وہابیت کی جڑ یہودیت ہے!

  • ۳۷۰

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: یہ دیکھنا ہر مسلمان کا حق ہے کہ اس زمانے میں کون سا مکتب اس یہودی تصور اور یہودی عقیدے سے زیادہ شباہت رکھتا ہے؟ کون ہے جو صدر اول کے یہودیوں کی طرح اسلام دشمنوں کی گود میں بیٹھ کر آج کی یہودیت اور نصرانیت کے ساتھ تعاون کرکے امت اور اسلام کے خلاف سازشوں میں مصروف ہے؟ کون ہے جو کہتا ہے کہ “غاصب یہودی ریاست فلاں اسلامی مکتب کے پیروکاروں سے بہتر ہے؟”
گمراہ وہابیت کی جڑیں ـ چاہتے ہوئے یا نہ چاہتے ہوئے ـ یہودیت میں پیوست ہیں۔ وہابیت میں دین کی بنیادوں کی حفاظت اہمیت نہیں رکھتی، وہ اسلام کے صحیح احکام اور مذہب تشیّع کی صحیح فکر کو اپنے لئے بڑا خطرہ سمجھتی ہے، اور اسی بنا پر [بحیثیت ایک سیاسی ادارہ، جس نے برطانوی سامراجی سوچ سے جنم لیا ہے] اپنے مفادات ہر ممکنہ اقدام کو جائز قرار دیتی ہے یہاں تک کہ یہودیت سمیت اسلام کے بڑے تاریخی، اعتقادی اور سیاسی دشمنوں کے ساتھ تعاون کر ڈالتے ہیں، صرف اس لئے کہ خالص محمدی اسلام کے اثر و رسوخ کا سد باب کرسکے۔
یہودیوں کی اسلام دشمنی کا سبب یہ تھا کہ وہ اسلام کے فروغ کو دیکھ کر اپنی پوزیشن کو خطرے سے دوچار ہوتا ہوا دیکھتے تھے، چنانچہ انھوں نے اپنی پوری قوت کو بروئے کار لا کر چراغ اسلام کو بجھانے کی ٹھانی اور مشرکین کے ساتھ تعاون کو اپنے ایجنڈے میں سرفہرست رکھا جب کہ آسمانی دین کی پیروکاری کے دعویدار تھے۔ انھوں نے حیی بن اخطب کی سربراہی میں ایک وفت مکہ روانہ کیا۔ انھوں نے قریشی مشرکوں کے عمائدین سے مل کر انہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ اور مسلمانوں پر یلغار کرنے کی ترغیب دلائی۔ قریش ـ جو تذبذب کا شکار تھے ـ یہودیوں سے کہنے لگے: “تم اہل کتاب ہو، اور ہمارے اور محمد(ص) کے باہمی اختلاف سے باخبر ہو، اب یہ بتاؤ کہ ہمارا دین بہتر ہے یا محمد(ص) کا دین؟؟؟” یہودیوں نے کہا: “تمہارا دین ان کے دین سے بہتر ہے، اور تم ہی حق بجانب ہو”، اور مشرکین نے ان سے کہا: “اگر تم سچے ہو تو ہمارے بتوں کو سجدہ کرو تا کہ ہم تم پر اعتماد کرسکیں”؛ یہودی بھی بلا تاخیر ان کے بتوں کے آگے سجدہ ریز ہوئے”۔
خداوند متعال نے سورہ نساء کی آیات ۵۱ اور ۵۲ میں اس واقعے کی طرف اشارہ فرمایا ہے:
“أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِینَ أُوتُواْ نَصِیباً مِّنَ الْکِتَابِ یُؤْمِنُونَ بِالْجِبْتِ وَالطَّاغُوتِ وَیَقُولُونَ لِلَّذِینَ کَفَرُواْ هَؤُلاء أَهْدَى مِنَ الَّذِینَ آمَنُواْ سَبِیلاً ٭ أُوْلَـئِکَ الَّذِینَ لَعَنَهُمُ اللّهُ وَمَن یَلْعَنِ اللّهُ فَلَن تَجِدَ لَهُ نَصِیراً؛ کیا تم نے نہیں دیکھا انہیں کہ جن کو کتاب کا کچھ حصہ دیا گیا کہ وہ جبت اور طاغوت پر ایمان لاتے ہیں اور کافروں کو کہتے ہیں کہ یہ اہل ایمان سے زیادہ ٹھیک راستے پر ہیں ٭ یہ وہ ہیں جن پر اللہ نے لعنت کی ہے اور جس پر اللہ لعنت کرے، اس کا ہرگز کوئی مدد گار تم نہ پاؤ گے”۔ (۱)
یہ تاریخی واقعہ کس قدر ہمارے لئے جانا پہچانا ہے، یہ جو کہا جاتا ہے کہ تاریخ دہرائی جاتی ہے، حقیقتا صحیح ہے۔
قارئین خود ہی تلاش کریں اور دیکھیں کہ اس زمانے میں کون سا مکتب اس یہودی تصور اور یہودی عقیدے سے زیادہ شباہت رکھتا ہے؟ کون ہے جو صدر اول کے یہودیوں کی طرح اسلام دشمنوں کی گود میں بیٹھ کر آج کی یہودیت اور نصرانیت کے ساتھ تعاون کرکے امت اور اسلام کے خلاف سازشوں میں مصروف ہے؟ کون ہے جو کہتا ہے کہ “غاصب یہودی ریاست فلاں اسلامی مکتب کے پیروکاروں سے بہتر ہے؟”
جی ہاں! بالکل صحیح ہے، وہابی فرقہ ایسا ہی ہے، اور وہ بھی جو اللہ کے بجائے وہابیت کو خوش کرنے کے درپے ہیں تا کہ اگر ممکن ہوا تو پٹرو ڈالروں میں سے چند ڈالر ان کی جیب میں ڈال دیئے جائیں۔
لیکن سوال یہ ہے کہ ساز باز کس قیمت پر؟ اسلام پر یلغار کرکے، امت کو دشمن کے سپرد کرکے، قبلہ اول کو یہود کا قبلہ سمجھ کر؟ اور مذہب تشیع کو بدترین اور ظالمانہ ترین عداوتوں کا نشانہ بنا کر؟ جبکہ اسلام کے دشمنوں سے مدد مانگنا ـ اور وہ بھی مسلمان بھائیوں کے خلاف لڑنے کے لئے ـ مشرکین کی روایت اور قرآن کریم اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ کی سنت کی کھلی مخالفت ہے۔ (۲)
گمراہ وہابیت کی جڑیں ـ چاہتے ہوئے یا نہ چاہتے ہوئے ـ یہودیت میں پیوست ہیں۔ وہابیت میں دین کی بنیادوں کی حفاظت اہمیت نہیں رکھتی، وہ اسلام کے صحیح احکام اور مذہب تشیّع کی صحیح فکر کو اپنے لئے بڑا خطرہ سمجھتی ہے، اور اسی بنا پر [بحیثیت ایک سیاسی ادارہ، جس نے برطانوی سامراجی سوچ سے جنم لیا ہے] اپنے مفادات ہر ممکنہ اقدام کو جائز قرار دیتی ہے یہاں تک کہ یہودیت سمیت اسلام کے بڑے تاریخی، اعتقادی اور سیاسی دشمنوں کے ساتھ تعاون کر ڈالتے ہیں، صرف اس لئے کہ خالص محمدی اسلام کے اثر و رسوخ کا سد باب کرسکے۔ (۱)
دشمنان اسلام کو بھی گدلا پانی مل چکا ہے اور بڑی آسانی سے اس گدلے پانی سے مچھلیاں پکڑ رہے ہیں اور پیسے بھی کما رہے ہیں، جبکہ غیر قانونی عرب قبائلی حکومتیں مسلمانوں کی دولت لوٹنے میں دشمنان اسلام کے ساتھ تعاون کررہے ہیں۔
کئی مسلمان شیعہ اور سنی اختلاف کو بنیاد بنا کر وہابیت کو ایک سنی فرقہ سمجھتے ہیں اور اس کی حمایت کرتے ہیں اور اس کے ساتھ جذباتی تعلق جوڑے ہوئے ہیں جبکہ افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ تمام مسلمانوں کا قرآنی عقیدہ ہے کہ یہود اسلام اور مسلمانوں کا بدترین دشمن ہے۔ (سورہ مائدہ، آیت ۸۲) اور وہابیت کی جڑیں یہودیت میں پیوست ہیں؛ جس کا ثبوت اس زمانے میں وہابیوں اور سعودیوں نے فراہم کردیا ہے۔ وہ آج صرف اپنے اقتدار کے تحفظ کے لئے اسلام، یہودی ریاست کے ساتھ قبلہ اول، فلسطین، مسلمانوں اور امت مسلمہ کے تمام تر مفادات کا سودا کرچکے ہیں اور اعترافات مسلسل سامنے آرہے ہیں کہ ان کے تعلقات بہت پرانے ہیں اور ۱۹۶۰ع‍ اور ۱۹۷۰ع‍ کے عشروں میں مسلم ـ یہودی (عرب ـ اسرائیلی) جنگوں میں سعودیوں اور وہابیوں کی غداری اور خیانت مسلمانوں کی شکست کا سبب بنی ہوئی ہے اور اگر کہیں فیصل جیسا کوئی ابھرا ہے جو یہود و نصاری کی مسلم دشمنی کے حوالے سے امت مسلمہ کا ہمنوا رہا ہے، اس کو بےدردی سے قتل کیا گیا ہے، گولی مار کر یا پھر خالد کی طرح خفیہ روشوں سے۔


آج وہابیت اور تکفیریت کے عمائدین جانتے ہوئے اور عام وہابی اور تکفیری دہشت گرد نہ جانتے ہوئے، اسلام کے پیکر پر مہلک وار کررہے ہیں، اور ان کے لئے مسلمانوں کا مفاد نہ صرف عزیز نہیں ہے بلکہ یہودیوں کے ساتھ مل کر مسلمانوں کے مفادات کو نقصان پہنچانا، اپنا مشن سمجھتے ہیں۔
عقل و قوت تجزیہ کی تکفیری وہابیت دین کی ہمدرد نہیں ہے، وہ اسلام کے صحیح احکام اور مذہب تشیّع کے تمام حقیقی اور الہی تفکر کو اپنے لئے سب سے بڑا خطرہ سمجھتی ہے اور اس راہ میں اسلام، قرآن اور امت کے تمام تر مفادات تک کو قربان کرسکتی ہے۔ اور ہر وہ حربہ بروئے کار لاتی ہے جس سے وہ امت کے تحفظ اور مسلمانوں، نیز قرآن اور اسلام کی بقاء کی ضمانت دینے والے خالص محمدی اسلام کے اثر و نفوذ کا سد باب کیا جاسکے۔
دشمنان اسلام بھی اس پیچیدہ صورت حال سے فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ وہ دشمن جو تفرقہ، انستشار اور فتنہ پروری کرکے، اسلام، قرآن اور امت سے انتقام لینے کی سعی کررہے ہیں اور انہیں وہابیت جیسا حربہ ملا ہے جس سے وہ بھرپور فائدہ لے رہے ہیں۔
خداوند متعال قرآن کریم میں ارشاد فرماتا ہے:
“إِنَّ الَّذِینَ یَکْتُمُونَ مَا أَنزَلْنَا مِنَ الْبَیِّنَاتِ وَالْهُدَى مِن بَعْدِ مَا بَیَّنَّاهُ لِلنَّاسِ فِی الْکِتَابِ أُولَـئِکَ یَلعَنُهُمُ اللّهُ وَیَلْعَنُهُمُ اللَّاعِنُونَ * إِلاَّ الَّذِینَ تَابُواْ وَأَصْلَحُواْ وَبَیَّنُواْ فَأُوْلَـئِکَ أَتُوبُ عَلَیْهِمْ وَأَنَا التَّوَّابُ الرَّحِیمُ؛ بلاشبہ وہ جو چھپاتے ہیں ہماری اتاری ہوئی واضح دلیلوں اور ہدایت کو جب کہ ہم اسے تمام لوگوں کے لیے کتاب میں صاف طور پر بیان کر چکے ہیں، یہ وہ ہیں کہ ان پر اللہ لعنت کرتا ہے اور تمام لعنت کرنے والے ان پر لعنت کرتے ہیں * مگر وہ جنہوں نے توبہ کی، اعمال درست کیے اور اظہار کر دیا تو یہ وہ ہیں جن کی میں توبہ قبول کروں گا، اور میں بڑا توبہ قبول کرنے والا ہوں، رحم کھانے والا”۔ (۳)
نیز ارشاد ہوتا ہے:
“أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِینَ أُوتُواْ نَصِیباً مِّنَ الْکِتَابِ یُؤْمِنُونَ بِالْجِبْتِ وَالطَّاغُوتِ وَیَقُولُونَ لِلَّذِینَ کَفَرُواْ هَؤُلاء أَهْدَى مِنَ الَّذِینَ آمَنُواْ سَبِیلاً * أُوْلَـئِکَ الَّذِینَ لَعَنَهُمُ اللّهُ وَمَن یَلْعَنِ اللّهُ فَلَن تَجِدَ لَهُ نَصِیراً * أَمْ لَهُمْ نَصِیبٌ مِّنَ الْمُلْکِ فَإِذاً لاَّ یُؤْتُونَ النَّاسَ نَقِیراً * أَمْ یَحْسُدُونَ النَّاسَ عَلَى مَا آتَاهُمُ اللّهُ مِن فَضْلِهِ فَقَدْ آتَیْنَآ آلَ إِبْرَاهِیمَ الْکِتَابَ وَالْحِکْمَةَ وَآتَیْنَاهُم مُّلْکاً عَظِیماً * فَمِنْهُم مَّنْ آمَنَ بِهِ وَمِنْهُم مَّن صَدَّ عَنْهُ وَکَفَى بِجَهَنَّمَ سَعِیراً؛ کیا تم نے نہیں دیکھا انہیں کہ جن کو کتاب کا کچھ حصہ دیا گیا کہ وہ جبت اور طاغوت کے معتقد ہوتے ہیں اور کافروں کو کہتے ہیں کہ یہ اہل ایمان سے زیادہ ٹھیک راستے پر ہیں * یہ وہ ہیں جن پر اللہ نے لعنت کی ہے اور جس پر اللہ لعنت کرے، اس کا ہرگز کوئی مدد گار تم نہ پاؤ گے * کیا اقتدار سلطنت میں ان کا کوئی موروثی حصہ ہے؟ پھر تو یہ لوگوں کو ذرا سا بھی نہ دیں گے * یا وہ لوگوں پر رشک و حسد کرتے ہیں اس پر جو اللہ نے انہیں اپنے فضل و کرم سے دیا تو اچھا، پھر سن لیں کہ ہم نے نسل ابراہیمی کو کتاب اور حکمت عطا کی ہے اور انہیں بہت بڑا شاہانہ اقتدار عطا کیا ہے”۔ (۴)
…………..
حوالہ جات
۱۔ ابن عاشور محمد بن طاہر، التحریر و التنویر، ناشر: موسسۃ التاریخ‏، ط اول ، بیروت، ج۴، ص۱۵۶، تفسیر آیات ۵۱ و ۵۲ سوره نساء “اور یہ آیت اس واقعے کی طرف اشارہ ہے جو بعض یہودیوں سے متعلق ہے اور ان میں کعب بن اشرف اور حیی بن اخطب شامل تھے۔ انہیں جنگ احد کے بعد توقع تھی کہ مسلمانوں کے لئے کوشش کرسکیں گے، چنانچہ وہ مکہ کی طرف روانہ ہوئے تا کہ مسلمانوں کے خلاف جنگ کی غرض سے مشرکین کے ساتھ متحد ہوجائیں، تو کعب بن اشرف ابو سفیان کا مہمان بنا اور باقی لوگ قریش کے دوسرے افراد کے پاس چلے گئے۔ تو مشرکین نے ان سے کہا: “تم اہل کتاب ہو اور ممکن ہے کہ تم ہماری نسبت محمد(ص) اور ان کے پیروکاروں سے زیادہ قریب ہوں، چنانچہ ہم تمہاری سازشوں سے محفوظ نہیں ہیں”۔  تو یہودیوں نے کہا: “بتوں کی پوجا اللہ کے نزدیک زیادہ پسندیدہ ہے اس چیز سے جس کی طرف محمد بلا رہے ہیں اور تم زیادہ درست راستے پر چل رہے ہو”۔ چنانچہ مشرکین نے ان سے کہا: “تو پھر ہمارے خداؤں کے سامنے سجدہ ریز ہوجاؤ تا کہ ہم تم پر اعتماد کریں”؛ تو یہودیوں نے ایسا ہی کیا اور یہ آیت نازل ہوئی جس میں اللہ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ کو یہود اور اہل مکہ کی سازش سے آگاہ فرمایا۔
[۲]. الحافظ ابو ‌عبدالله محمد بن یزید قزوینی، سنن ابن ماجه، علق علیه محمد فواد عبدالباقی، ج۲، ص۹۴۵، باب۲۷،ح۲۸۳۲ «قال رسول الله صلى الله علیه وسلم: إنا لا نستعین بمشرک»؛ “رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ نے فرمایا: “ہم کبھی بھی مشرک سے مدد نہیں مانگتے”۔
3.    سورہ بقرہ، آیات ۱۵۹-۱۶۰۔
4.    سورہ نساء، آیات ۵۱ تا ۵۵٫
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

