اسرائیل سیکولر طبقہ و مذہبی عناصر کے درمیان بڑھتی خلیج

  • ۴۲۹

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: فلسطینی سرزمینوں پر اسرائیل کے نام پر صہیونی حکومت میں پڑنے والی دراڑوں کی بنیاد پر یہ بات مشہور ہے کہ صہیونی معاشرہ میں آج مذہبی طرز فکر اور سکولرطبقہ کے درمیان شگاف کا ہم مشاہدہ کر سکتے ہیں ۔ این مختلف قسم کی دراڑوں میں مذہبی خیالات کے حامل لوگوں اور سیکولیرزم کے حامیوں کے درمیان واضح پھوٹ اور انکے درمیاں بڑھتی قابل غور خلیج حکومت کے لیے بہت سے چلینجز کا سبب بنی ہے اور ایسے موضوعات کے وجود میں آنے کا سبب بنی ہے مشکلات و دشواریوں کے جنم لینے کا سبب ہیں ہم ان مختلف مشکلات و چیلنجز میں سے دو کو بیان کر رہے ہیں :
الف) دینی قوانین و دستورات کا مسئلہ :
آج بر سر اقتدار حکومت وقت اور لوگوں کے درمیان یہ سوال پایا جاتاہے کہ اقتدار یھود کے ہاتھ میں رہنا چاہیے یا پھر یہودیوں کے ہاتھ میں؟ یہ مشکل اس بات کا سبب بنی ہے کہ حکومت وقت کے سامنے ایک تشخص و اعتبار کا بحران سامنے آئےجبکہ حکومت وقت ایک طرف تو اس کوشش میں ہے کہ اپنے آپکو سیکولر طرز فکر کے حامل کے طور پر پیش کرے دوسری طرف حکومت کے ستونوں اور دین کے رول کے درمیان بہت سے اختلافات کا بھی اسے سامنا ہے ۔ چنانچہ صہیونی حکومت کی قانونی حیثیت اور اسکا اعتبار و جواز یہودیوں کی دینی میراث کے اعتبار سے ٹکرا رہا ہے اور یہ دونوں چیزیں یعنی صہیونی حکومت کا اعتبار و یہودیوں کی دینی میراث کا اعتبار آپس میں تناقض آمیز نظر آ رہی ہیں ، اسی طرح روایتی یہودی طرز فکر میں حکومت کے سلسلہ میں دین کی اولویت اس دکھاوے سے بر سر پیکار ہے جس میں حکومت کی جانب سے سیکولر طرز فکر کی بنیاد پر لوگوں کی اولویت کی بات ہوتی ہے یعنی ایک طرف روایتی یہودی ہیں جو دین کی اولویت کی بات کرتے ہیں تو دوسری طرف حکومت وقت ہے جو سیکولرزم کی بنیاد پر لوگوں کی اولویت کی بات کرتی ہے جسکی بنیاد پر یہ تناقض اور بھی واضح ہو کر ابھر رہا ہے اور اس سلسلہ سے مختلف تنقیدوں اور بحثوں کا سلسلہ جاری ہے ۔
یہ نظریاتی تناقضات اور آپسی ٹکراو اس وقت میدان عمل میں آگے کے راستہ کو اپنے لئیے بند پاتے ہیں جب صہیونی حکومت کے نسل پرستانہ و قوم پرستانہ طبقاتی سلسلوں کا سامنا یہودیوں کے قوم پرستانہ کلچر سے اشکنازیوں ، سفاردیوں اور آفریقی یہودیوں نیز فلسطینی کی سرزمینوں پر رہایش پذیر اعراب سے ہوتا ہے ۔ چنانچہ دوسرے درجہ اور تیسرے درجہ کے یہودیوں اور وہاں رہایش پذیر عربوں کے اوپر حکومتی مشینریوں کی جانب سے ظلم روا رکھا جاتا ہے تو یہ ظلم اپنے آپ پہلے سے پائے جانے نظریاتی شگاف کو اور بھی دائمی و عمیق بنا دیتا ہے ۔
ب) چھوٹ اور امتیاز:
چاہے وہ دینی و مذہبی تنطیمیں اور پارٹیاں ہوں یا حریدی ہوں ان سبھی نے حکومتوں کے ساتھ اتحاد و جوڑ توڑ کر کے مذہبی خیال کے حامل افراد کے لیے بہت سے امتیازات حاصل کئیے ہیں اور یہی وہ پوائنٹ ہے جو اختلافات کے مزید بڑھنے کا سبب بنا ہے این اہم امتیازات میں ایک امتیاز یشیوا نامی مدارس کے تمام بچوں اور تمام مذہبی لڑکیوں کا فوج میں خدمت سے معاف ہونا ہے ۔
یہ فوج میں خدمت کا قانون وہ قانون ہے جس سے صہیونویوں کی جدید نسل بھاگ رہی ہے اور خاص کر حزب اللہ لبنان ، حماس اور جہاد اسلامی سے آخر کی ہونے والی چار لڑائیوں میں اسرائیل کو ملنے والی شکست کی بنیاد پر بعض جوانوں میں ایک خوف بیٹھ گیا ہے جو فوج میں بھرتی ہونے کی خدمت سے چھٹکارا چاہتے ہیں نتیجہ میں یہ شگاف بڑھتا جا رہا ہے ۔
علاوہ از ایں، بڑے اور وسیع گھرانوں یا کثیر العیال گھرانوں کی حکومت وقت کی طرف سے حمایت مذہبیوں کے درمیان عام ہے اور دینی مدارس و طلاب کی مالی مدد ایک اور ایسا امتیاز ہے جو سیکولر طبقہ کی اس اصل سے متضاد ہے جس کے بموجب تمام شہری برابر ہیں ۔
گزشتہ چند سالوں میں اس سلسلہ سے ہونے والے اعتراضات بڑھتے جا رہے ہیں جبکہ سیکولر و مذہبی طبقہ کے درمیان پائے جانے والے اس شگاف کے اور بھی اسباب ہیں جو اپنی جگہ لائق توجہ ہیں ۔

