سی آئی اے کے افیسر بھی موساد کی ابابیلوں کے پنجے میں

  • ۴۶۴

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: بارک اوباما کے دوسری بار صدر امریکہ منتخب ہونے کے چند ہی روز بعد ایک دھماکہ خیز خبر نے وائٹ ہاؤس کو حیرت میں ڈبو دیا اور وہ یہ کہ “سی آئی اے کے ڈائریکٹر جنرل، جنرل ڈیوڈ پیٹراس (General David Petraeus) نے اخلاقی رسوائی اور اپنی بیوگرافی رائٹر پاولا براڈویل (Paula Broadwell) یا پاولا ڈین کرانز (Paula Dean Kranz) کے ساتھ ناجائز تعلقات اور اپنی بیوی کے ساتھ خیانت کی بنا پر اپنے عہدے سے اسعتفیٰ دیا۔
۴۵ سالہ پاولا براڈویل ڈاکوٹا کی ملٹری یونیورسٹی کی فارغ التحصیل ہے۔ ۲۳ سال کی عمر میں امریکی فوج کے انٹیلی جنس کے شعبے میں سرگرم عمل ہوئی۔ جنرل پیٹراس مشرق وسطی اور شمالی افریقہ میں امریکی افواج کے کمانڈر مقرر ہوئے تو براڈویل (کرانز) سے بھی شناسائی اور رابطوں کا آغاز ہوا۔ (پاولا براڈویل کا اصل خاندانی نام “کرانز” ہے اور کرانز امریکی یہودیوں کے درمیان مشہور نام ہے) پیٹراس کا شمار ایک فوجی افسر کی حیثیت سے امریکیوں کے ہر دلعزیز افسروں میں ہوتا ہے۔
عراق اور افغانستان کے خلاف امریکی جنگوں کے دوران پاولا مشرق وسطی میں اعلی امریکی فوجی عہدیدار کے طور پر تعینات تھی اور اسی منصب کی آڑ میں وہ کئی مرتبہ مقبوضہ فلسطین بھی گئی۔ اگرچہ موساد کے ساتھ پاولا کے تعلق کے سلسلے میں کوئی سند و ثبوت موجود نہیں ہے لیکن اس میں شک نہیں ہے کہ وہ ایک یہودی ہے اور امریکہ میں اعلی یہودی شخصیات کے ساتھ بھی اس کا آنا جانا رہا ہے۔ بدنام زمانہ امریکی یہودی ادارے آیپیک کے ساتھ بھی اس کے تعلقات کسی سے ڈھکے چھپے نہیں ہیں اور اس کے مقبوضہ فلسطین کے دوروں کے بارے میں شائع ہونے والی رپورٹوں میں بھی امریکی ذرائع ابلاغ نے اس کے موساد کے ساتھ تعلقات کے سلسلے میں قیاس آرائیاں کی ہیں۔

 

 