کتاب ’’جمہوریت کا اختتام‘‘ پر تنقیدی جائزہ . حصہ دوم

  • ۳۸۰

ترجمہ سید نجیب الحسن زیدی

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: گزشتہ تحریر میں ہم نے جمہوریت میں سلسلہ  مراتب کے ڈھانچے ادیان کے درمیان جنگ  وغیرہ پر نظر ڈالی  اور مالی فساد کے پھیلنے کی طرف اشارہ کیا اس تحریر میں ہمیں اس بات کی طرف اشارہ کرنا ہے کہ مالی فساد و کرپشن کے علاوہ کچھ اور ایسی چیزیں ہیں جو اسی جمہوری نظام کی پیداوار ہیں جس میں طاقت بنیاد ہے، بیہودہ مصرف  و دیگر آفتوں کے ساتھ ایٹمی مقابلہ آرائی دنیا میں شدت پسندی کا سبب بنی ہے اور جمہوریت کے ذریعہ دنیا میں آمریت و استبداد کی چولیں اور مضبوط ہوئی ہیں ۔
شدت پسندی:    {Rudeness}
گزشتہ پچاس برسوں میں ایٹمی مقابلہ آرائی عصر جمہوریت میں شدت پسندی  {Rudeness}کاسب سے بارز نمونہ ہے دوسرے الفاظ میں یوں کہہ سکتے ہیں کہ آخر کی دہائیوں میں انسانوں کے قتل عام سے یہ پتہ چلتا ہے کہ جمہوریت اور ڈیموکریسی کے نام پر لبوں پر مسکراہٹ سجاکر،آمریت اور استبداد سے زیادہ قتل عام کیا جا سکتا ہے ، یہ بات لائق توجہ ہے کہ آج کل کی جمہوریت کی اس جنگ میں جو ان سرزمینوں سے ہے جہاں جمہوریت کا فقدان ہے صرف لشکر اور فوج کو شکست دینا کافی نہیں ہے بلکہ اس جنگ میں قوم کی طاقت کی بنیادوں کو نابود کر دینا بھی جنگ جیتنے کے لئے ضروری ہے ،  اس مقام پر  جمہوری نظام کے اندر ایٹمی مزاحمت درحقیقت انسانوں کو اسیر کرنے یا ان کے قتل عام کا آخری مرحلہ ہے ؛ اس لئے کہ اس میں ایسی طاقت کے استعمال کا اختیار ایک ایسے جمہوری اصولوں پر کوئی عقیدہ نہ رکھنے والے فرد کے ہاتھ میں ہے جس کے استعمال یا عدم استعمال پر تمام لوگوں کی زندگی و موت کا دارومدار ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ ایک قوم کی موت و حیات کا اختیار بظاہر ایک ڈیموکریٹ کے ہاتھوں میں دے دینا مزاحمت کے مقابل تمام انسانوں کو لا کر کھڑا کر دیتا ہے کیونکہ مزاحمت کی صورت میں تمام انسان یکساں ہوں گے اور جہاں تک ایٹمی حملہ کے اثرات ہوں گے وہاں تک سبھی لوگ اس مزاحمت کے دائرہ میں آئیں گے لہذا مزاحمت کے مقابل تمام انسانوں کا یکساں ہونا غلاموں کی آپسی برابری سے مشابہ ہے جس میں جتنے بھی لوگ ہیں سب کے سب غلام ہیں انسان رنگ و نسل قوم و قبیلہ کے اعتبار سے مختلف ہیں لیکن غلامی کے لحاظ سے سب غلام ہیں اسی طرح جب مزاحمت ہوگی تو انسان جتنے بھی مختلف کیوں نہ ہوں حملہ کے اثرات سب پر ہوں گے ، اگر جمہوری اصولوں کے مطابق بھی دیکھا جائے تو جو لوگ اس طرح کی صورت حال کو تسلیم کرنے پر راضی ہیں اور وہ شخص جو لوگوں کے دفاع کی ذمہ داری کو اٹھائے ہوئے ہے دونوں ہی جمہوری اصولوں کے خلاف ہیں ۔
اس موضو ع کو دوسرے زاویہ نظر سے بھی دیکھا جا سکتا ہے اور وہ یہ ہے کہ کیا یہ صحیح ہے کہ ایک مغربی انسان ان اقدار سے چشم پوشی کر لے جن کے بموجب دنیا میں جمہوریت کے اصولوں کی بالادستی کی بات ہوتی ہے اور جمہوریت کے نظریہ کو ساری دنیا میں پھیلانے کی بات ہوتی ہے اور جمہوری اقدار ونظریہ کو بالائے طاق رکھتے ہوئے اس نظریہ کووجود بخشے یا تقویت دے کہ جسکی نتیجہ یہ ہے کہ عام اور غیر فوجی لوگوں کو نہ صرف یہ کہ اس نظر سے نہ دیکھا جائے کہ یہ عام لوگ ہیں بلکہ انہیں اس رخ سے دیکھا جائے کہ یہ وہ لوگ ہیں جہیں بس نابود ہو جانا چاہیے ؛ اگر ایسا ہی ہے تو ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ یہ دور شدت پسندی {Rudeness} کا ایک ہولناک دور ہے یہی وجہ ہے کہ آج کا انسان اس دور کو ڈھونڈ رہا ہے جہاں نہ صرف یہ کہ شدت عمل اور سختی و درشتی نہ ہو بلکہ سختی اس طرح ہو کہ اس میں افراط نہ پایا جاتا ہو اور عدم افراط کے ساتھ پرائیوٹ، سرکار، اور پلیس کی شدت پسندانہ سخت کاروائیوں کو انفرادی شدت پسندی سے جدا کیا جا سکے، ان کاروائیوں کا  ایک دوسرے سے متمائز اور آپس میں جدا ہونا اس لئے ہے کہ آج کی دنیا میں  مجرمانہ عمل اور جنگ میں تمیز نہیں دی جا سکتی ہے اور شاید یہی وجہ ہے کہ حکومت کے محکمہ میں مجرموں کا اثر و رسوخ فیصلہ کن حد تک رہتا ہے اور اسی بنیاد پر مسافر بردار طیارے کومار گرایاجاتاہے ، امن و سلامتی کو ذاتی اغراض و مقاصد کا بازیچہ بنا دیا جاتا ہے پلوٹونیم Plutonium‏} { کو چراتے ہیں البتہ ان دولت کی ریل پیل ان پتھر دلوں کو ان کی سفاکی میں اور بھی نڈر بنا دیتی ہے حالت یہ ہو جاتی ہے کہ حتی یہ لوگ فقیر طبقے کو سالم غذائی مواد نہ ملنے کی وجہ سے اپنی موت بھی نہیں مرنے دیتے بلکہ ان ادھ مرے لوگوں کو مشین گن سے بھون دیتے ہیں ،درحقیقت جمہوریت فقیر نشین علاقوں میں شدت پسندانہ کاروائیوں کو ختم یا محدود کر کے صحت و سلامتی کاربن باندھ کر حیات نو بخشنے میں ناکام رہی ہے ، اس لئیے کہ مبادلہ کاری کے جہانی ہونے ،تنظیموں کی تحریکوں کے وجود میں آنے ،اور عام تباہی پھیلانے والے اسلحوں کے وجود اور اگر ایک جملہ میں کہا جائے تو ڈیموکریسی کی ناتوانی ہی شدت پسندانہ کاروائیوں کے ختم نہ ہونے کا سبب ہے اور ڈیمو کریسی کے ناکار آمد ہونے ہی کی بنیاد پر شدت پسندانہ کاروائیوں کے خلاف ہونے والے اقدامات شکست سے دوچار ہوئے ہیں ۔
بیہودگی و ناکار آمدی کا دور   
عصر جمہوریت میں انسان کو نہ صرف آزادی سے بلکہ ہر طرح آزادی فکر سے محروم کر دیتے ہیں ؛ چنانچہ ١٩٩١ ء میں ہونے والی عراق سے جنگ کے دوران امریکی ڈیموکریسی کاایک بڑا ہم و غم داخلی رائے عامہ {Public opinion}  کو دھوکا دینا تھا ؛ اسی وجہ سے تاریخ جنگ میں پہلی بار ایسا ہوا کہ ویتنام کی جنگ سے سبق لیتے ہوئے امریکی فوجی کمانڈروں نے رائے عامہ کی جہت دہی کو اتنی ہی اہمیت دی جتنی وہ جنگ کے لائحہ عمل کو اہمیت دیتے تھے ، دوسرے الفاظ میں اس جنگ کو ماہر افراد کے ذریعہ عظیم وبرتر ٹکنالوجی کے حامل کی شکل میں امریکہ نے اس طرح ہنڈل کیا جس طرح فوجی ڈسپلن کو قائم رکھنے کے لئے آپریشن ہوتے ہیں ،لیکن سوال یہ ہے کہ آخر حقیقت میں امریکہ کب تک اپنی ٹکنالوجی کو محفوظ رکھ سکے گا ؟ نتیجہ کے طور پر اگر اس موضوع کو ایک دوسرے  زاویہ سے دیکھیں تو ہمیں نظر آئے گا کہ مغربی سیاسی نظام کا حاصل یہ ہے کہ وہ کہتا ہے آزادی ہونا چاہیے لیکن ڈیموکریسی کا وہ قائل نہیں ہے اس کے پاس آزادی کا جواب” ہاں” میں ہے اور ڈیموکریسی کا” نہ” اور یہ درحقیقت ڈیموکریسی کا بیہودہ مصرف کے طور پر شان و شوکت کے ساتھ پیش کیاجانا ہے یہ بالکل وہی چیز ہے جسے جان میری گیانو نے ترقی یافتہ استبداد کا نام دیا ہے ، اس توصیف کے ساتھ ڈیموکریسی، تاریخ کے اختتام کی مدعی ہے ؛ لیکن اب دنیا میں تاریخی حقیقتوں کو تلاش نہیں کیا جا سکتا کیونکہ یہاں تاریخی حقائق کا سامنا کرنے کی تاب نہیں ہے ۔
شاید یہی وجہ ہے کہ جان میری گیانو یہ مانتے ہیں کہ: مغربی لوگ یا بہ الفاظ دیگر مارڈرنیسم کی طرف کوچ کرنے والے بغیر کسی وقفہ کے اس راستہ پر چلتے چلتے اب تھک چکے ہیں جس نے چند صدیوں قبل ترقی و پیشرفت کی فکر کو ان کے متھے جڑ دیا تھا، چنانچہ اب ان کی یہ آرزو ہے کہ کچھ دیر وہ ٹہر کر آرام کر لیں اور پیشرفت کے لدے ہوئے اس بوجھ کو زمین پر دھر کر خود چھٹکارا پا جائیں  جسے وہ ایک کبھی نہ ختم ہونے والی دیوانہ وار دوڑ کے مقابلہ میں اپنے ساتھ اٹھائے بھاگے چلے جا رہے ہیں ، ان کے سامنے ایک ایسا انقلاب ہے جسے انہیں انجام تک پہونچانا ہے یہ انقلاب ، انقلاب سیاست نہیں بلکہ معنویت کا انقلاب ہے اس لئے کہ گزشتہ چند صدیوں میں ترقی و توسیع کا عمل بے نظیر ہے ، کمپنیاں بڑی ہو گئی ہیں سنڈیکیٹ {Syndicate}  اور کیمبرج میں توسیع ہوئی ہے …لیکن یہ تمام چیزیں ریت کے ڈھیر پر بنی ہوئی عمارتوں کے مثل ہیں ؛ لہذاب یہ کہنا ضروری ہے کہ ڈیموکریسی کو خطرہ لاحق ہے اور اس کی نجات کے لئے دو راہوں میں سے کسی ایک راہ کو منتخب کرنا ہوگا اول یہ کہ نابودی کے سرچشمہ کی طرف پلٹ جائیں اور چند جہان شمولی کے اصولوں پر باہمی اتفاق کے ذریعہ ان  فطری حقوق کی ان نئی بنیادوں کی جستجو کا عمل شروع کیا جائے کہ جس کے بغیر حقوق کا کوئی مطلب نہیں ہے۔ دوسرا راستہ یہ ہے کہ حقیقت کے روبروہوا جائے یعنی روشن گی کے اس دور سے سبق حاصل کیا جائے اور پھر یہ کوشش کی جائے کہ جن چیزیوں کو بچایا جا سکتا ہے انہیں بچایا جائے ۔
نتیجہ
مشرقی بلاک کے ٹوٹ جانے کے بعد ١٩١٧ء میں جس جدید دور (  کمیونسٹی انقلاب ) اور کچھ لوگوں کے بقول ١٩٤٥ ء ( دوسری عالمی جنگ کے اختتام پر ) جس دور کا آغاز ہوا تھا وہ ابھی ختم نہیں ہوا ہے بلکہ جو دور ختم ہو رہا ہے وہ حکومتوں کا دور ہے ؛ چنانچہ آج دنیا قوموں کا منظر سیاست و حاکمیت  پر ابھر کر سامنے کا مشاہدہ کر رہی ہے ، اس کا مطلب تاریخ کا اختتام نہیں ہے بلکہ اس کے معنی تو تاریخ جدید دور کے آغاز کے ہیں یہ دور قوموں کی حکومت کا دور ہے قوموں کے امپائر کا نظریہ ایسی دنیا کو ہمارے سامنے لاتا ہے جو بغیر کسی مرکزکے متحد ہے .
جان میری گیانو کے عقیدے کے مطابق یہ وہی دور ہے جسکا  وعدہ جناب دانیال نبی نے کیا تھا ؛” اس کے بعد چوتھی سلطنت کا قیام ہوگا جو فولاد کی مانند مضبوط ہوگی ، اور اپنے سے ٹکرانے والی ہر چیز کو توڑ کر ریزہ ریزہ کر دے گی ( کتاب مقدس ، دانیال نبی ، باب دوم، )وہ قوم جس کی سلطنت کا جان میری گیانو نے وعدہ دیا ہے اس سے مراد قدیمی مفہوم نہیں ہے بلکہ قوم کا جدید مفہوم ہے جس کے بعض خصوصیات یہ ہیں :
اول : مارڈن قوم میں سرزمین کا عنصر کسی قوم کے قوام و ثبات کی بنیاد نہیں ہے یعنی اس میں کسی سرزمین کو اپنے قبضہ قدرت میں رکھنا اہم نہیں ہے۔
دوم : مارڈن قوم آج کل کی جمہوریتوں کے بر خلاف ٹیکس و لگان کی وصولی اور اسے مینیج کرنے میں اہم رول ادا کرتی ہے ۔
سوم : کل آنے والی قوم اس بات سے باخبر ہوگی کہ کوئی بھی قوم امریکی قوم کے اندازے کے مطابق زندگی گزارنے کے لئے ضروری سرچشموں اور ذخائر کو اپنے لئے فراہم نہیں کر سکتی ہے.
چہارم : کل کی آنے والی قوم صلح طلب اور امن پسند ہے لہذا دفاعی امور کے لئے کم بجٹ مخصوص کرے گی اور اس کی کوشش تعمیر آباد کاری پر زیادہ ہوگی ۔
پنجم : کل کی آنے والی قوم یہ جانتی ہوگی کہ وہ چاہے جتنی بھی طاقت ور ہو جائے عالمی ثبات کو برقرار نہیں کر سکتی ؛ جبکہ آج کی مغربی ڈیموکریسی کی نظر میں سرزمین قوم کے قوام کا بنیادی عنصر ہے ؛ ٹیکس و لگان کا حصول حکومت کے ہاتھ میں ہے انسانی حیات کے لیئے ضروری ذخائر و منابع کو حکومت پورا کرتی ہے ۔
حکومتیں اپنے بجٹ کا زیادہ تر حصہ دفاعی امور پر صرف کرتی ہیں ، اور ڈیموکریسی کے سایہ میں زندگی گزارنے والی قومیں مغربی اقوام کی طرح خود کو عالمی امن و ثبات قائم کرنے کی توانائی کا حامل سمجھتی ہیں ؛ لیکن آج اس طرح کے سیاسی نظام کے نا کار آمدی بالکل واضح ہو گئی ہے اور یہ امر اس بات کی نوید دیتا ہے کہ جمہوریت کا دور اب ختم ہوا چاہتا ہے اس لئے کہ بجائے اس کے کہ اسے رایہ عامہ کا خیال ہو یہ حکومت کا خیال رکھتا ہے عوام سالار ہونے کے بجائے یہ حکومت سالار ہے.
تنقیدی جائزہ
جمہوریت کے موجودہ بحرانوں کی ایک مغربی دانشور (جان میری گیانو)کی جانب سے بیان کی گئی توصیف قابل توجہ ہے ؛ لیکن یہ توصیف یا تنقید قبل اس کے کہ مغربی ڈیموکریسی نظام کی نظریاتی بنیادوں کو مد نظر رکھے ، مغربی معاشروں خاص کر امریکہ میں اس کے عملی نتائج کو بیان کر رہی ہے جبکہ علمی تنقید و تبصرہ میں سب سے پہلے نظریاتی بنیادوں پر تنقید ہوتی ہے اس کے بعد عملی نتائج کی موشگافی کرتے ہوئے ان کا تجزیہ کیا جاتا ہے تاکہ پہلے نظریاتی بنیادی پر مشتمل اس کے نقائص کو واضح اور برملا کر دیا جائے اس کے بعد عملی پہلو پر نظر ڈالی جائے اور نظریاتی موشگافی کے بعد عملی تجزیہ کو پیش کرنے میں ہی صحیح طور پر فیصلہ کیا جا سکتا ہے کہ کیا صحیح ہے کیا غلط؟ ؛ لیکن جان میری گیانو کے اس اثر میں جو چیز زیادہ توجہ کے لایق ہے وہ ان کی جانب سے پیش کیا ہواایسا راہ نجات ہے جسے انہوں نے جمہوریت کے موجودہ بحران سے باہر نکلنے کے طور پر پیش کیا ہے، درحقیقت جان میری ڈیموکریسی کو یکسر رد نہیں کرتے ہیں بلکہ ایک ایسے مستقبل کو ترسیم کرتے ہیں جس میں ایک ایسی جدید جمہوریت وجود میں آئے گی جس کا نام انہوں نے مارڈرن قوم یا امپریل عصر رکھا ہے ۔اس ڈیموکریسی کی بارز صفت معنویت کی طرف بازگشت ہے ساتھ ساتھ قوموں کا سیاست و حاکمیت پر پلٹنا ہے ؛ لیکن یہ معنویت ادیان آسمانی و الہی  سے زیادہ  زمینی ہے اور جدید بشری تصور کائنات سے فروغ حاصل کررہی ہے ؛ یہی وجہ ہے کہ جان میری گیانو اس مذہبی قدامت پرستی کو جو انقلاب اسلامی ایران سے سرچشمہ سے انکی نظر میں وجود میں آئی ہے موجودہ مریض ڈیموکریسی کا متبادل نہیں سمجھتے ہیں ۔ اس کے علاوہ جس زمینی معنویت کو گیانو نے پیش کیا ہے کہ اس کے بل پر بشری تصور کائنات جیسے  ،لبرل ازم کے مشکلات کو حل کرنے کی کوئی دلیل پیش نہیں کی ہے۔
مجموعی طور پر ایک طرح کا ماہرانہ تضاد گیانو کے اس تنقیدی مقالے میں نظر آتا ہے جس کی منظر کشی عالمانہ انداز سے ہٹ کر سیاست مدارانہ انداز میں کی گئی ہے لیکن یہی چیز ان چاہے انداز میں  فرانس کے دانشورو روشن فکر طبقے کے دینی تعلیمات سے روایتی تضاد کو بیان کر رہی ہے ، اس میں شک نہیں کہ دنیا معنویت کی ضرورت کو آج محسوس کر رہی ہے لیکن وہ معنویت جو آسمانی ہے  اور زمینی غلاظتوں اور شیطانی کثافتوں سے مبراہے اور انسان کو دنیا و آخرت میں منزل کمال پر پہچانے پر قادر ہے ۔

