمپ کا پیدا کردہ نہیں ہے؛ گوکہ ڈونلڈ ٹرمپ تقریبا امریکہ کے تمام مسائل اور مشکلات کی علامت ہے جو انسانی ہیئت میں مجسم ہوئی ہے؛ لیکن وہ ہماری سماجی بیماری کی ایک نشانی ہے اور اس بیماری کا اصل سبب نہیں ہے۔
کرس ہیجز پولیٹزر انعام (۳) یافتہ صحافی ہیں جنہوں نے امریکہ کی سماجی اور ثقافتی بیماریوں کے بارے میں تحقیق کے سلسلے میں کئی برسوں سے مختلف قسم کے معاشروں کا قریب سے مطالعہ کیا ہے۔ انھوں نے اپنی نئی کتاب “امریکہ: الوداعی سیاحت” (۴) میں امریکی معاشرے میں گذشتہ کئی عشروں سے انجام پانے والے غلط اقدامات کا جائزہ لیا ہے جن کی وجہ سے ہم امریکیوں کو اس مقام پر پہنچایا گیا ہے کہ کہ کروڑوں امریکی صدارتی عہدہ سنبھالنے کے لئے ٹرمپ جیسے مطلق العنان شخص کو ووٹ دیتے ہیں!
کیا امریکہ کو نجات دلانا ممکن ہے؟ کیا جمہوریت میں امریکی تجربہ ناکام ہوچکا ہے؟ یہ کیونکر ممکن ہوا کہ آج عیسائی فسطائیت (۵) اور کمپنیوں کی مادر پدر آزاد طاقت امریکی سپنے (۶) کی ویرانی اور عوامی مفادات اور مصلحتوں کی نابودی کے لئے متحدہ ہوچکی ہیں؟ کیا امریکی عوام جمہوریت اور زیادہ صحتمند معاشرے کی بازیابی کے لئے اٹھیں گے؟
ہیجز مذکورہ بالا نئی کتاب کے علاوہ کئی دوسری اور بہت زیادہ بکنے والی کتب کے خالق اور انعام یافتہ بھی ہیں۔ ان کی کاوشوں میں “وہم کی سلطنت: خواندگی کا خاتمہ اور سٹہ بازی کی فتح” (۷)، “لبرل طبقے کی موت” (۸)، “جنگ وہ طاقت ہے جو ہمیں بامعنی بنا دیتی ہے” (۹)، “امریکی فاشسٹ: دائیں بازو کے عیسائی اور امریکہ کے خلاف جنگ” (۱۰) اور “تباہی کے دن اور بغاوت کے دن”، (۱۱) جیسی کتابیں شامل ہیں۔
ہیجز نیویارک ٹائمز، (۱۲) کرسچئین سائنس مانیٹر، (۱۳) اور این پی آر (۱۴) کے لئے بھی لکھتے رہے ہیں۔ وہ اس وقت ٹروتھ ڈگ (۱۵) نامی اخباری اور تجزیاتی ویب سائٹ کے قلمکاروں میں شامل ہیں۔
انٹرویو لینے والا: چاؤنسی ڈی ویگا (۱۶)
انٹرویو دینے والا: کرس ہیجز
انٹرویو کا متن:
س: ڈونلڈ ٹرمپ تقریبا تین برسوں سے صدر ہیں، اس عرصے میں حالات توقع سے بہتر ہوئے ہیں یا بد تر؟
جواب: حالات بد تر ہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ ہمیشہ سے مکمل جنگجو اور نفرت انگیز شخصیت کا مالک رہا ہے۔ لیکن حتی میں اس تصور کے باوجود بھی یہ پیشنگوئی کرنے سے عاجز تھا کہ وہ اس قدر برا ہوگا۔ وہ بھی اور موجودہ صورت حال بَگ ٹُٹ اور ٹرمپ مکمل طور پر بے لَگام ہے۔ آپ ـ ریاست ہائے متحدہ میں سیاسی مباحثے کو کمزور کرنے سمیت ـ تفاعلی جمہوریت (۱۷) کے لئے جو بھی معیار مد نظر رکھیں ڈونلڈ ٹرمپ نے حقیقتاً زوال اور تنزلی کی اس رفتار کو تیزتر کردیا ہے۔ وہ یوں کہ اس نے بڑے سرمایہ داروں کے ٹیکس میں کمی کردی، کوئلے اور رکازی یا حیاتیاتی ایندھن (۱۸) کی دوسری قسموں کو قوانین و ضوابط کی قید سے آزاد کیا، عوامی اراضی کے استعمال کو مجاز قرار دیا، سرکاری تعلیم و تربیت پر حملہ کیا، ماحولیات کے تحفظ کے ادارے کو ناکارہ بنا دیا اور ملکی عدالتوں کو وفاق پرَست انجمن (۱۹) کے نظریہ پردازوں (۲۰) سے بھر دیا؛ یا یوں کہئے کہ مسٹر ٹرمپ کے آنے کے بعد صورت حال بہت زیادہ خوفناک ہوچکی ہے۔