 

صہیونی غاصبانہ سیاست کے ناقد امریکی صحافی کا خوفناک اخراج

  • ۴۳۱

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: جم کلینسی( Jim Clancy, American broadcaster ) کے ٹویٹس کی داستان اس وقت شروع ہوئی جب شارلی ابڈو کے کسی مسئلے کے بارے میں انٹرنٹ کی فضا میں ان کے اور کچھ اسرائیلی حامیوں کے درمیان لفظی جنگ و جدال شروع ہوئی اور آخر کار جم کلینس کو خوفناک طریقے سے انکے عہدے سے برطرف کر دیا گیا۔ اٹانٹا میں سی این این کے مرکزی دفتر سے سرکاری ترجمان نے کلینسی کی برطرفی کا اعلان یوں کیا: ’’جم کلینسی کا اس کے بعد سی این این کے ساتھ کوئی رابطہ نہیں ہو گا۔ ’’ہم اس سے قبل ان کی تین دہائیوں سے زیادہ خدمت کے بابت ان کا شکریہ ادا کرتے ہیں اور ان کے لیے بہترین چیزوں کی امید رکھتے ہیں۔‘‘
کہانی کچھ یوں تھی کہ کلینسی اور چند صارفین کہ جنہیں وہ ’’ہاسبرا‘‘ (۱) کے اراکین جانتے ہیں کے درمیان کچھ ٹویٹس رد و بدل ہوئے اور اس مسئلہ پر کہ اسرائیلی شارلی ابڈو سے اپنے مجروح چہرے پر مرہم پٹی کے لیے سوء استفادہ کرتے ہیں کلینسی نے پورے صراحت سے صہیونیوں کی غاصبانہ سیاست کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے لکھا: ’’ایسے حال میں کہ فلسطینی بین الاقوامی عدالت کو جنگی جارحیت کے الزامات کے حوالے سے قانع کرنے کی کوئی امید نہیں رکھتے شہروں کی تعمیر ان کے مسئلے میں ان کی کامیابی واقعیت کے بہت قریب ہے۔‘‘ انہوں نے صہیونی میڈیا کے ذریعے جاری اسلاموفوبیا کے پروپیگنڈے کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا اور کہا: ’’ یہ عقیدہ کہ ہر مسلمان دھشتگرد ہے حقیقت کے خلاف ہے میری نظر میں امریکیوں کو اپنی ذہنیت بدلنا چاہیے‘‘۔
ان کی سب سے زیادہ مشکل ساز ٹویٹ اسرائیل کا حامی ایک صارف جو انسانی حقوق کی حمایت کے نام سے ٹویٹ کر رہا تھا کو یہ تھی: ’’ٹھہر جا، بچے! آج شب جمعہ میری رات ہے، تم اور تمہاری ہاسبرا ٹیم جاو بھیڑوں کے ریوڑ کی حفاظت کرو‘‘۔
حملے شروع ہوتے ہی، کلینسی نے پہلے تو بہت اچھے اچھے جواب دئے لیکن پھر اپنا اکانٹ ڈیلیٹ کر دیا لیکن ڈیلیٹ کرنے سے پہلے تک ان کے ٹویٹ پر ۲۰۰ لوگوں نے کامنٹس کر دئے تھے۔ کچھ ہی گھنٹوں بعد سی این این ویب سائٹ سے ان کی بیوگرافی ڈیلیٹ ہو گئی اور کچھ ہی دیر جیم کلینسی کے نام کے نیچے خدا حافظی کا پیغام لکھا ہوا آ گیا۔
مغربی میڈیا میں صہیونیزم کا وسیع نفوذ ایسا مسئلہ ہے جو حریت پسندوں، سماجی حقوق کے حامیوں اور نسل پرستی کے مخالفین کو بہت شدت سے اذیت پہنچاتا ہے۔
۱: Hasbara (یہ لفظ میڈیا میں اسرائیلی سیاست کو پھیلانے کی طرف اشارہ کے لیے استعمال ہوتا ہے)

 

دستاویزی فلم To Die In Jerusalem کی حقیقت کیا ہے؟

  • ۴۴۲

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: ھِلّا میڈالیا (Hilla Medalia) کو دستاویزی فلموں کے ذریعہ پہچانا جاتا ہے، یروشلم میں موت مڈالیا کی ایک ایسی فلم ہے جو راہیل لوی نامی ایک اسرائیلی لڑکی کی ذاتی زندگی کو پیش کرتی ہے جسے فلسطینی خاتون خودکش بمبار، آیت الاخراس Ayat al-Akhras.. الہراس نے کرۃ ہیویلیل Kiryat HaYovel’s کے اہم سپر مارکیٹ کے دروازے پر ایک خودکش حملہ میں دھماکے سے اڑا کر ہلاک کر دیا تھا۔
فلم “یروشلم میں موت” ( To Die In Jerusalem) اس حملہ کی خودکش داستان کے ساتھ دونوں ہی لڑکیوں کی ماوں کے نظریات کو کیمرہ کے ذریعہ پیش کر رہی ہے ۔ وہ چیز جو اس فلم کی داستان کو لائق توجہ بنا رہی ہے وہ قاتل و مقتول لڑکیوں کی آپس میں عجیب و غریب شباہت ہے دونوں کی ملتی جلتی شکل و صورت ناظرین کے لئیے حیرانی کا سبب ہے ، اس فلم کو امریکی چینل ایچ بی او H.B.Oنے نشر کیا۔
 
