-
Sunday, 19 July 2020، 02:07 AM
-
۳۷۹
خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: یہ دیکھنا ہر مسلمان کا حق ہے کہ اس زمانے میں کون سا مکتب اس یہودی تصور اور یہودی عقیدے سے زیادہ شباہت رکھتا ہے؟ کون ہے جو صدر اول کے یہودیوں کی طرح اسلام دشمنوں کی گود میں بیٹھ کر آج کی یہودیت اور نصرانیت کے ساتھ تعاون کرکے امت اور اسلام کے خلاف سازشوں میں مصروف ہے؟ کون ہے جو کہتا ہے کہ “غاصب یہودی ریاست فلاں اسلامی مکتب کے پیروکاروں سے بہتر ہے؟”
گمراہ وہابیت کی جڑیں ـ چاہتے ہوئے یا نہ چاہتے ہوئے ـ یہودیت میں پیوست ہیں۔ وہابیت میں دین کی بنیادوں کی حفاظت اہمیت نہیں رکھتی، وہ اسلام کے صحیح احکام اور مذہب تشیّع کی صحیح فکر کو اپنے لئے بڑا خطرہ سمجھتی ہے، اور اسی بنا پر [بحیثیت ایک سیاسی ادارہ، جس نے برطانوی سامراجی سوچ سے جنم لیا ہے] اپنے مفادات ہر ممکنہ اقدام کو جائز قرار دیتی ہے یہاں تک کہ یہودیت سمیت اسلام کے بڑے تاریخی، اعتقادی اور سیاسی دشمنوں کے ساتھ تعاون کر ڈالتے ہیں، صرف اس لئے کہ خالص محمدی اسلام کے اثر و رسوخ کا سد باب کرسکے۔
یہودیوں کی اسلام دشمنی کا سبب یہ تھا کہ وہ اسلام کے فروغ کو دیکھ کر اپنی پوزیشن کو خطرے سے دوچار ہوتا ہوا دیکھتے تھے، چنانچہ انھوں نے اپنی پوری قوت کو بروئے کار لا کر چراغ اسلام کو بجھانے کی ٹھانی اور مشرکین کے ساتھ تعاون کو اپنے ایجنڈے میں سرفہرست رکھا جب کہ آسمانی دین کی پیروکاری کے دعویدار تھے۔ انھوں نے حیی بن اخطب کی سربراہی میں ایک وفت مکہ روانہ کیا۔ انھوں نے قریشی مشرکوں کے عمائدین سے مل کر انہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ اور مسلمانوں پر یلغار کرنے کی ترغیب دلائی۔ قریش ـ جو تذبذب کا شکار تھے ـ یہودیوں سے کہنے لگے: “تم اہل کتاب ہو، اور ہمارے اور محمد(ص) کے باہمی اختلاف سے باخبر ہو، اب یہ بتاؤ کہ ہمارا دین بہتر ہے یا محمد(ص) کا دین؟؟؟” یہودیوں نے کہا: “تمہارا دین ان کے دین سے بہتر ہے، اور تم ہی حق بجانب ہو”، اور مشرکین نے ان سے کہا: “اگر تم سچے ہو تو ہمارے بتوں کو سجدہ کرو تا کہ ہم تم پر اعتماد کرسکیں”؛ یہودی بھی بلا تاخیر ان کے بتوں کے آگے سجدہ ریز ہوئے”۔
خداوند متعال نے سورہ نساء کی آیات ۵۱ اور ۵۲ میں اس واقعے کی طرف اشارہ فرمایا ہے:
“أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِینَ أُوتُواْ نَصِیباً مِّنَ الْکِتَابِ یُؤْمِنُونَ بِالْجِبْتِ وَالطَّاغُوتِ وَیَقُولُونَ لِلَّذِینَ کَفَرُواْ هَؤُلاء أَهْدَى مِنَ الَّذِینَ آمَنُواْ سَبِیلاً ٭ أُوْلَـئِکَ الَّذِینَ لَعَنَهُمُ اللّهُ وَمَن یَلْعَنِ اللّهُ فَلَن تَجِدَ لَهُ نَصِیراً؛ کیا تم نے نہیں دیکھا انہیں کہ جن کو کتاب کا کچھ حصہ دیا گیا کہ وہ جبت اور طاغوت پر ایمان لاتے ہیں اور کافروں کو کہتے ہیں کہ یہ اہل ایمان سے زیادہ ٹھیک راستے پر ہیں ٭ یہ وہ ہیں جن پر اللہ نے لعنت کی ہے اور جس پر اللہ لعنت کرے، اس کا ہرگز کوئی مدد گار تم نہ پاؤ گے”۔ (۱)
