یہودیت اور صہیونیت میں فرق

  • ۴۹۷

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: آج کے صہیونی معاشرے کی جڑیں در حقیقت یہودی آئین و تاریخ میں پیوستہ ہیں۔ دوسرے لفظوں میں، صہیونیت یہ کوشش کر رہی ہے کہ تمام یہودی فرقوں کو ایک ہی عنوان کے نیچے جمع کرے۔ یہ ایسے حال میں ہے کہ دنیا کے مختلف یہودی فرقوں کا توریت کی نسبت نقطہ نظر مختلف ہے۔ جیسا کہ بعض کا عقیدہ ہے کہ یہ کتاب حضرت موسی(ع) کے بعد لکھی گئی ہے۔
یہودیت اور صہیونیت میں بنیادی فرق
اصطلاح میں یہودی اسے کہا جاتا ہے جو حضرت موسیٰ (ع) کا پیرو ہو اور توریت کو آسمانی کتاب مانتا ہو۔ لیکن اس وقت یہودی مختلف گروہوں میں بٹے ہوئے ہیں؛ ان میں سے کچھ گروہ ایسے ہیں جو صہیونی افکار کے مالک ہیں اور اس جماعت کا ساتھ دیتے ہیں۔
صہیونیت در حقیقت ایک ایسی جماعت ہے جو انیسویں صدی عیسوی کے اواخر میں ایک یہودی ملک کی تشکیل کے مقصد سے وجود میں آئی۔ یہ جماعت ایسے حال میں دین اور شریعت موسیٰ(ع) اور سرزمین موعود کی بات کرتی اور صہیونی ریاست کی بقا کے لیے تلاش کرتی ہے کہ اس کے بانی ملحد اور بے دین ہیں۔
صہیونیت نسل پرستی، قوم پرستی اور استکباری فکر پر مبنی جماعت ہے(۱)۔ اسی وجہ سے یہودیوں کا ایک مذہبی گروہ “نیٹوری کارٹا (Neturei Karta) “صہیونیوں کو بالکل یہودی نہیں مانتا اور صہیونیوں کے خلاف جد وجہد کرتا ہے۔ ان کی نگاہ میں صہیونیوں کا کردار سنت الہی کے مخالف ہے۔ نیٹوری کارٹا کا ماننا ہے کہ صہیونیت اپنے مقاصد کے حصول کے لیے یہودیوں اور غیر یہودیوں کو استعمال کر رہی ہے۔ (۲)۔ اسرائیل کے اندر پائی جانی والی مذہبی جماعتیں بھی شدید اختلافات کا شکار ہیں یہاں تک کہ صہیونی ریاست کی فوج میں ایک مشترکہ شکل کی نماز پڑھوانا دشوار ہے۔ اس لیے کہ ہر گروہ جیسے اشکنازی یہودی ( Ashkenazi Jews) اور سفاردی یہودی(Sephardi Jews) کے یہاں نماز کی ادائیگی کے اپنے اپنے طریقے ہیں، جس کی اصل وجہ طبقاتی اختلاف ہے جو یہودیوں کے اندر کثرت سے دکھائی دیتا ہے اور صہیونی ریاست کی بناوٹ میں بھی یہ اختلاف بے انتہا موثر ہے۔ (۳)
اختلافات کے مذکورہ موارد کے علاوہ عالمی صہیونیت کے ذریعے دنیا بھر سے مختلف کلچر اور ثقافت کے حامل یہودیوں کو اسرائیل میں اکٹھا کرنا ان مشکلات کو کئی گنا بڑھا دیتا ہے۔ یہ ایسی تلاش و کوشش ہے جو یہودیت مخالف جماعت سے بھی غیر منسلک نہیں ہے۔ ایک امریکی یہودی مولف ’لینی برنر‘ (Lenni Brenner) اپنے کتاب ’’ڈکٹیٹرشپ کے دور میں صہیونیت‘‘ میں صہیونیت کے یہودیت مخالف جماعتوں کے ساتھ پائے جانے والے روابط سے پردہ ہٹاتے ہیں۔
اسرائیل کی تشکیل
کسی بھی ملک کی تشکیل کا قانونی طریقہ کار یہ ہوتا ہے کہ ایک جغرافیہ اور تاریخ کے دامن میں پائے جانے والے لوگ اکٹھا ہوں اور ایک خاص سرزمین پر حکومت تشکیل دیں۔ لیکن صہیونی ریاست کی تشکیل کے حوالے سے کچھ مختلف طریقہ کار اپنایا گیا۔ صہیونی شروع میں بندوق اور اسلحہ کے ساتھ سرزمین فلسطین میں داخل ہوئے اور فلسطین پر قبضہ کیا اس کے بعد انہوں نے کچھ جھوٹے سچے وعدے یا زور و زبردستی کے ساتھ دنیا بھر سے یہودیوں کو اس غصب شدہ زمین پر اکھٹا کیا تو اس طریقے سے اسرائیل نامی ایک جعلی ریاست معرض وجود میں آئی۔
البتہ صہیونیوں نے دنیا بھر سے یہودیوں کو اکٹھا کرنے کے لیے کسی ایک قاعدہ و قانون کی پیروی نہیں کی۔ مثال کے طور پر اتھیوپیا کے یہودیوں کو اسرائیل منتقل کرنے کے لیے ان کی اقتصادی مشکلات کو حل کرنے کا وعدہ دیا۔ امریکہ کے ثرتمند یہودیوں کے ساتھ سرزمین موعود اور ظہور مسیح کی بات کی وغیرہ وغیرہ(۴) یہی وجہ ہے کہ اسرائیل میں دنیا بھر سے اکٹھا ہونے والے یہودی مختلف اہداف و مقاصد اور مختلف طرز تفکر کے ساتھ وہاں جمع ہوئے ہیں لہذا صہیونی معاشرے میں پایا جانے والا یہ بنیادی اختلاف صہیونی ریاست کے لیے وبال جان بنا ہوا ہے جو عنقریب اسے لے ڈوبے گا۔
حواشی:
۱ – سایت موعود، اخبار، اخبار سیاسی، صهیونیسم و تفاوت آن با یهود، کد خبر: ۸۶۸۲، www.mouood.org.
۲- https://kheybar.net/?p=3627.
۳- https://www.mashreghnews.ir/news/239218.
۴- فصلنامه کتاب نقد، هویت یهود از شعار تا واقعیت، دهقانی نیا، امیررضا، پاییز۱۳۸۳، شماره ۳۲، ص ۲۹۲-۲۶۸
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

