صہیونی ریاست کی تشکیل میں امریکہ کا کردار

  • ۳۵۰

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: بہت سارے لوگ یہ سوچتے ہیں کہ اسرائیل کی تشکیل میں اہم ترین کردار برطانیہ کا ہے اور حتیٰ تاریخ میں یہ ذکر ہوا ہے کہ عثمانی حکومت کے زوال کے بعد، فلسطین برطانیہ کے زیر قبضہ چلا گیا اور برطانیہ نے اس سرزمین کو صہیونیوں کے حوالے کر دیا۔ لیکن حقیقت کچھ اور ہے۔ اس ریاست کی تشکیل میں برطانیہ سے کہیں زیادہ امریکہ کا کردار ہے جو پہلی عالمی جنگ میں نمایاں ہوتا ہے۔
پہلی عالمی جنگ میں امریکہ کی شرکت اس کے باوجود کہ امریکہ جنگ کے دو اصلی حریفوں میں سے کسی ایک کا طرفدار نہیں تھا، اس بات کا باعث بنی کہ بہت سارے امریکیوں کو اپنی جانوں سے منہ ہاتھ دھونا پڑا۔ اس زمانے کے امریکی عوام سخت مخالف تھے کہ امریکہ جنگ میں آگ میں کود پڑے اور انہیں اس کا خمیازہ بھگتنا پڑے بلکہ یہاں تک کہ امریکہ کا اٹھائیسواں صدر ’ ووڈرو ولسن ‘ اس وقت اسی شعار کے ساتھ مسند صدارت پر براجمان ہوا کہ وہ امریکہ کو عالمی جنگ سے محفوظ رکھے گا۔ اس کے باوجود اس نے ۱۹۱۷ میں اپنا موقف بدلتے ہوئے عالمی جنگ کی آگ میں چھلانگ لگائی اور ۲۷۰ ہزار امریکیوں کے قتل یا زخمی ہونے کا باعث بنا۔ البتہ یہ تعداد ۱۲۰۰ ہزار کے علاوہ ہے جو جنگ کی مخالفت میں امریکی عقوبت خانوں میں بند کئے گئے۔
تجزیہ نگار پہلی عالمی جنگ میں امریکہ کی شرکت کی مختلف وجوہات بیان کرتے ہیں جیسے جرمن آبدوز کے ذریعے امریکی بحری جہاز کا غرق کیا جانا یا امریکی ڈپلومیٹیک شکست، برطانیہ کی اشتعال انگیزی، وغیرہ لیکن بہت کم لوگ ہیں جو اس بات سے باخبر ہیں کہ امریکہ کو پہلی عالمی جنگ میں دھکیلنے والے امریکی صہیونی یہودی تھے۔
صہیونی ایک مستقل یہودی ریاست کی تشکیل کے لیے سب سے پہلے عثمانی سلطنت کے پاس گئے، لیکن عثمانی بادشاہ نے مخالفت کے ضمن میں، انہیں عثمانی حکومت کے قلمرو کے علاوہ کسی دوسری جگہ پر یہودی حکومت کی تشکیل کا مشورہ دیا کہ جو انہوں نے قبول نہیں کیا۔ اس کے بعد وہ برطانوی حکومت کے پاس گئے لیکن  اس نے بھی کچھ زیادہ اس بارے میں رجحان نہیں دکھایا۔
لیکن ۱۹۱۶ء میں برطانیہ کے حالات میں کافی تبدیلیاں رونما ہوئیں۔ وہ جو پہلی عالمی جنگ میں پیش قدم تھے انہوں نے ایک دن میں ۶۰ ہزار جانوں کو موت کی بھینٹ چڑھایا۔ حالات انتہائی بحرانی کیفیت اختیار کر گئے تھے۔ ایسے سخت حالات میں صہیونیوں نے موقع سے فائدہ اٹھایا اور برطانیہ کو جنگ سے نجات دلانے کا وعدہ دیا لیکن اس کے بدلے میں انہوں نے برطانیہ سے ایک خاص چیز کا وعدہ لیا۔
اس سے پہلے صہیونی، فلسطین میں یہودی ریاست کی تشکیل کے حوالے سے برطانیہ کو قانع کرنے کے لیے صرف مذہبی دلائل پیش کرتے تھے لیکن اس بار انہوں نے اعلان کیا کہ اگر برطانیہ فلسطین میں یہودی ریاست کی تشکیل کی حمایت کا وعدہ دے تو ہم جنگ میں امریکہ کو برطانیہ کی حمایت کے لیے میدان میں لائیں گے۔
لہذا برطانوی وزیر خارجہ “لورڈ بالفور (Lord Balfour) نے ۱۹۱۷ میں صہیونیوں کے رہنما “لورڈ روتھسچیلڈ (Lord rothschild) کے نام ایک مستقل یہودی ریاست کی تشکیل کی حمایت میں خط لکھ دیا۔ یہ خط جو بعد میں “بالفور” اعلانیہ کے نام سے معروف ہو گیا، اس میں یہودی ریاست کی تشکیل میں تعاون کے مشورے کو قبول کیا۔ البتہ اس خط میں یہ قید بھی لگائی گئی تھی کہ فلسطین میں ساکن غیر یہودیوں کے مذہبی اور شہری حقوق پامال نہیں ہونا چاہیے، لیکن بعد میں بالکل اس کے برخلاف عمل کیا گیا۔ لیکن سوال یہ ہے کہ ان دو ملکوں برطانیہ اور امریکہ کے درمیان کن لوگوں نے رابطہ پل قائم کیا؟
واضح ہے کہ یہ تمام منصوبے برطانیہ اور امریکہ میں ساکن صہیونی یہودیوں کے ذریعے انجام پا رہے تھے۔ دونوں ملکوں کے صہیونیوں کے درمیان اتنے گہرے تعلقات پائے جاتے تھے کہ نہوم سکولوو (nahum sokolow) اس بارے میں لکھتے ہیں: ’’جو بھی منصوبہ لندن میں تیار ہوتا تھا امریکہ میں صہیونی تنظیم کے ذریعے اس پر جائزہ لیا جاتا تھا اور امریکہ میں صہیونیوں کے جانب سے پیش کئے گئے ہر منصوبے کو لندن میں عملی جامہ پہنایا جاتا تھا‘‘۔
امریکہ میں ’لوئیس برانڈیس‘ نامی صہیونی یہودی جو سپریم کورٹ کا جج بھی تھا اور امریکی صدر کا بہت قریبی دوست بھی وہ اس کام کا پیچھا کر رہا تھا اور برطانیہ میں ’آمری (Leopold Amery) نامی شخص ان امور پر ناظر تھا۔ البتہ یہودی ریاست کی تشکیل کا نظریہ سب سے پہلی مرتبہ پروشیم(parushim) خفیہ تنظیم کے بانی “ہورس کالن” نے پیش کیا۔ اس کے بعد صہیونی سربراہان نے اس پر غور و خوض کے بعد برطانیہ کو اس پر عملی جامہ پہنانے کی پیشکش کی۔ بہت ساری اہم سیاسی شخصیات جیسے برطانوی وزیر خارجہ لوئڈ جورج ( Loyd george) ، برانڈیس یونیورسٹی کے استاد فرینک ای مینوئل (Frank E manuel) بیت المقدس میں امریکی قونصلٹ کے عہدیدار ایون ام ویلسن (Evan m wilson) صہیونی مورخ نوآمی کوہن اور دیگر بہت سارے افراد نے اپنی تحریروں اور تقریروں میں امریکی صہیونیوں کی اس کام میں براہ راست مداخلت کی طرف اشارہ کیا ہے۔
اس زمانے میں جب صہیونی یہودی اپنے مقاصد کے حصول کے لیے مذاکرات کر رہے تھے تو ۱۹۱۷ میں امریکی وزیر خارجہ روبرٹ لینسینگ (Robert Lansing) کے پاس رپورٹ پہنچی جس سے یہ معلوم ہو رہا تھا کہ عثمانی حکومت جنگ سے تھک چکی ہے اور ممکن ہے وہ جرمن اتحاد سے باہر نکل جائے اور برطانیہ کے ساتھ کوئی الگ معاہدہ کر لے۔ یہ چیز اگر چہ برطانیہ کے فائدے میں تھی لیکن اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ صہیونی اپنے مقاصد تک نہ پہنچ سکیں یعنی فلسطین میں یہودی ریاست تشکیل نہ دے سکیں۔ اس لیے کہ ممکن تھا اس معاہدے کے تحت فلسطین عثمانیوں کے ہاتھوں میں باقی رہ جائے۔
امریکہ ایسے معاہدے کو امکان سے باہر سمجھ رہا تھا لیکن اس کے باوجود امریکہ نے محققین کا ایک وفد عثمانی سلطنت کی طرف بھیجا۔ قابل توجہ بات یہ ہے کہ اس وفد کا ایک شخص جو اس ٹیم کے افراد کے انتخاب کے لیے پیش پیش تھا ایک صہیونی یہودی تھا جس کا نام فلیکس فرانکورٹر تھا اور وہ پروشیم خفیہ تنظیم کا رکن اور اس کے بانی لوئیس برانڈیس کا پرانا دوست تھا۔ بعد میں معلوم ہوا کہ اس وفد کے منتخب تمام افراد صہیونی تھے اور یہی لوگ باعث بنے کہ عثمانی حکومت اور برطانیہ کے درمیان کوئی معاہدہ تشکیل نہ پائے۔
یہودیوں نے ہمیشہ کی طرح اس بار بھی اپنے مقاصد کے حصول کے لیے بہت سارے غیر یہودیوں کو قربانی کا بکرا بنایا جو خود امریکی تھے۔ اس یہودی وفد نے انہیں ڈھال کے طور پر استعمال کیا تاکہ سانپ بھی مر جائے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے، اپنے مقصد کو حاصل کر لیں اور کسی کو خبر بھی نہ ہو۔
کتاب Against our better judgment: the hidden history of how the u.s was used to create Israel,2014.
مولف: Alison weir
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تحریر میلاد عسگری

 