یہ تاریخی واقعہ کس قدر ہمارے لئے جانا پہچانا ہے، یہ جو کہا جاتا ہے کہ تاریخ دہرائی جاتی ہے، حقیقتا صحیح ہے۔
قارئین خود ہی تلاش کریں اور دیکھیں کہ اس زمانے میں کون سا مکتب اس یہودی تصور اور یہودی عقیدے سے زیادہ شباہت رکھتا ہے؟ کون ہے جو صدر اول کے یہودیوں کی طرح اسلام دشمنوں کی گود میں بیٹھ کر آج کی یہودیت اور نصرانیت کے ساتھ تعاون کرکے امت اور اسلام کے خلاف سازشوں میں مصروف ہے؟ کون ہے جو کہتا ہے کہ “غاصب یہودی ریاست فلاں اسلامی مکتب کے پیروکاروں سے بہتر ہے؟”
جی ہاں! بالکل صحیح ہے، وہابی فرقہ ایسا ہی ہے، اور وہ بھی جو اللہ کے بجائے وہابیت کو خوش کرنے کے درپے ہیں تا کہ اگر ممکن ہوا تو پٹرو ڈالروں میں سے چند ڈالر ان کی جیب میں ڈال دیئے جائیں۔
لیکن سوال یہ ہے کہ ساز باز کس قیمت پر؟ اسلام پر یلغار کرکے، امت کو دشمن کے سپرد کرکے، قبلہ اول کو یہود کا قبلہ سمجھ کر؟ اور مذہب تشیع کو بدترین اور ظالمانہ ترین عداوتوں کا نشانہ بنا کر؟ جبکہ اسلام کے دشمنوں سے مدد مانگنا ـ اور وہ بھی مسلمان بھائیوں کے خلاف لڑنے کے لئے ـ مشرکین کی روایت اور قرآن کریم اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ کی سنت کی کھلی مخالفت ہے۔ (۲)
گمراہ وہابیت کی جڑیں ـ چاہتے ہوئے یا نہ چاہتے ہوئے ـ یہودیت میں پیوست ہیں۔ وہابیت میں دین کی بنیادوں کی حفاظت اہمیت نہیں رکھتی، وہ اسلام کے صحیح احکام اور مذہب تشیّع کی صحیح فکر کو اپنے لئے بڑا خطرہ سمجھتی ہے، اور اسی بنا پر [بحیثیت ایک سیاسی ادارہ، جس نے برطانوی سامراجی سوچ سے جنم لیا ہے] اپنے مفادات ہر ممکنہ اقدام کو جائز قرار دیتی ہے یہاں تک کہ یہودیت سمیت اسلام کے بڑے تاریخی، اعتقادی اور سیاسی دشمنوں کے ساتھ تعاون کر ڈالتے ہیں، صرف اس لئے کہ خالص محمدی اسلام کے اثر و رسوخ کا سد باب کرسکے۔ (۱)
دشمنان اسلام کو بھی گدلا پانی مل چکا ہے اور بڑی آسانی سے اس گدلے پانی سے مچھلیاں پکڑ رہے ہیں اور پیسے بھی کما رہے ہیں، جبکہ غیر قانونی عرب قبائلی حکومتیں مسلمانوں کی دولت لوٹنے میں دشمنان اسلام کے ساتھ تعاون کررہے ہیں۔
کئی مسلمان شیعہ اور سنی اختلاف کو بنیاد بنا کر وہابیت کو ایک سنی فرقہ سمجھتے ہیں اور اس کی حمایت کرتے ہیں اور اس کے ساتھ جذباتی تعلق جوڑے ہوئے ہیں جبکہ افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ تمام مسلمانوں کا قرآنی عقیدہ ہے کہ یہود اسلام اور مسلمانوں کا بدترین دشمن ہے۔ (سورہ مائدہ، آیت ۸۲) اور وہابیت کی جڑیں یہودیت میں پیوست ہیں؛ جس کا ثبوت اس زمانے میں وہابیوں اور سعودیوں نے فراہم کردیا ہے۔ وہ آج صرف اپنے اقتدار کے تحفظ کے لئے اسلام، یہودی ریاست کے ساتھ قبلہ اول، فلسطین، مسلمانوں اور امت مسلمہ کے تمام تر مفادات کا سودا کرچکے ہیں اور اعترافات مسلسل سامنے آرہے ہیں کہ ان کے تعلقات بہت پرانے ہیں اور ۱۹۶۰ع اور ۱۹۷۰ع کے عشروں میں مسلم ـ یہودی (عرب ـ اسرائیلی) جنگوں میں سعودیوں اور وہابیوں کی غداری اور خیانت مسلمانوں کی شکست کا سبب بنی ہوئی ہے اور اگر کہیں فیصل جیسا کوئی ابھرا ہے جو یہود و نصاری کی مسلم دشمنی کے حوالے سے امت مسلمہ کا ہمنوا رہا ہے، اس کو بےدردی سے قتل کیا گیا ہے، گولی مار کر یا پھر خالد کی طرح خفیہ روشوں سے۔
آج وہابیت اور تکفیریت کے عمائدین جانتے ہوئے اور عام وہابی اور تکفیری دہشت گرد نہ جانتے ہوئے، اسلام کے پیکر پر مہلک وار کررہے ہیں، اور ان کے لئے مسلمانوں کا مفاد نہ صرف عزیز نہیں ہے بلکہ یہودیوں کے ساتھ مل کر مسلمانوں کے مفادات کو نقصان پہنچانا، اپنا مشن سمجھتے ہیں۔
عقل و قوت تجزیہ کی تکفیری وہابیت دین کی ہمدرد نہیں ہے، وہ اسلام کے صحیح احکام اور مذہب تشیّع کے تمام حقیقی اور الہی تفکر کو اپنے لئے سب سے بڑا خطرہ سمجھتی ہے اور اس راہ میں اسلام، قرآن اور امت کے تمام تر مفادات تک کو قربان کرسکتی ہے۔ اور ہر وہ حربہ بروئے کار لاتی ہے جس سے وہ امت کے تحفظ اور مسلمانوں، نیز قرآن اور اسلام کی بقاء کی ضمانت دینے والے خالص محمدی اسلام کے اثر و نفوذ کا سد باب کیا جاسکے۔
دشمنان اسلام بھی اس پیچیدہ صورت حال سے فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ وہ دشمن جو تفرقہ، انستشار اور فتنہ پروری کرکے، اسلام، قرآن اور امت سے انتقام لینے کی سعی کررہے ہیں اور انہیں وہابیت جیسا حربہ ملا ہے جس سے وہ بھرپور فائدہ لے رہے ہیں۔
خداوند متعال قرآن کریم میں ارشاد فرماتا ہے:
“إِنَّ الَّذِینَ یَکْتُمُونَ مَا أَنزَلْنَا مِنَ الْبَیِّنَاتِ وَالْهُدَى مِن بَعْدِ مَا بَیَّنَّاهُ لِلنَّاسِ فِی الْکِتَابِ أُولَـئِکَ یَلعَنُهُمُ اللّهُ وَیَلْعَنُهُمُ اللَّاعِنُونَ * إِلاَّ الَّذِینَ تَابُواْ وَأَصْلَحُواْ وَبَیَّنُواْ فَأُوْلَـئِکَ أَتُوبُ عَلَیْهِمْ وَأَنَا التَّوَّابُ الرَّحِیمُ؛ بلاشبہ وہ جو چھپاتے ہیں ہماری اتاری ہوئی واضح دلیلوں اور ہدایت کو جب کہ ہم اسے تمام لوگوں کے لیے کتاب میں صاف طور پر بیان کر چکے ہیں، یہ وہ ہیں کہ ان پر اللہ لعنت کرتا ہے اور تمام لعنت کرنے والے ان پر لعنت کرتے ہیں * مگر وہ جنہوں نے توبہ کی، اعمال درست کیے اور اظہار کر دیا تو یہ وہ ہیں جن کی میں توبہ قبول کروں گا، اور میں بڑا توبہ قبول کرنے والا ہوں، رحم کھانے والا”۔ (۳)
نیز ارشاد ہوتا ہے:
“أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِینَ أُوتُواْ نَصِیباً مِّنَ الْکِتَابِ یُؤْمِنُونَ بِالْجِبْتِ وَالطَّاغُوتِ وَیَقُولُونَ لِلَّذِینَ کَفَرُواْ هَؤُلاء أَهْدَى مِنَ الَّذِینَ آمَنُواْ سَبِیلاً * أُوْلَـئِکَ الَّذِینَ لَعَنَهُمُ اللّهُ وَمَن یَلْعَنِ اللّهُ فَلَن تَجِدَ لَهُ نَصِیراً * أَمْ لَهُمْ نَصِیبٌ مِّنَ الْمُلْکِ فَإِذاً لاَّ یُؤْتُونَ النَّاسَ نَقِیراً * أَمْ یَحْسُدُونَ النَّاسَ عَلَى مَا آتَاهُمُ اللّهُ مِن فَضْلِهِ فَقَدْ آتَیْنَآ آلَ إِبْرَاهِیمَ الْکِتَابَ وَالْحِکْمَةَ وَآتَیْنَاهُم مُّلْکاً عَظِیماً * فَمِنْهُم مَّنْ آمَنَ بِهِ وَمِنْهُم مَّن صَدَّ عَنْهُ وَکَفَى بِجَهَنَّمَ سَعِیراً؛ کیا تم نے نہیں دیکھا انہیں کہ جن کو کتاب کا کچھ حصہ دیا گیا کہ وہ جبت اور طاغوت کے معتقد ہوتے ہیں اور کافروں کو کہتے ہیں کہ یہ اہل ایمان سے زیادہ ٹھیک راستے پر ہیں * یہ وہ ہیں جن پر اللہ نے لعنت کی ہے اور جس پر اللہ لعنت کرے، اس کا ہرگز کوئی مدد گار تم نہ پاؤ گے * کیا اقتدار سلطنت میں ان کا کوئی موروثی حصہ ہے؟ پھر تو یہ لوگوں کو ذرا سا بھی نہ دیں گے * یا وہ لوگوں پر رشک و حسد کرتے ہیں اس پر جو اللہ نے انہیں اپنے فضل و کرم سے دیا تو اچھا، پھر سن لیں کہ ہم نے نسل ابراہیمی کو کتاب اور حکمت عطا کی ہے اور انہیں بہت بڑا شاہانہ اقتدار عطا کیا ہے”۔ (۴)
…………..
حوالہ جات
۱۔ ابن عاشور محمد بن طاہر، التحریر و التنویر، ناشر: موسسۃ التاریخ، ط اول ، بیروت، ج۴، ص۱۵۶، تفسیر آیات ۵۱ و ۵۲ سوره نساء “اور یہ آیت اس واقعے کی طرف اشارہ ہے جو بعض یہودیوں سے متعلق ہے اور ان میں کعب بن اشرف اور حیی بن اخطب شامل تھے۔ انہیں جنگ احد کے بعد توقع تھی کہ مسلمانوں کے لئے کوشش کرسکیں گے، چنانچہ وہ مکہ کی طرف روانہ ہوئے تا کہ مسلمانوں کے خلاف جنگ کی غرض سے مشرکین کے ساتھ متحد ہوجائیں، تو کعب بن اشرف ابو سفیان کا مہمان بنا اور باقی لوگ قریش کے دوسرے افراد کے پاس چلے گئے۔ تو مشرکین نے ان سے کہا: “تم اہل کتاب ہو اور ممکن ہے کہ تم ہماری نسبت محمد(ص) اور ان کے پیروکاروں سے زیادہ قریب ہوں، چنانچہ ہم تمہاری سازشوں سے محفوظ نہیں ہیں”۔ تو یہودیوں نے کہا: “بتوں کی پوجا اللہ کے نزدیک زیادہ پسندیدہ ہے اس چیز سے جس کی طرف محمد بلا رہے ہیں اور تم زیادہ درست راستے پر چل رہے ہو”۔ چنانچہ مشرکین نے ان سے کہا: “تو پھر ہمارے خداؤں کے سامنے سجدہ ریز ہوجاؤ تا کہ ہم تم پر اعتماد کریں”؛ تو یہودیوں نے ایسا ہی کیا اور یہ آیت نازل ہوئی جس میں اللہ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ کو یہود اور اہل مکہ کی سازش سے آگاہ فرمایا۔
[۲]. الحافظ ابو عبدالله محمد بن یزید قزوینی، سنن ابن ماجه، علق علیه محمد فواد عبدالباقی، ج۲، ص۹۴۵، باب۲۷،ح۲۸۳۲ «قال رسول الله صلى الله علیه وسلم: إنا لا نستعین بمشرک»؛ “رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ نے فرمایا: “ہم کبھی بھی مشرک سے مدد نہیں مانگتے”۔
3. سورہ بقرہ، آیات ۱۵۹-۱۶۰۔
4. سورہ نساء، آیات ۵۱ تا ۵۵٫
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