ہندوستان کی اسرائیل دوستی کے اثرات

  • ۳۷۸

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: وزیر اعظم نریندر مودی عوام کو سبز باغ دکھلانے میں بلا کی مہارت رکھتے ہیں ۔عوام ان کے وعدوں اور دعووں کی حقیقت سے بخوبی واقف ہوتی ہے مگر اس کے باوجود ان کی قیادت پر عوام کا اندھا اعتبار ان کی بے پناہ مقبولیت کو ظاہر کرتا ہے ۔مہنگائی کے اس دور میں بھی عوام ان کی قیادت کی تنقید کرنے پر آمادہ نہیں ہے ۔بی جے پی کی حریف جماعتوں کے لئے عوام کی یہی ’اندھ بھکتی‘ بڑا مسئلہ بن کر ابھر رہی ہے جس کا نقصان انہیں بہار اور بنگال کے انتخابات میں بھی ہوگا۔ عوام بی جے پی کے اعلیٰ قائدین کی ناتجربہ کاری ، لاعلمیت اور نااہلی سے اچھی طرح واقف ہے مگر بی جے پی نے عوام کومنافرانہ سیاست اور فرقہ پرستی کے جس دام فریب میں الجھایاہے اس سے باہر نکلنا آسان نہیں ہے ۔حقیقت یہی ہے کہ بی جے پی کے پاس حکومت کا کوئی تجربہ نہیں تھا اس لئے اس کی ناتجربہ کاری نے ملک کی معیشت کو تباہ و برباد کردیا۔داخلی سیاست پرنفرت اور فرقہ پرستی کو مسلط کردیا گیا اور خارجہ پالیسی استعمار کی خوشنودی کے حصول کے لئے یکسر بدل دی گئی ۔ہندوئوں کو متحد کرنے کے لئے فرقہ پرستی اور اقلیتوں کے خلاف نفرت کی سیاست کا سہارا لینا ،بی جے پی کا ذاتی خیال نہیں تھا ۔بلکہ اسی گھنائونی سیاست کے سہارے ایک عرصے تک عیسائیت نےمسلمانوں کے خلاف تخریب کاریاں سرانجام دی تھیں اور آج یہودیت اسی منصوبے پر عمل پیرا ہے ۔استعمار کے حلیف اس کے ہتھکنڈوں اور سیاسی چالوںسے آزادنہیں ہوسکتے ،یہی وجہ ہے کہ آرایس ایس جیسی جماعت نے بی جے پی کو اقتدار میں لانے کے لئے ان تمام حربوں کو استعمال کیا جن سے ہمارے ملک کی سیاست بے خبر تھی ۔یہ کامیابی ایک بار میں ہاتھ نہیں لگی بلکہ آزادی سے پہلے اور فوراََ بعد ہیڈگوار اور ساورکر جیسے لیڈروں کی رہنمائی میں یہ کوشش جاری رہی ۔آج صورتحال یہ ہے کہ مسلمانوں سے نجات اور ان کے خاتمے کے لئے کھل عام باتیں ہورہی ہیں اورگزشتہ دس سالوں میں سیاست کا رخ اس قدر تبدیل ہوگیاکہ اقلیتی طبقہ انگشت بدنداں ہے ۔اس کی بڑی وجہ اقلیتی طبقہ کی غیر منظم سیاسی سوچ اور مرکزی قیادت کا فقدان ہے ۔ملک کی سیاست کی باگ ڈور استعماری طاقتوں کے ہاتھ میں ہے اور مسلمان سمجھتے بوجھتے ہوئے بھی کچھ نہیں کرسکتا،یہ ایک المیہ ہے ۔ہندوئوں کو جب تک اس گھنائونی سیاست کا صحیح اندازہ ہوگا ،صورتحال بے قابو ہوچکی ہوگی اور پھر ملک کی سیاست کے نفرت آمیز دھارے کو بدلنا ممکن نہیں ہوگا۔اس وقت ملک کے عوام کو یہ سمجھنا ضروری ہے کہ آخر ہماری سرکار استعمار پر اس قدر فریفتہ کیوں ہے؟۔

ہمیں سمجھنا ہوگا کہ جس وقت امریکی دباؤ میں ہندوستان نے ایران سے تیل کی تجارت منسوخ کی تھی ،اس وقت امریکہ نے یہ یقین دہانی کرائی تھی کہ وہ ہندوستان کو کم قیمت پر تیل فراہم کرے گا ۔مگر جیسے ہی ہندوستان نے ایران سے تیل کی تجارت ختم کی ،امریکی مؤقف بدل گیا۔امریکہ نے واضح الفاظ میں ہندوستانی سرکار سے کہاکہ وہ بازار سے کم قیمت پر تیل فراہم نہیں کرسکتا۔ ہندوستان نے سعودی عرب سےاضافی تیل کی فراہمی کے سلسلے میں مذاکرات کئے مگر نتیجہ بے سود رہا ۔کیونکہ سعودی عرب کی تیل ریفائنریز کی اتنی صلاحیت نہیں ہے کہ وہ دوسروں ملکوں سے تجارتی تعلقات کو بحال رکھتے ہوئے ہندوستان کو اضافی تیل فروخت کرسکیں۔ اس وقت ہندوستان سب سے زیادہ عراق اور سعودی عرب سے تیل برآمد کر رہاہے ۔مگر عالمی بازار میں تیل کی قیمتیں کم ہوتے ہوئے بھی وہ اپنے عوام کو سستا تیل مہیا نہیں کر پا رہاہے ۔اس کا براہ راست اثر ملک کی معیشت پر پڑ رہاہے جو کورونا وائرس کی وجہ سے پہلے ہی بدحالی کا شکارہے ۔تیل کی قیمتوں میں مسلسل اضافے نے عام ضروریات کی چیزوں کو بھی متاثر کیا ہے ۔مہنگائی دن بہ دن بڑھ رہی ہے اور عام آدمی اپنی ضروریات کو پورا کرنے سے بھی قاصر ہے ۔ایسے حالات میں ہندوستان اگر اپنے پرانے دوستوں کی طرف دوستی کا ہاتھ نہیں بڑھائے گا تو حالات مزید بدتر ہوں گے ۔

جس وقت نریندر مودی پہلی بار بر سر اقتدار آئے تھے ،اس وقت تیل کی قیمتیں عالمی بازار میں عروج پر تھیں۔اس کے باوجود ان کا دعویٰ تھا کہ عوام کو سستا تیل دستیاب ہونا چاہئے ۔انہوں نے تیل اور گیس کی بڑھتی قیمتوں کو لیکر کانگریس سرکار کے خلاف محاذ کھول دیا تھا ۔مگر جب سے نریندر مودی برسراقتدار آئے ہیں اس کے بعد سے تیل اور گیس کی قیمتوں میں مسلسل اضافہ ہواہے ۔مضحکہ خیز بات یہ ہے کہ جب بھی ان کے وزیروں سے اس سلسلے میں بات کرنے کی کوشش کی جاتی ہے تو وہ یہ کہہ کر بات ٹال دیتے ہیں کہ تیل اور گیس کی قیمتیں ان کے اختیار میں نہیں ہیں ۔سوال یہ ہے کہ جس وقت بی جے پی کانگریس کے خلاف مہنگائی کو لیکر مظاہرے کررہی تھی ،کیا اس وقت بی جے پی کو یہ معلوم نہیں تھاکہ مہنگائی پر سرکار کا قابو نہیں ہوتاہے؟ اور اگر اقتدار میں آنے کے بعد بی جے پی کو مہنگائی کی حقیقت کا علم ہواہے تو پھر انہیں اپنے تمام ان سابقہ مظاہروں اور احتجاجات پر ملک سے معافی مانگنی چاہئے ،جو انہوں نے کانگریس سرکار میں مہنگائی کے خلاف کئے تھے ۔مگر جناب !سیاست کا کھیل نرالاہے ۔یہاں سچ کی کوئی اہمیت نہیں ،جھوٹ کا بول بالاہے ۔آج بھی بی جے پی مہنگائی ،کورونا وائرس،چین سے تنازع اور دیگر مسائل کے سلسلے میں سفید جھوٹ بول رہی ہے مگر ’گودی میڈیا‘ اور ’بھکت‘ کچھ سمجھنے کو تیار نہیں ہیں۔

نریندر مودی اپنے عجلت پسندانہ فیصلوں کے لئے جانے جاتے ہیں۔ان کے غیر منصوبہ بند لاک ڈائون نے ملک کی معیشت کی کمر توڑ دی اور عوام پر فاقوں کی نوبت آچکی ہے مگر اب بھی ان کے یہاں منصوبہ بندی کا فقدان ہے ۔تیل کی قیمتیں مسلسل بڑھ رہی ہیں اور عام آدمی مہنگائی سے پریشان ہے ۔اس کی آمدنی کا سلسلہ تو پہلے لاک ڈائون کے بعد ہی ختم ہوگیا تھا ،اس پر مہنگائی کی مار نے رہی سہی کسر پوری کردی ۔سرکار غریبوں کو جتنا راشن مہیا کرارہی ہے وہ ان کی گذر بسر کے لئے کافی نہیں ہے ۔بے روزگاری عروج پر ہے اور مزدور طبقہ جو پہلے بڑے شہروں میں روزی روٹی کمارہا تھا ،آج اپنے گھروں پر بیکار بیٹھا ہواہے ۔مسئلہ یہ ہے کہ مہنگائی کے اس دور میں بھی سرکار کی خارجہ پالیسی میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ۔اس کی بڑی وجہ ہندوستان کی اسرائیل دوستی ہے ۔مودی سرکار کو اب تک اس حقیقت کا علم نہیں ہوسکاہے کہ اسرائیل دوستی میں وہ ملک کا بیڑا غرق کررہے ہیں ۔اگربھارت سرکار ایران کے ساتھ اپنے دیرینہ روابط کو امریکہ و اسرائیل کی محبت میں بلی نہ چڑھاتی تو تیل کی قیمتیں آسمان نہ چھورہی ہوتیں۔ہندوستان کو دنیا میں سب سے سستا تیل ایران سے ملتا تھا مگر امریکی دبائو میں بی جے پی سرکار نے ایران کے ساتھ تیل کی تجارت ختم کردی ۔اب جبکہ ہندوستان دوبارہ ایران کے ساتھ تجارت کے فروغ پر غوروخو ض کررہاہے اور کئی اشیاء کی خریدوفروخت پر دونوں ملکوں کے درمیان بات چیت بھی ہوئی ہے مگر تیل کا مسئلہ ابھی بھی زیر غور نہیں ہے ۔اگر ایران برے وقت میں وینزوئیلا کا ساتھ دیکر اس کی ڈوبتی ہوئی معیشت کو سہارا دے سکتاہے تو پھر وہ ہندوستان کی مدد سے بھی پیچھے نہیں ہٹے گا ۔مگر اس کے لئے بھارت سرکار کو اپنی خارجہ پالیسی میں بدلائو لانا ہوگا ۔