سابق امریکی صدر بل کلنٹن کا شکار کرنے والی ’’مونیکا لیونسکی‘‘

  • ۳۸۱

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: مونیکا لیونیسکی (Monica Lewinsky) جرمن یہودی گھرانے میں پیدا ہوئی جس کا باپ نازی جرمنی سے مرکزی امریکی ملک ایل سیلواڈور (El Salvador) اور وہاں سے امریکہ بھاگا تھا۔ اس کا نانا لیٹویائی یہودی تھا جبکہ اس کی نانی کا روسی یہودی تھی۔ وہ وائٹ ہاؤس میں کی خوبصورت یہود زادی زیر تربیت لڑکی تھی۔ اس نے ۱۹۹۴ سے صدر بل کلنٹن کی قربت حاصل کرنا شروع کی تھی اور ان کے بیڈ روم تک پہنچ گئی۔
مونیکا اور کلنٹن کی ٹیلیفونک گفتگو کو ریکارڈ کیا جاتا رہا تھا جس سے معلوم ہوا کہ وہ فلسطین پر قابض یہودی ریاست کے لئے کام کررہی تھی۔ یہ واقعہ ایک اہم موڑ ثابت ہوا کیونکہ ایک طرف سے سی آئی اے کاؤنٹر انٹیلی جنس میں کسی قسم کی غفلت کو مسترد کر رہی تھی اور دوسری طرف سے موساد بھی اس سلسلے میں منظم جاسوسی کو مسترد کر رہی تھی۔ لیکن بعد کے مراحل میں سی آئی اے اور ایف بی آئی کی مشترکہ تحقیقات سے موساد کا کردار واضح ہوا۔
سنہ ۱۹۹۹ میں گورڈن تھامس (Gordon Thomas) کی اہم کتاب “جدعون کے جاسوس، موساد کی خفیہ تاریخ” (Gideon’s Spies: The Secret History of the Mossad) شائع ہوئی جس کا ایک بڑا حصہ مونیکا اور موساد کے درمیان رابطے سے مختص کیا گیا تھا۔ مؤلف نے دستیاب دستاویزات اور شواہد کی بنیاد پر بل کلنٹن کو ایک شہوت پرست شخص کے عنوان سے اور مونیکا کو موساد کی جاسوسہ کے عنوان سے متعارف کرایا ہے اور ثابت کیا ہے کہ مونیکا کو موساد نے بل کلنٹن کے ساتھ جنسی تعلق برقرار کرکے اہم دستاویزات اور ان کے ذاتی مکالمات ریکارڈ کرنے کا مشن سونپا تھا۔
اس رسوائی سے موساد کا مقصد یہ تھا کہ اس اسکینڈل اور ریکارڈ شدہ خفیہ مکالمات کے عوض کلنٹن کو بلیک میل کیا جائے اور انہیں موساد کے کہنہ مشق جاسوس جانتھن پولارڈ (Jonathan Jay Pollard) کی رہائی پر مجبور کیا جائے۔ لیکن کلنٹن کی کوششیں کانگریس کی مخالفت کے باعث ناکام ہوئیں اور عمر قید پانے والے پولارڈ کو رہا نہیں کیا جاسکا۔ جس کے بعد اسکینڈل طشت از بام ہوا۔
کچھ دوسرے ذرائع بھی اس واقعے کو یہودی ریاست اور موساد کی سازش گردانتے ہیں۔ کیونکہ مونیکا نے مشرق وسطی کے امن کے حوالے سے سہ فریقی کانفرنس کے انعقاد کے وقت ہی کلنٹن کے ساتھ جنسی رسوائی کا اعتراف کیا، وہ ایکی ہودی تھی اور پھر کلنٹن نے فلسطین میں نوآبادیوں کی تعمیر کے حوالے سے یہودی ریاست پر دباؤ بڑھا لیا تھا اور اس دباؤ کا خاتمہ یہودی ریاست کے اہم مقاصد میں شامل تھا جس کے لئے کلنٹن کی آبرو بر سر بازار نیلام کی گئی۔
