عالمی صہیونیت کی نظریاتی اور عملی نشانیوں پر ایک نظر

  • ۴۰۴

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: عالمی صہیونیت ایک ایسی اصطلاح ہے جو عرصہ دراز سے دنیا کی تاریخ سیاست میں استعمال ہوتی چلی آ رہی ہے۔ درج ذیل گفتگو اسی موضوع پر مشتمل ہے جو “خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ” نے موساد کے جاسوسی چینلز اور ایران و حزب اللہ میں جاسوسی کے واقعات کو داستانوں کی صورت میں پیش کرنے والے داستان نگار اور “حیفا”، “کف خیابان” اور “نہ” کتابوں کے مولف حجۃ الاسلام و المسلمین “محمد رضا حداد پور جہرمی” کے ساتھ انجام دی ہے۔
خیبر: کیا آپ بتا سکتے ہیں کہ عالمی صہیونیت سے کیا مراد ہے؟ اور عالمی صہیونیت اور عالمی استکبار کے درمیان کیا فرق ہے؟
استاد جہرمی: بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ میں اپنی گفتگو کو دو مختصر مقدموں کے ذریعے شروع کرنا چاہوں گا۔
پہلا مقدمہ؛ صہیونیت ایک ایسی فکری تنظیم کا نام ہے جو موجودہ دور میں سو فیصد انحرافی عقائد پر مشتمل ہے اور یہودیت کے مقدسات سے ناجائز فائدہ اٹھا کر پوری دنیا پر اپنا تسلط جمانا چاہتی ہے۔ یقینا اس تنظیم کی جڑیں بہت پھیلی ہوئی ہیں لیکن یہاں پر ہم اس موضوع پر گفتگو نہیں کر سکتے۔ عالمی صہیونیت ایک تاریخی اور وسیع تحریک ہے۔  بہت سارے لوگوں نے اس کے بارے میں بہت کچھ کہا ہے اور عالمی صہیونیت سے مراد کیا ہے اسے تفصیل سے بیان کیا ہے اور مختلف تعریفیں کی ہیں۔ لیکن ان کی کسی ایک تعریف پر قانع ہونا مشکل ہے۔ بطور کلی یہ کہا جا سکتا ہے کہ یہ ایک ایسا طرز تفکر ہے جو مکمل طور پر انحرافی ہے لیکن دینی مقدسات کو وسیلہ بنا کر سیاسی اغراض و مقاصد کی خاطر میدان سیاست و ثقافت میں داخل ہوا ہے۔ وہ سیاسی اغراض و مقاصد جو پورے یقین کے ساتھ کہا جا سکتا ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے زمانے میں ان کے مخالفین کے ذریعے منصوبہ بندی کئے گئے تھے اور جن کی بنیادیں انحرافی عقائد پر رکھی گئی تھیں۔ لیکن قابل توجہ بات یہ ہے کہ یہ انحرافی طرز تفکر صرف یہودیوں میں ہی منحصر نہیں ہے بلکہ عیسائیت اور اسلام کے اندر بھی یہ انحرافی اور صہیونی تفکر وجود پا چکا ہے اور آج ہم عیسائی صہیونیت اور اسلامی صہیونیت سے روبرو ہیں۔
عیسائی اوراسلامی صہیونیت
دوسرا مقدمہ یہ ہے کہ تقریبا چالیس سال قبل صہیونیت صرف یہودیوں پر ہی اطلاق ہوتی تھی اور عیسائی صہیونیت یا اسلامی صہیونیت کو کوئی نہیں پہچانتا تھا اور عام طور پر قوم حضرت موسیٰ کی ایک شاخ جو یہودی ہی تھے کو صہیونی کہا جاتا تھا لیکن عصر حاضر میں یہ انحرافی تفکر عالمی سطح پر پھیل چکا ہے اب صہیونیوں سے مراد صرف یہودی ہی نہیں ہوتے بلکہ انحرافی فکر رکھنے والی وہ عالمی تنظیم ہے جس میں صہیونیت کی جڑیں پیوستہ ہیں۔
عالمی صہیونیت اب یہودیوں سے مخصوص نہیں ہے بلکہ یہ عیسائیوں میں بھی سرایت کر چکی ہے اور اس کی خطرناک ترین شکل اسلامی معاشرے میں انتہا پسند گروہوں کی شکل میں سامنے آ رہی ہے۔
یہ انتہا پسند گروہ جو اسلامی معاشرے میں پنپ رہے ہیں تکفیری گروہ ہیں جو اس سے پہلے اہل سنت اور وہابیت سے جنم لیتے تھے اب شیعوں میں بھی کام کیا جا رہا ہے اور شیعوں میں تکفیری ٹولہ کو سامنے لانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
عالمی صہیونیت
لیکن بنیادی سوال جس پر ہمیں غور کرنے کی ضرورت ہے وہ یہ ہے کہ ہم کیسے عالمی صہیونیت کو پہچانیں، اسے پہچنوائیں اور اس کا مقابلہ کریں۔ لہذا ضروری نہیں ہے کہ ہم اپنا ٹارگٹ صرف اسرائیل کو بنائیں اور اسرائیل پر تمرکز اختیار کر لیں اور باقی مسائل سے آنکھیں بند کر لیں۔ بلکہ یہ انحرافی تفکر آج ہر معاشرے میں سرایت کر چکا ہے اور پوری دنیا صہیونی تفکر کی لپیٹ میں آچکی ہے۔
اب اگر کوئی یہ سوال کرے کہ یہ صہیونی تفکر جس کی منشا یہودیت ہے اور اب عیسائیت اور اسلام کے اندر بھی پھیلتا جا رہا ہے اس کی بنیادی نشانیاں کیا ہیں؟ تو کم سے کم تین بنیادی نشانیوں کی طرف اشارہ کیا جا سکتا ہے۔
خیبر: یعنی ان تین نظریاتی نشانیوں کے ذریعے عالمی صہیونیت کو پہچانا جا سکتا ہے؟
استاد جھرمی: جی ہاں، تین نظریاتی اور دو علمی نشانیوں کے ذریعے عالمی صہیونیت کو پہچانا جا سکتا ہے؛
عالمی صہیونیت کی نظریاتی نشانیاں
۱۔ تکفیریت
تکفیریت پہلی نظریاتی نشانی ہے جس کے ذریعے صہیونی اور افراطی فکر رکھنے والے گروہ کو پہچانا جا سکتا ہے تکفیریت کا مطلب یہ ہے کہ صرف ہم اہل ایمان اور اہل نجات ہیں اور ہمارے علاوہ دوسرے کافر ہیں اور انہیں نجات نہیں مل سکتی لہذا انہیں روئے زمین پر جینے کا حق نہیں ہے انہیں صفحہ ھستی سے مٹانا چاہیے۔
۲۔ مخالفین کو مٹانا
دوسری نظریاتی علامت مخالفین کو مٹانے کی کوشش ہے یعنی اس طرز فکر میں مذاکرات کرنا، ایک دوسرے سے سمجھوتے کی بات کرنا، گفتگو کی میز پر بیٹھنا بالکل ممنوع ہے اور مخالف شخص کو صرف مٹانے اور راستے سے ہٹانے کی سوچ بچار کی جاتی ہے۔ اور اس کام کو مقدس اور چوقدس سمجھا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر بارہا سنا اور دیکھا کہ کہ اسرائیل ٹی وی چینل سے اعلان کیا جاتا ہے کہ ہم فلاں جنرل کو مٹانے کا منصوبہ رکھتے ہیں۔ اور حتیٰ وہ اس کام کو دھشتگردی بھی نہیں سمجھتے۔
۳۔ عالمگیر سوچ رکھنا
تیسری نشانی اور علامت یہ ہے کہ صہیونی تفکر کے مالک افراد کوشش کرتے ہیں کہ عالمگیر اور گلوبل سوچ رکھتے ہوں وہ اپنے ہر کام اور منصوبے میں گلوبل فکر کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ وہ اپنی کلاسوں میں کہتے ہیں گلوبل فکر کرو لیکن ایک محلے سے کام شروع کرو۔
یہ تین نشانیاں ان کی نظریاتی نشانیاں اور علامتیں ہیں جن کے ذریعے ہم صہیونی گروہوں کو پہچان سکتے ہیں۔ البتہ ممکن ہے کوئی دسیوں علامتیں بھی بیان کرے لیکن یہ وہ موارد ہیں جو مسلّم و یقینی اور عملی طور پر بھی قابل مشاہدہ ہیں یعنی ہم سب ان مسائل کے روبرو ہیں۔
عالمی صہیونیت کی عملی نشانیاں
ان کی دو عملی نشانیاں ایسی ہیں کہ جو انہیں دیکھتا ہے فورا اس کا ذہن اس عالمی صہیونیت کی طرف منتقل ہو جاتا ہے۔
۱۔ سمبل پرستی
پہلے تو یہ بے انتہا سمبل پرست ہیں۔ جیسا کہ جب شیطان پرستی سماج میں پھیل رہی تھی تو اس سے پہلے ایک عرصے تک شیطانی سمبل پر کام کیا جا رہا تھا۔ اسی طرح داعش نے اپنے آغاز میں اپنے سمبلز پر کام کرنا شروع کیا تھا۔
۲۔ رعب و دبدبہ کے ذریعے حکومت کی تشکیل
دوسری عملی علامت یہ ہے کہ یہ سماج میں رعب و دبدبہ اور دھشت پیدا کر کے حکومت قائم کرنا چاہتے ہیں۔ یعنی لوگوں کو ڈراؤ اور ان پر حکومت کرو ان کا نعرہ ہے۔
دیگر تمام مسائل چاہے وہ اقتصادی ہوں یا ثقافتی، سیاسی ہوں یا سماجی انہیں پانچ مرکزی نکات کے اردگرد گھومتے ہیں۔ اس وقت ہم پوری دنیا میں انہیں مسائل کے روبرو ہیں۔ میں اسی زاویہ نگاہ سے صہیونیت پر کام کر رہا ہوں۔ لہذا میری پہلی کاوش جو داعش کے حوالے سے منظر عام پر آئی ہے “ایک تکفیری کی آدھی جلی ہوئی کاپی” ہے اور پہلا بین الاقوامی سطح کا پروجیکٹ جس پر قومی حدود سے بالاتر فکر کے ساتھ کام ہوا ہے وہ کتاب “حیفا” ہے۔ بریکٹ میں عرض کروں کہ ’’حیفا‘‘ ایک شخص کا نام ہے اور ’’ہیفا‘‘ جو شہر کا نام سے اس سے مختلف ہے۔ اور دوسرا ہمارا بین الاقوامی سطح کا کام کہ جس میں، میں نے کوشش کی ہے کہ مخاطب کا ہاتھ پکڑ کو دھیرے دھیرے اسے زمان و مکان کی حدود سے باہر لاؤں اور مخاطب زمان و مکان کی قیود سے ماوراء آکر سوچے وہ کتاب “نہ” ہے۔ یہ چند ایک مقدماتی باتیں تھی جو بیان کیں۔
خیبر: آپ کی مذکورہ گفتگو کے پیش نظر ہم عالمی صہیونیت کو گویا ایک طرح کا مکتب فکر مان لیں؟
استاد جہرم:۔ جی ہاں یہ ایک ایسا مکتب فکر ہے جو اقتصادیات و سیاسیات کے میدانوں سے باہر نکل چکا ہے۔ یعنی اس نے انسانیت سے سب سے بڑا انتقام لے لیا ہے۔ اس لیے کہ امام خمینی (رہ) اور انقلاب اسلامی سے پہلے صہیونیوں نے سنا تھا کہ وہ زوال اور نابودی کی طرف گامزن ہیں۔ لہذا اہم ترین کام جو انہوں نے کیا وہ یہ تھا کہ انہوں نے اپنی فکر کو دیگر ممالک اور دیگر ادیان کے اندر ٹھونس دیا۔ لہذا جب وہ اس کام کو انجام دینے میں کامیاب ہو گئے ہیں اب اگر جعلی ریاست جو اسرائیل ہے وہ نابود بھی ہو جائے تو صہیونی فکر ختم نہیں ہو پائے گی۔ جیسا کہ حال میں داعش کے ساتھ ہوا۔ داعش کو عراق و شام میں تو شکست مل گئی وہاں اسے نابود کر دیا لیکن فکر داعش تو پوری دنیا میں پھیل چکی ہے مثال کے طور پر گزشتہ ۸، ۹ ماہ کے دوران ایران میں جو دھشتگردانہ حملے ہوئے ہیں یہ سب داعشی فکر کا نتیجہ ہیں۔ لہذا اس بات کو نہیں بھولنا چاہیے جیسا کہ ہمارے بہت سارے دوست صرف اسرائیل کی نابودی کے بارے میں سوچتے ہیں کہ اسرائیل مٹ گیا تو صہیونی فکر ختم ہو جائے گی۔ در حقیقت اسرائیل کی نابودی پہلا مرحلہ ہے اور ہمارا اصلی کام اسرائیل کی نابودی کے بعد شروع ہو گا۔
خیبر: بہت بہت شکریہ جو آپ نے اپنا قیمتی وقت ہمیں دیا۔
ترتیب و تدوین؛ مجید رحیمی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۲۴۲