س: ڈونالڈ ٹرمپ کی ظہور پذیری اور ان لوگوں کا برسراقتدار آنا جن کی وہ نمائندگی کررہا ہے، میرے خیال میں حیران کن نہیں ہونا چاہئے تھا۔ یہ بحران کئی عشروں سے تشکیل پا رہا تھا؛ اس کے باوجود سرمایہ داروں اور کمپنیوں سے وابستہ امریکی ذرائع ابلاغ ٹرمپزم کے ساتھ بدستور ایک حیران کن اور غیرمتوقعہ واقعے کے طور پر پیش آرہے ہیں۔ زیادہ تر ذرائع ابلاغ ٹرمپ اس کی ریپبلکن پارٹی کی طرف سے نمائندگی کے سلسلے میں حقائق بیان کرنے کی طرف راغب نظر نہیں آرہے ہیں۔
جواب: متعدد دہائیوں سے یہ صورت حال بن رہی اور تشکیل پا رہی تھی۔ میرے خیال میں ذرائع ابلاغ کا مسئلہ یہ ہے کہ ان کی ابلاغی سرگرمیوں کا محرک وہی محرک ہے جو ڈونلڈ ٹرمپ کو مال کمانے اور پیسہ بنانے کی ترغیب دلاتا ہے اور ٹرمپ ایک ایسے غیر صحتمند اور بیمار تفریح کا حصہ ہے جس نے اس وقت ابلاغیات کی جگہ لے لی ہے۔ مثال کے طور پر آپ سٹارمی ڈینیل (۲۱) اور اس کے وکیل سے متعلق مسائل کو دیکھ لیں، یہ خبریں نہیں ہیں۔ یہ سطحی تشہیرات کا تبادلہ ہے۔ یہ ایک قسم کی تفریح ہے۔ یہ عمل کمپنیوں کی دولت کا خزانہ بھرنے کے لئے بروئے کار لایا جاتا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ سی این این (۲۲) نے گذشتہ سال سب سے زیادہ آمدنی کمائی: ایک ارب ڈالر۔ یہ عمل منافع کمانے کے لئے اچھا ہے، ٹیلی وژن کی درجہ بندی (۲۳) کے لئے بھی اچھا ہے لیکن صحافت کے لئے اچھا نہیں ہے۔ یہ اعمال در حقیقت منافع پرستی کے چہرے پر نقاب کے مترادف ہیں۔ دیکھ لیں ان لوگوں کو جو کیبل ٹیلی ویژن چینلز کے لئے نیوز پروگرام تیار کرتے ہیں، دیکھ لیں یہ کس قسم کے لوگ ہیں۔ یہ پروگرام سیاسی میدان کے اشرافیہ کے مفاد کے لئے بنائے جاتے ہیں: پرانے اور مستحکم بنیادوں پر استوار سیاستدان یا سیاستدانوں کے لئے، ایک سابق جرنیل یا کئی سابق جرنیلوں کے لئے جو اسلحہ اور فوجی سازوسامان بنانے والی بڑی امریکی کمپنی “ریتھیون کمپنی” (۲۴) یا دوسری کثیرالقومی دفاعی کمپنیوں کے لئے کام کررہے ہیں؛ جاسوسی اداروں کے سابق سربراہ یا سربراہوں کے لئے، سی آئی اے (۲۵) کے سابق سربراہ جان او برینن (۲۶) کے لئے، جو ان دنوں ایم ایس این بی سی (۲۷) کا تنخواہ دار شراکت دار ہے۔