 

کرونا کی وبا کے درمیان ہندوستانی فوج کی جانب سے لاکھوں ڈالر کی ڈیل کے بارے میں سوچ بچار

  • ۳۵۸

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: کرونا کی خطرناک وبا سے جوجھتے ہندوستان میں امریکہ سے اسلحوں کی خریداری کی  خبر نے ہر ایک صاحب فکر محب وطن کو چونکا دیا ہے کہ ایسے حالات میں جب کرونا تیزی کے ساتھ ہندوستان کے مختلف صوبوں میں تیزی کے ساتھ پھیلتا جا رہا ہے  آخر فوج کو ضرورت کیا ہے کہ وہ امریکہ سے اسلحوں کی خریداری پر غور کرے، خبروں کے مطابق ہندوستانی فوج امریکہ سے 72 ہزار سِگ 716 اسالٹ رائفلز خریدنے پر غور کر رہی ہے۔
 بی بی سی کی ایک رپورٹ کے مطابق "ان سِگ (ایس آئی جی) اسالٹ رائفلز کی پہلی کھیپ انڈیا کو جنوری میں دی گئی تھی اور یہ شمالی کمانڈ اور دیگر آپریشنل علاقوں کی تعینات فوجیوں کو دے دی گئی ہیں۔ ماہرین کے مطابق یہ رائفلز کشمیر اور دیگر سرحدی علاقوں میں تعینات فوجیوں کو بھی دی گئیں ہیں"۔
خبر رساں ادارے اے این آئی کے مطابق اس معاملے سے واقف ایک شخص نے بتایا: 'ہم سکیورٹی فورسز کو دیے گئے معاشی اختیارات کے تحت مزید 72 ہزار رائفلز کا آرڈر دینے جا رہے ہیں' اور کہا جا رہا ہے کہ یہ خریداری فاسٹ ٹریک پرچیز (ایف ٹی پی) پروگرام کے تحت کی جائے گی۔
قابل غور بات یہ ہے کہ یہ خریداری ایسے میں ہو رہی ہے جب ہندوستانی معیشت اپنے نہایت ہی خطرناک بحران سے گزر رہی ہے اور ہندوستان کو صنعت و ٹکنالوجی کے مختلف شعبوں میں شدید طور پر سرمایہ کاری کی ضرورت ہے، اب سوال یہ ہے کہ یہ معیشتی بحران زیادہ بڑا ہے یا وہ کاذب بحران جسے میڈیا نے ہندوستان مقابلہ چین کے طور پر کھڑا کیا ہے اگر ہندوستانی نقطہ نظر کو دیکھا جائے تو انکا موقف یہ ہے :
'اگر چہ ہر فوج چاہتی ہے کہ لڑائی کے لیے اس کے پاس سب کچھ ہو لیکن ایک جمہوریت اور خاص طور پر ترقی پذیر ممالک میں ترقی اور معیشت پر زیادہ توجہ دی جاتی ہے اور فوج کا بجٹ کم ہوتا ہے۔ لیکن جب کوئی بحران پیدا ہو جاتا ہے اور کوئی کمی ہوتی ہے تو ہنگامی صورت حال میں اس قسم کی خریداری کی جاتی ہے۔ یہ ہر فوج کرتی ہے، صرف  ہندوستانی  فوج کی بات نہیں ہے۔'
قابل غور بات یہ ہے کہ امریکہ میں تیار کی جانے والی یہ اسالٹ رائفلز فی الوقت انڈین فوج میں استعمال ہونے والی انڈین اسمال آرمس سسٹم (انساس) رائفل کی جگہ لیں گی جو کہ ملک میں ہی تیار کی جاتی ہیں۔ اگر دفاعی تجزیہ کاروں کی بات کو تسلیم کیا جائے تو وہ بھی اسے ہندوستان کی اہم ضرورت قرار دیتے ہوئے کہتے نظر آ رہے ہیں کہ : 'نئی رائفلز کی ضرورت ہے اور یہ ضرورت گذشتہ آٹھ نو سالوں سے ہے۔ 'ان کا کہنا ہے کہ انڈیا نے سنہ 1990 کی دہائی میں ایک دیسی اسالٹ رائفل بنائی تھی جسے انساس رائفل کہتے ہیں، لیکن وہ کامیاب نہیں ہوسکی۔
 دفاعی تجزیہ کار راہل بیدی کے مطابق سنہ 2010-2011 میں فوج نے کہا تھا کہ وہ عملی طور پر موثر نہیں ہیں یعنی اسے چلانے میں بہت سی مشکلات پیش آتی ہیں اور فوج نے یہ کہتے ہوئے انساس رائفل کو مسترد کر دیا اور کہا کہ اس کے بدلے میں ہمیں دوسرے قسم کا اسلحہ چاہیے۔ اس وقت سے ہی نئی رائفل کے بارے میں بات ہو رہی ہے۔
فوج کے پاس نئے اسلحوں کی ضرورت سے کسی کو انکار نہیں ہے ، لیکن جس وقت اور جن حالات میں اس ڈیل پر گفتگو ہو رہی ہے وہ بہت عجیب ہے جبکہ  ہندوستان کی صلاحیت و توانائیوں کے پیش نظر دیکھا جائے تو خود بھی وہ ان معمولی اسلحوں کو بنا سکتا ہے جنکی فوج کو ضرورت ہے، اور یہی سوال دفاعی تجزیہ کار راہل بیدی نے  بھی اٹھایا ہے کہ ایک طرف انڈین حکومت خود کفیل ہونے کی بات کرتی ہے دوسری طرف آپ درآمد کرتے ہیں۔ یہاں قدرے تضاد ہے۔ان کا کہنا ہے کہ امریکہ سے آنے والی اسالٹ رائفل بہت اچھی ہے۔ لیکن پہلی بات یہ ہے کہ وہ درآمد کی جاتی ہیں اور دوسری یہ کہ وہ مہنگی ہیں۔ ان کے مطابق جنوری میں موصول ہونے والی 72 ہزار 400 سِگ 716 اسالٹ رائفل کی قیمت تقریبا آٹھ کروڑ ڈالر آئی تھی۔ان کے بقول مودی کا 'میک ان انڈیا مکمل طور پر ناکام ہے۔ سیاسی لحاظ سے اسے جتنا چاہیں اچھالیں لیکن اس کا کوئی جواز نہیں۔ انڈیا ایک ایسا ملک ہے جو درآمد شدہ ہتھیاروں سے لڑتا ہے۔
وہ کہتے ہیں: 'آپ ہوائی جہاز کو لیں، اپنا فائٹر دیکھیں، ہیلی کاپٹر دیکھیں، ٹینک دیکھیں، سب درآمد کیا جاتا ہے۔ آپ کے آبدوز، طیارہ بردار بحری جہاز، ایئر کرافٹ کیریئر سب درآمد کیا جاتا ہے۔'
در حقیقت سن 2014 سے 2018 کے درمیان انڈیا دنیا کا دوسرا سب سے بڑا فوجی اسلحہ درآمد کرنے والا ملک رہا ہے۔ اسٹاک ہوم انٹرنیشنل پیس ریسرچ انسٹی ٹیوٹ (ایس آئی پی آر آئی) کے مطابق انڈیا دنیا بھر میں فروخت ہونے والے اسلحے کا 10 فیصد خرید رہا تھا۔ان کا کہنا ہے کہ انڈیا کی خود پر انحصار کی صلاحیت بہت ہی ناقص ہے۔ 'پچھلے 65 سالوں میں ہم نے کوئی ہتھیار بنانے کا نظام نہیں بنایا ہے۔ کیا یہ سوچنے کا مقام نہیں کہ مشرق وسطی میں چاروں طرف سے گھرا ہوا ایران جیسا ملک  ٹینک سے لیکر جدید ٹکنالوجی سے آراستہ ٹینک بھی خود بنا رہا ہو اور ہندوستان جیسا ترقی پذیر ملک  اپنے اسلحوں کے لئے اب بھی امریکہ کے اوپر منحصر ہو؟۔۔۔

 