اس ڈاکومنٹری فلم کے سلسلہ سے ایک وبلاگر لکھتے ہیں: یہ ایک ایسی دستاویزی فلم ہے جو آیات الاخرس نامی لڑکی کے خود کش بم کے ذریعہ ہلاک ہونے والی ایک یہودی لڑکی موت کو پیش کرتی ہے ، یہ ایک ایسی مخصوص زاویہ دید پر مشتمل فلم ہے جو مبالغہ آرائی سے بھری ہوئی ہے اسکے برخلاف نیویارک ڈیلی نیوز نے شدید طور پر اس دستاویزی فلم کی بے طرفی کی حمایت کی ہے ۔اس اخبار کی بے نظیر حمایت اور اسی طرح دیگر امریکن اخباروں کا کھل کر اس کی حمایت میں کھڑا ہونا اس بات کا عندیہ ہے کہ میڈیا کا زنجیری حلقوں کی صورت ایک پورا سلسلہ ہے جو چاہتا ہے کہ ایک بار پھر اسرائیل کی دستاویزی فلموں کو فعال و متحرک کریں تاکہ اس کے ذریعہ اسرائیل کے کاموں اور اس کی جنایتوں کو جواز فراہم کرتے ہوئے اسکا ہاتھ کھلا رکھیں ۔خاص طور پر یہ کہ یہ لوگ اس بات سے اچھی طرح واقف ہیں کہ اسرائیل کو اپنا دامن داغدار پاک کرنے کے لئیے مختلف پہلووں میں حمایت کے ساتھ میڈیا و ذرائع ابلاغ سے مربوط امور میں تعلیم کی ضرورت ہے ابھی بہت کچھ ایسا ہے جسے اسے سکھانا ضروری ہے ۔
مغرب کے سربراہان و سرمایہ دار لوگ اس بات کی کوشش میں مشغول ہیں کہ ہر سال اسرائیلی ذرائع ابلاغ کی بنیادوں اور اس کے ذیلی شعبوں کو مضبوط کرتے ہوئے ان میں اضافہ کریں، اور اس سلسلہ سے اسرائیل کے مختلف ادارہ جات و فاونڈیشنز جیسے اقدار پر مبنی فلموں کے فاونڈیشن کی تمجید، اور انہیں کام میں رغبت دلانے کے لئیے انکی حوصلہ افزائی کرتے نظر آ رہے ہیں ، اسرائیلی سنیما کی اکیڈمی نے حالیہ چند برسوں میں اسکار کی طرز پر اس سے ملتے جلتے پروگرامز اور شو منعقد کئیے ہیں جن میں سے شایک افئیر کی طرف اشارہ کیا جا سکتا ہے ۔
بہر کیف! اس بات پر توجہ کی ضرورت ہے کہ حالیہ چند سالوں میں اسرائیل میں میڈیا و ذرائع ابلاغ سے جڑے ادارے بہت مضبوط ہوئے ہیں اور اسرائیل کے سٹلائیٹ چنیل کی فزونی کی مقدار اور پے در پے انکی بنیاد و تاسیس اسی بات کی بیان گر ہے ۔
“یروشلیم میں مرنے کے لئے” نے ۲۰۰۷ میں پیڈڈی ایوارڈ کے ساتھ مل کر، ایچ ڈی او کے دستاویزی فلموں کو جنم دیا.

............

فلسطینی نوجوانوں کی تعلیم و تربیت کے لیے صہیونی مراکز کے قیام کا اہم مقصد

  • ۴۳۰

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: سن ۱۹۴۸ میں فلسطین کے بہت سارے علاقوں پر ناجائز قبضہ کر کے عالمی صہیونیت نے اسرائیل کے نام سے ایک یہودی ریاست کے قیام کا اعلان کرتے ہی صدیوں سے اس سرزمین پر مقیم فلسطینیوں پر جارحیت، قتل و غارت اور ظلم و تشدد کا سلسلہ شروع کر دیا تھا۔
یہودی ریاست کے ظلم و تشدد کا مقابلہ کرنے کی غرض سے فلسطینی جوانوں نے مزاحمتی گروہ تشکیل دے کر اینٹ کا جواب پتھر سے دیا۔ اور قدم بہ قدم صہیونی ریاست کے مظالم کا منہ توڑ جواب دیتے رہے۔ آخرکار جب اسرائیلی عہدیداروں نے فلسطینی نوجوانوں کے اندر جذبہ مزاحمت اور جوش شہادت کو محسوس کیا تو ان کے خلاف مسلحانہ کاروائیوں کے علاوہ دوسرے منصوبے تیار کرنا شروع کئے۔
درج ذیل رپورٹ ملت فلسطین کے اندر صہیونی نفوذ کا ایک نمونہ ہے اس رپورٹ سے یہ واضح ہوتا ہے کہ صہیونی ریاست مختلف حربوں سے فلسطینیوں کے اندر نفوذ حاصل کرنے کی منصوبہ بندی کرتی ہے۔
 
اسرائیلی ریاست نے فلسطینیوں کے خلاف جہاں ایک طرف ’’سخت جنگ‘‘(Hard War) کا سلسلہ جاری رکھا وہاں دوسری طرف ’’نرم جنگ‘‘ (Soft War) کے ذریعے فلسطینی جوانوں کے جذبہ مزاحمت کو کمزور کرنے کی کوشش کی۔
نرم جنگ کے تحت انجام پانے والا صہیونی منصوبہ در حقیقت وہی امریکی منصوبہ ہے جو امریکیوں نے ’’سرخ پوست‘‘ اینڈین کے خلاف اور یورپ میں فرانیسیوں نے اس ملک کے مہاجرین کے خلاف اپنایا تھا۔
 