عرب یونین اقوام عالم کے حقوق کی محافظ یا سعودی اور صہیونی مفادات کی حامی؟

  • ۳۹۸


خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: عرب لیگ ایسا ادارہ ہے جو تقریبا 75 سال قبل عرب دنیا کی اقوام کے حقوق کے تحفظ کے لئے قائم کیا گیا۔ اس عرب ادارے کے قیام کے بعد، اس کے عہدیداروں نے اعلان کیا کہ عرب ممالک کی علاقائی سالمیت کا تحفظ اور ان کے اتحاد کی حفاظت اس کے اہم مشن میں سے ایک ہے۔
تاہم، پچھلی دہائی یا اس سے زیادہ عرصے میں، عرب لیگ نہ صرف اپنے بیان کردہ اہداف میں سے کسی کو حاصل کرنے میں ناکام رہی ہے ، بلکہ اس کے برخلاف ، اپنے اہداف کی قطعی مخالف سمت حرکت کرتی رہی ہے۔ گذشتہ برسوں کے دوران ، عرب لیگ کی غیر موثر سرگرمیوں کی وجہ سے ، ہم شام ، عراق ، یمن ، لیبیا ، سمیت عرب دنیا کے مختلف حصوں میں شدید بحرانوں کے ظہور کا مشاہدہ کرتے آ رہے ہیں۔
اس کے علاوہ ، فلسطین کے مسئلے پر عرب لیگ کا غیر ذمہ دارانہ رویہ اس مسئلے کے پیچیدہ ہونے کا باعث بنا ہے۔  

مسئلہ فلسطین صرف ایک مشغلہ ہے!
عرب لیگ کا فلسطینی مسئلے کو فراموش کرنا ، تنظیم کے عہدیداروں کا اسلامی دنیا اور عرب دنیا کے ساتھ گذشتہ برسوں میں سب سے بڑا دھوکہ ہے۔ عرب لیگ نے اب تک غاصب صہیونی حکومت کے ذریعے چھینے گئے فلسطینیوں کے حقوق کی بازیابی کے لئے کوئی عملی اقدام نہیں کیا۔ یونین مقبوضہ علاقوں میں ہونے والی پیشرفت اور فلسطینیوں کے خلاف صہیونیوں کے مخالفانہ اقدامات پر صرف زبانی اور بے سود موقف اختیار کرنے پر اکتفا کرتی رہی ہے۔
بہت سارے ماہرین اور سیاسی مبصرین کا خیال ہے کہ فلسطین کا مسئلہ عرب لیگ کے لئے محض ایک مشغلہ بن گیا ہے ، اس طریقے سے کہ یونین کے ممبران وقتا فوقتا فلسطینیوں کے خلاف صیہونی اقدامات کی مذمت کرتے ہوئے چند بیانات جاری کر دیتے ہیں ، لیکن عملی طور پر بے دفاع فلسطینی لوگوں کے خلاف اقدامات کو روکنے کے لئے ایک قدم بھی نہیں اٹھاتے۔
فلسطین کے مسئلے پر عرب لیگ کے اس غیر ذمہ دارانہ رویے کو دیکھ کر صہیونیوں نے فلسطینیوں کے خلاف مزید جرائم کا ارتکاب کیا ہے۔ یہ ایسے حال میں ہے کہ عرب لیگ ، بحیثیت عربی ادارہ فلسطینی عوام کے خلاف صہیونیوں کی غنڈہ گردی کو روکنے کی ضروری صلاحیتوں کی حامل ہے۔

لہذا یہ کہا جاسکتا ہے کہ مقبوضہ علاقوں میں صہیونی اقدامات کے مقابلے میں عرب لیگ کی رضامندی در حقیقت ایک سوچا سمجھا منصوبہ ہے جس کا اصلی مقصد تل ابیب کے مفادات کا تحفظ کرنا ہے۔ گویا عرب لیگ یہ کہنے سے دریغ نہیں کرتی ہے کہ وہ فلسطین میں "دونوں ریاستوں کے سمجھوتہ حل" پر یقین رکھتی ہے۔

 

اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کی حمایت
دوسری طرف ، وہ بات جس کی وجہ سے عرب لیگ کے عمومی افکار کو صیہونیت کے مفادات کی حمایت میں دیکھا جاتا ہے نہ کہ فلسطین کی ، یہ ہے کہ یہ یونین حالیہ برسوں میں صہیونی حکومت کے ساتھ اپنے ممبروں کے تعلقات معمول پر لانے کے عمل کے خلاف خاموش رہی ہے۔ یہاں تک کہ ان چند موارد میں جن میں عرب لیگ نے صہیونی حکومت کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کے عمل کے خلاف اپنی زبان کھولی ہے ، ہم نے دیکھا ہے کہ ان موارد میں بھی صرف زبانی اور سرسری موقف اپنایا ہے، اور کبھی کوئی ٹھوس فیصلہ یا قرارداد منظور نہیں کی جو عالم اسلام کے مفاد میں ہو۔
اس سے پتہ یہ چلتا ہے کہ ایک طرح کی "دوہری پالیسی" عرب لیگ کی حکمت عملیوں پر حاکم ہے، جہاں ایک طرف فلسطینیوں کی حمایت کا دعوی کرتی ہے، اور دوسری طرف اپنی خاموشی سے صیہونیت کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کا جواز فراہم کرتی ہے۔ یہ فطری بات ہے کہ اس طرح کی پالیسی نے مذکورہ یونین کے بارے میں عالم اسلام کی نفرت کو دوگنا کردیا ہے۔
خود عرب لیگ کے عہدیدار بخوبی واقف ہیں کہ صیہونی حکومت کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کا مقصد فلسطین کے مسئلے کا خاتمہ ہے۔ تاہم ، وہ ایسے معاملات پر ردعمل ظاہر کرنے سے گریزاں ہیں۔ یہی چیز سبب بنی ہے کہ عرب لیگ فلسطین سے زیادہ صیہونیت کے مفادات کی حامی ہو۔

 

سوشل ازم اور تاریخ (۲)

  • ۳۶۵

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: گزشتہ سے پیوستہ

بابل میں ۱۷۵۰ قبل مسیح میں حمورابی (Hammrurabi) کے ضابطہ قانون کے مطابق چرواہوں اور کاریگروں کی اجرتیں اور جراحی کے لیے طبیبوں کے معاوضے مقرر تھے۔
مصر کے بادشاہوں ٹال میز (Ptolemies) کے دور حکومت میں زمین ریاست کی ملکیت تھی اور حکومت زراعت کا انتظام چلاتی تھی۔ کسانوں کو اس امر کی ہدایات کی جاتی تھیں کہ انہوں نے کونسی زمین جوتنی ہے، کیا فصل اگانی ہے، اس فصل کی باقاعدہ پیمائش ہوتی اور اس کا سرکاری کھاتوں میں اندراج کیا جاتا۔ حکومت نے تیل، نمک، پیپرس اور کپڑے کی پیداوار اور فروخت کو بھی قومیا لیا تھا۔ دیگر تمام تجارت حکومت کے تابع اور اس کے کنٹرول میں تھی۔ اکثر خوردہ تجارت کا انتظام بھی حکومت کے کارندوں کے ہاتھ میں تھا جو حکومت کی پیدا کردہ اشیاء فروخت کرتے تھے۔
بنکاری پر حکومت کی اجارہ داری تھی لیکن انتظام نجی فرموں کے سپرد تھا۔ پیداوار فروخت اور قانونی دستاویزات کی تحریر پر ٹیکس نافذ تھے۔ قابل ٹیکس آمدنیوں اور معاہدوں سے باخبر رہنے کے لیے حکومت نے ذاتی آمدنی اور جائیداد کے اندراج کے ایک پیچیدہ نظام کے علاوہ منشیوں اور کاتبوں کا ایک جم غفیر رکھا ہوا تھا۔ اس نظام کے محاصل نے ٹالمیز کی سلطنت کو اپنے وقت کی امیر ترین ریاست بنا دیا۔
روم میں بھی ڈٓایا کلیشن (Diocletion) کے دور حکومت میں کچھ عرصہ سوشلسٹ نظام رائج رہا، عوام میں بڑھتی ہوئی غربت اور بے چینی اور وحشیوں کے حملے کے فوری خطرے کا مقابلہ کرنے کے لیے اس نے ۳۰۱ء میں ایک حکم کے ذریعے اشیاء کی چور بازاری کی ممانعت کر دی۔ تمام اہم اشیاء اور خدمات کے لیے زیادہ سے زیادہ قیمتیں اور معاوضے مقرر کر دئے گئے۔ بے روزگاروں کو کام مہیا کرنے کے لیے وسیع پیمانہ پر رفاہ عام کی تعمیرات شروع کر دی گئیں۔ غریبوں کے لیے مفت یا کم قیمت پر مہیا کرنے کا انتظام کیا گیا۔ حکومت جو کہ پہلے ہی معدنیات، قیمتی پتھروں اور نمک کی کانوں کی مالک تھی اب بڑی صنعتوں اور کارگاہوں کو بھی اپنے قبضے میں لے لیا۔
پال لوئیس کے بقول ہر بڑے شہر میں ریاست نے ایک ایسے طاقتور آجر کی حیثیت اختیار کر لی جو بھاری ٹیکسوں کے بوجھ تلے دبے ہوئے صنعت کاروں کے مقابلے میں پر لحاظ سے بہتر پوزیشن میں تھی۔
معاشی طور پر لوگوں پر قابو پانا ڈٓایا کلیشن کی وسعت پذیر، مہنگی اور بدعنوان افسر شاہی کے لیے بہت کڑا مرحلہ ثابت ہوا۔ اس وسیع کاروبار سلطنت جو کہ فوج، عدلیہ، رفاہ عامہ کی تعمیرات اور خیرات و بخشش پر مبنی تھا، کے اخراجات پورے کرنے کے لیے اس قدر زیادہ ٹیکس لگائے گئے کہ لوگوں کو کام کرنے اور کمانے کی کوئی رغبت نہ رہی اور ٹیکس بچانے کے نت نئے طریقے تلاش کرنے والے وکلاء اور ٹیکس چوری کو روکنے کے لیے قوانین بنانے والے وکلاء کے درمیان ایک تباہ کن جنگ شروع ہو گئی۔ ٹیکس کی ادائیگی سے بچنے کی خاطر ہزاروں رومی باشندوں نے ملک سے فرار ہو کر وحشیوں کے پاس پناہ لے لی۔ اس فرار کو روکنے اور ٹیکسوں کے قوانین میں نرمی پیدا کرنے کی خاطر حکومت نے احکامات جاری کر دئیے۔ جن کے تحت تمام قرضوں اور ٹیکسوں کی مکمل ادائیگی تک ہر کسان اپنے کھیت اور ہر کاریگر اپنی دوکان سے منسلک رہنے کا پابند تھا اس پابندی اور کچھ دوسری وجوہات کی بنا پر قرون وسطیٰ کے زرعی غلاموں کے نظام کا آغاز ہوا۔
جاری
(اقتباس از کتاب تاریخ عالم کا ایک جائزہ تالیف ول ڈیورانٹ صفحہ ۷۶ ، ۷۸ )