یہ مقرر شدہ وکالت کرنے والوں کی تصدیق شدہ آوازیں ہیں جنہوں نے امریکہ میں کمپنیوں کی بغاوت (۲۸) کو عملی جامہ پہنایا ہے جس کے بارے میں وہ ابھی تک اس کے بارے میں بیان بازیاں کررہے ہیں۔ ٹرمپ کے آنے کے بعد جو واقعہ رونما ہوا وہ ان کے لئے ایک بڑا غیر متوقعہ واقعہ تھا، کیونکہ وہ عملی طور پر ریاست ہائے متحدہ میں زندگی بسر نہیں کررہے ہیں۔ وہ در حقیقت ایسے ملک میں زندگی بسر کررہے ہیں جس کو [نیویارکر (۲۹) کے مطابق] ثروتستان (۳۰) کہنا چاہئے۔ یہ مراعات یافتگان ان تمام بلاؤں اور مصیبتوں سے پوری طرح محفوظ ہیں جو انھوں نے نولبرل (۳۱) اور صنعتی انہدام کاری (۳۲) پر اصرار کرکے امریکہ اور پوری دنیا پر مسلط کی ہیں۔
وہ معاشرے ـ اور بالخصوص مزدور طبقے کے ـ اس غیظ و غضب کا ادراک کرنے سے عاجز ہیں جو امریکی معیشت اور وسیع سطح پر امریکی معاشرے کے نظم و ترتیب میں ان کے اقدامات سے جنم لینے والی خلل اندازی کے نتیجے میں ابھرا ہوا ہے۔
آپ کے پاس ایک ڈیموکریٹ جماعت ہے جو ہر وقت ایف بی آئی کے سابق سربراہ جیمز کومی (۳۳) یا جان پوڈسٹا (۳۴) کے ایمیل پیغامات یا ویکی لیکس (۳۵) یا روس کے بارے میں مسلسل بولے جارہی ہے، بغیر اس کے کہ اصل موضوع کے پر غور کرے جو کہ وہی وسیع اور ناقابل یقین سماجی عدم مساوات ہے۔ ڈیموکریٹ جماعت بھی اس عدم مساوات کا ایک سبب ہے اسی بنا پر اس کے بارے میں بولنے سے گریز کرتی ہے۔ ڈیموکریٹ جس قدر بھی اپنے آپ کو یقین دہانی کرائیں کہ ٹرمپ آخرکار اندر ہی سے پھٹ کر دھماکے سے اڑ جائے گا، اور جس قدر بھی اس بات پر یقین کرنا چاہیں کہ روس دو سال قبل کی صدارتی انتخابات کا اصلی قصوروار ہے، صورت حال مزید خطرناک ہوجائے گی۔ ڈیموکریٹ اصلی اور بنیادی مسئلے کی طرف توجہ دیئے بغیر روس جیسی بیرونی طاقتوں کو شیطان کی صورت میں مجسم کرنے میں مصروف ہیں، جبکہ بنیادی مسئلہ وہ ہے جو امریکی تاریخ میں دولت کی اعلی طبقوں کی طرف عظیم ترین منتقلی کا سبب بنا ہوا ہے اور کمپنیوں کی بنیاد پر قائم زر پرست اشرافیہ کے ایک گروہ کو جنم دے چکا ہے جو اس نقطے پر امریکہ کے سنہری دور (۳۶) کے اشرافیہ سے بدتر ہیں۔
حواشی
۱۔ Chris Hedges (Christopher Lynn Hedges) ۔۔۔ کرس ہیجز امریکی صحافی، پریسبیٹیریَن کلیسا میں خادم دین اور پرنسٹن یونیورسٹی کے جزو وقتی استاد ہیں۔
۲۔ Consumerism
۳۔ Pulitzer Prize
٭ Elites
۴۔ America: The Farewell Tour
۵۔ Christian fascism
۶۔ American dream
۷۔ Empire of Illusion: The End of Literacy and the Triumph of Spectacle
۸۔ Death of the Liberal Class
۹۔ War is a force that gives us meaning
۱۰۔ American Fascists: The Christian Right and the War on America
۱۱۔ Days of Destruction, Days of Revolt
۱۲۔ New York times
۱۳۔ The Christian Science Monitor
۱۴۔ National Public Radio [NPR]
۱۵۔ Truthdig[.]com
۱۶۔ Chauncey Devega
۱۷۔ Functional democracy
۱۸۔ Fossil fuels
۱۹۔ Federalist society
