-
Monday, 6 July 2020، 01:42 AM
خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: منگل کی رات شام کے ’’السویداء، حمص اور دیرالزور‘‘ علاقوں میں شامی فوج کے ٹھکانوں کو صہیونی دشمن نے فضائی حملے کا نشانہ بنایا۔ شامی وزارت دفاع نے کہا ہے کہ منگل کی شب فضائی حملوں میں شامی فوج کے دو فوجی ہلاک اور چار دیگر زخمی ہوگئے۔ مغربی شام کے صوبہ حما کو بھی اسرائیلی فضائی حملوں نے نشانہ بنایا، جبکہ شام کی سرزمین میں متعدد دیگر مقامات کو بھی دشمن نے حالیہ راتوں حملوں کا نشانہ بنایا۔
اسی موضوع کے پیش نظر خیبر صہیون تحقیقاتی سینٹر نے شامی فوج کے ماہر اور ریٹائرڈ بریگیڈیئر جنرل "محمد عباس" کے ساتھ گفتگو کی ہے جسے ذیل میں بیان کرتے ہیں؛
خیبر: آپ شام میں پارلیمانی انتخابات کا اندازہ کیسے لگاتے ہیں اور آپ کے خیال میں آئندہ شام کی پارلیمنٹ کی ترجیحات کو کیا ہونا چاہئے؟
۔ حالیہ برسوں میں شام مضبوط اداروں کے وجود اور معاشرتی یکجہتی کی وجہ سے دشمنوں کے مقابل میں کھڑ ہونے کی کافی صلاحیت رکھتا ہے اور دوسری طرف ، شام کے دوستوں اور اتحادیوں نے ہمارے ملک کی حمایت کی ہے ، اور اس طرح ہم بین الاقوامی مسلح جنگ کے خلاف کھڑے ہیں۔ اس جنگ کا مقصد ملک کو تباہ کرنا تھا اور اب یہ جنگ معاشی جنگ کے مرحلے میں داخل ہوچکی ہے۔ وہ ہماری اسلامی اور قومی شناخت کو بھی ختم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اسی دوران، ہمارے دشمن ، جیسے اسرائیل اور ترکی ، شام کے قبیلوں کو آپس میں بھڑکا کر فرقہ وارانہ جنگ چھیڑنے کی کوشش کر رہے تھے۔
ابھی ضروری ہے کہ ملک اور شامی عوام کے استحکام کے حصول کے لئے پارلیمنٹ پوری طاقت کے ساتھ تشکیل پائے، اور شامی عوام آنے والے دنوں اور ہفتوں میں اپنے نمائندوں کا انتخاب کرنے کے لئے اقدامات کریں گے تاکہ اپنی سرنوشت اپنے ہاتھوں سے رقم کی جا سکے اور نئی قومی پیشرفتوں کا تعین کیا جاسکے۔ اس طرح سے معاشی، معاشرتی اور مقبول پالیسیاں زیادہ مکمل ہوں گی اور عوام کو چیلنجوں اور پریشانیوں کا سامنا کرنے کی طاقت میں اضافہ ہوگا۔ پارلیمنٹ ملک کی تعمیر نو کے ساتھ ساتھ ان لوگوں کی تعمیرنو میں بھی اہم کردار ادا کرے گی جو کہ زیادہ اہم ہے۔
خیبر: شام کے خلاف حالیہ امریکی پابندیوں، خصوصا قیصر قانون کے بارے میں آپ کا کیا تجزیہ ہے؟
شام کے خلاف امریکی پابندیاں 1970 کی دہائی سے موجود ہیں اور ان میں کوئی بدلاؤ نہیں آیا ہے اور اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ شام نے معاشرتی ترقی کی طرف قدم بڑھایا ہے۔ پابندیاں قانونی نہیں ہیں۔ کیونکہ قانون منصفانہ ہونا چاہئے، لیکن ہم اسے شامی عوام کے ساتھ امریکہ کی دشمنی کا نام دیتے ہیں، حقیقت یہ ہے کہ وہ معاشی جارحیت اور شام کا محاصرہ کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں تاکہ شام کو اپنے دوستوں اور اتحادیوں کے ساتھ تعاون کرنے سے روکیں لہذا وہ پابندیوں کا سہارا لیتے ہیں۔