 

ہندوستان میں استعمار کا آغاز

  • ۴۱۲

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: واسکو ڈے گاما Vasco da Gama, ˈvaʃku ðɐ ˈɣɐmɐ][۱]کی کالیکوٹ (calicut) بازگشت اور پرتگال کے ظالم بادشاہ کو دگاما کی جانب سے ضروری رپورٹس دینے کے بعد پیڈرو ایلواریس کیبرل، [ˈpeðɾu ˈaɫvɐɾɨʃ kɐˈβɾaɫ] [۲] کی رہبری میں ۱۳ کشتیوں پر مشتمل ایک بڑا بیڑہ مشرق کی طرف چل دیتا ہے لیکن اس بار مقصد سیر سپاٹا یا کسی سرزمین کی دریافت نہیں ہے بلکہ مقصد تسخیر اور قبضہ جمانا ہے اور لائق توجہ بات یہ ہے کہ اس سفر میں گاسپارڈے گاما بھی ساتھ ہے ۔
کالیکوٹ پہنچنے کے بعد پرتگال سے آئے وفد کی جانب سے حاکم کے سامنے یہ مطالبہ رکھا جاتا ہے کہ مسلمان تاجروں کو یہاں سے نکال باہر کیا جائے یہ مطالبہ نہ صرف یہ کہ مسترد کر دیا جاتا ہے بلکہ اس مطالبہ پر کالیکوٹ کے حکمراں کی جانب سے شدید رد عمل بھی سامنے آتا ہے۔
نقل تو یہاں تک ہوا ہے کہ پیڈرو ایلواریس کیبرل، [ˈpeðɾu ˈaɫvɐɾɨʃ kɐˈβɾaɫ] کے ہمراہ کچھ لوگ اپنے برے رویہ کی بنا پر ہلاک بھی ہوئے اور کایبرال کو وہاں سے نکال دیا گیا، یہاں سے نکلنے کے بعد پیڈرو ایلواریس کیبرل نے کوچن cochin میں اپنا ٹھکانا بنایا اور یہودیوں اور سیاہ فاموں کی مدد سے سب سے پہلا پرتگالی اڈہ قائم کیا ۔
الغرض شکست خوردہ پیڈرو ایلواریس کیبرل اپنے ملک پلٹ گیا لیکن اس کی کچھ مدت کے بعد ۱۵۰۲ ء میں واسکو ڈے گاما Vasco da Gama, ˈvaʃku ðɐ ˈɣɐmɐ]۱ ۲ /اسلحوں سے لیس شدہ کشتیاں لیکر ہندوستان کی طرف چل پڑا ، دانتوں تک اسلحوں سے لیس ہوکر اسکے نکلنے کا مقصد مسلمانوں کے بیڑوں کی تباہی اور مشرقی دریا کے راستوں پر اکلوتے پرتگال کا جھنڈا لہرانا اور اسکا تسلط قائم کرنا تھا۔
واسکو ڈے گاما Vasco da Gama, ˈvaʃku ðɐ ˈɣɐmɐ]نے اپنی منزل تک پہنچنے سے پہلے اس سفر میں پہلے کیلوا Kilwa[3] بندرگاہ پر پڑاو ڈالا اور شہر کے حاکم سے خوب اچھی طرح خراج وصولا، شہر کے مسلمان حاکم سے قاعدے سے خراج لینے پر ہی اکتفا نہیں کیا بلکہ کچھ لوگوں کو بھی تہہ تیغ کیا اسکے بعد کالیکوٹ کا رخ کیا اور مسلمانوں کی تجارتی کشتیوں کو تاراج و نابود کر دیا اپنے تباہ کن حملوں کے ذریعہ اس نے پورے علاقے میں خوف و دہشت کا ماحول بنا دیا اور پورے علاقہ پر وحشت و خوف کے سایے مسلط ہو گئے ۔
اس پورے ماجرے میں جو چیز باعث تعجب ہے وہ یہ کہ مغربی مورخین اس پورے ماجرے کو جب بیان کرتے ہیں تو گاما Gama, کو ایک متجاوز اور در انداز کے طور پر پیش نہیں کرتے کہ جس نے قتل و غارت گری کا بازار گرم کیا اور زبردستی دوسروں کے علاقوں میں گھس کر طاقت کے زور پر وہاں اپنا پرچم لہرایا بلکہ اسکے اقدام کو پرتگال کی ہندوستان سے تجارت کے اولین قدم کی صورت میں دیکھتے ہیں گو کہ وہ کوئی قاتل و غارت گر نہیں بلکہ پرتگال و ہندوستان کے ما بین تجارت کا پل بنانے والی شخصیت ہو ۔
یہ مورخین اپنی کتابوں میں اس طرح لکھتے ہیں: ” کابرایل نے ۱۵۰۰ ء میں یہ بات ثابت کر دکھائی کہ مشرق میں مسلمانوں کے ہاتھوں تجارت کی باگ ڈور ہونے اور تجارت کا اختیار مکمل طور پر محض انہیں کے ہاتھوں ہونے کے مسئلہ کو صلح آمیز طریقہ سے حل نہیں کیا جا سکتا تھا لہذا اسکا ایک ہی راستہ تھا کہ طاقت کا استعمال کیا جائے “۔
لیکن یہ سب تو کہنے کی باتیں ہیں جب کہ دیکھا جائے تو مسلمان تاجروں کی ثروت اور انکے پاس دولت کی ریل پیل کو دیکھتے ہوئے ان لوگوں کو انکے حسد و لالچ نے اس منزل پر پہنچایا کہ قتل و غارت گری اور لوٹ مار پر اتر آئیں، ان تمام تباہیوں اور سفاکیوں کا اصل محرک انکے وجود کی حرص تھی جو انکے ظلم ستم کی داستان رقم کرنے کا سبب بنی اس لئے کہ یہ لوگ ثروت و دولت کے ڈھیر کو دیکھ کر صبر نہیں کر سکے خود کو نہ روک سکے کہ تجارت کے ذریعہ قانونی طور پر اسے حاصل کریں اور نفع بخش چرخے کا حصہ بنیں۔
یہی وجہ ہے کہ وہ سب حصول ثروت کے سب سے تیز ترین راستے یعنی دراندای چھینا جھپٹی اور ڈاکہ ڈالنے کی طرف چلے گئے اور انہوں نے اپنی منزل تک پہنچنے کے لئے شدت پسندانہ راستے کو چنا ۔
Ernest Ezra Mandel ارنسٹ مینڈل نے ذرا منصفانہ انداز میں بر صغیر کی زمینوں پر ناجائز قبضے کی ایک جامع توصیف پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔ وہ یورپین غارت گروں اور متجاوزوں کے بارے میں کہتے ہیں ” یہ وہ کام تھا جو بغیر خونریزی کے انجام پذیر نہ ہو سکا، یہ ایک طرح کی مرچی، دارچین ، اورلونگ کے تاجروں کی جنگ تھی جو اپنے ساتھ وحشتناک سفاکیت کو لئے ہوئے تھی، جتھوں کے جتھوں کا قتل عام، بڑے شہروں کا ویران کر دینا، کشتیوں کا انکے سواروں کے ساتھ جلا دینا، بھیڑ بکریوں کی طرح چھری سے انسانی اعضاء کا کاٹ دینا کیا یہی عیسائی دلاوروں کی کہانیاں ہیں؟
جس میں لوگوں کے کان، ہاتھ اور ناک کاٹ کر مذاق اڑانے کی خاطر وحشی بادشاہوں کی خدمت میں پیش کر دیا جاتا تھا کیا یہی عیسائی شہسواروں کی خدمات ہیں، انہوں نے اپنی جنایتوں اور تاراجیوں میں یہ بھی کیا کہ اپنی غارت گری کے بعد ایک برہمن کو مثلہ کر دینے کے بعد بھی زندہ رکھا یعنی اسکے ہاتھ پیر ناک کان کاٹ دئے لیکن خیال رکھا کہ اسکی جان نہ جانے پائے اور یہ اس لئے کیا کہ وہ انکی کامیابی و قساوت کی کہانی مقامی راجاوں اور حاکموں تک بیان کر سکے ۔
گاما جب ان تمام سفاکیت کی داستانوں کو رقم کر کے اپنے ملک پہنچا تو اپنے کاموں کے انعام کے طور پر کانٹ ویڈیگوڑا Count to Vidiguerra کے عنوان سے اسے نوازا گیا اور ۱۵۳۴ء میں پرتگال کے نائب السلطنۃ کے طور پر مشرق میں اسکا انتخاب ہوا لیکن مختصر سے عرصے میں ہی ہندوستان کے سفر کے بعد کوچین کی بندرگاہ پر اس دنیا سے چل بسا لیکن قتل و غارت گری کی جو رسم اس نے اپنے پیچھے چھوڑی تھی وہ ختم نہ ہوئی بلکہ فرنسیسکو دا لمیڈ[۴] اور آلفونسو دالبرکرک[۵] کے ذریعہ یہی قتل و غارت گری کا سلسلہ جاری رہا ۔[۶]
حواشی:
[۱] ۔واسکو ڈے گاما Vasco da Gama, ˈvaʃku ðɐ ˈɣɐmɐ] کو ایک پرتگالی بحری قزاق ، جس نے یورپ سے جنوبی افریقا کے گرد گھوم کر ہندوستان تک بحری راستہ دریافت کیا اور مہم جوئی اور تجارت کی ایک نئی دنیا کھولی۔ وہ ۱۴۶۹ء میں پرتگال میں پیدا ہوا اور ۱۵۲۴ء میں کوچی ہندوستان میں اس نے ابدی کوچ کیا ۔
[۲] ۔ پیڈرو ایلواریس کیبریل ۱۴۶۸ء میں وسطی پرتگال کے شہر بیل مونٹے میں رہائش پزیر ایک معزز خاندان میں پیدا ہونے والا۔ دے گاما کی ہی طرح ایک پرتگالی مہم جو،اور پہلا یورپی جس نے ۱۵۰۰ء میں حادثاتی طور پر یورپ سے برازیل کا بحری راستہ دریافت کیا۔ اس کی مہم کے نتیجہ میں پرتگالی حکومت نے برازیل کی ملکیت کا دعویٰ کیا اور جنوبی امریکا میں پہلی پرتگیزی کالونی کی بنیاد رکھی گئی۔ تفصیل کے لئے دیکھیں : عظیم مہم جو۔ کراچی: سٹی بک پواؤنٹ، اردو بازار۔ ۲۰۱۱ء۔ صفحات ۱۴۶، ۱۴۷۔ Bueno, Eduardo (1998). A viagem do descobrimento: a verdadeira história da expedição de Cabral (in Portuguese). Rio de Janeiro: Objetiva. ISBN 978-85-7302-202-5. Greenlee, William Brooks (1995). The voyage of Pedro Álvares Cabral to Brazil and India: from contemporary documents and narratives. New Delhi: J. Jetley.
Espínola, Rodolfo (2001). Vicente Pinzón e a descoberta do Brasil (in Portuguese). Rio de Janeiro: Topbooks. ISBN 978-85-7475-029-3..
Kurup, K. K. N. (1997). India’s naval traditions: the role of Kunhali Marakkars. New Delhi: Northern Book Centre. ISBN 978-81-7211-083-3.
[۳] ۔ تنزانیا کے شہر دار السلام کے ۳۰۰ کلومیٹر جنوب میں واقع شہر جو یونسکو کے آثار قدیمہ سے متعلق عالمی میراث کی فہرست میں آتا ہے کبھی اس شہر میں ہاتھی کے دانت ، سونا ، چاند ی عقیق ،وغیرہ کی تجارت ہوتی تھی ۔ http://whc.unesco.org/en/list/144
مزید تفصیل کے لئے دیکھیں : Elkiss, Terry A. (1973). “Kilwa Kisiwani: The Rise of an East African City-State”. African ،
Studies Review. 16 (1): 119–۱۳۰٫ doi:10.2307/523737 ، Fleisher, Jeffery; Wynne-Jones, Stephanie (2012). “Finding Meaning in Ancient Swahili Spatial Practices”. Afr Archaeol Rev. 29: 171–۲۰۷٫ doi:10.1007/s10437-012-9121-0.
[۴] ۔ francisco de Almeida
[۵] ۔ Alphonso de Albuqerque
[۶] ۔ کتاب زرسالاران یهودی و پارسی، غارتگری ماوراء بحار و تمدن جدید غرب، ج۱، ص ۴۵ الی ۴۷٫
تلخیص و ترجمہ :سید نجیب الحسن زیدی

