-
Monday, 13 July 2020، 12:33 AM
-
۴۷۳
ترجمہ نجیب الحسن زیدی
خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: پیش نظر تحریر ، جان میری گیانو {Jean Marie Guehenno}کی ایک سو پچاس صفحات پر مشتمل تصنیف ” جمہوریت کا اختتام”{La fine de la democratic} کے خلاصہ اور تنقیدی جائزہ پر مشتمل ہے۔ اس کتاب کا پرنٹ ہو کر آنے کے کچھ ہی دن میں مغرب کے روشن فکر محافل میں جم کر استقبال ہوا ،مغربی دانشور طبقے میں اس کی پذیرائی کا ایک سبب یہ بھی ہے کہ گیانو کے عقیدہ کے پیش نظر جمہوریت ہر انسانی سماج کے کمال کی انتہا و حد نہیں ہے جس کے چلتے تمام معاشرے یہ چاہیں کہ جیسے بھی ہو جمہوریت کے ہم نوا بن جائیں اور کسی بھی قیمت پر اسے حاصل کر کے ہی دم لیں اس لئے کہ آج جمہوریت تمام شمالی ممالک ( پہلی دنیا =مغرب) اور جنوبی ممالک (تیسری دنیا =مشرق ) میں بڑی رکاوٹوں سے دوچار ہے جن میں سے کچھ یہ ہیں :
سیاست سے گریز پا سماج
ہم حکومتوں کے اختتامی دور کی دہلیز پر کھڑے ہیں ، جسے اختتام عصر حکومت کہا جا سکتا ہے ، یہ حکومتوں کا اختتامی دور اپنے باطن میں فریب و نیرنگ کے بل پر چلنے والی سیاست کے دور کے تمام ہو جانے کے مفہوم کو لئے ہو ئے ہے ، دوسرے الفاظ میں یوں کہا جا سکتا ہے کہ آج سیاست سے گریز کا سرچشمہ یہ ہے کہ موجودہ جمہوریتوں میں سیاست ایک بدنام سی بد طینت شے ہے مثلا امریکہ کی سرکاری مشینری میں تیس ہزار ایجنٹوں کی لابی پائی جاتی ہے ، تیس ہزار افراد پر مشتمل ایجنٹوں کی لابی کا وجود بخوبی اس بات کو واضح کر رہا ہے کہ مارڈن دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت میں کسی بھی فیصلہ لینے کے مراحل کس قدر عمیق و پیچیدہ ہونے کے ساتھ الجھے ہوئے ہیں ، اس لئے کہ اگر یہ ایجنٹوں کی لابی مثلا اگر اپنے مافوق افسروں کے لئے اگر کچھ ایسی معلومات فراہم کرنے کا کام کرتی ہے جسکی روشنی میں کمپنیاں و کارخانے اپنے مفادات کا غیر قانونی ہونے کے باوجود دفاع کر سکتے ہیں وہ بھی صرف اس بنیاد پر کہ انہیں ان کی لابیوں نے ایسی اہم معلومات فراہم کی ہیں کہ جنہیں وہ ٹرسٹ اور ملٹی نیشنل کمپنیوں کی ورکنگ کمیٹی کے حوالے کر سکتی ہیں ،تویہ بالکل واضح ہے کہ یہ لابیاں بغیر اجرت ومفاد کے کام نہیں کرتی ہیں ، بلکہ جو بھی فائدہ ہو اس میں انکا کچھ حصہ ہوتا ہے اور زیادہ سے زیادہ فائدہ حاصل کرنے کی خواہش انہیں سرمایہ داروں کے مفادات کے دفاع کی طرف اور بھی کھینچتی ہے اسی بنیاد پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ امریکہ میں صرف ثروت مند افراد کے مفادات کا خیال رکھا جاتا ہے اور انہیں کے حقوق کا دفاع ہوتا ہے چنانچہ اب یہ تعجب کی بات نہیں ہے کہ ان ایجنٹوں کی لابی میں یہ کہا جاتا ہے کہ جو کچھ جنرل موٹرکے حق میں بہتر ہے وہی امریکہ کے حق میں بھی بہتر ہے ۔