یہودیوں کی خفیہ تنظیم کا امریکہ میں اثر و رسوخ

  • ۴۶۶

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ:  ان اداروں اور تنظیموں میں جو کہ اسرائیلی رژیم سے قبل خفیہ طور پر بین الاقوامی صہیونیت کے اہداف کے تحت مصروف عمل تھیں « امریکی یہودیوں کی کمیٹی» تھی ۔ یہ وہ خفیہ تنظیم تھی جو ۱۹۰۶ ء میں«جاکوب.اچ.شیف»(jacob H schiff)نامی ایک ثروت مند بینکر کے ذریعہ وجود میں آئی اس نے اپنی تنظیم کے افتتاح کے لئیے ۵۵ جانے مانے یہودی ربانیوں (یہودی مذہبی رہنماوں) مصنفین، تجار، سفیروں، ججوں اور دانشوروں کو امریکہ بھر سے نیویارک مدعو کیا ۔جبکہ یہودیوں کی اس کمیٹی کی تشکیل «انجمن پروشیم» کے برخلاف آشکار و علنی تھا لیکن اس کے بہت سے کام خفیہ تھے ۔«سانوآ(sanua)»اس کمیٹی کے رہبروں میں سے ایک کہتے ہیں : امریکہ کی یہودی کمیٹی کی کوشش ہے کہ ایسے ناموں اور ایسی نشانیوں و ایڈریسوں سے استفادہ کرے جو قومی اور فرقہ ای احساس و جذبات کے بر انگیختہ ہونے کا سبب نہ بنیں ۔ بہت سے ایسے موارد ہیں جہاں اس کمیٹی نے جعلی ناموں سے استفادہ کیا ہے تاکہ کوئی اس بات کی طرف متوجہ نہ ہو کہ امریکی یہودی اس کی قیادت کر رہے ہیں اس کمیٹی کی اراکین ۱۹۳۰ اور ۱۹۴۰ء کی دہائی میں مختلف میٹنگوں اور نشستوں میں حاضر ہوتے رہے اور انہوں نے ۵۰ ہزار لوگوں پر مشتمل ایک ایسی فہرست بھی مرتب کی کہ جن میں وہ لوگ تھے جو انکے زعم میں یہودی ستیز یا یہود مخالف تھے ۔ اس امریکن یہودی کمیٹی کے اقدامات کی بنا پر دسیوں امریکی جیل کی سلاخوں کے پیچھے ڈال دئیے گئے ۔
یہ کمیٹی امریکہ کی حکومت میں اعلی پیمانہ پر اپنے اثر و رسوخ کی بنا پر اقوام متحدہ میں تجویز تقسیم کی منظوری کے سلسلہ میں اپنے نفوذ سے فائدہ اٹھانے میں کامیاب رہی ۔اس کمیٹی کی نمایاں خصوصیت اسکی مخفی اور پشت پردہ فعالیت تھی ، اگرچہ یہ کمیٹی ابتداء میں ایک غیر صہیونی تنظیم میں شمار ہوتی تھی اور اپنی فعالیت کے آغاز میں یہودی حکومت کی تشکیل کے مخالف کے طور پر پہچانی جاتی تھی لیکن اس کی فعالیتیں صہیونی اہداف کے امتداد میں قرار پاتی تھیں ، بطور مثال اس تنظیم نے بالفور کے اعلان کی حمایت کی اور اس تنظیم کے بعض اراکین یہودی تنظیموں اور اداروں کی مالی مدد کرتے تھے توبعض دیگر یہود ایجنسی میں فلسطین سے جڑے امور میں سرگرم عمل تھے ۔انجام کار امریکہ کے یہودیوں کی کمیٹی کے بہت سے اراکین کی مخالفت یہ تنظیم ایک صہیونی تنظیم میں تبدیل ہو گئی اور ۱۹۴۷ء میں اس نے صہیونی گولز و انکے مقاصد کی حمایت کی ۔
: Alison Weir
: Against our better judgment: the hadden history of how the U.S was used to create Israel

 

“یہودی آخر الزمان” اور معاصر سینما

  • ۴۹۷

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: آج سینما کا کردار ایک مقبول ذریعۂ ابلاغ کے طور پر عوام کی زندگی میں بہت اہم ہے کیونکہ لوگ اسے تفریح کے لئے دیکھتے ہیں لیکن انجانے میں اس سے اثر لیتے ہیں۔ سینما نے جاذب اور دلچسپ ہونے کے ناطے عالمی معاشروں کے رویوں، طرز زندگی اور حتی کہ سیاسی، معاشی اور ثقافتی رویوں اور افکار کو متاثر کردیا ہے۔ اسی بنا پر آپ دیکھتے ہیں کہ مغرب اور ہالیووڈ نے کس طرح اقوام کے طرز زندگی کو بدل ڈالا ہے اور انسانی معاشروں کو سیکولرزم اور لبرل معاشرے کی طرف پہنچا دیا ہے۔ (۱)
دلچسپ امر یہ ہے کہ مغربی سینما بالخصوص ہالی ووڈ نے ابتداء ہی سے یہودیت کی کوکھ سے جنم لیا ہے۔ “نیل گیبلر” اگرچہ اپنی مشہور کتاب “ان کی اپنی سلطنت” (۲) (یا ہالیووڈ کی سلطنت) میں سینما انڈسٹریز کی تخلیق کو تھامس ایڈیسن (۳) اور ان کے رفقائے کار سے منسوب کرتے ہیں، لیکن حقیقت یہ ہے کہ یورپ کے مہاجر یہودی ہی تھے جنہوں نے اس صنعت کو اپنے قبضے میں لیا اور اس کو اپنی مرضی سے بدل ڈالا۔ “یونیورسل پکچرز” (۴) “پیراماؤنٹ پکچرز”، (۵) “وارنر برادرز” (۶) “نیوز کارپوریشن” (۷) “ٹوینٹی فرسٹ سنچری فوکس” (۸) اور بہت سی دوسری فلم ساز کمپنیاں یہودی ہیں۔
سینمائی صنعت کے یہودیوں کے صہیونیت کے ساتھ قریبی تعلقات تھے اور ہیں۔ (۹) اس دعوے کے اثبات کے لئے اس سینما اور متعلقہ کمپنیوں اور فلمسازوں کے افسانوی کرداروں نیز “اعلی نسل”، “مادر وطن”، “برگزیدہ قوم” وغیرہ جیسے موضوعات کی طرف اشارہ کیا جاسکتا ہے۔ (۱۰) حقیقت یہ ہے کہ یہ سینما “ہالوکاسٹ”، (۱۱) “حضرت موسی(ع) کی زندگی” جیسی فلموں اور “مرغی کا فرار” (۱۲)انیمیشن فلموں کے ذریعے صہیونیت کو جواز فراہم کرنے کی کوشش کرتا ہے اور صہیونیت کے مقاصد کی راہ میں قدم اٹھاتا ہے۔ (۱۳)
چنانچہ آخرالزمان، یا اختتام دنیا (۱۴) پر اس سینما کی خاص توجہ یہودی صہیونیت کے افکار کے زیر اثر ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ آخرالزمانی یا صہیونی تصور کی جڑیں صہیونی عیسائیت کی دینیات، پالیسیوں اور مختلف قسم کے اہداف و مقاصد میں پیوست ہے کیونکہ یہودیوں نے تاریخ کے مختلف مراحل میں عیسائیت کو مسابقت کے میدان سے نکال باہر کرنے کی کوشش کی اور اسے منحرف کرکے مختلف فرقوں میں بانٹ دیا۔ اس تفرقے اور تحریف سے “صہیونی عیسائیت” نامی ناجائز اولاد نے جنم لیا جس کے مقاصد، اہداف اور عقائد اختتام دنیا پر اس کی نگاہ، وہی یہودی اور صہیونی نگاہ ہے۔ (۱۵)
البتہ اس حقیقت کی طرف توجہ دینا ضروری ہے کہ یہودیوں کا آخرالزمانی سینما “دانیایل [دانیال] نبی”، “یرمیاہ نبی” اور “حزقی ایل” کی کتابوں اور “دانی ایل (یا دانیال) کے مکاشفات” سے ماخوذ ہے۔ ان کاوشوں میں آخرالزمان کے مفاہیم علامتی سانچوں میں ڈھالے جاتے ہیں، لہذا ان کی تشریح اور تاویل کی جاسکتی ہے اسی بنا پر آخرالزمان سے متعلق مختلف فلموں میں مختلف قسم کے مثبت اور منفی افسانوی کردار یونانی، مصری، رومی، عیسائی (وغیرہ) ثقافتوں سے لئے جاتے ہیں۔

ہیروسازی، نجات دہندہ کا اعتقاد، نہایت طاقتور شیطانی قوتیں، جارحین کے خلاف تشدد اور عسکریت پسندی کی ضرورت، نیز ملک اور سرزمین پر شیطان اور شر کی قوتوں کا قبضہ صہیونیوں کی آخرالزمانی فلموں کے بنیادی عناصر ہیں۔ ان فلموں میں مختلف نام اور پیغامات صہیونی مقاصد اور اہداف کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ مثال کے طور پرفلم “میٹرکس” (۱۶) میں ہم دیکھتے ہیں کہ سایون (۱۷) نامی شہر کے باشندے ـ یعنی صہیونی ـ ہی دنیا بھر کے جنگجو ہیں جو میٹرکس نامی شریر اور بہت طاقتور کمپیوٹر کے خلاف لڑتے ہیں۔
لیکن اس قسم کی فلموں میں جن عناصر کو بروئے کار لایا جاتا ہے وہ خفیہ فرقوں، شیطان، اور شیطان پرستی سے عبارت ہیں جو یہودی علم باطن یا قبالہ (۱۸) کے ساتھ براہ راست جڑی ہوئی ہے۔ مثال کے طور پر پانچ حصوں پر مشتمل فلم “منحوس طالع” (۱۹) اور سلسلہ وار فلم “جن نکالنے والا” (۲۰) ان فلموں میں شامل ہیں جو انسانی زندگی پر شیطان کے براہ راست تسلط کی تصویر کشی کرتی ہیں۔ نیز فلم سیریز “ہیری پوٹر”(۲۱) میں بھی ـ گوکہ بالواسطہ طور پر جادو کے سانچے میں، جہاں “لارڈ وولڈیمورٹ” (۲۲) نامی شیطان کا کردار سامنے آتا ہے ـ اسی موضوع کی تصویر کشی کی گئی ہے۔ (۲۳)
اسی اثناء میں اسلامو فوبیا اور اسلام دشمنی بھی مختلف مدارج و مراتب میں، ان آخرالزمانی فلموں میں بطور، مد نظر رکھی جاتی ہے۔ یہ موضوع بھی قبالہ مکتب (یہودی علم باطن یا تصوف) کی خاص قسم کی شیطان شناسی، کے تصور اور آخرالزمانی سینما کو حاصلہ صہیونی حمایت سے جنم لیتا ہے۔ (۲۴) فلم “وش ماسٹر” (۲۵) میں شیطان ایک مجسمے کے ساتھ ایران سے امریکہ آتا ہے، فلم “جن نکالنے والا” سیریز میں شیطان سرزمین نینوا میں ملتا ہے۔ “ورلڈ وار زیڈ” (۲۶)میں مسلم زومبی ہیں جو دیوار فاصل سے گذر کر یہودیوں کو آلودہ کرنا چاہتے ہیں؛ وغیرہ وغیرہ۔
آخر میں کہنا پڑتا ہے کہ بین الاقوامی صہیونیت کے اندر ایک قاعدہ ہے کہ جو نسل، جماعت یا ملک اس کا مخالف ہو، وہ اس کو براہ راست یا بطور اشارہ اسے آخرالزمان کے واقعات سے جوڑ کر اسے شر یا بدی کی قوت قرار دیتی ہے۔ مثال کے طور پر “ممی۱” (۲۷) اور “ممی۳” (۲۸)مصری اور چینی اور فلم “ہیل بوائے” (۲۹) میں جرمن باشندے شر کی قوت ہیں؛ اور مختلف ممالک اور اقوام اور تہذیبوں کو اپنی فلموں کا موضوع بنانے کا ایک مقصد دنیا والوں کی توجہ اپنی طرف مبذول کرانا اور لوگوں کی تنوع پسندی کا جواب دینا بھی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تحریر: میلاد پورعسکر
ترجمہ: فرحت حسین مہدوی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ جات:
۱۔ فصلنامه سیاحت غرب، ارتباطات و رسانه ها: قدرت مالکیت رسانه ها، مرداد۱۳۸۵، شماره ۳۷، ص۴۷-۳۴٫۔
۲۔ گابلر، نیل، (Neal Gabler) امپراتوری هالیوود،(An Empire of Their Own) ترجمه: الهام شوشتری زاده، چاپ اول:۱۳۹۰، تهران، سایان.
۳۔ Thomas Alva Edison
۴۔ Universal Pictures
۵۔ Paramount Pictures
۶۔Warner Brothers
۷۔ News Corporation
۸۔ ۲۱st Century Fox
۹۔ فصلنامه راهبرد، ارتباط هویتی میانیهود و صهیونیسم، پاییز۸۵، شماره ۴۱(ISC)، ص۳۷۵-۴۱۲٫۔
۱۰۔http://jscenter.ir/jews-and-the-media/jews-and-hollywood/5886
۱۱۔ Holocaust
۱۲۔ Chicken Run
۱۳۔https://mouood.org/component/k2/item/630
http://zionism.pchi.ir/show.php?page=contents&id=20152.
۱۴۔ End of the world
۱۵۔http://old.aviny.com/occasion/jang-narm/masihyat/sayhonisti2.aspx.
دین در سینمای شرق و غرب ، محمد حسین فرج نژاد، محمد سعید قشقایی، چاپ اول ۱۳۹۶، قم، اداره کل پژوهش های رسانه ای، ص۱۷۷٫۔
۱۶۔ The Matrix
۱۷۔ Zion
۱۸۔ Kabbalah
۱۹۔ The Omen
۲۰۔ The Exorcist
۲۱۔ Harry Potter
۲۲۔ Lord Voldemort
۲۳- دین در سینمای شرق و غرب، ص۱۷۸٫
۲۴- فصلنامه سیاحت غرب، اسلام هراسی: چگونگی گنجاندن تعصب اسلام ستیزانه در جریان غالب آمریکا، بهمن۹۱، سال دهم، شماره۱۱۴، ص۶۶-۴۰٫۔
۲۵۔ Wishmaster
۲۶۔ World War Z
۲۷۔ The Mummy (1999)
۲۸۔ The Mummy: Tomb of the Dragon Emperor
۲۹۔ Hellboy