 

جیسن ہیکل: برطانیہ نے ہندوستان کے ۴۵ ٹریلین ڈالر چُرا لئے

  • ۳۸۰

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: ایک کہانی برطانیہ میں رٹائی جاتی ہے کہ ہندوستان کی نوآبادی کاری ـ جو اپنی جگہ ایک المناک اور دہشتناک داستان ہے ـ سے برطانیہ کو کوئی معاشی فائدہ نہیں تھا؛ یہی نہیں بلکہ برطانیہ کو ہندوستان پر قبضہ جمانے کی بابت بہت سارے اخراجات بھی برداشت کرنا پڑے ہیں۔ اور یوں، یہ حقیقت کہ برطانوی سلطنت عرصۂ دراز تک قائم رہی اور یہ سلسلہ مسلسل جاری ہے، محض برطانوی حکومت کی سیاسی “ادا” ہے۔
نامور بھارتی معاشیات دان اوتسا پاٹنائیک (ਉਤਸਾ ਪਟਨਾਇਕ [Utsa Patnaik]) کی تازہ ترین تحقیق، ـ جسے حال ہی میں کولمبیا یونیورسٹی نے شائع کیا ہے ـ اس برطانوی روایت پر کاری ضرب لگا دی ہے۔ پاٹنائیک نے ٹیکس اور تجارت کا تقریبا دو صدیوں پر مشتمل ریکارڈ کا تفصیلی جائزہ لے کر نتیجہ اخذ کیا ہے کہ ۱۷۶۵ع‍ سے ۱۹۳۸ع‍ کے عرصے میں برطانیہ نے مجموعی طور پر ہندوستان کی دولت میں سے تقریبا ۴۵ ٹریلین [۴۵,۰۰۰,۰۰۰,۰۰۰,۰۰۰] ڈالر نچوڑ لئے ہیں۔
یہ ایک نہایت بھاری اور حیرت انگیز رقم ہے۔ اس لئے کہ آپ اس رقم کا صحیح ادراک کرسکیں، بہتر ہے کہ جان لیں کہ ۴۵ ٹریلین ڈالر آج کے زمانے کی برطانوی مجموعی ملکی پیداوار سے سترہ گنا بڑی ہے۔
اتنی بڑی رقم آئی کہاں سے؟
یہ واقعہ تجارتی نظام کے ذریعے رونما ہوا ہے۔ برطانیہ ـ ہندوستان کو اپنی نوآبادیات بنانے سے قبل ـ ہندوستان سے کپڑا اور چاول خریدتا تھا اور اس زمانے کے معمول کے مطابق، زیادہ تر چاندی بطور قیمت ادا کرتا تھا۔ جیسا کہ برطانیہ دوسرے ممالک کے ساتھ بھی تجارت کرتا تھا لیکن ہندوستان پر ایسٹ انڈیا کمپنی کے قبضہ کرنے اور ہندوستان کی تجارت کو اپنے زیر کنٹرول لانے کے کچھ عرصہ بعد سنہ ۱۷۶۵ع‍میں، ایک چیز پوری طرح بدل گئی۔
اس نظام کی کارکردگی کی کیفیت کچھ یوں تھی کہ ایسٹ کمپنی نے ہندوستان کا مالیہ (Tax) جمع کرنے کا آغاز کیا اور پھر بڑی چالاکی سے اس آمدنی کا ایک تہائی حصہ ان اجناس کی قیمت کے طور پر ادا کیا جو اس نے ہندوستانیوں سے خریدی ہوئی تھیں۔ بالفاظ دیگر، انگریز تاجر ہندوستانی مصنوعات کے عوض اپنی جیب سے رقم ادا کرنے کے بجائے، ان مصنوعات کو مفت حاصل کیا۔ انھوں نے رعایا کے اموال کو وہی رقم دے کر خرید لیا، جو انھوں نے ان ہی سے ہتھیا لی تھی۔
یہ ایک بڑے پیمانے پر ہونے والا فراڈ اور ایک بہت بڑی چوری ہے۔ اس کے باوجود، ہندوستانیوں کی اکثریت کو یہ معلوم نہیں تھا کہ کیا ہورہا ہے کیونکہ جو شخص ان سے مالیہ اکٹھا کرتا تھا وہی شخص نہیں تھا جو ان کے ساتھ کاروبار اور لین دین کے لئے آتا تھا۔ اگر ایک واحد شخص یہ دونوں کام انجام دیتا تو ہندوستانی باشندے دھوکہ دہی اور چوری کی بو محسوس کرلیتے۔
ہندوستان سے چوری ہونے والی اس دولت کا کچھ حصہ برطانیہ میں خرچ کیا جاتا تھا اور باقی دوسرے ممالک [یا برطانیہ کی دوسری نو آبادیاتی سرزمینوں] کو بھیج دی جاتی تھی۔ بازبرآمدی نظام (Re-export system) برطانویوں کو یہ سہولت فراہم کرتا تھا کہ یورپ میں درآمد ہونے والی مصنوعات ـ کی خریداری کے لئے رقم فراہم کیا کرے۔ ان مصنوعات میں تزویری مصنوعات ـ بالخصوص تزویری دھاتیں، لوہے، تارکول وغیرہ، جو کہ برطانیہ کو ایک صنعتی ملک بننے میں مدد پہنچاتی تھیں ـ بھی شامل تھی؛ حقیقت یہ ہے کہ ـ[پورے یورپ میں]- صنعتی انقلاب کا زیادہ تر دارومدار ہندوستان سے اسی منظم چوری (systematic theft) پر تھا۔
اس حربے کے ذریعے برطانویوں کو یہ امکان میسر تھا کہ اس انداز سے ہندوستان سے خریدی ہوئی مصنوعات کو دوسرے ممالک میں کئی گنا قیمت وصول کرکے فروخت کیا کریں اور نہ صرف ان مصنوعات کے ہندوستانیوں کی جیب سے قیمت ادا کرکے مفت اپنے قبضے میں لیتے تھے اور انہیں ۱۰۰ فیصد منافع حاصل کرکے بیچ دیتے تھے بلکہ ان کی قیمت بڑھا کر مزید منافع بھی کماتے تھے۔
سنہ ۱۸۴۷ع‍میں ہندوستان پر براہ راست برطانوی راج قائم ہونے کے بعد، سامراجیوں نے ایک مالیہ کی وصولی اور خریداری کے نظام میں خاص قسم کی تبدیلیوں کا اہتمام کیا۔ ایسٹ انڈیا کمپنی کا تسلط ختم ہونے کے بعد ہندوستانی صنعت کاروں کو اجازت ملی کہ اپنی مصنوعات کو براہ راست دوسرے ممالک میں برآمد کریں۔ تاہم برطانیہ کو نئی مکاریوں کے ذریعے یقین ہوتا تھا کہ حاصل شدہ آمدنی لندن ہی پہنچے گی۔
یہ ظالمانہ حیلہ گری کچھ یوں تھی کہ جو کوئی بیرونی تاجر ہندی مصنوعات خریدنا چاہتا، تو اسے برطانوی تاج کے بنائے ہوئے ایک خاص قسم کے کاغذی نوٹ (Council Bills) کی شکل میں ان کی قیمت ادا کرنا پڑتی تھی جس کی خریداری صرف لندن سے ممکن ہوتی تھی اور تاجروں کو یہ نوٹ خریدنے کے لئے برطانوی خزانے کو چاندی یا سونا دینا پڑتا تھا۔ یوں تاجر یہ کرنسی نوٹ حاصل کرنے کے لئے برطانیہ کو سونا دے جاتے تھے جبکہ یہ نوٹ ہندوستان ہی میں خرچ ہونے کے قابل ہوتے تھے۔ بیرونی تاجر یہی نوٹ ہندوستانی مصنوعات کے عوض، ہندوستانی تاجروں کو ادا کرتے تھے۔ اب تاج برطانیہ کے یہ نوٹ ہندوستانیوں کی کسی کام کے بھی نہیں تھے چنانچہ انہیں یہ نوٹ نوآبادیات کے مقامی دفتر میں تبدیل کرنا پڑتے تھے اور یوں یہ نوٹ دوبارہ برطانیہ کے پاس پلٹ کر جاتے تھے اور ہندوستانیوں کو مقامی روپیہ کی شکل میں قیمت ادا کی جاتی تھی اور یہ روپیہ بھی وہی تھا جو برطانوی مالیئے کی صورت میں ہندوستانیوں سے اکٹھا کرلیا کرتے تھے۔ یعنی یہ کہ تاج کے خصوصی کرنسی نوٹ سونا لے کر تاجروں کو دیئے جاتے تھے، اور وہی نوٹ ہندوستان میں آ کر اسی رقم کے بدلے خرید لئے جاتے تھے جو ہندوستانیوں سے اکٹھا کیا جا چکا ہوتا تھا۔ اور یوں برطانوی ہندوستانیوں کو دھوکہ اور فریب دے کر کچھ دیئے بغیر اور کسی قسم کی قیمت دا کئے بغیر لندن میں تاج برطانیہ کی تجوریاں بھر دیتے تھے۔
اس عمل میں جتنا زر ـ خواہ چاندی خواہ سونا ـ ہندوستانی برآمدات کے بدلے، ہندوستانی تاجروں کو ملنا چاہئے تھا، وہ پورا کا پورا لندن پہنچ جاتا تھا۔ اور اس کے عوض بننے والے کرنسی نوٹ دوبارہ ان تاجروں سے خرید لئے جاتے تھے اور اس کے بدلے ہندوستانوں سے ٹیکس کی مد میں جمع شدہ رقم ادا کی جاتی تھی۔ [دنیا بھر کی تہذیبوں کی سپہ سالاری کے دعویدار برطانیہ کے رذیلانہ ترین کرتوت جس کے سامنے شیطان بھی بےدست و پا نظر آتا ہے]۔
اس بدعنوان نظام کا مطلب یہ تھا کہ اگرچہ دوسرے ممالک کی نسبت ہندوستان فاضل تجارت (Surplus Trade) متاثر کن تھی ـ اور تجارت میں یہ اضافہ بیسویں صدی کی پہلی تین دہائیوں تک جاری رہی ـ لیکن ہندوستان کے قومی حسابات میں ایک خسارہ دکھائی دے رہا تھا کیونکہ ہندوستان کو حاصل ہونے والی پوری آمدنی برطانیہ کے خزانے میں پہنچ جاتی تھی۔