اسرائیل میں بہائیت کے مرکزی ہیڈ کواٹر کے پیچھے کیا راز پوشیدہ ہے؟

  • ۳۸۸


خیبر صہیون تحقیقاتی سینٹر؛ امام خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ نے امریکہ کی جانب سے  اسلامی جمہوری ایران  کے جاسوسوں اور اسلامی جمہوریہ  کے حدود تجاوز کر نے والوں کے دفاع  کے سلسلہ سے   ۱۷  رمضان المبارک  ۱۴۰۳ ھ مطابق ۲۸ جون ؁۱۹۸۳ حکومت کے ذمہ داروں کے درمیان ایک خطاب کیا ، جس میں آپ نے اس وقت کے امریکی صدر جمہوریہ کی جانب سے  ساری دنیا سے بہائیوں کے لئے مدد کی گہار لگانے کے سلسلہ سے اس بات کی وضاحت کی کہ  بہائیوں کی جانب سے امریکی صدر جمہوریہ کی یہی حمایت  انکے جاسوس ہونے اور امریکیوں کے  بہائیوں سے مفاد کے وابستہ ہونے کو بیان کرتی ہے ۔
امام خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ نے  رونالڈ ریگن  کی تقریر کہ جسے بعض ریڈیو  اسٹیشنز نے نشر کیا  کے مضمون کو بیان کرتے ہوئے کنایہ آمیز انداز میں  کہا: یہ لوگ چونکہ مظلوم ہیں اور بالکل بھی جاسوس  نہیں ہیں، مذہبی مراسم کے علاوہ کسی چیز میں مشغول نہیں رہے، اس پر ایران نے انکے انہیں  مذہبی رسومات کی وجہ سے ۲۲ لوگوں کو پھانسی کی سزا سنائی ہے، یہ وہ بات ہے جس کی بنا پر ریگن نے ساری دنیا سے مدد کی اپیل کی ہے اور کہا ہے کہ یہ لوگ جاسوس نہیں ہیں ، یہ ایسے سیدھے سادے لوگ ہیں جنکی کسی بھی کام میں کوئی شمولیت یا دخالت نہیں ہے  اپنی تقریر میں امام خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ نے  اس بات کو بیان کرنے کے بعد بہت سنجیدگی کے ساتھ انکی پھانسی کی سزا کے بارے میں وضاحت کرتے ہوئے فرمایا: ’’ ہم نے  ہرگز انکے بہائی ہونے کی وجہ سے انہیں قید وحبس کا حکم نہیں دیا  بلکہ انکے ساتھ کچھ مسائل رہے ہیں، یوں بھی بہائی کوئی مذہب نہیں ہے بلکہ بہائی ایک پارٹی ہے، ایسی پارٹی جسکی ماضی میں برطانیہ حمایت کرتا رہا ہے اور اب امریکہ نے اسے اپنی چھتر چھایہ میں لیا ہوا ہے  یہ لوگ  جاسوس بھی ہیں اور دیگر لوگوں کی طرح انکے عقائد میں بھی انحراف پایا جاتا ہے، یہاں پر  مسئلہ تو یہ ہے کہ انکے طرفدار جناب ریگن صاحب آپ جیسے لوگ ہیں اور یہ اس بات کی دلیل ہے کہ  انکی ایک مبہم و خاص صورت حال ہے،  ہمارے دشمنوں کو فائدہ پہنچانے میں  انکا کردار اس کے علاوہ کیا ہوگا کہ  ہماری مخبری کریں اور ہمارے اسرار کو دشمنوں تک منتقل کریں، اور ایرانی قوم و حکومت کے درمیان انکے ساتھ جاسوسی کریں ۔
سچ تو یہ ہے کہ  اسلامی جمہوریہ  کے معمار و بانی کا جوہر کلام یہ ہے کہ  بہائیوں کے ساتھ مقابلہ آرائی  کی وجہ انکے عقائد  کے انحراف کے علاوہ اور ماورا اسکے کے یہ بنیادی طور پر بہائیت کوئی مذہب نہیں ہے اور یہ ایک گمراہ و منحرف فرقہ ہے،  در اصل یہ ہے کہ یہ امریکہ اور اسرائیل کی جاسوسی کرتے ہیں  اور اسی وجہ سے  امریکہ و اسرائیل  بہائیوں کی حمایت کرتے ہیں ۔ اور اسلامی انقلاب کے ۴۰ سال گزر جانے کے بعد  بھی  اپنی ڈگر پر یہ کھیل جاری ہے اسلامی انقلاب کے چالیس سال  گزر جانے کے بعد بھی  یہی کھیل جاری ہے اور بہائی فرقہ  کہ جسکا مرکزی  دفتر اور ہیڈ کواٹر مقبوضہ فلسطین (اسرائیل) کے حیفا شہر میں ہے، اسرائیل اور امریکہ کے لئے  جاسوسی کر رہا ہے اور اس گمراہ  فرقہ سے مقابلہ آرائی و تقابل کی بنیادی وجہ   یہی امام خمینی  رضوان اللہ تعالی  کے وہ خدشات ہیں جنہیں آپ نے اس فرقے کے بارے میں بیان کیا ہے ۔
.صحیفه امام خمینی، ج۱۷،ص۴۵۹
بہائیت  جنگی عزائم رکھنے والے کارزار پسند اسرائیل کی خدمت میں
گزشتہ چند دنوں قبل اسرائیل کے خود ساختہ جعلی  ملک کے نام نہاد وزیر اعظم  بنجامن  نیتن یاہو نے اسرائیلی سلامتی و تحفظ کے کالج کے اسٹوڈینس سے ملاقات کے دوران اس بات کا دعوی  کیا کہ ’’  فی الوقت دنیا کی واحد ایسی فوج جو اسلامی جمہوریہ ایران کے ساتھ مقابلہ کر رہی ہے  اسرائیل کی فوج ہے ‘‘۔
لائق توجہ ہے کہ  بہائی فرقہ کا صدر دفتر اسرائیل میں ہے اور  صہیونیوں کی ممکل  حمایت و پشت پناہی میں اپنا کام کر رہا ہے ، بہائی ہر ۱۹ دن میں اپنے دفتری چارٹ کے مطابق  ’’ ضیافت و دعوت‘‘ کے تحت  اپنے تمام تر تعلقات و روابط  اور اپنی کارکردگی و اپنے ترویجی وتشہیری کاموں  حتی دوستانہ تعلقات و لین دین کو اوپر رپورٹ کرتے ہیں اور اس پروگرام میں حاصل ہونے والی تمام ہی معلومات اسرائیل کو ارسال کر دی جاتی ہیں، یہ اطلاعات ایک ایسے ملک کو پہنچتی   ہیں جو واضح طور پر اسلامی جمہوریہ ایران سے مقابلہ کی بات کر تا ہے۔
ہرچند بہائیت کا دعوی ہے کہ اسکے صدر دفتر کے مقبوضہ فلسطین میں ہونے کے باوجود  اسکا کوئی تعلق بھی وہاں کے سیاست مداروں سے نہیں ہے اوریہ دفتر محض جغرافیائی طور پر اس خطے میں واقع ہے، لیکن نیتن یاہو کی جانب سے اس دفتر سے متعلق افراد سے ملنا اور انکا نیتن یاہو سے ملاقات کرنا مرغے کی ایسی دم ہے جو چھپائےنہیں چھپتی اور اس دعوے کو باطل کر دیتی ہے کہ ہم نے مرغا چوری نہیں کیا ہے ہم قسم کھا سکتے ہیں، ایسے میں جو مرغے کی دم کو آستین سے باہر  دیکھ رہا ہے وہ قسم پر کیونکر یقین کر سکتا ہے۔ اس طرح یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ بہائی  بالقوہ طور پر  اسرائیل کی مخبری کرنے والے عناصر کے طور پر کام کر رہے ہیں  جو اسلامی جمہوریہ کے معاشرے کی مختلف سطحوں میں رسوخ کر کے  اسلامی جمہوریہ کی حاصل ہونے والی اطلاعات کو  دشمنوں تک منتقل کرتے ہیں ۔
اس وقت ملک کے حساس حالات کے باوجود ، اور اسرائیلی حکام کی جانب سے جنگ کی طرف اکسانے والی باتوں اور جنگ خواہانہ زبان استعمال  کرنے کے باوجود  ضروری ہے کہ  اسلامی جمہوریہ ایران کے ذمہ داران  چھوٹے چھوٹے جاسوسی کے نیٹ ورکس کی نقل و حرکت کو لیکر حساس رہیں، اس لئے کہ جب اس سے پہلے  بہائیوں کی جانب سے اسرائیل کی طرف خفیہ معلومات کا تبادلہ ہوتا تھا  اور اس پر اعتراض ہوتا تھا  تو یہ دعوی کیا جاتا  کہ ساری معلومات  اسرائیل ارسال نہیں کی جاتی ہیں بلکہ انہیں بہائیوں کے صدر دفتر بھیجا جاتا ہے، لیکن یہ بات ہرگز فراموش نہیں کرنا چاہیے کہ بہائیوں کا یہ صدر دفتر صہیونی رجیم کے  اہلکاروں اور حکام کی جانب سے  دائمی طور پر  زیر نظر رہتا ہے اور اسکی تفتیش ہوتی رہتی ہے ۔
بہائی  نظام اسلامی جمہوریہ ایران میں  رسوخ و نفوذ اور جاسوسی کے درپے
گمراہ بہائی فرقہ بہت ہی سسٹمیٹک  طریقے سے  اپنے جاسوسی کے کاموں کو انجام دیتا ہے اور یہ لوگ  اپنے مشن کو عملی کرنے کے لئے  اندر در آنے  کی فضاوں کو تلاش کرتے  رہتے ہیں ۔ اور انکا طریقہ کار یہ ہے کہ   ’’بیت العدل  اعظم  ‘‘نامی شورا کی جانب سے  (بہائیوں کا  اسرائیل میں واقع صدر دفتر ) ان خفیہ اطلاعات کے بل پر جو  بہائیوں کی جانب سے وہاں بھیجی جاتی ہیں    ایسی فضاوں کی نشاندہی کی جاتی ہے  جہاں سے گھس کر  اپنا کام کیا جا سکے نیز اس شوری کی جانب سے  اندر گھسنے کے لئے ضروری رخنوں کی نشاندہی کے ساتھ ایسی ہدایات بھی پیش کی جاتی ہے جنہیں  بیت العدل کی جانب سے ارسال کئے گئے  پیغامات کا نام دیا جاتا ہے اور یہ وہ پیغامات ہوتے ہیں  جنہیں  بہائیوں کی  جاسوسی سے  متعلق اور انکی تشہیری و ترویجی  فعالیت سے  متعلق ہدایات کے طور پر  بہائیوں تک  پہنچایا جاتا ہے ۔
مثال کے طور پر ۲۸ سمبر ۲۰۱۰؁ کو جاری ہونے والے ایک پیغام  میں جسے  اس گمراہ فرقے کے ایک دراز مدت  پروگرام کی ایک کڑی کے طور پر پیش کیا گیا ہے ، اس  پیغام  میں  ایسے دیہاتی علاقوں کی نشاندہی کی گئی ہے جہاں بہاہیت کو لیکر  اور اسکے ڈھانچے کو لیکر کوئی جانکاری نہیں پائی جاتی ہے اور اس پیغام میں انہیں علاقوں کو  ایسی  اہم فضا کے طور پر پیش کیا گیا ہے  جہاں یہ گمراہ فرقہ اپنی فعالیت انجام دے سکتا ہے من جملہ  تشہیری و ترویجی کاموں کے ساتھ ان علاقوں کو جاسوسی کے لئے استعمال کیا جا سکتا ہے۔
اگرچہ بہائیت کی جانب سے  جاری ہونے والے پیغامات کو اس نام سے پیش کیا جاتا ہے کہ یہ وہ پیغامات ہیں جو بہائیت کے دنیا بھر میں پیروکاروں کے لئے ارسال کئے گئے ہیں لیکن بالکل واضح ہے کہ  ان پیغامات کا ہدف  و نشانہ اسلامی ممالک اور خاص طور اسلامی جمہوریہ  ہے  اس لئے کہ  بہائی اپنے وجود کا سرچشمہ  ایران ہی کو سمجھتے ہیں ۔ بیت العدل کی جانب سے جاری ہونے والے بہت سے  پیغامات  اور ہدایتوں میں  من جملہ ۲۰۱۰؁ کے  ۲۸ سمبر کو جاری ہونے والے پیغام  میں بھی یہی کہا گیا ہے کہ  مختلف دیہاتوں میں  پھیل جائیں  اور  لوگوں کو اس فرقے کے سسٹم  میں داخل کریں اور اس طرح اپنے فرقے کی تبلیغ و ترویج سے متعلق  فعالیت کے دائرہ کو پھیلا دیں۔
اس پیغام کے ایک حصہ میں ملتا ہے ’’ اگر اس کام کا ایک نمونہ کسی ایک علاقہ میں تاسیس ہو گیا تو تیزی کے ساتھ دوسرے ہم جوار دیہاتوں میں  پھیلنے کی صلاحیت رکھتا ہے‘‘ در حقیقت   بہائیوں نے  اس لئے اپنے کاموں کے لئے دیہاتوں کا انتخاب کیا ہے کہ  یہاں کی فضا  انکے مقاصد تک پہنچنے کے لئے مناسب ہے اور وہ یہ چاہتے ہیں کہ اس فضا کو اپنی کارکردگی  کا محور بناتے ہوئے  لوگوں کی نظروں سے دور اپنی جاسوسی مہم  کو وسعت بخشیں ۔ اب یہ اسلامی جمہوریہ کی خفیہ ایجنسیز اور قومی سلامتی سے متعلق مراکز اور ادارہ جات  پر ہے کہ وہ  اس گمراہ و خطرناک  فرقے کے بارے  میں اس طرح وارد  عمل ہوں کہ  لوگوں  کی سہولت اور انکے چین و سکون  پر حرف نہ آئے اور قومی سلامتی کے تحفظ کو یقینی بناتے ہوئے  ایسے اقدام کئے جا سکیں جنکے چلتے  اس فرقے کی تبلیغ و ترویج  کا شکار ہو کر اس کی طرف مائل ہونے والے افراد کو اس میں شامل ہونے سے روکا جا سکے ۔
منبع: http://fna.ir/dauqch

 

ہالی ووڈ کیا ہے؟

  • ۳۸۰

اہم بات یہ ہے کہ اسی عقیدہ کی بنیاد پر ہالی ووڈ نے تمام عوام کو اپنے جادو میں کر رکھا ہے۔ یہ ایک ایسا خواب ہے جسے یہودیوں نے شرمندہ تعبیر کر دیا ہے۔

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ کے مطابق، HOLLY WOOD کا مطلب مقدس لکڑی ہے۔ شائد یہ اشارہ ہے جناب موسی علیہ السلام کے معروف عصا کی طرف جو یہودیوں کے نزدیک ایک مقدس چیز ہے۔
یہودیوں میں یہ عقیدہ پایا جاتا ہے کہ عصائے موسیٰ ایسی لکڑی تھی جسے سحر و جادو کے لیے استعمال کیا جاتا تھا اور جس کے پاس یہ عصا ہو وہ لوگوں کو اپنے کنٹرول میں کر سکتا اور ان پر اپنا جادو چلا سکتا ہے، لہذا یہ مقدس لکڑی ان کے نزدیک ایک سمبل مانی جاتی ہے۔
لیکن اہم بات یہ ہے کہ اسی عقیدہ کی بنیاد پر ہالی ووڈ نے تمام عوام کو اپنے جادو میں کر رکھا ہے۔ یہ ایک ایسا خواب ہے جسے یہودیوں نے شرمندہ تعبیر کر دیا ہے۔
ہالی ووڈ کا اصلی مرکز امریکی ریاست لاس انجلس میں ہے، ہالی ووڈ کی شہرت اس کے فلم اسٹوڈیو کی وجہ سے ہے۔ اور ہالی ووڈ در حقیقت سینما اور ٹیلی ویژن کی صنعت کی طرف اشارہ کرتا ہے۔
منبع: فیلم ظهور، معرفی هالیوود