اس بات کا یہ مطلب ہے کہ اب سیاست کا رزلٹ عمومی مفادات کا تحفظ نہیں ہے بلکہ سیاست کے معنی خصوصی مالکین کے مفادات کے حصول کی راہوں کو تلاش کرنا اور ان کے مسائل کا حل کرنا ہے یعنی ٹریڈ یونین اور سیاست ایک دوسرے کے لئے کام کرتے ہیں مفادات کے یونین اور خصوصی مالکین کے لئے مخصوص ہو جانے کی منطق اسکے بے شمار ذیلی شعبوں اور برانچوں کے وجود میں آنے کا سبب بنے گی اب یہ ایک فطری بات ہوگی کہ ہر ایک اپنے ذاتی مفادات کو زیادہ سے زیادہ حاصل کرنے کے لئے جو بن پڑے انجام دے گا ہر وہ طریقہ کار استعمال میں لائے گا جس سے زیادہ سے زیادہ اس کو فائدہ ہو سکے ،یعنی یہ وہ دنیا ہے کہ جسکی قدرت محرکہ یہ نہیں ہے کہ مشترک مفادات کو قانونی درجہ دیا جائے اور انہیں تسلیم کی کیا جائے بلکہ یہاں پر سب کی لڑائی سب سے ہوگی بالفاظ دیگر باہمی گتھا گھتی کا سماں ہوگا ، ایک ایسی گتھا گھتی و باہمی لڑائی کہ جس میں ایک انسان کی طاقت کی سرحد اپنے ہی ہمسایہ کی طاقت کی سرحد ہوگی ایسی ہولناک فضا کا ماحصل ایک ایسی دنیا کی صورت میں سامنے آئے گا کہ جس کی تعریف انسانی اصولوں کے دائرہ میں ممکن نہ ہوگی بلکہ اس فضا میں ایک دوسرے سے الگ پہچان ان مشکلات کے ذریعہ ہوگی جنہیں صرف ذاتی مفادات کے حصول کے شیووں ہی کے ذریعہ حل کیا جا سکتا ہے۔
ان تمام باتوں کے پیش نظر اب ایک سیاست مدار کا فریضہ یہ بنتا ہے کہ یونین اور خصوصی مالکین کے مسائل کو ادارہ کرے اس صورت میں سیاست مدار پہلے مرحلہ میں ایک بشارت دینے والا شخص ہے لیکن یہاں پر مشکل یہ ہے کہ اس کے پاس جو ذرائع و وسائل ہیں ان سے کچھ اپڑنے والا نہیں ہے اس لئے کہ و ہ ناامیدی کے سوا کسی کچھ اور نہیں دے سکتے ، دوسری بات یہاں پر یہ ہے کہ سیاست مدار رپوٹروں اور میڈیا کی شراکت میں معاشرے کے شعور و درک کو غلط راستہ پر ڈال کر ادارہ کرتا ہے تیسری بات یہ ہے کہ یہاں پر اس طرح کی یقین دہانی ہوتی ہے کہ سیاست مدار جس چیز کے بارے میں بول رہا ہے صرف وہی ہے اور جو کچھ وہ کہہ رہا ہے سب کچھ اپنی جگہ صحیح ہے اس لئے کہ اسکا فیصلہ اور اس کی تدبیر ہی درست ہے ۔چوتھی بات یہ ہے کہ جو معرفت عمیق اور گہرے ہونے کی شایستگی رکھتی ہے وہ علامتوں کی شناخت ہے نہ حقیقتوں کا کشف کرنا یعنی معرفت و شناخت کا کل مفہوم یہ ہے کہ یہ ان دستورات اور اصولوں کی پردہ کشائی کرتی ہے جو فردی ، خصوصی اور گروہی پیشرفت کا باعث ہوں نہ یہ کہ وہ قومی ، عمومی اور مجموعی طور پر پیشرفت کے اصولوں سے نقاب کشائی کریں ،اس سیاست کا نتیجہ ایسے سماج کی صورت میں سامنے آئے گا جہاں نہ کوئی شہری ہے اور نہ ہی اسکا