بھارت سرکار اگر ہمسایوں کے ساتھ اچھے تعلقات کی خواہاں ہے تو اسے سب سے پہلے ان ممالک سے دوبارہ تعلقات ہموار کرنا ہوں گے جو امریکہ اور اسرائیل کے دبائو میں سرد مہری کا شکار ہیں۔چین اور پاکستان کو مہار کرنے کے لئے بھی ایران جیسے طاقتور ملکوں سے دوستی بہت ضروری ہے ۔چین اور ایران کے تعلقات کی گہرائی سے ہندوستان بخوبی واقف ہے ،اسی طرح روس اور ایران کی دوستی بھی کسی سے صیغہ ٔ راز میں نہیں ہے ۔روس کبھی ہندوستان کا سب سے گہرا دوست ہوا کرتا تھا مگر امریکی اور اسرائیلی دبائو میں بی جے پی سرکار نے روس کے ساتھ بھی تجارتی معاملات محدود کرلیے تھے ۔اس کا واضح اثر ہماری داخلی اور خارجی سیاست پر بہت صاف نظر آرہاہے ۔چین کے ساتھ حالیہ تنازعات کے بعد سرکار ہوش میں ضرور آئی ہے اور وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ نے روس کا سفر کرکے خوش آئند اشارے دیے ہیں۔ہندوستان ہتھیاروں کی خرید کے سلسلے میں سب سےزیادہ روس پر منحصر تھا مگر اسرائیل دوستی میں یہ معاہدہ بھی محدودیت کا شکارہے ۔راج ناتھ سنگھ کے حالیہ روس دورے میں پرانے معاہدوں پر نظر ثانی اور ان کے استقرار سے صورتحال بدلنے کی امید نظر آتی ہے ۔

ہندوستان کو سمجھنا ہوگاکہ امریکہ اور اسرائیل کی دوستی ظاہری طورپر بہت سود مند ثابت ہوسکتی ہے مگر اس کے برے اثرات دیر پا ہیں۔استعمار ہر حال میں اپنے مفاد کی تکمیل کو ترجیح دیتاہے۔وہ کبھی اپنے مفادات پر ہندوستان کے مفاد کو ترجیح نہیں دے سکتا۔وہیںبی جے پی سرکار کو یہ بھی سمجھنا ہوگا کہ جو بھی استعمارکا منظور نظر رہاہے ،اس کا انجام اچھا نہیں ہوا۔تاریخ اس کی گواہ ہے ۔یہ بات استعمار کی منظور نظر جماعت آرایس ایس کو بھی سمجھ لینی چاہئے ۔

بقلم عادل فراز

 

امام سیستانی کی توہین ایک شیطانی عمل ہے، صہیونی پروپیگنڈوں کی شکست میں مرجعیت کا اہم کردار

  • ۴۰۱

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: سعودی اخبار شرق الاوسط نے گزشتہ جمعہ کو ایک توہین آمیز کارٹون چھاپ کر آیت اللہ العظمیٰ سیستانی کو قومی اتحاد میں خلل ڈالنے کا سبب پہچنوانے کی ناکام کوشش کی۔ جس کے خلاف عراق میں متعدد سیاسی، سماجی اور مذہبی تنظیموں اور گروہوں نے سخت رد عمل ظاہر کیا۔
اسی سلسلے میں ’’دولۃ القانون‘‘ نامی پارٹی کے سربراہ نوری المالکی، ’’الفتح‘‘ کے سربراہ ہادی العامری، ’’حکمت ملی‘‘ کے سربراہ سید عمار حکیم، سائرون کے سربراہ مقتدا صدر کے علاوہ اہل سنت کی مذہبی تنظیموں نے بھی اس توہین کی شدید مذمت کی۔
آیت اللہ سیستانی کی توہین ایسے حال میں کی گئی کہ آپ کے فتویٰ جہاد کی برکت سے داعشی دھشتگردوں کو عراق و شام میں شکست سے دوچار کیا گیا۔ اور اس فتوے سے امت اسلامی میں نہ صرف اختلاف پیدا نہیں ہوا بلکہ عراق کے تمام شیعہ سنی عوام نے اس فتویٰ پر عمل کرتے ہوئے داعش کے خلاف مکمل اتحاد کا ثبوت دے کر جہاد کیا تھا۔
اسی موضوع کے پیش نظر، خیبر صہیون ریسرچ سنٹر کے ایک رپورٹر نے عراق کے دار الافتاء برائے اہل سنت کے ترجمان شیخ عامر البیاتی سے گفتگو کی ہے۔  

خیبر: آیت اللہ سیستانی کے بارے میں سعودی اخبار الشرق الاوسط کے توہین آمیز کارٹون سے متعلق آپ کا کیا موقف ہے؟
عراق میں اعلیٰ مرجعیت سرخ لکیریں ہیں کہ کوئی بھی گروپ، طائفہ، قبیلہ، منصب ان سرخ لکیروں کو پار نہیں کر سکتا ۔ آیت اللہ سیستانی عراقیوں کے سر کا تاج ہیں جنہوں نے عراق میں داعش کے منصوبے کو شکست دی ہے۔ خداوند متعال نے ہمارے اوپر احسان کیا کہ امام سید علی سیستانی کے جہاد کفائی پر مبنی فتوے کے توسط سے داعش کو شکست ملی۔ آپ کے فتوے کے ۳۶ دن بعد اہل سنت کے مفتی علامہ ڈاکٹر الصمیدعی نے جہاد کا فتویٰ دیا۔ مرجعیت صرف شیعوں سے مخصوص نہیں، بلکہ تمام عراقیوں جن میں عیسائی، ترک اور حتیٰ ایزدی بھی شامل ہیں سے متعلق ہے بنابرایں آپ نے در حقیقت عراق کو نجات دی اور آج ہم اس موجودہ حالت میں ہیں۔

ہم اس کارٹون کی اشاعت کی شدید مذمت کرتے ہیں اور اسے عراق کے خلاف تباہ کن اور شیطانی سازش قرار دیتے ہیں۔ ہم حکومت سے بھی مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ اس مسئلے پر مضبوط موقف اپنائے۔ کیونکہ مرجعیت کی کوئی توہین عراقیوں کی توہین ہے۔

خیبر: آپ کے خیال میں میڈیا حملوں اور مراجع و عمائدین کی توہین کے پیچھے کس کا ہاتھ ہے؟

پشت پردہ کن لوگوں کا ہاتھ ہے سب کو معلوم ہے وہ عراق کو تباہ کرنا چاہتے ہیں۔ مذہبی رہنماؤں اور عمائدین کے توہین بھی عراقی عوام اور قوم کے خلاف سلسلہ وار مجرمانہ کارروائیوں کا ایک حصہ ہے۔ ہم ملک کی مخلص قوتوں خصوصا حشد الشعبی، عراقی فوج اور سکیورٹی فورسز کا شکریہ ادا کرتے ہیں کہ انہوں نے داعشی قابضین اور ملک کے خلاف دیگر سازشوں کا مقابلہ کیا اور ہم امید کرتے ہیں کہ خدا ان کی مزید نصرت کرے گا۔

خیبر: کیا مرجعیت عراق میں حکومتی امور میں مداخلت کرتی ہے یا ان کی موجودگی عراق کے لئے صرف حفاظتی پہلو رکھتی ہے؟

ہم نے مرجعیت سے عراق میں صرف اچھائی اور خوبی دیکھی ہے۔ اب تک انھوں نے ملک کی حکمرانی میں بالکل مداخلت نہیں کی بلکہ سیاسی رہنماؤں کو مشورے دئیے اور نصیحتیں کیں۔ عراق میں اعلی مرجعیت ملک اور قوم دونوں کے لیے حفاظتی پہلو شمار ہوتی ہے اور انشاء اللہ خدا کی نصرت و مدد سے عراق کے خلاف اٹھنے والی ہر سازش کو نقش بر آب کریں گے۔  

خیبر: عراق اور عالم اسلام کے خلاف صہیونی اور مغربی سازشوں کو نقش بر آب کرنے میں عراقی اعلیٰ مرجعیت کے کردار کے بارے میں کچھ بیان کریں گے؟

عراق میں اعلی مرجعیت نے دشمنوں کے تمام منصوبوں اور پروپیگنڈوں خصوصا صہیونی اور مغربی سازشوں کو شکست دینے میں اہم کردار ادا کیا ہے اور پوری توانائی کے ساتھ ان کا مقابلہ کیا ہے۔ صہیونیوں کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کی سعودیوں کی کوشش کی ہم مذمت کرتے ہیں  خدا نے ایسا کرنے کی اجازت ہمیں نہیں دی ہے۔ ہم امید کرتے ہیں کہ قدس شریف مسلمانوں کی طرف لوٹ آئے گا، اور اسلامی جمہوریہ ایران نے قدس کی بحالی اور فلسطین کی آزادی کی راہ میں اہم کردار ادا کیا ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

 

شام میں ایران کی موجودگی اسرائیلی حملوں کے لیے صرف ایک بہانہ ہے: شامی بریگیڈیئر

  • ۳۸۷

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: منگل کی رات شام کے ’’السویداء، حمص اور دیرالزور‘‘  علاقوں میں شامی فوج کے ٹھکانوں کو صہیونی دشمن نے فضائی حملے کا نشانہ بنایا۔ شامی وزارت دفاع نے کہا ہے کہ منگل کی شب فضائی حملوں میں شامی فوج کے دو فوجی ہلاک اور چار دیگر زخمی ہوگئے۔ مغربی شام کے صوبہ حما کو بھی اسرائیلی فضائی حملوں نے نشانہ بنایا، جبکہ شام کی سرزمین میں متعدد دیگر مقامات کو  بھی دشمن نے حالیہ راتوں حملوں کا نشانہ بنایا۔
اسی موضوع کے پیش نظر خیبر صہیون تحقیقاتی سینٹر نے شامی فوج کے ماہر اور ریٹائرڈ بریگیڈیئر جنرل "محمد عباس" کے ساتھ گفتگو کی ہے جسے ذیل میں بیان کرتے ہیں؛

خیبر: آپ شام میں پارلیمانی انتخابات کا اندازہ کیسے لگاتے ہیں اور آپ کے خیال میں آئندہ شام کی پارلیمنٹ کی ترجیحات کو کیا ہونا چاہئے؟
۔ حالیہ برسوں میں شام مضبوط اداروں کے وجود اور معاشرتی یکجہتی کی وجہ سے دشمنوں کے مقابل میں کھڑ ہونے کی کافی صلاحیت رکھتا ہے اور دوسری طرف ، شام کے دوستوں اور اتحادیوں نے ہمارے ملک کی حمایت کی ہے ، اور اس طرح ہم بین الاقوامی مسلح جنگ کے خلاف کھڑے ہیں۔ اس جنگ کا مقصد ملک کو تباہ کرنا تھا اور اب یہ جنگ معاشی جنگ کے مرحلے میں داخل ہوچکی ہے۔ وہ ہماری اسلامی اور قومی شناخت کو بھی ختم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اسی دوران، ہمارے دشمن ، جیسے اسرائیل اور ترکی ، شام کے قبیلوں کو آپس میں بھڑکا کر فرقہ وارانہ جنگ چھیڑنے کی کوشش کر رہے تھے۔