 

صہیونی ریاست اپنے زوال سے کیوں خوفزدہ؟

  • ۳۷۱

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ کے مطابق، نابودی کا خوف، ایک اہم چیلنج ہے جو ہمیشہ یہودی قوم اور صہیونی ریاست کو دھمکا رہا ہے۔ موجودہ دور میں سرزمین فلسطین کو غصب اور ستر سال سے زیادہ عرصے سے اس میں جرائم کا ارتکاب، نیز پوری دنیا کے میڈیا پر قبضہ کرنے کے باوجود اس ریاست پر اپنی نابودی کے کالے بادل چھائے ہوئے ہیں۔
اسی وجہ سے صہیونی ریاست کے حکام کے خصوصی جلسوں میں صرف اپنی بقا پر ہی غور و خوض کیا جاتا ہے۔ یہودی ایجنسی کے ڈائریکٹر بورڈ کے حالیہ جلسے جو ڈائریکٹر بورڈ کے سربراہ ’’ناٹن شارنسکی‘‘ کی موجودگی میں منعقد ہوا اور جلسہ میں انتخابات کے بعد ’’اسحاق ہرٹزوک‘‘ کو ناٹن شارنسکی کا نائب صدر مقرر کیا، میں انہوں نے یہ اپنا عہدہ سنبھالنے کے فورا بعد جلسے سے خطاب کرتے ہوئے کہا: ہمیں یہودیوں کو متحد کرنے کے لیے ہر ممکن کوشش کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمیں اس مقام تک پہنچنا ہے کہ ہمیں یقین ہو جائے کہ یہودی نابود نہیں ہوں گے۔ یہودی، یہودی ہے ضروری نہیں ہے کہ وہ کیسا لباس پہنے اور کس پارٹی سے منسلک ہو، ہم سب ایک ہیں۔ (۱)
اسی سلسلے سے صہیونی تنظیم نے ’’قدس میں کتاب مقدس کی اراضی‘‘ کے زیر عنوان ایک سروے کیا جس میں آدھے سے زیادہ صہیونیوں نے صہیونی ریاست کی مکمل نابودی کی نسبت تشویش کا اظہار کیا۔ (۲)
صہیونی آبادکاروں کے چینل نمبر ۷ کی رپورٹ کے مطابق، یہ سروے ۵۰۰ یہودیوں کے درمیان انجام دیا گیا جن کی عمر ۱۸ سال سے ۶۵ سال کے درمیان تھی سروے کے نتائج سے معلوم ہوا کہ ۴۲ فیصد یہودیوں نے صہیونی ریاست کی مکمل نابودی کی رائے دی جبکہ ۱۰ فیصد نے اسرائیل کی نسبت اظہار تشویش کیا۔ (۴) سروے کی رپورٹ کے مطابق، مذہبی یہودیوں کو زیادہ تر تشویش اس بات سے ہے کہ پوری دنیا صہیونی ریاست سے نفرت کا اظہار کر رہی ہے۔
یہودی قوم ڈرپوک اور بزدل
زوال کے خوف کی ایک وجہ یہودیوں کا ڈرپوک اور بزدل ہونا ہے۔ ان کے اندر یہ صفت اس وجہ سے پائی جاتی ہے چونکہ وہ حد سے زیادہ دنیا سے وابستہ ہیں۔ قرآن کریم کے سورہ آل عمران کی آیت ۱۱۲ میں یہودیوں کی اس صفت کی مذمت کی گئی ہے۔ خداوند عالم اس آیت میں ارشاد فرماتا ہے: «ضُرِبَتْ عَلَیْهِمُ الذِّلَّةُ أَیْنَ مَا ثُقِفُوا إِلَّا بِحَبْلٍ مِنَ اللَّهِ وَحَبْلٍ مِنَ النَّاسِ وَبَاءُوا بِغَضَبٍ مِنَ اللَّهِ وَ ضُرِبَتْ عَلَیْهِمُ الْمَسْکَنَةُ ذَلِکَ بِأَنَّهُمْ کَانُوا یَکْفُرُونَ بِآیَاتِ اللَّهِ وَیَقْتُلُونَ الْأَنْبِیَاءَ بِغَیْرِ حَقٍّ ذَلِکَ بِمَا عَصَوْا وَکَانُوا یَعْتَدُونَ، ’’ان پر ذلت کے نشان لگا دئے گئے ہیں یہ جہاں بھی رہیں مگر یہ کہ خدائی عہد یا لوگوں کے معاہدے کی پناہ مل جائے، یہ غضب الہی میں رہیں گے اور ان پر مسکنت کی مار رہے گی۔ یہ اس لیے کہ یہ آیات الہی کا انکار کرتے تھے اور ناحق انبیاء کو قتل کرتے تھے۔ یہ اس لیے کہ یہ نافرمان تھے اور زیادتیاں کیا کرتے تھے‘‘۔
اس آیت کی تفسیر میں آیا ہے کہ یہودی ہمیشہ ذلیل و خوار تھے۔ اگر چہ بسا اوقات انہوں نے دنیا کی معیشت یا سیاست پر قبضہ جمایا۔ لیکن انسانی وقار، عزت و سربلندی اور امن و سکون کے اعتبار سے بدترین منزل پر رہے ہیں۔ ( جیسے چور اور ڈاکو جو اگر چہ چوری کر کے، ڈاکہ مار کے عظیم مال و ثروت کے مالک بن جاتے ہیں لیکن انسانی اقدار کے حوالے سے ان کا کوئی مقام و مرتبہ نہیں ہوتا)۔ لہذا «ضُرِبَتْ عَلَیْهِمُ الذِّلَّةُ» (۵)
 
صہیونی ریاست کی جڑیں شیطانی افکار میں پیوست
یہودی ریاست کے خوفزدہ ہونے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ اس کی بنیادیں شیطانی افکار پر قائم ہیں۔ اس غاصب اور طفل کش ریاست کی جڑیں شیطان کے وجود سے پھوٹتی ہیں۔ اسی وجہ سے یہ کبھی بھی قائم و دائم نہیں رہ سکتی۔ اس کے مقابلے میں اسلامی حکومت ثابت قدم اور استوار ہے۔ اگر چہ دنیا ساری کے ذرائع ابلاغ مشرق سے لے کر مغرب تک اس نظام حکومت کے خلاف عمل پیرا ہیں۔
سینکڑوں مفکر اور ماسٹر مائنڈ روز و شب اس کام پر جٹے ہوئے ہیں کہ کوئی نہ کوئی سازش، کوئی منصوبہ کوئی پراپیگنڈہ اسلامی جمہوریہ ایران کے خلاف جنم دیں اور اسے متزلزل کرنے کی کوشش کریں لیکن اسلامی نظام کو کوئی ٹھیس نہیں پہنچا سکتے۔ ایسا کیوں ہے؟ ایسا اس لیے ہے کہ اس نظام حکومت کا قیام خدا پر ایمان اور توکل کی بنا پر ہے۔ (۶)
صہیونی ریاست اور دنیا کے ظالمین کا زوال اس وجہ سے ہے کہ ان کی بنیاد ظلم، باطل اور شیطانی افکار پر قائم ہے خداأوند عالم نے خود ان کی نابودی کا وعدہ دیا ہے۔ قرآن کریم جب حق و باطل کے تقابل کی منظر کشی کرتا ہے تو یوں فرماتا ہے:
«اَنزَلَ مِنْ السَّمَاءِ مَاءً فَسَالَتْ اَوْدِیَهٌ بِقَدَرِهَا فَاحْتَمَلَ السَّیْلُ زَبَداً رَابِیاً وَمِمَّا یُوقِدُونَ عَلَیْهِ فِی النَّارِ ابْتِغَاءَ حِلْیَه اَوْ مَتَاعٍ زَبَدٌ مِثْلُهُ کَذَلِکَ یَضْرِبُ اللهُ الْحَقَّ وَالْبَاطِلَ فَاَمَّا الزَّبَدُ فَیَذْهَبُ جُفَاءً وَاَمَّا مَا یَنفَعُ النَّاسَ فَیَمْکُثُ فِی الاْرْضِ کَذَلِکَ یَضْرِبُ اللهُ الاْمْثَالَ»؛
’’اس نے آسمان سے پانی برسایا تو وادیوں میں بقدر ظرف بہنے لگا اور سیلاب میں جوش کھا کر جھاگ پیدا ہو گیا جسے آگ پر زیور یا کوئی دوسرا سامان بنانے کے لیے پگھلاتے ہیں۔ اسی طرح پروردگار حق و باطل کی مثال بیان کرتا ہے کہ جھاگ خشک ہو کر فنا ہو جاتا ہے اور جو لوگوں کو فائدہ پہنچانے والا ہے وہ زمین میں باقی رہ جاتا ہے اور خدا اسی طرح مثالیں بیان کرتا ہے‘‘۔ (سورہ رعد، ۱۷) (۷)
دینی علماء کی مجاہدت صہیونی ریاست کے زوال کا سبب
صہیونیوں کے خوفزدہ ہونے کی ایک وجہ مشرق وسطیٰ میں مخلص، متدین اور مجاہد علماء کا وجود ہے۔ وہ علماء جو دین کی حقیقت کو پہچانتے ہیں اور دین کو صرف نماز و روزے میں محدود نہیں جانتے ہمیشہ سے باطل طاقتوں کے لئے چیلنج بنے رہے ہیں اور باطل طاقتیں ان کے چہروں میں اپنے زوال کا نقشہ دیکھتی رہی ہیں۔
اس کی ایک مثال رہبر انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ خامنہ ای کے یہ الفاظ ہیں جو آپ نے ۸ ستمبر ۲۰۱۵ کو اپنی ایک تقریر کے دوران بیان فرمائے تھے: تم (صہیونیو) آئندہ ۲۵ سال کو نہیں دیکھ پاؤ گے۔ انشاء اللہ آئندہ ۲۵ سال تک اللہ کے فضل و کرم سے صہیونی ریاست نام کی کوئی چیز علاقے میں نہیں ہو گی‘‘۔ آپ کا یہ بیان عالمی ذرائع ابلاغ میں ایسے پھیلا جیسے خشک جنگل میں آگ پھیلتی ہے۔ اس بیان نے صہیونی رژیم کے منحوس وجود پر لرزہ طاری کر دیا۔ اور اس کے بعد سے آج تک وہ صرف اپنی بقا کے لیے جد و جہد کر رہے ہیں۔ خدا کرے ان کی یہ جد و جہد خاک میں ملے اور طفل کش صہیونی رژیم ہمیشہ کے لیے صفحہ ھستی سے محو ہو جائے۔
حواشی
[۱]۔ https://kheybar.net/?p=6515
[۲] www.masaf.ir/View/Contents/40012
[۳] TNS
[۴] www.isna.ir/news/94050502500/
[۵] تفسیر نور، محسن قرائتی، تهران:مرکز فرهنگى درس‌هایى از قرآن، ۱۳۸۳ش، چاپ یازدهم سوره مبارکه آل‌عمران ذیل آیه‌ی ۱۱۲
[۶] بیانات در دیدار فرمانده و پرسنل نیروی هوایی ارتش ۱۹/۱۱/۱۳۸۸
[۷] پیام قرآن‏، آیت الله العظمى ناصر مکارم شیرازى، دار الکتب الاسلامیه‏، تهران‏، ۱۳۸۶ ه.ش‏، ج۸، ص۱۲۸٫