کوئی ذاتی تشخص ہماری اس گفتگو کے پیش نظر یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ امریکہ ایک برتر جمہوریت کے آئیڈیل کی صورت میں سیاسی انسداد کا شکار ہے، اس لئے کہ معاشرہ کا پارہ پارہ ہو جانا اور خصوصی مالکیت کے مفادات کی ہوڑ اس بات کی سبب بنی ہے کہ متعدد ایسے محاذ اور گروہ وجود میں آئیں جو اپنا اپنا راگ الاپ رہے ہیں ،اور یہ اس وجہ سے ہے کہ چھوٹے چھوٹے فیصلوں کی ایک چھوٹی سی زنجیر ایک چھوٹے سے گروہ نے اپنے چھوٹے چھوٹے اہداف تک پہچنے کے لئے بنا لی ہے جسکے حلقے ایک دوسرے کے مختصر دائرہ میں اپنے مفادات کے تحفظ میں پیوست ہیں اس درمیان عمومی مفادات کو نظر انداز کر دیا گیا ہے جسکے نتیجہ میں یہ تعجب کی بات نہ ہوگی کہ پشرفتہ جمہوریتوں میں رائے دہندگان الیکشن میں کم سے کم حصہ لیں اور سیاست مداروں کی ساکھ روز بروز اپنے وطن میں کمزور ہوتی جائے ۔
اجتماعی دراڑیں اور فاصلے
جمہوریت ایک عالمی امپائر تشکیل دینا چاہتی ہے لیکن اس کام کے لئے اسے ایک ایسی بڑی طاقت میسر نہیں جس کے سایہ میں جمہوریت کو عالمی کیا جا سکے اس لئے کہ جمہوریت کا کوئی ایک نظری اور عملی مفہوم نہیں ہے مثال کے طور پر امریکی جمہوریت اور یورپین جمہوریت میں بہت فرق پایا جاتا ہے مثلا ایک فرق یہ ہے کہ یورپی جمہوریت ایک دوسرے کو جوڑے رہنے اور مل کر آگے بڑھنے کے عنصر پر زور دیتی ہے لیکن امریکی جمہوریت کا زیادہ زور آزادی پر ہے شاید یہی سبب ہے کہ ہر فرانسسی ، جرمنی اور برطانوی کی یہ آرزو ہے کہ ایر بس بوئنگ سے زیادہ کامیاب رہے ،البتہ خود یورپی لوگوں کے درمیان کافی تضاد دیکھنے میں آتا ہے مثال کے طور پر فرانس کے باشندوں کی یہ عادت ہے کہ وہ قومی مفادات پر سوال اٹھاتے ہیں ، لیکن جرمنی اپنے بارے میں بدگمانی کا شکار رہتے ہیں اور انکا رد عمل کچھ اور ہوتا ہے یعنی بدگمان رہنے کی وجہ سے فرانس کے باشندوں سے مختلف رہتے ہیں ، مفادات کا یہ تضاد اور جمہوریت میں انسجام و انصرام کا نہ ہونا اپنے اپنے ملکوں کے باشندوں کی پریشانی کا سبب بنتا ہے حتی قومی سطح پر امریکہ میں بھی یہ تضاد آشفتہ حالی کی کیفیت نظر آتی ہے لہذا یہ کہا جا سکتا ہے کہ واشنگٹن جب ٹکزاس ، کالیفورنیا ، اور نیویارک کے باشندوں کے متضاد مفادات کو ایک دوسرے سے نہیں جوڑ سکتا تو آخر سوئڈن ، پولینڈ ، اٹلی ، فرانس اور پرتگال کے لوگوں کے مفادات کو اپنے مفادات کے ساتھ کیسے جوڑ سکتا ہے؟