ابھی ضروری ہے کہ ملک اور شامی عوام کے استحکام کے حصول کے لئے پارلیمنٹ پوری طاقت کے ساتھ تشکیل پائے، اور شامی عوام آنے والے دنوں اور ہفتوں میں اپنے نمائندوں کا انتخاب کرنے کے لئے اقدامات کریں گے تاکہ اپنی سرنوشت اپنے ہاتھوں سے رقم کی جا سکے اور نئی قومی پیشرفتوں کا تعین کیا جاسکے۔ اس طرح سے معاشی، معاشرتی اور مقبول پالیسیاں زیادہ مکمل ہوں گی اور عوام کو چیلنجوں اور پریشانیوں کا سامنا کرنے کی طاقت میں اضافہ ہوگا۔ پارلیمنٹ ملک کی تعمیر نو کے ساتھ ساتھ ان لوگوں کی تعمیرنو میں بھی اہم کردار ادا کرے گی جو کہ زیادہ اہم ہے۔

خیبر: شام کے خلاف حالیہ امریکی پابندیوں، خصوصا قیصر قانون کے بارے میں آپ کا کیا تجزیہ ہے؟
شام کے خلاف امریکی پابندیاں 1970 کی دہائی سے موجود ہیں اور ان میں کوئی بدلاؤ نہیں آیا ہے اور اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ شام نے معاشرتی ترقی کی طرف قدم بڑھایا ہے۔ پابندیاں قانونی نہیں ہیں۔ کیونکہ قانون منصفانہ ہونا چاہئے، لیکن ہم اسے شامی عوام کے ساتھ امریکہ کی دشمنی کا نام دیتے ہیں، حقیقت یہ ہے کہ وہ معاشی جارحیت اور شام کا محاصرہ کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں تاکہ شام کو اپنے دوستوں اور اتحادیوں کے ساتھ تعاون کرنے سے روکیں لہذا وہ پابندیوں کا سہارا لیتے ہیں۔
 حالیہ امریکی پابندیاں اس بات کی علامت ہیں کہ وہ شام کے خلاف داعش اور دیگر دہشت گرد گروہوں کی حمایت کے ذریعے کیے گئے حملوں میں ناکام ہو چکے ہیں۔ اور اس طرح شامی عوام کی مزاحمت اور ان کی فتح کو ختم کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ انہوں نے عوام کو بھوک اور افلاس کی حالت میں رکھنے کی پالیسی پر عمل کیا تاکہ شامی عوام اپنی حکومت کے مخالف ہو جائیں لیکن وہ اس پالیسی میں بھی ناکام ہوئے۔

خیبر: شام کی معیشت کو امریکی پابندیوں سے بچانے کے لئے آپ کے پاس کون سے متبادل راستے ہیں؟
شام کے پاس متنوع معیشت اور وسیع جغرافیہ ہے، اور شامی عوام باشعور اور با بصیرت ہیں۔ یہ لوگ باخبر، مضبوط اور متبادل راستے تلاش کرنے اور موجودہ صورتحال کا مقابلہ کرنے کے قابل ہیں اور تمام چیلنجوں کا مقابلہ کرنے کے لئے تیار ہیں۔ قیصر قانون در حقیقت قیصر وائرس ہے ، اور شامی عوام اس کا مقابلہ کر رہے ہیں ، اور ہمارے پاس متبادل حل ہیں ، خاص طور پر زراعت کے میدان میں ، ریاستہائے متحدہ کا مقابلہ کرنے کے لئے۔ شامی ماہر معاشیات امریکی دہشت گرد معاشی وائرس کے خلاف اپنی پوری طاقت کے ساتھ کھڑے ہیں۔
شام کو پہلے خود کفیل ہونا چاہئے اور پھر اتحادی اور ہمسایہ ممالک کے ساتھ معاشی معاہدے طے کرنا ہونگے جو داعش کے خلاف کھڑے ہیں، تاکہ ڈالر کو حاشیے میں لایا جا سکے۔  لہذا ، مزاحمتی محور ممالک اور امریکی دھشتگردی کے خلاف ممالک  کو اپنی مقامی کنسیوں کا تبادلہ کرنا ہو گا۔ مقامی طور پر بھی ، شامی حکومت کو لوگوں کے لئے سہولیات فراہم کرنے کے لئے چھوٹے کاروباروں اور منصوبوں کی حمایت کرنا چاہئے۔ البتہ یہ کام کچھ عرصے سے جاری ہے۔

خیبر: اس ملک کی سرزمین پر ہونے والی وقتا فوقتا اسرائیلی جارحیت پر شام کا کیا رد عمل ہے خاص طور پر اس ملک میں جو ایرانی افواج کو خطرہ لاحق ہے اس کے حوالے سے آپ کا کیا کہنا ہے۔

سب سے پہلے ، میں یہ کہنا ضروری سمجھتا ہوں کہ شام میں ایرانی افواج نہیں ہیں، بلکہ ایرانی مشیر موجود ہیں جو ہمارے اتحادی ہیں اور امریکہ ، ترکی اور اسرائیل جیسے ممالک شامی مسلح افواج پر حملہ کر رہے ہیں، لیکن ان کے پاس بہانہ یہ ہے کہ شام میں ایرانی افواج موجود ہیں۔  شام میں ایران کی موجودگی شامیوں کے قومی فیصلے اور شام و ایران کے درمیان اتحاد کی وجہ سے ہے، تاکہ صہیونی اور امریکی جارحیت کا ڈٹ کر مقابلہ کیا جا سکے۔
امریکی اور صہیونی یہ اعلان کرکے شام کے عوام کو ایران کے خلاف بھڑکانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ وہ شام میں ایرانیوں پر حملہ کر رہے ہیں ، لیکن در حقیقت مزاحمتی ممالک کے مابین اتحاد ایک تاریخی اور مضبوط اتحاد ہے۔ امریکہ اور صیہونیوں کے یہ اقدامات بیکار ہیں۔ کیونکہ مزاحمت استحکام اور ثبات کا ایک عنصر ہے۔ خطے میں مزاحمتی قوتوں کے پاس طاقتور عناصر موجود ہیں جبکہ دہشت گرد اور امریکی تنظیموں میں ان عناصر کی کمی ہے۔

 