۲۰۔ Ideologues
۲۱۔ Stormy Daniel
۲۲۔ Cable News Network [CNN]
۲۳۔ Rating  اور Ranking
۲۴۔ Raytheon Company
۲۵۔ Central Intelligence Agency [CIA]
۲۶۔ John Owen Brennan
۲۷۔ MSNBC [Microsoft and the National Broadcasting Company]
۲۸۔ Corporate coup
۲۹۔ New Yorker
۳۰۔ Richistan
۳۱۔ Neo-liberalism
۳۲۔ Deindustrialization
۳۴۔ James Brien Comey Jr
۳۵۔ John Podesta
۳۶۔ WikiLeaks

 

صہیونی حکومت کی جانب سے داعشی عناصر کی خدمات کے حصول کا پردہ فاش

  • ۳۰۹

خیبرتحقیقاتی ٹیم  
خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: مزاحمتی محاذ کو چوٹ پہنچانے کے لئے صہیونی حکومت نے داعشی عناصر کی خدمات حاصل کی ہیں۔
 فارس بین الاقوامی نیوز ایجنسی  کی رپورٹ کے مطابق غزہ کی وزارت داخلہ نے ایک اعلان شائع کرتے ہوئے اس بات کو واضح کیا ہے کہ صہیونی حکومت سے متعلق ایک دہشت گردانہ کاروائیوں میں ملوث گروہ کو دھر دبوچا گیا ہے جس نے مزاحمتی محاذ کے خلاف تخریبی کاروائیوں کی منصوبہ بندی کر رکھی تھی، غزہ کی وزارت داخلہ کی جانب سے شائع ہونے والے اس اعلان کے مطابق اس تخریبی کاروائی کے سلسلہ سے کچھ دن قبل چند لوگوں کو گرفتار کیا ہے جن سے حاصل ہونے والی معلومات سے پتا چلا ہے کہ ان لوگوں نے تل ابیب سے اپنے اس کام کے سلسلہ سے انعامات حاصل کئے تھے، ان لوگوں سے تفتیش کے دوران واضح ہوا ہے کہ صہیونی حکومت کی خفیہ ایجنسی ان لوگوں کی دہشت گردانہ کاروائیوں کے منصوبے کے پیچھے تھی اور اسی کی پشت پناہی میں یہ منصوبہ بندی کی گئی  ۔
روزنامہ الاخبار  نے اس آپریشن کی تفصیلات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ غزہ پٹی میں علاقے کی سیکورٹی فورسز کے ذریعہ سلفی و تکفیری عناصر کا مہینوں پیچھا کئے جانے اور انکی حرکات و سکنات پر نطر رکھنے کی بنا پر داعشی عناصر کے ذریعہ مزاحمتی محاذ پر ضرب لگانے کی خطرناک منصوبہ بندی کا پردہ فاش ہوا ہے۔
داعش کے ان عناصر کا مقصد فلسطین کے حکومتی اور عسکری اداروں پر خفیہ حملہ کرنا تھا، تحفظ و سلامتی سے متعلق اراکین نے الاخبار روزنامے کو بتایا کہ داعش سے وابستہ یہ عناصر صہیونی حکومت کی پشت پناہی میں اس بات کی منصوبہ بندی کر رہے تھے کہ غزہ پٹی میں دھماکوں کے ذریعہ محکمہ انصاف سے جڑے کچھ اداروں اور وزارت خانوں کو نشانہ بنائیں۔
 غزہ کے سیکورٹی اہلکاروں نے داعش سے وابستہ ان عناصروں سے تفتیش کے بعد واضح کیا کہ انکی منصوبہ بندی کے کچھ حصے پر عمل درآمد کا سلسلہ جاری تھا جبکہ کچھ منصوبہ بندی آگے چل کر عملی ہونا تھی ان کا قصد تھا کہ مزاحمتی محاذ کے اسلحوں  کے اسٹراٹیجک سسٹم کو نشانہ بنایا جائے ۔
