کتاب ’’اسرائیل کی قومی سلامتی‘‘ کا تعارف

  • ۳۶۰

ترجمہ سید نجیب الحسن زیدی

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: کتاب ’’اسرائیل کی قومی سلامتی‘‘ یہودی مصنف اور تجزیہ نگار ’افرائم انبار‘‘ (Efraim Inbar ) کی کاوش ہے انہوں نے اس کتاب میں اکتوبر ۱۹۷۲ کی جنگ کے بعد صہیونی ریاست کو درپیش سکیورٹی چیلنجز کا جامع تجزیہ کیا ہے۔
کتاب کا اصلی نام ’’ Israel’s national security : issues and challenges since the Yom Kippur War‘‘ ہے۔
بطور کلی اس کتاب میں کوشش کی گئی ہے کہ صہیونی ریاست کو درپیش اسٹریٹجک چیلنجز اور مشرق وسطیٰ میں اس کی حمایت کرنے والے فنکاروں پر ایک گہری نگاہ ڈالی جائے۔
 اس کتاب کے پہلے حصے میں ۱۹۷۲ کی جنگ کے بعد کے حالات پر گفتگو کی گئی ہے جبکہ اس کی توجہ کا محور صہیونی رژیم کی اسٹریٹجک فکر اور امریکہ کی جانب سے کی جانے والی جنگی حمایت ہے کہ جس کا مقصد صہیونی فوج کو ایک قوی ترین فوج میں تبدیل کرنے کی ضرورت پر زور دیا گیا ہے۔
کتاب کے دوسرے حصہ کا نام طاقت کا سہارا ہے کہ جس میں صہیونی ریاست کے انتفاضہ کو جوابات، نیز جنگ لبنان (۱۹۸۲) کے حوالے سے یہودی ریاست کے داخلی اختلافات وغیرہ پر گفتگو کی گئی ہے۔
تیسرا حصہ سرد جنگ کے بعد کا دور ہے جس میں صہیونی ریاست کی بین الاقوامی سطح پر تنہائی کو مورد بحث قرار دیا گیا ہے نیز اس حصے میں خلیج فارس جنگ (۱۹۹۱) میں صہیونی ریاست کے حیران کن کردار، نئی اسٹریٹجک فکر کا جائزہ اور ۱۹۹۰ کی دہائی میں اس ریاست کی پالیسیوں کی تشریح کی گئی ہے۔
کتاب کے چوتھے حصے کا نام امن منصوبہ ہے اور اس میں ۱۹۹۱ میں منعقدہ میڈریڈ کانفرنس کے بعد امن کے منصوبے پر مختلف پہلوؤں سے تجزیہ کیا گیا ہے۔ صہیونی ریاست اور شام کے درمیان مذاکرات، اسلامی رجحان اور امن کی سازش، عربوں اور یہودیوں کی باہمی حیات وغیرہ جیسے موضوعات پر اس حصے میں گفتگو کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔
پانچویں حصے کا موضوع نئے اسٹریٹجک شرکاء ہیں اور اس میں صہیونیوں کے ہندوستان اور ترکی کے ساتھ تعلقات کو بین الاقوامی سطح پر اسرائیل کے دو اہم شریک کے عنوان سے گفتگو کی ہے اور آخر میں یعنی اس کتاب کے چھٹے حصے میں اکیسویں صدی کی چیلنجز پر تجزیہ کرتے ہوئے فلسطین کا چیلنج، ایران کی ایٹمی توانائی سے مقابلے کی ضرورت اور ۳۳ روزہ جنگ میں صہیونی ریاست کی اسٹریٹجک غلطیوں پر سیر حاصل گفتگو کی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

یوم قدس حق و باطل کے مابین معرکہ آرائی کو ظاہر کرنے کا دن ہے: ڈاکٹر ہمایون

  • ۳۸۲

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: ماہ مبارک کا آخری جمعہ امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کی جانب سے یوم القدس کے نام سے موسوم ہوا تاکہ مسلمانان عالم صہیونیت کے خلاف اتحاد اور یکجہتی کا ثبوت دیں اور قدس شریف کی آزادی کے لیے قدم اٹھائیں۔ خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ نے یوم القدس کے موقع پر امام صادق (ع) یونیورسٹی کے پروفیسر ڈاکٹر ’محمد ہادی ہمایون‘ کے ساتھ گفتگو کی ہے جس کا خلاصہ قارئین کے لیے پیش کرتے ہیں؛
خیبر: مسئلہ فلسطین خصوصا عالمی یوم القدس اور اس کی اہمیت کے حوالے سے آپ کا کیا تجزیہ ہے؟
انقلاب اسلامی کی کامیابی کے ابتدائی ایام میں ہی امام خمینی (رہ) کی جانب سے ماہ مبارک کے آخری جمعہ کو یوم القدس قرار دیا جانا ایک انتہائی حکیمانہ اقدام تھا جس سے نہ صرف دنیا کے مسلمانوں کو مسئلہ فلسطین اور قدس کی جانب متوجہ کیا بلکہ اسلامی انقلاب کی آواز کو بھی دنیا کے کونے کونے میں پہنچا دیا۔
اگر ہم یہاں پر یوم قدس کے بارے میں امام خمینی (رہ) کے بیانات پر غور کریں تو دیکھیں گے کہ آپ نے کتنی وضاحت سے اس مسئلے کو بیان کیا ہے جیسا کہ آپ نے فرمایا: ’’یوم قدس کا مسئلہ صرف فلسطین کا مسئلہ نہیں ہے۔۔۔‘‘، اگر چہ اس دن مرکزیت اسی مسئلے کو ہے لیکن منحصرا یہی مسئلہ یوم قدس کا مسئلہ نہیں ہے، ’’یوم قدس وہ دن ہے جس دن اسلامی انقلاب جو ایران میں تشکیل پایا ہے کو ایک نمونے کے طور پر پیش کیا جائے، ایک مزاحمتی تحریک کے طور پر جانا جائے اور تمام اسلامی ممالک میں یہ انقلاب پہنچنوایا جائے‘‘۔
میری نظر میں یوم القدس کی فکر ایک آسمانی فکر ہے اسے ہمیشہ تاریخ میں باقی رہنا چاہیے جب تک کہ امام علیہ السلام کا ظہور ہوتا یہ دن پوری شان و شوکت سے منایا جانا چاہیے اس لیے کہ یہ حق و باطل کے مابین معرکہ آرائی کو ظاہر کرنے والا دن ہے جیسا کہ قیامت کی ایک صفت یہ ہے کہ اس دن حق و باطل ایک دوسرے سے الگ ہو جائیں گے حق و باطل کے درمیان یہ ملاوٹ ہے جو بہت ساروں کی گمراہی کا باعث بنتی ہے اور بہت سارے لوگ اس سے درست تجزیہ و تحلیل نہیں کر سکتے ۔
میری نظر میں یہ اہم ترین کنجی ہے جو ہمیں ظہور کی جانب رہنمائی کرتی ہے اور ظہور کا راز بھی اسی میں پوشیدہ ہے۔ ظہور کا مطلب یہ ہے کہ حق ظاہر اور آشکار ہو گا، ظہور کے بارے میں ہمارا عقیدہ یہ نہیں ہے کہ معاذ اللہ امام چھپ گئے ہیں اور ایک دم ظاہر ہو جائیں گے، نہیں، امام تو ہمارے درمیان اسی دنیا میں زندگی گزار رہے ہیں ہمارے اندر ان کو پہچاننے کی صلاحیت نہیں ہے ظہور کے وقت جو چیز رونما ہو گی وہ یہ ہے کہ حق جو باطل کے ساتھ گڈ مڈ ہو چکا ہے وہ ظاہر و آشکار ہو گا۔
آج ہم دیکھتے ہیں کہ جعلی صہیونی ریاست ایک ملک سے وہاں کے رہنے والے لوگوں کو نکال کر باہر کر دے اور دوسرے ملکوں سے اپنے ہم فکر لوگوں کو اکٹھا کر کے اپنی حکومت قائم کر لے اور دنیا خاموش تماشا دیکھتی رہے بلکہ اس کی حمایت کرے کہ تم نے اچھا کیا ہے تو ایسے میں آپ سوائے اس کے اور کیا کہیں گے کہ حق اور باطل آپس میں گڈ مڈ ہو چکے ہیں۔ ایک غاصب حکومت ۷۰ سال سے ایک ملت کے اوپر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑ رہی ہو بچوں عورتوں بوڑھوں کا قتل عام کر رہی ہو اور دنیا کا کوئی انسان حتیٰ الہی ادیان کے ماننے والے مسلمان اور غیر مسلمان سب اس جعلی حکومت کی حمایت کرنے لگیں اور اس کے ظلم و ستم سے چشم پوشی کر لیں یہ حق وباطل میں آمیزش نہیں تو اور کیا ہے؟
یوم قدس حق و باطل کے ایک دوسرے سے الگ کرنے کا نام ہے حق و باطل کے مابین معرکہ آرائی دنیا والوں کے سامنے پیش کرنے کا دن ہے۔ دنیا والے اس دن پہچانیں کہ حق کیا ہے اور باطل کیا ہے۔ اور یہ بھی دیکھیں کہ دنیا میں حق کے حامی کتنے ہیں اور باطل کا ساتھ دینے والے کتنے ہیں؟

