-
Saturday, 21 March 2020، 01:38 AM
خیبر صہیون ریسرچ سینٹر: فلسطین پر انگریزوں کے قبضے اور لارڈ بالفور کے اعلان سے یہودیوں کے طویل المیعاد منصوبے کا پہلا مرحلہ مکمل ہو گیا۔ ۱۸۸۰ء سے شروع پر کر ۱۹۱۷ء تک اس مرحلے کی تکمیل میں سینتیس سال صرف ہوئے۔ اس کے بعد اس منصوبے کا دوسرا دور شروع ہوا جس میں مجلس اقوام اور اس کی اصل کار فرا دو بڑی طاقتوں، برطانیہ اور فرانس نے بالکل اس طرح کام کیا گویا وہ آزاد سلطنتیں نہیں ہیں۔ بلکہ محض صہیونی تحریک کی ایجنٹ ہیں۔ ۱۹۲۲ء میں مجلس اقوام نے فیصلہ کیا کہ فلسطین کو انگریزوں کے انتداب (Mandate) میں دے دیا جائے۔ اس موقع پر فلسطین میں جو مردم شماری کرائی گئی تھی اس میں مسلمان عرب ۶۶۰۶۴۱ عیسائی عرب ۱۵۶۴ اور یہودی ۸۲۷۹۰ تھے اور یہودیوں کی اتنی آبادی بھی اسی وجہ سے تھی کہ وہ دھڑا دھڑ وہاں جا کر آباد ہو رہے تھے۔ اس پر بھی مجلس اقوام نے برطانیہ کو انتداب کا پروانہ دیتے ہوئے پوری بے شرمی کے ساتھ یہ ہدایت کی کہ یہ اس کی ذمہ داری ہو گی کہ فلسطین کو یہودیوں کا قومی وطن بنانے کے لیے ہر طرح کی آسانیاں فراہم کرے۔ صہیونی تنظیم کو سرکاری طور پر باقاعدہ تسلیم کر کے اسے نظم و نسق میں شریک کرے اور اس کے مشورے اور تعاون سے یہودی قومی وطن کی تجویز کو عملی جامہ پہنائے۔ اسکے ساتھ وہاں کے قدیم اور اصل باشندوں کے لیے صرف اتنی ہدایت پر اکتفا کیا گیا کہ ان کے مذہبی اور شہری حقوق کا تحفظ کیا جائے۔ یہ انتداب حاصل کرنے کے بعد یہودیوں کو فلسطین میں لا کر بسانے کا باقاعدہ سلسلہ شروع کر دیا گیا۔ فلسطین کا پہلا برطانوی ہائی کمشنر سرہربرٹ سیمویل خود ایک یہودی تھا۔ صہیونی تنظیم کو عملاً حکومت کے نظم و نسق میں شریک کیا گیا اور اس کے سپرد نہ صرف تعلیم اور زراعت کے محکمے کے گئے بلکہ بیرونی ملکوں سے لوگوں کے داخلے اور قومیت کے معاملات بھی اس کے حوالے کر دئے گئے۔ ایسے قوانین بنائے گئے جس کے ذریعے باہر کے یہودیوں کو فلسطین میں آکر زمینیں حاصل کرنے کی پوری سہولتیں دی گئیں۔ مزید برآں ان کو زمینیں کاشت کرنے کے لیے قرضوں اور دوسری سہولتوں سے بھی نوازا گیا۔ عربوں پر بھاری ٹیکس لگائے گئے اور ٹیکسوں کے بقایا پر ہر بہانے عدالتوں نے زمینیں ضبط کرنے کی ڈگریاں دینی شروع کر دیں۔ ضبط شدہ زمینیں یہودیوں کے ہاتھ فروخت کی گئیں اور سرکاری زمینیوں کے بھی بڑے بڑے رقبے یہودی نوآباد کاروں کو کہیں مفت اور کہیں برائے نام پیسے لے کر دئے گئے۔ بعض مقامات پر کسی نہ کسی بہانے پورے عرب گاؤں صاف کر دئے گئے اور وہاں یہودی بستیاں بسائی گئیں۔ ایک علاقے میں تو آٹھ ہزار عرب کاشتکاروں اور زرعی کارکنوں کو پچاس ہزار ایکٹر زمینوں سے حکماً بے دخل کر دیا گیا اور ان کو فی کس تین پونڈ دس شلنگ دے کر چلتا کیا گیا۔ ان تدبیروں سے سترہ سال کے اندر یہودی آبادی میں غیر معمولی اضافہ ہوا۔ ۱۹۲۲ء میں وہ بیاسی ہزار سے کچھ زائد تھے ۱۹۳۶ء میں ان کی تعداد ساڑھے چار لاکھ تک پہنچ گئی۔ اس سے صاف ظاہر ہے کہ انگریز فلسطین میں صرف صہیونیت کی خدمت انجام دیتے رہے اور ان کے ضمیر نے ایک دن بھی ان کو یہ احساس نہ دلایا کہ کسی ملک کی حکومت پر اس کے اصل باشندوں کے بھی کچھ حقوق ہوتے ہیں جن کی نگہداشت کرنا اس کی اخلاقی ذمہ داری ہے۔
جنگ عظیم دوم کے زمانے میں معاملہ اس سے بہت آگے بڑھ گیا۔ ہٹلر کے مظالم سے بھاگنے والے یہودی ہر قانونی اور غیر قانونی طریقے سے بے تحاشا فلسطین میں داخل ہونے لگے۔ صہیونی ایجنسی نے ان کو ہزاروں اور لاکھوں کی تعداد میں ملک کے اندر گھسانا شروع کیا اور مسلح تنظمیں قائم کیں جنہوں نے ہر طرف مار دھاڑ کر کے عربوں کو بھگانے اور یہودیوں کو ان کی جگہ بسانے میں سفاکی کی حد کر دی۔ انگریزی انتداب کی ناک کے نیچے یہودیوں کو ہر طرح کے ہتھیار پہنچ رہے تھے اور وہ عربوں پر چھاپے مار رہے تھے۔ مگر قانون صرف عربوں کے لیے تھا جو انہیں ہتھیار رکھنے اور ظلم کے جواب میں مدافعت کرنے سے روک رہا تھا۔ البتہ برطانوی حکومت جان بچا کر بھاگنے والے عربوں کو نقل مکانی کی سہولتیں فراہم کرنے میں بڑی فراخ دل سے کام لے رہی تھی تھی۔ اس طرح ۱۹۱۷ء سے ۱۹۴۷ء تک تیس سال کے اندر یہودی منصوبے کا دوسرا مرحلہ مکمل ہوا جس میں وہ اس قابل ہو گئے کہ فلسطین میں ان کی “قومی ریاست” قائم کر دیں۔