ان داعشی عناصر سے تفتیش کے دوران یہ بات سامنے آئی کہ صہیونی حکومت سے وابستہ ایک بکے ہوئے  ضمیر فروش نے اس دہشت گردانہ کاروائی کرنے والی ٹیم کی خدمات حاصل کی تھیں اور داعش سے متعلق ایک فرد کی حیثیت سے یہ شخص مزاحمتی محاذ کے سلسلہ سے معلومات فراہم کر رہا تھا تاکہ مزاحمتی محاذ سے وابستہ بعض گروہوں پر حملہ کیا جاسکے ۔
تفتیش کے دوران اس ٹیم کو لیڈ کرنے والے فرد نے اس بات کا اعتراف کیا کہ سالوں پہلے سے وہ صہیونی حکومت کی خفیہ ایجنسی کے جاسوسی کرنے والے شعبے سے وابستہ رہا ہے اور اس منصوبہ بندی کو مہینوں پہلے انجام دیا گیا تھا، طے یہ پایا تھا کہ غزہ کی مختلف عدالتوں میں دھماکہ خیز مواد مواد رکھ ان جکہوں کو اڑا دیا جائے اور  تحفظ و سلامتی سے متعلق مراکز اور چیک پوائٹنس پر بھی مختلف دھماکے کئے جائیں، اس رپورٹ کے مطابق صہیونی حکومت کی خفیہ ایجنسی منحرف افکار رکھنے والے لوگوں کے انحراف سے ناجائز فائدہ اٹھاتی ہے تاکہ اس کے ذریعہ حکومتی اداروں، اور فلسطینی مزاحمت سے متعلق مراکز کو نشانہ بنایا جا سکے، اس منصوبہ بندی کو عملی کرنے کی آخری واقعہ، غزہ کے جنوب میں چیک پوائنٹ پر تو خود کش حملوں کی کوشش تھی جس میں تین لوگوں کو اپنی جان گنوانا پڑی، اس خود کش حملہ کے بعد یہ پتہ چلا کہ یہ دونوں لوگ  انٹرنیٹ کے ذریعہ ایسے دو اسرائیلی افسروں کے جال میں پھنس کر انکے ہتھے چڑھ گئے تھے جنہوں نے خود کو داعش سے جڑے ہوئے عناصر کے طور پر پیش کیا تھا
 

 

میرا بھائی شہید راہ قدس ہے اسے صہیونیوں نے شہید کیا : الہام بہرامی

  • ۳۶۷

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: گزشتہ سال یعنی ۲۰۱۹ میں سوئٹزرلینڈ میں ’’بہنام بہرامی‘‘ نامی ایک ایرانی کارٹونسٹ کی مشکوک حالت میں موت واقع ہوئی تھی۔ لیکن ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ اس مشکوک موت کے پیچھے کسی ایجنسی کا ہاتھ ہے، اس حوالے سے خیبر صہیون تحقیقاتی سینٹر نے بہنام بہرامی کی بہن محترمہ ’الہام بہرامی‘ کے ساتھ گفتگو کی ہے جو حسب ذیل ہے؛
خیبر: سب سے پہلے آپ اپنا تعارف کروائیں اور اس کے بعد بہنام بہرامی کی شخصیت، ان کی اخلاقی خصوصیات اور سرگرمیوں کے بارے میں کچھ بتائیں۔
میں الہام بہرامی، صہیونیت مخالف معروف کارٹونسٹ بہنام بہرامی کی بہن ہوں۔ ہم دو بہنیں اور دو بھائی اپنی فیملی کے افراد تھے۔ میں سب سے چھوٹی ہوں، اور بہنام تیسرے نمبر کے تھے بہنام نے ایسا کام اختیار کیا جس سے وہ مظلوموں کی آواز کو دنیا والوں کے کانوں تک پہنچا سکیں، میری نظر میں اس کا یہ کام کسی جہاد سے کم نہیں تھا۔
میرا بھائی بہت مہربان، باادب اور ہنس مکھ مزاج کا آدمی تھا۔ جس محفل میں وہ ہوتا تھا اپنی مزاحیہ گفتگو سے اس محفل کو گرم کر دیتا تھا، سب اسے دوست رکھتے تھے۔ ہماری پوری فیملی ایک دوسرے سے سخت وابستہ تھی۔