امریکی سلطنت کا قطعی زوال عنقریب

  • ۴۲۳

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ کے مطابق، فوکویاما کا کہنا ہے: “ہم نے افغانستان، عراق اور ان کی طرح کے ممالک سے کم از کم ایک یہ سبق سیکھا ہوگا کہ امریکہ کے پاس مشرق وسطی کے ممالک میں جمہوریت بحال کرنے کی طاقت، وسائل اور ضروری سوچ موجود نہیں ہے؛ حتی وہ شام جیسے ملک میں موجودہ بحران کے حل سے عاجز ہے۔ اس وقت جو کچھ ہمیں کرنا چاہئے وہ یہ ہے کہ ہم ان افراد کو کوئی گزند نہ پہنچنے دیں جو ہمارے لئے اہمیت رکھتے ہیں، اور ہمیں بھی کوئی نقصان نہ پہنچے۔ ہم اس پوزیشن میں نہیں ہیں کہ آخری نتیجہ کسی پر مسلط کریں” [اور اپنی مرضی کا نتیجہ اخذ کریں]۔
مذکورہ بالا اہم اعتراف اس شخص کا ہے جس نے آج سے تین دہائیاں قبل، اختتام تاریخ کا نظریہ پیش کیا تھا اور اسی نظریئے کی بنیاد پر عالمی شھرت حاصل کرچکے تھے۔ فرانسس فوکویاما (Yoshihiro Francis Fukuyama) جاپانی نژاد محقق، تاریخ نگار، ماہر سیاسیات و معاشیات ہیں جو امریکی سیکورٹی ادارے میں کام کرچکے ہیں، امریکی وزارت دفاع “پینٹاگون” سے وابستہ رینڈ (RAND) کارپوریشن کے تجزیہ نگار کے طور پر مصروف کار ہیں۔ انھوں نے ۱۹۸۹ع‍ میں ” تاریخ کا اختتام اور آخری انسان (The End of History and the Last Man)” نامی مضمون لکھا جسے انھوں نے تفصیل کے ساتھ کتاب کی صورت دے کر اسی عنوان سے ۱۹۹۱ع‍ میں شائع کیا۔ یوں فوکویاما نے عالمی شہرت پائی۔ انھوں نے ان دو نوشتوں میں صراحت کے ساتھ مغربی اقدار کی تاریخی وکالت کرتے ہوئے استدلال کیا کہ “لبرل جمہوریت کے حق میں عالمی اجماع حاصل ہوچکا ہے” [اور اس کی مخالفت کرنے والا کوئی نہیں ہے؛ یہ دعوی شاید انھوں نے سوویت روس کے خاتمے کی بنیاد پر کیا تھا]۔
اسی نظریئے کی بنیاد پر ہی تھا کہ امریکیوں نے مغربی لبرل جمہوریت کی علمبرداری کا دعوی کرتے ہوئے پوری دنیا پر امریکی اقدار کی حکمرانی کا تقاضا (!) کیا اور اکیسویں صدی میں بین الاقوامی انتظام اپنے ہاتھ میں لینے کو اپنا حق قرار دیا؛ لیکن تقریبا تیس برس گذرنے کے بعد لبرل جمہوریت کے ذاتی نقائص کی بنا پر بھی اور امریکی کی طرف سے عجز و بےبسی نیز لبرل جمہوریت کے منافی امریکی رویوں کی بنا پر بھی، ان کا نظریہ ثابت نہیں ہوسکا اور یہ نیم فلسفی ـ نیم سیاسی تاریخی محقق اپنے نظریئے سے پسپائی اختیار کرتے ہوئے اب امریکہ کے انحطاط و زوال کی پیشنگوئیاں کرنے لگا ہے۔
فوکویاما لکھتے ہیں: “میں اپنی کتاب «سیاسی نظام اور سیاسی زوال» (۱) نامی کتاب میں سیاسی انحطاط کے لئے جو سب سے بڑی مثال پیش کرتا ہوں وہ امریکی نظام کی مثال ہے۔ دنیا کے تمام نظام ہائے حکومت رو بہ زوال ہیں، خواہ ان کے زوال کا سبب فکری جمود ہو خواہ افراد کا اپنے اختیارات سے غلط فائدہ اٹھانا ہو”۔  
جی ہاں! حالیہ برسوں میں عالمی تبدیلیوں کا عمل نہ صرف امریکی حاویّت اور مغربی اقدار کی توسیع کے حق میں نہیں رہا ہے بلکہ ان اقدار کے زوال اور امریکی طاقت کے انحطاط کی صورت میں آگے بڑھا ہے۔ اگر ہم قبول کریں کہ گذشتہ چالیس برسوں کے اہم ترین عالمی تنازعہ، انقلاب اسلامی اور امریکہ کے درمیان تھا تو دنیا کو بھی، مغربی ایشیا کو بھی، ملت ایران کو بھی اور ولائی مسلمانوں کو بھی ایک نہایت خوبصورت اور روشن افق نظر آئے گا۔ اس قابل مطالعہ موضوع کی بنیاد پر، دنیا میں امریکہ کا انحطاط و زوال قطعی اور حتمی اور الہی اقدار کی قیادت میں، انسانی فطرت کے عین مطابق، اسلامی جمہوریہ ایران کی طرح کی نو ظہور قوتوں کا معرض وجود میں آنا ایک زمینی حقیقت ہے۔
اسلامی انقلاب کے رہبر معظم حضرت آیت اللہ العظمی امام خامنہ ای (مُدَّ ظِلُّہُ العالی) نے مورخہ ۳ نومبر ۲۰۱۸ع‍ کو [۴ نومبر، یوم استکبار کے خلاف جدوجہد کی آمد کے سلسلے میں] اسکولوں کے طلبہ سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا: “جب ہم ایک وسیع نگاہ سے امریکی صورت حال کا جائزہ لیتے ہیں، تو دیکھتے ہیں کہ اس کی طاقت، استحکام اور غلبہ نیز اس کا عالمی دبدبہ دنیا میں رو بہ زوال اور رو بہ انحطاط ہے۔ برسوں کے دوران یہ طاقت مسلسل کم سے کمتر ہورہی ہے”۔
جب ہم تاریخی لحاظ سے نظام ہائے حکومت، مکاتب، حکومتوں اور تہذیبوں کے عروج و زوال کی بات کرتے ہیں تو اس بحث میں بنیادی معیار “طاقت” ہے۔ طاقت سے مراد وہی ہے جس کو سیاسیات اور بین الاقوامی تعلقات میں زیر بحث لایا جاتا ہے اور اس سے مراد ” فریق مقابل یا دوسرے فریقوں پر اثر انداز ہونے، اپنی مرضی اور مطالبات و تقاضے مسلط کرنے کی صلاحیت” ہے۔ طاقت مختلف مادی اور معنوی [سخت اور نرم] اجزاء کا مجموعہ اور اس مجموعے کا نتیجہ ہے۔ آج کی جامعاتی لغت میں اور سیاسیات اور بین الاقوامی تعلقات کے ماہرین کے ہاں، طاقت کو دو قسموں “نرم طاقت” اور “سخت طاقت” میں تبدیل کیا جاتا ہے؛ اور آج کے دن امریکہ “نرم طاقت” کے لحاظ سے بھی اور “سخت طاقت” کے لحاظ سے بھی گھِساؤ، فرسودگی اور بےبسی کا شکار ہوچکا ہے۔
نرم طاقت اور سخت طاقت کے لحاظ سے  امریکی طاقت کے زوال کا جائزہ لینے کے لئے مختلف معیاروں کو سامنے رکھا جاسکتا ہے اور مختلف نشانیوں کا مطالعہ کیا جاسکتا ہے؛ جیسے:
الف: نرم طاقت
امام خامنہ ای نے مذکورہ بالا خطاب کے ضمن میں اس سلسلے میں فرماتے ہیں: “دنیا کے بہت سے معتبر ماہرین سیاسیات اور بہت سے معتبر ماہرین عمرانیات کی رائے ہے کہ امریکہ کی نرم طاقت فرسودہ اور بہت زیادہ ضرر رسیدہ ہوچکی ہے، اور مکمل طور پر زائل ہونے کو ہے۔ نرم طاقت کیا ہے؟ نرم طاقت یہ ہے کہ ایک حکومت اپنے فیصلوں، اپنی رائے و نظر اور اپنا عقیدہ دوسروں فریقوں کو منوا سکے اور انہیں قائل اور آمادہ کرسکے کہ اس کے فیصلے کو قبول کرے۔ یہ طاقت امریکہ میں مکمل ضعف اور مکمل فرسودگی کا شکار ہے اور زائل ہورہی ہے”۔  
امریکی نرم طاقت کی فرسودگی کی بعض نشانیاں:
۱۔ امریکہ کی اندرونی صورت حال بتا رہی ہے کہ لبرل جمہوریت اور سرمایہ دارانہ سیاسی نظام بے آبرو ہوچکا ہے۔ سماجی دراڑیں، سماجی انصاف کا ناپید ہونا، نسلی امتیازات کا غلبہ، خاندانی نظام کا فنا ہوجانا اور وسیع البنیاد اخلاقی برائیوں کا رواج، وغیرہ، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ امریکہ کے پاس دوسروں کو دینے کے لئے اقدار پر مبنی کسی قسم کا کوئی پیغام نہیں ہے اور اس کے القائات کسی کے لئے بھی کوئی تعمیری پہلو نہیں رکھتے۔ بلکہ یہ ملک اندرونی طور پر سماجی اور اخلاقی شکست و ریخت کے مرحلے سے گذر رہا ہے۔
۲۔ دنیا کی بہت سی اقوام ـ بالخصوص عالم اسلامی کی متعدد اقوام ـ امریکہ سے نفرت کرتی ہیں۔ امریکہ سے یہ نفرت عراق، شام، افغانستان، پاکستان، لبنان، فلسطین سمیت مقبوضہ سرزمینوں، بحرین، یمن اور حتی کہ امریکہ کے حلیف اسلامی ممالک، نیز جنوبی امریکہ اور پورے براعظم افریقہ کے ممالک میں بہت نمایاں ہے۔
۳۔ بہت سی حکومتیں [بالخصوص امریکہ کی حلیف حکومتیں] امریکی رویوں اور طرز سلوک سے پر تنقید کررہی ہیں اور امریکہ سے منہ پھیرے ہوئے ہیں یا پھیر رہے ہیں۔ ۴۔ امریکہ نے اپنی نرم طاقت اور اثرو رسوخ کی صلاحیت کھو جانے کے بعد اپنے اہداف و مقاصد کو آگے بڑھانے کے لئے گذشتہ سترہ برسوں کے دوران فوجی لشکر کشیوں اور دہشت گرد تنظیموں کی تشکیل کا سہارا لیا ہے۔ افغانستان اور عراق پر فوجی چڑھائی، داعش جیسی دہشت گرد تنظیمیں بنا کر نیابتی جنگوں (Proxy wars) کا آغاز اس حقیقت کو عیاں کرتا ہے کہ امریکہ نرم طاقوت اور اثر و رسوخ کی قوت کھو چکا ہے۔
۵۔ یورپ، روس، چین اور کچھ دوسرے ممالک کے خلاف معاشی جنگ بھی امریکہ کی نرم طاقت کی گھِساؤ اور فرسودگی کا ثبوت ہے اور اس جنگ سے بھی ثابت ہورہا ہے کہ امریکہ اپنے مقاصد کے حصول کے لئے مزید کسی کو اپنے ساتھ ملانے سے عاجز ہوچکا ہے۔  
ب: سخت طاقت
امام خامنہ ای اس سلسلے میں فرماتے ہیں: “امریکہ کی سخت طاقت کو بھی بہت شدید نقصان پہنچا ہے؛ سخت طاقت یعنی عسکریت پسندی کی طاقت، معاشی طاقت، یہ سخت طاقت کے زمرے میں آتا ہے؛ اور ہاں! امریکہ کے پاس فوجی اوزار موجود ہیں لیکن اس کی فوجی طاقت اداس، الجھن کا شکار، ششدر اور متذبذب وحیران ہے۔
اسی بنا پر ہی جن جن ملکوں میں امریکی موجود ہیں، اپنے مقاصد کے حصول کے لئے بلیک واٹر جیسی جرائم پیشہ تنظیموں کو استعمال کرتے ہیں، جس کا مطلب یہ ہے کہ امریکی سپاہی امریکی منصوبے کے نفاذ کی صلاحیت سے عاجز و قاصر ہے”۔
امریکی سخت طاقت کی فرسودگی کی بعض نشانیاں کچھ یوں ہیں:
۱۔ امریکی حکومت کا ۲۰ ٹریلین ڈالر (۲) مقروض ہونا اور اسے بہت بڑے بجٹ خسارے کا سامنا ہونا؛
۲۔ غربت، بےروزگاری اور امریکی صنعتوں کے ایک بڑے حصے اور بڑے بڑے بینکوں کا دیوالیہ ہوجانا؛
۳ـ بیرونی تجارت کے توازن میں زبردست خسارہ؛
۴ـ چین جیسے برتر معاشی طاقتوں کا ظہور پذیر ہوجانا؛
۵۔ فوجی سازوسامان کا فرسودہ اور افواج کا افسردہ، ناامید اور اداس ہوجانا؛
۶۔ افغانستان، عراق اور شام میں فوجی شکستوں اور ناکامیوں سے دوچار ہوجانا؛
۷۔ دنیا کے بہت سے علاقوں ـ بالخصوص مغربی ایشیا ـ میں عسکری اور معاشی قوت کے بل پر اپنے مقاصد حاصل کرنے میں بے بسی اور ناکامی؛
ڈونلڈ ٹرمپ کا یہ جملہ ان تمام نشانیوں کی تصدیق کے لئے کافی ہے کہ “امریکہ نے ۱۷ سال قبل مشرق وسطی میں سات ٹریلین ڈالر خرچ کئے لیکن وہ کچھ بھی حاصل کرنے میں ناکام رہا ہے”۔
جی ہاں! امریکہ کا زوال اور اس کی طاقت کا زوال ایک زمینی حقیقت ہے۔ لیکن ایک دوسری حقیقت یہ ہے کہ ایرانی قوم اور اسلامی انقلاب کی حامی و مدافع قوتیں ہی شیطان اکبر کی جہنمی طاقت کو فنا سے دوچار کرنے میں بنیادی کردار ادا کر رہی ہیں۔  
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بقلم: بریگیڈیئر جنرل ڈاکٹر یداللہ جوانی
ترجمہ: فرحت حسین مہدوی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۱۔ Political Order and Political Decay: From the Industrial Revolution to the Globalization of Democracy
۲۔ ایک ٹریلیئن = دَس کھَرب = (۱۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰)؛ اور اس حساب سے ۲۰ ٹریلیئن ڈالر = ۲۰۰ کھرب ڈالر یا بیس ہزار ارب ڈالر۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