بعد میں ترکی روزنامے “تقویم” نے ساابق امریکی صدر بل کلنٹن کی رسوائی کے سلسلے میں لکھا: “کلنٹن اسرائیل کی پالیسیوں کی شدید مخالفت کی بنا پر موساد کے جال میں پھنس گئے”۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

’’اینا چپمین‘‘ جس کے نشانے پر بڑے بڑے امریکی تاجر تھے

  • ۳۷۱

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ کے مطابق، تشہیر و اشتہار نیز جنسیات کے لئے عورتوں کا آلاتی استعمال مغربی سیاستدان طبقے کی ثقافت کا حصہ بن چکا ہے۔ اسی بنا پر جاسوسی اداروں میں جاسوسی کے لئے بھی عورت کے استعمال کا رجحان بڑھ گیا۔ خاتون جاسوسائیں جنہیں یا تو وہ ابابیل کہیں گے یا چڑیا۔ یہ ادارے مختلف سیاستدانوں اور عسکری اور سیکورٹی اداروں کے سربراہوں کی کمزوریاں تلاش کرتے ہیں جو اگر شہوت پرست ہوں تو ان کے جال میں پھنس جاتے ہیں۔
مشہورترین یا پھر بدنام ترین جاسوساؤں کی تاریخ کا مطالعہ کرتے ہیں تو ان کی جڑیں یہودی خاندانوں میں پیوست ملتی ہیں جن کی پرورش بھی یہودی نسب کے خاندانوں میں ہوئی ہوتی ہے۔ جاسوساؤں کی تربیت اور ان کا استعمال آج دنیا کے اکثر جاسوسی اداروں کا خفیہ ہتھیار بن چکا ہے۔
اینا واسیلییونا کوشچینکو (Anna Vasil’yevna Kushchyenko) یا اینا چیپمین (Anna Chapman) سنہ ۱۹۸۲ کو روس میں پیدا ہوئی۔ شادی کے بعد برطانوی شہریت حاصل کی۔ نیویارک میں مقیم ہوئی اور ۲۰۱۰ کو ۹ دوسرے افراد کے ہمراہ روس کے لئے جاسوسی کے الزام میں گرفتار ہوئی اور روس اور امریکہ کے درمیان قیدیوں کے تبادلے کے سلسلے میں روس واپس بھجوا دی گئی۔ اینا چپمین ماڈلنگ اور تشہیر کے شعبے سے منسلک ہوکر مختلف اہم شخصیات کے ساتھ جنسی رابطہ برقرار کرکے روس کے خارجی جاسوسی کے ادارے ایس وی آر کے لئے جاسوسی کرتی تھی۔
زیادہ تر برطانوی اور امریکی تاجر اس جاسوسہ کے نشانے پر ہوتے تھے جنہیں وہ ان ہی افراد کے مخصوص نائٹ کلبوں میں شکار کرتی تھی۔ اس کا نشانہ بننے والوں میں مشہور برطانوی تاجر فلپ گرین (Sir Philip Nigel Ross Green) اور ایرانی نژاد (عیسائی) برطانوی تاجر ونسنٹ چنگیز (Vincent Tchenguiz) سمیت مختلف امریکی اور برطانوی تاجروں سے ناجائز تعلق برقرار کرکے ان سے خفیہ معلومات حاصل کیں اور برطانیہ کے بارکلیز بینک (Barclays Investment Bank) کے امریکی شعبے سے بھی خفیہ معلومات حاصل کرکے روس بھجواتی رہی۔ اسے روس واپس لایا گیا تو ویلادیمیر پیوٹن نے اسے خراج تحسین پیش کیا۔ وہ اپنے حسن و جمال کے بدولت امریکہ کے اعلی حکام اور بالخصوص اوباما انتظامیہ میں اچھا خاصا نفوذ رکھتی تھی اور ٹیکنالوجی کے حوالے سے اہم معلومات روسی حکومت کو فراہم کیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