بہنام ایک فعال اور ایکٹو آدمی تھا، مجھے یاد نہیں ہے کہ وہ کبھی بے کار بیٹھا ہو اور اس نے اپنا وقت ضائع کیا ہو، بچپنے سے ہی اسے مسجد سے لگاؤ تھا، اور مذہبی سرگرمیاں انجام دیتا تھا۔ قرآن کے دروس کو کبھی ترک نہیں کرتا تھا اور ’’راہیان نور‘‘ کاروان کے ساتھ شہداء کی لاشوں کو تلاش کرنے کے پروگراموں میں بھی شرکت کرتا تھا۔
بہنام شروع سے ہی ثقافتی کاموں کے پیچھے رہتا تھا، اس کے کارٹونوں اور خاکوں کے موضوعات بھی ثقافتی ہوتے تھے۔ وہ روزنامہ قدس، اخبار شہرآرا، ابرار اور تہران کے کچھ جریدوں کے ساتھ منسلک تھا۔ اس کے ثقافتی کام اتنے زیادہ تھے کہ میں بہن ہونے کے عنوان سے بھی اس کے تمام کاموں سے آگاہ نہیں تھی۔ وہ خود بھی کچھ نہیں بتاتا تھا۔ وہ ایسا آدمی نہیں تھا کہ اپنی تعریف کرے۔ ہمیشہ خدا کا نام اس کی زبان پر تھا اور کہتا تھا: انسان کو صرف خدا کے لیے کام کرنا چاہیے۔ اس کے تمام دوست سنجیدہ، مذہبی اور ثقافتی میدان میں ایکٹو افراد تھے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ جب بہنام نے صہیونیت مخالف معروف کارٹون بنایا تو اس کے اندر ایک عجیب و غریب خوشی کا احساس پیدا ہوا اور کہہ رہا تھا کہ میں اسی کارٹون کے لیے پیدا ہوا ہوں میری زندگی کا پہلا اور آخری یہی کارٹون ہے۔ بہنام نے سلمان رشدی کے بارے میں بھی خاکے بنائے تھے۔

خیبر: آپ کے بھائی نے موت سے پہلے کسی طرح کے دباؤ یا دھمکی کے بارے میں آپ سے کچھ نہیں کہا تھا؟
میرے بھائی کا تقریبا ۱۰۰ کلو وزن تھا اور قد بھی کافی لمبا تھا، ایک بار وہ مجھے کہنے لگا کہ مجھے کوئی ایسی دوائی ڈریپ میں ڈال کر چڑھا دی ہے کہ میرا وزن نہیں بڑھ رہا ہے اور میری کھال سیاہ ہو رہی ہے، مجھے یقین ہے کہ مجھے تیزاب والا پانی چڑھا دیا ہے۔
بہنام کو مستقل زیر نظر رکھا جا رہا تھا۔ یہاں تک کہ وہ باہر جانے کے قابل بھی نہیں تھا.جیسے ہی وہ گھر سے باہر نکلتا تھا مجھے یقین ہے کہ اس کا پیچھا کیا جاتا تھا۔ یہاں تک کہ ایک مرتبہ اس کے گھر کی چابی بھی چرا لی گئی لہذا وہ ہمیشہ بہت احتیاط کرتا تھا اور ہوشیار رہتا تھا۔
اب بھی ہمیں اس کے ذاتی سامان میں سے کچھ بھی نہیں ملا ہے، نہ لیپ ٹاپ نہ موبائل ، اور سوئٹزرلینڈ کی حکومت ایسے سلوک کرتی ہے جیسے کہ بہنام نامی کوئی شخص تھا ہی نہیں۔ البتہ میرے لیے یہ چیز عجیب نہیں ہے چونکہ ایسے واقعات تاریخ میں بہت تکرار ہوئے ہیں۔

خیبر: اس حوالے سے قانونی کاروائی جو آپ نے کی اس کے بارے میں کچھ بتائیں گی؟
 میرے والد نے وزارت خارجہ کے ذریعے کافی پیچھا کیا، لیکن حقیقت یہ ہے کہ کسی نتیجہ تک نہیں پہنچے، یہاں تک کہ میرے والد کو یہ کہہ دیا کہ ہم کسی پر دباؤ نہیں ڈال سکتے۔