کیوں ہم فلسطینیوں سے زیادہ فلسطینی بنیں؟

  • ۴۰۰

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ کے مطابق؛ مسئلہ فلسطین ایران کے اسلامی انقلاب کا ایک اہم اور بنیادی مسئلہ ہے۔ اگر چہ بعض پہلو کے اعتبار سے کچھ کوتاہیاں ہوئی ہیں لیکن بطور کلی اسلامی انقلاب کی تحریک کے آغاز سے ہی اس مسئلہ کو بانی انقلاب اسلامی حضرت امام خمینی (رہ) نے مورد توجہ قرار دیا اور انقلاب کی کامیابی کے بعد تاحال رہبر انقلاب اسلامی نے اسلامی جمہوریہ ایران میں اس کی اہمیت کو ذرہ برابر کم نہیں ہونے دیا۔
درج ذیل گفتگو “استاد حسن رحیم پور ازغدی” کی تقریر سے ماخوذ ہے جو انہوں نے عالم اسلام کے علماء کے ایک اجلاس میں بیان کی اور مسئلہ فلسطین کا مخلتف اعتبار سے جائزہ لیا ہے۔
خیبر: کیا اسلامی جمہوریہ ایران میں وقت کے گزرنے کے ساتھ ساتھ مسئلہ فلسطین کے حوالے سے اس کے موقف میں کوئی تبدیلی آئی ہے؟ کیا آج اسلامی جمہوریہ میں مسئلہ فلسطین کوئی نیا موضوع ہے؟
۔ اسلامی جمہوریہ ایران دنیا کے تمام حریت پسندوں اور انقلابیوں کا دوسرا وطن ہے۔ ہمارے انقلاب کی سرنوشت شروع سے ہی مسئلہ فلسطین کے ساتھ آمیختہ اور جڑی ہوئی ہے۔ امام خمینی (رہ) جہاں شاہ ایران کے خلاف شعار دیتے تھے وہاں امریکہ، اسرائیل اور برطانیہ کے خلاف بھی صدائے احتجاج بلند کرتے تھے۔ ابھی انقلاب کامیاب نہیں ہوا تھا کہ لوگ یہ نعرہ لگاتے تھے “آج ایران کل فلسطین”۔ انہی دنوں میں جب صہیونی ریاست تشکیل پا رہی تھی شہید سید مجتبیٰ نواب صفوی ایران سے قاہرہ گئے اور وہاں انہوں نے ایک تقریر کی اور تقریر کے دوران یہ اعلان کیا کہ ہم یہاں سے ہی اسرائیل کے خلاف جہاد کا آغاز کرتے ہیں۔ بعد میں یاسر عرفات نے کہا کہ میں نے اسی تقریر کے دوران جہاد کا ارادہ کر لیا تھا۔ نواب صفوی نے اس تقریر کے بعد مجھ سے پوچھا کہ آپ کہاں کے رہنے والے ہیں؟ میں نے کہا کہ فلسطین کا رہنے والا ہوں۔ انہوں نے کہا کہ یہاں( قاہرہ) میں کیا کرتے ہیں؟ میں نے کہا: میں یہاں انجینئرنگ کر رہا ہوں۔ شہید نواب نے کہا: “فلسطین کو اس وقت انجینئر کی ضرورت نہیں مجاہد کی ضرورت ہے”۔
لہذا تحریک انقلاب کے آغاز سے ہی مسئلہ فلسطین، اسلامی انقلاب کے اصول و مبانی کا حصہ قرار پا گیا۔
خیبر: کیا آپ کی نظر میں اسلامی جمہوریہ ایران مسئلہ فلسطین کے بارے میں ” ماں سے زیادہ دایہ مہربان” کی طرح نہیں ہے؟
۔ شروع سے ہی کچھ لوگ تھے جو یہ کہتے تھے کہ ” کیوں ہم فلسطینیوں سے زیادہ فلسطینی بنیں؟” جب خود فلسطینی ساز باز کر رہے ہیں اور اسرائیل کے مقابلے میں تسلیم ہونا چاہتے ہیں تو کیوں ہم ہمیشہ یہ نعرہ لگاتے رہیں “اسرائیل مردہ باد”؟ امام خمینی اور امام خامنہ ای دونوں بزرگوں نے اعلان کیا کہ مسئلہ فلسطین، فلسطینیوں کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ عالم اسلام کا مسئلہ ہے، ایک اسلامی مسئلہ ہے۔ دوسری طرف سے کچھ لوگوں نے کہا ہے کہ فلسطین عربوں کا مسئلہ ہے ہم ایرانی ہیں اور اس موضوع کا ہم سے کوئی ربط نہیں ہے۔ امام نے ان کے جواب میں فرمایا: “فلسطین اسلامی مسئلہ ہے نہ عربی”۔
خیبر: اگر فلسطین کے تمام لوگ کسی وقت صلح کر لیں اور تسلیم ہو جائیں ایسی صورت میں اسلامی انقلاب کا موقف کیا ہو گا؟
امام خمینی (رہ) نے فرمایا کہ اگر ایک دن فلسطین کے تمام لوگ قدس کو صہیونیوں کے حوالے کر دیں کہ البتہ ایسا دن نہیں آئے گا تو ہم تب بھی صہیونیت کے خلاف اپنی جنگ جاری رکھیں گے۔
امام خمینی (رہ) نے ابتداء میں ہی کہہ دیا تھا کہ فلسطین کے کمیونیسٹ گروہ کو مت دیکھیے گا البتہ ان کے ساتھ دشمنی بھی نہ رکھنا لیکن قدس کی آزادی ان کے ہاتھوں واقع نہیں ہو گی، اسی طرح بعض عرب ٹولیوں پر بھی فلسطین کے حوالے سے بھروسہ نہیں کیا جا سکتا ہے۔ صرف ایک اسلامی تحریک ‘اللہ اکبر’ کے شعار کے ساتھ وجود پانا چاہیے اور صرف کلمہ توحید اور نام اللہ کے ساتھ فلسطین کو آزاد کیا جا سکتا ہے ہمیں مدد کرنا چاہیے کہ فلسطین میں ایک اسلامی جماعت وجود میں آئے جس کی بنیاد صرف توحید پر ہو۔ امام قائل تھے کہ کامیابی اسلام کے نام کے بغیر ممکن نہیں۔ اور اسلام کے نام کے ساتھ حرکت کو حتیٰ اگر وقتی طور پر شکست کا بھی سامنا کرنا پڑے آخرکار کامیابی نصیب ہو گی۔
خیبر: آپ کی نظر میں اگر فلسطین اور اسرائیل کے درمیان سمجھوتہ ہو جائے کہ اس سرزمین پر دو حکومتیں حکومت کریں تو مسئلہ قدس کا حل کیا ہو گا؟
۔ امام خمینی(رہ) قائل تھے کہ تمام وہ لوگ جو کہتے ہیں کہ فلسطین بھی رہے اور اسرائیل بھی رہے یہ خائن ہیں۔ اسرائیل نام کی کوئی حکومت حتیٰ ایک کلومیٹر زمین پر بھی باقی نہیں رہنا چاہیے۔ اسلامی انقلاب کا اشعار یہ ہے کہ فلسطین فلسطینیوں کی جگہ ہے اور عیسائی اور یہودی فلسطینی مسلمانوں کے ساتھ زندگی بسر کریں اور اپنے مقدس مقامات پر بھی جائیں لیکن جو ہزاروں کی تعداد میں باہر سے آ کر اس سرزمین پر قابض ہوئے ہیں وہ واپس جائیں۔ فلسطین کی سرنوشت کو ملت فلسطین متعین کرے۔
امام خمینی (رہ) نے شاہ کے زمانے میں اعلان کیا تھا کہ حکومت ایران اور عرب ریاستوں نے ملت فلسطین کے حق میں خیانت کی ہے لہذا تمام مسلمانوں پر واجب ہے کہ وہ قیام کریں اور اپنی فاسد حکومتوں کو کہ جو امریکہ اور برطانیہ کے ہاتھوں کی پروردہ ہیں اور اسرائیل کے ساتھ ہم نوالہ و ہم پیالہ ہیں کو خاتمہ دیں اور اپنے ملکوں میں اسلامی اور عوامی حکومتیں تشکیل دیں۔
مجید رحیمی

 

مرجعیت کی شان میں الشرق الاوسط کی گستاخی ناقابل برداشت

  • ۴۰۵

بقلم سید نجیب الحسن زیدی

لندن سے چھپنے والے سعودی اخبار  «الشرق الاوسط» نے جمعہ کے دن آیت اللہ سیستانی کا ایک اہانت آمیز خاکہ شائع کیا ، جسکی مخالفت میں عراق میں شدید رد عمل سامنے آیا۔
 عراق کے پارلمانی محاذ کے سربراہ ہادی العامری " نے اس سعودی اخبار کی جانب سے آیت اللہ سیستانی  مد ظلہ العالی کی شان میں کی جانے والی گستاخی کی مذمت کی، علاوہ از ایں عراقی پارلمان کے ایک نمائندے نے"احمد الاسدی"  بھی سعودی عرب کے روزنامہ  کی جانب سے اس اقدام کے سلسلہ سے اس بات کا اظہار کیا مراجع کرام کے سلسلہ سے اس طرح کی باتوں سے سعودی عرب پر حکم فرما فکر کا پتہ چلتا ہے کہ وہاں کس قسم کی گھٹیا فکر حاکم ہے ۔
 تحریک  نجباء کے رسمی ترجمان نصر الشمری نے بھی ٹوئٹر پر دئے گئے اپنے میسج کے ذریعہ اس بات کی طرف اشاہ کیا کہ  آل سعود اور امریکہ و اسرائیل کے مزدوروں کی جانب سے شیعت کے خلاف اس طرح کی محاذ آرائیاں کوئی نئی و عجیب بات نہیں ہے یہ تو وہ لوگ ہیں جنہوں نے ہمیشہ ہی مسلمانوں کے خون سے زمین کو سرخ کیا ہے اور ہمیشہ خون ناحق سے انکی آستینیں سنی نظر آتی ہیں۔
انہوں نے اپنے ٹوئٹر پر لکھا: مرجعیت کے بارے میں اہانت کا ایک واضح سبب  مرجعیت کے حکیمانہ و مستحکم موقف و اقدام  کے مقابل انکی شکست کا تلخ احساس ہے، ایسا موقف و اقدام جس نے تکفیریوں کے تمام تر حربوں اور انکی چالوں کو ناکام بنا دیا  ۔
چنانچہ  نجباء تحریک کی شورای کے سربراہ  ’’علی الاسدی‘‘  نےسعودی روزنامہ الشرق الاوسط  کی جانب سے  مرجعیت کے خلاف اس اہانت کا سبب  مرجعیت کی جانب سے اٹھایا گیا وہ قدم بیان کیا جس کے سبب حشد الشعبی کا وجود سامنے آیا ۔ اسدی نے اس اخبار کے خلاف ایکشن لیتے ہوئے کیس دائر کر کے اسکا محاکمہ کرنے کی اور اس کے عراق میں موجود دفتر کو بند کرنے کی بات کو بیان کرتے ہوئے  کہا کہ  مرجعیت نے  عراق کی سالمیت کی خاطر ایسا فتوی دیا  جس نے تکفیریوں اور انکے امریکی و صہیونی  حامیوں  کی عراق کے سلسلہ سے دیکھے گئے خواب کی تعبیر کو ناکام بنا دیا اور عراق کی مٹی کی حفاظت کرتے ہوئے تکفیریوں کی سیاست پر پانی پھیر دیا ۔
شک نہیں ہے کہ مرجعیت ہمارے دشمنوں کی آنکھوں میں کانٹا بن کر کھٹک رہی ہے یہی وجہ ہے کہ گاہے بہ گاہے دشمنان اسلام کی جانب سی مرجعیت کے خلاف توہین آمیز  اقدامات ہوتے رہتے ہیں، ایسے میں ہمارے لئے ضروری ہے کہ ہم مرجعیت کی طاقت کو محسوس کریں اور ایسا کوئی کام نہ کریں جو ہمارے دشمنوں کی خوشی کا سبب ہو ،   افسوس کا مقام ہے کہ دشمن اپنی تمام تر کینہ توزیوں کے ساتھ مرجعیت کی طاقت کو سمجھتا ہے اور اس کے خلاف سر گرم عمل ہے لیکن ہم اپنے اس سرمایہ سے غافل ہے اور بسا اوقات ہمارے درمیان سے ہی  مرجعیت کے خلاف باتیں بلند ہوتی نظر آتی ہیں۔
یہ معاملہ صرف عراق کا نہیں ہے اسکا تعلق ہم سب سے ہے لہذا ہمارے لئے ضروری ہے کہ وسیع پیمانے پر لندن سے نکلنے والے سعودی روزنامے کی شدید طور پر مذمت کریں تاکہ مرجعیت کے مقابل اپنے کمترین حق کو ادا کر سکیں ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