عالمی سامراج کے شاطرانہ منصوبے اور حشد الشعبی کی حالیہ کامیابی

  • ۳۶۹

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: عالمی سامراج نے عراق کو شام میں بدل دینے کے جو منصوبے بنائے تھے یک بعد دیگرے وہ ناکام ہوتے جا رہے ہیں، اور عراق کی مرجعیت کے ذریعہ حشد الشعبی کے قیام کا حکمت آمیز قدم بحمد اللہ اپنے اثرات دکھا رہا ہے، ایک طرف صہیونی لابیوں اور عالمی سامراج کے گرگوں کی مسلسل یہ کوشش رہی کہ حشد الشعبی اور عراق کی بہادر قوم کے درمیان اختلافات پیدا کر کے دونوں کو ایک دوسرے سے دور کیا جاسکے اور اس کے لئے مسلسل یہ دباو بنایا گیا کہ اب تو حشد الشعبی کی کوئی ضرورت نہیں اس لئے اسے ختم ہو جانا چاہیے ، دوسری طرف یہ باور کرانے کی کوشش کی گئی کہ عراق کی فوج کے ہوتے ہوئے کسی اور کی ضرورت نہیں ہے ، لیکن صاحبان فکر و نظر جانتے ہیں کہ عراق کی فورسز کو ٹرینڈ کرنے والے یہی لوگ ہیں جنہوں نے پہلے عراق کو برباد کیا تھا اور اب عراق میں بنے رہے کا کوئی نہ کوئی بہانا تلاش کر رہے ہیں جبکہ عراقی فورسز میں بہت سے ایسے افسران موجود ہیں جو لیبرل طرز فکر کے حامل اور ان طاقتوں کے ہمنوا ہیں، یہی وجہ ہے کہ تکفیری عناصر سے مقابلہ میں گرچہ عراق کی فوج کی خدمات کو نہیں بھلایا جا سکتا  لیکن اتنا ضرور ہے کہ جو کام حشد الشعبی نے کیا ہے وہ عراقی فوج سے نہیں ہو سکا اور اب بھی بچے کھچے داعشی ٹولے سے حشد الشعبی ہی کا مقابلہ ہو رہا ہے جبکہ تکفیری ٹولوں کو مالی و عسکری تعاون کے ذریعہ اپنے پیروں پر کھڑا کرنے والی طاقتیں اب بھی اس تاک میں ہیں کہ تکفیریوں کی خاکستر سے چنگاریوں کو چن کر دوبارہ شعلہ ور آگ میں تبدیل کر دیا جائے لیکن انکے اس عزائم میں سب سے بڑی رکاوٹ حشد الشعبی کی فورسز ہیں ، فارس بین الاقوامی نیوز ایجنسی کی رپورٹ  کے مطابق حال ہی میں دیالی کے علاقے میں حشد الشعبی کی فورسز نے تکفیریوں کے خلاف زبردست کامیابی حاصل کی ہے ، حشد الشعبی کے فوجی آپریشنز کے رسمی ترجمان صادق  الحسینی کے بقول حال ہی میں عراقی فضائیہ کی مدد کے چلتے حشد الشعبی کی فورسز نے داعش کے اہم مراکز پر حملہ کر کے ان جگہوں کو زمیں بوس کر دیا ہے جہاں تک ۲۰۰۳ سے اب تک عراق فورسز نہیں پہنچ سکی تھیں   
تفصیلات کے مطابق  حشد الشعبی فورسز نے مسلسل چوتھی مرتبہ ابطال العراق نامی آپریشن میں داعش کے سات مراکز کو المقدادیہ و حوض حمرین کے شمالی علاقوں اور نہر دیالی کے اطراف میں اپنے حملوں سے منہدم کر دیا ہے۔   
 الحسینی نے مزید بتایا کہ حشد العشبی کی فورسز نے داعش کے تین مخفی ٹھکانوں کو بھی مسمار کر دیا یہ ایسے مخفی ٹھکانے تھے جہاں سے داعش کو دھماکہ خیز مواد اور کھانے پینے کی اشیاء کو فراہم کیا جاتا تھا، الحسینی نے مزید کہا کہ دیالی کے رہائشی باشندوں کی مدد اور انکے تعاون سے یہ کام ممکن ہو سکا، کچھ دنوں قبل سے ایران سے عراق کی لگی ہوئی مشرقی سرحد میں چھپے ہوئے داعشی عناصر کو ڈھونڈنے کا کام زور وشور سے جاری تھا ، عراق کی حشد الشعبی فورسز نے ابطال العراق نامی اس آپریشن کے ذریعہ کوشش کی کہ اس علاقے میں اپنے گھر بار کو داعش کے ڈر سے چھوڑ کر دوسری جگہوں پر پناہ لینے والے مقامی باشندوں کو اپنے گھروں کی طرف واپس بھیجا جا سکے اور بحمد اللہ یہ مشن تیزی کے ساتھ جاری ہے  دوسری طرف مسلسل عالمی سامراج کی کوشش ہے کہ عراق کی سرزمین پر کسی نہ کسی طرح تکفیریوں کو دوبارہ زندہ کیا جاسکے تاکہ عراق کو آپس میں الجھا کر اسرائیل کو تحفظ فراہم کیا جا سکے، عالمی سامراج کا یہ خواب یقینا اس وقت تک پورا نہیں ہو سکتا جب تک عراق کے عوام مرجعیت کے حصار میں محفوظ ہیں یہی وجہ ہے کہ حشد الشعبی کے خلاف مسلسل سازشوں کے بعد بھی مرجعیت کی حمایت و پشت پناہی کے چلتے دشمن کے شاطرانہ منصوبے ابھی تک پورے نہیں ہو سکے ہیں اور انشاء اللہ آگے بھی پورے نہیں ہو سکیں گے ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کیا ٹرمپ اور نیتن یاہو ایران پر فتح کے خواب دیکھ رہے ہیں!

  • ۳۲۷

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: اسلامی جمہوریہ ایران کا نظام ان اداروں اور تنظیموں پر مبنی ہے جو رہبر انقلاب اور مفکرین کے زیر انتظام ہیں۔ نہ صرف یہ ادارے دشمن اور اس کی سازشوں اور منصوبوں کو ہلکا نہیں سمجھتے ہیں ، بلکہ دشمن کی ہر نقل و حرکت پر بھی کڑی نگرانی رکھتے ہیں اور اس کی کسی بھی ممکنہ نقل و حرکت کا مقابلہ کرنے کے لئے متعدد آپشنز پر غور کرتے ہیں۔ اگر انہیں خطرہ محسوس ہوتا ہے تو وہ اپنے اور اپنے مفادات کے دفاع میں ایک لمحہ کے لئے بھی نہیں ہچکچاتے۔ یہ وہ حکمت عملی ہے جس نے گذشتہ چار دہائیوں سے ایران کو برقرار رکھا ہے اور اس کی ترقی کا باعث بنی ہے، اور اس دوران میں، دشمنوں کو شکست اور مایوسی کے سوا کچھ نہیں نصیب نہیں ہوا۔
آج ، عالمی استکبار، جس کی سربراہی میں امریکہ اور صیہونی حکومت اور ان سے وابستہ رجعت پسند عرب عناصر ، ایران کے خلاف نفسیاتی جنگ کے لئے اپنے تمام پروپیگنڈے اور سیاسی ذرائع استعمال کررہے ہیں اور کسی بھی قیمت پر ایران کو اپنے حملے کا نشانہ بنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ تاکہ ہوسکتا ہے کہ جھوٹ اور فراڈ پر مبنی خبروں کو فروغ دے کر ٹرمپ اور نیتن یاہو اپنے خواب کو شرمندہ تعبیر کر سکیں۔
رجعت پسند امریکی ، اسرائیلی اور عرب میڈیا کی طرف سے رپورٹ کیے جانے والے تمام جعلی واقعات اور خبروں میں سے صرف ایک سچ ہے، اور وہ صوبہ اصفہان میں نطنز ایٹمی مرکز میں ہونے والا دھماکہ ہے۔ ایران نے فوری طور پر دھماکے کا اعلان کیا اور واقعے کی تصاویر اور ویڈیوز شائع کر دیں۔ یہ واقعہ ایک ہال میں پیش آیا جو ابھی زیر تعمیر تھا اور اس واقعے کی وجوہات اور عوامل کی نشاندہی بھی  کر دی گئی ، لیکن ایران نے حفاظتی وجوہات کی بناء پر اس کا اعلان نہیں کیا۔
اس واقعے کے علاوہ ، دیگر تمام واقعات جنہیں وابستہ میڈیا نے ٹرمپ اور نیتن یاہو کی خوشحالی کے لیے پھیلایا وہ صرف فضلہ خوار ذرائع ابلاغ کے خیالی تصورات تھے۔ بظاہر ، یہ میڈیا ان دونوں افراد کے لئے مقبولیت پیدا کرنے اور انہیں تباہی کے دہانے سے واپس لانے کے لئے افواہوں اور جھوٹ کو پھیلانا بند کرنے کا ارادہ نہیں رکھتا۔ نیویارک ٹائمز نے اس بار ایران کے خلاف نفسیاتی جنگ لڑنے کی پوری کوشش کی۔ اس اخبار نے گذشتہ جمعہ کو ٹرمپ اور نیتن یاہو کے "ہالی ووڈ کے منصوبوں" پر سینئر فوجی کمانڈروں کے قتل اور ایران کے جوہری تنصیبات پر حملہ کرنے کے بارے میں ایک رپورٹ شائع کی تھی۔ رپورٹ کے مطابق ، یہ دونوں افراد بظاہر "اس منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کے لئے پرعزم ہیں۔"
ہمارا یہاں اس رپورٹ کا جواب دینے کا ارادہ نہیں ہے۔ تاہم ، ہم اس بات کا اعادہ کرتے ہیں کہ ریاستہائے متحدہ ، صیہونی حکومت ، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے رجعت پسندوں سے وابستہ میڈیا میں شائع ہونے والی تمام اطلاعات اور خبریں نفسیاتی جنگ کے سوا کچھ نہیں ہیں۔ اس طرح کے ذرائع ابلاغ محض پچھلے چار سالوں میں ایران اور اس کی خرافاتی مزاحمت کے خلاف دیوالیہ ہوئی امریکی انتظامیہ کے لئے خیالی فتوحات پیدا کرنے کے درپے ہیں۔ وہ صہیونی ریاست کے کرپٹ وزیر اعظم نیتن یاہو کو بچانے کی کوشش کر رہے ہیں۔

اگر ٹرمپ واقعا ایران پر حملہ کرنے کی جرئت رکھتے تو وہ اپنے قومی سلامتی کے مشیر جان بولٹن کو کبھی برطرف نہ کرتے۔ بولٹن نے اپنی یادداشتوں میں انکشاف کیا ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ میں شامل ہونے کا ان کا واحد مقصد ایران پر حملہ کرنا تھا۔ ٹرمپ نے اس کی تصدیق کرتے ہوئے کہا ، "اگر بولٹن اپنے عہدے پر رہتے تو ہم ابھی تک چار جنگیں شروع کر چکے ہوتے۔"

اگر ٹرمپ میں ایران پر حملہ کرنے کی جرئت ہوتی تو وہ پچھلے چار سالوں سے وہ حملہ کر چکے ہوتے اس لیے کہ ان کے پاس حملے کے مختلف بہانے موجود تھے جیسے ایران نے امریکہ کے ایک بڑے ڈرون کو مار گرایا تھا، یا عراق میں امریکی اڈے عین الاسد کو تہس نہس کر دیا تھا یا ابھی حالیہ دنوں تمام امریکی پابندیوں کو توڑتے ہوئے کئی آئل ٹینکر وینزویلا پہنچا دیے یا اس کے علاوہ شام اور عراق میں امریکہ کو کھلی شکست سے دوچار کیا تھا۔
اگر ٹرمپ میں ایران پر حملہ کرنے کی ہمت ہوتی تو وہ خود کی نفسیاتی جنگ اور خالی دھمکیوں پر راضی نہ کرتے اور وہ یہ بہانہ نہ کرتے کہ وہ اور ان کے ساتھی نیتن یاہو ایران میں قدرتی اور حادثاتی واقعات میں ملوث ہیں۔
ایران آج پہلے سے کہیں زیادہ مضبوط ہے ، اور امریکہ  جو دنیا کی سپر پاور ہونے کا دعوی کرتا ہے ، اس حقیقت کو جانتا ہے۔ صہیونی حکومت ، جو ایک ناقابل تسخیر فوج رکھنے کا دعوی کرتی ہے ، اس حقیقت سے بخوبی واقف ہے اور یہی حقیقت ہے جس نے ٹرمپ اور نیتن یاہو کے دل میں ایران پر حقیقی فتح کی حسرت پیدا کر دی ہے اور وہ اب خیالی فتوحات کے بارے میں خیالی تصور کرنے پر مجبور ہو چکے ہیں۔
بقلم؛ الف،عین،جعفری

 