 

جنسی غلامی امریکہ کی ماڈرن تجارت

  • ۴۰۹

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: امریکہ جو آج ٹیکنالوجی کی دنیا میں سب سے زیادہ ترقی یافتہ ملک مانا جاتا ہے اگر اس کی ترقی کی تاریخ کا بغور مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہو گا کہ اس ملک کی ساری ترقی اور پیشرفت استعماریت اور سامراجیت کی مرہون منت ہے۔ یہ ایسا ملک ہے جس کی تاریخ انسانوں کی تجارت اور نسل پرستی جیسے غیر انسانی عمل سے جڑی ہوئی ہے۔ آج اگر چہ غلاموں کی خرید و فروخت اور نسل پرستی پچھلے سالوں کی طرح اس ملک میں رائج نہیں ہے لیکن انسان فروشی کا اپڈیٹ ورژن یعنی جنسی غلامی یا سیکس کی تجارت دنیا کے کئی دیگر ممالک کی طرح امریکہ میں بھی بڑے پیمانے پر انجام پا رہی ہے۔ اس شرمناک تجارت میں خرید و فروخت کیا جانے والا سامان نہ صرف مرد و عورت ہیں بلکہ کم سن اور نابالغ بچے بھی شامل ہیں۔
جنسی غلامی انسانی اسمگلنگ کا ایک پروڈیکٹ
جنسی غلامی کہ جو انسانی اسمگلنگ کا ایک پروڈیکٹ ہے نے عورت کو ایک طرح سے ’بے جان سامان‘ میں بدل دیا ہے۔ غربت اور مفلسی کا شکار ممالک سے عورتوں اور لڑکیوں کو اسمگلنگ کر کے مغربی اور امریکی ممالک میں لے جایا جاتا اور وہاں جنسی غلامی کے طور پر بے جان سامان کی طرح انہیں بازاروں میں فروخت کیا جاتا ہے، اورجنسی ہوس پرست یا دولت کے پوجاری ان عورتوں کی خریداری کر کے یا اپنے استعمال میں لاتے ہیں یا ان سے جنسی افعال کا ارتکاب کروا کر ان کی ویڈیوز کو مجازی دنیا میں پھیلا کر پیسہ کماتے ہیں۔
اس درمیان امریکہ جو دنیا پوری میں انسانی حقوق کا ڈھنڈورا پیٹ رہا ہے اس حوالے سے اس کی صورتحال تو بہت ہی بدتر ہے  «ABC News» نے جو ۲۰۰۶ میں رپورٹ شائع کی اس کے مطابق سالانہ ایک لاکھ سے زیادہ عورتوں، لڑکیوں اور بچوں کو امریکہ اسمگلنگ کیا جاتا اور افسوسناک بات یہ ہے کہ ان میں بعض بچوں کی عمر ۹ سال سے بھی کم ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ امریکی وزارت عدلیہ نے اپنے ایک بیان میں اعلان کیا کہ ہر سال تین لاکھ امریکی صرف جنسی افعال کے ارتکاب کے لیے اسمگلروں کے دھندے کا نشانہ بنتے ہیں۔
عصمت فروشی کی آزادی
سوال یہ ہے کہ امریکہ یا دیگر ممالک میں کیا چیز باعث بنی کہ آج اس قدر دنیا میں عصمت فروشی کا بازار گرم ہو چکا ہے؟ عصمت فروشی کی آزادی کا سب سے پہلا عامل اور سبب مساج کے بازار کو گرم کرنا ہے۔ مساج کے عمل کو قانونی شکل ملتے ہی عصمت فروشی کا کام شروع ہو گیا اور لوگ بدن کے مساج کے بہانے بدکاری کو رواج دینے لگے۔ اور بظاہر مساج دینے لیکن حقیقت میں عصمت فروشی کے لیے لڑکیوں کی امریکہ میں اسمگلنگ کا دھندا کافی زور پکڑ گیا۔ دوسرا بڑا سبب خود میڈیا اور سوشل میڈیا ہے جس نے انٹرنٹ، اخباروں، جریدوں حتیٰ کتابوں کے ذریعے ننگی تصاویر، پوسٹر اور سیکسی فیلمیں شائع کرکے لوگوں میں اس بدکاری کو رواج دیا۔ در حقیقت اگر مرد عورت کو صرف جنسی ہوس کو پورا کرنے کا آلہ سمجھے گا تو پیسے یا ہر دوسری قیمت پر اسے حاصل کرکے اپنی پیاس بجھانے کی کوشش کرے گا۔
انسانیت سے عاری اس دردناک و تلخ حقیقت نے جتنا منافع سرکاری اور غیرسرکاری عہدیداروں کو دیا ہے اتنا کسی دوسری تجارت نے نہیں دیا یہی وجہ ہے کہ کوئی بھی حکومت اس عمل کی روک تھام کے لیے کوئی اقدام نہیں کر رہی ہے دنیا میں جنسی غلامی، لڑکیوں کی اسمگلنگ اور سیکس کی تجارت دن بدن بڑھتی ہی جا رہی ہے۔

 بقلم میلاد پور عسگری
منابع:
www.humanevents.com/article. Phpsid=39032
www.msmagazine.com

 

