-
Saturday, 21 March 2020، 01:36 AM
خیبر صہیون ریسرچ سینٹر: اسرائیل کے قیام کے بعد صہیونیت کے پیش نظر منصوبہ جات میں بظاہر دو اہم منصوبے یہ ہیں:
۱: حضرت سلیمان(ع) کا تعمیر کردہ ہیکل سلیمانی (جو ایک دفعہ ۵۶۷ ق م میں نمرود بادشاہ بخت نصر نے گرایا تھا جس کے بعد انہوں نے دوبارہ تعمیر کر لیا تھا۔ دوسری مرتبہ رومی حملہ آور جرنیل ٹائٹس نے ۷۰ء میں گرایا تھا جو اب تک ۱۹۵۰ سال سے گرا پڑا ہے) کو تیسری مرتبہ تعمیر کرنا۔
۲: صہیونیت کا اسرائیل کے ذریعے ساری دنیا پر قبضہ اور قرضوں کی معیشت کے ذریعے عالمی حکومت کا قیام۔
ان دونوں منصوبوں پر مختصر نگاہ ڈالتے ہیں:
ہیکل سلیمانی کی تیسری تعمیر
یہود اور در اصل صہیونیت بزعم خویش حضرت موسی (علیہ السلام) کے بعد آنے والے بہت سارے پیغمبروں کے قتل اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) اور پیغمبر آخر الزمان حضرت محمد (صلی اللہ علیہ و آلہ) کے من حیث القوم انکار کے باوجود ارض مقدس یروشلم پر اپنا حق سمجھتی ہے( حالانکہ یہ کسی قاعدے اور قانون کے مطابق ان کا نہیں ہے) آسمانی ہدایات میں تو ان کے انکار مسیح(علیہ السلام) کے بعد ان کو سزا کے طور پر وہاں سے نکالا گیا تھا بعد از آں انبیائے کرام کی یادگاریں حضرت محمد (صلی اللہ علیہ و آلہ) پر تسلسل کے ساتھ ایمان لانے والوں کا ہی حق ہے اور ایسے مقامات مقدسہ اللہ تعالیٰ ہمیشہ بعد کے انبیاء کرام( علیہم السلام) کی امتوں کے ہی حوالے کرتا رہا ہے یہی سنت الہی ہے۔
تاہم ظلم، جبر، استحصال، جائز ناجائز ہتھکنڈوں، ابلیسی چالوں، شراب، عورت، جوا، بے حیائی اور سود کے ذریعے عالمی وسائل پر قبضہ کر کے صہیونیت نے حیلوں بہانوں سے گزشتہ تین صدیوں سے عالمی معیشت پر مکمل کنٹرول حاصل کر لیا ہے اور علمی اور سیاسی منظر پر سامنے آکر جنگ کے بعد کوئی علاقہ فتح کر کے حکومت بنانے کے بجائے سازشوں سے اسرائیل کی حکومت کی حفاظت عالمی طاقتوں اور “یو این او”، “آئی ایم ایف” اور “ڈبلیو بی” کے ذریعے کرا رہی ہے۔
صہیونیت کا پہلا اہم منصوبہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے ہیکل سلیمانی کی تیسری تعمیر ہے۔ یہود کے پاس مالی وسائل بہت ہیں۔ ٹیکنالوجی بھی ہے نقشہ جات بھی ۱۹۹۲ سے تیار شدہ ہیں۔ مگر وہ منصوبہ شروع اس وجہ سے نہیں ہو پا رہا ہے کہ عین اس جگہ جہاں وہ ہیکل تعمیر ہونا ہے وہاں مسلمانوں کی عظیم یادگار اور تاریخی مسجد مسجد اقصیٰ ہے جو مسلمانوں کا قبلہ اول بھی تھا اور جہاں سے آخری نبی نے معراج کا سفر میں بھی شروع کیا۔
لہذا ہیکل سلیمانی کی تعمیر اس صورت میں ممکن ہو سکتی ہے جب مسجد الاقصیٰ کو مسمار کیا جائے جبکہ فلسطین کے بہادر مسلمان گزشتہ کئی سالوں سے اس کام کی راہ میں رکاوٹ بنے ہوئے ہیں اور دنیا کے دیگر مسلمان بھی کبھی صہیونیوں کو اس بات کی اجازت نہیں دیں گے۔
عالمی حکومت کا قیام
صہیونیت کا دوسرا ابلیسی منصوبہ یہ ہے کہ آج دنیا کو جو انہوں نے بے حیائی، عریانی فحاشی کے جس موڑ پر لاکھڑا کر دیا ہے وہاں سے آگے لے جا کر بے حیائی اور بدکاری کو اتنا عام کر دیا جائے کہ انسان اور جانور میں تمیز مشکل ہو جائے اور لوگ جانوروں کی طرح سرراہ بدکاری اور بے حیائی کے کام کر رہے ہوں۔ مغرب میں تو ان قوموں کا یہ نقطہ کمال عام طور پر بھی نظر آتا ہے مگر خاص طور پر گرمی کے موسم میں جب دھوپ تاپنے کے بہانے ساحلوں کی ریت پر برہنا پڑے انسان نما جانوروں کی صورت میں بھی مشاہدہ کیا جا سکتا ہے۔ واقعا یہ معاشرہ حیوانی سطح تک اتر آیا ہے اور اس گراوٹ میں میڈیا کا بہت بڑا ہاتھ اور صہیونیت کے ماسٹر دماغ ( MASTER MINDS) فلم کلچر اور سیر و تفریح کے نام پر یہ سب کچھ کرا رہے ہیں۔
ایسی افسوسناک صورتحال کو انسانی معاشرے کے لیے وجود میں لانے کے بعد یہود کا چالاک ذہن آگے بڑھ کر یہ کہتا ہے کہ جب انسان اس طرح حیوانیت پر اتر آیا ہے تو وہ چونکہ معاملات دنیا کو کما حقہ نہیں چلا سکتا لہذا یہود ہیں جو دنیا کو بہترین انداز میں چلا سکتے ہیں۔
یہود کے دو طبقے ہیں ایک مذہبی یہودی اور دوسرے لبرل یہودی۔ لبرل یہودی قوم ہر طرح کی اخلاقی گمراہیوں میں غرق ہیں تاہم مذہبی یہودی عام طور پر اپنے آپ کو ان برائیوں سے بچاتے ہیں۔ ایک راوی کے مطابق امریکہ میں نیویارک سے باہر یہود کی بستیاں ہیں اور ان مذہبی یہودیوں کے گھروں میں ٹی وی تک بھی موجود نہیں ہے کہ یہ اخلاق خراب کرتا ہے ان کے ہاں پردہ ہے اپنے مذہبی شعائر ہیں۔ بظاہر یہ دو قسم کے یہودی ہیں مگر نظریات میں دونوں ایک ہیں۔ ایک عالمی یہودی ریاست کا قیام ان دونوں کا مشترکہ مطمع نظر ہے۔
منبع: کتاب صہیونیت قرآن مجید کے آئینہ میں