 

ایران اور اسرائیل کی براہ راست لڑائی کے بارے میں سوچنا ہی نہیں چاہتا: ایرن اٹزیون

  • ۳۴۴

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: یہودی ریاست کی قومی سلامتی کے سابق نائب سربراہ نے ہاآرتص کے ساتھ اپنے مکالمے میں ایران کے ساتھ جنگ سے خوف، ایران کو شام سے نکال باہر کرنے میں اس ریاست کی بےبسی، ریاست کی تزویری کمزوریوں، ۷۰ سال گذرنے کے بعد بھی یہودی ریاستی ڈھانچے کے نقائص کی طرف اشارے ہوئے ہیں نیز کینیڈا کے حکام کے ساتھ ایک ایرانی سفارتکار کی پنجہ آزمائی کا قصہ بھی بیان ہوا ہے۔
“ایران کے ساتھ جنگ ایک ایسی چیز ہے جسے میں تصور ہی نہیں کرنا چاہتا”، یہ جملہ “ایرن اٹزیون” (Eran Etzion) کا ہے جو برسوں تک یہودی ریاست کی سلامتی کونسل اور وزارت خارجہ میں کام کرتے رہے ہیں۔ یہاں صہیونی اخبار “ہاآرتض” (Haarrestz) کے ساتھ “اتزیون” کا تفصیلی مکالمہ پیش خدمت ہے جس میں ایران اور یہودی ریاست کے درمیان جنگ کے امکان پر روشنی ڈالتے ہیں اور اپنی پوزیشن واضح کردیتے ہیں۔
لگتا ہے کہ سبکدوشی یا برطرفی اور دنیاوی منفعتوں سے ناامیدی کے بعد یا پھر انتقامی کاروائی کرتے ہوئے یہودی و نصرانی ماہرین سچ بولنا شروع کردیتے ہیں اور حقائق بیان کرنے لگتے ہیں، یا شاید ان کے مقاصد کچھ اور ہیں!!
اتزیون ۱۹۹۲ میں صہیونی وزارت خارجہ میں پہنچے اور بعد کے برسوں میں قومی سلامتی کونسل کے نائب سربراہ کے عہدے تک بھی ترقی کرگئے؛ ۲۰۱۳ میں انہیں واشنگٹن میں یہودی سفارتخانے کا ناظم الامور مقرر کیا جانا تھا لیکن ان ہی برسوں میں ان سفارتکاروں کے زمرے میں قابل سزا قرار پائے جنہوں نے تل ابیب کی مرضی کے بغیر ذرائع ابلاغ کے ساتھ بات چیت کی تھی۔
ہاآرتض کے ساتھ ان کے اس مکالمے پر نیتن یاہو کا دفتر بھی سیخ پا ہے جس نے اتزیون کی باتوں کو “بکواس” اور “سچائی سے عاری” جیسے خطابات سے نوازا ہے۔
حزب اللہ کے ساتھ جنگ کا خطرناک انجام، ایران کے ساتھ جنگ کے ناقابل تصور نتائج
۔ اس وقت شام سب سے زیادہ مشتعل نقطہ ہے جہاں ہم نچلی سطح کی جنگ میں مصروف ہیں لیکن اس میں شدت آسکتی ہے کیونکہ اس وقت ہمہ جہت لڑائی اور ہمارے درمیان روس حائل ہے اور نیتن یاہو مسلسل کہے جارہے ہیں کہ “ہمارا مقصد ایران کو شام سے نکال باہر کرنا ہے”؛ اور دوسرے حکام بھی ان ہی کی بات کو دہراتے رہتے ہیں۔ جبکہ اس ہدف تک پہنچنا ہماری قوت سے خارج ہے اور اگر ہم اصرار کریں تو جنگ چھڑ سکتی ہے اور وہ ایک غیر مستحکم ماحول میں، اور وہ بھی ایسے ماحول میں جہاں ایرانی بھی موجود ہیں اور وہ حزب اللہ کے حامی ہیں؛ اور ترکی بھی اس جنگ میں شریک ہے۔ اس وقت روشوں کا تعین روسیوں کے ہاتھ میں ہیں؛ اس لئے کہ وہ اس میدان کے تمام کھلاڑیوں کے ساتھ بات چیت کرسکتے ہیں؛ لیکن وہ ایرانیوں سے کچھ کہتے ہیں اور اسرائیلیوں سے کچھ۔ صرف ایک بات یقینی ہے اور وہ یہ کہ امریکہ اپنے فوجی دستے شام سے نکال رہا ہے، ایک ہلا دینے والا واقعہ رونما ہونے والا ہے: پہلی بار ایرانیوں اور اسرائیلیوں کے درمیان عسکری تصادم کا امکان پیدا ہوا ہے اور عین ممکن ہے کہ یہ صورت حال ہمہ جہت لڑائی میں بدل جائے۔
۔ کیا مطلب؟
مطلب یہ ہے کہ اگر حزب اللہ اس میدان میں اترے اور تل ابیب اور دوسرے شہری مراکز میں تباہی اور بربادی کا آغاز ہوجائے تو اس کی سطح بہت وسیع ہوگی، جس کی مثال اس سے پہلے ہم نے نہیں دیکھی ہے۔ ہمارے پاس حزب اللہ کو روکنے کے لئے کچھ بھی نہ ہوگا۔ صرف جواب دینے کا راستہ ہوگا۔ لیکن اگر بیروت تل ابیب کی بربادی کے بدلے میں تباہ ہوجائے، تو کیا اس سے کسی کو چین حاصل ہوسکے گا؟ لیکن جب اسرائیل اور حزب اللہ کی جنگ کا انجام کچھ ایسا ہو جس کی مثال گذشتہ تاریخ میں نہیں پائی جاتی تو اس صورت میں یقینا ایران اور اسرائیل کی براہ راست لڑائی کا انجام کچھ ایسا ہوگا جس کے بارے میں، میں سوچنا ہی نہیں چاہتا۔ اگرچہ بدقسمتی سے میں ایسے عہدوں پر فائز رہا ہوں جہاں مجھے اس کے بارے میں سوچنا پڑتا رہا ہے۔ اس کی ایک قابل اعتماد مثال ایران اور عراق کی آٹھ سالہ جنگ ہے جس میں ۱۰ لاکھ افراد کام آئے۔
تزویری گہرائی، ایران کی تاریخ اور کینیڈین حکام کو ایرانی سفارتکار کا طعنہ
۔ کیا اسرائیل ایران سے زیادہ طاقتور نہیں ہے؟
۔ اہم بات یہ ہے کہ آپ کس چیز کو طاقت کا معیار سمجھتے ہیں؟ ایک کلیدی جملہ ہے جس کو “تزویری گہرائی Strategic Depth” کہتے ہیں۔ ایرانیوں نے حال ہی میں موجودہ کشمکش کے دوران اس جملے کو استعمال کیا ہے۔ ایک اعلی ایرانی اہلکار نے کہا کہ “یہودی ریاست کو سوچنا چاہئے کہ اس کی کوئی تزویری گہرائی نہیں ہے”۔ حقیقت یہ ہے کہ ہمیں ابتدائی اصولوں کی طرف جانا چاہئے۔ اسرائیل کے پاس عسکری طاقت ہے لیکن ایران کے پاس ایک عظیم جغرافیہ، آٹھ کروڑ کی آبادی اور کئی ہزار سالہ تاریخ ہے۔ ایران ایک تہذیب ہے۔ تل ابیب میں مقیم ایک کینیڈین سفیر نے ایک دفعہ میرے ساتھ بات چیت کے دوران کہا: ایک مرتبہ کینیڈا کی وزارت خارجہ کے حکام اور وہاں مقیم ایرانی سفیر کے درمیان ملاقات ہوئی تو ایرانی سفیر نے کمرے میں پڑے ہوئے قالین کی طرف اشارہ کیا اور کہا: “ایران ایک پارسی قالین ہے جس کے بُننے میں ۵۰۰۰ سال کا طویل عرصہ لگا ہے جبکہ کینیڈا اس قالین پر پڑی ہوئی دھول کی باریک سی تہہ کی مانند ہے”۔
ایرانی ایک غرور آمیز وہم میں مبتلا ہیں، وہ عظمت رفتہ کے بارے میں سوچتے ہیں اور اب جبکہ علاقہ کمزور پڑ گیا ہے تو وہ محسوس کررہے ہیں کہ عظمت رفتہ کے احیاء کا امکان حاصل ہوا ہے؛ وہ جب اپنی تزویری حکمت عملیوں کے لئے منصوبہ بندی کرتے ہیں تو ان کی حد نظر جبل الطارق تک پہنچتی ہے؛ اور یہ جو ہم ابھی تک احتیاط کررہے تھے کہ ایران کے ساتھ براہ راست لڑائی سے بچے رہیں، یہ ایک حادثاتی موضوع نہیں تھا بلکہ ایک دانشمندانہ پالیسی تھی اور دانشمندی یہ ہے کہ ہم پھر بھی محتاط رہیں، میں فکرمند ہوں کیونکہ مجھے محسوس ہورہا ہے کہ احتیاط برتنے میں ماضی جیسی سختگیری کا فقدان ہے۔
۔ لگتا ہے کہ اسرائیل کی رائے عامہ آپ سے متفق نہیں ہے، یہاں بہت سوں کا خیال ہے کہ اسرائیل بہت طاقتور ہے اور کوئی غیر متوقعہ واقعہ رونما نہیں ہوگا۔
۔ غلط بات ہے؛ اگر آپ کو یاد ہو ایک دن وزیر اعظم نیتن یاہو نے اعلان کیا کہ سیکورٹی کابینہ کی نشست منعقد ہونے کو ہے، تو اس کے بعد پریشانی اور ذہنی و فکری افراتفری اور افواہوں نے پورے معاشرے کو گھیر لیا یہاں تک کہ ایک بیانیہ جاری ہوا اور اعلان ہوا کہ “فکرمندی کی ضرورت نہیں ہے، کوئی ناگوار حادثہ رونما نہیں ہوا ہے”۔ اس سے معلوم ہوا کہ ہماری رائے عامہ مکمل طور پر ہوشیار ہے، اور جانتی ہے کہ ہماری حالت اچھی ہے لیکن اس حقیقت کا ادراک بھی رکھتی ہے کہ برف کی جس تہہ پر ہم آگے بڑھ رہے ہیں کس قدر نازک اور زد پذیر ہے”۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