 اس اسٹراٹیجیک کا بنیادی مقصد یہ تھا کہ وہ مختلف حربوں کے ذریعے نوجوانوں کے اندر سے جذبہ مزاحمت کو ختم کریں اور انہیں اپنے دین، اپنی ثقافت، اپنی زبان اور اپنی فکر کا گرویدہ بنائیں۔ صہیونی ریاست نے اسی منصوبہ کو فلسطینی نوجوانوں پر آزمانے کے لیے فلسطین میں جگہ جگہ ’’امن کے لیے پرز مرکز‘‘(The peres center for peace) کے نام سے کئی مراکز قائم کئے ہیں۔
’’امن کے پرز مراکز‘‘
’’امن کے لیے پرز مراکز‘‘ کی ۱۹۹۶ میں اسرائیلی وزیر اعظم شیمون پرز کے ذریعے بنیاد رکھی گئی۔ جیسا کہ اس مرکز کے آئین نامے میں درج ہے اس مرکز کا مقصد علاقے مخصوصا مغربی کنارے، مقبوضہ قدس اور غزہ کی پٹی کے عوام کے درمیان امن کی ثقافت کو توسیع دینا اور انہیں ان مراکز کی تعمیر اور ترویج میں مشارکت کی تشویق دلانا ہے۔
    
فلسطینی معاشرے میں سرگرم ان مراکز کی سرگرمیاں ۳ سے ۲۵ سال کے نوجوانوں کے لیے مخصوص ہوتی ہیں اور انہیں تعلیمی، طبی، فن و ہنر، کھیل کود، کھیتی بھاڑی وغیرہ وغیرہ کی خدمات فراہم کی جاتی ہیں۔
ان مراکز کے آئین نامے کے مطابق، امن کے مراکز کا اصلی مقصد فلسطینی ۔ اسرائیلی باہمی تعاون کے لیے مناسبت پلیٹ فارم فراہم کرنا ہے۔
امن کے پرزمراکز کی سرگرمیاں
یہ مراکز ’’امن کے لیے تعلیم و تربیت‘‘ کے شعار کو اپنا سرلوحہ قرار دے کر نوجوانوں کو اپنی طرف کھینچنے کی کوشش کر رہے ہیں اور انہیں اسرائیلی مقاصد کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرنے سے روکنے اور مزاحمت کی راہ سے دوری اختیار کرنے کی ترغیب دلاتے ہیں۔
    
خیال رہے کہ فلسطینی ایسے حال میں امن اور صلح کی بات کرتے ہیں کہ اس غاصب صیہونی ریاست کے جنگی طیارے شب و روز فلسطینی باشندوں پر بم گرا کر انہیں خاک و خوں میں غلطاں کرتے ہیں۔
         
یہودی ریاست ایک طرف سے امن کے مراکز قائم کر کے فلسطینی نوجوانوں کے اندر سے اپنے حقوق کی بازیابی اور اپنی زمینوں کو واپس لینے کے لیے جد و جہد کے جذبے کو ختم کر رہی ہے جبکہ دوسری طرف مقبوضہ فلسطین میں یہودی بچوں کے لیے اسلحہ کی ٹریننگ کے مراکز قائم کر کے انہیں فلسطینیوں کے خلاف لڑنے کے لیے بچپن سے ہی آمادہ کر رہی ہے۔

 