اس بات سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ نہ امریکہ اور نہ یورپ کوئی بھی عالمی طاقت میں تبدیل نہیں ہو سکیں گے ، لہذا بہتر یہی ہوگا کہ عالمی سطح پر ایک دوسرے سے جڑے ہوئے چینلوں یا چند قطبی دنیا کی بات کی جائے اس لئے کہ جس طرح موجودہ دور کی صورت حال سامنے آ رہی ہے اس کے مطابق جمہوریت عالمی سیاست کے ایک پیکر کو وجود بخشنے کے لئے ناکار آمد ہے بلکہ جو کچھ رونما ہو رہا ہے وہ ایک ایسے سلے ہوئے کپڑے کی صورت ہے جس کی سلائی آشکار و واضح نہ ہو ،یہ سلائی جو بھی ہو لیکن اس سے عالمی جمہوریت کی ایک بڑی طاقت ابھر کر سامنے آنے والی نہیں ہے جس کا نتیجہ ایک ایسی فضا کا وجود میں آنا ہے جس سے جڑ ے ہوئے ہر ایک ملک کے سیاسی ڈھانچہ کی جڑیں مقامی اور علاقائی اعتبار سے کافی گہرائی میں پیوست ہیں اور اسی بنیاد پر سیاسی نظام کی ہر یونٹ اپنے عالمی رول کو ادا کر سکتی ہے اور بقدر کافی دیگر ممالک اور دیگر سیاسی یونٹوں سے متصل رہ کر اپنے نقص وجودی کو کم کر سکتی ہے ۔
یہاں پر اس بات کا تذکرہ ضروری ہے کہ اپنے رول کی ادائیگی کے لئے اس بات سے آگاہ و باخبر ہونا ضروری ہے کہ اہرامی شکل کا وہ سلسلہ مراتب کہ جس کی عالمی توسیع کی درپے ڈیموکراسی ہے درحقیقت اب ختم ہوتا جارہا ہے اور نابودی کے کگار پر ہے اور اس کی جگہ قدرت کا ایک درخت نمونہ نما جانشین کے طور پر وجود میں آ رہا ہے ، اہرامی شکل کے سلسلہ مراتب کا ڈھانچے میں قدرت و طاقت کا مطلب کنڑول کرنا اور حکم دینا ہے اب یہ سلسلہ مراتب اپنی جگہ ایک ایسے ڈھانچہ کو دے رہا ہے جس میں کئی ایک دوسرے سے متصل حلقوں میں قدرت تقسیم ہو رہی ہے اس سیاسی ڈھانچہ میں قدرت و طاقت کا مفہوم ایک دوسرے سے جڑے رہنا اور دیگر سیاسی یونٹوں سے تعلق بنائے رکھنا ہے یہ ایسا ڈھانچہ ہے جس میں قدرت و طاقت کا تعین اثر رسوخ و نفوذ کی شرح کے ساتھ گھٹتا بڑھتا ہے اس میں اس ملک یا اس ملک پر لگام نہیں کسی جاتی ۔
قدرت و طاقت کے درختی تصور میں ایک ایسی سیال دنیا کا وجود سامنے آتا ہے کہ جس کا ثبات مختلف شعبوں اور تنظیمیوں کی بنیادوں پر نہیں ہے بلکہ اس کا ثبات تبدیلیوں پر استوار ہے، اس لئے کہ یہ ایک ایسی دنیا ہے جس میں زیادہ لچک پائی جاتی ہے اور یہ زیادہ با ثبات ہے ایک ایسی دنیا جسے حیاتیات{Biology.} کے پروگرام کے مطابق تعمیر کرنا ہوگا فزکس کے قوانین کے مطابق یہ وہ دنیا ہے جسے ڈیموکراسی کے ان اصولوں سے ماوراء ہو کر بنانا ہوگا کہ جن کی کوشش یہ ہے کہ واحد اور غیر لچک دار دستور کے مطابق ایک دوسے سے ہم آہنگ نظام کو دنیا میں پھیلا دیا جائے ۔
ناکار آمد فیصلوں کا مرحلہ وار عمل
فکرو اندیشہ ڈیموکراسی کو آزادی سے جوڑتا ہے ، لیکن آزادی کے معنی اگر اپنی سرنوشت کے انتخاب ، یا قدرت کو لگام دینے کے معنی ہیں تو یہ اب اپنے زوال کے دور سے گزر رہے ہیں قدرت کے نفاذ پر نظارت کا دور اب ختم ہوگیا ہے اور اس کے ساتھ پوری عالمی جمہوریت کی کشش کا رنگ اب پھینکا پڑ گیا ہے ۔