کتاب “یہودیوں کی صہیونی بنیاد پرستی” کا مختصر تعارف

  • ۳۶۳

ترجمہ سید نجیب الحسن زیدی

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: یہودیوں کی صہیونی بنیاد پرستی (The Jewishes, Zionist fundamentalism) اسرائیل کے ماہر عمرانیات و مردم شناس گائڈن ارن [۱]کے قلم سے سامنے آنے والی کتاب ہے، اس مصنف کے دیگر آثار میں، اسرائیلی سرزمین: سیاست و دین کے درمیان [۲]، صلح کی قیمت :یہودی نشین آبادیوں کو ختم کرنا، صلح کے قیام و معاملات کو رفع دفع کرنے میں صلح[۳] وغیرہ جیسے آثار کی طرف اشارہ کیا جا سکتا ہے ۔
گائڈن ارن نے اس کتاب اور اپنے دیگر مقالات کو ضبط تحریر میں لانے کے لئے اسرائیل میں موجود مختلف تحریکوں کے سربراہوں سے مختلف انٹرویو لیے ہیں، یہودیوں کی صہیونی بنیاد پرستی ایک ایسی کتاب ہے جو اسرائیل میں موجود مختلف تحریکوں کے تعارف کے پیش نظر لکھی گئی ہے اور خاص طور پر اسرائیل کی قدامت پرست تحریک گوش امونیم Gush Emunim מִפְלָגָה דָּתִית לְאֻומִּית، پر اس کتاب میں فوکس کیا گیا ہے۔
گوش امونیم [۴]ایک عبری عبارت ہے جو گروہ مومنین کے معنی میں اور دینی پس منظر کی حامل تحریک کے سلسلہ سے استعمال ہوتی ہے، یہ کتاب امریکی عوام کی دسترس میں قرار پانے والی اپنی نوعیت کے اعتبار سے اس سلسلہ سے لکھی جانے والی پہلی کتاب ہے جسے ایک ممتاز محقق نے سپرد قرطاس کیا ہے، لہذا امریکی رائے عامہ، یونیورسٹیز، حتی امریکی پالیسی سازوں اور امریکہ کے سلسلہ سے فیصلہ کرنے کا اختیار رکھنے والوں تک کو متاثر کر نے کا سبب ہوگی۔ اور اس لحاظ سے کہ اس کے مصنف اسرائیل میں بنیاد پرستوں کے ساتھ خود ہی اٹھے بیٹھے ہیں اور سالہا سال انکے ساتھ زندگی جینے کا تجربہ رکھتے ہیں، ایک خاص اہمیت کی حامل ہونے کے ساتھ ایک ثبوت اور دستاویز کی حیثت رکھتی ہے۔
اس کتاب میں گوش امونیم کی تحریک کے آغاز سے اسکے رشد تک کے مرحلہ کو بیان کیا گیا ہے اس کتاب کے مصنف نے کتاب کو ضبط تحریر میں لانے کے لئے مقبوضہ فلسطین کی سر زمینوں میں رہائش کی سختیوں کو برداشت کیا ہے اور اس تحریک کے فعال اراکین و اعضاء جنہیں گروہ مومنین کہا جاتا ہے کے ساتھ ، پہاڑوں اور بیابانوں کو پیروں تلے روندا ہے اور ہر چیز کو نزدیک سے دیکھنے کے لئے کبھی ڈرائور کا کردار نبھایا ہے تو کبھی اسلحوں کو کاندھوں پر ڈھونے والے حمال تو کبھی اس تحریک کے سربراہوں کے باڈی گارڈ کا رول نبھایا ہے اور گوش امونیم کی پنہاں و آشکار کارکردگیوں کو ایک محرم راز و شاہد کی حیثیت لمس کرنے کے ساتھ اس تحریک کی رسمی و غیر رسمی پنہاں وآشکار فعالیتوں کے گواہ کے طور پر بہت کچھ قریب سے دیکھا ہے[۵]
ان لوگوں کے لئے اس کتاب کو پڑھنا بہت ہی مفید ہوگا جو صہیونیت کی شناخت کے سلسلہ سے شوق ورغبت رکھتے ہیں، صہیونی سماج کو پہچاننا چاہتے ہیں، افراطی یہودیوں کے سلسلہ سے معلومات حاصل کرنے میں دلچسبی رکھتے ہیں اور مجموعی طور پر ان سبھی حضرات کے لیے اس کتاب کو تجویز کیا جا سکتا ہے جو موجودہ اسرائیل کے بننے اور اس ملک کی تعمیر کے پس منظرمیں موجود فکر اور فلسطین پر حملوں اور فلسطینی عوام کے قتل عام کے پیچھے کی فکر کو سمجھنا چاہتے ہیں ۔
حواشی
[۱] Gideon Aran
[۲] اورشلیم: موسسه مطالعاتی اسرائیلی اورشلیم،۱۹۸۵
[۳] www.gideonaran.com/category/publications
[۴] Gush Emunim מִפְלָגָה דָּתִית לְאֻומִּית، ایک سخت گیر نظریات کی حامل قوم پرست یہودی ارتھوڈکس پارٹی ، مزید تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو ۔Ehud Sprinzak, ‘From Messianic Pioneering to Vigilante Terrorism: The Case of the Gush Emunim Underground,’ in David C. Rapoport(ed.),Inside Terrorist Organizations,Routledge 2013 pp. 194-215, p. 194
[۵] http://teeh.ir/fa/news-details/2655/
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