حالیہ امریکی پابندیاں اس بات کی علامت ہیں کہ وہ شام کے خلاف داعش اور دیگر دہشت گرد گروہوں کی حمایت کے ذریعے کیے گئے حملوں میں ناکام ہو چکے ہیں۔ اور اس طرح شامی عوام کی مزاحمت اور ان کی فتح کو ختم کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ انہوں نے عوام کو بھوک اور افلاس کی حالت میں رکھنے کی پالیسی پر عمل کیا تاکہ شامی عوام اپنی حکومت کے مخالف ہو جائیں لیکن وہ اس پالیسی میں بھی ناکام ہوئے۔
خیبر: شام کی معیشت کو امریکی پابندیوں سے بچانے کے لئے آپ کے پاس کون سے متبادل راستے ہیں؟
شام کے پاس متنوع معیشت اور وسیع جغرافیہ ہے، اور شامی عوام باشعور اور با بصیرت ہیں۔ یہ لوگ باخبر، مضبوط اور متبادل راستے تلاش کرنے اور موجودہ صورتحال کا مقابلہ کرنے کے قابل ہیں اور تمام چیلنجوں کا مقابلہ کرنے کے لئے تیار ہیں۔ قیصر قانون در حقیقت قیصر وائرس ہے ، اور شامی عوام اس کا مقابلہ کر رہے ہیں ، اور ہمارے پاس متبادل حل ہیں ، خاص طور پر زراعت کے میدان میں ، ریاستہائے متحدہ کا مقابلہ کرنے کے لئے۔ شامی ماہر معاشیات امریکی دہشت گرد معاشی وائرس کے خلاف اپنی پوری طاقت کے ساتھ کھڑے ہیں۔
شام کو پہلے خود کفیل ہونا چاہئے اور پھر اتحادی اور ہمسایہ ممالک کے ساتھ معاشی معاہدے طے کرنا ہونگے جو داعش کے خلاف کھڑے ہیں، تاکہ ڈالر کو حاشیے میں لایا جا سکے۔ لہذا ، مزاحمتی محور ممالک اور امریکی دھشتگردی کے خلاف ممالک کو اپنی مقامی کنسیوں کا تبادلہ کرنا ہو گا۔ مقامی طور پر بھی ، شامی حکومت کو لوگوں کے لئے سہولیات فراہم کرنے کے لئے چھوٹے کاروباروں اور منصوبوں کی حمایت کرنا چاہئے۔ البتہ یہ کام کچھ عرصے سے جاری ہے۔
خیبر: اس ملک کی سرزمین پر ہونے والی وقتا فوقتا اسرائیلی جارحیت پر شام کا کیا رد عمل ہے خاص طور پر اس ملک میں جو ایرانی افواج کو خطرہ لاحق ہے اس کے حوالے سے آپ کا کیا کہنا ہے۔
سب سے پہلے ، میں یہ کہنا ضروری سمجھتا ہوں کہ شام میں ایرانی افواج نہیں ہیں، بلکہ ایرانی مشیر موجود ہیں جو ہمارے اتحادی ہیں اور امریکہ ، ترکی اور اسرائیل جیسے ممالک شامی مسلح افواج پر حملہ کر رہے ہیں، لیکن ان کے پاس بہانہ یہ ہے کہ شام میں ایرانی افواج موجود ہیں۔ شام میں ایران کی موجودگی شامیوں کے قومی فیصلے اور شام و ایران کے درمیان اتحاد کی وجہ سے ہے، تاکہ صہیونی اور امریکی جارحیت کا ڈٹ کر مقابلہ کیا جا سکے۔
امریکی اور صہیونی یہ اعلان کرکے شام کے عوام کو ایران کے خلاف بھڑکانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ وہ شام میں ایرانیوں پر حملہ کر رہے ہیں ، لیکن در حقیقت مزاحمتی ممالک کے مابین اتحاد ایک تاریخی اور مضبوط اتحاد ہے۔ امریکہ اور صیہونیوں کے یہ اقدامات بیکار ہیں۔ کیونکہ مزاحمت استحکام اور ثبات کا ایک عنصر ہے۔ خطے میں مزاحمتی قوتوں کے پاس طاقتور عناصر موجود ہیں جبکہ دہشت گرد اور امریکی تنظیموں میں ان عناصر کی کمی ہے۔