اسرائیل کے تحفظ کا بہانہ اور امام خامنہ ای کا تجزیہ

  • ۴۲۷

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ کے مطابق، امریکی حکام کے پاس صہیونی ریاست کے جرائم سے چشم پوشی کے لیے ہمیشہ سے یہ بہانہ رہا ہے کہ صہیونی ریاست اپنی بہیمانہ جنگی کاروائیوں کے ذریعے اپنے جعلی وجود کو تحفظ دیتی ہے۔ اگرچہ اس جعلی ریاست کا مشرقی وسطیٰ میں کوئی مقام نہیں ہے لیکن صہیونی کسی بھی صورت میں اس چیز کو ماننے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ رہبر انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے متعدد بار اپنے بیانات میں اس موضوع پر گفتگو کی ہے اور اس پر تجزیہ و تحلیل کیا ہے۔ آپ نے ۳۱ اگست ۲۰۱۴ کو اپنی تقریر میں فرمایا: امریکی حکمرانوں کے نزدیک اسرائیل کا تحفظ بنیادی مسئلہ نہیں ہے، ان کے نزدیک بنیادی مسئلہ کچھ اور ہے۔ ان حکمرانوں کے نزدیک بنیادی مسئلہ، اس صہیونی سرمایہ دار چینل کو راضی رکھنا ہے جس کے ہاتھ میں انکی رگ حیات ہے۔ ان کی مشکل یہ ہے ورنہ اسرائیل ہو نہ ہو، انہیں اس سے کیا مطلب ہے؟ جو چیز ان کے لیے اہم ہے وہ یہ ہے کہ ان کی رگ حیات صہیونی سرمایہ داروں کے ہاتھ میں ہے، جو انہیں رشوت دیتے ہیں، انہیں دھمکیاں دیتے ہیں، پیسے کی رشوت؛ یہودی انہیں پیسہ دیتے ہیں اور وہ ان سے پیسے لیتے ہیں۔ مقام کی رشوت؛ انہیں مقام کا وعدہ دیتے ہیں اور اگر وہ ان افراد کے ساتھ ساز باز نہ کریں جن کے ہاتھوں میں امریکی معیشت کی نبض ہے تو وہ اونچی پوسٹوں جیسے صدارت جیسے وزارت وغیرہ تک رسائی حاصل نہیں کر سکتے۔ ان کے لیے یہ مسئلہ ہے۔ انہیں دھمکیاں بھی دیتے ہیں، اگر چنانچہ یہ اس خطرناک چینل کے رجحان کے برخلاف کوئی اقدام کریں تو انہیں دھمکایا جاتا ہے، انہیں یہ دھمکی دی جاتی ہے کہ ہم آپ کو استعفیٰ دینے پر مجبور کریں گے یا آپ کے لیے ذلت و رسوائی کا سامان فراہم کریں گے!۔ آپ نے امریکہ کے زندگی میں ان چیزوں کو حالیہ برسوں مشاہدہ کیا ہے۔ کسی پر تہمت لگاتے ہیں، کسی کو بدنام کرتے ہیں، کسی کے لیے جنسی اسکینڈل کا قصہ بناتے ہیں، کسی کو استعفیٰ دینے پر مجبور کرتے ہیں، کسی پر قاتلانہ حملہ کرتے ہیں، ان سب کاموں کے لیے ان کے ہاتھ کھلے ہیں۔ آپ دیکھ رہے ہیں کہ مسئلہ اسرائیل کے تحفظ کا نہیں ہے مسئلہ خود ان کے اپنی سلامتی ہے۔