جب ہمیں اس کی موت کی اطلاع دی تو ساتھ ساتھ ہم پر یہ دباؤ ڈالا کہ ہم اجازت دیں بہنام کو سوئٹزرلینڈ میں ہی دفن کریں، ہم موت کی وجہ پوچھتے تھے لیکن کوئی معقول جواب نہیں دیتا تھا وہ ایسا وقت تھا جب ہماری ماں کا بھی انہیں دنوں انتقال ہوا تھا۔
مجھے یہ پورا یقین ہے کہ میرے بھائی کو صہیونیوں نے قتل کیا، اس لیے کہ صہیونیوں کی سرخ لکیر ہولوکاسٹ ہے وہ کسی کو اس بارے میں ایک لفظ بولنے کی اجازت نہیں دیتے۔ اور بہنام نے ٹھیک ان کی اسی دکھتی ہوئی رگ پر انگلی رکھی تھی اور ہولوکاسٹ کا آخری کارٹون بنایا تھا جس کے بعد اس کی موت ہو گئی۔
افسوس اس بات کا ہے کہ یورپ میں آزادی اظہار کی آڑ میں پیغمبر اسلام کا کارٹون بنایا جاتا ہے، اسلامی مقدسات کی توہین کی جاتی ہے لیکن کسی کو اس بات کا حق نہیں ہے وہ ہولوکاسٹ کے بارے میں گفتگو کر سکے، ہولوکاسٹ ان کی ریڈ لائن ہے، اور مغربی ممالک صرف اپنے اور اسرائیل کے مفاد کے لیے ایسا کرتے ہیں۔
رہبر انقلاب ہمیشہ اپنی تقریروں میں اس نکتے کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ مغربی ممالک؛ سوئٹزرلینڈ ، فرانس، جرمنی وغیرہ سب اسرائیل کو تحفظ دینے کے لیے کچھ بھی کر سکتے ہیں۔ جب کسی ملک کی جغرافیائی سرحد کو محفوظ رکھنا ہو تو وہ الگ مسئلہ ہے لیکن جب اسرائیل کو نفسیاتی امنیت بھی فراہم کرنا ہو تو پھر جغرافیائی حدود ختم ہو جاتی ہیں۔
میرے بھائی ہمیشہ صہیونیت مخالف سرگرمیاں انجام دیتا تھا اور اس کا آخری کارٹون ہولوکاسٹ کے خلاف تھا، اور وہ انہیں ملکوں میں سے ایک میں تھا جن کے بارے میں رہبر انقلاب نے اشارہ کیا تھا لہذا مجھے یقین ہے کہ میرا بھائی راہ قدس کا شہید ہے اور اصلی دشمن یعنی صہیونیت کے ہاتھوں شہید ہوا ہے۔
خیبر: پروردگار آپ کو صبر عطا کرے اور انہیں غریق رحمت کرے۔

 

پروفیسر بٹینا اپتھیکر کا تعارف

  • ۴۰۴

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: پروفیسر بٹینا اپتھیکر(Professor Bettina Aptheker) امریکہ کے معروف کمیونیسٹ ’’مرحوم ہربرٹ اپتھیکر‘‘ کی بیٹی ہیں کہ جنہیں سوویت نظام کے خاتمے کا گہرا صدمہ لاحق ہوا۔ پروفیسر اپتھیکر نے کولمبیا یونیورسٹی سے تاریخ کے موضوع پر اعلیٰ تعلیم حاصل کی اور بعد از آں کیلی فورنیا یونیورسٹی میں تاریخ کے شعبہ میں استاد کی حیثیت سے ملازمت اختیار کی۔
پروفیسر بٹینا اپتھیکر نے خود اعتراف کیا ہے کہ وہ ایک کمیونیسٹ ہیں۔ انہوں نے ۱۹۸۰ میں فیمی نیزم (Feminism) کے بارے میں University of California Santa Cruz UCSC)) میں کچھ کورس کیے اور اس کے بعد مارکس کی “تاریخی مادہ پرستی” کو اپنے مطالعہ کا موضوع قرار دیا۔
تاریخی مادہ پرستی، تاریخ کی ایک مادی اور فطری تفسیر کے معنیٰ میں ہے کہ جو سب سے پہلی مرتبہ کارل مارکس اور فریڈریچ انگیلس (Friedrich Engels) کے ذریعے بیان ہوئی اور اس کے بعد یہ مارکس ازم – لیننزم کی تعلیمات کا حصہ بن گئی.