اس غیر حقیقی خسارے کے مقاصد میں سے ایک یہ تھا کہ ہندوستانیوں کو جتایا جاسکے کہ یہ ملک برطانیہ کے لئے وبال جان ہے اور برطانیہ کو اس سے کوئی فائدہ نہیں بلکہ نقصان پہنچتا ہے حالانکہ حقیقت اس کے بالکل برعکس تھی۔ برطانیہ عظیم آمدنیوں کو ہڑپ کر لیتا تھا حالانکہ ان آمدنیوں کا تعلق ہندوستانی صنعتکاروں اور برآمدکنندگان سے تھا۔ ہندوستان سونے کے انڈے دینے والی ہنس کی حیثیت رکھتا تھا۔ دریں اثناء اس خسارے کا ایک مطلب یہ تھا کہ ہندوستان کے پاس بیرونی دنیا سے درآمدات کے لئے برطانیہ سے قرض لینے کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا۔ چنانچہ ہر ہندوستانی شہری نہ چاہتے ہوئے اور غیر ضروری طور پر، اپنے برطانوی نوآبادیاتی آقاؤں کا مقروض تھا جس کی بنیاد پر ہندوستان پر برطانوی تسلط کو تقویت پہنچتی تھی۔
برطانیہ اس جعل سازی اور دھوکہ دہی سے حاصل ہونے والی آمدنی کو اپنی استعماری تشدد کی مشین کو ایندھن فراہم کرتا تھا؛ یعنی سنہ ۱۸۴۰ع‍ کی دہائی میں چین پر حملے اور ۱۸۵۷ع‍میں ہندوستانیوں کے انقلاب کی سرکوبی کے اخراجات اسی جعل سازی اور دھوکہ دہی سے پورے کئے گئے۔ اور یہ منافع اس آمدنی کے علاوہ تھا جو برطانیہ ہندوستان کے اندر مالیے کی مد میں ہندوستانیوں سے بٹور لیتا تھا۔ جیسا کہ پاٹنائیک کہی ہیں کہ: “ہندوستان کی سرحدوں کے باہر، برطانیہ کی تمام فاتحانہ جنگوں کے اخراجات کو یا تو مکمل طور ہندوستان کی دولت سے حاصل ہونے والے منافع سے پورا کیا جاتا تھا یا پھر ان اخراجات کا بڑا حصہ ہندوستان کے کندھے پر ڈالا جاتا تھا”۔
پورا ماجرا یہیں تک محدود نہیں ہے بلکہ برطانیہ نے ہندوستان سے مختلف بہانوں سے ہونے والے خراج کے ذریعے کینیڈا، آسٹریلیا سمیت یورپی نوآبادیاتی ریلے کی زد میں آنے والے ممالک میں اپنی استعماریت کے توسیع کے لئے بھی بھرپور فائدہ اٹھایا۔ یوں نہ صرف برطانیہ بلکہ تمام تر مغربی ممالک کی صنعت کاری (Industrialization) ان ہی نوآبادیاتی سرزمینوں سے حاصل ہونے والی دولت کے ذریعے آسان بن جاتی تھی۔
پاٹنائیک ہندوستان کے استعمار میں سنہ ۱۷۶۵ع‍سے سنہ ۱۹۲۸ع‍تک چار معاشی ادوار کی شناخت کرتی ہیں اور ہر دور سے حاصلہ آمدنی کا تخمینہ لگاتی ہیں۔ اور پھر ہر دور کے لئے (منڈی میں سود کی شرح سے کمتر) پانچ فیصد سود کا اضافہ کرتی ہیں اور ان ساری رقوم کو جمع کرتی ہیں جو برطانیہ نے ہندوستان سے چوری کرلی ہیں اور مجموعی تخمینہ ۶/۴۴ ٹریلین ڈالر بنتا ہے۔ پاٹائیک کا کہنا ہے کہ یہ ایک محتاطانہ تخمینہ ہے اور اس میں وہ قرضے شامل نہیں ہیں جو برطانوی راج نے ہندوستان پر مسلط کئے تھے۔
یہ رقوم ہوش و حواس اڑا دینے والی رقم ہے۔ تاہم  اس استحصال کے حقیقی اخراجات کا احتساب ممکن نہیں ہے۔ اگر ہندوستان مالیے اور بیرونی تجارتی لین دین سے حاصلہ آمدنی کو ملک کی ترقی پر خرچ کرنے پر قادر ہوتا ـ جیسا کہ جاپان نے ایسا ہی کیا ـ تو بلاشک تاریخ کا رخ آج بالکل مختلف ہوتا۔ اس صورت میں ہندوستان میں نہ صرف صدیوں پر محیط غربت کی بیخ کنی ہوتی بلکہ یقینی طور اقتصادی انجن میں بدل جاتا۔ اور کئی صدیوں پر محیط غربت و افلاس کا سدباب کرنے پر قادر ہوتا۔
یہ تمام معلومات، اس جھوٹی داستان کو باطل کردیتی ہیں، جو برطانیہ کی مقتدر صداؤں نے [اپنی ملکی اور بین الاقوامی تاریخ میں گھسیڑ کر] رائج کردی ہے اور اس تاریخی جھوٹ کا پردہ چاک کردیتی ہیں۔
قدامت پسند انگریز مؤرخ “نیال فرگوسن” (Niall Campbell Ferguson) نے دعوی کیا ہے کہ برطانوی راج نے ہندوستان کی “ترقی اور پیشرفت” میں مدد بہم پہنچائی ہے۔ اور سابق برطانوی وزیراعظم نے “ڈیوڈ کیمرون” (David William Donald Cameron) نے تو اپنی وزارت عظمی کے ایام میں آگے بڑھ کر یہاں تک بھی دعوی کیا کہ “برطانوی راج ہندوستان کے لئے “خالص مدد” (net help) تھا!
اس عجیب روایت کی نشانیوں کو عمومی تخیلاتی دنیا اور افواہ عامہ میں بھی بہت وسیع پیمانے پر پایا جاسکتا ہے۔ سنہ ۲۰۱۴ع‍ میں برطانیہ کی یوگوو رائے عامہ کمپنی (YouGov poll) کے ایک سروے کے ۵۰٪ شرکاء کا خیال تھا کہ برطانوی نوآبادیاتی نظام سے “فائدہ” مقبوضہ ممالک کو پہنچا ہے۔
اس کے باوجود ہندوستان پر برطانیہ کے ۲۰۰ سالہ تسلط کے دوران تقریبا اس ملک کی فی کس آمدنی میں کبھی بھی کوئی اضافہ نہیں ہوا۔ حقیقت یہ ہے کہ انیسویں صدی کے نصف دوئم میں ـ جبکہ اس ملک کے تمام معاملات میں برطانیہ کی مداخلتیں عروج پر تھیں ـ ہندوستان کی آمدنی میں ۵۰٪ کمی واقع ہوئی۔ سنہ ۱۸۷۹ع‍ سے سنہ ۱۹۲۰ع‍ تک کے عرصے میں ہندوستانیوں کی اوسط عمر کی توقع (Life expectancy rate) کی شرح میں ۵/۱ تک گر گئی۔ کئی بار کسی ضرورت اور کسی معقول سبب کے بغیر ہندوستان کو شدیدترین قحط کا سامنا کرنا پڑا جس کے نتیجے میں کئی ملین افراد لقمۂ اجل بن گئے۔
برطانیہ نے ہندوستان کو ہرگز ترقی نہیں دی بلکہ اس کے عین برعکس ـ پاٹنائیک کی کاوش نے واضح کیا کہ ـ ہندوستان نے برطانیہ کو ترقی دی۔
یہ حقیقت آج برطانیہ کو کس اقدام کا پابند بناتی ہے:
ایک معذرت خواہی؟ ہرگز نہیں۔
لوٹی ہوئی دولت کی ہندوستان کو واپسی؟ شاید۔
گوکہ پورے برطانیہ میں بھی اتنی رقم موجود نہیں ہے جس کا تخمینہ پاٹنائیک نے پیش کیا ہے۔ مزید برآن، ہمیں تاریخ کی حقیقی روئیدادیں عیاں کرنے کا آغاز کرنا چاہئے۔
ہمیں اس حقیقت کو تسلیم کرنا چاہئے کہ برطانیہ نے ہندوستان پر کسی خیرخواہی اور خیرسگالی کی بنیاد پر نہیں بلکہ اس کی دولت لوٹنے کی غرض سے، قبضہ کیا اور اس کو اپنی نوآبادی میں تبدیل کردیا۔
ہمیں اس حقیقت کو تسلیم کرنا چاہئے کہ برطانیہ کا صنعتی ظہور ان وجوہات کی بنا پر وقوع پذیر نہیں ہوا ہے جو ہمیں نصابی کتب میں کہا جاتا ہے؛ یعنی یہ کہ یہ ترقی اور صنعت کاری کا یہ عمل “بھاپ انجن کی برکت سے یا طاقتور مالیاتی اداروں کی مدد سے” انجام نہیں پایا بلکہ یہ ترقی اور برطانیہ کا یہ صنعتی ظہور دوسری سرزمینوں اور اقوام کی دولت اور وسائل کی “تشدد آمیز چوری” کے نتیجے میں وقوع پذیر ہوا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بقلم: جیسن ہیکل (Jason Hickel)؛ لندن یونیورسٹی کے استاد اور رائل سوسائٹی آف آرٹس کے ترجمہ: فرحت حسین مہدوی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
انگریزی متن: yon.ir/TVGPZ
فارسی متن: http://fna.ir/bqa5bi