یہودی ریاست کی تشکیل کے مراحل

  • ۴۶۵

خیبر صہیون ریسرچ سینٹر: فلسطین پر انگریزوں کے قبضے اور لارڈ بالفور کے اعلان سے یہودیوں کے طویل المیعاد منصوبے کا پہلا مرحلہ مکمل ہو گیا۔ ۱۸۸۰ء سے شروع پر کر ۱۹۱۷ء تک اس مرحلے کی تکمیل میں سینتیس سال صرف ہوئے۔ اس کے بعد اس منصوبے کا دوسرا دور شروع ہوا جس میں مجلس اقوام اور اس کی اصل کار فرا دو بڑی طاقتوں، برطانیہ اور فرانس نے بالکل اس طرح کام کیا گویا وہ آزاد سلطنتیں نہیں ہیں۔ بلکہ محض صہیونی تحریک کی ایجنٹ ہیں۔ ۱۹۲۲ء میں مجلس اقوام نے فیصلہ کیا کہ فلسطین کو انگریزوں کے انتداب (Mandate) میں دے دیا جائے۔ اس موقع پر فلسطین میں جو مردم شماری کرائی گئی تھی اس میں مسلمان عرب ۶۶۰۶۴۱ عیسائی عرب ۱۵۶۴ اور یہودی ۸۲۷۹۰ تھے اور یہودیوں کی اتنی آبادی بھی اسی وجہ سے تھی کہ وہ دھڑا دھڑ وہاں جا کر آباد ہو رہے تھے۔ اس پر بھی مجلس اقوام نے برطانیہ کو انتداب کا پروانہ دیتے ہوئے پوری بے شرمی کے ساتھ یہ ہدایت کی کہ یہ اس کی ذمہ داری ہو گی کہ فلسطین کو یہودیوں کا قومی وطن بنانے کے لیے ہر طرح کی آسانیاں فراہم کرے۔ صہیونی تنظیم کو سرکاری طور پر باقاعدہ تسلیم کر کے اسے نظم و نسق میں شریک کرے اور اس کے مشورے اور تعاون سے یہودی قومی وطن کی تجویز کو عملی جامہ پہنائے۔ اسکے ساتھ وہاں کے قدیم اور اصل باشندوں کے لیے صرف اتنی ہدایت پر اکتفا کیا گیا کہ ان کے مذہبی اور شہری حقوق کا تحفظ کیا جائے۔ یہ انتداب حاصل کرنے کے بعد یہودیوں کو فلسطین میں لا کر بسانے کا باقاعدہ سلسلہ شروع کر دیا گیا۔ فلسطین کا پہلا برطانوی ہائی کمشنر سرہربرٹ سیمویل خود ایک یہودی تھا۔ صہیونی تنظیم کو عملاً حکومت کے نظم و نسق میں شریک کیا گیا اور اس کے سپرد نہ صرف تعلیم اور زراعت کے محکمے کے گئے بلکہ بیرونی ملکوں سے لوگوں کے داخلے اور قومیت کے معاملات بھی اس کے حوالے کر دئے گئے۔ ایسے قوانین بنائے گئے جس کے ذریعے باہر کے یہودیوں کو فلسطین میں آکر زمینیں حاصل کرنے کی پوری سہولتیں دی گئیں۔ مزید برآں ان کو زمینیں کاشت کرنے کے لیے قرضوں اور دوسری سہولتوں سے بھی نوازا گیا۔ عربوں پر بھاری ٹیکس لگائے گئے اور ٹیکسوں کے بقایا پر ہر بہانے عدالتوں نے زمینیں ضبط کرنے کی ڈگریاں دینی شروع کر دیں۔ ضبط شدہ زمینیں یہودیوں کے ہاتھ فروخت کی گئیں اور سرکاری زمینیوں کے بھی بڑے بڑے رقبے یہودی نوآباد کاروں کو کہیں مفت اور کہیں برائے نام پیسے لے کر دئے گئے۔ بعض مقامات پر کسی نہ کسی بہانے پورے عرب گاؤں صاف کر دئے گئے اور وہاں یہودی بستیاں بسائی گئیں۔ ایک علاقے میں تو آٹھ ہزار عرب کاشتکاروں اور زرعی کارکنوں کو پچاس ہزار ایکٹر زمینوں سے حکماً بے دخل کر دیا گیا اور ان کو فی کس تین پونڈ دس شلنگ دے کر چلتا کیا گیا۔ ان تدبیروں سے سترہ سال کے اندر یہودی آبادی میں غیر معمولی اضافہ ہوا۔ ۱۹۲۲ء میں وہ بیاسی ہزار سے کچھ زائد تھے ۱۹۳۶ء میں ان کی تعداد ساڑھے چار لاکھ تک پہنچ گئی۔ اس سے صاف ظاہر ہے کہ انگریز فلسطین میں صرف صہیونیت کی خدمت انجام دیتے رہے اور ان کے ضمیر نے ایک دن بھی ان کو یہ احساس نہ دلایا کہ کسی ملک کی حکومت پر اس کے اصل باشندوں کے بھی کچھ حقوق ہوتے ہیں جن کی نگہداشت کرنا اس کی اخلاقی ذمہ داری ہے۔
جنگ عظیم دوم کے زمانے میں معاملہ اس سے بہت آگے بڑھ گیا۔ ہٹلر کے مظالم سے بھاگنے والے یہودی ہر قانونی اور غیر قانونی طریقے سے بے تحاشا فلسطین میں داخل ہونے لگے۔ صہیونی ایجنسی نے ان کو ہزاروں اور لاکھوں کی تعداد میں ملک کے اندر گھسانا شروع کیا اور مسلح تنظمیں قائم کیں جنہوں نے ہر طرف مار دھاڑ کر کے عربوں کو بھگانے اور یہودیوں کو ان کی جگہ بسانے میں سفاکی کی حد کر دی۔ انگریزی انتداب کی ناک کے نیچے یہودیوں کو ہر طرح کے ہتھیار پہنچ رہے تھے اور وہ عربوں پر چھاپے مار رہے تھے۔ مگر قانون صرف عربوں کے لیے تھا جو انہیں ہتھیار رکھنے اور ظلم کے جواب میں مدافعت کرنے سے روک رہا تھا۔ البتہ برطانوی حکومت جان بچا کر بھاگنے والے عربوں کو نقل مکانی کی سہولتیں فراہم کرنے میں بڑی فراخ دل سے کام لے رہی تھی تھی۔ اس طرح ۱۹۱۷ء سے ۱۹۴۷ء تک تیس سال کے اندر یہودی منصوبے کا دوسرا مرحلہ مکمل ہوا جس میں وہ اس قابل ہو گئے کہ فلسطین میں ان کی “قومی ریاست” قائم کر دیں۔

 