ہالی ووڈ دنیا جنسی اسکینڈلز اور ناجائز تعلقات سے لبریز

  • ۳۸۶

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: امریکی ریاست گورجیا (Georgia) نے اپنے تازہ ترین اقدامات میں ابارشن کے ممنوع ہونے کا قانون منظور کیے جانے کی خبر دی ہے۔ اس خبر کے شائع ہونے کے ساتھ ہی امریکہ میں فلم سازی کی دو بڑی کمپنیوں؛ نٹ فلیکس (Netflix) اور ڈسنی (Disney ) نے اعلان کیا ہے کہ اگر اس ریاست میں یہ قانون منظور ہو جاتا ہے تو انہیں یہ ریاست چھوڑنا پڑے گی۔
ڈسنی کے سربراہ ’’باب ایگر‘‘ (Bob Iger) (۱)جن کا تعلق یہودی مذہب سے ہے نے رائٹرز کے ساتھ گفتگو میں کہا:
’’اس قانون کی منظوری کے مخالف فنکاروں کی درخواست کا احترام کرتے ہوئے ہم اس قانون کی منظوری کے بعد گورجیا کو چھوڑ دیں گے‘‘۔
امریکی ریاست گورجیا فلم سازی کی صنعت میں امریکہ کا دھڑکتا دل ہے چونکہ اس ریاست میں فلم انڈسٹریوں کے لیے ٹیکسز اور مالیات کی ادائیگی معاف ہے۔ اس وجہ سے ہالی وڈ کی دو معروف فلمیں Avengers اور Black Panther اسی ریاست میں بنائی گئی ہیں۔ (۲)
دو سوالات
۱۔ امریکہ کے لیبرل معاشرے اور انفرادی آزادی کے پیش نظر کیوں ایسے قانون کی منظوری کا اقدام عمل میں لایا جا رہا ہے؟
۲۔ دو بڑی فلم ساز کمپنیوں کی اس قانون کے ساتھ مخالفت کی وجہ کیا ہے؟ اور اس کے پیچھے کون سی وجوہات پوشیدہ ہیں؟
پہلے سوال کا جواب
پہلا مسئلہ یہ ہے کہ ابارشن عورتوں کے لئے بہت سارے جسمانی نقصانات کا حامل ہے۔ عام طور پر جو عورتیں یہ اقدام کرتی ہیں انہیں سینے، رحم اور بچے دانی میں کینسر کے خطرات لاحق رہتے ہیں۔ اس کے علاوہ رحم سے باہر حاملہ ہو جانے کا احتمال، افسردگی کا حملہ، رحم میں سوراخ ہونے اور دوبارہ حاملہ نہ ہونے کے خطرات بھی ابارشن کے نتائج میں شامل ہیں۔ (۳)
دوسرا مسئلہ جسمانی نقصانات سے قطع نظر ابارشن کے اخراجات بھی امریکی ہسپتالوں میں اپنی جگہ کافی زیادہ ہیں اور پھر ابارش کی وجہ سے معاشرے کو براہ راست بہت ساری مشکلات جیسے آبادی میں کمی، لیبر کا نہ ملنا وغیرہ وغیرہ کا سامنا ہے جو ملکی پالیسیوں کے برخلاف ہیں۔
امریکہ میں بچہ لانا
دوسری عالمی جنگ کے بعد امریکی سماج میں آبادی بڑھانے کی بالکل ترغیب نہیں دلائی گئی۔ دوسری جانب سے ریچارڈ نیکسن کے دورہ صدارت میں ابارش کو جرم ہونے کی حالت سے نکال دیا گیا اور امریکہ اور دیگر ممالک میں راکفلر کمیشن کے ذریعے آبادی کنٹرول کی پالیسیوں کو عمل میں لایا گیا۔
بطور مثال امریکہ میں ملازم حاملہ عورتوں کو وضع حمل کے دوران دی جانے والی چھٹی بند کر دی گئی جو یقینا حقوق نسواں کی کھلی مخالفت تھی۔
امریکہ میں ہم جنس پرستی کا رواج
امریکہ اور دیگر ممالک میں ہم جنس پرستی کا رواج بھی انہی غیر سنجیدہ اقدامات کی وجہ سے پھیلا ہے۔ البتہ امریکہ میں مہاجرین کی کثرت اور آبادی میں بھی کچھ اضافہ ہونے کی وجہ سے اس ملک کو کبھی آبادی میں کمی یا لیبر کی کمی کا احساس نہیں ہوا۔ لیکن جو چیز قابل توجہ ہے وہ یہ ہے کہ جدید تحقیقات کے مطابق پڑھے لکھے معاشرے میں یا سفید پوست سماج میں آبادی کا تناسب بہت کم ہوتا جا رہا ہے اور دوسری جانب سے مہاجرین یا سیاہ پوست اقلیتوں کی آبادی کثرت سے بڑھتی جا رہی ہے۔ یہ چیز ممکن ہے اس ملک کے مستقبل میں آبادی کے تناسب کا نقشہ بدل دے اور یقینا اگر ایسا ہوا تو امریکی سیاست میں بھی قابل توجہ تبدیلیاں نظر آ سکتی ہیں۔(۴)
اسی وجہ سے امریکہ نے ۲۰۱۷ سے اپنی آبادی بڑھانے کی پالیسیوں پر عمل کرنا شروع کر دیا ہے، حاملہ خواتین کے لیے چھے ہفتے کی چھٹی منظور کر دی گئی ہے اور حتیٰ کہ غیر سرکاری اداروں میں بھی اس قانون پر عمل کرنا ضروری سمجھا گیا ہے۔ اس بنا پر امریکی ریاست گورجیا میں ابارشن کے قانون کی منظوری اسی مقصد کے پیش نظر ہو سکتی ہے۔ (۵)
دوسرے سوال کا جواب
اس سوال کے جواب میں کہ کیوں دنیا کی دو بڑی فلم ساز کمپنیوں نے اس قانون کی مخالفت کی ہے اور حتیٰ کہ اس ریاست کو چھوڑ دینے کا فیصلہ کیا ہے۔
اس کی واضح دلیل ہالی ووڈ یا دنیا کی دیگر بہت ساری فلم ساز انڈسٹریوں میں پائی جانے والی مشکل ’جنسی تعلقات‘ ہے۔ جنسی اسکینڈل اور ناجائز تعلقات فنکاروں، اداکاروں اور فلمی ڈائریکٹروں کی زندگیوں کا حصہ بن چکے ہیں۔ یہ وہ عامل ہے جو ان کمپنیوں کی اس وقت رسوائی کا سبب بن سکتا ہے جب ابارش کی ممنوعیت کا قانون لاگو ہو جائے۔ لہذا انہیں اپنی بہتری اسی میں دکھائی دیتی ہے کہ وہ ایسی ریاست کو چھوڑ دیں جس میں انہیں میڈیا کے سامنے رسوا ہونا پڑے۔
ہالی ووڈ اداکاروں اور فنکاروں میں جنسی فساد
ہالی ووڈ اداکاروں اور فنکاروں میں جنسی فساد کا پایا جانا کوئی نئی اور نرالی چیز نہیں ہے۔ اس کی ایک مثال نیویارک ٹائمز نے ۲۰۱۷ میں امریکن فلم پروڈیوسر ’ہاروی وینسٹائن‘ (Harvey Weinstein) کے جنسی اسکینڈل سے نقاب ہٹا کر پیش کی۔ نیویارک ٹائمز کا یہ اقدام باعث بنا کہ دیگر کئی اداکاروں جیسے بن افلک (Ben Affleck) ، الیور اسٹن(Oliver Stone )، ڈاسٹن ہافمن (Dustin Lee Hoffman) )، کوئین اسپیسی (Kevin Spacey) کے جنسی اسکینڈلز اور اخلاقی برائیاں بھی کھل کر سامنے آئیں۔ واینسٹائن ہالی ود کی معروف کمپنی میرامکس(Miramax) کے بانی تھے کہ جب ۵۰ سے زائد عورتوں جن میں معروف ادا کارہ آنجلیا جولی اور گوئیٹ پالٹرو بھی شامل تھیں نے اپنے ساتھ کئے گئے ناجائز تعلقات سے پردہ ہٹایا تو وینسٹائن اپنی کمپنی سے استعفیٰ دینے پر مجبور ہوئے۔ (۶)
معروف ہالی ووڈ پروڈیوسرز کے ذریعے عورتوں پر جنسی تشدد
دو سال پہلے گلڈن گلوب (Golden Globe) تقریب کے دوران بعض مرد و عورتیں سیاہ لباس پہن کر تقریب میں حاضر ہوئیں۔ ان میں دو معروف اداکارہ ’فرانسیس مک ڈورمینڈ‘ ( Frances McDormand) اور سورشا رونن (Saoirse Ronan) بھی شامل تھی جو اس فیسٹیول تقریب میں پہلے انعامات حاصل کرنے کی حقدار ہوئیں۔ ان کے سیاہ لباس پہننے کی وجہ (#Me too) کمپین کی حمایت کرنا تھیں جو ہالی ووڈ میں عورتوں پر جاری جنسی تشدد کے خلاف چلائی گئی تھی۔ (۷)
ہالی ووڈ کی حالت اس قدر افسوس ناک ہے کہ معروف یہودی اداکارہ نیٹیلی پورٹمن (Natalie Portman) نے اپنے ہر پروجیکٹ میں مردوں کے ذریعے جنسی تشدد کا نشانہ بنائے جانے کا اعتراف کیا اور کہا کہ ۱۰۰ سے زیادہ مرتبہ مجھے جنسی تشدد کا شکار بنایا گیا۔ (۸)
امریکی مصنف برنڈی نائٹ کے بقول:
’’ہالی ووڈ دور سے ایک رنگ برنگی اور ثروت و شہرت سے لبریز صنعت نظر آتی ہے لیکن جب آپ اس کے اندر گھسیں گے تو آپ کو ذلت، رسوائی اور غیر اخلاقی برائیوں کے سوا اس میں کچھ نظر نہیں آئے گا‘‘۔
البتہ ہالی ووڈ میں اخلاقی فساد کا مسئلہ کوئی نئی چیز نہیں ہے بلکہ شروع سے ہی امریکہ کی یہ صنعت اس مشکل سے دوچار رہی ہے اور بہت ساری کتابیں بھی اس بارے میں لکھی گئی ہیں۔ مثال کے طور پر اسکاٹ باورز کی تالیف ’ہالی ووڈ میں میری زندگی کے اتفاقات اور فلمی ستاروں میں خفیہ جنسی روابط‘ ( طبع ۲۰۱۲)، امریکی سینما کے اداکار کنٹ انگر کی تالیف ’ہالی ووڈ بیبلن‘(طبع ۱۹۸۱) اور جیمز رابرٹ پریش کی تالیف ’ہالی ووڈ کی طلاقیں‘ وغیرہ کا نام لیا جا سکتا ہے۔
آٹھ بار طلاق
ہالی ووڈ میں حالات اس قدر شرمناک ہیں کہ پریش کہتے ہیں: ہالی ووڈ کے ستاروں کی ذاتی زندگی میں مشکلات اتنی زیادہ ہیں کہ حتیٰ بعض عورتوں نے ۸، ۹ بار طلاق لئے ہیں۔ (۹)
علاوہ از ایں، ڈسنی کمپنی کی جانب سے اخلاقی فساد کی حمایت بھی کوئی نئی چیز نہیں ہے۔ اس لیے کہ اس نے اس سے قبل اپنی مصنوعات کہ جس کے اصلی مخاطب بچے ہیں میں جنسی مسائل کی ترویج کے علاوہ ۱۹۹۶ میں ہم جنس بازوں کی کانفرنس کو مالی امداد بھی دی۔
ڈسنی انٹرنٹ کی دنیا میں پورن فلموں کو پھیلانے کی حمایت کرنے اور بچوں کو جنسی مسائل اور شہوت انگیز شارٹ نہ دکھانے کی مخالفت کرتی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ڈسنی کے یہودی منیجنگ ڈائریکٹر مائکل اسنر نے ۲۰۱۱ میں ایک رپورٹ کے ذریعے اعلان کیا کہ اس کمپنی کے ۶۳۰۰۰ اراکین میں سے ۴۰ فیصد ہم جنس پرست ہیں۔ (۱۰)
نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ڈسنی کہ جس کے تمام سرکردہ یہودی ہیں کے ایسے اقدامات عالمی صہیونیت کی پالیسیوں کا حصہ ہیں جو تلاش و کوشش کرتے ہیں کہ انسانی معاشرے میں فساد و تباہی پھیلا کر انہیں اخلاقی برائیوں میں الجھائے رکھیں اور خود ان پر حکومت کریں۔
حواشی
۱ – http://jewishbusinessnews.com/2015/02/05/bob-iger-talks-live-streaming-for-disneys-channels/.
۲- https://ir.voanews.com/a/netflix-disney-abortion-laws/4938954.html.
۳- https://www.chetor.com/129580.
۴- http://cpdi.ir/news/content/3029.
۵- https://www.tasnimnews.com/fa/news/1396/02/02/1386833.
۶- https://www.mashreghnews.ir/news/807044.
https://www.mizanonline.com/fa/news/430698.
۷- افکار نیوز، فرهنگ هنر، تاثیر رسوایی جنسی هالیوود بر پوشش بازیگران در گلدن گلوب/تصاویر، شناسه خبر: ۷۰۱۳۲۴ .
https://www.afkarnews.com
https://www.mashreghnews.ir/news/818301.
۸- https://www.mashreghnews.ir/news/801399.
۹- http://www.shafaf.ir/fa/news/108226.
۱۰- http://jc313.ir/?newsid=56.

 