یہودی صیہونی تحریک کے لئے برطانوی سیاسی حمایت

  • ۳۹۴

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ:  1897 میں سوئٹزرلینڈ کے شہر باسل میں پہلی عالمی صہیونی کانفرنس کے انعقاد کے بعد ، صہیونی ریاست کے قیام کے خواہاں یہودی رہنماؤں نے بڑی تعداد میں سیاسی شخصیات اور اعلی برطانوی سرکاری عہدیداروں کی حمایت اور یکجہتی حاصل کرنے میں کامیابی حاصل کی ۔  اس میں سب سے زیادہ اہم کردار ’ولیم ہیشلر‘ کا تھا جس نے یہودیوں کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کیا۔  

ہیشلر فرانس اور جرمنی کی جانب سے بھیجا ہوا نمائندہ تھا جو بعد میں 1885 میں ویانا میں برطانوی سفارتخانے میں ایک کاہن کے عنوان سے ملازمت کرنے لگا۔ اسی وجہ سے صہیونی تحریک کے لیے یہ منصب اسٹریٹجکی اہمیت کا حامل ہو گیا۔
 
یہودیوں کی فلسطین واپسی
 ہیشلر نے شفٹس بیری کے طرز زندگی پر پختہ یقین کے ساتھ 1894 میں "یہودیوں کی فلسطین واپسی" کے  عنوان سے ایک کتاب لکھی تھی (اس کی کتاب ہرٹزل کی کتاب "ڈیر جوڈین اسٹیٹ" سے دو سال قبل شائع ہوئی تھی)۔ اس نے اپنی کتاب میں کہا، "یہودیوں کی سرزمین فلسطین میں واپسی عہد قدیم کی پیش گوئیوں پر مبنی ہے۔"  اور مذکورہ شخص کو صیہونی ریاست کے قیام کے لئے ہرٹزل کے نزدیک ایک اہم عیسائی اتحادی کی حیثیت سے پہچنوایا گیا۔
وہ ان تین مسیحی رہنماؤں میں سے ایک ہے جنہوں نے عالمی صہیونی کانفرنس میں شرکت کے لئے دعوت نامے بھیجے تھے۔ ہرٹزل کوئی مذہبی شخص نہیں تھا ، لیکن توہم پرستی پر یقین رکھتا تھا۔ اس نے اپنی ڈائری میں 10/3/1896 عیسوی کو ہیشلر سے اپنی گفتگو کے بارے میں لکھا: "برطانوی سفارت خانے کے کاہن پادری ولیم ہیشلر مجھ سے ملنے یہاں آئے تھے۔ وہ نبیوں کی طرح نرم مزاج اور خاکستر آدمی تھے میں نے یہودیوں کے مسئلے کے لیے جو تجویز پیش کی انہوں نے اس میں گہری دلچسپی کا اظہار کیا، اور یہ محسوس کیا کہ میں نے ان پیش گوئیوں کو سرانجام پہنچانے کا فیصلہ کیا ہے جو وہ پچھلے سال کہہ چکے تھے  ہیشلر کی توقع کی تھی کہ یہودیوں کی فلسطین واپسی کا آغاز1897 میں شروع ہو جانا چاہیے‘‘۔
ہرٹزل اپنے گھر میں ہشلر کے ساتھ ہوئی دوسری ملاقات کے بارے میں کہتا ہے: "مجھے حیرت ہوئی کہ ہیشلر کا کمرہ بائبل اور فلسطین کی جنگ عظیم کے نقشوں سے بھرا ہوا تھا۔ انہوں نے مجھے بیت ایل میں نئے ہیکل سلیمانی کی تعمیر اور اپنے منصوبوں کے مطابق نئی حکومت کے دار الحکومت کے بارے میں میرے لیے وضاحت کی۔ اور مجھے کہا کہ میں قدیمی ہیکل کے نقشے پر غور کروں۔ اس کے بعد بڑے ذوق و شوق کے ساتھ کہا: ہم نے یہ زمین تم لوگوں کے لیے آمادہ کر دی ہے۔ ۔۔۔ وہ ایک سادہ مزاج شخص تھے اور مجھے پورے خلوص کے ساتھ نصیحت کرتے تھے۔ وہ اس کے باوجود کہ سادہ مزاج تھے بہت چالاک اور ذہین بھی تھے۔‘‘  
ہیشلر نے اپنے عہد و پیمان سے وفاداری کرتے ہوئے ہرٹزل کو جرمنی کے شاہ دوم ولیم سے بات چیت کرنے کو کہا۔
 
صہیونی عیسائیوں کے طرز افکار میں بنیادی تبدیلی
ہیشلر کی کاوشوں اور نقل و حرکت کے نتیجے میں صہیونی عیسائیوں کے طرز تفکر میں ایک بنیادی تبدیلی واقع ہوئی۔  ابتدائی نقادوں جیسے اپرونک اور ڈرمونڈ کے خیالات سے قطع نظرکہ جو یہودیوں کی فلسطین واپسی کو یہودیوں پر مسلط بیرونی سیاستوں کا نتیجہ سمجھتے تھے،  ہشلر نے تب بھی یہ اصرار کیا کہ عیسائیوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ یہودیوں کی فلسطین واپسی کی حمایت کریں۔
ڈیوڈ لائیڈ جارج نے 1919 میں برطانوی وزیر اعظم کے دفتر پہنچ کر اعتراف کیا کہ وہ صیہونی تھا اور شفٹس بیری خیالات کا ماننے والا تھا۔
تحریر؛ حسین صلواتی‌پور
منبع؛ استفان سایزر – الصهیونیون المسیحیون علی طریق هرمجدون و  دکتر ریاض جرجور – صهیونیسم مسیحی یا صهیونیسم آمریکایی

 

 

