-
Thursday, 9 July 2020، 09:49 PM
خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: گزشتہ سال یعنی ۲۰۱۹ میں سوئٹزرلینڈ میں ’’بہنام بہرامی‘‘ نامی ایک ایرانی کارٹونسٹ کی مشکوک حالت میں موت واقع ہوئی تھی۔ لیکن ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ اس مشکوک موت کے پیچھے کسی ایجنسی کا ہاتھ ہے، اس حوالے سے خیبر صہیون تحقیقاتی سینٹر نے بہنام بہرامی کی بہن محترمہ ’الہام بہرامی‘ کے ساتھ گفتگو کی ہے جو حسب ذیل ہے؛
خیبر: سب سے پہلے آپ اپنا تعارف کروائیں اور اس کے بعد بہنام بہرامی کی شخصیت، ان کی اخلاقی خصوصیات اور سرگرمیوں کے بارے میں کچھ بتائیں۔
میں الہام بہرامی، صہیونیت مخالف معروف کارٹونسٹ بہنام بہرامی کی بہن ہوں۔ ہم دو بہنیں اور دو بھائی اپنی فیملی کے افراد تھے۔ میں سب سے چھوٹی ہوں، اور بہنام تیسرے نمبر کے تھے بہنام نے ایسا کام اختیار کیا جس سے وہ مظلوموں کی آواز کو دنیا والوں کے کانوں تک پہنچا سکیں، میری نظر میں اس کا یہ کام کسی جہاد سے کم نہیں تھا۔
میرا بھائی بہت مہربان، باادب اور ہنس مکھ مزاج کا آدمی تھا۔ جس محفل میں وہ ہوتا تھا اپنی مزاحیہ گفتگو سے اس محفل کو گرم کر دیتا تھا، سب اسے دوست رکھتے تھے۔ ہماری پوری فیملی ایک دوسرے سے سخت وابستہ تھی۔
بہنام ایک فعال اور ایکٹو آدمی تھا، مجھے یاد نہیں ہے کہ وہ کبھی بے کار بیٹھا ہو اور اس نے اپنا وقت ضائع کیا ہو، بچپنے سے ہی اسے مسجد سے لگاؤ تھا، اور مذہبی سرگرمیاں انجام دیتا تھا۔ قرآن کے دروس کو کبھی ترک نہیں کرتا تھا اور ’’راہیان نور‘‘ کاروان کے ساتھ شہداء کی لاشوں کو تلاش کرنے کے پروگراموں میں بھی شرکت کرتا تھا۔
بہنام شروع سے ہی ثقافتی کاموں کے پیچھے رہتا تھا، اس کے کارٹونوں اور خاکوں کے موضوعات بھی ثقافتی ہوتے تھے۔ وہ روزنامہ قدس، اخبار شہرآرا، ابرار اور تہران کے کچھ جریدوں کے ساتھ منسلک تھا۔ اس کے ثقافتی کام اتنے زیادہ تھے کہ میں بہن ہونے کے عنوان سے بھی اس کے تمام کاموں سے آگاہ نہیں تھی۔ وہ خود بھی کچھ نہیں بتاتا تھا۔ وہ ایسا آدمی نہیں تھا کہ اپنی تعریف کرے۔ ہمیشہ خدا کا نام اس کی زبان پر تھا اور کہتا تھا: انسان کو صرف خدا کے لیے کام کرنا چاہیے۔ اس کے تمام دوست سنجیدہ، مذہبی اور ثقافتی میدان میں ایکٹو افراد تھے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ جب بہنام نے صہیونیت مخالف معروف کارٹون بنایا تو اس کے اندر ایک عجیب و غریب خوشی کا احساس پیدا ہوا اور کہہ رہا تھا کہ میں اسی کارٹون کے لیے پیدا ہوا ہوں میری زندگی کا پہلا اور آخری یہی کارٹون ہے۔ بہنام نے سلمان رشدی کے بارے میں بھی خاکے بنائے تھے۔
خیبر: آپ کے بھائی نے موت سے پہلے کسی طرح کے دباؤ یا دھمکی کے بارے میں آپ سے کچھ نہیں کہا تھا؟