صہیونیت کے خلاف جد و جہد کرنے والے علماء/ شیخ ماہر الحمود

  • ۳۸۶

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: ماہر الحمود کا تعلق لبنان کے علمائے اہل سنت سے ہے، آپ ’بین الاقوامی یونین برائے علمائے مزاحمت‘ کے سربراہ ہیں۔ ماہر الحمود اگر چہ سنی مذہب سے تعلق رکھتے ہیں لیکن علاقائی اور عالمی مسائل کے نسبت ان کی نگاہ حزب اللہ اور اسلامی جمہوریہ ایران کی نگاہ سے بہت قریب ہے۔ مثال کے طور پر ماہر الحمود نے لبنان میں ’امام خمینی (رہ) اور مسئلہ فلسطین‘ کے موضوع پر منعقدہ ایک کانفرنس میں امام خمینی (رہ) کے مختلف سیاسی اور سماجی پہلوؤں پر روشنی ڈالی اور کہا: امام کا موقف ان کے ایمان سے وجود میں آیا نہ زودگزر سیاست سے، امام اپنے موقف میں مکمل صداقت پر قائم تھے۔ یہی چیز لوگوں میں ان کی مقبولیت اور حتیٰ آپ کی حیات کی بعد بھی آپ کے راستے میں پائیداری اور ثابت قدمی کا باعث بنی۔ ۱ شیخ حمود کی یہ باتیں فلسطین کے مسئلے میں امام خمینی (رہ) اور ایران کے موقف کے ساتھ ہم آہنگی کی واضح نشانی ہیں۔
شیخ حمود مختلف مناستبوں اور کانفرنسوں جیسے فلسطینی علمائے مزاحمت اجلاس، حج کے موسم، یا بالفور اعلانیہ کی برسی وغیرہ کے موقعوں پر مسئلہ فلسطین کے حوالے سے کھل کر گفتگو کرتے یا بیانہ جاری کرتے ہیں اور عالم اسلام کو اسرائیل کے جرائم سے خبردار کرتے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں، مسئلہ فلسطین اور صہیونی ریاست ان کی ترجیحات میں شامل ہے۔
آپ عالمی یوم القدس کے بارے میں کہتے ہیں: ’’ عالمی یوم القدس کا نعرہ جو اسلامی جمہوریہ ایران کے بانی امام خمینی (رہ) نے بلند کیا تھا دیگر تمام سیاسی نعروں سے مختلف ہے اس شعار اور نعرے نے بین الاقوامی سازشوں اور عرب دباؤ کے مقابلے میں تا حال پائیدادی کا مظاہرہ کیا ہے‘‘ ۲
شیخ اس موقع پر نکالی جانے والی ریلیوں میں لوگوں کے کم شرکت کرنے پر ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں: یوم قدس کو موجودہ حالت سے بہتر، وسیع تر اور عالمگیر ہونا چاہیے۔ لیکن بہر حال عالمی بحران کے سایہ میں اسی حد تک بھی اچھا ہے۔ پروپیگنڈہ بہت بڑا ہے اور افسوس کے ساتھ امت مسلمہ کا بدن کمزور ہو چکا ہے۔ امت اسلامیہ سازشوں کو باآسانی قبول کرتی ہے اور آسانی سے انہیں عملی جامہ پہناتی ہے۔‘‘۳
ماہر الحمود کی نگاہ میں کفر کے محاذ کی کامیابی بعض مسلمانوں کی خیانت کی وجہ سے ہوتی رہی ہے۔ وہ اس بارے اور امریکی سفارتخانے کی قدس منتقلی کے بارے میں قائل ہیں: ’’بعض عربوں نے امریکہ کا ساتھ دیا کہ وہ قدس شریف کو صہیونی ریاست کا دارالحکومت اعلان کرے، اس لیے کہ اسرائیلی گزشتہ ستر سال کے دوران کبھی کسی منصوبے میں کامیاب نہیں ہوئے مگر یہ کہ کسی عربی یا اسلامی ملک نے ان کا ساتھ دیا‘‘۔
اس ظلم مخالف اور حق جو عالم دین کی نظر میں مسئلہ فلسطین کا واحد راہ حل اتحاد مسلمین ہے۔ ان کے بقول: ’’مسئلہ فلسطین اس سے کہیں بڑا ہے کہ اس کا بوجھ ایک قوم، ایک گروہ یا کوئی ایک محاذ تحمل کر سکے مسئلہ فلسطین امت اسلامیہ کا مسئلہ ہے دنیا کے حریت پسندوں کا مسئلہ ہے لہذا ان سب کو متحد ہونا پڑے گا تاکہ اپنے مشترکہ مقصد کو حاصل کر سکیں۔‘‘ ۴
حواشی
۱۔ https://icro.ir/index.aspx?pageid=39368&newsview=652659
۲- https://parstoday.com/fa/middle_east-i137334
۳- https://tn.ai/1116860
۴- https://fa.shafaqna.com/news/402134/

 

 