امریکہ کے زوال کے مراحل

  • ۴۱۴

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: ہر معاشرے کے لوگ جب تک کہ محسوس کرتے ہیں کہ حکمران نظام ان کے مفادات کے تحفظ کا ضامن ہے، اس کا ساتھ دیتے ہیں اور دیوالیہ پن کی حقیقت تسلیم کرنے سے پہلو تہی کرتے ہیں۔ امریکہ میں یہی کچھ ہورہا ہے۔ انہیں ابھی تک یقین ہے کہ معاشی صورت حال جتنی بھی خراب ہو، امریکہ پھر بھی عسکری مہم جوئیوں اور دوسری اقوام کے سرمائے لوٹنے کا سلسلہ جاری رکھ سکتا ہے اور موجودہ نظام کے تحفظ کو یقینی بناسکتا ہے۔ ۱۷ سال قبل جب افغانستان میں امریکی مداخلت کو امریکہ میں وسیع مخالفت کا سامنا کرنا پڑا تو افغانستان میں لیتھیم (Lithium) کے ذخائر کی دریافت کی خبر نے ان مخالفتوں اور احتجاجات کا خاتمہ کردیا۔ اس زمانے میں کہا گیا کہ امریکہ کو افغانستان میں ملنے والے لیتھیم کے ذخائر کی قیمت ۱۰۰۰ ارب ڈالر ہے۔ اس زمانے میں اوباما انتظامیہ نے عوامی تنقید کے جواب میں موقف اپنایا کہ “اگر ہم افغانستان کو چھوڑ کر چلے جائیں تو چین یا ہندوستان ان ذخائر پر قبضہ کرنے کے لئے افغانستان پر چڑھائی کرے گا” اور یوں احتجاجات کا سلسلہ رک گیا۔
امریکہ پر واجب الاداء قرضہ اس ملک کی مجموعی ملکی پیداوار یا خام ملکی پیداوار (Gross Domestic Product) سے کہیں زیادہ ہے لہذا وہ جتنی بھی تیزرفتاری سے ان قرضوں کو ادا کرے، یا ادائیگی کبھی بھی ممکن نہیں ہوگی۔ علاوہ ازیں جو بھی نئی حکومت برسراقتدار آئے گی اسے موجودہ حالت محفوظ رکھنے کے لئے سابقہ حکومت سے کہیں زیادہ قرضے لینا پڑیں گے۔ چنانچہ امریکی عوام کے لئے بالکل عیاں ہے کہ عرصہ گذرا ہے کہ یہاں کی حکومتیں دیوالیہ اور بےبس ہوچکی ہیں۔ لیکن جب تک کہ امریکی عوام اس یقین تک نہیں پہنچیں گے کہ ان کا عسکری نظام مزید کسی کامیاب کاروائی اور نتیجہ خیز مہم جوئی کی اہلیت نہیں رکھتا، وہ اس نظام کی نسبت پرامید رہیں گے اور کوئی اعتراض و تنقید نہیں کریں گے۔
اس وقت بعض ریاستوں سے خودمختاری کی سرگوشیاں سنائی دے رہی ہیں۔ مثال کے طور پر ریاست کالیفورنیا کا دعوی ہے کہ اس ریاست کی زیادہ تر آمدنی، ٹیکس کی صورت میں وفاقی حکومت کے خزانے میں ڈالا جارہا ہے اور کالیفورنیا کے عوام خودمختاری کی صورت میں یہ آمدنی اپنی ریاست میں خرچ کرسکتے ہیں۔ گوکہ عملی طور پر ان میں سے کوئی بھی تحریک کامیاب نہیں ہوسکتی؛ لیکن چھوٹی سی عسکری شکست امریکہ کی شکست و ریخت کی رفتار میں اضافہ کرسکتی ہے۔
فرض کریں کہ خلیج فارس میں امریکہ کوئی مہم جوئی کرے اور ایران امریکہ کے ایک طیارہ بردار جہاز اور کئی جنگی جہازوں کو ڈبو دے اور امریکہ کو [بےآبرو ہوکر] خلیج فارس سے نکلنا پڑے؛ یا چین کے جنوبی سمندر میں امریکہ اور چین کے درمیان جھڑپوں کے نتیجے میں امریکہ ان جھڑپوں کو اپنے فائدے میں انجام کو نہ پہنچا سکے یا پھر یورپ میں روس اور نیٹو کے درمیان جنگ ہوجائے اور امریکہ اس جنگی مہم جوئی سے عہدہ برآ نہ ہوسکے اور نقصان اٹھائے؛ اور امریکی عوام اس نتیجے پر پہنچیں کہ ان کی جنگی مشین حالات کا توازن اپنے حق میں بدل دینے کی صلاحیت نہیں رکھتی؛ تو رو بہ زوال امریکی سلطنت کے ڈھیر ہوجانے کے عمل کی رفتار میں شدید اضافہ ہوجائے گا۔ اس صورت میں امریکہ کی تمام ریاستیں اتحاد سے الگ ہوکر، ان قرضوں اور ریاست ہائے متحدہ کی تمام عالمی ذمہ داریوں سے فرار ہونے اور جان چھڑانے کی کوشش کریں گی اور ہر ریاست اپنی فکر میں لگ جائے گی۔ امریکی عوام بھی جب جان لیں گے کہ سب کچھ ختم ہوچکا ہے اور نہ ان کے پاس کھونے کے لئے کچھ ہے اور نہ ہی پانے کے لئے، تو وہ بھی صبر و تحمل کا دامن چھوڑ کر غیر مہذبانہ رویوں کا آغاز کریں گے [جن کے لئے انہیں پہلے سے کمپنیوں کی سرکار نے تیار کر رکھا ہے]۔
مالیاتی زوال
مالی طور پر انہدام اور ویرانی (Financial Collapse) یہ ہے کہ ڈالر عالمی لین دین کی بنیاد نہ رہے اور دوسرے ممالک امریکہ کے ساتھ لین دین کے لئے ضروری رقم کریڈٹ فراہم نہ کریں۔ امریکہ ابھی تک زیادہ تر رکازی ایندھن (Fossil fuel) سمیت بیشتر اشیائے صرف دوسرے ملکوں سے درآمد کرتا ہے اور یہ واقعہ رونما ہونے کی صورت میں امریکی صنعتیں ـ بشرطیکہ جبری بندش کا شکار نہ ہوں ـ ان درآمدای اشیاء کی فراہمی سے عاجز ہونگی؛ اور نقل و حمل کا نظام ایندھن کی عدم فراہمی کی وجہ سے معطل ہوجائے گا جبکہ امریکی عوام اپنی گاڑیوں سے شدید طور پر وابستہ ہیں۔
ریاست ہائے متحدہ نامی ملک عرصے سے دیوالیہ ہوچکا ہے اور دوسرے ممالک اس کے ماضی کے پیش نظر اس سے خوفزدہ ہیں اور اس کے زر مبادلہ کو چیلنج کرنے کی جرأت نہیں رکھتے۔
معاشی تباہی (Economic breakdown)
اگلا مرحلہ اقتصادی یا معاشی شکست و ریخت اور زوال و ویرانی (Commercial Collapse) ہے جس کا آغاز مالی زوال اور درآمدات رک جانے کے بعد، امریکی حکمران رفتہ رفتہ اپنے عوام کو ایسی حالت سے دوچار ہوتا ہوا پائیں گے کہ وہ اپنی زندگی کی ضروریات کی فراہمی کی طاقت کھو چکے ہیں؛ یہ وہ مرحلہ ہے جس میں عوام اس تصور اور یقین کو کھو جائیں گے کہ جو کچھ بھی وہ چاہتے ہیں اپنی مالی صلاحیت کی سطح کے مطابق، بازار سے خرید سکتے ہیں۔
سیاسی ویرانی (Political collapse)
مالی اور معاشی ویرانی کے ساتھ ہی، لوگ اپنے حکومتی نظام کے لئے کسی قسم کے اعتبار کے قائل نہیں رہیں گے اور کوئی چیز بھی انہیں قابو نہیں کرسکے گی۔ بعض ریاستوں میں افراتفری اور انارکی کا آغاز ہوگا اور کچھ ریاستیں خودمختاری اور علیحدگی کا اعلان کریں گے۔
سماجی سقوط (Social collapse)
اقتصادی اور سیاسی سقوط اور زوال کے ساتھ، بدامنی، افراتفری اور انارکی کی فضا وسیع سے وسیع تر ہوجائے گی۔ اس مرحلے میں قانون نافذ کرنے والے نیز سماجی اداروں کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ معاشرے میں نظم و ضبط قائم رکھیں، غریبوں اور ناداروں کو اشیاء خورد و نوش پہنچا دیں، بچوں اور معمر اشخاص کا خیال رکھیں لیکن ان اداروں کے پاس کے ذخائر رفتہ رفتہ ختم ہوجائیں گے اور یہ ادارے حالات قابو رکھنے کی صلاحیت کھو جائیں گے۔ تمام انسان ـ خواہ وہ اپنے معاشرے کے انتظام پر معترض ہی کیوں نہ ہوں ـ معاشرے کے اندر رہنے کو پہاڑوں اور صحراؤں میں بھٹکتے پھرنے پر ترجیح دیتے ہیں اور انہیں معاشرے سے بہت سارے فوائد ملتے ہیں۔ لیکن معاشرے کے ناکارہ بننے اور اس کے بعد کے مرحلے کے آغاز کے ساتھ، معاشرہ خود ایک خطرے کی صورت اختیار کرتا ہے اور افراد ایک دوسرے سے دور ہوجاتے ہیں؛ [جبکہ امریکی معاشرے کو پہلے ہی مختلف قسم کے تفکرات سے دوچار کرکے تنہائی سے دوچار کیا گیا ہے اور اس صورت حال کے لئے پہلے سے ماحول تیار ہے]۔
اخلاقی زوال (Moral and Cultural collapse)
اس مرحلے میں گھرانے اور خاندان کا مفہوم پھیکا پڑ جاتا ہے اور والدین بچوں کی دیکھ بھال کو ترک کردیتے ہیں [جس کے لئے ہمجنس بازی اور شادی کے بغیر پارٹنر کے ساتھ زندگی گذارنے کے گرے ہوئے اور غیر اخلاقی قوانین کے ذریعے پہلے سے رکھی جا چکی ہے]، لوگ بوڑھوں کی دیکھ بھال کو یکسر چھوڑ جاتے ہیں اور اگر انہیں کھانے کی اشیاء ملیں تو انہیں دوسروں کے درمیان تقسیم نہیں کیا کرتے۔ لوگ جب اس مرحلے میں داخل ہوجائیں تو وہ انسانوں کے زمرے میں نہیں آتے بلکہ وہ عملا وحشی جانوروں کے زیادہ قریب ہونگے۔
امریکہ کے بہت سے چھوٹے اور درمیانی درجے کے شہری مذہبی اور معتقد ہیں جو شاید کبھی بھی سماجی اور اخلاقی زوال سے دوچار نہ ہوں، لیکن دوسرے عوام اور بڑے شہروں کے بارے میں یہ خوش فہمی بےجا ہوگی اور ممکن ہے کہ ریاست ہائے متحدہ کے زیادہ تر معاشروں کو ان تمام مراحل سے گذرنا پڑے اور یہی بات ان کی فنا اور نابودی کا سبب بنے گی۔
اخلاقی اور ثقافتی زوال اور انسانوں کا مسخ ہوجانا
قرآن کی تین آیات [سورہ بقرہ، آیت ۶۵؛ سورہ مائدہ، آیت ۶۰؛ سورہ اعراف، آیت ۱۶۰ میں ان قوموں کو عذاب الہی کا وعدہ دیا گیا ہے جو اس کے غضب کے لائق ٹہرتے ہیں، وہ جو مسخ ہوکر بندروں اور سوروں میں تبدیل یا ظالموں کی غلامی پر مجبور ہوئیں۔ سماجی اور اخلاقی و ثقافتی زوال در حقیقت ایک لحاظ سے وحشی حیوانوں میں تبدیلی پر منتج ہوتا ہے۔ انسان کا تعارف اس کے برتاؤ اور طرز سلوک سے ہوتا ہے اور جب انسان کا طرز عمل وحشی جانوروں کی طرح ہوگا تو گویا وہ مسخ ہوچکا ہے اور وحشی جانور بن چکا ہے۔
اس مضمون میں ڈمیٹری اورلوف (Dmitry Orlov) کی کتاب “زوال کے پنجکانہ مراحل” سے استفادہ کیا گیا ہے۔
shakeri.net

 

امریکہ اور سوویت یونین شباہتیں اور فرق

  • ۴۱۳

خیبر صہیون تحقیقاتی ویبگاہ: تقریبا ۲۵ سال قبل سوویت یونین کا خاتمہ ہوا، یہ وہ زمانہ تھا جب سوویت یونین کے رکن ممالک کا ۲۵ فیصد بجٹ عسکری مصارف میں خرچ ہو جاتا تھا اور لوگوں اور نظام حکومت کو یہ امید تھی کہ ایک طاقتور فوج کے ذریعے عسکری مہم جوئیاں کی جاسکتی ہیں اور دوسرے ممالک کے سرمائے لوٹ کر معاشی مسائل کو حل کیا جاسکتا ہے۔ لیکن جب سوویت جنگی مشین نے افغانستان میں عملی طور پر اپنی نااہلیت کو ثابت کرکے دیکھا، تو پورے مجموعے کو ایک بھاری نفسیاتی دھچکا لگا۔
دوسری طرف سے روس اپنے سے ملائے ہوئے ممالک کو مالی ذرائع فراہم کرنے سے قاصر تھا چنانچہ ان ممالک نے اپنی بقاء کا راز سوویت یونین سے علیحدگی میں پایا۔ یہ وہ زمانہ تھا کہ یونین کے کرتے دھرتوں اور حکمرانوں کا خیال تھا کہ یہ یونین اتنی بڑی اور طاقتور ہے کہ اس کے بارے میں زوال اور تقسیم و تحلیل کا تصور تک نہیں کیا جاسکتا۔ چنانچہ وہ بھی تشویشناک معلومات اور خساروں کے اعداد و شمار کو لائق توجہ نہیں سمجھتے تھے۔ چنانچہ زوال آیا اور بڑی تیزرفتاری کے ساتھ سوویت یونین کے حصے بخرے کرنے پر منتج ہوا۔
امریکہ کا سالانہ فوجی بجٹ بھی ۶۰۰ ارب ڈالر سے زیادہ ہے، اس کے بیرون ملک ۱۰۰۰ فوجی اڈے ہیں، چنانچہ وہ اپنی فوجی مشین کی افادیت پر بہت شادماں اور مطمئن ہے، لیکن اس فوجی مشین کی نااہلیت جلدی یا بدیر ثابت ہوجائے گی اور امریکہ کے بیرونی حامی اور اندرونی غفلت زدہ لوگ جان لیں گے کہ یہ سب امریکہ کی تشہیری مہم تھی۔