 

سی آئی اے کے افیسر بھی موساد کی ابابیلوں کے پنجے میں

  • ۴۹۰

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: بارک اوباما کے دوسری بار صدر امریکہ منتخب ہونے کے چند ہی روز بعد ایک دھماکہ خیز خبر نے وائٹ ہاؤس کو حیرت میں ڈبو دیا اور وہ یہ کہ “سی آئی اے کے ڈائریکٹر جنرل، جنرل ڈیوڈ پیٹراس (General David Petraeus) نے اخلاقی رسوائی اور اپنی بیوگرافی رائٹر پاولا براڈویل (Paula Broadwell) یا پاولا ڈین کرانز (Paula Dean Kranz) کے ساتھ ناجائز تعلقات اور اپنی بیوی کے ساتھ خیانت کی بنا پر اپنے عہدے سے اسعتفیٰ دیا۔
۴۵ سالہ پاولا براڈویل ڈاکوٹا کی ملٹری یونیورسٹی کی فارغ التحصیل ہے۔ ۲۳ سال کی عمر میں امریکی فوج کے انٹیلی جنس کے شعبے میں سرگرم عمل ہوئی۔ جنرل پیٹراس مشرق وسطی اور شمالی افریقہ میں امریکی افواج کے کمانڈر مقرر ہوئے تو براڈویل (کرانز) سے بھی شناسائی اور رابطوں کا آغاز ہوا۔ (پاولا براڈویل کا اصل خاندانی نام “کرانز” ہے اور کرانز امریکی یہودیوں کے درمیان مشہور نام ہے) پیٹراس کا شمار ایک فوجی افسر کی حیثیت سے امریکیوں کے ہر دلعزیز افسروں میں ہوتا ہے۔
عراق اور افغانستان کے خلاف امریکی جنگوں کے دوران پاولا مشرق وسطی میں اعلی امریکی فوجی عہدیدار کے طور پر تعینات تھی اور اسی منصب کی آڑ میں وہ کئی مرتبہ مقبوضہ فلسطین بھی گئی۔ اگرچہ موساد کے ساتھ پاولا کے تعلق کے سلسلے میں کوئی سند و ثبوت موجود نہیں ہے لیکن اس میں شک نہیں ہے کہ وہ ایک یہودی ہے اور امریکہ میں اعلی یہودی شخصیات کے ساتھ بھی اس کا آنا جانا رہا ہے۔ بدنام زمانہ امریکی یہودی ادارے آیپیک کے ساتھ بھی اس کے تعلقات کسی سے ڈھکے چھپے نہیں ہیں اور اس کے مقبوضہ فلسطین کے دوروں کے بارے میں شائع ہونے والی رپورٹوں میں بھی امریکی ذرائع ابلاغ نے اس کے موساد کے ساتھ تعلقات کے سلسلے میں قیاس آرائیاں کی ہیں۔

 

 

سابق امریکی صدر بل کلنٹن کا شکار کرنے والی ’’مونیکا لیونسکی‘‘

  • ۳۹۳

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: مونیکا لیونیسکی (Monica Lewinsky) جرمن یہودی گھرانے میں پیدا ہوئی جس کا باپ نازی جرمنی سے مرکزی امریکی ملک ایل سیلواڈور (El Salvador) اور وہاں سے امریکہ بھاگا تھا۔ اس کا نانا لیٹویائی یہودی تھا جبکہ اس کی نانی کا روسی یہودی تھی۔ وہ وائٹ ہاؤس میں کی خوبصورت یہود زادی زیر تربیت لڑکی تھی۔ اس نے ۱۹۹۴ سے صدر بل کلنٹن کی قربت حاصل کرنا شروع کی تھی اور ان کے بیڈ روم تک پہنچ گئی۔
مونیکا اور کلنٹن کی ٹیلیفونک گفتگو کو ریکارڈ کیا جاتا رہا تھا جس سے معلوم ہوا کہ وہ فلسطین پر قابض یہودی ریاست کے لئے کام کررہی تھی۔ یہ واقعہ ایک اہم موڑ ثابت ہوا کیونکہ ایک طرف سے سی آئی اے کاؤنٹر انٹیلی جنس میں کسی قسم کی غفلت کو مسترد کر رہی تھی اور دوسری طرف سے موساد بھی اس سلسلے میں منظم جاسوسی کو مسترد کر رہی تھی۔ لیکن بعد کے مراحل میں سی آئی اے اور ایف بی آئی کی مشترکہ تحقیقات سے موساد کا کردار واضح ہوا۔
سنہ ۱۹۹۹ میں گورڈن تھامس (Gordon Thomas) کی اہم کتاب “جدعون کے جاسوس، موساد کی خفیہ تاریخ” (Gideon’s Spies: The Secret History of the Mossad) شائع ہوئی جس کا ایک بڑا حصہ مونیکا اور موساد کے درمیان رابطے سے مختص کیا گیا تھا۔ مؤلف نے دستیاب دستاویزات اور شواہد کی بنیاد پر بل کلنٹن کو ایک شہوت پرست شخص کے عنوان سے اور مونیکا کو موساد کی جاسوسہ کے عنوان سے متعارف کرایا ہے اور ثابت کیا ہے کہ مونیکا کو موساد نے بل کلنٹن کے ساتھ جنسی تعلق برقرار کرکے اہم دستاویزات اور ان کے ذاتی مکالمات ریکارڈ کرنے کا مشن سونپا تھا۔
اس رسوائی سے موساد کا مقصد یہ تھا کہ اس اسکینڈل اور ریکارڈ شدہ خفیہ مکالمات کے عوض کلنٹن کو بلیک میل کیا جائے اور انہیں موساد کے کہنہ مشق جاسوس جانتھن پولارڈ (Jonathan Jay Pollard) کی رہائی پر مجبور کیا جائے۔ لیکن کلنٹن کی کوششیں کانگریس کی مخالفت کے باعث ناکام ہوئیں اور عمر قید پانے والے پولارڈ کو رہا نہیں کیا جاسکا۔ جس کے بعد اسکینڈل طشت از بام ہوا۔
کچھ دوسرے ذرائع بھی اس واقعے کو یہودی ریاست اور موساد کی سازش گردانتے ہیں۔ کیونکہ مونیکا نے مشرق وسطی کے امن کے حوالے سے سہ فریقی کانفرنس کے انعقاد کے وقت ہی کلنٹن کے ساتھ جنسی رسوائی کا اعتراف کیا، وہ ایکی ہودی تھی اور پھر کلنٹن نے فلسطین میں نوآبادیوں کی تعمیر کے حوالے سے یہودی ریاست پر دباؤ بڑھا لیا تھا اور اس دباؤ کا خاتمہ یہودی ریاست کے اہم مقاصد میں شامل تھا جس کے لئے کلنٹن کی آبرو بر سر بازار نیلام کی گئی۔
بعد میں ترکی روزنامے “تقویم” نے ساابق امریکی صدر بل کلنٹن کی رسوائی کے سلسلے میں لکھا: “کلنٹن اسرائیل کی پالیسیوں کی شدید مخالفت کی بنا پر موساد کے جال میں پھنس گئے”۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