بنی سعود اور ابلاغیات کے شعبے میں سامراج کی اداکاری

  • ۴۳۴

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: حال ہی میں سعودی خاندان بےتحاشا پیسہ لٹا کر ایک شب و روز چلنے والے فارسی چینل کی بنیاد رکھنے کے درپے ہے جس کے لئے اس نے تجربہ کار برطانوی ادارے :دی انڈیپنڈنٹ” کے ساتھ معاہدہ بھی کرلیا ہے۔
اس سودے کے مطابق، بنی سعود، انڈیپنڈنٹ کو ضروری مواد فراہم کریں گے اور خود بھی اس نام کو استعمال کریں گے۔
سعودیوں کو فارسی چینل کی ضرورت کیوں ہے؟
امریکی، برطانوی، فرانسیسی، جرمن اور سعودی فارسی ابلاغیاتی اور فرقہ وارانہ چینلز کی کوئی کمی نہیں ہے جو اگر ایرانو فوبیا کی مہم میں کامیاب ہوتے تو شاید بنی سعود کو مزید کوئی چینل کھولنے کی ضرورت نہ ہوتی لیکن اب وہ مغرب کے تجربے سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ایرانو فوبیا کے موضوع پر مزید توجہ مرکوز کرنا چاہتے ہیں۔ بنی سعود کے پاس پہلے سے العربیہ چینل بھی ہے جس کے آغاز میں ہی انہیں توقع تھی کہ ایرانی بھی اس چینل کا خیر مقدم کریں گے لیکن ان کی یہ توقع بھی پوری نہیں ہوسکی جس کے بعد انھوں نے نئے چینلز کی تاسیس کو مطمع نظر بنایا۔
اب سعودی پیسے کے زور سے انڈیپنڈنٹ جیسے مقبول برانڈ کے ذریعے اپنی بات ایرانیوں اور فارسی زبانوں کے دل میں اتارنا چاہتے ہیں تاکہ ان کی عزت رفتہ ان کی سرمایہ کاری پر اثر انداز نہ ہو لیکن حقیقت یہ ہے کہ کوزے سے وہی ٹپکے گا جو اس کے اندر ہے اور کوزے کے برانڈ سے بھی کوئی خاص فرق نہیں پڑتا، وہابیت زدہ سعودی مخیلے سے ایسی کونسی بات صادر ہوسکتی ہے جو کسی دل پر اثر کر سکے۔
چینل کا اصل سرمایہ کار، سعودی تحقیقات و بازارکاری گروپ (Saudi Research and Marketing Group [SRMG]) ہے جو سعودی دربار سے وابستہ ہے اور اس کے سربراہ کے محمد بن سلمان (ایم بی ایس) کے ساتھ قریبی تعلقات ہیں۔ ایس آر ایم جی اور انڈیپنڈنٹ کے باہمی مفاہمت نامے کے مطابق انڈیپنڈنٹ اپنی ویب گاہ میں “عربی (Independent Arabia)، فارسی (Independent Persian)، اردو (Independent Urdu) اور ترکی (Independent Turkish )” کے چار پیجز کا اضافہ کرے گا۔
ایس آر ایم جی کیا ہے؟
سعودی تحقیقات و بازارکاری گروپ در حقیقت عربی کتب کی اشاعت کے شعبے میں سرگرم عمل ہے؛ عرب دنیا کے عربی اور انگریزی اخبارات ـ منجملہ الشرق الاوسط، الاقتصادیہ، عرب نیوز” اور “ہِیَ، المجلۃ، سیّدتی، اور الرجل” ـ کا تعلق بھی اسی عظیم ابلاغی گروپ سے ہے۔
انڈیپنڈنٹ کے ساتھ معاہدے سے ایس آر ایم جی کا مقصد علاقائی اور بین الاقوامی سطح کے واقعات کی خبروں اور تجزیوں، کالمز، مضآمین اور رپورٹوں کی اشاعت ہے جنہیں انگریزی میں لکھا جائے گا اور ان کا مختلف زبانوں میں ترجمہ کیا جائے گا۔ یعنی یہ کہ منصوبہ، فکر اور قلم انگریزوں ہوگا اور۔۔۔؛ اور ہاں سعودیوں کا ایک خفیہ مقصد یہ بھی ہے کہ یہ ذریعہ ابلاغ ایک ابلاغی اسلحہ ہوگا جس کے ذریعے سے بنی سعود علاقے میں اپنے بحران خیز اور مصیبت آفرین منصوبوں، اقدامات اور رویوں کا جواز بھی فراہم کریں گے۔
ایس آر ایم جی انڈیپنڈنٹ کی مدد سے عربوں کے لئے عرب انڈیپنڈنٹ، ایرانیوں کے لئے فارسی انڈیپنڈنٹ، ترکوں کے لئے ترک انڈیپنڈنٹ اور پاکستانیوں کے لئے اردو انڈیپنڈنٹ پر تشہیری مہم چلانا چاہتی ہے۔ وہ عربی، فارسی، ترکی اور اردو بولنے والے ممالک پر اثر انداز ہونا چاہتے ہیں۔
یہ ابلاغیاتی منصوبہ ۲۰۱۸ سے اپنا کام شروع کرے گا حالانکہ انگریزی سعودی ابلاغیاتی مفاہمت نامہ تازہ ہی آشکار ہوچکا ہے لیکن بنی سعود عرصہ دراز سے اس کے لئے لابیاں تلاش کررہے تھے۔
ایس آر ایم جی میڈیا گروپ کے سربراہ غسان بن عبدالرحمن الشبل، کے حکمران قبیلے سے قریبی تعلقات ہیں، اس کے کئی رسائل و جرائد ہیں جن میں وہ بنی سعود کی تقویت کے لئے کام کررہے ہیں۔ چار نئی ویب گاہوں میں شائع ہونے والے متون کی تیاری انڈیپنڈنٹ کے معیار کے مطابق ہوگی اور ان چار زبانوں کے نامہ نگار لندن، اسلام آباد، استنبول اور نیویارک میں تعینات ہونگے۔
انگریزوں کو تشویش ہے!
اگرچہ انگریزی قوانین کے تحت ابلاغی اداروں اور تحقیقاتی مراکز کے درمیان معاہدوں میں کوئی رکاوٹ نہیں ہے لیکن بہت سے انگریز اس معاہدے کے انعقاد کو بیان کی آزادی، شہری اور سماجی حقوق کے برطانوی معیاروں کے مطابق نہیں سمجھتے اور ان کے خیال میں اس قسم کے معاہدوں کی وجہ سے خلیج فارس کی ساحلی ریاستوں کے تنگ نظرانہ افکار اور بنی سعود کے توسیع پسندانہ مفادات پر مبنی سوچ برطانیہ کے مقبول ابلاغی اداروں کے عنوان کے تحت ان ہی اداروں کے بین الاقوامی مداحوں کو شدید فکری نقصان پہنچائے گی اور طویل عرصے میں یہ ادارے غیر معتبر ہوجائیں گے۔
قابل ذکر ہے کہ بلومبرگ کمپنی نے ۲۰۱۷ میں ایس آر ایم جی کی طرف سے متون کی فراہمی کی شرط پر اپنی ویب سائٹ پر عربی پیج کھولا اور اسے شدید نکتہ چینیوں کا سامنا کرنا پڑا لیکن انڈیپنڈنٹ کو بلومبرگ کی نسبت بہت زیادہ وسیع سطح پر پڑھا جاتا ہے چنانچہ یہ اخبار مختلف ممالک کے افکار کو شدید نقصان پہنچا سکتا ہے اور اس کا سماجی سرمایہ کچھ عرصے میں مخدوش ہوکر رہ جائے گا۔
ذرائع ابلاغ کی آزادی کا دشمن بنی سعود قبیلہ ذرائع ابلاغ میں سرمایہ کاری کیوں کررہا ہے؟
بنی سعودی کے لئے اس قسم کی سرمایہ کاری کے کئی اسباب ہیں:
۱۔ سعودی عرب کو اپنی مخدوش حیثیت بحال کرنے کے لئے رائے عامہ کو سمت دینے کی ضرورت ہے
ذرائع ابلاغ میں سرمایہ کاری اور بلومبرگ اور انڈیپنڈنٹ جیسے اداروں کے ساتھ معاہدوں سے آل سعود کا اہم ترین مقصد یہ ہے کہ بنی سعود نے اپنی غلط اور ناپختہ پالیسیاں اپنا کر، اور اندرونی استبدادی پالیسیوں کو سرحدوں سے باہر نافذ کرنے کی کوشش کرکے اپنی حیثیت کو ناقابل تلافی نقصانات پہنچائے ہیں اور اقوام عالم میں زبردست بدنامی کما چکے ہیں چنانچہ اب وہ اپنی حیثیت بحال کرنے کے لئے ابلاغیات کا سہارا لینے کے چکر میں ہیں جبکہ ابلاغیات کے لئے جو مواد فراہم کیا جائے گا اس کی بنیاد سعودی استبدادی سوچ کے سوا کچھ بھی نہیں ہوگا۔ بایں ہمہ بنی سعود کی کوشش یہ ہے کہ ۲۰۳۰ سعودی منصوبے جیسی دستاویزات کی رو سے سعودی حکومت کا بالکل نیا اور مرمت شدہ چہرہ دنیا والوں کو دکھایا جائے۔ ان کے کام متشددانہ، تنگ نظرانہ، کالے اور مخدوش ہیں، اقدامات پہلے کی طرح خونی ہیں لیکن ظاہری چہرہ کچھ اور دکھانا چاہتے ہیں! یہ الگ بات ہے کہ کیا وہ اس تضاد بھری پالیسی میں کس حد تک کامیاب ہوتے ہیں؟
۲۔ الجزیرہ جیسے دیوقامت ذرائع ابلاغ کا مقابلہ
بنی سعود نے اس سے قبل العربیہ، اور ایم بی سی کے عنوان سے متعدد چینلوں اور فرقہ وارانہ اور وہابیت کے پرچارک چینلوں کا سہارا لیا تا کہ الجزیرہ وغیرہ کو شکست دے کر عرب دنیا میں ان کی جگہ لے سکے لیکن کامیاب نہ ہوسکے چنانچہ انھوں نے اپنے بانی مبانی ملک برطانیہ کے ذرائع ابلاغ نیز بلومبرگ کے ساتھ معاہدے منعقد کئے۔ الجزیرہ نیٹ ورک قطر کے ہاتھ میں ہے اور حالیہ تین سالہ سعودی ـ قطری تنازعے کی ایک بنیاد یہی نیٹ ورک ہے۔ الجزیرہ عرب دنیا میں اخوانیت کا پرچار کرتا ہے اور دین و سماج کی ایک ایسی تصویر پیش کررہا ہے جو بنی سعود کے دینی اور سماجی تصور سے بالکل مختلف ہے۔ چنانچہ سعودی چاہتے ہیں کہ مغربی ذرائع ابلاغ کے ساتھ معاہدے کرکے اس نیٹ ورک کو دیوار سے لگا دے۔
۳۔ علاقائی صورت حال پر اثر انداز ہونے کی کوشش
بنی سعود نے گذشتہ ۸ برسوں میں کھربوں ڈالر خرچ کرکے علاقے کو اپنی اطاعتگزاری پر آمادہ کرنے کی ناکام کوشش کی ہے اور اسے اپنی پالیسیاں نافذ کرنے کے لئے کم از کم تین ملکوں کو ویران کرنا پڑا ہے: لیبیا، شام اور یمن؛ لیکن اب وہ ایسے ذرائع ابلاغ کی تلاش میں ہے جن کے ذریعے وہ علاقے کے حالات پر اثرانداز ہونے اور صورت حال کی تبدیلی کا سد باب کرنے کی کوشش کریں گے۔ تبدیلیوں سے یہاں مراد وہ سعودی خواہش ہے جس کے تحت وہ علاقے کے عوام کو اپنے ساتھ ملا کر، امریکی خواہش ـ یعنی تبدیلیاں لا کر نئے مشرق وسطی کی تشکیل ـ سے فائدہ اٹھا کر، علاقائی ممالک کی حکومتوں کو سعودی شہزادوں کی مرضی کے مطابق، تبدیل کرنا چاہتے ہیں۔ وہ ایران، عراق، شام، ترکی، قطر، عمان سمیت خلیجی ریاستوں میں حکومتوں کی تبدیلی کے خواہاں ہیں اور ذرائع ابلاغ کے ذریعے ان ممالک کی نبض کو اپنے ہاتھ میں لینا چاہتے ہیں، اسلامی بیداری کا سدباب کرنا چاہتے ہیں اور بحرین، نجد و حجاز، امارات اور مصر میں اسلامی بیداری کے ذریعے نئی تبدیلیوں کا انسداد اور ان ممالک اور ریاستوں میں موجود استبدادیت کا تحفظ کرنا چاہتے ہیں۔
منبع: https://www.farsnews.com/news/13970502001288
بقلم: صدیقہ احمدی
ترجمہ: فرحت حسین مہدوی

 