۷۱ سالہ اسرائیل؛ پہلے سے کہیں زیادہ کمزور

  • ۴۴۰

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: صہیونی ریاست نے حالیہ دنوں اپنی عمر کے ۷۱ سال مکمل ہونے کا جشن منایا تاکہ اس کے حکمران کچھ دیر کے لیے اپنے درپیش چیلنجیز کو بھول سکیں۔ اسرائیل کا وزیر اعظم اور دیگر عہدیدار ہمیشہ اس ریاست کی موجودگی کے تحفظ کی بات کرتے ہیں اور کوشش کرتے ہیں کہ اسرائیل کی عمر کو آگے بڑھائیں اور اس کے مقاصد کی تکمیل کی راہ میں لمحہ بھر کے لیے کوتاہی نہ کریں۔
صہیونیوں نے فلسطینی عوام کے “حق واپسی” پیدل مارچ کو سختی سے سرکوب کرتے اور مظاہرین کو جنگی گولیوں کا نشانہ بناتے اور ہر دن اپنے آقا امریکہ کے ساتھ روابط کا طبل بجاتے ہیں تاکہ اسرائیل کی حیات کے جاری رہنے پر اطمینان حاصل کر سکیں۔
ان تمام چیزوں کے باوجود اسرائیل کی زندگی ہمیشہ سے ایک بہت بڑے چیلنج کے روبرو ہے اور علاقے میں اس کی موجودیت رہبر انقلاب اسلامی کی جانب سے چیلنج کی جاتی ہے۔ حضرت آیت اللہ خامنہ ای اکثر اوقات اپنے بیانات میں تاکید کرتے ہیں کہ اسرائیل کی عمر کچھ زیادہ نہیں ہے اور یہ ریاست عنقریب نابودی کا شکار ہو گی۔
کبھی رہبر انقلاب اسلامی، صہیونیوں کی مقبوضہ فلسطین میں اپنی حاکمیت جاری رکھنے کے لیے تمام تر تلاش و کوشش کے باوجود، اس رژیم کے زوال کو اس طرح بیان کرتے ہیں:
“یہ سفاکی اور جارحیت، غاصب رژیم کے رہنماوں اور حامیوں کو مقصد تک نہیں پہنچا پائی ہے، برخلاف اقتدار اور استحکام کی احمقانہ آرزو کے جو خبیث سیاست باز صہیونی ریاست کے لیے اپنے ذہنوں میں پالتے رہتے ہیں یہ رژیم دن بدن زوال اور نابودی کے قریب ہوتی جا رہی ہے”۔
اور کبھی رہبر انقلاب قرآن کریم کی آیت سے استناد کرتے ہوئے اسرائیل کی نابودی کا یوں وعدہ دیتے ہیں: “اس میں شک نہیں کرنا چاہیے کہ اسرائیل کے شجرہ خبیثہ “اجتثت من فوق الارض ما لها من قرار” کی کوئی بنیاد اور اساس نہیں ہے لہذا بغیر شک کے اسے نابود ہونا ہے”۔
کیا چیز سبب بنی ہے کہ صہیونی ریاست جسے بظاہر دنیا کی سب سے بڑی استعماری طاقت کی حمایت حاصل ہے اور جو عظیم مالی ذخائر اور فوجی قوت کی حامل ہے اس طریقے سے زوال اور نابودی کے دہانے پر پہنچ چکی ہے؟
اسرائیل کو کچھ بیرونی اور کچھ اندرونی چیلنجیز کا سامنا ہے جن کی وجہ سے اسرائیل موت کے دلدل میں گرفتار ہو چکا ہے۔ یہ وہ چلینجیز ہیں جن سے صہیونی ریاست ۷۱ سال سے روبرو ہے اور معلوم نہیں کب یہ اسرائیل کی نابودی کو یقینی بنا دیں۔
اسرائیل کا غیر قانونی ہونا ایک دائمی چیلنج
اسرائیل اپنی تشکیل کے روز اول یعنی ۱۹۴۸ سے اب تک اس مشکل سے گرفتار ہے کہ وہ ایک غیر قانونی ریاست ہے۔ اسی وجہ سے ابتدائی دنوں میں ہی عرب ممالک کی جانب سے اسرائیل مخالف لہر وجود میں آئی اور اس کا نتیجہ اسرائیل کے خلاف جنگ کی صورت میں سامنے آیا۔ اگر چہ اس جنگ میں اسرائیل کو ہی کامیابی نصیب ہوئی لیکن اس کے بعد اسلامی انقلاب کا وجود اسرائیل کی حیات کے لیے ایک چیلنج بن کر سامنے آیا۔
ایران میں اسلامی جمہوریہ کا قیام اور علاقے کے دیگر علاقوں میں انقلابی افکار کی ترویج صہیونی ریاست کی مقبولیت کی راہ میں سد باب بن گئی جس کی وجہ سے اب تک اسرائیل اس مشکل کو حل کرنے پر قادر نہیں ہو سکا۔
اسرائیل کے پاس خود کو بچانے کا واحد راستہ امریکہ کی پناہ حاصل کرنا تھا لہذا امریکہ ۷۱ سال سے ایک بڑے بھائی کی طرح اس یہودی ریاست کی حمایت کر رہا ہے۔ لہذا یہ پوری جرئت کے ساتھ کہا جا سکتا ہے کہ اگر اسرائیل کو امریکہ کی حمایت حاصل نہ ہوتی تو یہ یہودی ریاست اب تک صفحہ ہستی سے محو ہو چکی ہوتی۔
اسرائیل کو درپیش اندرونی چلینجز
اسرائیل کو نہ صرف بیرونی چیلنجیز کا سامنا ہے بلکہ وہ اندرونی طور پر شدید مشکلات سے دوچار ہے، اسکولوں، کالجوں، یونیورسٹیوں سے لے کر فوجی چھاونیوں اور اداروں میں جنسی فساد کا پھیلاو، رشوت خواری اور کام چوری جیسے مسائل اندرونی طور پر اسرائیل کے لیے سخت چیلنج بنے ہوئے ہیں۔
اسرائیل ایسے حال میں اپنی ۷۱ سالہ عمر کا جشن منا رہا ہے کہ چاروں طرف سے اس پر موت کے بادل منڈلا رہے ہیں۔ دنیا میں انگشت شمار ریاستوں کے علاوہ اسرائیل کا کوئی حامی نہیں ہے، اسرائیل کی فوجی طاقت پہلے سے کہیں زیادہ کمزور پڑ چکی ہے جس کی وجہ یہ ہے کہ اسرائیلی فوج میں جنسی فساد حد سے زیادہ بڑھ چکا ہے۔ وہ فوج جو علاقے میں سب سے زیادہ قوی اسلحے کی حامل ہے مزاحمتی گروہوں کے چند میزائلوں اور راکٹوں کا مقابلہ کرنے سے عاجز ہے اور دو دن کی جنگ کے بعد جنگ بندی قبول کرنے پر مجبور ہو جاتی ہے۔
اسرائیل کو درپیش چیلنجیز کی طرف مختصر نگاہ دوڑانے سے بخوبی یہ جانا جا سکتا ہے کہ صہیونی ریاست زوال کی طرف گامزن ہے اور اس کے عہدیدار جو اسرائیل کی نجات کے لیے ہاتھ پیر مار رہے ہیں وہ اب کارآمد ثابت نہیں ہوں گے اور اسرائیل کی نابودی بحمد اللہ یقینی ہے۔

بقلم مجید رحیمی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

دعوی “آزادی” کا “اطفال پنجروں میں”