حقیقی دشمن کی پہچان ایک الہی فریضہ

  • ۴۱۱

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: بے شک معرفت آگاہ انسانوں کی خصوصیات میں شامل ہے۔ خدا کی معرفت، اپنے نفس کی معرفت، دوستوں کی معرفت، حقوق و فرائض کی معرفت، نیک اعمال، اخلاقیات کی پابندی اور اللہ کی بندگی اور اس کی رضا اور خوشنودی کا سبب ہے۔ لیکن اس شناخت و معرفت اور دین کی پیروی اور حقوق کے حصول اور فرائض پر عمل کے لئے محفوظ ماحول فراہم کرنا ضروری ہے؛ جس کے لئے ہمیں پہلے مرحلے میں دشمن کی پہچان حاصل کرنے کی ضرورت ہے، دوسرے مرحلے میں اس کی چالیں سمجھنا ضروری ہے اور مقابلہ، تو تیسرے مرحلے میں آتا ہے کیونکہ دشمن کی عدم شناخت کی صورت میں دشمن کا مقابلہ ممکن ہی نہیں ہے۔
چنانچہ سب سے پہلے دیکھنا چاہئے کہ ہمارا دشمن کون ہے؟ دوسرے مرحلے میں دیکھنا چاہئے کہ دشمن کی چالیں کیا ہیں اور وہ کن راستوں پر چل کر اپنے مقاصد حاصل کرتا ہے؟ اور تیسرے مرحلے میں دیکھنا چاہئے کہ کن کن روشوں اور اقدامات کے ذریعے ہم دشمن کی سازشوں کا سد باب کرسکتے ہیں؟ اور کن کن راستوں پر چل کر ہم دشمن کی چلی ہوئی سازشوں کا مقابلہ کرسکتے ہیں؟ اورکن راستوں پر چل کر ہم معاشرے کو محفوظ بنا سکتے ہیں؟
دشمن ہے کیا؟ دشمن ہے کون؟ دشمن کا مختصر تعارف
لاطینی زبان میں Enemy اور دینی فرہنگ میں عَدُو جس کی جمع اعداء ہے اور اس کا مصدر “عَدْوٌ” ہے جس کے معنی تجاوز اور جارحیت کے ہیں۔
راغب اصفہانی مفردات القرآن میں لکھتے ہیں: “عَدْوٌ” کے معنی تجاوز اور جارحیت کے ہیں اور یہ لفظ “التیام” کے متضاد ہے۔
کبھی دشمنی قلبی ہوتی ہے جس کو “عداوت اور معادات” کہا جاتا ہے۔ کبھی راہ چلنے میں ہے اور اس حوالے سے “عَدْوٌ” کے معنی دوڑنے کے ہیں؛ اور کبھی لین دین اور تعامل میں عدل و انصاف کی عدم رعایت کی شکل میں ہے جس کو “عدوان” کہا جاتا ہے۔
“عَدُو” دشمن ہے جو دل میں انسان کے ساتھ دشمنی رکھتا ہے اور عمل میں اس دلی کیفیت کے مطابق عمل کرتا ہے۔
ارشاد پرودگار ہے: “إِنَّ الْکَافِرِینَ کَانُواْ لَکُمْ عَدُوّاً مُّبِیناً” (یقینا کافر لوگ تمہارے کھلے ہوئے دشمن ہیں)۔ (۱)
یا ارشاد ہوتا ہے کہ “إِنَّ الشَّیْطَانَ لِلإِنسَانِ عَدُوٌّ مُّبِینٌ” (یقینا شیطان انسان کا کھلا ہوا دشمن ہے) (۲) (۳)
راغب اصفہانی کا کہنا ہے کہ دشمن کی دو قسمیں ہیں:
۱۔ وہ جو عداوت رکھتا ہے اور اس کا ارادہ بھی دشمنی کا ہے جیسا کہ ارشاد ہوتا ہے:
” فَإِن کَانَ مِن قَوْمٍ عَدُوٍّ لَّکُمْ” (اگر وہ کسی ایسی جماعت سے ہے جو تمہاری دشمن ہے) (۴)
۲۔ دوسری قسم کا دشمن وہ ہے جو عداوت کا ارادہ نہیں رکھتا لیکن اس کی حالت اور کیفیت کچھ ایسی ہے جس سے انسان کو اذیت پہنچتی ہے جیسا کہ ابراہیم علیہ السلام نے بتوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا:
” فَإِنَّهُمْ عَدُوٌّ لِّی إِلَّا رَبَّ الْعَالَمِینَ” (بے شک وہ میرے لئے دشمن کی حیثیت رکھتے ہیں سوائے عالمین کے پروردگار کے) (۵)
حالانکہ بے جان بت ابراہیم(ع) کے ساتھ دشمنی نہیں کرسکتے تھے؛ جمادات کہاں کسی کے ساتھ دشمنی کرسکتے ہیں۔ لیکن ان کی حالت و کیفیت معبودوں کی تھی اور وہ حالت و کیفیت ابراہیم(ع) کے لئے تکلیف دہ اور آزار دہندہ تھی۔ چنانچہ فرماتے ہیں کہ وہ میرے دشمن ہیں۔
راغب مزید لکھتے ہیں: خداوند متعال کا ارشاد ہے:
” إِنَّ مِنْ أَزْوَاجِکُمْ وَأَوْلَادِکُمْ عَدُوّاً لَّکُمْ فَاحْذَرُوهُمْ” (یقینا تمہاری بیویوں اور تمہاری اولاد میں ایسے ہیں جو تمہارے دشمن ہیں تو ان سے ڈرتے رہو)۔ (۶) اور یہاں بھی دشمن کے معنی بظاہر وہی ہیں۔ یعنی جس طرح کہ دشمن سے انسان کو نقصان پہنچتا ہے ممکن ہے کہ بیوی بچے بھی تمہیں نقصان اور تکلیف سے دوچار کریں۔ یا ان سے بے تحاشا محبت اور ان کی طرف حد سے زیادہ جھکاؤ تمہیں دین کے کاموں سے باز رکھے۔
کبھی دشمنی دوسروں کے ساتھ لین دین اور تعامل میں عدل و انصاف کی عدم رعایت کی صورت میں ہے لہذا اس قسم کی دشمنی ظلم قرار دیا جاسکتا ہے جیسا کہ ارشاد ہوا ہے:
” وَلاَ تَعَاوَنُواْ عَلَى الإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ” (اور گناہ اور ظلم و زیادتی میں ایک دوسرے کے ساتھ تعاون نہ کرو) (۷)۔
راغب کے بقول اس آیت میں عدوان کے معنی ظلم و زیادتی کے ہیں.
کبھی دشمن سے مراد وہ ہے جو ظاہری طور پر عداوت برتتا ہے اور یہ اس دشمن کے مقابلے میں آتا ہے جو قلبی اور باطنی طور پر دشمنی رکھتا ہے۔
میں ارشاد ہوتا ہے:
” وَبَدَا بَیْنَنَا وَبَیْنَکُمُ الْعَدَاوَةُ وَالْبَغْضَاء أَبَداً” (۸) (اور ہمارے اور تمہارے درمیان ہمیشہ کے لئے دشمنی اور منافرت نمایاں ہوچکی ہے)۔
راغب کہتے ہیں:
اس طرح کے مواقع پر ظاہرا عداوت سے مراد دشمنی اور بغضاء سے مراد قلبی کینہ اور بغض ہے؛ اگرچہ عداوت سے قلبی تجاوز اور جارحیت بھی ہے لیکن کتاب “اقرب الموارد” کے مصنف کا کہنا ہے کہ عداوت کے معنی خصومت اور دوری کے ہیں جبکہ المنجد کے مصنف نے لکھا ہے کہ “عَدْوٌ” کے لغوی معنی “جنگ کے لئے دوڑنے، روکنے اور باز رکھنے، ظلم و ستم روا رکھنے، حدود سے تجاوز کرنے، دشمنی اور خصومت برتنے اور دشمنی اور منافرت پھیلانے” کے ہیں۔ (۹)
ڈاکٹر معین اپنی کتاب “فرہنگ معین” میں دشمن کے معنی بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں: وہ جو دوسرے کا بدخواہ ہو، مخالف جو کہ دوست اور محب کا متضاد ہے، اور لفظ “دشمنی” قلبی خصومت اور دشمنی کے علاوہ “عداوت، کراہت (یا اردو میں کراہیت)، اور نفرت” کے معنی میں بھی آیا ہے۔ (۱۰)
علی اکبر دِہخدا اپنے لغت نامے میں لکھتے ہیں: “دشمن” “بدنفس” اور “کریہ الطبع” شخص کو کہا جاتا ہے۔ اور اصطلاح میں دشمن وہ ہے جو کسی شخص یا کسی ملک و قوم کا بدخواہ اور کینہ پرور اور اس شخص یا ملک کے خلاف برسرپیکار ہو۔ (۱۱)
مولانا روم کہتے ہیں:
دشمن آن باشد کہ قصد جان کند
دشمن آن نبود کہ خود جان می کند
دشمن آن باشد کزو آید عذاب
مانع آید لعل را از آفتاب (۱۲)
دشمن وہ ہے جو تمہاری جان پر حملہ آور ہونے کا ارادہ کرے
دشمن وہ نہیں ہے جو خود جانکنی کی حالت میں ہے
دشمن وہ ہے جو انسان کے لئے اذیت و عذاب کے اسباب فراہم کرے
اور آفتاب کی کرنیں لعل تک نہ پہنچنے دے اور تمہاری ترقی اور بالیدگی کے راستے بند کردے۔
پس ہمارے خیال میں دشمن وہ ہے جو قلبی طور آپ سے دشمنی کرتا ہے، عمل میں دشمنی کرتا ہے، جارحیت کرتا ہے، ظلم و ستم روا رکھتا ہے، آپ کے لئے تکلیف و اذیت و آزار کے اسباب فراہم کرتا ہے، آپ کو ترقی سے روکتا ہے اور آپ کی ترقی کے راستے بند کردیتا ہے۔ آپ کے ساتھ حالت جنگ میں ہے، آپ کی ترقی کو ناپسند کرتا ہے اور آپ کے مفادات کو نقصان پہنچاتا ہے۔ آج کے زمانے میں دشمن کی تعریف یہ ہے کہ دشمن وہ ہے جو آپ کو دھوکہ دیتا ہے اور آپ کو دوستوں سے لڑاتا ہے اور آپ کے دوستوں سے دشمنی کرتا ہے۔ آپ کے دوستوں کو دشمن کے عنوان سے آپ کے سامنے لاکھڑا کرتا ہے اور خود دشمن ہوکر دوست کا لبادہ اوڑھتا ہے۔ یعنی یہ کہ آج کا دشمن منافق ہے اور اس کی پہچان قدرے مشکل ہے چنانچہ دشمن شناسی بھی آج کے مسلمان کے فرائص میں شامل ہے جبکہ پہلے زمانے کے دشمن کا محاذ آشکار تھا اور دشمن کی شناخت پر وقت اور سرمایہ صرف کرنے کی ضرورت نہیں تھی۔
آج جو ہم اسلام دشمنوں کی بات کرتے ہیں تو ان کی پہچان ہمارے لئے از روئے عقل و ہوش بہت ضروری ہے؛ ہر وہ ملک، طاقت یا ہر وہ شخص جو آپ کو اور آپ کے ملک کو، آپ کے قومی اتحاد اور یکجہتی کو نقصان پہنچائے آپ کی امت کو کمزور کرنے کے لئے اس میں اختلاف کا بیج بوئے، آپ کی ترقی میں رکاوٹ ڈالے، ان اقدامات کے راستے میں روڑے اٹکائے جو آپ کی ترقی کے لئے ضروری ہیں۔ وہ دوست نہیں ہے بلکہ یا دشمن ہے یا دشمن کا آلہ کار۔
ہر وہ ملک، شخص، گروہ یا جماعت جو ملک کے اندر، امت کے اندر عوام کو ایک دوسرے کے خلاف صف آرا کرے وہ دشمن یا دشمن کا آلہ کار ہے۔
آج بہت سے ملکوں میں ہماری امت کے دشمنوں نے دوستوں کے بھیس میں ظاہر ہوکر دوستوں کو دشمن ظاہر کرکے ہمارے سامنے لا کھڑا کیا ہے اور ہر مسلمان کو الہی امتحان کا سامنا ہے کیونکہ اس زمانے کا مسلمان سمجھتا ہے کہ وہ صدر اول کے مسلمانوں سے زیادہ تعلیم یافتہ اور زیادہ بصیر اور آگاہ ہے اور یہ حقیقت بھی ہے لیکن اگر وہ اس کے باوجود دشمن کی چالوں کو نہ سمجھ سکے اور دوست کو دشمن سمجھ کر اس کا مقابلہ شروع کرے تو اس سے فائدہ دشمن کو پہنچتا ہے اور دشمن کو فائدہ پہنچانا دشمن سے دوستی ہی کا دوسرا رخ ہے جو اللہ کو ناپسند ہے اور اس کے عوض ہمیں اللہ کو جواب دینا پڑے گا گوکہ اس دنیا میں بھی مکافات عمل کا سامنا رہے گا اور وہ یوں کہ دشمنان دین ہم پر مسلط رہیں گے اور وہ لوگ ہم پر حکمرانی کریں گے جو ہم پر رحم نہیں کرتے بلکہ ہماری جان و مال و ناموس اور ہمارے دین کے دشمن اور ہمارے دینی اور دنیاوی سرمایوں کو لٹیرے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۱۔ سورہ نساء آیت ۱۰۱۔
۲۔ سورہ یوسف آیت ۵۔
۳۔ قاموس قرآن، ج ۴، ص ۳۰۵، مفردات راغب، مادہ عدو.
۴۔ سورہ نساء آیت ۹۲۔
۵۔ سورہ شعراء آیت ۷۷۔
۶۔ سورہ تغابن آیت ۱۴۔
۷۔ سورہ مائدہ آیت ۲۔
۸۔ سورہ ممتحنہ، آیت ۴۔
۹۔ قاموس قرآن، ج۴، ص ۳۰۸۔
۱۰۔ فرہنگ معین، ج۲، ص ۸- ۱۵۳۷۔
۱۱۔ لغت نامہ دہخدا، ج۲۳، ص ۱۲۔
۱۲۔ مثنوی معنوی، دفتر دوم، بیت ۷۹۲ – ۷۹۳۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

تالیف و ترجمہ: فرحت حسین مہدوی

 

حتی کہ امریکی صدر بھی یہودیوں سے ڈرتا ہے!