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

اقوام متحدہ ایک آزاد ادارہ یا غلام؟

  • ۵۲۸

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: اس کے بعد کہ برطانیہ نے فلسطین کی سرپرستی کو اقوام متحدہ کے حوالے کر دیا، امریکہ کی صہیونی لابی فلسطین کو دو حصوں میں تقسیم کرنے کی کوششوں میں لگ گئی۔ صہیونیوں کو ایک الگ یہودی ریاست کی تشکیل کے لیے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے دو تہائی ووٹوں کی ضرورت تھی۔ انہوں نے پہلی نوبت میں اسمبلی میں ہونے والی ووٹینگ کو ٹال دیا تاکہ اس فرصت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے جنرل اسمبلی کے رکن ممالک کو اپنی حمایت پر قانع کریں۔
رابرٹ ناتھن (Robert nathon) جو امریکی حکومت اور یہودی ایجنسیوں میں سرگرم عمل رہے ہیں اس بارے میں لکھتے ہیں:” ہم نے تمام ممکنہ اوزار اور ہتھیار استعمال کیے۔ مثال کے طور پر ہم نے تمام رکن ممالک کے نمائندوں سے کہا کہ اگر فلسطین کی تقسیم کے منصوبے کو ووٹ نہیں دیا تو صہیونیت ان کی مالی امداد روک دے گی”۔
صہیونی یہودیوں نے اسرائیل کی تشکیل کے حق میں ووٹ لینے کے لیے دوسرے ممالک کو مختلف حربوں سے رضامند کیا جن میں زیادہ تر حربے اقتصادی اور سیاسی تھے۔ مثال کے طور پر وقت کے امریکی صدر کے مشیر “برناڈ باروچ” نے فرانسیسی حکومت کو دھمکی دی کہ اگر وہ اس منصوبے کی مخالفت کرے گی تو اس کا سارا بجٹ کاٹ دیا جائے گا۔ “ٹرومن” کے مشیر اعلیٰ “ڈیوڈ نابلز” نے ٹائر کمپنی کے سب سے بڑے سرمایہ دار “ہیروی فیرسٹن” (Harvey fireston) کے ذریعے لیبریا (Liberia) پر دباؤ ڈالا کہ مخالفت کی صورت میں اسے نابود کر دیا جائے گا۔
لاطینی امریکہ کے ممالک کو بھی مالی امداد روک دئے جانے کی دھمکیاں دی گئیں۔ یہاں تک کہ کوسٹا ریکا (Costa Rica) کے صدر جوز فیگوریس (Jose figures) کو ایک سفید چیک کاپی دے دی گئی اور کہا گیا کہ حمایت کی صورت میں جتنا پیسہ چاہیے دیا جائے گا۔ اس درمیان فلپائن نے ان تمام امریکی دھمکیوں کے باوجود، انتخابات کے دن ایک پرجوش تقریر کی اور فلسطینی عوام کے ابتدائی حقوق کا دفاع کیا۔ لیکن آخر کار صہیونیوں کے دباؤ میں آکر تقسیم کے منصوبے کے حق میں اس نے بھی ووٹ دے دیا۔
نتیجے کے طور پر اقوام متحدہ نے ۲۹ نومبر ۱۹۴۷ کو قرارداد نمبر ۱۸۱ کے تحت سرزمین فلسطین کو دو حصوں میں تقسیم کر کے اس کا ۵۱ فیصد حصہ یہودیوں اور ۴۹ فیصد حصہ فلسطینیوں کے حوالے کیا۔ اس قرارداد کو اگر چہ متعدد بار بطور استناد قرار دیا گیا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی قرار داد سلامتی کونسل کی قرارداد کے برخلاف رکن ممالک کے لیے واجب التعمیل اور لازمی نہیں ہے۔ دوسرے لفظوں میں یہ قرارداد زیادہ تر تجویزی پہلو رکھتی ہے اور اس کا نتیجہ یہ نہیں ہونا چاہیے تھا کہ اس قرارداد کے تحت ایک ملک تشکیل دیا جائے وہ بھی غصب شدہ زمین پر۔
بہرحال، اس کے باوجود کہ یہ قرار داد واجب التعمیل نہیں تھی اس بات کا باعث بنی کہ سرزمین فلسطین دو حصوں میں تقسیم کر دی جائے اور صہیونی یہودی چند مہینوں کے اندر ۴۱۳ ہزار فلسطینیوں کو ان کے وطن سے نکال باہر کر دیں اور سر انجام عرب حکمرانوں اور صہیونی یہودی کے درمیان خونی جنگیں وجود میں آئیں اور نتیجہ میں ۷۵۰ ہزار سے زائد فلسطینی مسلمان یہودیوں کے ہاتھوں انتہائی بے دردی سے قتل عام کر دئے جائیں۔
اسرائیلی مورخ “ٹام سگف” کے بقول: اسرائیل، جنگ اور دھشتگردی کی بنیاد پر وجود میں آیا اور اس کی تشکیل کا لازمہ صرف ظلم اور اندھا تعصب تھا”۔
منبع : پروشیم خفیہ تنظیم، آلیسن ویر، ترجمہ: علیرضا ثمودی پیله ورد، تہران، فارس نیوز ایجنسی ،چاپ اول: ۱۳۹۴، ص۸۴-۷۷٫
کتاب: Against our better judgment: the hidden history of how the u.s was used to create Israel,2014.
تالیف: Alison weir
میلاد پور عسگری

 

ایران کو کنٹرول کرنے کے لئے اسرائیل و سعودی عرب کی مشترکہ حکمت عملی کے آٹھ اہم نکات

  • ۳۷۸

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: الجزیرہ کے مطالعاتی مرکز نے ان آٹھ نکات کو پیش کیا ہے جن سے سعودی ذہنوں میں اسرائیل ایران کی تصویر ابھر کر سامنے آتی ہے، الجزیرہ کے مطالعاتی مرکز نے اپنے تجزیہ میں سعد سلمان المشہدانی کے قلم سے یہ بیان کرنے کی کوشش کی ہے کہ سعودی مفکرین کے سیاسی تفکر میں ایران و اسرائیل کہاں کھڑے ہیں، ایرانی نیوز ایجنسی انتخاب نے الجزیرہ کی جانب سے پیش کیے گئے تجزیہ کے اہم نکات کو یوں بیان کیا ہے ۔
۱۔ سعودی مبصرین و تجزیہ نگاروں نے اپنا مکمل طور پر رخ اس بات پر مرکوز کر رکھا ہے کہ عربوں کے پاس اسرائیل سے صلح کے علاوہ اب کوئی چارہ نہیں ہے انکا مکمل فوکس اس بات پر ہے کہ ایک جامع صلح کے سمجھوتہ پر دستخط کے بغیر کچھ نہیں ہو سکتا اسرائیل کے ساتھ ایک جامع صلح کا معاہدہ انکی بنیادی ضرورت ہے اس معاہدے کی ضرورت اس لئے بھی ہے کہ سعودی عرب کو وقت درکار ہے کہ آگے چل کر علاقے میں ایران سے مقابلہ کیا جا سکے لہذا سعودیوں کو اتنی فرصت چاہیَے کہ وہ ایران کے سلسلہ سے چارہ اندیشی کر سکیں کیوں کہ انکے مطابق ایران عربوں کے لئے اسرائیل سے زیادہ خطرناک ہے ۔
۲۔ سعودی ذرائع ابلاغ ، فلسطینی مزاحمت کے سلسلہ سے کی جانے والی ایرانی حمایت کو ایران کی ایک ایسی اسٹریٹجی سمجھتے ہیں جسے ایران نے ان گروہوں اور تنظیموں کو تہران کے خلاف اسرائیلی نقل و حرکت کے مقابل سپر کے طور پر استعمال کرنے کے تحت اختیار کیا ہوا ہے ۔
۳۔ سعودی سیاسی مفکرین نے اپنی ساری توجہ کو ان اداروں اور تنظیموں سے مقابلہ میں صرف کر رکھا ہے جو اسرائیل کے مخالف ہیں ، جیسے حزب اللہ ، حماس، اور انصار اللہ ، اور وہ تنظیمیں جو ایران کے شام و لبنان اور عراق میں کردار ادا کرنے کا سبب ہیں۔
۴.۔ ۲۰۱۸ ءکے دوران سعودی عرب کے زیادہ تر مضمون نگاروں اور تجزیہ نگاروں نے اپنی تحریروں میں اسرائیل و سعودی عرب کے درمیان تعلقات کو موضوع گفتگو قرار دیتے ہوئے انکے بارے میں لکھا اور بیان کیا، اور ایک دوسرے سے قربت کا سبب دونوں ہی ممالک کی ایران کے سلسلہ سے مشترکہ پریشانی کو بیان کرتے ہوئے دو طرفہ اسٹراٹیجی کی پیروی بیان کی جسکے چلتے ایران کو کنٹرول میں رکھتے ہوئے سعودی عرب کے ان حالات کو بہتر بنایا جا سکتا ہے جو بقول ان کے عربی بہار کی تحریک کی بنا پر بعض مزاحمتوں کے چلتے مکدر ہو گئے تھے اور سعودی عرب میں تحفظ و سکیورٹی کو لیکر خدشات سامنے آئے تھے ۔
۵۔ سعودی عرب کے بزرگ سیاسی متفکرین ایران کی ایک منفی تصویر پیش کرنے کے درپے ہیں جسکا شام ، یمن ، عراق اور لبنان میں رسوخ و نفوذ ہے۔
۶۔ سعودی عرب یہ دکھانے کی کوشش کر رہا ہے کہ ایران کے لوگ مشکلات کا شکار ہیں اور رنج وپریشانی میں گزر بسر کر رہے ہیں ہیں۔ سعودی عرب ایسا اس لئے کر رہا ہے کہ اسکی یہ سیاست خود اسکے اپنے اقتصادی حالات پر راست طور پر اثر انداز ہونے کا سبب ہے ۔
۷۔ سعودی متفکرین کا ماننا ہے کہ ایران کی دنیا سے مشکل ان کے جوہری توانائی کے پروگرام کو لیکر نہیں ہے بلکہ اصلی مشکل ایران کا طرز عمل ہے، ایران کا طرز عمل انکے بقول ایسا ہے کہ جس سے بین الاقوامی برادری تقاضوں کی رعایت خاص کر عربی خطے کے تحفظات نیز انکے درمیان اعتماد کی فضا اور انکے مابین دوستی ، کی تصویر سامنے نہیں آتی ہے ۔{اسکے برخلاف یہ نظر آتا ہے کہ باہمی اعتماد متزلزل ہے ،اور ایران بین الاقوامی برادری کے بر خلاف چل رہا ہے خاص کر عرب ملکوں کو اس سے خطرہ لاحق ہے} ۔
۸۔ ان لوگوں کا ماننا ہے کہ مجلس تعاون برائے خلیجی عرب ممالک (Cooperation Council for the Arab States of the Gulf)
یا خلیج تعاون کونسل (Gulf Cooperation Council – GCC) کو سب سے زیادہ نقصان ایران کے طرز عمل سے ہے اور مشرق وسطی اور خلیج فارس ایک ایسے آتش فشاں کے دہانے پر ہے جو پھٹنا ہی چاہتا ہے جو ایران کی سیاست کی وجہ سے متحرک ہو چکا ہے اور روس و امریکہ کے ذریعہ اسکو آکسیجن و غذا فراہم ہو رہی ہے یہ کبھی بھی پھٹ سکتا ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

سوشل ازم اور تاریخ (۱)