دنیا اسرائیل سے خالی جغرافیے کی طرف رواں دواں

  • ۵۲۵

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: عرب اسرائیل کے درمیان ۱۹۴۸، ۱۹۵۶، ۱۹۶۷ اور ۱۹۷۳ میں چار جنگیں ہوئیں اور ان تمام جنگوں میں عربوں نے شکست کھائی۔ عربوں کے مقابلے میں فتح کے نتیجے میں یہودی ریاست کو ترغیب ملی اور اس نے “نیل تا فرات” کا نعرہ لگایا، اردن، شام، لبنان اور مصر کی مسلم سرزمینوں پر میلی نظریں جمائیں اور عربوں کی وسیع سرزمینوں پر قبضہ کیا جن میں مشرقی بیت المقدس، دریائے اردن کے مغربی کنارہ، شام کے جنوبی علاقے جولان اور مصر کے صحرائے سینا جیسے علاقے شامل تھے؛ لبنان کو کئی بار جارحیت کا نشانہ بنایا اور اس کے کچھ حصوں پر غاصبانہ قبضہ کیا۔ یہ نامشروع قبضے بھی جاری رہے اور ساتھ ساتھ یہودی ریاست “اسرائیل” کی عالمی حمایت بھی جاری رہی جس کی وجہ سے غاصب صہیونی ـ یہودی ریاست ایک باؤلے کتے میں تبدیل ہوا اور اس نے [ایک مکڑی جتنا ہوتے ہوئے مسلمانوں کی کمزوریوں کا صحیح ادراک کرکے] اسلامی ممالک کو ہڑپ کرنے کا ارادہ کیا۔
عرب ممالک کو ناکوں چنے چبوانے کے باوجود اس ریاست کا مکروہ اور خونخوار چہرہ کبھی بھی صہیونیوں کے خلاف فلسطینیوں کے جہاد کا سد باب نہ کرسکا۔ فلسطینی عارف عزالدین قسام نے اسلحہ اٹھایا اور اپنے مریدوں اور اعوان و انصار کے ساتھ یہودیوں اور انگریزوں کے خلاف جہاد کا آغاز کیا۔ فتح تحریک صہیونی یہودیوں کے خلاف جنگ کے لئے میدان میں اتری اور ۵۰۰ کی نفری لے کر “الکرامہ” نامی کاروائی میں یہودی فوج کے ۱۲۰۰۰ افراد پر مشتمل ڈویژن کو دریائے اردن کے کنارے شکست دی۔
لیکن آج امریکہ، برطانیہ اور یہودی ریاست کی مکاری کے نتیجے میں بعض دنیا پرست عرب حکمران قدس شریف پر قابض صہیونیوں کے خلاف جنگ کے بجائے یہودی ریاست کی حمایت کے لئے میدان میں آئے ہیں اور مذاکرات اور سازباز کو متبادل کے طور پر متعارف کرارہے ہیں اور انھوں نے عملی طور پر خطے میں صہیونی اہداف کے قریب پہنچنے میں اس کی مدد کی ہے۔ اس منصوبے کے تحت اردن کے سابق بادشاہ شاہ حسین نے فلسطینیوں کا قتل عام کیا [اس وقت کے پاکستانی بریگیڈیئر محمد ضیاء الحق اس قتل عام میں شاہ اردن کی مدد کو آئے تھے]۔ مصر کے سابق صدر انورالسادات نے کیمپ ڈیویڈ معاہدے پر دستخط کرکے یہودی ریاست کو تسلیم کیا اور اس منحوس ریاست کی حمایت کی۔ یاسر عرفات نے بھی میڈرڈ، اوسلو، وائی ریور، واشنگٹن میں یہودی ریاست کے ساتھ سازباز کا سلسلہ آگے بڑھایا اور ۱۹۸۹ میں کیمپ ڈیویڈ ۲ نامی معاہدے پر دستخط کئے۔
۱۹۴۸ سے لے کر آج تک عالم اسلام کو نشیب و فراز کا سامنا رہا ہے اور کوشش ہوتی رہی ہے کہ مسلمانوں کے دلوں میں جہاد کا شعلہ خاموش ہوجائے اور صہیونیوں کے اہداف و مقاصد کو عملی جامہ پہنایا جائے۔
شیعہ علماء غصب فلسطین کے آغاز ہی سے ـ اپنے فکری استقلال، خدائے واحد و احد پر توکل اور عوامی قوت پر بھروسے کی بنا پر ـ اس غیر انسانی اقدام کے سامنے ڈٹ گئے اور غاصب یہودیوں کا سکون برباد کردیا۔
شیخ محمد حسین بن محمد ابراہیم گیلانی، ناصرالدین شاہ کے دور کے عالم شیخ محمد رضا ہمدانی، نجف کے اعلم عالم دین علامہ کاشف الغطاء، ہبۃ الدین شہرستانی، سید محمد مہدی صدر اور سید محمد مہدی اصفہانی، سید عبدالحسین شرف الدین اور آیت اللہ العظمی سید ابوالحسن اصفہانی جیسے ایران، عراق اور لبنان سمیت عالم تشیع کے بزرگ علمائے دین امریکہ اور برطانیہ کے غیر انسانی اقدامات کے مد مقابل کھڑے ہوگئے اور قابض یہودیوں کے خلاف جہاد کے فتوے دیئے۔
بیسویں صدی عیسوی میں امام خمینی نے بےمثال اور فیصلہ کن انداز سے فلسطین کی نسبت اپنے احساس ذمہ داری اور عزم راسخ کی اساس پر غاصب اور قابل نفرت یہودی ریاست کے مقابلے میں امت مسلمہ کی استقامت اور مزاحمت کو نیا رنگ دیا۔ ماہ مبارک رمضان کے آخری روز جمعہ کو عالمی یوم القدس کا نام دیا اور فلسطین کے ملک اور ملت کے اسلامی تشخص کو تقویت دی اور اسے دنیا کے سامنے آشکار کردیا جبکہ یہ عرب حکمرانوں کی غفلت اور سستی اور دنیا پرستی کے سائے میں فراموشی کے سپرد کیا جارہا تھا۔
اللہ کے اس عبد صالح نے فرمایا: “ہم سب کو اٹھ کر اسرائیل کو نابود کرنا چاہئے، اور فلسطین کی بہادر قوم کو اس کی جگہ بٹھا دیں”۔
آپ نے مزید فرمایا: “اللہ کی مدد سے اسلام کے پیروکاروں کے مختلف نظریات و آراء اور امت محمد(ص) کی طاقت اور اسلامی ممالک کے وسائل سے فائدہ اٹھانا چاہئے اور پوری دنیا میں حزب اللہ کے مزاحمتی حلقے تشکیل دے کر فلسطین کو صہیونیوں کے چنگل سے آزاد کرانا چاہئے”۔
آپ نے اپنی حکمت عملیوں کا اعلان کرکے مسئلۂ فلسطین کو عالم اسلام اور دنیا بھر کے انصاف پسندوں کے ہاں اول درجے کے مسئلے میں تبدیل کردیا اور اپنی ہوشیاری اور زیرکی سے دنیا بھر کے انصاف پسند عیسائیوں اور صہیونیت مخالف یہودیوں کو بھی غاصب اور جارح یہودی ریاست کے مد مقابل کھڑا کیا۔
امام خامنہ ای نے بھی اپنی قیادت کے دوران، پوری سنجیدگی کے ساتھ، راہ امام خمینی پر گامزن ہوکر، اسرائیل کی نابودی کو فلسطین کے غصب اور قبضے سے چھوٹ جانے اور اس کے امت اسلامی کی آغوش میں پلٹ آنے کا واحد راستہ قرار دیا؛ فلسطین کی آزادی کا پرچم اونچا رکھا اور ایک الہی نگاہ سے مزاحمت کے دائرے کو وسعت دی۔ عالم اسلام جاگ اٹھا اور فلسطین بدستور عالم اسلام کے مسائل میں سرفہرست رہا اور بےتحاشا بین الاقوامی حمایت کے باوجود ـ اسلامی مزاحمت کے طاقتور ہونے کی بنا پر ـ یہودی ریاست کمزور پڑ گئی اور بقاء کے بجائے اس کی فنا کی الٹی گنتی شروع ہوئی۔ اس وقت یہ ریاست فرسودگی اور زوال کے مراحل طے کررہی ہے اور مسلمانوں کی طرف سے اس ناجائز ریاست کی بقاء محال ہوچکی ہے۔
سنہ ۲۰۰۰ میں حزب اللہ لبنان کے آگے پہلی شکست کھا کر یہودی ریاست کی پسپائی کے بعد ۲۰۰۶ میں اسے حزب اللہ کے مجاہدین کے آگے رسواکن شکست کھانا پڑی، ۲۰۰۹ میں ۲۲ روزہ جنگ کے دوران بھی اور بعد کی آٹھ روزہ اور پچاس روزہ جنگوں میں بھی غزہ کے مظلوم اور بہادر عوام نے یہودی ریاست کو تین بار شکست دی اور پلڑا مزاحمت کے حق میں بھاری ہوا؛ جس کے بعد امریکہ اور صہیونی ریاست نے عراق اور شام میں داعش کو منظم کیا اور داعش کی حکومت تک قائم کرائی؛ تا کہ ولایت فقیہ کی حاکمیت اور محاذ مزاحمت کی استقامت کو توڑ سکیں اور توسیع یافتہ اسرائیل کے آگے کی تمام رکاوٹیں دور کرسکیں۔
دوسری طرف سے غزہ میں انتفاضہ کو تقویت ملی، مغربی کنارے کو مسلح کیا گیا، عراق اور شام میں داعش کو شکست کھانا پڑی تو یہودی ریاست مزید سنجیدہ چیلنجوں کا شکار ہوئی؛ یہاں تک کہ اس نے زوال اور فنا کے راستے کو اپنے سامنے پورے وضوح کے ساتھ دیکھ لیا۔
غزہ سے صہیونیوں کے اوپر میزائل حملے شروع ہوئے، شام سے ۶۸ میزائل یہودی ریاست کے نہایت حساس اور خفیہ مراکز اور معلومات حاصل کرکے ان کا تجزیہ کرنے والے اہم ترین اداروں پر داغے گئے جس کی وجہ سے خطے میں جنگ کے قواعد بدل چکے اور اس حملے نے اس سرطانی پھوڑے کو زوال کی اترائی پر قرار دیا اور اس کے زوال اور نابودی کو قریب تر کردیا۔