  • ۳۵۰

خیبر صہیونی تحقیقاتی ویب گاہ  کے مطابق، شام کے مرحوم سابق صدر حافظ الاسد پیچیدہ مسائل کے ادراک کے حوالے سے بہت ہی زیرک اور حیران کن صلاحیت کے حامل تھے۔ مجھے ان کے ساتھ ایک ملاقات کا موقع ملا تو وہاں ہم نے سابق امریکی صدر رچرڈ نکسن اور ان کے مشہور وزیر خارجہ ہنری کیسنگر کے ساتھ ان کی ملاقات کا تذکرہ کیا۔
صدر اسد نے اس ملاقات میں امریکی صدر نکسن اور ان کے جرمن نژاد یہودی مفکر اور وزیر خارجہ ہنری کسینگر کے واحد دورہ دمشق کے بعض واقعات کی طرف اشارہ کیا۔
یہ ملاقات اکتوبر کی شاندار جنگ کے چند مہینے بعد، سنہ ۱۹۷۴ع‍ کے اوائل میں انجام پائی۔ شام نے مصر کے ساتھ اس جنگ میں حصہ لیا اور یہ جنگ ۱۰ رمضان کی جنگ سے مشہور ہوئی۔
صدر اسد کو نہ تو رسمی بحث و مباحثوں کے دوران امریکی صدر کے ساتھ دو بدو ملاقات کا موقع نہیں دیا جا رہا تھا اور نہ ہی رسمی عشائیوں کے دوران اور ان کے بعد۔
صدر اسد کہہ رہے تھے: ہنری کیسنگر عشایئے سے پہلے، عشایئے کے دوران اور عشایئے کے بعد، ہمیں تنہا نہیں چھوڑ رہے تھے، چنانچہ میں ان سے اس موقع پر کوئی بات نہیں کرسکتا تھا۔
اگلے دن صبح کے وقت ہم نے اختتامی اجلاس کا انتظام کیا تا کہ اس دورے سے متعلق رسمی بیانیہ تیار کیا جائے، اور ہنری کیسنگر کا اصرار تھا کہ یہ اجلاس جلد از جلد ختم کیا جائے، کبھی اس بہانے سے کہ “صحافی دو ملکوں کے صدور سے ملاقات کے لئے بے چین ہیں”، اور کبھی اس بہانے سے کہ “طیارہ پرواز کے لئے تیار ہے”، اور کیسنگر کی یہ حرکتیں قدرتی طور پر مجھے مشتعل کررہی تھیں۔
میں نے پہلی بار نکسن کی طرف سے کیسنگر کو جواب دیا کہ “صحافی اس وقت تک انتظار کرسکتے ہیں جب تک کہ ہم اپنا یہ منفرد اجلاس اور اس کے نتائج کو مکمل نہ کریں۔ ان کی تشویش کو سنجیدہ نہ لیں کیونکہ یہ انتظار ان کے پیشے کا تقاضا ہے”۔
دوسری مرتبہ میں نے ان کے سامنے آکر سنجیدگی سے کہا: “جو طیارہ پرواز کے لئے تیار ہے، وہ صدر کا طیارہ ہے اور صدر ہی اس کے ٹھہرنے اور آڑنے کا وقت متعین کرتے ہیں، اور پائلٹ کو بھی اطاعت کرنا پڑتی ہے، لہذا کچھ دیر تک پرسکون رہیں، تا کہ ہماری بات چیت قدرتی ماحول میں، پرسکون انداز سے، بیہودہ دباؤ کے بغیر مکمل ہوجائے”۔
صدر اسد کہتے ہیں: میں اس وقت سوچ رہا تھا کہ کس طرح کیسنگر سے چھٹکارا پا لوں اور امریکی صدر کے ساتھ، حتی چند ہی دقیقوں تک، کچھ خفیہ بات چیت کروں۔ اور میں نے محسوس کیا کہ مرکزی دروازے کے ساتھ ایک دوسرا دروازہ بھی ہے چنانچہ میں نے خصوصی دفتر میں پہنچایا اور میں بھی داخل ہوا اور دروازہ اندر سے مقفل کیا۔ لیکن اسی وقت کیسنگر بھی آ ٹپکے اور دستک دینے لگے اور چلانے لگے کہ “میرے لئے دروازہ کھول دیں”۔
جس وقت میں اور نکسن چھوٹے کمرے میں موجود تھے، تو نکسن میرے قریب آئے اور ادھر ادھر دیکھ کر میرے کان میں سرگوشی کرتے ہوئے کہا: خبر دار، وہ [کیسنگر] ایک یہودی ہے!”۔
میرے چہرے پر حیرانگی کے آثار نمایاں تھے، تو صدر حافظ الاسد مرحوم نے کہا: ہاں جناب! حتی کہ امریکہ میں صدر بھی یہودیوں سے ڈرتے ہیں اور ہمیں ہرگز ہرگز امریکی حکومت میں صہیونیوں کے اثر و رسوخ اور وہاں کی فیصلہ سازی پر یہودیوں کی اثراندازی کو نہیں بھولنا چاہئے اور یہ حادثہ اس امریکی موقف کی تفصیل ہے جو وہ فلسطین اور عرب ممالک کے سلسلے میں اختیار کیا کرتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بقلم: طلال سلمان
ترجمہ: فرحت حسین مہدوی
https://www.raialyoum.com

 

اسرائیل کیوں شام کے آگے مبہوت؟

  • ۳۸۵

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ کے مطابق، اسرائیلی پارلیمنٹ میں خارجہ اور دفاعی امور کی کمیٹی کی رکن کیسینا سیوتلویا نے جو بیان دیا ہے اور جس میں انہوں نے کہا کہ جب سے روس سے شام کو میزائل ڈیفنس سسٹم ایس-۳۰۰ ملا ہے تب سے اسرائیلی جنگی طیاروں نے شام کی فضائی حدود میں کوئی بھی پرواز نہیں کی، یہ بہت ہی اہم بات ہے ۔
کیوں کہ اس سے اسرائیل کے ان گزشتہ دعوؤں کی پول کھل جاتی ہے جس میں اس نے کہا تھا کہ ایس-۳۰۰ میزائل ڈیفنس سسٹم مل جانے کے بعد بھی شام کی فضائی حدود میں اسرائیلی طیاروں کی پروازیں جاری رہیں گی بلکہ میزائل سسٹم ملنے کے بعد اسرائیلی جنگی طیاروں نے شام کے اندر کچھ حملے بھی کئے ۔
اسرائیلی وزیراعظم بنیامن نتن یاہو نے ستمبر میں روس کا ایل-۲۰ طیارہ اسرائیل کی وجہ سے سرنگوں ہونے کے بعد مسئلے کے حل کے لئے کئی بار روسی صدر ولادیمیر پوتین سے ملاقات کی کوشش کی تاہم پوتین نے نتن یاہو سے ملنے سے انکار کر دیا۔
 
نتن یاہو نے کئی بار یہ بھی اشارہ کیا کہ اسرائیل، روس سے شام کو ملنے والے میزائلوں کو تباہ کرنے کی توانائی رکھتا ہے جن کی وجہ سے علاقے میں طاقت کا توازن بدل گیا ہے ۔ نتن یاہو نے یہ خبریں بھی لیک کروائیں کہ اسرائیل کے پاس امریکی ساخت کے ایف- ۳۵ جنگی طیارے موجود ہیں جو رڈار کی پہنچ سے باہر رہتے ہوئے بمباری کرنے میں کامیاب ہوتے ہیں تاہم امریکا نے اس طیارے میں فنی خرابی کی وجہ سے اسے واپس لے لیا ہے ۔
نتن یاہو کی سمجھ میں یہ بات نہیں آتی کہ صدر پوتین کو دھوکہ نہیں دیا جا سکتا ۔ پوتین شروع سے ہی نتن یاہو کی دوستی سے مطمئن نہیں تھے کیونکہ اس دوستی سے انہیں بہت نقصان پرداشت کرنا پڑتا تھا۔ اس لئے ہمیں لگتا ہے کہ جیسے ہی اسرائیل کی وجہ سے روس کا جاسوسی طیارہ سرنگوں ہوا پوتین کو نتن یاہو سے دوستی ختم کرنے کا اچھا موقع فراہم ہو گیا ۔
 
خاص طور پر اس لئے بھی کہ اسرائیلی وزیر ا‏عظم نے ساری ریڈ لائینیں پار کر لی ہیں اور لاذقیہ کے علاقے میں روس کی فضائی چھاونی سے کچھ کیلومیٹر کے فاصلے پر واقع شام کے فوجی ٹھکانے پر حملہ کرکے پوتین کی بے عزتی کرنے کی کوشش کی اور اسی کوشش میں روس کا جاسوس طیارہ سرنگوں ہوا جس پر اعلی خفیہ شعبے کے آفیسرز سوار تھے ۔
نتن یاہو جن کے جنگی طیاروں نے شام کے اندر ۲۰۰ سے زائد فضائی حملے کئے ہیں اب ایک بھی حملہ کرنے کی ہمت نہیں کر پا رہے ہیں کیونکہ انہیں اچھی طرح پتہ ہے کہ اگر انہوں نے حملہ کرنے کی کوشش کی تو اس پر روس اور شام کی جو بھی جوابی کاروائی ہوئی وہ پورے اسرائیل کو دگرگوں کر دے گی اور پھر ان کے لئے اسرائیل میں اپنی حکومت کا دفاع مشکل ہو جائے گا ۔ اسی لئے نتن یاہو خاموش بیٹھے ہوئے ہیں ۔
 
شام، جنگ سے ہونے والی تباہی کے بعد زیادہ طاقتور بن کر سامنے آیا ہے۔ صرف اس لئے نہیں کہ اس نے اس سازش کا سات سال تک مقابلہ کیا جسے عالمی اور علاقائی طاقتوں نیز اسرائیل نے مل کر تیار کیا تھا بلکہ اس لئے کہ اس جنگ کے دوران حکومت دمشق کا اصل ہدف سے ہٹانے والے کسی بھی تنازع میں نہیں الجھی حالانکہ اسرائیل نے اس کی بڑی کوشش کی ۔
نتن یاہو آنے والے دنوں میں بھی شام پر حملہ کرنے کی ہمت نہیں کر پائیں گے کیونکہ ان کا جواب وہاں تیار ہے اور اگر نتن یاہو اس سے الگ کچھ سوچتے ہیں تو ایک بار آزما کر دیکھ لیں ۔
عبد الباری عطوان
عالم اسلام کے مشہور تجزیہ نگار