  • ۱۹۸

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: امریکی حکام اور پریزیڈنٹ ٹرمپ کے جنونی عاشقوں کے دعوؤں کے برعکس، امریکہ نہ اس وقت اور نہ ہی ماضی کے کسی مرحلے میں، “سرزمین آزادی اور سورماؤں کا گھر” ہے اور نہ تھا۔ یہ ممکن نہیں ہے کہ ۲۴۳ سال کی تاریخ میں انجام پانے والے شرمناک ترین امریکی اقدامات کا تعارف کروایا جاسکے۔ کیونکہ ہمیں شرمناک اعمال اور افسوسناک رویوں سے مالامال تاریخ کا سامنا ہے چنانچہ ہمیں مجبورا ایک فہرست میں سے کچھ اقدامات کا انتخاب کرنا پڑے گا۔
امن پسند لکھاری اور انسانی حقوق کے کارکن رابرٹ فینٹنیا (Robert Fantina) نے دوسری عالمی جنگ سے لے کر آج تک کے شرمناک ترین اور قبیح ترین امریکی اقدامات کو آشکار کرنے کی کوشش کی ہے۔ اگرچہ متبادل موضوعات لامتناہی نظر آرہے ہیں، لیکن ان اقدامات میں سے بعض کچھ یوں ہیں: جوزف مک کارتھی کی جادوگر کُشی یا کمیونسٹ کُشی کا دور [اس دور میں بےشمار امریکیوں پر جادوگری یا کمیونزم کا الزام لگا کر تشدد اور قتل و غارت کا نشانہ بنایا گیا]، کوریا کی جنگ، اپنے حقوق کا مطالبہ کرنے والے افریقی نژاد امریکیوں کے ساتھ امریکی پولیس کی سنگ دلانہ کاروائیاں، ویت نام کی جنگ، ویت نام کی جنگ کے خلاف احتجاج کرنے والے امریکیوں کے خلاف پرتشدد کاروائیاں، ڈومینیکن جمہوریہ، انگولا، کمبوڈیا، نکاراگوا، لاوس، لبنان، گریناڈا، عراق (دو مرتبہ)، افغانستان، لیبیا، شام، یمن پر الگ الگ حملے۔
ذیل کے تمام واقعات میں امریکہ نے کمیونزم مخالف مداخلتوں میں رابطہ کار (coordinator) کے ظاہری عنوان سے، جمہوری انداز سے منتخب حکومتوں کی کایا پلٹ اور استبدادی خونخواروں کی حمایت کے سلسلے میں اقدامات کئے ہیں:
گھانا، انڈونیشیا، کانگو جمہوریہ، جمہوریہ برازیل، چلی، ارجنٹائن، ال سلواڈور، یوگوسلاویا، کولمبیا۔
ان فہرستوں کو پھر بھی جاری رکھا جاسکتا ہے اور مزید ممالک اور علاقوں کو بھی ان میں شامل کیا جاسکتا ہے۔ لیکن آج میری توجہ ایک نئی، خاص ہلا دینے والی غیر انسانی اور بےرحمانہ پالیسی پر مرکوز ہے جو اس وقت نافذ کی جا رہی ہے اور لگتا ہے کہ امریکی عوام یا تو اس پالیسی سے بےخبر ہیں یا اس کو اہمیت نہیں دے رہے ہیں۔ میرا مطلب امریکہ ـ میکسیکو سرحد پر بچوں کی ان کے اہل خانہ سے جدائی اور بچوں کو پنجروں میں بند رکھنے کی پالیسی ہے۔
کیا یہ امریکی رویہ کسی بھی انسان کے جذبات کو مجروح نہیں کررہا ہے؟ گھرانے شکست و ریخت کا نشانہ بنے ہوئے ہیں، شیرخوار بچوں سمیت ان افراد کو ماؤں کی آغوش سے الگ کیا جارہا ہے جو بچپن کے ایام سے گذر رہے ہیں اور انہیں پنجروں میں بند کیا جارہا ہے۔ امریکیوں کے حراست کے دوران ان بچوں میں سے متعدد بچے جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔
کیا عنوان “پنجروں میں بند بچے” کسی کو بھی متاثر نہیں کررہا ہے؟
بعض اوقات خاندانوں کے بارے میں کچھ جذباتی رپورٹیں پڑھنے کو ملتی ہیں جنہوں نے اپنے بچوں کو پنجروں میں رکھا ہوا ہے۔ بعض اوقات رپورٹیں صرف اس وقت شائع ہوتی ہیں جب کوئی بچہ ان پنجروں میں مر جاتا ہے۔ کچھ مرتکبین کو گرفتار کیا جاتا ہے اور ان پر مختلف الزامات لگائے جاتے ہیں اور سب ان پر لعنت ملامت کرتے ہیں؛ بعدازآں ایسے کچھ بچوں کو یتیم خانوں اور نرسریوں کے سپرد کیا جاتا ہے جو ان دہشتناک حالات سے گذرے ہوتے ہیں، اس امید سے کہ وہاں ان کے ساتھ بہتر سلوک روا رکھا جائے گا۔
بایں حال، جب یہ سلوک امریکی حکومت انجام دیتی ہے، تو پھر یہ اقدامات بالکل قابل قبول ہیں۔ اطفال کو بچوں کی آغوش سے جدا کرنا، والدین کو بچوں کی نگہداشت کی جگہ سے بےخبر رکھنا اور انہیں پنجروں میں بند کرنا۔ اگر یہ بچے مر جائیں تو یہ بہت بری بات ہے، آپ کا کیا خیال ہے؟
اس طرح کے واقعات امریکہ میں اور بعض دوسرے ممالک میں معمول کے عین مطابق ہیں۔ اگر کوئی شخص ذاتی طور پر کسی جرم کا ارتکاب کرتا ہے تو یہ دل دہلا دینے والے جرم شمار کیا جاتا ہے لیکن اسی جرم کا ارتکاب کوئی حکومت کرے تو بالکل قانونی اور قابل قبول ہوگا۔ آیئے ذرا قتل کے مسئلے پر روشنی ڈالیں۔ امریکہ میں قتل کی شرح بہت زیادہ ہے؛ لیکن قتل کے یہ واقعات اس کشت و خون کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں ہے جس کا ارتکاب امریکی حکومت کرتی ہے۔ جب تک کہ ایک شخص یونیفارم میں ملبوس ہوتا ہے اور اس کے ہاتھوں جان گنوانے والا شخص کوئی امریکی شہری نہ ہو (اگرچہ اس عجیب قاعدے سے کچھ متعینہ استثنائات بھی ہیں) ایک شخص کا قتل نہ صرف جرم نہیں ہے بلکہ قاتل سورما اور وطن پرست کہلاتا ہے۔
کچھ تخمینوں کے مطابق امریکی حکومت نے دوسری عالمی جنگ کے بعد سے اب تک پوری دنیا میں دو کروڑ سے زائد انسانوں کو قتل کیا ہے۔ جب اغواکاروں نے طیارے اغوا کرکے مشرقی امریکہ کے تین مقامات کو نشانہ بنایا اور ۳۰۰۰ افراد مارے گئے تو امریکہ نے بدلہ لینے کے لئے دو جنگوں کا آغاز کیا۔ ان دو جنگوں میں آج تک مارے جانے والے افراد کی تعداد ۱۱ ستمبر کے مقتولین سے ایک ہزار گنا زیادہ ہے۔ لیکن لگتا ہے کہ امریکی عوام اس حقیقت کو بھی کوئی اہمیت نہیں دیتے۔
سنہ ۱۹۹۵ع‍ میں ٹیموتھی میک ویئی (Timothy James McVeigh) نے اوکلاہوما شہر (Oklahoma City) کی ایلفریڈ پی مورہ وفاقی عمارت بم دھماکہ کرکے ۲۰۰ افراد کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔ یہ عمل بھیانک اور ناقابل دفاع تھا جو مک ویئی کی پھانسی پر منتج ہوا؛ تاہم جب امریکی حکومت دنیا کے گوشے گوشے میں عمارتوں پر بمباری کرتی ہے یا پھر شام، فلسطین، عراق، افغانستان اور کئی دوسرے ممالک میں رہائشی علاقوں، اسپتالوں، اقوام متحدہ کے زیر نگرانی پنا گزینوں کے کیمپوں پر بمباری کرنے والی قوتوں کو مالی اور عسکری امداد فراہم کرتی ہے، کسی کو بھی دہشت گردی یا قتل کے الزام کا سامنا نہیں کرنا پڑتا۔ میک ویئی کے ہاتھوں مارے جانے والے افراد کی تعداد امریکی حکومت کے ہاتھوں مارے جانے والے افراد کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں ہے۔
لیکن، آیئے امریکہ میں پنجروں میں بند کئے جانے والے بچوں کی طرف پلٹتے ہیں۔ انسانوں کی پنجروں میں بندش امریکی حکمرانوں کے ہاں کوئی نیا رویہ نہیں ہے۔ دوسری جنگ کے دوران ہزار ہزار جاپانی نژاد امریکیوں کو پنجروں میں بند رکھا گیا۔ وہ میکسیکن بچوں کی طرح بنی نوع انسان سے پست نوعیت کے موجودات سمجھے جاتے تھے چنانچہ انہیں پاگل کتوں کی طرح پنجروں میں بند کرنا قابل قبول عمل سمجھا جاتا تھا۔
کہاں ہے اس اقدام سے انسانوں کا غیظ و غضب اور نفرت کا اظہار؟ اپنے اپ سے پوچھنا چاہئے کہ “میں امریکہ کی اس پالیسی کے خلاف ـ جس کے تحت وہ بےگناہ بچوں کو والدین سے جدا کرتا ہے اور انہیں پنجروں میں بند کرتا ہے ـ سڑکوں پر مظاہرہ نہیں کرتا؟ میں کیوں راضی ہوجاتا ہوں کہ ان مسائل سے آنکھیں چرا لوں جبکہ یہ بچے اپنے پنجروں میں بدترین بدسلوکیوں کا شکار ہو رہے ہیں؟ مجھ پر کیا آپڑی ہے کہ اپنی خاموشی سے اس صورت حال سے چشم پوشی کررہا ہوں؟
یہ وہ روش سے جس کے ذریعے “ڈونلڈ ٹرمپ امریکہ کی عظمت رفتہ کو دوبارہ بحال کرنا چاہتے ہیں”۔ یہ وہ اقدامات ہیں جو ان کے نادان، احمق، نسل پرست، زن بیزار اور اسلامو فوبیا پر یقین رکھنے والا ووٹ بینک کی مدد سے انجام پارہے ہیں۔
اس طریقے سے ہی امریکی حکومت ایک بار پھر فسطائیت (fascism) کو روزمرہ کے فیشن میں تبدیل کرنا چاہتی ہے اور کم پڑھے لکھے یورپی نژاد سفید فام امریکی باشندوں ـ جو امریکہ میں صحتمند شہری سمجھے جاتے ہیں ـ کو دوسرے شہریوں کے مد مقابل لا کھڑا کرنا چاہتی ہے۔ اسی بنا پر نہ صرف امریکہ بلکہ پوری دنیا میں جرائم کی شرح میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔ دنیا بھر میں امریکی اثر و رسوخ کو ـ خواہ اچھے خواہ برے (اور بطور معمول بدترین) مقاصد کے لئے ـ عالمی سطح پر محسوس کیا جارہا ہے اور امریکی صدر کی منظور کردہ نسل پرستی ہر جگہ ـ کسی طرح ـ قانونی حیثیت حاصل کررہی ہے۔
لیکن یہ بات ہرگز نہیں بتائی جاتی کہ یہ اقدامات یہاں اس نام نہاد “سرزمین آزادی اور سورماؤں کے گہوارے” میں ہو رہے ہیں۔ یہ وہ سرزمین ہے جہاں حکومت باضابطہ اور سرکاری طور پر میکسیکن بچوں کو پنجروں میں بند کرتی ہے اور ایک کیل کانٹے سے مسلح اسرائیلی فوجی کی طرف پتھر پھینکنے والے فلسطینی بچوں کے لئے ۱۵ سال قید کی سزا کے اخراجات بھی ادا کرتی ہے۔ یہ امریکہ ہے جو یمن میں اسکول کے بچوں کے ذبح ہونے سے چشم پوشی کرتا ہے اور اس بچوں کے اس قتل کے اخراجات بھی ادا کرتا ہے؛ بچوں کے ذبح کا یہ واقعہ کچھ عرصہ قبل اس وقت پیش آیا جب سعودیوں کے امریکی ساختہ طیارے نے اسکول بس کو ـ جو اسکول کے طالبعلموں سے بھری ہوئی تھی ـ امریکی ساختہ بم کا نشانہ بنایا جس کے نتیجے میں ۴۰ بچے قتل ہوئے اور چند ہفتے قبل ایک دوسرے واقعے میں اسکول کی بچیوں کو نشانہ بنایا گیا جس کے نتیجے میں ۱۳ بچیاں زندگی کی بازی ہار گئیں اور یمن میں یہ سلسلہ جاری ہے۔
اس کے باوجود ٹرمپ کے بہی خواہ ـ شہریوں کے بیچ بھی اور کانگریس میں بھی ـ جب ٹرمپ کو امریکی پرچم کو گلے لگاتے ہوئے دیکھتے ہیں تو اپنی آنکھوں کو پرنم کردیتے ہیں؛ اور جب ڈونلڈ ٹرمپ میکسیکو کی سرحد پر بےفائدہ دیوار تعمیر کرنے کے لئے اربوں ڈالر کا بجٹ منظور کروانے کے لئے امریکی کانگریس کو مجبور کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو وہ خوشی کا اظہار کرتے ہیں اور تالیاں بجاتے ہیں۔
وہ اس کی حمایت کرتے ہیں جب وہ سفیدفام نسل پرستوں اور نسل پرستی کے مخالفین کے درمیان تنازعے کے سلسلے میں کہہ دیتے ہیں کہ “اچھے لوگ دونوں فریقوں میں موجود ہیں”۔
ان تمام اقدامات کے بعد اور کونسا ایسا عمل ہونا باقی ہے جو امریکی شہریوں کو غفلت اور بے اعتنائی کی اس گہری نیند سے جگا دے؟ اگر بےگناہ بچوں کو پنجروں میں بند کرنے کا عمل امریکیوں کو نہ جگا سکا ہو تو میں کم از کم یہ تصویر کرنے سے قاصر ہوں کہ اس کے بعد اور کونسا ایسا واقعہ ہوسکتا ہے جو امریکی عوام کو بیدار کرے؟

بقلم رابرٹ فینٹینا (Robert Fantina) قلمکار اور بین الاقوامی امن اور انسانی حقوق کے کارکن
ترجمہ فرحت حسین مہدوی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سورس: https://www.globalresearch.ca/caging-children-land-free/5676628

یہودی غاصبوں کی پیٹاگونیا بھاگنے کی تیاریاں

  • ۳۷۲

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: پیٹا گونیا کا رقبہ ۹ لاکھ کلومیٹر کے لگ بھگ ہے یا یوں کہئے کہ یہ سرزمین پاکستان سے بڑی ہے۔ پیٹا گونیا بھی آبادی سے خالی سرزمین نہیں ہے بلکہ یہاں ۲۰ لاکھ کے قریب لوگ بھی رہتے ہیں چنانچہ ان لوگوں کو بھی اپنا انجام فلسطینیوں جیسا نظر آرہا ہے۔
پیٹاگونیا قدرتی عجائبات کے لئے بھی مشہور ہے؛ جس کے مغرب اور جنوب میں انڈیس (Andes) پہاڑی سلسلہ اور مشرق میں نشیبی صحرائی علاقہ ہے۔ پیٹاگونیا کا چلی والا حصہ شہر پویرتو مونت سے شروع ہوتا ہے اور اس کا ارجنٹائن والا حصہ دریائے کولوراڈو (Colorado River [Argentina]) کے جنوب سے شروع ہوتا ہے۔  
لیکن جس چیز نے حالیہ برسوں میں لاطینی امریکہ کی سیاسی اور ابلاغیاتی توجہ اپنی جانب مبذول کروائی ہے، نہ تو یہاں کا خوشگوار موسم اور بےمثل چشم و چشم نواز نظارے نہیں ہیں بلکہ صہیونیوں کی نقل مکانی اور پیٹاگونیا میں زمین کی خریداری واحد اہم موضوع ہے جو چلی اور ارجنٹائن کے حلقوں کا موضوع سخن بنی ہوا ہے۔
یہ ایک دعوی نہیں ہے بلکہ ایک ایسا نوظہور مسئلہ ہے کہ آج آشکارا کہا جاسکتا ہے کہ ماضی کی نسبت کہیں زیادہ حقیقت کا روپ اختیار کرچکا ہے۔ اسی سلسلے میں اسرائیلی ریاست کی تشکیل کے آغاز میں جو مسودہ “روتھشیلڈ خاندان” (Rothschild Family) کو دستاویز کے طور پر دیا گیا، اس میں پیٹاگونیا یہودی ریاست کی سرزمین قرار دی گئی تھی۔
 