امام خامنہ ای نے ۱۹ اگست ۱۹۹۱ کو فرمایا: “اسرائیل کا انجام نابودی ہے اور اسے نابود ہونا چاہئے۔ کچھ عرصہ قبل تک کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ مشرقی بڑی طاقت (سوویت روس) اس طرح شکست و ریخت کا شکار ہوجائے گی ۔۔۔ جس دن امام خمینی نے میخائل گورباچوف کو لکھا کہ مارکسزم کو اب عجائب گھروں میں تلاش کرنا پڑے گا، تو کچھ لوگ اس کلام کا مذاق اڑا رہے تھے! لیکن ابھی دو یا تین سال ہی گذرے تھے کہ وہ پیشنگوئی عملی صورت میں ظاہر ہوئی”۔
آپ نے ۹ نومبر ۱۹۹۱ کو فرمایا: “شک نہیں کرنا چاہئے کہ اسرائیل کے شجرۂ خبیثہ ۔۔۔ کی کوئی بنیاد اور کوئی دوام و بقاء کا کوئی ٹھکانہ نہ رہے گا اور بےشک فنا ہوجائے گا”۔
آپ نے ۲۴ اپریل ۲۰۰۱ کو منعقدہ انتفاضۂ فلسطین کی حمایت کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا: “ہمیں یقین ہے کہ فلسطینی عوام کی جدوجہد کے جاری رہنے اور عالم اسلام کی حمایت کی برکت سے فلسطین اللہ کے فضل سے آزاد ہوجائے گا اور بیت المقدس اور مسجد الاقصی سمیت اس اسلامی سرزمین کے دوسرے علاقے عالم اسلام کی آغوش میں پلٹ آئیں گے”۔
امام خامنہ ای نے ۱۷ مئی ۲۰۱۸ کو فرمایا: “فلسطین اللہ تعالی کے اذن سے دشمنوں کے چنگل سے آزاد ہوجائے گا، بیت المقدس فلسطین کا دارالحکومت ہے اور امریکہ اور امریکہ سے بھی بڑے بوڑھے فلسطین کے سلسلے میں حقائق اور سنت الہیہ کے آگے کچھ بھی کرنے پر قادر نہیں ہیں”۔
چنانچہ کوئی شک نہیں ہے کہ سنت الہیہ عملی جامہ پہن کر رہے گی۔ اگرچہ ۱۹۴۸ سے لے کر آج تک، تھیوڈور روزویلٹ سے لے کر بارک اوباما تک تمام امریکی صدور نے یہودی ریاست کی حمایت کی اور آج بھی کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ امریکہ کے ریپبلکن صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور یہودی ریاست کے لیکوڈی وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہو کا سنجیدہ اتحاد فلسطینی مزاحمت کو چیلنجوں سے دوچار کرچکا ہے، لیکن امریکی سفارتخانے کی بیت المقدس منتقلی نے امت اسلام کے قلوب کو مجروح کردیا، انتفاضہ کو مشتعل کیا، اور اس نئی صورت حال نے واپسی کی تحریک کے آغاز کا سبب فراہم کیا اور اس تحریک کو تازہ خون سے سیراب کیا جارہا ہے اور یوں فلسطین علاقائی اور اسلامی ممالک کی ترجیحات میں شامل ہوچکا ہے۔
یہودی ریاست کو بجا یقین ہے کہ ایران کی میزائل قوت اور شام، لبنان اور غزہ میں تحریک مزاحمت حیفا، تل ابیب اور یہودی نشین شہروں کو سنجیدہ ترین خطرات لاحق ہیں اور آج کی جنگ ۱۹۴۸، ۱۹۵۶، ۱۹۶۷ اور ۱۹۷۳ کی عرب اسرائیل جنگوں سے بالکل مختلف ہے۔ آج اسلامی امت پوری اسرائیلی ریاست کے انہدام کی صلاحیت رکھتی ہے اور اسے فنا اور زوال کی طرف دھکیل سکتی ہے۔
امام خامنہ ای نے ۱۴ دسمبر ۲۰۱۶ کو فلسطین کی جہاد اسلامی تحریک کے سیکریٹری جنرل رمضان عبداللہ شلح کی ملاقات کے دوران فرمایا: “صہیوی ریاست ـ جیسا کہ ہم قبل ازیں کہہ چکے ہیں ـ صہیونیوں کے ساتھ فلسطینیوں اور مسلمانوں کی متحدہ جدوجہد کی شرط پر ـ اگلے ۲۵ برسوں تک باقی نہیں رہے گا”۔
غاصب ریاست آج ـ کل سے کہیں زیادہ ـ اس یقین تک پہنچی ہوئی ہے کہ وہ تیزرفتاری سے نیست و نابودی اور ہلاکت کے گڑھے میں اتر رہی ہے؛ اس وقت اس کا ہاتھ پاؤں مارنا کھرل میں پانی کوٹنے کے مترادف ہے اور نتیجہ اسرائیل نامی جعلی ریاست کی موت کی صورت ہی میں برآمد ہوگا۔
نیتن یاہو اور ٹرمپ نے سن رکھا ہے کہ ۲۰۰۶ کی ۳۳ روزہ جنگ کے درمیانی ایام میں امام خامنہ ای نے فرمایا کہ حزب اللہ اس جنگ میں کامیاب ہوگی، اور کچھ ہی دن ایسا ہی ہوا۔ آپ نے سنہ ۲۰۱۱ میں فرمایا: “بشار اسد کی حکومت کو رہنا چاہئے اور یہ حکومت باقی رہے گی”، اور ایسا ہی ہوا۔
صہیونی دوسروں سے زیادہ بہتر یقین کرچکے ہیں کہ اگلے ۲۵ سال تک وہ قصہ پارینہ بن چکے ہونگے، وہ حتی اس یقین تک پہنچ چکے ہیں کہ انقلاب اسلامی کی موجودہ نسل حتی کہ عالم خوار امریکہ کی فنا کو بھی دیکھ لیں گے۔ کاش بعض سادہ اندیش اور سادہ لوح ـ نام نہاد دانشور ـ بھی اس قرآنی وعدے کا یقین کر لیتے کہ “إِنَّ الْبَاطِلَ کَانَ زَهُوقاً؛ یقیناً باطل تو مٹنے والا ہی ہے”؛ اور امریکہ اور یہودی ریاست چونکہ باطل ہیں تو ان کو مٹنا ہی ہے؛ یہ اللہ کا وعدہ ہے: “وَلَوْ کَرِهَ الْمُشْرِکُونَ؛ چاہے مشرکین کتنا ہی ناپسند کرتے ہوں”، “وَلَوْ کَرِهَ الْکَافِرُونَ؛ چاہے کافر لوگ کتنا ہی ناپسند کرتے ہوں”، “وَلَوْ کَرِهَ الْمُجْرِمُونَ؛ چاہے جرائم پیشہ لوگ کتنا ہی ناپسند کرتے ہوں”، “أَلَا إِنَّ حِزْبَ اللَّهِ هُمُ الْمُفْلِحُونَ؛ یقینا اللہ کی جماعت والے، غالب آنے والے ہیں”، فَإِنَّ حِزْبَ اللّهِ هُمُ الْغَالِبُونَ؛ یقینا اللہ کی جماعت والے، غالب آنے والے ہیں”؛ یہ اللہ کا اٹل وعدہ ہے
“لِلَّهِ الْأَمْرُ مِن قَبْلُ وَمِن بَعْدُ وَیَوْمَئِذٍ یَفْرَحُ الْمُؤْمِنُونَ ٭ بِنَصْرِ اللَّهِ یَنصُرُ مَن یَشَاء وَهُوَ الْعَزِیزُ الرَّحِیمُ ٭ وَعْدَ اللَّهِ لَا یُخْلِفُ اللَّهُ وَعْدَهُ وَلَکِنَّ أَکْثَرَ النَّاسِ لَا یَعْلَمُونَ؛ اللہ ہی کے ہاتھ میں معاملہ ہے پہلے بھی اور بعد بھی اور اس دن مؤمنین خوش ہوں گے ٭ اللہ کی مدد سے وہ جس کی چاہتا ہے مدد کرتا ہے اور وہ عزت والا ہے، بڑا مہربان ٭ اللہ کا وعدہ ہے، اللہ اپنے وعدہ کے خلاف نہیں کرتا مگر زیادہ تر لوگ جانتے نہیں”۔
مزاحمتی حلقوں کی تشکیل کا حکم امام خمینی نے دیا
ایران، عراق، لبنان، بحرین، شام، پاکستان، مصر، افغانستان، فلسطین، نائجیریا، یمن اور اردن کے عوام اور حتی کہ یورپ اور امریکہ میں امام کے بعض پیروکاروں نے مزاحمت کے دائرے کو وسعت دی تا کہ نیل سے فرات کے یہودی ـ امریکی منصوبے کو خاک میں ملا دیں۔ کہاں ہیں تھیوڈور ہرٹزل، بالفور، روزویلٹ اور ٹرومین؛ آئیں دیکھ لیں اس افسانے کا انجام جس کا آغاز انھوں نے یہودیوں کی فلسطین ہجرت سے کیا، اور پھر اسرائیل کو قائم کیا، آج اسلامی مزاحمت نے جدید صہیونیت کو ناکوں چنے چبوائے ہوئے ہیں اور سیاسی صہیونیت کو تاریخ کے کوڑے دان میں پھینک دیا ہے، جو منصوبہ انھوں نے بنایا وہ صہیونی یہودیوں کی نابودی کا باعث بنا ہے اور آج صہیونیت مخالف یہودی اور عیسائی اس نابودی سے وجد کی کیفیت سے گذر رہے ہیں۔
ہرٹزل کے تفکرات سے معرض وجود میں آنے والے طفیلیوں کی موت کی گھڑی قریب آئی ہے اور دنیا اسرائیل کے بغیر کے جغرافیے کی طرف رواں دواں ہے؛ مسلمان طاقتور بنے ہوئے ہیں۔ اسرائیل اسلامی مزاحمتی حلقوں کے آگے قدم جمانے کی ہمت و سکت نہیں رکھتا۔ واپسی کی تحریک کو یقین ہے کہ بےیار و مددگار نہیں ہے اور ایران کی میزائل قوت اس کی حمایت کے لئے کھڑی ہیں۔ محاذ مزاحمت کے علمبردار پا بہ رکاب اور حکم کے منتظر ہیں وہی جنہوں نے شاہ کو نکال باہر کیا، صدام کو شکست کی تلخی چکھا دی، دہشت گردوں کی ناک خاک پر رگڑ لی، منافقین کو فنا کے سپرد کیا، امریکیوں کو ذلت سے آشنا کیا، تو وہ کیا اسرائیل نامی ناجائز ریاست کو نیست و نابود کرسکیں گے؟ یقینا وہ ایسا ہی کرکے رہیں گے۔
سپاہ قدس میں نمایندہ امام خامنہ ای، حجت الاسلام والمسلمین علی شیرازی
ترجمہ: فرحت حسین مہدوی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