در حقیقت کچھ لوگوں کے ارادوں کو دوسروں کے سر تھوپنا اقلیت کی آزادی کے لئے ایک خطرہ ہے اس ڈیموکراسی کے کھیل کے اصول و ضوابط ہی ڈیموکراسی کو نافذ کرنے کے معیاروں کو معین کرتے ہیں اس میں کوئی حساب کتاب نہیں ہے اور سیاسی فیصلوں پر بھی کوئی جانچ پڑتال نہیں ہے جس کا نتیجہ یوں سامنے آیا ہے کہ ڈیموکریسی کے اس کھیل میں من مانی کرنے پر کوئی روک ٹوک نہیں ہے چنانچہ اجتماعی بھید بھاوئو اور چپقلشوں میں اضافہ ہوا ہے ، جبکہ جاپان کا سیاسی اور اجتماعی نظام امریکہ کے دیموکراسی کے کھوکھلے دعووں سے بہتر طور پر عمل کر رہا ہے ، اس لئے کہ اس میں کسی بھی سیاسی فیصلہ سے قبل مختلف میٹنگیں ہوتی ہیں ان میٹنگوں میں تمام نظریات کو سامنے آنے کا موقع ملتا ہے اور بغیر کسی ڈر اور خوف کے مختلف نظریات پیش کیے جاتے ہیں کسی ایک نتیجہ تک پہچنے کے لئے جلسوں اور میٹنگوں کی تعداد کا زیادہ ہونا ہرگز فرضی نہیں ہے بلکہ گفتگو کے اختتام پر بیان کیے گئے نظریات کو صیقل کیا جاتا ہے جس سے بہتر نظریات نمایاں ہو جاتے ہیں ، آخری فیصلہ تمام چھوٹے چھوٹے فیصلوں کو ملا کر کیا جاتاہے ، ان میٹنگوں کا ایک فائدہ یہ ہے کہ تمام وہ لوگ جو ان میٹنگوں میں حاضر ہوتے ہیں وہ اپنے فیصلوں کی آنے والی ذمہ داریوں میں شریک ہو جاتے ہیں اور اس طرح انہیں پتہ چلتا ہے کہ انکا فیصلہ صحیح تھا یا غلط چنانچہ اگر صحیح نہ ہو تو پھر اس کی اصلاح کرتے ہیں ، جاپان اس لحاظ سے بالکل امریکہ کے مقابل کھڑا نظر آتا ہے ، اس لئے کہ امریکائی منطق سب پر یہ حکم نافذ کرتی ہے کہ اپنے تمام امکانات و وسائل کا استفادہ اس جنگ میں کامیابی کے لئے کیا جائے جس میں حق و ناحق کا فیصلہ اجتماعی قرار دادوں کا قانون کرتا ہے، لیکن جاپان کی منطق اعتدال و احتیاط کی تاکید کرتی ہے ، فیصلہ لینے کے اس طریقہ کار میں نہ کوئی مرکز ہے نہ کوئی بڑی طاقت ، بلکہ یہاں ایسے بہت سے گروہ نظر آئیں گے جن کی کوشش یہ ہوتی ہے کہ اپنے ساتھی گروہ کی طاقت کو نقصان پہچائے بغیر فیصلہ لے سکیں اور اس کے نفاذ کی شرح میں اضافہ کر سکیں یہاں پر دونوں گروہ جب فیصلہ کی گھڑی آتی ہے تو دو طرفہ طور پر اپنے اپنے دائرہ میں رہ کر اپنی بات کو پیش کرنے کی دو بنیادی اصولوں کے پابند ہیں لہذا اس صورت میں اب کوئی اور ایسی قدرت کا وجود ہی نہیں ہوتا جو ان کی تابع ہو بلکہ جو کچھ ہوتا ہے وہ ایسی قدرت و طاقت کی شکل میں ہے جو تقسیم ہو چکی ہے یا یوں کہا جائے ذروں ذروں میں بکھرنے کے بجائے پھیل گئی ہے اور اسی وجہ سے آپسی ستیز و جنگ کو اس نے بے اثر بنا دیا ہے اس کے برخلاف امریکائی فیصلوں کے چینل میں اگر کوئی بڑی طاقت کہیں سر اٹھاتی ہے تو اسے فی الفور کچل دیا جاتا ہے یا اس مرکز کو تتر بتر کر دیا جاتا ہے ۔