اپتھیکر اپنی تدریس کے فلسفے کو “انقلابی آپریشن” کے عنوان سے پہچنواتی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اس نظریے کا اصلی مقصد ذہنی اور خارجی حقائق کے درمیان تمایز اور فرق پیدا کرنا ہے کہ جسے اپتھیکر ’دوئیت کا زوال‘ نام دیتی ہیں اور اپنے اس عمل سے یونیورسٹی میں انقلاب لانے کی کوشش کرتی ہیں۔
اپتھیکر کہتی ہیں کہ اس نظریہ کی بنا پر خواتین کے بارے میں مطالعات کو اہمیت ملتی ہے چونکہ عورت کو مرکزی حیثیت دے کر اسے درسی نصاب میں جگہ دی جا سکتی ہے اور یونیورسٹی کے قدیمی نظام میں جو مرد محوری پائی جاتی ہے اس کا خاتمہ کیا جا سکتا ہے۔
اپتھیکر اگر چہ فیمی نیزم اور تاریخی مطالعات کے موضوعات میں (UCSC) میں ہمہ وقت بطور استاد مصروف ہیں لیکن ایک بھی علمی کارنامہ ان کے نام سے موجود نہیں ہے۔ ان کی اکثر کتابیں ” اندرونی سیاست، شاہد نامی زندگی نامہ، صبح کے وقفے، آنجیلا ڈیوس کا مقدمہ، اگر وہ صبح آئیں، اور مزاحمت کی آواز، وغیرہ کے عناوین سے ہیں جو مکمل طور پر سیاسی قلم سے تحریر کی گئی ہیں۔
“عورت کی میراث” امریکہ کی تاریخ میں نسل پرستی، سماجی طبقات اور شھوت پرستی کے بارے میں آپتھیکر کے مقالات کا مجموعہ ہے۔
سینٹا کروز یونیورسٹی کا ماحول کمیونیسٹی سیاست کو پروان چڑھانے کا بہترین موقع ہے اور اسی وجہ سے وہاں کے اکثر اساتید کو جرمنی حکومت کی جانب سے “لنین امن انعام” سے نوازا گیا ہے۔
اپتھیکر ۶۰ ویں دہائی میں جنگ مخالف تحریک کی رکن ہونے کی وجہ سے امریکی نظام میں دخالت کی نسبت اپنے مخالف کردار کو خفیہ نہیں رکھ سکی۔
اپتھیکر کا مخالف کردار اس وقت سامنے آیا جب ۲۰۰۳ میں عراق پر حملے کے خلاف UCSC میں منعقدہ اساتید کی نشست میں انہوں نے اعلان کیا کہ عراق میں جنگ چھیڑنا قباحت سے خالی نہیں ہے۔
اپتھیکر نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ جارج ڈبلیو بوش کی اسٹریٹجک، جرمنی کی نازی قوم سے شباہت رکھتی ہے۔ اپتھیکر کا کہنا تھا: جارج ڈبلیو بوش کی حکومت کی نوعیت ۱۹۳۰ کی دہائی میں ہٹلر کی نوعیت سے براہ راست شباہت رکھتی ہے۔ ہم اس میں کوئی شک نہیں کر سکتے اور یہ بہت خطرناک ہے۔
انہوں نے UCSC کے طلبہ کو اعلان کیا کہ ہماری اہم ذمہ داری بوش کی سرنگونی ہے۔ اپتھیکر نے ۲۰۰۳ میں UCSC کے گروہ خواتین کے خبرنامے  The Wave کے ایک شمارے میں بوش حکومت کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا اور ان پر نسل پرستانہ الزامات کے ساتھ ساتھ فاشسٹی پروگراموں پر عملدرآمد کا الزام عائد کیا اور پورے اطمینان کے ساتھ یہ کہا کہ وہائٹ ہاؤس نے یہ وعدہ دیا ہے کہ ہمیں نہ ختم ہونے والی سامراجی جنگوں کے بحران میں دھکیل دیں۔
اپتھیکر نے اسرائیلی نظام حکومت اور اس کی پالیسیوں کو بھی سخت تنقید کا نشانہ بنایا ہے اور کوشش کی ہے کہ UCSC یونیورسٹی کی فضا کو اسرائیل مخالف سرگرمیوں میں تبدیل کر دیں۔
انہوں نے ریاست ہائے متحدہ امریکہ کی حکومت کو لکھے گئے اپنے ایک خط کے ذریعے اسرائیل کو کی جانے والی تمام امریکی امداد بند کرنے کا مطالبہ کیا۔ سن ۲۰۰۲ میں انہوں نے جریدے  The Wave میں اپنے ایک مقالہ میں فلسطینی مجاہدین کی حمایت کا اعلان کیا اور انہیں قابض حکومت کے خلاف سرگرم افراد کے عنوان سے جانا ہے۔
محقق: جان پارانزو