پیٹاگونیا کا معتدل موسم، یہاں کی مالامال معدنیات اور مختصر سی آبادی، اس علاقے کو صہیونیوں کے لئے دلچسپ بنا رہی تھی۔ [گویا اسلام دشمن مغربی طاقتیں بھی جانتی تھیں کہ سرزمین فلسطین تر نوالہ نہیں ہے اور آخرکار یہودیوں کو یہاں سے رخت سفر باندھنا ہے چنانچہ انھوں نے وقتی طور پر یہودیوں سے جان چھڑانے کی غرض سے ان کو فلسطین کا قبضہ دلوایا اور پیٹاگونیا کو یہودیوں کا آخری ٹھکانا قرار دیا چنانچہ اب یہودیوں کو فلسطینی سرزمین پر ان کے مطلوبہ مسیح کے نزول سے زیادہ، فلسطینی بچوں کے غلیلوں سے بھاگنے کے فکر کھائے جارہی ہے اور پیٹاگونیا میں زمین کی خریداری کے سلسلے میں اسی بنا پر شدت آئی ہے]۔
کئی سالوں سے ارجنٹائن اور چلی کے متعدد سیاستدان یہودی سرمایہ داروں کے ہاتھو پیٹاگونیا کی زمینوں کی خریداری پر تنقید کررہے ہیں لیکن جیسا کہ اندازہ لگایا جاتا ہے، ان دو ممالک کے ذرائع ابلاغ نیز دنیا کے بڑے ذرائع، گویا کہ اس موضوع کو ہوا نہیں دینا چاہتے!!!
 پیٹاگونیا میں صہیونیوں کی سرگرمیوں کے بارے میں چلی کے سینیٹر کے انکشافات
اسی سلسلے میں یہودی ریاست کے اخبار ہاآرتص نے دسمبر ۲۰۱۳ع میں چلیائی سینیٹر یوگینیو توما (Eugenio Tuma) کے حوالے سے لکھا کہ “اسرائیلی فوجی چلی میں نقشہ کشی کررہے ہیں اور پیٹاگونیا کو دنیا کے یہودیوں کی جائے پناہ میں تبدیل کرنا چاہتے ہیں”۔
ہاآراتص کے مطابق، مذکورہ سینیٹر ـ جو چلیائی سینٹ کی خارجہ کمیٹی کے سربراہ بھی رہے ہیں ـ نے کہا تھا کہ “چلی کی حکومت سیاحت کے بھیس میں ہونے والے اقدامات کی نسبت غیر جانبدار نہیں رہ سکتی؛ کیونکہ اسرائیل کے ہزاروں ریزرو فوجی تسلسل کے ساتھ پیٹاگونیا کا دورہ کررہے ہیں”۔  
سینیٹر توما نے سنہ ۲۰۱۳ع‍ کے بعد بھی متعدد رپورٹیں شائع کی ہیں جن میں انھوں نے واضح کیا ہے کہ پیٹاگونیا پر یہودیوں کے قبضے کا آغاز سنہ ۱۸۸۶ع‍ میں سوئٹزر لینڈ کے شہر باسیل (Basel) میں تھیوڈور ہرزل کی صدارت میں منعقدہ خفیہ کانفرنس ہی سے ہوچکا تھا۔
واضح رہے کہ پیٹاگونیا کا دو لاکھ ۵۶ ہزار کلومیٹر مربع حصہ چلی میں اور سات لاکھ ۸۷ ہزار کلومیٹر مربع حصہ ارجنٹائن میں واقع ہوا ہے اور طے یہ پایا ہے کہ اس سرزمین کو عالمی یہودیوں کی متبادل سرزمین میں تبدیل کیا جائے۔ ادھر چلی کے دارالحکومت میں مقیم یہودیوں کے سربراہ نے سیاسی جماعت ” Party for Democracy” کو خط لکھ کر مذکورہ سینیٹر کے موقف کی مذمت اور ان کی برخاستگی کا مطالبہ کیا۔
اس علاقے کی صورت حال کچھ یوں ہے کہ یہاں آنے والے سیاحوں کا کہنا ہے کہ اسرائیلی فوجیوں کی موجودگی اور عبرانی زبانی کے فروغ کی کوششیں ناقابل انکار ہیں۔
ایک برطانوی یہودی ارب پتی ملوث ہے
ایک ایرانی سفارتکار “محسن پاک آئین” اس سلسلے میں لکھتے ہیں: “ارجنٹائن کے ذرائع نے تصدیق کی ہے کہ یہودی ریاست برطانیہ کے خفیہ اداروں اور صہیونیت کے حامی عناصر کی مدد سے پیٹاگونیا میں اراضی خرید رہی ہے اور حال ہی میں ارجنٹائن کے بعض ذرائع ابلاغ نے اپنی رپورٹ میں ایک برطانوی یہودی ارب پتی جو لیویس (Joseph C. Lewis) کے ہاتھوں لاکھوں اسرائیلیوں کی آبادکاری کے لئے پیٹاگونیا میں اراضی کی خریداری پر حیرت اور تشویش کا اظہار کیا ہے۔۔۔ جولیویس نے ارجنٹائن اور چلی کے درمیانی علاقے میں وسیع اراضی خرید لی ہیں اور مشہور ہے کہ اس کی ملکیتی زمین اسرائیلی قلمرو سے کئی گنا بڑی ہے۔ زیادہ تر خریدی گئی اراضی تےرا دیل فےگو (Tierra del Fuego) کے علاقے میں واقع ہیں۔ لاگو ایسکونڈیڈو (Lago Escondido) کے علاقے میں بھی وسیع اراضی کی خریداری اس یہودی ـ برطانوی ارب پتی کے منصوبے میں شامل ہے”۔  
 گارجین: پیٹاگونیا کے مقامی باشندے اسرائیلیوں کی آمد سے ناراض
روزنامہ گارجین نے جنوری سنہ ۲۰۱۵ع‍ میں ایک رپورٹ کے ضمن میں نام نہاد یہودی سیاحوں کی آمد سے ارجنٹینی پیٹاگونیا کے عوام اور اس علاقے کے مقامی باشندوں کی شدید ناراضگی پر مبنی رپورٹ شائع کردی۔ رپورٹر نے لکھا تھا کہ اس علاقے میں موجود یہودیوں کو علاقے کے اصلی باشندوں کی بدسلوکی کا سامنا ہے۔
گارجین، جو اپنی پرانی پالیسی کے مطابق یہودیوں کو مظلوم بنا کر پیش کرنا چاہتا ہے، لکھتا ہے: “جنوبی ارجنٹائن میں واقع پیٹاگونیا کے مقامی لوگوں کی طرف سے نو وارد یہودی آبادکاروں کے ساتھ بدسلوکی میں اس لئے بھی اضافہ ہوا ہے کہ وہ سمجھے ہیں کہ جو یہودی حال ہی میں اس علاقے میں آبسے ہیں، در حقیقت اسرائیلی فوجی ہیں”۔
گارجین نے ارجنٹائن کے یہودیوں کے فراہم کردہ اعداد و شمار کو بنیاد بنا کر دعوی کیا ہے کہ “اس علاقے میں یہود مخالف اقدامات اور نازیت کی حمایت میں اٹھائے جانے والے نعروں میں مسلسل اضافہ ہوا ہے اور عوام پیٹاگونیا سے یہودیوں کے فوری انخلاء کا مطالبہ کر رہے ہیں”۔
فلسطین سے فرار صہیونیوں کی حتمی قسمت
غاصب یہودیوں کے لئے متبادل سرزمین کا موضوع نہایت حساس اور اہم موضوع ہے جس پر بحث و تمحیص کی کھلی اجازت کسی کو بھی نہیں دی جاتی ہے۔ اگرچہ سنہ ۲۰۰۶ع‍ میں حزب اللہ کے ساتھ ۳۳ روزہ جنگ کے بعد سے یہودیوں کی الٹی نقل مکانی شروع ہوچکی ہے اور حال ہیں غزہ، لبنان اور جولان کی طرف سے مقبوضہ فلسطین میں قائم غاصب یہودی ریاست کے شدید محاصرے کے بعد سے اس نقل مکانی میں مزید شدت آئی ہے اور اسی بنا پر مقبوضہ سرزمین سے یہودیوں کی الٹی نقل مکانی ایک بار پھر مختلف حلقوں میں موضوع بحث بنی ہوئی ہے۔ اس سے پہلے بھی کئی ذرائع نے یہودیوں کی الٹی نقل مکانی اور دوبارہ آبادکاری کے لئے کینیڈا، پولینڈ اور جنوبی سوڈان کے کچھ علاقوں کا جائزہ لینے کے بارے میں رپورٹیں شائع کی ہیں۔
دریں اثناء اگرچہ رہبر انقلاب امام سید علی خامنہ ای (حفظہ اللہ تعالی) نے یہودی ریاست کے خاتمے کی پیشگوئی کی ہے لیکن وہ اس حوالے سے تنہا نہیں ہیں اور سنہ ۱۹۹۰ع‍ کے عشرے سے کچھ یہودی علماء اور مفکرین نے بھی اسرائیل نامی ریاست کے تسلسل کو ناممکن قرار دیا ہے اور یہ مفکرین ـ ان کے بقول ـ مقدس سرزمین میں یہودی ریاست کی بقاء کو ناممکن سمجھ رہے ہیں۔ نیز، بعض سیاسی مبصرین کا خیال ہے کہ علاقے میں ایک طویل المدت اور شدید لڑائی شروع ہونے کی صورت میں دنیا بھر سے مقبوضہ سرزمین میں آبسنے والے یہودی نہایت تیزی کے ساتھ فلسطین کو چھوڑ کر دوسرے ممالک کی طرف فرار کریں گے۔
 
اسی بنا پر مسئلہ فلسطین کے آغاز سے کئی عشرے گذرجانے اور فلسطینی کاز کو فراموشی کے سپرد کروانے کے لئے درجنوں منظرناموں کے نفاذ کے باوجود، مسلم اقوام، مغرب کے آگے سجدہ ریز حکمرانوں کے برعکس، فلسطینی سرزمین اور یہاں کے مظلوم عوام کی پشت پناہی کی پابند ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ اسرائیل کہلوانے والی غاصب ریاست، سرزمین فلسطین میں تیل اور گیس کے ذخائر دریافت ہونے کے بعد ہر صورت میں اس سرزمین اپنا غاصبانہ قبضہ قائم رکھنا چاہتی ہے جو لبنان، شام اور فلسطین کی مجاہد اقوام کی جدوجہد کی بنا پر ممکن نہیں، چنانچہ یہ ریاست اسی اثناء میں متبادل سرزمینوں کو بھی مدنظر رکھی ہوئی ہے کیونکہ امریکہ کی غیر محتاطانہ اور بےتحاشا حمایت کے باوجود، اس ریاست کی صورت حال ہمیشہ سے زیادہ نازک اور زیادہ متزلزل ہے اور یہودی ریاست کے منتظمین اپنی موجودگی کا اختتام اب بغیر عینک کے بھی دیکھ سکتے ہیں؛ گویا یہ ایک وقتی ٹھکانا تھا جو اسرائیل کی بنیاد رکھنے والے یورپیوں نے یہودیوں کے شر سے بچنے اور مسلمانوں کو سزا دینے کے لئے ان کے سپرد کیا تھا اور پیٹاگونیا ابتدائی دستاویزات کے مطابق ان کی دائمی سرزمین قرار دی گئی تھی چنانچہ اب وہ اپنی دائمی سرزمین میں بس جانے کی تیاری کررہے ہیں گوکہ پیٹاگونیا کے عوام بھی بظاہر انہیں خیرمقدم کہنے کے لئے تیار نہیں ہیں اور وہاں جانے کے بعد انہیں کسی تیسری اور چوتھی متبادل سرزمین کا تعین بھی کرنا پڑے گا۔
منبع: mshrgh.ir/952902
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

