حتی کہ امریکی صدر بھی یہودیوں سے ڈرتا ہے!

خیبر صہیونی تحقیقاتی ویب گاہ  کے مطابق، شام کے مرحوم سابق صدر حافظ الاسد پیچیدہ مسائل کے ادراک کے حوالے سے بہت ہی زیرک اور حیران کن صلاحیت کے حامل تھے۔ مجھے ان کے ساتھ ایک ملاقات کا موقع ملا تو وہاں ہم نے سابق امریکی صدر رچرڈ نکسن اور ان کے مشہور وزیر خارجہ ہنری کیسنگر کے ساتھ ان کی ملاقات کا تذکرہ کیا۔
صدر اسد نے اس ملاقات میں امریکی صدر نکسن اور ان کے جرمن نژاد یہودی مفکر اور وزیر خارجہ ہنری کسینگر کے واحد دورہ دمشق کے بعض واقعات کی طرف اشارہ کیا۔
یہ ملاقات اکتوبر کی شاندار جنگ کے چند مہینے بعد، سنہ ۱۹۷۴ع‍ کے اوائل میں انجام پائی۔ شام نے مصر کے ساتھ اس جنگ میں حصہ لیا اور یہ جنگ ۱۰ رمضان کی جنگ سے مشہور ہوئی۔
صدر اسد کو نہ تو رسمی بحث و مباحثوں کے دوران امریکی صدر کے ساتھ دو بدو ملاقات کا موقع نہیں دیا جا رہا تھا اور نہ ہی رسمی عشائیوں کے دوران اور ان کے بعد۔
صدر اسد کہہ رہے تھے: ہنری کیسنگر عشایئے سے پہلے، عشایئے کے دوران اور عشایئے کے بعد، ہمیں تنہا نہیں چھوڑ رہے تھے، چنانچہ میں ان سے اس موقع پر کوئی بات نہیں کرسکتا تھا۔
اگلے دن صبح کے وقت ہم نے اختتامی اجلاس کا انتظام کیا تا کہ اس دورے سے متعلق رسمی بیانیہ تیار کیا جائے، اور ہنری کیسنگر کا اصرار تھا کہ یہ اجلاس جلد از جلد ختم کیا جائے، کبھی اس بہانے سے کہ “صحافی دو ملکوں کے صدور سے ملاقات کے لئے بے چین ہیں”، اور کبھی اس بہانے سے کہ “طیارہ پرواز کے لئے تیار ہے”، اور کیسنگر کی یہ حرکتیں قدرتی طور پر مجھے مشتعل کررہی تھیں۔
میں نے پہلی بار نکسن کی طرف سے کیسنگر کو جواب دیا کہ “صحافی اس وقت تک انتظار کرسکتے ہیں جب تک کہ ہم اپنا یہ منفرد اجلاس اور اس کے نتائج کو مکمل نہ کریں۔ ان کی تشویش کو سنجیدہ نہ لیں کیونکہ یہ انتظار ان کے پیشے کا تقاضا ہے”۔
دوسری مرتبہ میں نے ان کے سامنے آکر سنجیدگی سے کہا: “جو طیارہ پرواز کے لئے تیار ہے، وہ صدر کا طیارہ ہے اور صدر ہی اس کے ٹھہرنے اور آڑنے کا وقت متعین کرتے ہیں، اور پائلٹ کو بھی اطاعت کرنا پڑتی ہے، لہذا کچھ دیر تک پرسکون رہیں، تا کہ ہماری بات چیت قدرتی ماحول میں، پرسکون انداز سے، بیہودہ دباؤ کے بغیر مکمل ہوجائے”۔
صدر اسد کہتے ہیں: میں اس وقت سوچ رہا تھا کہ کس طرح کیسنگر سے چھٹکارا پا لوں اور امریکی صدر کے ساتھ، حتی چند ہی دقیقوں تک، کچھ خفیہ بات چیت کروں۔ اور میں نے محسوس کیا کہ مرکزی دروازے کے ساتھ ایک دوسرا دروازہ بھی ہے چنانچہ میں نے خصوصی دفتر میں پہنچایا اور میں بھی داخل ہوا اور دروازہ اندر سے مقفل کیا۔ لیکن اسی وقت کیسنگر بھی آ ٹپکے اور دستک دینے لگے اور چلانے لگے کہ “میرے لئے دروازہ کھول دیں”۔
جس وقت میں اور نکسن چھوٹے کمرے میں موجود تھے، تو نکسن میرے قریب آئے اور ادھر ادھر دیکھ کر میرے کان میں سرگوشی کرتے ہوئے کہا: خبر دار، وہ [کیسنگر] ایک یہودی ہے!”۔
میرے چہرے پر حیرانگی کے آثار نمایاں تھے، تو صدر حافظ الاسد مرحوم نے کہا: ہاں جناب! حتی کہ امریکہ میں صدر بھی یہودیوں سے ڈرتے ہیں اور ہمیں ہرگز ہرگز امریکی حکومت میں صہیونیوں کے اثر و رسوخ اور وہاں کی فیصلہ سازی پر یہودیوں کی اثراندازی کو نہیں بھولنا چاہئے اور یہ حادثہ اس امریکی موقف کی تفصیل ہے جو وہ فلسطین اور عرب ممالک کے سلسلے میں اختیار کیا کرتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بقلم: طلال سلمان
ترجمہ: فرحت حسین مہدوی
https://www.raialyoum.com

 

آراء: (۰) کوئی رائے ابھی درج نہیں ہوئی
ارسال نظر آزاد است، اما اگر قبلا در بیان ثبت نام کرده اید می توانید ابتدا وارد شوید.
شما میتوانید از این تگهای html استفاده کنید:
<b> یا <strong>، <em> یا <i>، <u>، <strike> یا <s>، <sup>، <sub>، <blockquote>، <code>، <pre>، <hr>، <br>، <p>، <a href="" title="">، <span style="">، <div align="">
تجدید کد امنیتی