امریکہ اور سوویت یونین میں فرق
پہلا فرق
سوویت یونین کے عوام نے کبھی بھی مرکزی حکومت پر اعتماد نہیں کیا اور انہیں اپنی تاریخ میں کئی مرتبہ قحط سالیوں اور بڑے بڑے مصائب سے گذرنا پڑا تھا۔ چنانچہ ہر گھرانہ ہمیشہ اپنے لئے غذائی اشیاء کا ذخیرہ محفوظ کرتا تھا اور کسی بھی ناخوشگوار صورت حال کے لئے سماجی تعلقات کو برقرار رکھتا تھا؛ لیکن اگر امریکہ میں کبھی قحط پڑا بھی ہو تو وہ موجودہ نسلوں کو معلوم نہیں ہے اور یہ نسلیں کبھی بھی اس طرح کے بحرانوں سے نہیں گذری ہیں۔ وہ صارفیت کی زندگی گذارنے کے عادی ہیں۔ بہت کم لوگ ـ جو “بقا پسندوں” (Survivalists) کے عنوان سے مشہور ہیں، ـ بحرانی حالات سے نمٹنے کی کوشش کررہے ہیں۔ جبکہ زیادہ تر عوام بحرانی حالات میں زندگی بسر کرنے کا تجربہ نہیں رکھتے اور اس سلسلے میں انہیں کوئی تربیت نہیں دی گئی ہے۔ چنانچہ بہت معمولی سا واقعہ ـ جیسے نقل و حمل (Transport) کے نظام یا ریلوے نظام میں خلل ـ سامنے آنے سے دکانوں کی الماریاں خالی ہوجائیں گی اور سماجی بحرانوں کا طوفان آئے گا۔
دوسرا فرق
سابقہ تاریخی واقعات نے سوویت یونین کے عوام کو سکھایا تھا کہ بحرانی حالات میں ایک دوسرے کو برداشت کریں اور سماجی تعلقات کو مضبوط بنا کر ان حالات سے گذرنے کی سبیل تلاش کیا کریں؛ لیکن ایسا کوئی رجحان امریکہ میں موجود نہیں ہے اور ان کی قوت برداشت بہت کم ہے۔ میں نے ایران میں خود دیکھا کہ ایک شخص ایک پولیس اہلکار سے لڑ پڑا اور اس کو قتل کی دھمکیاں بھی دیں لیکن عوام میں سے کچھ لوگ مصالحت کے لئے آگے بڑھے اور یہ مسئلہ آخرکار اس شخص اور پولیس اہلکار کے معانقے کے ساتھ بخیر و خوشی صلح پر منتج ہوا؛ لیکن آپ امریکہ میں ایسا واقعہ رونما ہونے کا تصور تک نہیں کرسکتے اور عوام کے ساتھ پولیس کی بدسلوکیوں کی کہانیاں ہر روز عالمی ذرائع ابلاغ میں سرخیاں بن رہی ہیں۔ بعض مواقع پر پولیس بعض افراد کو خبردار کرنے سے پہلے سر میں گولی مارتی ہے؛ امریکہ میں ممکن نہیں ہے کہ ایک مخبوط الحواس، پاگل اور غیر مسلح شخص بھی کسی پولیس اہلکار کو کلامی طور پر دھمکی دے اور پولیس اہلکار درگذر کردے۔
ایران سمیت اسلامی ممالک میں دو افراد کے درمیان جھگڑا ہوجائے اور دونوں کے پاس چاقو بھی ہو ممکن ہے کہ وہ ایک دوسرے کو ماریں پیٹیں لیکن فوری طور پر چاقو استعمال نہیں کرتے۔ بعد میں اگر جھگڑا آگے بڑھے تو ممکن ہے کہ وہ چاقو بھی استعمال کریں اور دوسرے ہتھیاروں کی نوبت بھی آئے لیکن امریکہ میں جھگڑا شروع ہونے کے ساتھ ہی کچھ گالی گلوچ اور دھمکیوں کا تبادلہ ہونے کے فورا بعد گرم اسلحہ [یعنی پستول اور بندوق] کا استعمال ہوتا ہے۔ اسی بنا پر امریکیوں کے پاس اسلحہ کی شرح دنیا کے تمام ممالک سے زیادہ ہے اور ۸۹ فیصد امریکی گرم اسلحے سے لیس ہیں۔
یہی بات اس حقیقت کو عیاں کرتی ہے کہ معاشی تناؤ کے وقوع پذیر ہونے کے ساتھ ہی امریکی معاشرے تیزی سے سماجی تناؤ اور معاشرتی بدامنی کا شکار ہوجائے گا؛ جہاں کے عوام ایک دوسرے کو برداشت کرنا نہیں جانتے، اور بہت جلدی اسلحہ استعمال کرتے ہیں، وہ خود ہی امریکی معاشرے کو بھاری جانی نقصانات سے دوچار کرتے ہیں، یا یوں کہئے کہ انہیں بیرونی دشمن کی ضرورت نہیں ہے [اور ان کے زوال میں بھی شاید بیرونی عنصر کی زیادہ ضررت نہ ہو]۔
تیسرا فرق
سوویت یونین میں نوریلسک نکل ([Norilsk Nickel [Nornickel) جیسی بڑی صنعتیں، درحقیقت ایک معاشی کمپنی سے بڑھ کر تھیں؛ ان صنعتوں کے کارکن مختلف شہروں میں ایسی کمپلیکسوں میں رہتے تھے جہاں اسکول اور اسپتال کے مسائل بھی ان صنعتوں کے توسط سے حل ہوتے تھے۔ سوویت یونین کے خاتمے اور لین دین اور مالی گردش معطل ہونے کے بعد، ان صنعتوں نے مُبادلَہ اجناس (Barter) کا سہارا لیا چنانچہ وہ اپنے کارکنوں کی ضروریات کو پورا کرنے کی ذمہ داری سے عہدہ برآ ہوئیں؛ اور یوں وہاں کے لوگ بڑی دشواریوں کا سامنا کئے بغیر تعطل کے اس دور سے عبور کرگئے۔
لیکن امریکہ میں کوئی بھی صنعت اور کوئی بھی کمپنی ایسی نہیں ہے جس نے اپنے بادوام اہلیت کے لئے منصوبہ بندی کی ہو۔ بطور مثال گوگل کمپنی (Google company) نے مختلف فنی شعبوں میں سرمایہ کاری کی ہے لیکن اس کمپنی کے کارکن ان ہی شہروں اور محلوں میں سکونت پذیر ہیں جن میں دوسرے شہری بھی سکونت پذیر ہیں اور اگر شہروں کے پانی اور بجلی بند ہوجائے اور غذائی مواد کی تقسیم کا نظام معطل ہوجائے تو ان کمپنیوں کے کارکن بھی روزگار کے مواقع کھو جائیں گے، ان کی آمدنی کا ذریعہ ختم ہوجائے گا؛ چنانچـہ گوگل اور اپیل (Apple) جیسی کمپنیوں کے پاس بھی اپنا کام جاری رکھنے کا امکان میسر نہیں ہوگا اور ان کمپنیوں کے کارکن بھی بے روزگار ہوکر پیش آمدہ بحران کے انجام سے محفوظ نہیں رہیں گے۔
سوویت یونین میں عوامی رہائش اور شہری نقل و حمل کا نظام، حکومت کے ہاتھ میں تھا۔ چنانچہ سوویت یونین کے خاتمے کے بعد کوئی بھی سڑکوں میں رات گذارنے پر مجبور نہیں ہوا، جبکہ امریکہ میں اگر کوئی اپنے گھر کی ایک قسط کی ادائیگی میں تاخیر کرے تو اس کو دوسرے روز گھر سے نکال باہر کیا جاتا ہے، اور یہ ممکن ہے کہ بینک مکانات کی قیمتیں گرنے کے امکان کو مدنظر رکھ کر اس گھر کو منہدم کردے۔ یہ رویہ امریکہ میں جھونپڑی نشینوں کی تعداد میں مسلسل اضافے کا سبب بن گیا ہے جس کے نتیجے میں عوام کے جانی نقصانات میں اضافہ ہورہا ہے۔
چوتھا فرق
سوویت یونین کے با اثر سرکاری اہلکار اور اعلی سماجی شخصیات وہ تھے جو سوویت یونین کے خاتمے کے بعد بھی بہت سارے ذرائع تک رسائی رکھتے تھے اور مُبادلَہ اجناس اور سیاہ بازار (Black market) کا سہارا لے کر اپنی صورت حال کو قابو میں رکھا؛ لیکن امریکہ میں تمام صاحب ثروت لوگوں کی دولت، مجازی دولت (Virtual wealth) ہے جو کاغذ کے اوپر درج ہے۔ یہ دولت یا تو بڑی کمپنیوں کے حصص کی صورت میں ہے یا پھر بینک اکاؤنٹس کی صورت میں۔ دولت کی یہ دو شکلیں بحران کی صورت میں کسی بھی بیماری کی دوا نہیں ہوسکتیں۔ امریکہ میں صرف منشیات کے کارٹلز (Drug cartels) ہیں جو کالی منڈی کا کام کرسکتے ہیں اور صرف ان ہی کے پاس اس کام کا امکان اور متعلقہ نیٹ ورک کا امکان ہے۔ چنانچہ حتی کہ امریکی سرمایہ داروں کو بھی، بحرانی حالات میں دوسروں کی طرح اس سے پیدا ہونے والی تلخیوں کو برداشت، کرنا پڑے گا۔
پانچواں فرق
جب سوویت یونین کا خاتمہ ہوا تو روس یونین کے سب سے بڑے ملک کے طور پر سوویت یونین کے جوہری ہتھیاروں اور متعلقہ بین الاقوامی معاہدوں کا وارث بنا۔ یونین کے چھوٹے ممالک نے اس موضوع میں کوئی اختلافی راستہ اختیار نہیں کیا۔ لیکن امریکہ میں موجودہ کوئی بھی ایسی ریاست نہیں ہے جو زوال یافتہ اتحاد [یعنی ریاست ہائے متحدہ] کی وارث بن سکے اور موجودہ امریکہ کے عالمی معاہدوں کا تحفظ کرسکے یا ان کی پابندی کی ضمانت دے سکے۔ یہی مسئلہ پوری دنیا کے لئے خطرے کا سب سے بڑا سرچشمہ ہوگا اور بعید از قیاس ہے کہ جس طرح کہ سوویت یونین کے زوال کے بعد حالات جس انداز سے حل ہوئے، امریکہ کے زوال کے بعد اسی آسانی سے حل ہوجائیں۔
سوویت یونین امریکہ کی نسبت متعدد امتیازی خصوصیات کا حامل تھا ـ جن کی طرف یہاں اشارہ ہوا ـ لیکن زوال کے بعد روس کو آبادی کی شدت قلت کا سامنا کرنا پڑا اور متوقعہ عمر میں شدید کمی واقع ہوئی۔ چنانچہ اگر امریکہ زوال کا شکار ہوجائے تو اسے سوویت یونین کی نسبت بہت زیادہ اور شدید مسائل کا سامنا کرنا پڑے گا۔

 

۔۔۔۔۔۔

امریکہ ابھی تک زوال پذیر کیوں نہیں ہوا ہے؟

  • ۳۲۰

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: امریکہ ہی میں شائع ہونے والی معلومات اور اعداد و شمار کے مطابق، امریکہ معاشی لحاظ سے “عدم واپسی کے نقطے” (Point Of No Return) کو عبور کرچکا ہے اور عملی طور دیوالیہ شمار ہوتا ہے۔ آئس لینڈ، یونان، اسپین اور اٹلی سمیت کچھ دوسرے مغربی ممالک بھی دیوالیہ پن کی سرحد تک پہنچ چکے تھے یا ہیں۔ لیکن ان ملکوں میں خطرے کی گھنٹی بج گئی اور حکومتوں نے مل کر بحران سے نمٹنے کے لئے اچھے خاصے منصوبے بنائے ہیں، گوکہ ان منصوبوں کا بھی کچھ زیادہ فائدہ نہیں ہوا ہے۔ کیونکہ ان منصوبہ بندیوں کے ذریعے سود اور صارفیت (Consumerism) کی بنیاد پر قائم معیشتوں کی ویراں شدہ بنیادوں کی مرمت ممکن نہیں ہے۔ لیکن امریکہ میں ـ گوکہ حالات کی خرابی کا سب کو اندازہ ہے ـ حکومت، کانگریس اور سینٹ کسی صورت میں بھی اس حقیقت کو تسلیم کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں کہ حالات بحران زدہ ہیں چنانچہ وہ ان خرابیوں سے نمٹنے کے لئے بھی کوئی چارہ تلاش نہیں کررہے ہیں۔
بہت سوں کو یہ سوال درپیش ہے کہ اس کے باوجود کہ معاشی حالت بہت خراب ہے اور حکمران اشرافیہ خواب غفلت کے مزے لوٹ رہی ہے، امریکی نظام حکومت شکست و ریخت اور زوال کا شکار کیوں نہیں ہوا؟
امریکہ کے اندر کے حکمران اور امریکہ کے باہر کے لبرل ازم اور معاشی آزاد مشربی سے متاثر سوچوں کے مالک لوگ ـ بالخصوص لبرل ازم کو بطور فیشن اپنانے والے مسلم دنیا کے مقتدر بھنئے یا منفعل سیاستدان ـ جو امریکی زوال کو اپنے لئے نقصان دہ سمجھتے ہیں، کہتے ہیں کہ اعداد و شمار جعلی ہیں اور امریکہ خود ہی ایسی معلومات دنیا کو دے رہا ہے تا کہ اس کے حریفوں کو معاشی نقصان پہنچا سکے؛ ان لوگوں کا کہنا ہے کہ امریکہ بطور مثال ہزاروں ارب ڈالر کی چینی مصنوعات درآمد کرتا ہے اور اس کے عوض چینیوں کو قومی بانڈز (National bonds) دیتا ہے اور یوں امریکہ مقروض ہوجاتا ہے؛ اور جب قرضے کی رقم چین میں امریکی سرمائے سے کئی گنا زیادہ ہوجائے تو وہ ان بانڈز کو کالعدم قرار دیتا ہے اور امریکہ میں موجود چینی سرمایوں کو قومیا دیتا ہے۔۔۔ [گوکہ ایسا ابھی تک نہیں ہوا ہے لیکن] اس طرح کی تجاویز امریکہ میں سامنے آیا کرتی ہیں اور یہ بھی ممکن ہے کہ امریکہ کبھی ایسا کرے بھی؛ جیسا کہ کانگریس نے ۱۱ ستمبر کے واقعے میں سعودی کردار پر بحث و تمحیص کی اجازت دے کر امریکہ میں سعودیوں کا ۱۰۰۰ ڈالر کا سرمایہ بلاک کرنے کا بہانہ تلاش کرنے کا راستہ ہموار کیا۔
لیکن فریق ثانی چین ہو تو یقینا امریکہ کا کوئی ایسا اقدام چین کی جوابی کاروائی کا باعث بنے گا اور امریکی معیشت ایسے اقدامات کے انجام کو برداشت نہیں کرسکتی۔ امریکہ کی تیل اور دوسری مصنوعات کی خریداریوں کا بڑا حصہ مالی اسناد (Financial credentials) کی بنیاد پر ہے اور ان کے اخراجات کو عرصہ بعد ادا کیا جاتا ہے یا پھر قومی بانڈز کے ذریعے بےباق کیا جاتا ہے۔ اگر امریکہ دوسرے ممالک کے سرمایوں کو قومیا دے تو دوسرے ممالک اس نظام کی بنیاد پر امریکہ کے ساتھ لین دین کرنے سے گریز کریں گے اور مصنوعات کے تبادلے (Bartering) کی طرف مائل ہونگے اور یہی مسئلہ روئے زمین سے امریکی معیشت کے محو ہونے کے لئے کافی ہے۔

 