“یہودی آخر الزمان” اور معاصر سینما

  • ۴۸۷

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: آج سینما کا کردار ایک مقبول ذریعۂ ابلاغ کے طور پر عوام کی زندگی میں بہت اہم ہے کیونکہ لوگ اسے تفریح کے لئے دیکھتے ہیں لیکن انجانے میں اس سے اثر لیتے ہیں۔ سینما نے جاذب اور دلچسپ ہونے کے ناطے عالمی معاشروں کے رویوں، طرز زندگی اور حتی کہ سیاسی، معاشی اور ثقافتی رویوں اور افکار کو متاثر کردیا ہے۔ اسی بنا پر آپ دیکھتے ہیں کہ مغرب اور ہالیووڈ نے کس طرح اقوام کے طرز زندگی کو بدل ڈالا ہے اور انسانی معاشروں کو سیکولرزم اور لبرل معاشرے کی طرف پہنچا دیا ہے۔ (۱)
دلچسپ امر یہ ہے کہ مغربی سینما بالخصوص ہالی ووڈ نے ابتداء ہی سے یہودیت کی کوکھ سے جنم لیا ہے۔ “نیل گیبلر” اگرچہ اپنی مشہور کتاب “ان کی اپنی سلطنت” (۲) (یا ہالیووڈ کی سلطنت) میں سینما انڈسٹریز کی تخلیق کو تھامس ایڈیسن (۳) اور ان کے رفقائے کار سے منسوب کرتے ہیں، لیکن حقیقت یہ ہے کہ یورپ کے مہاجر یہودی ہی تھے جنہوں نے اس صنعت کو اپنے قبضے میں لیا اور اس کو اپنی مرضی سے بدل ڈالا۔ “یونیورسل پکچرز” (۴) “پیراماؤنٹ پکچرز”، (۵) “وارنر برادرز” (۶) “نیوز کارپوریشن” (۷) “ٹوینٹی فرسٹ سنچری فوکس” (۸) اور بہت سی دوسری فلم ساز کمپنیاں یہودی ہیں۔
سینمائی صنعت کے یہودیوں کے صہیونیت کے ساتھ قریبی تعلقات تھے اور ہیں۔ (۹) اس دعوے کے اثبات کے لئے اس سینما اور متعلقہ کمپنیوں اور فلمسازوں کے افسانوی کرداروں نیز “اعلی نسل”، “مادر وطن”، “برگزیدہ قوم” وغیرہ جیسے موضوعات کی طرف اشارہ کیا جاسکتا ہے۔ (۱۰) حقیقت یہ ہے کہ یہ سینما “ہالوکاسٹ”، (۱۱) “حضرت موسی(ع) کی زندگی” جیسی فلموں اور “مرغی کا فرار” (۱۲)انیمیشن فلموں کے ذریعے صہیونیت کو جواز فراہم کرنے کی کوشش کرتا ہے اور صہیونیت کے مقاصد کی راہ میں قدم اٹھاتا ہے۔ (۱۳)
چنانچہ آخرالزمان، یا اختتام دنیا (۱۴) پر اس سینما کی خاص توجہ یہودی صہیونیت کے افکار کے زیر اثر ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ آخرالزمانی یا صہیونی تصور کی جڑیں صہیونی عیسائیت کی دینیات، پالیسیوں اور مختلف قسم کے اہداف و مقاصد میں پیوست ہے کیونکہ یہودیوں نے تاریخ کے مختلف مراحل میں عیسائیت کو مسابقت کے میدان سے نکال باہر کرنے کی کوشش کی اور اسے منحرف کرکے مختلف فرقوں میں بانٹ دیا۔ اس تفرقے اور تحریف سے “صہیونی عیسائیت” نامی ناجائز اولاد نے جنم لیا جس کے مقاصد، اہداف اور عقائد اختتام دنیا پر اس کی نگاہ، وہی یہودی اور صہیونی نگاہ ہے۔ (۱۵)
البتہ اس حقیقت کی طرف توجہ دینا ضروری ہے کہ یہودیوں کا آخرالزمانی سینما “دانیایل [دانیال] نبی”، “یرمیاہ نبی” اور “حزقی ایل” کی کتابوں اور “دانی ایل (یا دانیال) کے مکاشفات” سے ماخوذ ہے۔ ان کاوشوں میں آخرالزمان کے مفاہیم علامتی سانچوں میں ڈھالے جاتے ہیں، لہذا ان کی تشریح اور تاویل کی جاسکتی ہے اسی بنا پر آخرالزمان سے متعلق مختلف فلموں میں مختلف قسم کے مثبت اور منفی افسانوی کردار یونانی، مصری، رومی، عیسائی (وغیرہ) ثقافتوں سے لئے جاتے ہیں۔

ہیروسازی، نجات دہندہ کا اعتقاد، نہایت طاقتور شیطانی قوتیں، جارحین کے خلاف تشدد اور عسکریت پسندی کی ضرورت، نیز ملک اور سرزمین پر شیطان اور شر کی قوتوں کا قبضہ صہیونیوں کی آخرالزمانی فلموں کے بنیادی عناصر ہیں۔ ان فلموں میں مختلف نام اور پیغامات صہیونی مقاصد اور اہداف کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ مثال کے طور پرفلم “میٹرکس” (۱۶) میں ہم دیکھتے ہیں کہ سایون (۱۷) نامی شہر کے باشندے ـ یعنی صہیونی ـ ہی دنیا بھر کے جنگجو ہیں جو میٹرکس نامی شریر اور بہت طاقتور کمپیوٹر کے خلاف لڑتے ہیں۔
لیکن اس قسم کی فلموں میں جن عناصر کو بروئے کار لایا جاتا ہے وہ خفیہ فرقوں، شیطان، اور شیطان پرستی سے عبارت ہیں جو یہودی علم باطن یا قبالہ (۱۸) کے ساتھ براہ راست جڑی ہوئی ہے۔ مثال کے طور پر پانچ حصوں پر مشتمل فلم “منحوس طالع” (۱۹) اور سلسلہ وار فلم “جن نکالنے والا” (۲۰) ان فلموں میں شامل ہیں جو انسانی زندگی پر شیطان کے براہ راست تسلط کی تصویر کشی کرتی ہیں۔ نیز فلم سیریز “ہیری پوٹر”(۲۱) میں بھی ـ گوکہ بالواسطہ طور پر جادو کے سانچے میں، جہاں “لارڈ وولڈیمورٹ” (۲۲) نامی شیطان کا کردار سامنے آتا ہے ـ اسی موضوع کی تصویر کشی کی گئی ہے۔ (۲۳)
اسی اثناء میں اسلامو فوبیا اور اسلام دشمنی بھی مختلف مدارج و مراتب میں، ان آخرالزمانی فلموں میں بطور، مد نظر رکھی جاتی ہے۔ یہ موضوع بھی قبالہ مکتب (یہودی علم باطن یا تصوف) کی خاص قسم کی شیطان شناسی، کے تصور اور آخرالزمانی سینما کو حاصلہ صہیونی حمایت سے جنم لیتا ہے۔ (۲۴) فلم “وش ماسٹر” (۲۵) میں شیطان ایک مجسمے کے ساتھ ایران سے امریکہ آتا ہے، فلم “جن نکالنے والا” سیریز میں شیطان سرزمین نینوا میں ملتا ہے۔ “ورلڈ وار زیڈ” (۲۶)میں مسلم زومبی ہیں جو دیوار فاصل سے گذر کر یہودیوں کو آلودہ کرنا چاہتے ہیں؛ وغیرہ وغیرہ۔
آخر میں کہنا پڑتا ہے کہ بین الاقوامی صہیونیت کے اندر ایک قاعدہ ہے کہ جو نسل، جماعت یا ملک اس کا مخالف ہو، وہ اس کو براہ راست یا بطور اشارہ اسے آخرالزمان کے واقعات سے جوڑ کر اسے شر یا بدی کی قوت قرار دیتی ہے۔ مثال کے طور پر “ممی۱” (۲۷) اور “ممی۳” (۲۸)مصری اور چینی اور فلم “ہیل بوائے” (۲۹) میں جرمن باشندے شر کی قوت ہیں؛ اور مختلف ممالک اور اقوام اور تہذیبوں کو اپنی فلموں کا موضوع بنانے کا ایک مقصد دنیا والوں کی توجہ اپنی طرف مبذول کرانا اور لوگوں کی تنوع پسندی کا جواب دینا بھی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تحریر: میلاد پورعسکر
ترجمہ: فرحت حسین مہدوی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ جات:
۱۔ فصلنامه سیاحت غرب، ارتباطات و رسانه ها: قدرت مالکیت رسانه ها، مرداد۱۳۸۵، شماره ۳۷، ص۴۷-۳۴٫۔
۲۔ گابلر، نیل، (Neal Gabler) امپراتوری هالیوود،(An Empire of Their Own) ترجمه: الهام شوشتری زاده، چاپ اول:۱۳۹۰، تهران، سایان.
۳۔ Thomas Alva Edison
۴۔ Universal Pictures
۵۔ Paramount Pictures
۶۔Warner Brothers
۷۔ News Corporation
۸۔ ۲۱st Century Fox
۹۔ فصلنامه راهبرد، ارتباط هویتی میانیهود و صهیونیسم، پاییز۸۵، شماره ۴۱(ISC)، ص۳۷۵-۴۱۲٫۔
۱۰۔http://jscenter.ir/jews-and-the-media/jews-and-hollywood/5886
۱۱۔ Holocaust
۱۲۔ Chicken Run
۱۳۔https://mouood.org/component/k2/item/630
http://zionism.pchi.ir/show.php?page=contents&id=20152.
۱۴۔ End of the world
۱۵۔http://old.aviny.com/occasion/jang-narm/masihyat/sayhonisti2.aspx.
دین در سینمای شرق و غرب ، محمد حسین فرج نژاد، محمد سعید قشقایی، چاپ اول ۱۳۹۶، قم، اداره کل پژوهش های رسانه ای، ص۱۷۷٫۔
۱۶۔ The Matrix
۱۷۔ Zion
۱۸۔ Kabbalah
۱۹۔ The Omen
۲۰۔ The Exorcist
۲۱۔ Harry Potter
۲۲۔ Lord Voldemort
۲۳- دین در سینمای شرق و غرب، ص۱۷۸٫
۲۴- فصلنامه سیاحت غرب، اسلام هراسی: چگونگی گنجاندن تعصب اسلام ستیزانه در جریان غالب آمریکا، بهمن۹۱، سال دهم، شماره۱۱۴، ص۶۶-۴۰٫۔
۲۵۔ Wishmaster
۲۶۔ World War Z
۲۷۔ The Mummy (1999)
۲۸۔ The Mummy: Tomb of the Dragon Emperor
۲۹۔ Hellboy