عرب حکمرانوں کا جنسی شکار کرنے والی موساد کی جاسوسہ

  • ۵۰۱

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: گولڈا میئیر کے بعد یہودی ریاست کی سابق وزیر خارجہ زیپی لیونی (Tzipi Livni) بھی ایک “ابابیل” تھی۔
“زیپی لیونی” ۵ جون ۱۹۵۸ کو مقبوضہ فلسطین کی ایک مہاجر پولینڈی (Polish) گھرانے میں پیدا ہوئی۔ ۲۲ سال کی عمر میں موساد میں بھرتی ہوئی۔ اس نے کچھ عرصہ بعد اعلان کیا کہ اپنے شوہر کی خاطر موساد سے علیحدہ ہوئی ہے۔ اس کا تعلق دائیں بازو کے انتہا پسند یہودی طرز فکر سے ہے۔
لیونی ۱۹۸۰ کے عشرے میں یورپ میں موساد کی جاسوسہ تھی اور اس کا کوڈ نیم “اسپارو – (Sparrow چڑیا)” تھا۔ اس نے بھی جنسی تعلقات برقرار کرکے موساد کی ضرورت کی معلومات حاصل کرتی تھی۔ اس کا نشانہ یورپی سیاستدان تھے۔
اس کو موساد بیوٹی (Mossad beauty) کا عنوان بھی دیا گیا ہے۔ زیپی نے ایک انٹرویو میں کہا:
“میں جوان بھی تھی اور خوبصورت بھی تھی اور بہت سے سفارتکار بھی اور فرانسیسی بھی میرے قریب آنا چاہتے تھے یہاں تک کہ میں موساد بیوٹی کے نام سے مشہور ہوگئی تھی”۔
لیونی نے حالیہ برسوں میں باضابطہ طور پر اعتراف کیا ہے کہ اس نے کئی عرب حکام نیز اعلی مذاکرات کار صائب عریقات اور تحریک آزادی فلسطین (PLO) کے اعلی انتظامی اہلکار یاسر عبدربہ سمیت متعدد فلسطینی راہنماؤں کے ساتھ جنسی تعلق برقرار کیا تھا۔
لیونی ۲۰۰۵ میں ایریل شیرون کے دور میں لیکوڈ کے بنیامین نیتن یاہو کے استعفے کے بعد یہودی ریاست کی دوسری خاتون وزیر خارجہ بنی۔
لیونی نے ٹائمز کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ موساد میں اس نے کئی خاص کاروائیوں میں شرکت کی ہے جن میں کئی اہم شخصیات کو گرانا تھا چنانچہ انہیں اس کے ساتھ ناجائز جنسی تعلقات کی بنا پر اپنے مناصب چھوڑنا پڑے اور یوں انہیں موساد کے مفاد میں کام کرنے پر مجبور کیاگیا۔
لیونی نے امریکی مجلے ٹائمز کو بتایا کہ جب وہ موساد میں تھی تو اس نے قطر کے سابق شیخ حمد بن خلیفہ آل ثانی نیز سابق وزیر اعظم حمد بن جاسم کے ساتھ جنسی رابطہ قائم کیا تھا۔ اس نے یہودی ریاست کی وزیر خارجہ کے طور پر ان دو قطری حکام کے ساتھ جنسی رابطے کو اپنی وزارت کی بڑی کامیابی قرار دیا ہے۔
لیونی کا کہنا تھا کہ جنسی تعلق قائم کرنا، موساد میں اس کی پیشہ ورانہ زندگی کا حصہ رہا تھا اور وہ عرب حکام سے اہم سیاسی معلومات حاصل کرنے کے لئے ان سے جنسی رابطہ قائم کرلیا کرتی تھی۔
لیونی کی اگلی رسوائی کا رخ دو فلسطینی راہنماؤں یعنی اعلی فلسطینی مذاکرات کار صائب عریقات اور تحریک آزادی فلسطین (PLO) کے اعلی انتظامی اہلکار یاسر عبدربہ کی جانب مڑ گیا اور انہیں بدنامی کا سامنا کرنا پڑا۔ لیونی نے کہا کہ ان دو راہنماؤں کے ساتھ اس کے جنسی تعلق کی ویڈیو بھی موجود ہے۔
لیونی نے بدنام ترین یہودی رابی، رابی ایری شوات (Rabbi Ari Shvat) کے فتوے کے بعد ان رابطوں کا اعتراف کیا۔ جس نے کہا تھا کہ “یہودی ریاست کے مفاد میں دشمن کے ساتھ ہم خوابگی حلال ہے!”؛ یہ فتوی اس وقت جاری ہوا جب یہودی ریاست کی فوج نے عورتوں کو باضابطہ ہتھیاراور تشہیری اوزار کے طور پر فوج میں بھرتی کرنے کے منصوبے کا اعلان کیا۔
لیونی اہم ترین یہودی سیاستدان ہے جس نے خفیہ معلومات کے حصول کے لئے جنسی تعلقات قائم کرنے کا اعتراف کیا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