  • ۳۶۴

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: سرمایہ داری کے خلاف سوشل ازم کی جد و جہد ارتکاز دولت اور دولت کے پھیلاؤ کے تاریخی آہنگ کا ایک حصہ ہے۔ بلاشبہ نظام سرمایہ داری نے تاریخ میں بہت اہم تخلیقی کردار ادا کیا ہے۔ سرمایہ داروں نے اس نظام کے تحت لوگوں کی جمع پونجی منافع یا سود کے وعدے پر اکٹھی کر کے اسے پیداواری سرمائے کی شکل دی۔ یہ سرمایہ صنعت اور زراعت کو مشینی ذرائع استعمال کر کے ترقی دینے پر خرچ کیا گیا۔ سرمایہ دار نے اشیاء کی پیداوار اور تقسیم کاری کے عمل کو بہت بہتر بنایا جس کے نتیجے میں پیدا کرنے والوں سے صارفین تک اشیاء کا ایسا ہموار بہاؤ وجود میں آیا جس کی تاریخ میں پہلے مثال نہیں ملتی۔ علاوہ ازایں سرمایہ داروں نے شخصی آزادی کی روادارانہ تعلیمات کو اس دلیل کے تحت اپنے حق میں استعمال کیا ہے کہ حکومت کے زیر انتظام چلنے والی صنعتوں کی نسبت جو کہ طلب و رسد کے قوانین سے بڑی حد تک مستثنیٰ ہوتی ہیں، کاروباری لوگ عوام کو بہتر خوراک، رہائش اور آسائشات و تفریحات فواہم کر سکتے ہیں بشرطیکہ ان کو محصولات اور قانونی پابندیوں سے قدرے آزادی مہیا کر دی جائے۔ آزادانہ سرمایہ کاری کے نظام میں مقابلے کی فضا اور ملکیت کا جوش و خروش انسانوں کی پیداواری صلاحیتوں اور جدت طرازی کو جلا بخشتے ہیں۔ صلاحیتوں کے تنوع اور ہنرمندی کے قدرتی انتخاب کے باعث تقریبا ہر طرح کی معاشی صلاحیت رکھنے والوں کو اس نظام میں جلد یا بدیر اپنا موزوں مقام اور مناسب معاوضہ مل جاتا ہے۔ پھر سرمایہ کاری کا عمل در حقیقت جمہوریت کے تابع ہوتا ہے کیونکہ جہاں تک اشیاء کی پیداوار یا خدمات کی فراہمی کا تعلق ہے یہاں ان کا تعین حکومتی احکام کے بجائے عوام کی طلب سے کیا جاتا ہے۔ مزید بر آں مقابلہ کی فضا کے باعث سرمایہ دار بہت زیادہ محنت کرنے اور اپنی مصنوعات کو ہر طور بہتر سے بہتر بناتے رہنے پر مجبور ہوتا ہے۔
اوپر کئے گئے ان دعووں میں بہت حک تک صداقت ہے، لیکن نظام سرمایہ داری کے حامی اس بارے میں کوئی وضاحت نہیں کرتے کہ اگر یہ نظام اس قدر فطری اور بہتر ہے تو تاریخ صنعت کاروں کے تسلط، قیمتوں کی اجارہ داری، کاروباری فریب سازی اور بے محابا دولت کے باعث پیدا ہونے والی برائیوں کے خلاف بے شمار بغاوتوں اور وسیع پیمانے پر احتجاج سے کیوں بھری پڑی ہے؟
نظام سرمایہ داری کی یہ برائیاں زمانہ قدیم سے ہی موجود رہی ہیں کیونکہ انہی ردعمل کے طور پر بہت سے ملکوں میں اور کئی صدیوں سے سوشلسٹ تجربات ہو رہے ہیں۔ ہم نے پڑھا ہے کہ سمیریا میں تقریبا ۱۲۰۰ قبل مسیح میں ’’معیشت کا انتظام ریاست کے سپرد تھا، آبپاشی کے قابل ساری زمین حکومت کی ملکیت تھی، مزدوروں کو شاہی گوداموں میں جمع شدہ غلے سے راشن ملتا تھا اس وسیع سرکاری معیشت کے انتظام کے لیے درجہ بندی پر مبنی دفتری نظام قائم کیا گیا تھا۔ اور ساری وصولیوں اور راشن کی تقسیم کا حساب رکھا جاتا تھا ہزاروں کی تعداد میں مٹی کی تختیاں جن پر یہ حسابات درج تھے دار الحکومت اٗر(Ur) لاگاش (Lagash) اوراما (Umma) سے دستیاب ہوئی بیرونی تجارت بھی مرکزی انتظامیہ کے کنٹرول میں تھی۔
جاری
(اقتباس از کتاب تاریخ عالم کا ایک جائزہ تالیف ول ڈیورانٹ صفحہ ۷۴ ، ۷۵ )

 

امریکی پروفیسر لیفٹن آرمیٹیج کا تعارف

  • ۵۶۷

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: پروفیسر Professor Leighton Armitage لیفٹن آرمیٹیج کیلیفورنیا میں فوتھل کالج (Foothill College) میں شعبہ سیاسیات کے ایک ماہر استاد ہیں۔
یوں تو ڈاکٹر ارمیٹیج یورپ اور جاپان کے سیاسی حالات پر تخصص رکھتے ہیں لیکن ان کی کلاسوں میں زیادہ تر گفتگو کا محور اسرائیل کا موضوع رہتا ہے چونکہ وہ اس ناجائز ریاست سے شدید نفرت رکھتے ہیں۔ وہ اپنی کلاسوں میں اپنے شاگردوں کو یہ یاددہانی کرواتے ہیں کہ یہودیوں کا نازی فرقہ امریکی حکومت پر مکمل قبضہ رکھتا ہے۔ ان کا ماننا ہے کہ صہیونی ریاست کی موجودہ سرحد غیر قانونی، غیر اخلاقی اور ظالمانہ ہے اور اس “گتو” دیوار کے مانند ہے جسے نازیوں نے سن ۱۹۴۰ میں یہودیوں کو ٹریبلنکا اور آشوٹز میں ابدی قید کے لیے ورشو میں تعمیر کیا۔ ڈاکٹر ارمیٹیج اپنے شاگردوں سے کہتے ہیں کہ بہت کم لوگ اس بات کی طرف متوجہ ہوتے ہیں کہ یہودی دنیا میں کس قدر نفوذ رکھتے ہیں۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ امریکہ اسرائیل سے گہرے روابط کی بنا پر پوری دنیا کی نظر میں گر چکا ہے۔
پروفیسر آرمیٹیج امریکہ کے ہاتھوں عراقی دھشتگردوں کے پرامن گھروں کی مسماری اور اسرائیلی فوج کے ہاتھوں فلسطینی دھشتگردوں کے پرامن گھروں کی مسماری کو ایک ہی دلیل کے تحت مورد مذمت قرار دیتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ’’کیا آپ نے سنا ہے کہ ہم عراق میں ان افراد کے گھروں کے ساتھ کیسا سلوک کرتے ہیں جن پر دھشتگردانہ کاروائیاں کرنے کا الزام عائد ہے؟ ہم انہیں دھماکہ خیز مواد سے اڑا دیتے ہیں۔ اگر آپ پر دھشتگردی کا الزام عائد ہے تو آپ کا گھر دھماکہ سے اڑا دیا جائے گا۔ فرق یہ ہے کہ اسرائیلی اس کام کو بلڈوزر سے انجام دیتے ہیں جبکہ ہم دھماکہ خیز مواد سے۔ ہم زیادہ ترقی یافتہ عمل انجام دیتے ہیں!‘‘۔
ڈاکٹر آرمیٹیج کے بقول امریکی رنج و الم کو اس حقیقت سے نسبت دی جا سکتی ہے کہ یہودی امریکہ کے انتخابی سسٹم پر مکمل نظر رکھتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے: وہ بہت اچھے تاجر ہیں۔ اور اگر آپ کے پاس ان کے احترام کے لیے کوئی بھی دوسری دلیل نہ ہو تو صرف اسی بات پر آپ کو ان کا احترام کرنا چاہیے‘‘۔ البتہ وہ ہمارے انتخابات کو خرید لیتے ہیں۔ اور یہ وہ چیزیں ہیں جو بہت واضح ہیں اور آپ وقت کے ساتھ ساتھ جان لیں گے۔ کوئی بھی آپ کو یہ باتیں نہیں بتائے گا۔ اور کوئی بھی نہیں چاہے گا کہ آپ یہ سب جانیں۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ جب کچھ سال قبل کانگرس میں کام کرتے تھے کانگرس کے ایک رکن نے انہیں یہودی لابی کے شیاطین کے بارے میں خبردار کیا تھا۔
ڈاکٹر آرمیٹیج کے ذہن میں ہمیشہ فلسطین کے مسائل الجھے رہتے ہیں کہ ’’اسرائیلی ہر آئے دن فلسطینیوں کے ساتھ کیا برتاؤ کرتے ہیں؟ سوائے قتل و غارت کے وہ فلسطینوں کے ساتھ کوئی دوسرا برتاؤ نہیں کرتے۔ یہ وہی کام ہے جو ہٹلر نے یہودیوں کے ساتھ کیا تھا‘‘۔
ڈاکٹر آرمیٹیج کی باتیں اس قدر تلخ تھیں کہ فوتھل کالج کے سربراہ “برناڈین فونگ” کو مارچ ۲۰۰۴ میں ایک میٹنگ میں ان کی جانب سے معافی مانگنا پڑی۔ اس کے باوجود کہ وہ خود کو یہود مخالف کہتے تھے اور ان کی وجہ سے فوتھل کالج کو متعدد بار شرمندگی کا سامنا کرنا پڑا لیکن انہیں کالج سے باہر نہیں نکالا گیا جبکہ اگر کالج کی مینیجمنٹ کمیٹی چاہتی تو انہیں کالج میں تدریس کے عہدے سے برطرف کر دیتی۔
تحقیق: لی کاپلان

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۲۴۲

 