 

ذرائع ابلاغ میں جاسوسوں کا کردار

  • ۳۵۳

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: سائبر اسپیس کے ماہر انجنیئر روح اللہ مؤمن نسب، جو عرصہ دراز سے ایرانی ٹی وی چینلوں اور مختلف قسم کے اجتماعات میں اسی حوالے سے کردار ادا کرتے رہے ہیں، “پاک انٹرنیٹ تک پہنچنے کے طریقہ کار” جیسے موضوعات کے موضوع پر خطابات کرتے رہے ہیں، اور اس شعبے میں اہم کورسز بھی کرواتے رہے ہیں۔
ذیل میں انجنیئر روح اللہ مؤمن نسب کے ساتھ خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ کا مکالمہ قارئین کی خدمت میں پیش کیا جارہا ہے:
خیبر: سائبر اسپیس پر دشمن شناسی کی اہمیت کیا ہے اور اس شعبے میں دشمن کا کیونکر مقابلہ کیا جاسکتا ہے؟
– ابتداء میں مجھے آپ کے صہیونیت شناسی کے عنوان سے منعقدہ کورس کے بارے میں کچھ کہنے دیجئے۔ رہبر معظم نے بارہا فرمایا ہے کہ اس طرح کے کورسوں کا انعقاد کیا جانا چاہئے، کیونکہ دشمن نے اس سلسلے میں بہت ساری سرگرمیاں دکھائی ہیں اور وہ ایسے منصوبوں کو عملی جامہ پہنانے میں ایسی کامیابی حاصل کرسکا ہے جن کے بارے میں وہ سوچ تک نہیں سکتا تھا، وہ آکر ہمارے ممالک میں بہت بڑے بڑے اقدامات کرنے میں کامیاب ہوا ہے؛ آج ہمارے ممالک ایک لحاظ سے مقبوضہ ممالک ہیں کیونکہ ہمارے ملکوں کے تمام افراد کے پاس انٹرنیٹ بھی ہے اور اسمارٹ فون بھی۔
ماضی میں رابطوں کے لئے ہمیں بہت سارے وسائل کی ضرورت ہوتی تھی لیکن آج ہم ایسی فضا میں کام کررہے ہیں جس کا تعلق یہودی ریاست سے ہے۔ یعنی یہ منصوبہ بندی اسرائیلیوں کی ہے اور آپ کو نہیں معلوم کہ ہم کن کن چیزوں سے ٹویٹر، انسٹاگرام، فیس بک وغیرہ وغیرہ کے ذریعے ہم چاہتے ہوئے یا نہ چاہتے ہوئے، اسرائیل کی جیبوں کو بھر رہے ہیں۔
آج حالات بدل چکے ہیں، یعنی کسی وقت سامنے جاکر دشمن سے لڑتے تھے لیکن آج ہم دشمن کے دامن میں ہی جنگ لڑ رہے ہیں اور اگر کچھ طاقت کا مظاہرہ کرنا چاہیں تو Delete بٹن کا شکار ہوکر حذف ہوجاتے ہیں۔ بہرحال دشمن شناسی بہت واجب موضوع ہے۔
دشمن تیرہویں یہودی پروٹوکول میں کہتا ہے کہ “تم جاکر ایک یہودی حاخام (رابی) کی بات کو مسلم دینی علماء کی زبان پر ڈال دو، کیونکہ کوئی بھی یہودی حاخام کی بات کو قبول نہیں کرتا لیکن اپنے علما کی بات سنتے اور مانتے ہیں”؛ وہ اپنی دشمنانہ پالیسیوں کو اس انداز سے نافذ کرتا ہے اور اپنی دشمنی کا اس ذریعے سے ظاہر کرتا ہے، تا کہ اپنی بات کو علماء کی زبان پر جاری کرے اور اس طرح مسلم معاشرے میں فکری دراندازی کرے۔
میں نے ایرانی ساختہ مصنوعات کا بہت خوبصورت اور متاثرکن پوسٹر دیکھا لیکن اس کے سائبر اسپیس کا پتہ یا برقی پتہ بیرونی پیغام رسانوں پر مشتمل تھا، اور یہ تمام ممالک میں رائج ایک بڑا تضاد ہے؛ اور ہم گویا ایک جاسوس کا کردار ادا کررہے ہیں جو نہ صرف اس جاسوسی کے بدلے کوئی اجرت نہیں لیتے کچھ رقم خرچ بھی کرتے ہیں۔
 
خیبر: ہمیں اس وقت کس چیز کے بارے میں فکرمند ہونا چاہئے اور ہم کس قسم کے استعمار کا سامنا کررہے ہیں؟
ـ ہم آج جدید استعمار کے دور سے گذر رہے ہیں۔ جس کو آیت اللہ حائری شیرازی (رہ) نے “فکری استعمار” کا نام دیا، آج بےزبانی کی زبان میں ہم سے کہہ رہے ہیں کہ “آپ کو مزید سوچنے کی ضرورت نہیں ہے، ہم آپ کی جگہ سوچتے ہیں”۔ ہم نے کسی سے بھی سوشل میڈیا کی درخواست نہیں کی لیکن انھوں نے بڑی آسانی سے اسے ہمارے لئے فراہم کیا۔ ہم میں سے جو لوگ کچھ کچھ ذمہ داری محسوس کرتے ہیں وہ روزانہ کچھ باتیں کہیں سے اٹھا کر کہیں نشر کردیتے ہیں اور ہماری تخلیقی سرگرمیوں کی انتہا صرف اتنی ہے کہ کچھ بیرونی سافٹ ویئرز کو لے کر اسی شکل میں، تیار کریں اور یہ وہی پیچیدہ جنگ ہے جس کا عام جنگوں سے اختلاف اسلحے کے حوالے سے ہے۔ آج کا اسلحہ مختلف ہے۔
اس پیچیدہ لڑائی کا پیچیدہ ترین پہلو یہ ہے کہ ہم دشمن کی زمین میں بیٹھ کر لڑرہے ہیں۔ ہمارے اچھے اور نیک نوجوان جانے بوجھے بغیر اپنے موقف کے ذریعے اپنے اوپر ہی حملہ کرتے ہیں۔ رہبر معظم کی رائے یہ ہے کہ “دشمن کی زمین پر نہیں کھیلنا چاہئے کیونکہ اس میں ہار اور جیت دونوں کا فائدہ دشمن کو پہنچتا ہے”؛ جیسے کہ ہم کھیل کے میدان میں یہودی ریاست کے کھلاڑیوں سے نہیں کھیلتے، کیونکہ کھیلنے کی صورت میں کوئی فرق نہیں پڑتا کہ ہم جیتیں یا ہاریں، اہم بات یہ ہے کہ گویا ہم ان کے ساتھ کھیل کر یہودی ریاست کو تسلیم کرلیا ہے۔
ہماری جنگ کی روش کچھ یوں ہے کہ جب کسی چیز کو دیکھتے ہیں اس کی طرف لپکتے ہیں اور مشکل کا خاتمہ کرنا چاہتے ہیں جبکہ باقی محاذ خالی رہتا ہے اور دوسرے نقاط سے نقصان اٹھاتے ہیں؛ جس طرح کہ یہودی ریاست کے وزیر اعظم نیتن یاہو نے ۲۰۱۳ میں بی بی سی کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا تھا کہ “اگر ایران کے عوام آزاد ہوتے تو جینز کے پتلون پہنتے!” جبکہ ہمارے ذرائع ابلاغ کے پاس بی بی سے کہیں زیادہ افرادی قوت ہے لیکن وہ ہمیں اس طرح کے قصوں سے چیلنج کرتے ہیں اور یہ در حقیقت کاروائی کی روش میں وہ خلا ہے جس کا ہمیں سامنا ہے۔
خیبر: اس بات کا سبب کیا ہے کہ ہمارے پاس تربیت یافتہ افرادی قوت بھی ہے اور تخلیقی صلاحیت بھی ہے لیکن پھر بھی کوئی کام انجام نہیں پاتا؟
– ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم حملہ کرنے کی صلاحیت حاصل کریں اور جان لیں کہ کس وقت کونسا کام کرنا چاہئے۔
خیبر: کیا ہم کوئی ہمآہنگ تھنک ٹینک قائم کرنے میں کامیاب ہوسکے ہیں جو اس قسم کی سرگرمیوں کو منظم کرے اور حملے اور دفاع کے لئے منصوبہ بندی کرے؟
– رہبر معظم نے نوجوانوں سے فرمایا کہ “اپنے اختیار سے اٹھ کر دشمن کا مقابلہ کرو اور خود جاکر منصوبہ بندی کرو”، اس وقت اس لحاظ سے تقریبا تمام اسلامی ممالک کا کمانڈ روم خلل کا شکار ہے، اسی بنا پر بہت سے مقامات پر مختلف قسم کے کام ہورہے ہیں۔ دشمن ہمارے اگلے قدم کو نہیں بھانپ سکتا اور یوں نقصان نہیں پہنچا سکتا۔ جو کام دشمن کرسکتا ہے یہ ہے کہ وہ نیٹ ورک بنا لیتا ہے اور ایک ایسی فکر کو اندر لے کر آتا ہے جو کہ بہت ہی زیادہ کامیاب ہے۔
وہ ہماری ترجیحات بدلنے کی کوشش کرتا ہے، ہر روز ملکی ساختہ مصنوعات کے استعمال کے رجحان کے مقابلے میں ایک نئی ترجیح لاتا ہے تا کہ اندرونی مصنوعات کی عوامی حمایت کے لئے متعینہ ایک سال کا عرصہ گذر جائے۔ دشمن نے ایران کے خلاف آٹھ سالہ جنگ کے دوران، ہر بار نئے ہتھکنڈے استعمال کئے۔ عراق نے ایران پر حملہ کیا تو ہمارے دشمن “اسرائیل” نے افواہ اڑا دی کہ “ایران اسرائیل کا دوست ہے”۔
ایران نے بھی اپنے کچھ سپاہی اسرائیل کے خلاف براہ راست لڑائی کے لئے شام بھجوا دیئے اور امام خمینی(رہ) نے اس حوالے سے ان سے فرمایا: “قدس کا راستہ کربلا سے گذرتا ہے”؛ یعنی وہ زمانہ یہودی ریاست کے خلاف براہ راست لڑائی کا زمانہ نہیں تھا اور ہمیں چاہئے تھا کہ پہلا قدم زیادہ مضبوطی کے ساتھ اٹھائیں۔