میرے بھائی کا تقریبا ۱۰۰ کلو وزن تھا اور قد بھی کافی لمبا تھا، ایک بار وہ مجھے کہنے لگا کہ مجھے کوئی ایسی دوائی ڈریپ میں ڈال کر چڑھا دی ہے کہ میرا وزن نہیں بڑھ رہا ہے اور میری کھال سیاہ ہو رہی ہے، مجھے یقین ہے کہ مجھے تیزاب والا پانی چڑھا دیا ہے۔
بہنام کو مستقل زیر نظر رکھا جا رہا تھا۔ یہاں تک کہ وہ باہر جانے کے قابل بھی نہیں تھا.جیسے ہی وہ گھر سے باہر نکلتا تھا مجھے یقین ہے کہ اس کا پیچھا کیا جاتا تھا۔ یہاں تک کہ ایک مرتبہ اس کے گھر کی چابی بھی چرا لی گئی لہذا وہ ہمیشہ بہت احتیاط کرتا تھا اور ہوشیار رہتا تھا۔
اب بھی ہمیں اس کے ذاتی سامان میں سے کچھ بھی نہیں ملا ہے، نہ لیپ ٹاپ نہ موبائل ، اور سوئٹزرلینڈ کی حکومت ایسے سلوک کرتی ہے جیسے کہ بہنام نامی کوئی شخص تھا ہی نہیں۔ البتہ میرے لیے یہ چیز عجیب نہیں ہے چونکہ ایسے واقعات تاریخ میں بہت تکرار ہوئے ہیں۔
خیبر: اس حوالے سے قانونی کاروائی جو آپ نے کی اس کے بارے میں کچھ بتائیں گی؟
میرے والد نے وزارت خارجہ کے ذریعے کافی پیچھا کیا، لیکن حقیقت یہ ہے کہ کسی نتیجہ تک نہیں پہنچے، یہاں تک کہ میرے والد کو یہ کہہ دیا کہ ہم کسی پر دباؤ نہیں ڈال سکتے۔
جب ہمیں اس کی موت کی اطلاع دی تو ساتھ ساتھ ہم پر یہ دباؤ ڈالا کہ ہم اجازت دیں بہنام کو سوئٹزرلینڈ میں ہی دفن کریں، ہم موت کی وجہ پوچھتے تھے لیکن کوئی معقول جواب نہیں دیتا تھا وہ ایسا وقت تھا جب ہماری ماں کا بھی انہیں دنوں انتقال ہوا تھا۔
مجھے یہ پورا یقین ہے کہ میرے بھائی کو صہیونیوں نے قتل کیا، اس لیے کہ صہیونیوں کی سرخ لکیر ہولوکاسٹ ہے وہ کسی کو اس بارے میں ایک لفظ بولنے کی اجازت نہیں دیتے۔ اور بہنام نے ٹھیک ان کی اسی دکھتی ہوئی رگ پر انگلی رکھی تھی اور ہولوکاسٹ کا آخری کارٹون بنایا تھا جس کے بعد اس کی موت ہو گئی۔
افسوس اس بات کا ہے کہ یورپ میں آزادی اظہار کی آڑ میں پیغمبر اسلام کا کارٹون بنایا جاتا ہے، اسلامی مقدسات کی توہین کی جاتی ہے لیکن کسی کو اس بات کا حق نہیں ہے وہ ہولوکاسٹ کے بارے میں گفتگو کر سکے، ہولوکاسٹ ان کی ریڈ لائن ہے، اور مغربی ممالک صرف اپنے اور اسرائیل کے مفاد کے لیے ایسا کرتے ہیں۔
رہبر انقلاب ہمیشہ اپنی تقریروں میں اس نکتے کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ مغربی ممالک؛ سوئٹزرلینڈ ، فرانس، جرمنی وغیرہ سب اسرائیل کو تحفظ دینے کے لیے کچھ بھی کر سکتے ہیں۔ جب کسی ملک کی جغرافیائی سرحد کو محفوظ رکھنا ہو تو وہ الگ مسئلہ ہے لیکن جب اسرائیل کو نفسیاتی امنیت بھی فراہم کرنا ہو تو پھر جغرافیائی حدود ختم ہو جاتی ہیں۔
میرے بھائی ہمیشہ صہیونیت مخالف سرگرمیاں انجام دیتا تھا اور اس کا آخری کارٹون ہولوکاسٹ کے خلاف تھا، اور وہ انہیں ملکوں میں سے ایک میں تھا جن کے بارے میں رہبر انقلاب نے اشارہ کیا تھا لہذا مجھے یقین ہے کہ میرا بھائی راہ قدس کا شہید ہے اور اصلی دشمن یعنی صہیونیت کے ہاتھوں شہید ہوا ہے۔
خیبر: پروردگار آپ کو صبر عطا کرے اور انہیں غریق رحمت کرے۔