یہودیت اور وہابیت کے درمیان شباہتیں

  • ۴۲۱

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ؛ وہابیت کی عمر ۳۰۰ سال سے بھی کم ہے، یہ جماعت فقہی اہل سنت کے دامن میں فقہی اور کلامی مکاتب کی پیدائش کے ایک ہزار سال بعد معرض وجود میں آئی ہے اور جو لوگ اس جماعت کی تخلیق کے پس پشت کردار ادا کررہے تھے، ان کے اپنے خاص مقاصد تھے۔ اس جماعت کی ۳۰۰ سالہ کارکردگی سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کو عالم اسلام کی سرحدوں سے باہر ہی تخلیق کیا گیا ہے اور عالم اسلام میں کچھ اشخاص نے تنگ نظریوں یا پھر بیرونی بازیگروں کی سازش کے ساتھ مل کر اس کو پروان چڑھایا ہے۔
کیونکہ یہ وہ زمانہ تھا کہ ـ منگولوں کے حملے کے بعد عظیم اسلامی تہذیب کے زوال کے ۵۰۰ سال بعد ـ ایک بار پھر عالم اسلام علمی اور سائنسی عروج کی راہ پر گامزن ہورہا تھا، اور اپنے سابقہ تجربات اور اپنی تازہ صلاحیتوں کے بل بوتے پر نئی اسلامی تہذیب کی بنیاد رکھ رہا تھا۔ برطانوی استعمار اس حقیقت کو بخوبی سمجھ چکا تھا چنانچہ وہ مسلمانوں کی اس حرکت کو ابتداء ہی میں ناکارہ بنانا چاہتا تھا۔ چنانچہ اس نے یہاں وہابیت، بہائیت اور قادیانیت جیسی جماعتوں یا ایجنسیوں کی بنیاد رکھی اور مسلمانوں کو ان کے ساتھ مصروف کردیا اور کافی حد تک کامیاب بھی رہے۔
چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ مسلمانوں کے اصل دشمن غاصب یہودی تھے جو انگریزوں کی سازش کے نتیجے میں گذشتہ ستر برسوں سے مسلمانوں کے قبلہ اول پر قابض ہوئے ہیں لیکن وہابیت نے ابتداء میں خاموشی اختیار کرلی اور آج کے زمانے میں یہودیوں کے صف میں کھڑی نظر آرہی ہے کیونکہ مسلمان ـ اس کے خیال میں ـ اس قدر کمزور اور منتشر ہوئے ہیں کہ مزید چھپ کر وار کرنے کی ضرورت نہیں ہے بلکہ وہ اب نہ صرف کھل کر وار کررہی ہے بلکہ پورے عالم اسلام کی نمائندہ بن کر قبلہ اول کا سودا کررہی ہے چنانچہ موجودہ قبلہ کا تحفظ بھی خطرے میں پڑ گیا ہے۔
وہابیت کا اصول مسلمانوں کی تکفیر اور مسلمانوں کو للکارنے پر استوار ہے اور اس کی تمام تر کوشش یہ ہے کہ مسلمانوں کو ایک دوسرے کے خلاف صف آرا کیا جائے، عالم اسلام کا چہرہ مخدوش اور داغ دار کیا جائے، دہشت گردی کو فروغ دیا جائے، چنانچہ وہ نہ تو اسلام کے بیرونی دشمنوں کی دشمن ہے اور نہ ہی اس کے پاس مسلمانوں کے درمیان انتشار پھیلانے سے کوئی فرصت ہے کہ بیرونی دشمنوں کو توجہ دے سکے جبکہ ان کے عقائد میں بھی بیرونی دشمن کا کوئی تصور نہیں ہے بلکہ وہ ہر وقت امت مسلمہ کے اندر دشمنیوں کو پروان چڑھاتی ہے اور بیرونی دشمن کو اپنے مقاصد حاصل کرنے کا موقع فراہم کرتی ہے؛ چنانچہ وہ نہ صرف دشمن کے خلاف کوئی اقدام نہیں کرتی بلکہ آج اعلانیہ طور پر دشمنوں کی صف میں کھڑی ہے اور یہودیوں اور صہیونیوں کے مد مقابل کھڑی حزب اللہ، حماس، جہاد اسلامی اور عالمی اسلامی مزاحمت کی تنظیموں کے مد مقابل آکھڑی ہوئی ہے جبکہ بنی سعود، بنی نہیان اور بنی خلیفہ سمیت عرب ریاستیں اپنی دولت وہابیت کے مذموم مقاصد کے قدموں میں ڈھیر کر رہی ہیں۔
چنانچہ ایک وہابی تکفیری لکھاری پہلی مرتبہ یہودی ریاست کو شکست کی تلخی سے آشنا کرنے والی لبنانی مزاحمتی تنظیم “حزب اللہ” پر تنقید کرتے ہوئے اپنے مضمون کا عنوان “حزب الله الشیعی اللبنانی: حزب الله أم حزب الشیطان؟” (شیعہ لبنانی تنظیم حزب اللہ، حزب اللہ یا حزب الشیطان) قرار دیتا ہے اور اس کے ذیل میں جہاں تک ممکن ہے اس نے حزب اللہ اور سید حسن نصراللہ پر الزامات اور بہتانوں کی بوچھاڑی کردی ہے اور اپنے وہابی معمول کے مطابق بدزبانی سے سے کام لیا ہے۔ (۱) جبکہ حزب اللہ کا اپنا کردار ہے اور عرب اور مسلم دنیا میں کوئی بھی اس وہابی لکھاری کی بدزبانیوں کا اعتبار نہیں کرسکتا۔ لیکن ادھر یہودی ریاست ہر روز فلسطینیوں کا خون بہاتی ہے، شام میں خانہ جنگی کو ہوا دیتی ہے، اور لاکھوں انسانوں کے قتل کے اسباب فراہم کرتی ہے، لبنان پر حملے کرتی ہے اور فلسطین پر قبضہ کرکے قبلہ اول کو غصب کئے ہوئے لیکن آپ کو کہیں بھی کوئی وہابی یہودیوں کے اس ظالمانہ اور غاصبانہ کردار پر تنقید کرتا نہیں دکھائی دے گا بلکہ اس زمانے میں تو وہ باقاعدہ یہودیت اور صہیونیت کی صف میں کھڑے نظر آرہے ہیں جس سے وہابیت کی حقیقت پہلے سے کہیں زیادہ عیاں ہوتی ہے اور یہ صورت حال مسلمانوں کو اس جماعت کے سلسلے میں زیادہ غور کرنے اور اپنا فیصلہ سنانے کی دعوت دے رہی ہے۔
یہودی ریاست کے مظالم کے آگے خاموشی اور حزب اللہ سمیت اسلامی مزاحمت کی تنظیموں کے خلاف سازشوں کے علاوہ بھی کچھ مسائل ہیں جن سے یہودیت اور وہابیت کے باہمی ناطے کے متعدد ثبوت ملتے ہیں:
ایک موضوع ابن تیمیہ کا سلسلہ نسب ہے جس کی طرف مسلمان محققین نے کوئی خاص توجہ نہیں دی ہے، اور اگر اس شخص کے نسب کو سمجھا جائے تو اس کے ظہور اور اس کی پیروی میں اس طرح کے فرقے کے ظہور کے محرکات کا بہتر ادراک کیا جاسکتا ہے۔ لفظ تیمیہ “تیما” سے ماخوذ ہے اور “تیما” مدینہ کے شمال میں واقع یہودی محلے کا نام تھا۔ (۲)
حقیقت یہ ہے کہ اس کے آباء و اجداد وہ لوگ تھے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ کی تلاش کے لئے مدینہ کے شمال میں سکونت پذیر ہوچکے تھے، اور ابن تیمیہ حرانی کا سلسلۂ نسب بھی شمالی مدینہ کے یہودیوں سے جا ملتا ہے چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ ابن تیمیہ اور یہودیوں کے افکار اور عقائد کے درمیان اس قدر شباہتیں پائی جاتی ہیں۔
یہودیت اور وہابیت کے درمیان بعض شباہتیں
۱۔ اللہ کی جسمانیت
سلفیت کا بانی اور وہابیت کا سرچشمہ ابن تیمیہ کہتا ہے: “خدا کی کتاب اور رسول اللہ(ص) کی سنت نیز صحابہ کے کلام میں ایسی کوئی بات دیکھنے کو نہیں ملتی کہ خدا جسم نہیں ہے۔ چنانچہ اللہ کی جسمانیت کی نفی کرنا یا اس کا اثبات کرنا، بدعت ہے اور کسی نے بھی اس کی جسمانیت کا نہ اثبات کیا ہے اور نہ ہی اسے ردّ کیا ہے”۔ (۳)
کتاب مقدس کی بنیاد پر یہودی عقیدہ: “تب موسی اور ہارون اور ناداب اور ابیہو بنی اسرائیل کے ۷۰ عمائدین کے ہمراہ پہاڑ کے اوپر گئے ٭ اسرائیل کے خدا کو دیکھا اور اس کے پاؤں تلے نیلم کے پتھر کا فرش تھا جو آسمان کی مانند شفاف تھا، اگرچہ اسرائیل کے بزرگوں نے خدا کو دیکھا لیکن خدا نے انہیں کوئی نقصان نہیں پہنچایا اور انھوں نے خدا کے حضور کھایا پیا”۔ (۴)
۲۔ خدا کا کرہ ارضی پر اتر آنا
ابن تیمیہ کہتا ہے: “خداوند متعال ہر شب جمعہ اس دنیا کے آسمان پر اتر آتا ہے اور کہتا ہے: کیا کوئی ہے جو مجھے پکارے اور میں اس کی اجابت کروں؟ کیا کوئی ہے جو مغفرت طلب کرے اور میں اس کو بخش دوں؟ اور اللہ طلوع فجر تک دنیا کے آسمان پر بیٹھ کر یہی جملے دہراتا رہتا ہے”۔ وہ کہتا ہے: “جو شخص عرش سے خدا کے نزول کا انکار کرے، یا اس کی تأویل کرے، [اور دوسرا مطلب لے] وہ بدعتی اور گمراہ ہے”۔ (۵)
زمین والے آسمان یا کرہ ارضی اور اس کے مضافات میں خداوند سبحان کے نزول کے بارے میں ابن تیمیہ کے اس وہم کو مد نظر رکھتے ہوئے، کتاب مقدس کی ورق گردانی کرتے ہیں تو ہمیں یہ جملے ملتے ہیں کہ جس وقت کہ ابراہیم ممرے کے بلوطستان میں سکونت پذیر تھے خداوند ایک بار پھر انہیں نظر آیا۔ واقعے کی تفصیل کچھ یوں ہے:
“پھر خداوند ممرے کے بلوطستان میں انہیں نظر آیا اور وہ دن کی گرمی میں اپنے خیمے کے دروازے پر بیٹھے تھے * انھوں نے آنکھیں اٹھا کر دیکھا کہ وہ تین مرد ان کے سامنے کھڑے ہیں۔ وہ ان کو دیکھ کر خیمے کے دروازے سے اٹھ کر ان سے ملنے کے لئے دوڑے اور زمین تک جھک گئے۔ [یا اپنا چہرہ زمین پر رگڑا] * اور کہنے لگے کہ اے میرے آقا! اگر تو نے مجھ پر کرم کی نظر کی ہے تو اپنے خادم کے پاس رکنا * تاکہ تھوڑا سا پانی لایا جائے اور تو اپنے پاؤں دھو لینا اور اس درخت کے سائے میں آرام کرنا میں ابھی چلتا ہوں اور تیرے پاؤں دھونے کے لئے پانی لاتا ہوں”۔ (۶)
جزیرہ نمائے عرب کے مشہور مصنف اور محقق “ناصر آل سعید الشمری” (المعروف بہ ناصر السعید) (ولادت ۱۹۲۳ع‍ – وفات ۱۹۷۹ع‍) اپنی کتاب “تاریخ آل سعود” میں وہابی فرقے کے بانی “محمد بن عبدالوہاب” کے بارے میں لکھتے ہیں: “محمد بن عبدالوہاب کا دادا “سلیمان قرقوزی” ایک یہودی تھا جس نے ترکی سے جزیرہ نمائے عرب کی طرف ہجرت کی تھی”، نیز وہ بنی سعود کے بارے میں ـ جن کی حکومت تین صدیوں سے قائم ہوئی ہے ـ لکھتے ہیں: “بنی سعود کے یہودی جد اعلی کا نام ـ جس نے اسلام ظاہر کیا ـ “مُردخائے بن ابراہیم بن موسی” تھا جو بصرہ کے یہودیوں میں سے تھا”۔ (۷)
فرقہ وہابیت اور یہودیت کے درمیان کے رشتوں ناطوں کے بارے میں ثبوت و شواہد بہت زیادہ ہیں جن سے غاصب یہودی ریاست کے ساتھ وہابیت اور سعودی حکمرانوں کے آج کی اعلانیہ ساز باز اور تعاون کے اسباب کو واضح کردیتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۱۔ الشیعة هم العدو فاحذرهم، شحاتة محمد صقر، مکتبة دار العلوم، البحیرة (مصر)، ص ۱۵۴٫
۲۔ قاموس الکتاب المقدس، هاکس، مجمع الکنائس الشرقیة، سوم، مکتبة المشغل – بیروت بإشراف رابطة الکنائس الإنجیلیة فی الشرق الأوسط، ص ۲۲۸٫
۳۔ الفتاوى الکبرى لابن تیمیة، تقی الدین أبو العباس أحمد بن عبد الحلیم ابن تیمیة الحرانی الحنبلی الدمشقی، دار الکتب العلمیة، اول، ۱۴۰۸هـ – ۱۹۸۷م، ج ،۵، ص ۱۹۲
۴۔ عهد قدیم، خروج، فصل ۲۴، آیات ۹، ۱۰ اور ۱۱۔
۵۔ مجموع الرسائل الکبری، ابن تیمیة، دار إحیاء التراث العربی،  رساله یازدهم، صفحه ۴۵۱۔
۶۔ عہد قدیم، پیدائش، باب ۱۸ آیات ۱ تا ۵٫
۷۔ تاریخ آل سعود، ناصر السعید، ص ۳۵٫بی تا، بی جا، بی نا.
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مترجم: فرحت حسین مہدوی
http://farsi.al-shia.org/