صہیونیت کے دو اہم منصوبے

  • ۴۸۷

خیبر صہیون ریسرچ سینٹر: اسرائیل کے قیام کے بعد صہیونیت کے پیش نظر منصوبہ جات میں بظاہر دو اہم منصوبے یہ ہیں:
۱: حضرت سلیمان(ع) کا تعمیر کردہ ہیکل سلیمانی (جو ایک دفعہ ۵۶۷ ق م میں نمرود بادشاہ بخت نصر نے گرایا تھا جس کے بعد انہوں نے دوبارہ تعمیر کر لیا تھا۔ دوسری مرتبہ رومی حملہ آور جرنیل ٹائٹس نے ۷۰ء میں گرایا تھا جو اب تک ۱۹۵۰ سال سے گرا پڑا ہے) کو تیسری مرتبہ تعمیر کرنا۔
۲: صہیونیت کا اسرائیل کے ذریعے ساری دنیا پر قبضہ اور قرضوں کی معیشت کے ذریعے عالمی حکومت کا قیام۔
ان دونوں منصوبوں پر مختصر نگاہ ڈالتے ہیں:
ہیکل سلیمانی کی تیسری تعمیر
یہود اور در اصل صہیونیت بزعم خویش حضرت موسی (علیہ السلام) کے بعد آنے والے بہت سارے پیغمبروں کے قتل اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) اور پیغمبر آخر الزمان حضرت محمد (صلی اللہ علیہ و آلہ) کے من حیث القوم انکار کے باوجود ارض مقدس یروشلم پر اپنا حق سمجھتی ہے( حالانکہ یہ کسی قاعدے اور قانون کے مطابق ان کا نہیں ہے) آسمانی ہدایات میں تو ان کے انکار مسیح(علیہ السلام) کے بعد ان کو سزا کے طور پر وہاں سے نکالا گیا تھا بعد از آں انبیائے کرام کی یادگاریں حضرت محمد (صلی اللہ علیہ و آلہ) پر تسلسل کے ساتھ ایمان لانے والوں کا ہی حق ہے اور ایسے مقامات مقدسہ اللہ تعالیٰ ہمیشہ بعد کے انبیاء کرام( علیہم السلام) کی امتوں کے ہی حوالے کرتا رہا ہے یہی سنت الہی ہے۔
تاہم ظلم، جبر، استحصال، جائز ناجائز ہتھکنڈوں، ابلیسی چالوں، شراب، عورت، جوا، بے حیائی اور سود کے ذریعے عالمی وسائل پر قبضہ کر کے صہیونیت نے حیلوں بہانوں سے گزشتہ تین صدیوں سے عالمی معیشت پر مکمل کنٹرول حاصل کر لیا ہے اور علمی اور سیاسی منظر پر سامنے آکر جنگ کے بعد کوئی علاقہ فتح کر کے حکومت بنانے کے بجائے سازشوں سے اسرائیل کی حکومت کی حفاظت عالمی طاقتوں اور “یو این او”، “آئی ایم ایف” اور “ڈبلیو بی” کے ذریعے کرا رہی ہے۔
صہیونیت کا پہلا اہم منصوبہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے ہیکل سلیمانی کی تیسری تعمیر ہے۔ یہود کے پاس مالی وسائل بہت ہیں۔ ٹیکنالوجی بھی ہے نقشہ جات بھی ۱۹۹۲ سے تیار شدہ ہیں۔ مگر وہ منصوبہ شروع اس وجہ سے نہیں ہو پا رہا ہے کہ عین اس جگہ جہاں وہ ہیکل تعمیر ہونا ہے وہاں مسلمانوں کی عظیم یادگار اور تاریخی مسجد مسجد اقصیٰ ہے جو مسلمانوں کا قبلہ اول بھی تھا اور جہاں سے آخری نبی نے معراج کا سفر میں بھی شروع کیا۔
لہذا ہیکل سلیمانی کی تعمیر اس صورت میں ممکن ہو سکتی ہے جب مسجد الاقصیٰ کو مسمار کیا جائے جبکہ فلسطین کے بہادر مسلمان گزشتہ کئی سالوں سے اس کام کی راہ میں رکاوٹ بنے ہوئے ہیں اور دنیا کے دیگر مسلمان بھی کبھی صہیونیوں کو اس بات کی اجازت نہیں دیں گے۔
عالمی حکومت کا قیام
صہیونیت کا دوسرا ابلیسی منصوبہ یہ ہے کہ آج دنیا کو جو انہوں نے بے حیائی، عریانی فحاشی کے جس موڑ پر لاکھڑا کر دیا ہے وہاں سے آگے لے جا کر بے حیائی اور بدکاری کو اتنا عام کر دیا جائے کہ انسان اور جانور میں تمیز مشکل ہو جائے اور لوگ جانوروں کی طرح سرراہ بدکاری اور بے حیائی کے کام کر رہے ہوں۔ مغرب میں تو ان قوموں کا یہ نقطہ کمال عام طور پر بھی نظر آتا ہے مگر خاص طور پر گرمی کے موسم میں جب دھوپ تاپنے کے بہانے ساحلوں کی ریت پر برہنا پڑے انسان نما جانوروں کی صورت میں بھی مشاہدہ کیا جا سکتا ہے۔ واقعا یہ معاشرہ حیوانی سطح تک اتر آیا ہے اور اس گراوٹ میں میڈیا کا بہت بڑا ہاتھ اور صہیونیت کے ماسٹر دماغ ( MASTER MINDS) فلم کلچر اور سیر و تفریح کے نام پر یہ سب کچھ کرا رہے ہیں۔
ایسی افسوسناک صورتحال کو انسانی معاشرے کے لیے وجود میں لانے کے بعد یہود کا چالاک ذہن آگے بڑھ کر یہ کہتا ہے کہ جب انسان اس طرح حیوانیت پر اتر آیا ہے تو وہ چونکہ معاملات دنیا کو کما حقہ نہیں چلا سکتا لہذا یہود ہیں جو دنیا کو بہترین انداز میں چلا سکتے ہیں۔
یہود کے دو طبقے ہیں ایک مذہبی یہودی اور دوسرے لبرل یہودی۔ لبرل یہودی قوم ہر طرح کی اخلاقی گمراہیوں میں غرق ہیں تاہم مذہبی یہودی عام طور پر اپنے آپ کو ان برائیوں سے بچاتے ہیں۔ ایک راوی کے مطابق امریکہ میں نیویارک سے باہر یہود کی بستیاں ہیں اور ان مذہبی یہودیوں کے گھروں میں ٹی وی تک بھی موجود نہیں ہے کہ یہ اخلاق خراب کرتا ہے ان کے ہاں پردہ ہے اپنے مذہبی شعائر ہیں۔ بظاہر یہ دو قسم کے یہودی ہیں مگر نظریات میں دونوں ایک ہیں۔ ایک عالمی یہودی ریاست کا قیام ان دونوں کا مشترکہ مطمع نظر ہے۔
منبع: کتاب صہیونیت قرآن مجید کے آئینہ میں

 