اسرائیل کے قیام کا تاریخچہ (۲)

  • ۳۸۵

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: دوسری عالمی جنگ کے بعد سنہ ۱۹۴۷ میں برطانیہ اگلے سال (۱۹۴۸ میں) فلسطین سے اپنے انخلا اور فلسطین کا انتظام اقوام متحدہ کے سپرد کرنے کا اعلان کیا۔ ۲۹ نومبر سنہ ۱۹۴۷ کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے ایک قراداد کے تحت فلسطین کو تین حصوں میں تقسیم کیا اور اس سرزمین کے ۴۳ فیصد حصے کو عربوں اور ۵۶ فیصد حصے کو یہودیوں کے حوالے کیا اور بیت المقدس کو بین الاقوامی عملداری میں دیا گیا۔
مورخہ ۱۵ مئی کو فلسطین پر برطانیہ کی سرپرستی کی مدت اختتام پذیر ہوئی تو فلسطین کے تمام ادارے نیست و نابود ہوچکے تھے اور انگریزوں کے انخلاء سے پیدا ہونے والے خلا کو پر کرنے کے لئے کوئی بھی ادارہ موجود نہیں تھا۔ یہودیوں نے ـ جو اقوام متحدہ کے تقسیم کردہ علاقوں پر مسلط ہوچکے تھے ـ ایک عبوری حکومتی کونسل تشکیل دی جو ۳۸ اراکین پر مشتمل تھی اور اس کونسل نے ایک تیرہ رکنی کابینہ کا انتخاب عمل میں لایا۔ اسی دن ڈیوڈ بن گورین نے ـ جو بعد میں وزیر اعظم بنا ـ وزارت دفاع کا قلمدان سنبھال لیا اور کابینہ کے قیام کا اعلان کیا۔
اس اقدام کے چند ہی گھنٹے بعد امریکہ اور سووویت روس نے اس ریاست کو تسلیم کیا۔ اور یہودی ایجنسی نے اسرائیلی ریاست کی تشکیل کے اعلامیے کے ضمن میں اقوام متحدہ کی قرارداد ۱۸۱ کو یہودی عوام کی طرف سے خودمختار ریاست کی تشکیل کا حق تسلیم کئے جانے کا اظہار قرار دیا۔
اس اعلامیے میں البتہ اسرائیل کے لئے کوئی سرحد متعین نہیں کی گئی تھی لیکن یہودی ایجنسی نے امریکی صدر ٹرومین کے نام اپنے پیغام میں انہیں اسرائیل کے باضابطہ تسلیم کرنے کی ترغیب دلاتے ہوئے کہا تھا کہ اسرائیلی کا اعلامیہ ان سرحدوں تک محدود ہے جن کا تعین اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی ۲۹ نومبر ۱۹۴۷ کی منظور کردہ قرارداد میں ہوا تھا۔ قرارداد نمبر ۱۸۱ کے ساتھ ساتھ، یہودی ایجنسی نے فلسطین کے سلسلے میں اپنے دعوے کے ضمن میں مقدرات کے فیصلے اور فلسطین پر قدیم یہودی مالکیت کی طرف بھی اشارہ کیا ہے اور مختلف ملکوں اور اقوام میں سے ہجرت کرنے والے یہودیوں کو قدیم عبرانیوں کا جانشین قرار دیا۔
اسی دن، بوقت شام، مصر، شام، اردن اور لبنان نے نوظہور اسرائیلی ریاست کے خلاف اعلان جنگ کیا اور یہ عرب ـ اسرائیل کی پہلی خونریز جنگ تھی۔
اسرائیل کے قیام کے اعلامیے میں فلسطینی عوام ـ جو ۹۷ فیصد سرزمینوں کے مالک تھے ـ کو “غیر یہودی معاشروں” کے تحت سرے سے نظر انداز کیا گیا تھا جس کے باعث پوری دنیا کے یہودی غیر قانونی طور پر فلسطین کی طرف آنا شروع ہوئے اور امریکی صدر ولسن نے بھی اس غیرقانونی ہجرت کی حمایت کا اعلان کیا۔ دوسری طرف سے فلسطین کے خون بھرے واقعات کی وجہ سے عالمی رائے عامہ میں نفرت کی لہر دوڑ گئی اور یہودیوں کی نوزائیدہ ریاست کو شدید تنہائی کا سامنا کرنا پڑا۔
امریکہ میں مقیم صہیونی یہودیوں نے بھی اپنی سرگرمیوں میں اضافہ کرکے یہودی ریاست کی تشکیل پر زور دیا۔ فلسطینیوں پر تشدد اور ان کے آزار و اذیت کے باعث صہیونیوں کے خلاف عالمی غیظ و غضب میں شدت آئی اورانھوں نے اقوام متحدہ سے احتجاج کیا۔ قبل ازیں ـ یعنی ۲۹ نومبر ۱۹۴۷ کو ـ امریکہ اور سوویت روس نے اپنے ایک غیر معمولی اور نادر مفاہمت نامے کے تحت فلسطینی سرزمین کی دو عرب اور یہودی حصوں میں تقسیم کے منصوبے پر عملدرآمد کیا اور اقوام متحدہ سے کہا کہ اس منصوبے کو منظور کرلے؛ جس نے عالم اسلام میں غصے اور نفرت کی لہر دوڑا دی اور سابق سوویت روس اور صہیونیوں کے خلاف بیت المقدس، یافا، حیفا اور فلسطین کے کئی دوسرے شہروں اور کئی اسلامی ممالک میں خونی مظاہرے ہوئے۔
مورخہ ۸ دسمبر ۱۹۴۷ کو عرب لیگ نے ایک نشست میں اقوام متحدہ کے خائنانہ فیصلے پر تنقید کرتے ہوئے یہودی صہیونیوں کا مقابلہ کرنے کے لئے کچھ فیصلے کئے۔ سنہ ۱۹۴۸ میں مصری طیاروں نے ابتداء میں اسرائیلی دارالحکومت تل ابیب کو بمباری کا نشانہ بنایا اور لبنان کی بکتر بند یونٹوں نے شمال سے، شام اور اردن نے مشرق اور مصر نے مغرب سے فلسطین کی طرف عزیمت کی۔
ابتدائی دنوں میں اردن کی افواج نے بیت المقدس کے ایک بڑے حصے کو یہودی قبضے سے آزاد کرایا۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے دیکھا کہ جنگ یہودی غاصبوں کے نقصان میں ہے، تو اس نے ۲ جون ۱۹۴۸ کو ـ جبکہ جنگ کے آغاز سے ۱۹ دن گذر رہے تھے ـ جنگ بندی کی اپیل کی۔ یہودیوں نے اس جنگ بندی سے فائدہ اٹھایا اور امریکہ اور چیکوسلواکیہ کی مدد سے اپنے فوجی دستوں کو کیل کانٹے سے لیس کیا اور اسی سال ماہ ستمبر میں ـ یعنی صرف تین ماہ بعد ـ جنگ بندی کی خلاف ورزی کا ارتکاب کیا اور فلسطین کے اندر “ہاگانا” یا “یہودی حملہ آور اور دفاعی فوج” نے علاقہ “عکا” پر حملہ کیا جہاں حیفا اور دوسرے عرب علاقوں کے ہزاروں عربوں نے پناہ لی تھی اوران پر زبردست فائرنگ کی۔ اور بعدازاں ہاگانہ کے ساتویں بریگیڈ نے گھمسان کی لڑائی کے بعد شہر “ناصرہ” پر قبضہ کرلیا اور مصر کی طرف پیشقدمی کا آغاز کیا۔
دوسری جنگ میں عرب افواج مشترکہ کمان اور ہماہنگی نہ ہونے کے باعث استقامت نہ دکھا سکے جس کے نتیجے میں اسلامی سرزمینوں کا ۶۰۰۰ کلومیٹر کا رقبہ یہودیوں کے قبضے میں چلا گیا اور یہ جنگ اقوام متحدہ کی مداخلت سے اختتام پذیر ہوئی۔
بہار ۱۹۴۹ میں اسرائیل نے مصر، لبنان، ماورائے اردن اور شام کے ساتھ الگ الگ مذاکرات کرکے اختتام جنگ کے مفاہمت ناموں پر دستخط کئے۔ لیکن یہ مفاہمت نامے بھی دیرپا ثابت نہ ہوئے اور اسرائیلی ریاست کے حملے وقتا فوقتا جاری رہے۔ اسی سال غاصب یہودی ریاست نے فلسطین کے ۴۰۰ شہروں اور دیہاتوں کو ویراں کردیا اور ویرانوں پر مصنوعی جنگل کاری کا اہتمام کیا۔
چنانچہ اس جنگ میں ۱۰ لاکھ فلسطینی بےگھر ہوکر عرب ممالک میں پناہ گزین ہوئے اور فریقین کے ہزاروں سپاہی ہلاک اور زخمی ہوئے اور یہودی فلسطین کے ۷۸ فیصد حصے پر مسلط ہوئے۔ دوسری طرف سے دنیا بھر سے یہودیوں کی فلسطین آمد میں اضافہ ہوا اور یہ سلسلہ ۱۹۵۱ میں اپنے عروج کو پہنچا۔
جنگ اور فلسطینیوں کے قتل اور ان کے خلاف دہشت گردانہ کاروائیوں نیز اپنی آبائی سرزمینوں سے ان کے مسلسل فرار کے نتیجے میں فلسطینی پناہ گزینوں کا مسئلہ معرض وجود میں آیا اور یہ مسئلہ ۱۹۶۷ کی ۶ روزہ عرب ـ اسرائیل جنگ کا سبب بنا۔

 

اسرائیل کے قیام کا تاریخچہ (۱)

  • ۴۱۰

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: سنہ ۱۸۹۸ع‍ میں آسٹریا میں یہودی صحافی و مصنف “تھیوڈور ہرٹزل” نے “یہودی ریاست” کے زیر عنوان ایک کتاب شائع کی۔ اس نے اس کتاب میں ایک یہودی ریاست کے قیام کے حق میں دلائل دیئے اور صہیونی تحریک کا خیرمقدم کرنے کے لئے مغربی رائے عامہ کو ایک فکری ماحول فراہم کیا۔ چونکہ یہودیوں کو جرمنی میں سب سے زیادہ سیاسی اثر و رسوخ حاصل اور سرگرمیوں کا ماحول فراہم تھا لہذا ہرٹزل نے ابتداء میں جرمنی کے توسط سے ـ یہودیوں کے فلسطین میں بسانے کے سلسلے میں ـ عثمانی سلطان کو اعتماد میں لینے کی کوشش کی لیکن بیرونی حملہ آوروں کے خلاف مسلمانوں کے اعلان جہاد سمیت متعدد اسباب و عوامل کی بنا پر ان کی یہ کوشش کامیاب نہیں ہوئی چنانچہ یہودیوں نے برطانیہ کے دامن میں پناہ لی۔
یہودی عمائدین نے برطانیہ کے نمائندے سائکس کے ساتھ مذاکرات میں، انہیں یقین دلایا کہ “لیگ آف نیشنز” میں فلسطین کے برطانیہ کے زیر سرپرستی یا پروٹیکٹوریٹ ہونے کی حمایت کریں گے اور فرانس یا کسی بھی دوسرے ملک کو اسے اپنے زیر سرپرستی لانے کی اجازت نہیں دیں گے۔ دوسری طرف سے انھوں نے سائکس کو تمام تر مراعاتیں دینے کا وعدہ کیا اور عہد کیا کہ وہ ریاست ہائے متحدہ امریکہ کو اتحادیوں کے حق میں اور جرمنی کے خلاف، مداخلت پر آمادہ کریں گے۔ ان اقدامات سے درحقیقت ۲ نومبر ۱۹۱۷ کے بالفور اعلامیئے کے لئے امکان فراہم کیا گیا۔ برطانیہ کے اس وقت کے وزیر خارجہ بالفور نے لارڈ لوچرڈ کے نام اپنے ایک خط میں ایک قومی یہودی وطن کی تشکیل کی خوشخبری دی۔ یہ خط اعلامیۂ بالفور کے عنوان سے مشہور ہوا۔ اعلامیئے میں کہا گیا تھا:
“فلسطین میں یہودی قومی وطن کی تشکیل کے بابت حکومت برطانیہ کے اشتیاقِ خاص کے پیش نظر، یہ حکومت اس ہدف کے حصول اور اس کے لئے وسائل کی فراہمی کے لئے کوشش کرے گی”۔
اعلامیۂ بالفور کی اشاعت کے بعد، برطانوی افواج نے ۹ دسمبر ۱۹۱۷ کو بیت المقدس پر قبضہ کیا اور خزان سنہ ۱۹۱۸ تک تمام عثمانی افواج کو فلسطین میں ہتھیار ڈالنے پر مجبور کیا اور پوری سرزمین فلسطین پر قبضہ کیا۔ ۱۹۱۹ میں فرانس، برطانیہ اور اٹلی کے مندوبین کی موجودگی میں “سان ریمو” کانفرنس کا انعقاد ہوا جس میں فلسطین کے حالات کا جامع جائزہ لینے کے بعد فیصلہ ہوا کہ مذکورہ ممالک فلسطین پر برطانیہ کی سرپرستی کی حمایت کرتے ہیں۔
مورخہ ۲۴ جولائی ۱۹۲۲ کو لیگ آف نیشنز کونسل میں فلسطین کے برطانیہ کے زیر سرپرستی ملک کے قانون کو باضابطہ طور پر منظور کرلیا گیا۔ برطانیہ کی حمایت کے تحت، عربوں کی مخالفت کے باوجود، یہودیوں کی فلسطین میں ہجرت کے سلسلے کی رفتار میں ـ جو کئی سال پیشتر شروع ہوچکا تھا ـ اضافہ ہوا۔ ادھر ہٹلر کی یہود مخالف پالیسیوں کی وجہ سے بھی فلسطین آنے والے یہودی مہاجرین کی تعداد میں مزید اضافہ ہوا۔ یہاں تک کہ ۱۹۴۶ میں فلسطین کی مجموعی آبادی انیس لاکھ بہتر ہزار پانچ سو پچاس تھی جن میں چھ لاکھ آٹھ ہزار یہودی پناہ گزین شامل تھے، جبکہ ۱۹۱۸ میں فلسطین میں یہودی مہاجرین کی تعداد ۵۶۰۰۰ سے زیادہ نہ تھی۔ فلسطین میں آ بسنے والے یہودی مہاجرین کی زیادہ تر تعداد کا تعلق مشرقی یورپی ممالک سے تھا۔
فلسطین میں یہودی آبادی میں اضافے اور علاقے میں ان کی سیاست قوت بڑھ جانے کی بنا پر عربوں نے برطانیہ پر دباؤ بڑھا دیا کہ وہ یہودیوں کی حمایت نہ کرے۔ اس اثناء میں یہودیوں نے فلسطین میں ایک خودمختار لشکر اور ایک خفیہ فوج بنام “ہاگانا” تیار کی تھی۔ اس خفیہ فوج کی ذمہ داری مخالفین پر قاتلانہ حملے کرنا اور عرب آبادی کے خلاف جنگ کرنا تھی۔
برطانیہ نے عرب آبادیوں کو خاموش کرنے اور ان کی بغاوت کا سدباب کرنے کی غرض سے ۱۹۳۹ میں “کتابِ سفید” شائع کرکے اعلان کیا کہ یہودیوں کو یہ اختیار حاصل ہے کہ فلسطین میں ایک قومی مرکز قائم کریں، لیکن انہیں خودمختار حکومت قائم کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ اس اعلامیے نے یہودیوں میں غیظ و غضب کی لہر دوڑا دی اور انھوں نے انگریزوں کی رائے کے برعکس، اپنے اقدامات کو عملی جامہ پہنانے کا فیصلہ کیا؛ تا ہم اسی زمانے میں دوسری عالمی جنگ کا آغاز ہوا اور فلسطین کا مسئلہ جنگ کی خبروں تلے دب کر رہ گیا۔