برطانیہ کا ایشیائی تجارت پر تسلط کا نقطہ آغاز

  • ۳۹۷


بقلم میلاد پور عسگری
خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: سولہویں صدی عیسوی تک ایشیا میں تجارت مسلمان تاجروں کے ہاتھ میں تھی۔ یہاں تک کہ مغربی بازار بھی ایشیائی تجارت سے بے حد متاثر تھے۔ اس درمیان جینوا اور وینس کے تجار اور اٹلی کے یہودی سب سے زیادہ دلالی کا کام کرتے تھے اور مسلمانوں کے تجارتی سامان کو مغربی بازار میں منتقل کرتے تھے۔
ایشیا اور یورپ کے درمیان تجارت کے صرف تین بنیادی راستے تھے اور اٹلی سے جڑے ہوئے تھے اور یورپ کے دیگر ممالک کو ایشیائی سامان خریدنے کے لیے اٹلی ہی جانا پڑتا تھا بلکہ یوں کہا جائے کہ اٹلی یورپ کو ایشیا سے ملانے والا تنہا ملک تھا۔ یہ چیز اس بات کا باعث بنی کہ یہ ملک اپنے زمانے میں مغربی سیاست اور کلچر کے مرکز میں تبدیل ہو جائے۔ ایک جرمن محقق ’’زیگریڈ ہونکہ‘‘ کے بقول اگر مسلمانوں کی تجارت نہ ہوتی تو مغرب، آج مغرب نہ ہوتا۔
تجارت کے ان راستوں میں ایران اپنی دوبندر گاہوں؛ ہرمز اور کیش کی وجہ سے رابطہ کردار ادا کر رہا تھا۔ بلکہ یوں کہا جائے کہ ایران اس تجارت کے قلب میں واقع تھا۔ اسی وجہ سے بعد میں پرتگالیوں اور ہالینڈیوں نے ایران کی طرف بھی ہاتھ بڑھانا شروع کر دئے تھے۔ دوسرے لفظوں میں یہ صدی وہ صدی ہے جس میں مغرب کی تجارت یہودیوں کے ذریعے عروج پکڑ رہی تھی۔
الزبتھ اول کا دور (۱۶۰۳-۱۵۵۸) برطانوی نوآبادی سلطنت کی شروعات تھی۔ اسی دور میں سلطنتی خاندان نے مغرب میں ’غلاموں‘ کا تجارت کا کاروبار شروع کیا۔ یہ وہی زمانہ تھا جب یہودیوں نے برطانوی دربار میں اپنا اثر و رسوخ بڑھایا اور ملکہ سے خود کو اتنا نزدیک کیا کہ وہ عبری زبان سیکھنے کی شوقین ہو گئی۔
جب الزبتھ نے برطانیہ کی حکومت کی لگام اپنے ہاتھ میں لی تھی تب اس ملک کی معیشت انتہائی بدحالی کا شکار تھی لہذا درباری اخراجات کو پورا کرنے کے لیے سمندروں میں تجارتی کاروانوں پر ڈاکہ ڈالا جاتا تھا یا پھر غلاموں کی تجارت کے ذریعے اپنے اخراجات پورے کئے جاتے تھے۔ اس دور میں ’’سر جان ہاوکینز اور سر فرانسیس ڈریک‘‘ ملکہ کے نزدیک دو اہم افراد شمار ہوتے تھے، ہاوکینز نے برطانیہ اور جنوبی امریکہ کے درمیان تجارتی سلسلہ کی بنیاد رکھی علاوہ از ایں الزبتھ کے ذریعے انجام پانے والی غلاموں کی تجارت کی سرپرستی بھی ان کے ذمہ تھی۔ ’ڈریک‘ بھی ان ایام میں ملکہ کا درباری کتا تھا جو ان کے حکم سے تجارتی کاروانوں پر ڈاکہ ڈالتا تھا۔
برطانیہ کی سمندری ڈاکہ زنی ۱۵۷۸ سے شروع ہوئی جس کا سلسلہ امریکہ کی سرحد تک جڑا ہوا تھا۔ یہ چیز باعث بنی کہ اس ملک خصوصا ملکہ کے دربار کو فراوان مال و دولت حاصل ہو سکے۔ برطانیہ کی یہ غارتگری اور اقتدار میں وسعت اس بات کا سبب بنی کہ ہسپانیہ کا بادشاہ، ایشیا اور امریکہ کے درمیان اپنے تجارتی واسطہ کا تحفظ کرے جو البزتھ کے نزدیک سخت دشمنی کا باعث بنا۔
ہسپانیہ کے زیر تسلط مغربی علاقوں میں ملکہ الزبتھ کے شرانگیز کارنامے سبب بنے کہ ۱۵۸۵ میں ان دوملکوں کے درمیان بیس سالہ طولانی جنگ کا سلسلہ شروع ہو جائے۔ بیس سال جنگ کے بعد برطانیہ کی بحریہ ہسپانیہ کی طاقتور کشتی ’آرماڈا‘ کو شکست دینے میں کامیاب ہو گئی۔ یہ برطانیہ کا ایشیا اور آدھی دنیا کی تجارت پر سوسالہ قبضے کا نقطہ آغاز تھا۔
منبع: زرسالاران یهودی و پارسی، شهبازی، عبدالله، موسسه مطالعات و پژوهش‌های سیاسی، تهران، چاپ اول: ۱۳۷۷، ص۷۰-۴۱٫

 

یہودی صیہونی تحریک کے لئے برطانوی سیاسی حمایت

  • ۳۹۴

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ:  1897 میں سوئٹزرلینڈ کے شہر باسل میں پہلی عالمی صہیونی کانفرنس کے انعقاد کے بعد ، صہیونی ریاست کے قیام کے خواہاں یہودی رہنماؤں نے بڑی تعداد میں سیاسی شخصیات اور اعلی برطانوی سرکاری عہدیداروں کی حمایت اور یکجہتی حاصل کرنے میں کامیابی حاصل کی ۔  اس میں سب سے زیادہ اہم کردار ’ولیم ہیشلر‘ کا تھا جس نے یہودیوں کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کیا۔  

ہیشلر فرانس اور جرمنی کی جانب سے بھیجا ہوا نمائندہ تھا جو بعد میں 1885 میں ویانا میں برطانوی سفارتخانے میں ایک کاہن کے عنوان سے ملازمت کرنے لگا۔ اسی وجہ سے صہیونی تحریک کے لیے یہ منصب اسٹریٹجکی اہمیت کا حامل ہو گیا۔
 
یہودیوں کی فلسطین واپسی
 ہیشلر نے شفٹس بیری کے طرز زندگی پر پختہ یقین کے ساتھ 1894 میں "یہودیوں کی فلسطین واپسی" کے  عنوان سے ایک کتاب لکھی تھی (اس کی کتاب ہرٹزل کی کتاب "ڈیر جوڈین اسٹیٹ" سے دو سال قبل شائع ہوئی تھی)۔ اس نے اپنی کتاب میں کہا، "یہودیوں کی سرزمین فلسطین میں واپسی عہد قدیم کی پیش گوئیوں پر مبنی ہے۔"  اور مذکورہ شخص کو صیہونی ریاست کے قیام کے لئے ہرٹزل کے نزدیک ایک اہم عیسائی اتحادی کی حیثیت سے پہچنوایا گیا۔
وہ ان تین مسیحی رہنماؤں میں سے ایک ہے جنہوں نے عالمی صہیونی کانفرنس میں شرکت کے لئے دعوت نامے بھیجے تھے۔ ہرٹزل کوئی مذہبی شخص نہیں تھا ، لیکن توہم پرستی پر یقین رکھتا تھا۔ اس نے اپنی ڈائری میں 10/3/1896 عیسوی کو ہیشلر سے اپنی گفتگو کے بارے میں لکھا: "برطانوی سفارت خانے کے کاہن پادری ولیم ہیشلر مجھ سے ملنے یہاں آئے تھے۔ وہ نبیوں کی طرح نرم مزاج اور خاکستر آدمی تھے میں نے یہودیوں کے مسئلے کے لیے جو تجویز پیش کی انہوں نے اس میں گہری دلچسپی کا اظہار کیا، اور یہ محسوس کیا کہ میں نے ان پیش گوئیوں کو سرانجام پہنچانے کا فیصلہ کیا ہے جو وہ پچھلے سال کہہ چکے تھے  ہیشلر کی توقع کی تھی کہ یہودیوں کی فلسطین واپسی کا آغاز1897 میں شروع ہو جانا چاہیے‘‘۔
ہرٹزل اپنے گھر میں ہشلر کے ساتھ ہوئی دوسری ملاقات کے بارے میں کہتا ہے: "مجھے حیرت ہوئی کہ ہیشلر کا کمرہ بائبل اور فلسطین کی جنگ عظیم کے نقشوں سے بھرا ہوا تھا۔ انہوں نے مجھے بیت ایل میں نئے ہیکل سلیمانی کی تعمیر اور اپنے منصوبوں کے مطابق نئی حکومت کے دار الحکومت کے بارے میں میرے لیے وضاحت کی۔ اور مجھے کہا کہ میں قدیمی ہیکل کے نقشے پر غور کروں۔ اس کے بعد بڑے ذوق و شوق کے ساتھ کہا: ہم نے یہ زمین تم لوگوں کے لیے آمادہ کر دی ہے۔ ۔۔۔ وہ ایک سادہ مزاج شخص تھے اور مجھے پورے خلوص کے ساتھ نصیحت کرتے تھے۔ وہ اس کے باوجود کہ سادہ مزاج تھے بہت چالاک اور ذہین بھی تھے۔‘‘  
ہیشلر نے اپنے عہد و پیمان سے وفاداری کرتے ہوئے ہرٹزل کو جرمنی کے شاہ دوم ولیم سے بات چیت کرنے کو کہا۔
 
صہیونی عیسائیوں کے طرز افکار میں بنیادی تبدیلی
ہیشلر کی کاوشوں اور نقل و حرکت کے نتیجے میں صہیونی عیسائیوں کے طرز تفکر میں ایک بنیادی تبدیلی واقع ہوئی۔  ابتدائی نقادوں جیسے اپرونک اور ڈرمونڈ کے خیالات سے قطع نظرکہ جو یہودیوں کی فلسطین واپسی کو یہودیوں پر مسلط بیرونی سیاستوں کا نتیجہ سمجھتے تھے،  ہشلر نے تب بھی یہ اصرار کیا کہ عیسائیوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ یہودیوں کی فلسطین واپسی کی حمایت کریں۔
ڈیوڈ لائیڈ جارج نے 1919 میں برطانوی وزیر اعظم کے دفتر پہنچ کر اعتراف کیا کہ وہ صیہونی تھا اور شفٹس بیری خیالات کا ماننے والا تھا۔
تحریر؛ حسین صلواتی‌پور
منبع؛ استفان سایزر – الصهیونیون المسیحیون علی طریق هرمجدون و  دکتر ریاض جرجور – صهیونیسم مسیحی یا صهیونیسم آمریکایی