صہیونیت کے خلاف جد و جہد کرنے والے علماء/ آیت اللہ علوی گرگانی

  • ۳۸۱

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: آیت اللہ العظمیٰ علوی گرگانی عالم تشیع کے بزرگ عالم دین اور ان مراجع تقلید میں سے ایک ہیں جنہیں آیت اللہ بروجردی (رہ)، امام خمینی(رہ) اور آیت اللہ خوئی (رہ) کی شاگردی کا شرف حاصل ہے، اپنے اساتید اور دیگر بزرگ علماء کی طرح آپ بھی ہمیشہ عالم اسلام کے مسائل پر خاص توجہ دیتے ہیں۔
مسئلہ فلسطین عالم اسلام کے ان اہم مسائل میں سے ایک ہے جس نے آج تک تمام امت مسلمہ خصوصا ان افراد کا دل دکھایا ہے جو ملت فلسطین کے تئیں تھوڑا بہت بھی احساس رکھتے ہیں۔ شیعہ علماء کرام تو ان افراد میں سے ہیں جو ہمیشہ عالم اسلام کی مشکلات کو محسوس کرتے اور ان کی چارہ جوئی کے لیے جد و جہد کرتے رہتے ہیں۔ آیت اللہ گرگانی نے بھی مسئلہ فلسطین کے حوالے سے ہمیشہ جد وجہد کی اور مختلف اوقات میں مختلف مناسبتوں سے اس موضوع پر بیانات جاری کئے:  
مثال کے طور پر آپ نے یوم القدس کے موقع پر اپنے ایک بیان میں کہا: ماہ مبارک کا آخری جمعہ ہر سال امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کی اس الہی آواز کو زندہ کرتا ہے جس پر لبیک کہتے ہوئے مظلومین عالم خصوصا ملت فلسطین کی حمایت میں قدم اٹھایا جا سکتا ہے  وہ سرزمین فلسطین جو صہیونیوں کے ہاتھوں غصب ہوئی، وہ سرزمین جو مسلمانوں کی ایک مقدس ترین جگہ رہی ہے۔ ۱
اس مرجع تقلید نے صہیونیت مخالف بین الاقوامی یوتھ یونین کے ساتھ ہوئی ایک ملاقات میں مسئلہ فلسطین کے حل اور اسرائیلیوں سے نجات کا راستہ اتحاد بین المسلمین قرار دیتے ہوئے فرمایا:
’’اگر تمام امت مسلمہ یک مشت ہو جائے تو اسرائیل نہ صرف فلسطینیوں کے خلاف کچھ کر نہیں پائے گا بلکہ اس کی نابودی بھی قریب ہو جائے گی۔ لیکن اگر مسلمان آپس میں پاش پاش رہیں گے اور ایک دوسرے کا ہاتھ نہیں بٹائیں گے تو دشمن طاقتور ہو جائے گا۔ اسلامی قوموں کا اتحاد دشمن کی کمزوری اور اس کے ظلم کے خاتمے کا باعث بنے گا‘‘۔ ۲
یہ جان لینا دلچسپ ہو گا کہ آیت اللہ علوی گرگانی عالم اسلام کے ساتھ اسرائیل اور صہیونیزم کی دشمنی کو مسئلہ فلسطین میں منحصر نہیں سمجھتے ہیں۔ بلکہ ان کی نظر میں اسرائیلی کمپنیاں مسلمان ملکوں میں غیر سالم غذاؤوں کے ذریعے مسلمانوں کو مٹانے کرنے کی کوشش میں لگی ہوئی ہیں۔ آپ ایران میں استعمال ہونے والی غیر سالم غذاؤوں کے بارے میں کہتے ہیں:
’’پچاس سال سے ایران میں یہ سلسلہ چل رہا ہے انقلاب سے پہلے ایران میں غیر سالم خوراک کے لیے دشمنوں نے منصوبے بنائے تھے اور انہیں اجرا کیا تھا۔ اس دور میں بھی شہنشاہی حکومت علماء کو کہتی تھی تم لوگ کیوں اس بارے میں بولتے ہو اور کیوں اتنا سخت لیتے ہو؟ یہ کام ان کے تجارتی مفادات کا حصہ تھا جس کے پیچھے اسرائیل تھا اسرائیلی سرمایہ کاروں نے ایران میں اس چیز کا بیج بویا تھا۔ اب بھی ان مسائل کے پیچھے اسرائیل کا ہاتھ ہے اور یہ مشکلات وہیں سے جنم لیتی ہیں۔ ۳
حواشی
1 – https://www.mehrnews.com/news/4314866
2- http://qodsna.com/fa/321720
3- https://www.mashreghnews.ir/news/635248

 

 