 

کیا جعلی اسرائیل کے عہدیدار قرآن میں مذکورہ بنی اسرائیل کے وارث ہیں؟

  • ۵۰۳

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: اقوام اور ملتوں اور معاشروں کو پہچاننا ہو تو سب سے پہلے ان کے ظہور کے تاریخچے کا گہرا مطالعہ کرنا ضروری ہوتا ہے۔
یہود کے تاریخی مآخذ نیز مغربی مآخذ نے بنی اسرائیل کی تاریخ کو دو حصوں میں تقسیم کیا ہے:
۱۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام؛
۲۔ حضرت یعقوب علیہ السلام جن کا دوسرا نام اسرائیل تھا؛ جن کا البتہ موجودہ اسرائیل سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
کیونکہ حضرت ابراہیم علیہ السلام حضرت نوح علیہ السلام کی ذریت سے ہیں اور آج کے انسانی معاشروں کے تمام افراد ان ہی افراد کی اولاد میں سے ہیں جو حضرت نوح علیہ السلام کے ساتھ کشتی پر سوار ہو کر طوفان کے مہلکے سے چھوٹ گئے تھے۔ یہ تاریخچہ اس مضمون میں اختصار کے ساتھ چند حصوں میں بیان کیا جاتا ہے:
قوم بنی‌اسرائیل:
الف۔ تاریخی مستندات کے مطابق، حضرت ابراہیم علیہ السلام عراق میں واقع اور’’کلدانیان‘‘ نامی شہر میں پیدا ہوئے۔ دجلہ اور فرات کے درمیان واقع “بابل” میں سکونت پذیر تھے، نمرود کے ساتھ مقابلہ کیا، بتوں کو توڑ دیا، آگ میں پھینکے گئے وغیرہ وغیرہ ۔۔۔ اور پھر اپنے خاندان اور قبیلے کے ہمراہ عراق ہی کے شہر “حران” ہجرت کرگئے۔ اس علاقے کو ـ جو آج عراق کہلاتا ہے ـ رافدین کہا جاتا تھا اور عبری قوم کے کچھ لوگ بھی اس شہر میں سکونت پذیر تھے۔ بعدازاں حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اللہ کے حکم سے فلسطین، حجاز اور مصر کی طرف ہجرت کی۔ (۱)
ب۔ مغربی اور یہودی مآخذ کے مطابق، حضرت ابراہیم علیہ السلام کے دو بیٹے تھے (۲): اسحاق اور یعقوب، اور یعقوب کا دوسرا نام اسرائیل تھا۔ وہ کنعان میں سکونت پذیر ہوئے، لیکن حضرت یوسف علیہ السلام کے واقعات، مصر میں ان کی وزارت عظمی، کنعان میں قحط سالی وغیرہ کے بعد وہ اپنی قوم کے ہمراہ مصر چلے گئے اور یہ قوم حضرت موسی علیہ السلام کے زمانے تک مصر میں رہی۔
۔ ان کی قوم کو فرعونیوں نے آزار و اذیت کا نشانہ بنایا گیا، اور وہ موسی علیہ السلام کی قیادت میں مصر سے نکل کے کنعان کی طرف روانہ ہوئے۔ جیسا کہ قرآن میں کریم میں بیان ہوا ہے: “انھوں نے کہا اے موسیٰ !ہم ہرگز وہاں داخل نہ ہوں گے، جب تک کہ وہ اس میں ہیں لہذا بس آپ جائیے اور آپ کا پروردگار اور دونوں لڑ لیجئے۔ ہم یہیں بیٹھے ہوئے ہیں۔ موسیٰ نے کہا پروردگار!میں قابو نہیں رکھتا مگر اپنے اوپر اور اپنے بھائی پر، لہذا تو ہی فیصلہ کردے ہمارے درمیان اور اس بد اعمال جماعت کے درمیان۔ ارشاد ہوا کہ پھر اب وہ ان پر چالیس برس کے لیے حرام ہے، وہ جنگل میں سرگردان پھرتے رہیں گے تو تمہیں ان بداعمال لوگوں پر افسوس نہ ہونا چاہئے”۔
یعنی یہ کہ موسی علیہ السلام نے اللہ کے حکم سے انہیں ہدایت کی کہ سرزمین فلسطین میں داخل ہوجاؤ، لیکن انھوں نے منع کیا جس کے نتیجے میں وہ ۴۰ سال تک صحرائے سینا میں دربدر کی ٹھوکریں کھاتے رہے اور بھٹکتے رہے اور ان کی کئی نسلیں وہیں ختم ہوئیں۔ اور نئی نسلیں ظہور پذیر ہوئیں۔
۔ حضرت موسی علیہ السلام کی رحلت کے بعد اور یوشع بن نون کی جانشینی کے دوران، کنعان تدریجی انداز سے فتح ہوا۔ (۳)– بعدازاں بادشاہی کا دور شروع ہوا، طالوت اور داؤود اور پھر سلیمان علیہم السلام اس دور کے طاقتور بادشاہ تھے۔ لیکن اسباط (یعنی فرزندان یعقوب میں سے ہر ایک سے معرض وجود میں آنے والے قبائل) کے درمیان اختلافات نے زور پکڑ لیا اور بادشاہی تقسیم ہوگئی۔ شمالی حصے میں اسرائیلی بادشاہت دس سبطوں پر حکمرانی کررہی تھی۔ اور بنیامین اور یہودا کی اولادوں نے جنوبی فلسطین میں چھوٹی سی بادشاہت تشکیل دی۔
۔ بُختُ النصر (نبوکدنصر) نے حملہ کرکے اسرائیلی بادشاہت پر قبضہ کیا اور ہیکل والی عبادتگاہ منہدم ہوئی اور قوم بنی اسرائیل کو بابل لےجایا گیا۔ سنہ ۵۳۸ قبل از مسیح میں ایران طاقتور ہوا تو کوروش نے بابل کو فتح کیا اور حکم دیا کہ یہودیوں کو اپنی سرزمین میں لوٹایا جائے اور ان پر مہربانیاں کیں اور ان کو اپنی حمایت کے تحت قرار دیا۔ انھوں نے یروشلم کی عبادتگاہ کی تعمیر نو کا اہتمام کیا، لیکن فلسطین پلٹنے کے بعد اسباط کے درمیان اختلاف حل نہیں ہوا اور وہ دوبارہ اپنی خودمختاری حاصل نہ کرسکے۔ یہ قوم ایران کے بعد بالترتیب یونانیوں، بطلیمیسیوں (Ptolemaic Dynasty)، سلوکیوں (Seleucid Empire) اور رومیوں کے زیر تسلط رہے۔ حتی کہ آخرکار سنہ ۷۰ عیسوی میں ـ جب یروشلم میں ہیکل ثانی بھی منہدم ہوا ـ بنی اسرائیلی حکومت انتشار اور شکست و ریخت سے دوچار ہوئی۔ سنہ ۳۹۵ع‍میں سلطنت روم تقسیم ہوئی تو فلسطین مشرقی روم یا بازنطین کا صوبہ ٹہرا جہاں عیسائیوں کی سکونت تھی۔
۔ یہ قوم حضرت عیسی علیہ السلام کی بعثت کے بعد شہر ناصرہ میں یہودی اور عیسائی ادیان میں تقسیم ہوئی اور پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ کی بعثت کے بعد ان کی اکثریت نے اسلام قبول کیا۔
نکتہ – لیکن، یہودی تواریخ کہتی ہیں کہ اسرائیل کا نام حضرت یعقوب کو اس لئے دیا گیا کہ وہ اللہ کے بھیجے ہوئے فرشتے کے ساتھ جنگ میں معجزانہ طور پر غالب آگئے تھے!:
” ان سے کہا: “تمہارا نام کیا ہے؟”، کہا: “یعقوب”۔ اس نے کہا کہ تمہارا نام بعدازیں یعؔقوب نہیں بلکہ تمہارا نام اِسرائیل ہوگا کیونکہ تُو نے خُدا اور انسان کے ساتھ زور آزمائی کی اور غالِب ہُوا”۔ (۵)

جاری