تسخیر عالم کا صہیونی خواب

  • ۴۳۳

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: صہیونیوں کے دانا بزرگوں کی دستاویزات میں جگہ جگہ ایک سپر گورنمنٹ کا ذکر کیا گیا ہے۔ مثلاً چھٹی دستاویز میں کہا گیا ہے کہ” ہمیں ہر ممکنہ ذریعہ سے ایک ایسی سپر گورنمنٹ کی اہمیت کو اجاگر کرنا ہے جو رضاکارانہ طور پر اطاعت قبول کرنے والوں کو مکمل تحفظ کی ضمانت دے سکے”۔
وکٹر۔ ای۔ مارسڈن ( جس نے ان دستاویزات کا ترجمہ روسی زبان سے انگریزی میں کیا) نے ان دستاویزات کے تعارف میں اقوام متحدہ کو اسی سپر گورنمنٹ کی طرف ایک قدم قرار دیا ہے۔
اس منصوبہ کو بروئے کار لاتے ہوئے اول لیگ آف نیشنز قائم کی گئی اور بعد میں اقوام متحدہ کا قائم عمل میں لایا گیا۔
اس پس منظر میں اقوام متحدہ پر یہودیوں کے تسلط کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اقوام متحدہ کے دس اتنہائی اہم اداروں میں ان کے اہم ترین عہدوں پر ۷۳ یہودی فائز ہیں۔ اقوام متحدہ کے صرف نیویارک کے دفتر میں بائیس شعبوں کے سربراہ یہودی ہیں اور یہ سب کے سب انتہائی حساس شعبے ہیں جو اس بین الاقوامی تنظیم کی پالیسیاں مرتب کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر یونیسکو میں نو شعبوں کے سربراہ یہودی ہیں۔ آئی۔ ایل۔ او( I.L.O) کی تین شاخیں یہودی افسران کی تحویل میں ہیں۔ ایف۔ اے۔ او (F.A.O) کے گیارہ شعبوں کی سربراہی یہودیوں کے پاس ہے۔ عالمی بینک (WORLD BANK) میں چھ اور انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ (I.M.F) میں نو شعبوں کے سربراہ وہ لوگ ہیں جن کا تعلق یہودیوں کی عالمی تنظیم سے ہے۔ یہ تمام عہدے جو یہودیوں کے پاس ہیں انتہائی اہم اور حساس ہیں اور یہ لوگ ان کے ذریعے تمام بین الاقوامی امور پر اثر انداز ہو رہے ہیں۔ اس کے علاوہ بے شمار یہودی اور ان کے گماشتے ہرہر شعبے میں موجود ہیں۔ ذرا اندازہ لگائیے کہ اگر یہ افراد کسی مرکزی تنظیم کے زیر اثر کام کر رہے ہوں تو وہ عالمی سیاسیات، معاشیات اور مالیات کا رخ جس سمت چاہیں موڑ سکتے ہیں اور بعینہ یہی وہ کام ہے جو وہ سر انجام دے رہے ہیں۔
بہت سے لوگوں کو یہ معلوم ہو کر حیرت ہو گی کہ دنیا کے تمام ممالک میں یہودیوں کی خفیہ تنظیمیں کام کر رہی ہیں۔ بہت سے ملکوں میں انہیں اپنی علیحدہ کوئی تنظیم قائم کرنے کی بھی ضرورت محسوس نہیں ہوتی چونکہ ان کے اپنے آدمی خفیہ طور پر ان ملکوں میں اہم مناصب پر تعینات کروائے جا چکے ہیں جہاں بیٹھ کر وہ ہر کام کروا سکتے ہیں جس کی انہیں ضرورت ہے۔ مثال کے طور پر بدنام زمانہ سی۔ آئی۔ اے (C.I.A) ان کے انگوٹھے کے نیچے ہے جسے براہ راست اسرائیل سے ہدایات ملتی ہیں۔

 

اسرائیل کی جعلی مظلومیت کو ثابت کرنے کے لیے میڈیا کی الفاظ تراشی

  • ۴۴۴

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: فلسطین کے حالات منعکس کرنے میں مغربی میڈیا کی یہ بھرپور کوشش ہوتی ہے کہ فلسطین کے واقعات کو سنسر کر کے بیان کرے جبکہ دوسری جانب اسرائیل کے لئے یہی میڈیا ایسے الفاظ انتخاب کرتا ہے جن سے تشدد اور دھشتگردی کا مفہوم واضح نہ ہو۔ بی بی سی جسکا یہ دعویٰ ہے کہ وہ غیر جانبدارانہ نیوز ایجنسی ہے وہ کبھی بھی اسرائیل کے لیے ’’ٹرور‘‘ کا لفظ استعمال نہیں کرتی چونکہ اس لفظ سے تشدد اور دھشت کا مفہوم ذہن میں منتقل ہوتا ہے جبکہ اسی لفظ کو ہمیشہ ان نہتے فلسطینیوں کے بارے میں استعمال کرتی ہے جو اپنی جان و مال کا دفاع کرنے میں مصروف ہیں انہیں عام طور پر دھشتگرد پہچنواتی ہے۔
مثال کے طور پر امریکہ کا معروف اخبار نیویارک ٹائمز، یہودیوں کے خلاف نازیوں کی جھوٹی جارحیت کے بارے میں ہر طرح کا نازیبا لفظ استعمال کرنے سے گریز نہیں کرتا اور تمام من گھڑت جزئیات کو بھی بیان کرتا ہے لیکن یہی اخبار فلسطین اور غزہ میں اسرائیل کے ہاتھوں کئے جانے والے قتل عام کا تذکرہ تک بھی نہیں کرتا اور کہتا ہے: ’’حالیہ مہینوں میں اسرائیل کی جانب سے کچھ خاص افراد کو ٹارگٹ بنائے جانے نے فلسطینی عوام کو غضبناک کر دیا ہے‘‘   دوسری جگہ پر فلسطینی شخصیتوں کے ٹرور کئے جانے کو ’’سیاست میں تبدیلی‘‘ کے الفاظ سے بیان کرتا ہے۔
اسرائیلی ریاست اپنے حامی ذرائع ابلاغ میں فلسطینی عوام کے قتل عام کے بارے میں؛ ’’صفایا کرنا، روکنا، یہودیوں کے تحفظ کے لیے اقدامات، بامقصد ٹارگٹ کلنگ‘‘ جیسی تعبیریں استعمال کرواتی ہے۔
مثال کے طور پر یروشلیم پوسٹ   نیوز ایجنسی لکھتی ہے: سلامتی کابینہ کے رکن وزیر ’’ماٹن ویلنائے‘‘ نے آرمی ریڈیو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ وہ ہدفمند ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ جاری رکھنے کا ارادہ رکھتے ہیں‘‘۔
اسرائیل کے بارے میں استعمال کئے جانے والے الفاظ میں میڈیا کی باریک بینی اس بات کی علامت ہے کہ اسرائیل یا عالمی صہیونیت، دنیا والوں کے ذہنوں میں اپنی مظلومیت اور بے گناہی کا نقشہ کھینچنے کی کوشش کرتی ہے۔  