نو لبرالیت سے فسطائیت تک کا تاریک راستہ

  • ۳۳۵

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ؛ نو لبرالیت ـ ایک معاشی نظریئے کے طور پرـ ہمیشہ سے ایک کھوکھلا نظریہ تھا۔ ایک نظریئے (آئیڈیالوجی) کے طور پر سابقہ حکمران نظریات ـ منجملہ: بادشاہوں کا الہی حق، اور فاشیت کے حامیوں کے ایک “مستقبل میں ایک غیر معمولی مرد” [Übermensch]” پر اعتقاد، ـ کی طرح ہے۔ ان کے کسی بھی وعدے پر عملدرآمد کبھی بھی اور ذرہ برابر بھی، ممکن نہیں ہوسکا ہے۔
ایسے حال میں کہ ایک عالمی مقتدر بھنیئے کے ہاتھ میں دولت کا ارتکاز ۔۔۔ آٹھ خاندانوں کے پاس دنیا کی پچاس فیصد آبادی کے برابر دولت مرتکز ہوئی ہے ۔۔۔ تمام تر کنٹرول اور قواعد و ضوابط کو ناکارہ بنا دیتا ہے، ہمیشہ کے لئے معاشی عدم مساوات اور طاقت کے شدید انحصار کو بھی جنم دیتا ہے اور سیاسی زیادہ روی اور انتہا پسندی کو بھی ہوا دیتا ہے اور جمہوریت کو تباہ کردیتا ہے۔ اس موضوع کے ادراک کے لئے تھامس پکیٹی (Thomas Piketty) کی ۵۷۷ صفحات پر مشتمل کتاب “سرمایہ اکیسویں صدی میں” (Capital in the Twenty First Century) کی مکمل ورق گردانی کی ضرورت نہیں ہے۔ لیکن نولیبرالزم کا مقصد ہرگز یہ نہیں تھا کہ معیشت کو معقول بنایا جائے، بلکہ مقصد طبقاتی طاقت کو بحال کرنا تھا۔
حکمران نظریئے کے طور پر نو لیبرالیت کو اچھی خاصی کامیابی حاصل رہی۔ یہ روش ـ جس کا آغاز ۱۹۷۰ع‍ کی دہائی سے ہوا اور اس کے کینیزی (Keynesian) معیشت کے قائل مرکزی دھارے کے ناقدین کو جامعات، سرکاری اداروں نیز آئی ایم ایف اور عالمی بینک جیسے بین الاقوامی اداروں سے نکال باہر کیا گیا اور ان کی آواز کو ذرائع ابلاغ میں دبا دیا گیا۔ ہمفکر درباریوں اور ملٹن فریڈمین (Milton Friedman) جیسے مفکرین کو، جو شکاگو یونیورسٹی جیسے مقامات پر خودنمائی کررہا تھا ـ تیار کیا گیا اور انہیں اہم پلیٹ فارم اور کمپنیوں کا فراہم کردہ سرمایہ دل کھول کر عطا کیا گیا۔ انھوں نے حاشیائی معاشی نظریات کو ـ جنہیں فریڈریک ہایک (Friedrich Hayek) اور تیسرے درجے کے مصنف “این رینڈ” (Ayn Rand) جیسے لوگ عوام کے بیچ لائے تھے ـ رائج کیا۔ جب ہمیں منڈی کے دباؤ اور سرکاری قوانین کے خاتمے کے آگے گھٹنے ٹیکنا پڑے، صاحب ثروت لوگوں پر مقررہ مالیہ کم کردیا گیا، سرحدوں کے اندر پیسے کی نقل و حرکت مجاز قرار دی گئی، انجمنین (Unions) تباہ کردی گئیں، اور تجارتی سودوں پر دستخط ہوئے، جن کی وجہ سے امریکی ملازمتوں کو چین کے بیگارخانوں میں منتقل کیا گیا، اور یوں دنیا زیادہ خوشحال، زیادہ آزاد اور زیادہ امیر ہوگی۔ یہ ایک دغابازی تھی جو چل گئی۔
نیویارک میں “نو لیبرالیت کی مختصر تاریخ” (Brief History of Neoliberalism) نامی کتاب کے مصنف ڈیوڈ ہاروی (David Harvey) نے مجھ سے کہا: “یہ بہت اہم بات ہے کہ ہم اس منصوبے کے طبقاتی سرچشموں کو پہنچان لیں، جو ۱۹۷۰ع‍ کی دہائی میں سامنے آیا، اور یہ وہ وقت تھا جب سرمایہ دار طبقہ مسائل میں گھرا ہوا تھا۔ ہر حکمران طبقے کی طرح انہیں بھی حکمران تفکرات کی ضرورت تھی۔ چنانچہ انھوں نے حکم دیا کہ منڈی کی آزادی، نجکاری، اپنے آپ کو کاروباری ادارے میں بدلنا، شخصی آزادی، اور ان جیسی دوسری چیزوں کو ایک نئے سماجی نظام کے حکمران خیالات، ہونا چاہئے اور یہ وہی نظام تھا جس کو ۱۹۸۰ع‍ اور ۱۹۹۰ع‍ کی دہائیوں میں نافذ کیا گیا”۔
ہاروی کا کہنا تھا کہ “نو لیبرالیت نے ایک سیاسی منصوبے کے طور پر بہت چالاکی سے عمل کیا اور اس کو بہت زیادہ عوامی اعتماد حاصل ہوا، کیونکہ اس میں شخصی آزادی اور انتخاب کی آزادی کی بات ہوئی تھی۔ وہ جب آزادی کی بات کرتے تھے تو مراد منڈی کی آزادی تھی۔ نولبرل منصوبے نے «اڑسٹھ کی نسل” (۶۸ generation) سے کہا: “اچھا، تو تم آزادی چاہتے ہو؟ طلبہ تحریک بھی آزادی چاہتی ہے۔ اگلی چیز جو تم چاہتے ہو سماجی انصاف ہے؛ بھول جاؤ اسے۔ لہذا ہم تمہیں شخصی آزادی دیں گے، لیکن تم سماجی انصاف کو بھول جاؤ۔ منظم ہونے سے پرہیز کرو»، کوشش یہ تھی کہ یہ تنظیمیں جو مزدور طبقے کی تنظیمیں تھیں، ختم ہوجائیں، بالخصوص انجمنیں اور وہ سیاسی جماعتیں جو معاشرے کی سلامتی کے لئے فکرمند تھیں، جڑ سے اکھڑ جائیں”۔
ہاروی نے کہا: “منڈی کی آزادی کے سلسلے میں اہم نکتہ یہ ہے کہ یہ موضوع بظاہر مساوات پسندانہ  نظر آتا ہے۔ لیکن کوئی بھی عدم مساوات اس سے زیادہ بری نہیں ہوسکتی کہ غیر مساوی لوگوں کے ساتھ یکسان برتاؤ روا رکھا جائے۔ منڈی کی آزادی مساوات کا وعدہ دیتی ہے لیکن اگر آپ بہت زیادہ امیر ہوں تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ اس سے بھی زیادہ امیر بن سکتے ہیں؛ نیز اگر آپ بہت زیادہ غریب ہیں تو یہ امکان موجود ہے کہ اس سے بھی زیادہ غریب ہوسکتے ہیں۔ چنانچہ منڈی کی آزادی نے سماجی عدم مساوات کے بڑی اور زیادہ سطوح کو جنم دیا”۔
نو لیبرالیت کا نظریہ عام طور پر ایک متحدہ سرمایہ دار طبقے نے مرتب کیا۔ سرمایہ دار اشرافیہ نے “تجارتی گول میز” (Business Roundtable)، ایوان تجارت، (Chamber of Commerce) نیز “ورثہ فاؤنڈیشن”، (The Heritage Foundation) جیسے فکری مراکز کو بجٹ فراہم کیا تا کہ اس نظریئے کو معاشرے پر مسلط کیا جاسکے۔ یہ سرمایہ دار یونیورسٹیوں کو بھی اس وقت تک دل کھول کر مالی امداد فراہم کرتے رہے، جب تک وہ وفاداری کے ساتھ مسلط نظریئے کی ترویج کرتی رہیں۔
انھوں نے اپنے اثر و رسوخ اور دولت نیز مختلف ابلاغی پلیٹ فارمز کو، ذرائع ابلاغ آلۂ کار بنانے کے لئے استعمال کیا۔ نیز انھوں نے ہر نئی آواز کو دبا دیا یا نئی تجاویز پیش کرنے والوں کے لئے روزگار کے مواقع کی تلاش میں مشکلات کھڑی کردیں۔ پیداوار کے بجائے حصص کی قیمتوں کی بڑھوتری کو معیشت کا نیا معیار بنایا گیا اور ہر شخص اور ہر چیز نے مال تجارت اور پیسے کی صورت اختیار کی”۔
ہاروے نے کہا: “قدر و قیمت کا معیار منڈی کی قیمت ہے؛ چنانچہ ہلیری کلنٹن بہت ہی زیادہ قیمتی ہے کیونکہ وہ گولڈمین ساکس (Goldman Sachs) میں ایک ہی تقریر کے عوض ۲۵۰۰۰۰ ڈالر وصول کرتی ہے۔ اگر میں شہر کے مرکز میں ایک مختصر سے گروپ سے خطاب کروں اور اس کے عوض ۵۰ ڈالر وصول کروں تو اس صورت میں ہلیری کی قدر و قیمت میری نسبت بہت زیادہ ہے۔ ایک شخص کی قدر و قیمت اور اس کی اہلیت کی قیمت اس روش سے متعین ہوتی ہے کہ وہ منڈی میں کتنی رقم کما سکتا ہے”۔
ہاروی کے بقول: “یہ وہ فلسفہ ہے جو نو لیبرالیت میں مضمر ہے۔ ہمیں ہر چیز کے لئے ایک قیمت ادا کرنا پڑتی ہے۔ حالانکہ وہ ایسی چیزیں نہیں ہیں جن کو مال التجارہ قرار دیا جاسکتا ہو۔ بطور مثال تحفظ صحت مال و اسباب میں بدل جاتا ہے۔ مکان ایک متاع میں بدل جاتا ہے۔ تعلیم سامان تجارت میں بدل جاتی ہے، لہذا طالبعلموں کو ـ اس لئے کہ مستقبل میں کوئی ملازمت تلاش کرسکیں ـ قرضہ لینا پڑتا ہے۔ نیولیبرالیت کا جوہر یہی دغابازی اور دھوکہ دہی ہے، وہی جو بنیادی طور پر کہہ رہی ہے کہ اگر آپ کارانداز (Entrepreneur) ہیں اور آپ جاکر اپنی تربیت کا انتظام کریں وغیرہ، تو آپ کو منصفانہ پاداش ملے گی، اگر آپ کو منصفانہ پاداش نہ مل سکے تو سمجھ لینا کہ آپ نے اپنے آپ کو مناسب تربیت نہیں دی ہے! آپ نے غلط سبق سیکھا ہوا ہے؛ آپ نے فلسفے یا کلاسیکی متون کے اسباق سیکھے ہوئے ہیں، تمہیں مزدوروں کے استحصال کی روشیں سیکھنے کی تربیت حاصل کرنا چاہئے تھی”۔
اس وقت نیولبرلیت کی عیاری اور دغا بازی اس وقت سیاسی شعبوں میں وسیع سطح پر طشت از بام ہوچکی ہے۔ وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ، نو لیبرالیت کی لالچی اور غارت گر نوعیت کو چھپانا ـ بالخصوص اس وجہ سے بھی کہ یہ عظیم سرکاری سبسڈی کا مسلسل مطالبہ کررہی ہے ـ مشکل سے مشکل تر ہورہا ہے؛ (بطور مثال، آمازون نے حال ہی میں نیویارک سے ورجنیا تک، ان صوبوں میں رسد کے مراکز قائم کرنے کے بہانے ٹیکس میں کمی کی درخواست کرکے، اربوں ڈالر ٹیکس پس انداز کرلیا ہے)۔ اس مسئلے نے حکمران اشرافیہ کو دائیں بازو کے عوام فریبوں کے ساتھ اتحاد قائم کرنے پر مجبور کیا ہے تاکہ جو نسل پرستی، اسلاموفوبیا، تعصب اور زن بیزاری جیسی کچی چالوں (خام حربوں) کو بروئے کار لاتے ہوئے عمومی غیظ و غضب کو اشرافیہ سے دور کرکے محروم طبقوں کی طرف منتقل کریں۔ یہ عوام فریب لوگ لوٹ مار کو عالمی اشرافیہ کے لئے تیز تر کردیتے ہیں اور ساتھ ہی وعدہ کرتے ہیں کہ تنخواہ دار مردوں اور عورتوں کی حفاظت کریں گے۔
مثال کے طور پر ٹرمپ کی حکومت نے کئی قوانین کو منسوخ کردیا ہے: گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج میں تخفیف (Greenhouse Gas Emissions Reduction) کے معاہدے سے لے کر انٹرنیٹ کی غیرجانبداری (Net Neutrality) کے قانون تک، نیز یہ کہ اس نے امیرترین افراد اور کمپنیوں پر نافذ ہونے والے ٹیکس میں کمی کردی ہے اور ملک کو اگلے ایک عشرے کے دوران ڈیڑھ ٹریلین سرکاری آمدنی سے محروم کردیا ہے، جبکہ اس کا لب و لہجہ بھی اور کنٹرول اور نگرانی کی روشیں بھی مطلق العنانیت پر استوار ہیں۔
نیو لیبرالیت بہت کم دولت پیدا کرتی ہے اور اس کے عوض دولت کو امیروں اور حکمران اشرافیہ کی طرف منتقل کرکے ان کے درمیان تقسیم کرتی ہے۔ ہاروی اس روش کو “[دولت کی] انبارسازی بذریعۂ ضبطگی [یا بذریعۂ بےدخلی]” (Accumulation by Dispossession) کا نام دیتا ہے۔
ہاروی کا کہنا ہے کہ “ضبطگی کے ذریعے دولت جمع کرنے کی منطق کا استدلال اس تصور میں مضمر ہے کہ جب اجناس کی پیداوار یا خدمات کی فراہمی کی عوامی اہلیت کا خاتمہ ہوجائے، تو وہ ایک ایسے نظام کو معرض وجود میں لاتے ہیں جس کے ذریعے دولت کو دوسرے عوام سے کشید (Extract) کیا جاتا ہے۔ دولت کشید کرنے کا یہ عمل عوام کی سرگرمی کا مرکزی نقطہ بن جاتا ہے۔ دولت کے استحصال یا کشید کرنے کے عمل کا ایک ذریعہ ایسی نئی اجناس کے لئے منڈی کی تخلیق ہے جو اس سے پہلے موجود نہیں تھے۔ مثال کے طور پر جب میں آج سے کچھ زیادہ جوان تھا، تو یورپ میں اعلی تعلیم کا حصول ایک عمومی حق سمجھا جاتا تھا۔ جتنا ہم آگے آئے ہیں، یہ (شعبہ اور دوسری خدمات) کو ایک نجی سرگرمی میں بدل دیا گیا ہے۔ جیسے علاج معالجے کی خدمات۔ یہ بہت سے شعبے جنہیں انسان جنس اور سامان تجارت کی نگاہ سے نہیں دیکھتا، آج اجناس اور ذریعہ آمدنی میں تبدیل ہوچکے ہیں۔ کم آمدنی والی آبادی کی رہائش کے لئے مکان ایک سماجی مجبوری کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ آج ہر چیز منڈی اور مارکیٹ میں پیش کی جاتی ہے اور وہیں سے ہر چیز کی فراہمی ممکن ہے۔ آج منڈی کی منطق ایسے شعبوں پر مسلط کی جارہی ہے جنہیں بازار میں پیش نہیں کرنا چاہئے”۔
ہاروی کہتا ہے: “میرے بچپن کے ایام میں پانی ایک سرکاری مال کے طور پر فراہم کیا جاتا تھا، تاہم یہی پانی بعد میں نجکاری کا شکار ہوا اور سب کو اس کی قیمت ادا کرنا پڑی۔ برطانویوں نے نقل و حمل (Transport) کو نجی شعبے کے ہاتھ میں دیا۔ بسوں کا نظام ایک بدنظم اور ابتر نظام ہے۔ اس شعبے میں نجی شعبے کی کمپنیاں تمام دوسرے شعبوں کی طرح سرگرم عمل ہیں۔ کوئی بھی نظام ایسا نہیں ہے جس کی واقعی کوئی ضرورت ہو۔ ریلوے کے سلسلے میں بھی یہی کچھ ہوا۔ ایک موضوع جو اسی وقت بھی برطانیہ میں دلچسپی کا باعث ہے، یہ ہے کہ لیبر پارٹی کہتی ہے: “ہم ان تمام چیزوں کو سرکاری ملکیت میں لانا اور قومیانا چاہتے ہیں، کیونکہ نجکاری مکمل طور پر نامعقول اور احمقانہ ہے اور اس کے نتائج بھی نامعقول اور بیہودہ تھے اور کسی بھی صورت میں کارآمد نہیں ہے۔”، آج برطانوی عوام کی اکثریت لیبرل پارٹی کے اس نعرے سے متفق ہیں”۔
نو لیبرالیت ـ جس نے بہت بھاری بھرکم مالی طاقت اپنے پیچھے جمع کر رکھی ہے ـ اثاثوں کی قدر گھٹانے اور پھر ان پر قابض ہونے کی غرض سے بڑے بڑے بحرانوں کو جنم دینے کی صلاحیت رکھتی ہے۔
ہاروی کا کہنا ہے کہ: “نیولیبرالیت کے تحت، “[دولت کی] انبارسازی بذریعۂ ضبطگی [یا بذریعۂ بےدخلی]” کا عمل فائنانشلائزیشن (۱) کے ہمراہ ہے۔
بےضابطہ بنانے کا عمل (Deregulation) مالیاتی نظام کو ـ پیشگوئیوں، قیاس آرائیوں، دھوکہ دہی، اور چوری کے ذریعے ـ نئی تقسیم (Redistribution) کے بنیادی مراکز تبدیل ہونے کا امکان فراہم کرتا ہے۔
ہاروی اپنی کتاب میں ـ جو شاید نو لیبرالیت کی مختصر ترین اور جامع ترین تاریخ ہے ـ لکھتا ہے: “حصص کی قیمت بڑھانا، [مالی دغابازی سے متعلق] پونزی اسکیموں کا اجراء، افراط زر کے ذریعے بنیادی اثاثوں کی تباہی، نقصان سے دوچار کی جانے والی کمپنیوں کی ملکیت حاصل کرنا اور ان کے اثاثوں پر قابض ہونا، قرضوں کی سطح کو وسیع سے وسیع تر کرنا ـ حتی کہ ترقی یافتہ سرمایہ دار ممالک کی پوری آبادی کو بندھوا مزدوری (ِDebt peonage) کی حد تک تنزلی سے دوچار کر سکتا ہے۔ اگر ہم کمپنیوں کی شکل میں دھوکہ دہی اور بدعنوانی کے بارے میں کچھ نہ بھی کہنا چاہیں پھر بھی اثاثوں کی مالکیت چھیننے، پینشن فنڈز سے ناجائز فائدہ اٹھانے اور انہیں بازار حصص کے ذریعے تباہ کرنے نیز کمپنیوں کی قدر کو قرضوں اور حصص میں ہیر پھیر کے ذریعے گرانے جیسے افعال سرمایہ دارانہ مالیاتی نظام کی مرکزی خصوصیات میں تبدیل ہوچکے ہیں”۔
نیولبرلیت نے زبردست مالیاتی طاقت حاصل کرلی ہے، جس کے ذریعے وہ مالیاتی بحرانوں کو جنم دے سکتی ہے اور ان بحرانوں کے ذریعے اثاثوں کی قدر گرا کر انہیں اپنے قبضے میں لے سکتی ہے۔
ہاروی نے کہا: “بحران پیدا کرنے کا ایک راستہ کریڈٹ کی فراہمی روکنا ہے۔ یہ واقعہ ۱۹۹۷ اور ۱۹۹۸ع‍‌ کو واقعہ مشرقی اور جنوب مشرقی ایشیا میں رونما ہوا؛ جب سرمائے کی فراہمی اچانک روک دی گئی۔ بڑے بڑے ادارے قرض دینے سے عاجز آگئے۔ بیرونی سرمایوں کا زبردست بہاؤ انڈونیشیا کی طرف تھا، انھوں نے [یعنی مغربی سرمایہ داروں نے] ٹونٹی بند کردی۔ بیرونی سرمایہ رک گیا۔ ان کے اس کام کا ایک محرک یہ تھا کہ جب تمام ادارے دیوالیہ ہوجاتے تو وہ ان اداروں کو خرید سکتے تھے اور دوبارہ فعال بنا سکتے تھے۔ ہم نے یہی کچھ امریکہ کے اندر مکانات کی فراہمی کے بحران (Housing crisis) کے دوران دیکھا۔ مکانات کی ضبطی کی وجہ سے بہت سارے مکانات خالی رہ گئے جنہیں کم قیمت پر خریدا جاسکتا تھا۔ بلیک اسٹون (The Blackstone Group) نے تمام خالی مکانات کو خرید لیا اور اب یہ گروپ امریکہ کا سب سے بڑا زمیندار بن چکا ہے۔ یہ کمپنی اس وقت دو لاکھ یا اس سے زیادہ مکانات اور املاک کی مالک ہے۔ اب [خالی شدہ املاک یا اداروں کی خریداری کے بعد] منڈی میں بہتری آنے کے انتظار میں بیٹھنا ہوتا ہے۔ جب بازار کی صورت حال بہتر ہوجائے ـ جیسا کہ امریکہ میں بہت مختصر عرصے میں منڈی میں بہتری آئی ـ تو آپ مکانات کو بیچ کر یا کرائے پر اٹھا کر بڑا مال کما سکتے ہیں۔ بلیک اسٹون کمپنی نے ـ مکانات کی ضبطی کے بحران کے وقت، جس میں سب ہار گئے تھے ـ عظیم سرمایہ کمایا۔ یہ عظیم دولت کی منتقلی کی ایک روداد تھی”۔
ہاروی خبردار کرتا ہے کہ ضروری نہیں ہے کہ شخصی (یا انفرادی) آزادی اور سماجی انصاف آپس میں ہم آہنگ ہوں، اور لکھتا ہے کہ “اس کے لئے سماجی یکجہتی ـ نیز  سماجی مساوات اور ماحولیاتی انصاف کے حصول کے لئے بڑی سطح پر عمومی جدوجہد کی غرض سے انفرادی چاہتوں، ضرورتوں اور خواہشوں سے چشم پوشی ـ کی ضرورت ہوتی ہے”۔ نولبرل نعرے باز شخصی آزادی پر تاکید کے ذریعے، مؤثر طور پر آزاد رَوی، شناخت کی سیاست، (Identity politics)، ثقافتی کثرتیت اور نتیجے کے طور پر نرگسی صارفیت (Narcissistic consumerism) کے ذریعے ان لوگوں اور قوتوں کو میدان سے نکال باہر کرسکتے ہیں جو ریاستی طاقت کو فتح کرکے سماجی انصاف کے نفاذ کے لئے میدان میں آئی ہوئی ہیں”۔
ماہر اقتصادیات کارل پولانی (Karl Polanyi) اس نتیجے پر پہنچا ہے کہ آزادی کی دو قسمیں ہیں: بری آزادیاں، جو ہمارے گرد و پیش کے لوگوں کے استحصال اور عمومی مصلحتوں اور مفادات کو نظر انداز کرکے بھاری منافع کمانے کے لئے ہیں، منجملہ وہ برتاؤ جو ماحولی نظام (Ecosystem) اور جمہوری اداروں کے ساتھ روا رکھا جاتا ہے۔ یہ بری آزادیاں اس لئے ہیں کہ کمپنیاں بھاری منافع کمانے کے لئے، جدید فنی اور سائنسی ترقی پر اپنی اجارہ داری قائم کر سکیں۔ حتی کہ ـ جیسا کہ دواسازی کی صنعت میں رائج ہے ـ جو لوگ دواؤں کی بھاری قیمت ادا کرنے سے عاجز ہوتے ہیں، ان کی زندگی کو خطرہ لاحق رہتا ہے۔ اچھی آزادیوں ـ یعنی ضمیر کی آزادی، بیان کی آزادی، جلسوں کی آزادی، پیشوں کے انتخاب میں آزادی ـ کو آخر کار بری آزادیوں کو ترجیح دیئے جانے کی وجہ سے کچل دیا جاتا ہے۔
پولانی لکھتا ہے: “منصوبہ بندی اور نگرانی پر اس لئے حملہ کیا جاتا ہے کہ انہیں آزادی سلب کرنے کا اوزار سمجھا جاتا ہے۔ اعلان کیا جاتا ہے کہ آزادی سرمایہ کاری اور نجی مالکیت کو آزادی کا جدا ناپذیر جزء ہے۔ کہا جاتا ہے کہ کوئی بھی معاشرہ، جو دوسری بنیادوں پر تعمیر ہوا ہے، آزاد کہلوانے کا مستحق نہیں ہے۔ جو آزادی قوانین کو جنم دیتی ہے، اس کو آزادی سے متصادم سمجھ کر قابل مذمت گردانا جاتا ہے؛ اس طرح کا [منضبط] معاشرہ جس انصاف، آزادی یا فلاح و بہبود کی تجویز دیتا ہے اس کو غلامی اور محکومی کی پردہ پوشی قرار دیا جاتا ہے”۔
چنانچہ آزادی کے نظریئے کو بگاڑ کر محض سرمایہ کاری کی آزادی تک محدود کیا جاتا ہے، جس کے معنی یہ ہیں کہ بھرپور آزادی ان لوگوں کے لئے ہے جن کو اپنی آمدنی، فارغ اوقات اور امن و امان میں کسی قسم کے اضافے کی ضرورت نہیں ہے [اور انہیں سب کچھ حاصل ہے]۔ اور ان لوگوں کے لئے صرف آزادی کا کچھ حقیر سا حصہ، جو جمہوری آزادی سے فائدہ اٹھانے کی لاحاصل کوشش کرتے ہیں تا کہ اس طرح جائیدادوں کے مالکوں سے نجات اور پناہ حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ ہاروی پولانی کا حوالہ دیتے ہوئے لکھتا ہے: “لیکن اگر صورت یہ ہو ـ جو کہ ہمیشہ ہے بھی ـ کہ کوئی بھی معاشرہ نہ ہو جس میں اقتدار اور مجبوریاں ناپید ہوں، اور نہ ہی کہیں ایسی دنیا ہے جس میں طاقت کی کوئی کارکردگی نہ ہو ـ تو صرف ایک راستہ باقی بچتا ہے اور وہ ہے لبرل خیالی تصور، جسے طاقت کے استعمال، تشدد اور استبدادیت کے ذریعے قائم رکھا جاسکتا ہے۔ پولانی کی نظر میں لیبرالیت اور نو لیبرالیت ناکام نظریہ ہے۔ پولانی کے مطابق اس کو استبدادیت یا حتی کہ اعلانیہ فسطائیت (Outright fascism) کے ذریعے ناکام ہوجانا ہے۔ اچھی آزادیاں ضائع ہوچکی ہیں اور بری آزادیاں غلبہ پا رہی ہیں۔
نو لیبرالیت بڑی تعداد کی آزادی کو معدودے چند لوگوں کی آزادی میں تبدیل کرتی ہے۔ نو لیبرالیت کا منطقی نتیجہ نوفسطائیت (Neofascism) ہے۔ نوفسطائیت شہری آزادیوں کو “قومی سلامتی” کے نام پر چھین لیتی ہے اور تمام گروپوں [اور تنظیموں] کو غدار، خائن اور ملک دشمن اور عوام دشمن کا لیبل چسپاں کرتی ہے۔ نو لیبرالیت ایک فوجیایا ہوا اوزار بن چکی ہے جس کو حکمران اشرافیہ ـ اپنا کنٹرول مستحکم رکھنے، معاشرے کو پارہ پارہ کرنے، لوٹ مار کو تیز تر کرنے، اور معاشرتی عدم مساوات کو وسیع سے وسیعتر کرنے کے لئے ـ استعمال کرتی رہتی ہے۔ چنانچہ حکمران نظریہ، جو مزید معتبر نہیں سمجھا جاتا، اپنی جگہ [فسطائیت اور عسکری استبدادیت کے نشان طور پر] جوتوں کو دے دیتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بقلم: کرس ہیجز
ترجمہ: فرحت حسین مہدی