 

صہیونیت مخالف شخصیت ’’لاورنیس ڈیوڈسان‘‘ کا مختصر تعارف

  • ۳۵۹

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: لاورنیس ڈیوڈسان[۱]، نے ۱۹۴۵ ء میں امریکہ کے چھٹے بڑی آبادی والے شہر فیلاڈالفیا[۲] میں، ایک سیکولر یہودی گھرانے کے یہاں آنکھیں کھولیں، لاورنیس ڈیوڈسان نے روٹگیرز یونیورسٹی [۳] سے تاریخ کے موضوع میں بے اے کی ڈگری حاصل کی اور ۱۹۶۷ء میں لاورنیس کو جارج ٹاون یونیورسٹی[۴] میں وہاں کے استاد کی حیثیت سے منظوری مل گئی اور بحثیت استاد انہیں قبول کر لیا گیا۔
ڈیوڈسان نے اپنے ان ایام کو یورپ میں جدید روشن خیالوں کی تاریخ کے سلسلہ سے مطالعہ میں بسر کیا اس دوران انکا ایک فلسطینی استاد سے کافی بحث و مباحثہ ہوتا رہا ۔
۱۹۷۰ء میں ڈیوڈسان نے امریکہ کو کینیڈا کی غرض سے ترک کر دیا اور یوں امریکہ سے رخت سفر باندھ کر وہ کینیڈا پہنچ گئے اور قیام کینیڈا ہی کے دوران انہوں نے جدید پورپ کی فکری تاریخ کے موضوع پر پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی ۔
ڈیوڈسان ۱۹۸۹ء کی دہائی میں ویسٹ چسٹر یونیورسٹی میں مشرق وسطی کی تاریخ کے استاد کی حیثیت سے مصروف عمل ہو گئے ساتھ ہی تاریخ ِعلم اور جدید یورپ میں روشن خیالی کی تاریخ بھی تدریس کرنے لگے نیز اسی موضوع میں ریسرچ و تحقیق سے بھی جڑ گئے، ۲۰۱۳ ء مئی کے مہینے میں یورنیورسٹی کی خدمت سے سبکدوش اور رٹائرڈ ہوئے۔
ایک معاہدے و پیمان کے طرف ہونے کی حیثیت سے امریکہ کے غیر قابل بھروسہ اور ناقابل یقین ہونے کے سلسلہ سے ڈیوڈ سان کا کہنا ہے: اس سلسلہ سے اسلامی جمہوریہ ایران کی مشرق وسطی اور علاقائی مسائل پر ہونے والی گفتگو منطقی اور حقیقت پر مبتنی گفتگو ہے [۵]۔
یمن کے سلسلہ میں ڈیوڈ سان کا ماننا ہے دوسری عالمی جنگ کی طرح آج بھی کچھ حکومتوں کی حماقت، مفاد پرستی و خود خواہی نے بین الاقوامی قوانین کو خطرے میں ڈال دیا ہے اور افسوس کی بات ہے کہ یمن کچھ حکومتوں کے ذاتی مفادات کی بھینٹ چڑھ گیا ہے۔[۶]
ڈیوڈ سان اسرائیل کی بین الاقوامی ثقافتی کمپین کے صدارتی بورڈ کے ایک رکن ہیں اور حامد داباشی[۷] ، ایلان پاپے[۸]، مائکل شیادہ[۹] ، دزموندٹوٹو[۱۰] جیسی ممتاز شخصیتوں کے ہمراہ عالمی صہیونیت اور انکے ظالمانہ افکار سے جنگ کر رہے ہیں [۱۱]
انکے بعض اہم آثار یہ ہیں :
The Alexian Brothers of Chicago: An Evolutionary Look at the Monastery and Modern Health Care
Islamic Fundamentalism
America’s Palestine: Popular and Official Perceptions from Balfour to Israeli Statehood
Foreign Policy, Inc: Privatizing America’s National Interest
Lawrence Davidson, and Tom Weiner. A Concise History of the Middle East
Cultural Genocide. New Brunswick
حواشی:
[۱] ۔ Lawrence Davidson
[۲] ۔ Philadelphia ، امریکہ کا ایک ایک ایسا شہرجو امریکہ کا سب سے پہلا پایتخت قرارپایا نیز امریکہ کا بنیادی دستور العمل بھی اسی شہر میں منظور کیا گیا ۔رجوع کریں : http://www.nps.gov/archive/inde/phila.htm
[۳] ۔ Rutgers University، امریکی ریاست نیوجرسی کی ایک معروف یونیورسٹی
[۴] ۔ Georgetown Universityواشنگٹن کی ایک کیتھولک نظریات کی حامل یونیورسٹی
https://middleeastpress.com/slideshow/. [5]
www.farsnews.com/news/13940219200165. [6]
Hamid Dabashi .[7]
[۸] ۔ Ilan Pappé
[۹] ۔ Michel Shehadeh
[۱۰] ۔ Desmond Tutu
[۱۱] ۔ www.usacbi.org/advisory-board/

 