 

موساد کے خونی ہاتھ

  • ۳۷۹

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: شائد آپ نے تاحال موساد کے بارے میں کچھ نہیں سنا ہو گا۔ موساد وہی اسرائیل کی خفیہ ایجنسی کا نام ہے کہ جس کا اصلی کام، بین الاقوامی سطح پر جاسوسی کرنا ہے۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد دسیوں ہزار جاسوس اپنے گھروں کو واپس پلٹے لیکن ان میں بہت سارے جاسوس ایسے بھی تھے جو اپنے ملکوں میں واپس جانے کے بجائے اپنے خیال کے مطابق ’’سرزمین موعود‘‘ کی طرف چلے گئے اور اسرائیل کے پہلے وزیر اعظم ’’بن گورون‘‘ کے حکم سے ان کی ہاگانا (Haganah) نامی فوج  میں شامل ہو گئے اور اسی فوج سے موساد گروہ تشکیل دیا گیا۔
یہودی ایجنسیوں کی رہنمائی میں کام کرنے والی فوج ہاگانا، کئی فوج مانند ٹولوں جیسے بیتار، ائرگون اور لحی وغیرہ کو وجود میں لانے کا باعث بنی کہ جنہوں نے ’’دریاسین‘‘ اور دو گاؤں ’’اللد‘‘ اور ’’الرملہ‘‘ میں جارحیت کی۔ حیفا میں بم بلاسٹ کروائے ’’ملک داؤود‘‘ نامی ہوٹل کو منہدم کیا۔ ان ٹولوں کے جرائم اس قدر بھیانک تھے کہ 1948 میں اسرائیل کی فوج جب یافا شہر میں داخل ہوئی تو فلسطینیوں نے اپنی جانوں کے خوف سے گھر بار چھوڑ دئے اور شہر سے بھاگ گئے۔ اور اس شہر پر صہیونیوں نے غاصبانہ کر لیا۔
قابل توجہ بات یہ ہے کہ موساد کے سابق رکن اور کتاب( by way of deception) کے رائٹر ’’وکٹر اسٹرفسکی‘‘ سے موساد کے ذریعے کئے جانے والے قتل عام کے بارے میں جب سوال کیا گیا تو انہوں نامہ نگاروں کو کوئی جواب نہیں دیا اور صرف اپنا استعفیٰ دے کر موساد کے وحشیانہ قتل سے اظہار نفرت کا اعلان کیا۔
تاہم موساد اسرائیلی حکومت کو سکیورٹی دینے کے بہانے، کئی افراد کے خون سے اپنے ہاتھ رنگین کر چکی ہے جن میں محمود المبوح، شیخ احمد یاسین، عبد العزیز رنتیسی، سعید صیام، جرمنی کے ہائنتز کروگ، ہربرتز کوکرز، محمود ہمشاری، ڈاکٹر یحیٰ المشاد، عماد مغنیہ اور فتحی شقاقی وغیرہ کا نام لیا جا سکتا ہے۔

مہلک کورونا وائرس پھیلانے میں امریکہ اور اسرائیل کا کردار

  • ۴۲۵

خیبر صہیون تحقیقاتی سینٹر: اسرائیلی اخبار یروشلم پوسٹ نے مشرق وسطیٰ پر تحقیقات کرنے والے انسٹی ٹیوٹ MEMRI سے نقل کرتے ہوئے لکھا ہے کہ مختلف ذرائع سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ چین کی اقتصادی طاقت کو لگام پہنانے اور لوگوں کے اندر نفساتی جنگ پیدا کرنے کی غرض سے امریکہ اور اسرائیل نے کرونا وائرس بنا کر چین میں پھیلایا۔  
نیز سعودی اخبار الوطن نے دعویٰ کیا ہے کہ ایبولا ، زیکا ، سارس ، برڈ فلو ، سوائن فلو سے لے کر کرونا وائرس تک ، سب کے سب خطرناک وائرس امریکی لبارٹریوں میں بنائے اور مختلف ملکوں میں پھیلائے جاتے ہیں۔ جس کا اصلی مقصد لوگوں میں نفسیاتی جنگ کی صورت پیدا کرنا اور دواؤں کی بڑی بڑی کمپنیوں سے کمیشن حاصل کرنا ہوتا ہے۔  
اس اخبار نے مزید لکھا ہے کہ امریکہ نے ایک نئی قسم کی بیالوجیکل وار کا آغاز کر دیا ہے ، جس کے ذریعے وہ دنیا میں کھیل کے اصولوں کو اپنے فائدے میں تبدیل کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔
اس رپورٹ کے مطابق، اس وباء کے لئے ایک منصوبہ بند اقتصادی پروپیگنڈا رچایا گیا ہے، کیوں کہ اس کے پیچھے جو ماسٹر مائنڈ ہے اس کا خیال ہے کہ چین کو ہنگامی علاج معالجہ، قرنطینہ اور دوا کی خریداری میں اربوں ڈالر خرچ کرنے پڑیں گے اور آخر کار اس بیماری کی دوا ایک اسرائیلی کمپنی کے ذریعے انکشاف کی جائے گی۔
اس رپورٹ سے معلوم ہوتا کہ دوا بنانے والی اسرائیلی اور امریکی کمپنیوں نے یہ وائرس پھیلا کر اپنی دوائیں بیچنے کا راستہ ہموار کر لیا ہے۔