 

ایران کے خلاف پابندیوں کی منظوری میں صیہونی لابی کا کردار

  • ۳۵۰

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: امریکہ میں اسرائیلی حکومت اور یہودی لابی کی پالیسیوں کے گہرے اثر و رسوخ کے تناظر میں ، ایران کی طاقت کو محدود کرنے اور اسرائیل کو تحفظ دینے کی غرض سے ’’ایران کے خلاف اقتصادی پابندیوں کا منصوبہ‘‘ بہترین آپشن سمجھا جاتا تھا جسے امریکہ کے ذریعے عملی جامہ پہنایا گیا۔  
اسرائیلی حکومت کی طرف سے ایران کے خطرے کو بڑھاوا دینے اور ایران کے اقتدار کو محدود کرنے کی پالیسی کے بعد صہیونی لابی نے امریکہ کے اندر ایران کے خلاف پابندیوں کی پالیسی کو عملی جامہ پہنانا چاہا، اس مقصد کے پیش نظر آخری نتیجہ جو 76 صفحات پر مشتمل رپورٹ کی شکل میں سامنے آیا اور جس کا عنوان ہی "ایران پر جامع امریکی پابندیاں: ایکشن پلان" تھا کو کانگریس کے ممبروں کو پیش کیا گیا۔ اس کے بعد ، امریکی یہودی لابی نے ، سینیٹر ’الفونسو دماتو‘ [1] کو استعمال کرتے ہوئے ، امریکی کانگریس میں اپنے اثر و رسوخ کی وجہ سے،  ایران کے خلاف پابندیوں کا بل پاس کرانے میں کامیاب حاصل کی۔ یہ قانون "دماتو" کے نام سے مشہور ہوا۔

25 جنوری ، 1995 کو ، امریکی سینیٹر ، الفونسو دماتو ، جس نے ہمیشہ ایران پر تجارتی پابندیوں کی وکالت کی اور اسے صہیونی لابی کی حمایت حاصل تھی ، نے "AIPAC لابی" کے ذریعے ’’ایران کے خلاف جامع امریکی پابندیاں ، ایکشن پلان‘‘ کے عنوان سے اپنا منصوبہ شائع کیا۔ جس کے مطابق ، کوئی غیر ملکی شخص یا کمپنی اگر کوئی سامان یا ٹکنالوجی ایران کو برآمد کرتی ہے ، وہ 1979 کے منظور شدہ امریکی برآمدات انتظامیہ ایکٹ میں طے شدہ شقوں کے تحت امریکی پابندیوں کے زمرے میں شامل ہو جائے گی۔

16 مارچ 1995 کو ، ڈی اماتو بل پر سینیٹ کی سماعت کے دوران ، صہیونی لابی کے دباؤ نے ایران پابندیوں کے بل کو آگے بڑھانا جاری رکھا۔ اجلاس میں صہیونی لابی کے نمائندے "پیٹرک کلاؤسن" [2] نے استدلال کیا کہ پابندیوں کی وجہ سے ایران کو کم از کم دسیوں ملین ڈالر کا سالانہ نقصان ہو سکتا ہے اور ایرانی معیشت میں زوال کا شکار ہو سکتی ہے۔

10 اپریل 1995 کو "یہودی انسٹی ٹیوٹ برائے امور قومی سلامتی " [3] ، نے ایران کے خلاف پابندیاں عائد کرنے کی قرارداد پیش کی۔ اسی سال 30 اپریل کو، کلنٹن نے ایران کے خلاف پابندیوں کا اعلان کر دیا۔ پھر ، 6 مئی 1995 کو ، اس نے ایران میں تمام تجارتی اور سرمایہ کاری سرگرمیوں کو معطل کرنے کے لئے 12959 کا ایگزیکٹو آرڈر جاری کیا۔
کلنٹن نے 30 اپریل 1995 کو ، اس حال میں کہ اس کے سر پر یہودی ٹوپی تھی، نیو یارک میں منعقدہ "ورلڈ یہودی کانگریس" [4] میں شرکت کے دوران کہا: "ایران مشرق وسطی میں قیام امن کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ ہے۔ میری انتظامیہ کے آغاز سے ہی ہم نے ایران کے واسطے کی جانے والی بین الاقوامی دہشت گردی کی حمایت کا مقابلہ کرنے کی کوشش کی۔ "میں سرکاری طور پر اعلان کرتا ہوں کہ ہم ایران کے ساتھ تجارت اور سرمایہ کاری کے تمام تعلقات منقطع کرتے ہیں ۔" بالآخر ، کلنٹن نے دوسرا ایگزیکٹو آرڈر ، نمبر 12959 جاری کیا  اور 6 مئی 1995 کو ، ایران کے ساتھ  کچھ مخصوص معاہدوں پر پابندی عائد کر دی۔
ریاستہائے متحدہ میں سب سے طاقتور صہیونی لابی آیپیک ’دماتو‘ منصوبے کی منظوری کے عمل میں ہمیشہ پیش پیش تھی۔ ’آئیپیک‘ کے ترجمان کا کہنا تھا: "کانگریس کے ممبران نے ایران کے خلاف پابندیوں کے بل کا ایک ایک بند ہمیں لکھ کر دیا‘‘۔
لہذا ، کھلے لفظوں میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ ایران کے خلاف پابندیوں میں سب سے زیادہ کردار صہیونی لابیوں کا ہے اور ان کا مقصد ایران کی طاقت کو محدود کر کے صہیونی ریاست کو تحفظ بخشنا ہے۔  

 حواشی
1-فرمانروایان پنهان، حسین جعفری موحد، صص ۳۰۵ تا ۳۱۷.
2- «لابی یهودیان آمریکا، کارگزار تحریم ایران»، سید علی طباطبایی، صفحات 44-46 و 62-63 و 68.
3- «تحریم ایران، شکست یک سیاست»، حسین علیخانی، صفحات ۱۷۲و۱۷۶ و ۱۷۸ تا ۱۸۰.
4- «قانون داماتو، ایران یا اروپا»، سعید تائب، ص۳۰.