یوم القدس، ظلم کے خلاف اتحاد کا مظاہرہ

  • ۴۳۵

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: دنیا میں کتنے ایسے مظلوم ہیں کہ جن کی آه و پکار سننے والا کوئی نہیں ہے بلکہ سننا اور درد کی دوا کرنا تو کیا، اکثر لوگ اپنی فطرت اور ضمیر کے خلاف، الله اور شریعت کے احکام کی پرواه کئے بغیر ظالم کا ساتھ دیتے ہیں اور مظلوم کی مظلومیت کا درک و احساس رکھنے کی بجائے اس کا مذاق اڑاتے ہیں۔ بعض افراد، بعض دیگر افراد کے حقوق پر ڈاکہ ڈالتے اور ان سے خیانت کرتے ہیں۔ بعض خاندان بعض خاندانوں پر اور بعض ملتیں، ممالک اور نام نهاد ادارے بعض ملتوں اور ممالک پر ظلم کرتے ہیں۔ ان حالات میں ضرورت اس امر کی ہوتی ہے کہ ایک مستقبل پر نگاه رکھنے والا رہبر و قائد اپنی شرعی ذمہ داری کو سمجھتے ہوئے، خدا کی بارگاه میں سرخرو ہونے کے لئے انبیاء کرام کے نقش قدم پر چلتے ہوئے مظلوم کی حمایت میں دنیا کو بیدار کرے اور ظالم کا مقابلہ اپنی دور اندیشی اور حکمت عملی سے کرے۔
یہی کام حضرت امام خمینی نے فلسطین کے مظلومین اور قبلہ اول کی آزادی کے لئے کیا اور دنیا کے تمام مسلمانوں کو دعوت دی کہ وه ظالم سے نفرت کرتے ہوئے مظلوم کی آواز بنیں۔ مسلمان آپس میں متحد ہوں اور اسلام و قرآن کی دشمن طاقتوں کا راستہ روکیں۔ افسوس که امام خمینی کی آواز پر جس طرح اسلامی ممالک کے حکمران طبقہ کو کام کرنا چاہیئے تھا، ایسے نہ کیا بلکہ اکثر عرب ممالک نے تو اسرائیل کے اہداف اور مقاصد کو کامیاب کرنے کے لئے اپنے ممالک کا سرمایہ کو بھی استعمال کیا۔ جهادی گروپ اسلام و مسلمانوں کو ختم کرنے کے لئے تیار کئے، مسلمانوں ہی پر کفر کے فتوے لگانے شروع ہوئے اور مسلمانوں ہی کو آپس میں اتحاد کی بجائے مختلف گروہوں میں تقسیم در تقسیم کر دیا گیا، جس کا نتیجہ آج امت مسلمہ کی زبون حالی کی شکل میں ہر شخص کے سامنے ہے۔
دراصل غور طلب بات یہ ہے کہ آج جو فلسطین کے مسلمانوں پر اسرائیل ظلم کر رہا ہے، وہی ظلم النصره و داعش شام اور عراق کے مسلمانوں پر بھی کر رہی ہیں۔ یہ نام نهاد جہادی گروپ دراصل اسرائیل اور استعمار کے مقاصد کو پورا کرنے کے لئے بنائے گئے ہیں۔ القاعده، طالبان، لشکر جھنگوی، جندالله اور دیگر ناموں کے تمام لشکر جو پاکستان یا افغانستان میں بی گناه مسلمانوں کو سینکڑوں کی تعداد میں زندگی جیسی نعمت سے محروم کر دیتے ہیں، سب دشمن کے اہداف کو پورا کرنے کے لئے وجود میں آئے ہیں۔ ان حالات میں مسلمانوں کے لئے ضروری ہے کہ وه اپنے دفاع کے لئے ایک حکمت عملی تیار کریں، آپس میں اتحاد کرتے ہوئے آینده کے بارے میں منصوبہ بندی کریں اور اپنے مستقبل کے بارے میں سوچیں۔ اس کا لازمی تقاضا یہ ہے کہ اسلام کے نام پر سرگرم تمام نام نهاد دہشت گرد اور تخریب کار تنظیموں سے بیزاری کا اعلان کریں۔ یہ تنظیمیں دراصل اسرائیلی مقاصد کو پورا کر رہی ہیں، ان کے شر کو بھی روکنے کے لئے ایک منظم منصوبہ بندی کی ضرورت ہے۔ ہم سب کے لئے ضروری ہے کہ یوم القدس کے مظاہروں میں ظلم کے خلاف آواز بلند کرنے کے لئے شرکت کریں، اپنے بچوں اور گھر والوں کو بھی اس لئے ساتھ لیکر آئیں، تاکہ ان میں ظلم کو سہنے کی بجائے ظلم کا مقابلہ اور اس سے نفرت کا جذبہ و احساس پیدا ہو۔
اسلام حقیقی اور مکتب اہلبیت کی دنیا میں ہر بیدار اور مظلوم شخص تک آواز پہنچانے کے لئے ضروری ہے کہ تمام مدارس، تمام انجمنیں، تمام تنظیمیں کہ جن میں سرفہرست اسلامی تحریک پاکستان، شیعہ علماء کونسل، مجلس وحدت مسلمین، آئی ایس او اور جے ایس او جیسی تنظیمیں ہیں، ان کو اپنے اپنے تشخص کے ساتھ متحد ہو کر ایک ہی آواز بن کر اس زمانہ میں اور ہماری آنے والی نسلوں پر جو ظلم کے منصوبے اور سازشیں بن رہی ہیں، سب کو ناکام کر دیں۔ اس کے ساتھ ساتھ باقی بھی سب مسلمانوں کو جن میں بریلوی، اہلحدیث یا دیوبندی مسلک کی جو معتدل تنظیمیں ہیں، ان کو بھی ساتھ ملانا چاہیے اور ان کے ساتھ ملکر کام کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے۔ البتہ اس سے پہلے اپنی صفوں میں اتحاد برقرار کرنا ضروری ہے، تاکہ کوئی بھی ہمارے درمیان اپنے مذموم مقاصد و اہداف کی خاطر نفرت و کدورت کی لکیر نہ کھینچ سکے۔ اس بات سے ہوشیار رہنا چاہیئے کہ جس طرح اسلامی تحریک کے ساتھ گلگت بلتستان میں خیانت اور سازش کی گئی ہے، دوباره ایسا کام نہ ہو۔ فلسطین اور قبلہ اول کی آزادی میں بھی دشمن کی سازشوں کے ساتھ ساتھ خود مسلمانوں کی خاموشی اور سہل انگاری کا بہت بڑا کردار ہے۔ خدایا ہم سب مسلمانوں کو متحد ہو کر ظلم کے خلاف اپنی آواز کو بلند کرنے کی ہمت عطا فرما۔ آمین

 

عالمی یوم القدس کی اہمیت

  • ۳۴۸

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: یوم قدس مختلف زاویوں سے اہمیت کا حامل ہے، منجملہ یہ کہ اس سے غاصب اسرائیلی حکومت کے ناجائز وجود کی عالمی سطح پر مخالفت ہوتی ہے۔ یہی یوم قدس صہیونی حکومت پر دباو کی علامت ہے ۔
فلسطین کے مسئلے کو قومی پہلو سے خارج کرنا اور اسکو عالمی اور اسلامی مسئلے میں تبدیل کرنا ایک اور مسئلہ ہے کہ جس سے مسلمانوں اور امت اسلام کے درمیان عالمی یوم قدس کی اہمیت کا اندازہ ہوتا ہے۔ اس سلسلے میں یہ وضاحت ضروری ہے کہ صہیونی دشمن کی شروع میں کوشش تھی کہ اسرائیل اور فلسطینیوں کے درمیان اس جنگ کو عربوں اور اسرائیل کے درمیان ایک قومی منازعے میں تبدیل کریں لیکن دنیائے اسلام کے ایک بڑے دینی مرجع ہونے کے لحاظ سے امام خمینی(رہ) کے موقف کے اعلان کے بعد اسرائیل کے ساتھ نیم جان مبارزے میں تازہ روح پھونک دی گئی اور اس کے باعث دوسری ہر چیز سے بڑھ کر فلسطین کی جنگ اسلامی مقاومت میں تبدیل ہو گئی اور فلسطین کے عوام نے دیگر گروہوں سے رابطہ منقطع کر لیا جو اس بات کی تائید ہے ۔
مغرب اور صہیونی حکومت کی سازش کو ناکام کرنا اور مسلمانوں پر معنوی اثر ڈالنا اور ایک طرح کی عمومی مشارکت ایجاد کرنا ان دیگر موضوعات میں سے ہے کہ جس سے یوم قدس کی اہمیت پہلے سے زیادہ نمایاں ہو جاتی ہے۔ اور آخر کار دنیائے اسلام کی مغرب پسند اور قدامت پرست حکومتوں پر سوال اٹھانا ایک اور موضوع ہے کہ جو اس دن کی اہمیت کو پہلے سے زیادہ نمایاں کرتا ہے ۔در واقع جیسا کہ امام نے فرمایا یہ دن حق و باطل کے درمیان امتیاز اور جدائی کا دن ہے اور دنیائے اسلام اور امت اسلامی نے اس دن کی ریلی کی راہ میں علاقے کی بعض حکومتوں کی جانب سے روڑے اٹکاتے ہوئے دیکھا ہے کہ جس سے ان حکومتوں اور اسرائیل کے درمیان سیاسی رابطے کے پائے جانے کا پتہ چلتا ہے اور دوسری طرف یہ ان ملکوں کی حقانیت کی علامت ہے کہ جو اس دن کو زیادہ سے زیادہ شاندار طریقے سے منانے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس لیے کہ آج ایک طرح سے اسلام اور عالمی صہیونزم کا سیدھا مقابلہ ہے ۔اس چیز کو اسرائیل اور لبنان کی ۳۳روزہ اور صہیونی حکومت اور غزہ کے مسلمانوں کی ۲۲ روزہ اور ۸ روزہ جنگ میں بعض ملکوں کے طرز عمل میں دیکھا جا سکتا ہے کہ بعض ملکوں اور گروہوں منجملہ القاعدہ نے موقف اختیار کر کے اس جنگ سے اپنی ناخوشنودی کا اظہار کیا اور اپنی اسلام دشمن ماہیت کو سب پر عیاں کر دیا ،اور دوسری طرف پوری دنیا میں دنیا کے مغرب سے لے کر انڈونیشیاء اور ملیشیاء تک مشرق میں حزب اللہ اور فلسطین کی مظلوم ملت اور ان کے حامیوں کی حقانیت کا باعث بن گیا ۔