موساد کی جاسوس ایجنسیوں میں عورت کا استعمال/ موساد کی ابابیلیں

  • ۵۰۶

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: عام طور پر جب لفظ “جاسوس” سامنے آتا ہے تو ذہنوں میں ایک خوفناک یا نقاب پوش مرد ابھر آتا ہے حالانکہ تاریخ میں کم نہ تھیں ایسی عورتیں جنہوں نے خفیہ معلومات منتقل کرکے جنگوں کا رخ موڑ لیا ہے اور ممالک کے مقدرات کو تبدیل کرکے رکھ دیا ہے۔ عورتوں کا جاسوسی کے لئے استعمال دو اہم دلیلوں پر استوار ہے:
۱۔ عورتیں بہت زیادہ حساسیت کا باعث نہیں بنتیں اور لوگ انہیں دیکھ کر بدظن نہیں ہوا کرتے۔ بطور مثال دوسری عالمی جنگ کے دوران نازیوں کے ہاتھوں فرانسیسی مردوں کی تلاشی کا امکان عورتوں کی نسبت بہت زیادہ ہوتا تھا۔ اسی بنا پر اس دور میں خاتون جاسوساؤں کی تعداد میں بہت نمایاں اضافہ ہوا۔
۲۔ خواتین اپنی ظاہری جاذبیت اور دلفریبی کی بنا پر مردوں کو بہ آسانی دھوکہ دے سکتی ہے اور انہیں خفیہ معلومات فاش کرنے پر آمادہ کرسکتی ہیں۔
جاسوس عورتیں دو قسم کی ہیں: معمولی جاسوسائیں اور وہ جاسوسائیں جنہیں چڑیوں کا لقب دیا جاتا ہے۔
جاسوس عورتیں ـ جنہیں “ابابیلوںswallows” کے نام سے استعمال کیا جاتا ہے ـ ضعیف نفس اور شہوت پرست جنسی حربے بروئے کار لاکر اپنے متعلقہ جاسوسی اداروں کے منصوبے پر عمل کرتی تھیں۔
گولڈا مائیر
گولڈا مائیر (‎(Golda Meir جو ماضی میں یہودی ریاست کی وزیر خارجہ اور وزیر اعظم رہی ہے، کو اسرائیلی ابابیلوں کی بڑی اماں کہا جاتا ہے۔
مائیر ان ہی ابابلیوں میں سے ایک تھی جو روسی سیاح کے طور پر اردن میں داخل ہوئی اور اردن کے فوجی حکام اور اعلی افسروں کی رہائشگاہوں کے قریب قیام پذیر ہوئی؛ کچھ عرصہ بعد اور بہت زیادہ آمد و رفت کے بعد، ان افسروں کے ساتھ دوستی کے رشتے میں منسلک ہوئی اور ان کی خصوصی محافل میں داخل ہوئی۔
گولڈا مائیر نے جسم فروشی کے حربے کے ذریعے یہودی ریاست پر اردن کے حملے کے منصوبے سمیت بہت اہم راز حاصل کئے۔ وہ اسی حربے کے ذریعے اردن کی کچھ فوجی تنصیبات تک میں بھی داخل ہوئی اور وہاں کی نہایت اہم معلومات حاصل کرلیں۔
زیپی لیونی
گولڈا مائیر کے بعد یہودی ریاست کی سابق وزیر خارجہ زیپی لیونی (Tzipi Livni) بھی ایک “ابابیل” تھی۔ لیونی ۱۹۸۰ کے عشرے میں یورپ میں موساد کی جاسوسہ تھی اور اس کا کوڈ نیم “اسپارو – (Sparrow چڑیا)” تھا۔ اس نے بھی جنسی تعلقات برقرار کرکے موساد کی ضرورت کی معلومات حاصل کرتی تھی۔ اس کا نشانہ یورپی سیاستدان تھے۔ اس کو موساد بیوٹی (Mossad beauty) کا عنوان بھی دیا گیا ہے۔
موساد نے مردخائے وانونو کی گرفتاری کے لئے بھی اسی روش سے فائدہ اٹھایا:
موساد نے اپنی جاسوسی کاروائیوں کی ایک مشہورترین کاروائی ـ جس میں اس نے عورتوں کا آلاتی استعمال (Instrumental use)  کیا ـ مشہور ایٹمی سائنسدان مردخائے وانونو (Mordechai Vanunu جو John Crossman کے نام سے بھی مشہور ہے) کی گرفتاری کے لئے ہونے والی کاروائی تھی۔ اس شخص نے یہودی ریاست کی عسکری ایٹمی سرگرمیوں سے متعلق سرگرمیوں کو برطانیہ جاکر فاش کرتے ہوئے شائع کردیا تھا۔ وانونو موساد کے نشانے پر تھا۔ وہ اسے یورپ سے اغوا کرکے مقبوضہ فلسطین منتقل کرنا چاہتی تھی۔ موساد کے گماشتوں نے اس کو بھی ان ہی ابابیلوں کے ذریعے پھنسا کر گرفتار کیا۔
چیریل بنتوف (Cheryl Bentov) جو چیریل ہنین (Cheryl Hanin) کے نام سے مشہور تھی نے کینڈییا سینڈی (Cindy) کوڈ نیم کے تحت وانونو کے قریب پہنچی اور اس کے اس جال میں پھنسایا جو موساد نے اس کے لئے پھیلایا ہوا تھا، چنانچہ اسے بےہوش اور اغوا کرکے مقبوضہ فلسطین پہنچایا گیا تا کہ یہاں اس کے خلاف کاروائی کی جاسکے۔
اور ہاں یہ حربہ یہودیوں کے درمیان بہت پرانا ہے۔
پہلی عالمی جنگ میں یہودی جاسوسوں کا ایک سیل نیلی (Nili) کے نام سے برطانیہ کی خدمت میں مصروف تھا اور انہیں بظاہر وعدہ دیا گیا تھا کہ ان کی ان خدمات کے بدلے میں جنگ کے بعد انہیں ایک یہودی ریاست بطور تحفہ دے جائے گی۔ سارا ارونسن (Sarah Aaronsohn) ان ہی جاسوسوں میں شامل تھی ـ جو ترک سپاہیوں کے ہاتھوں گرفتار ہوئی اور موت کی سزا پانے سے پہلے اعتراف کیا کہ اس کی آخری آرزو یہودی ریاست کا قیام ہے ـ جس کو یہودی اپنی ہیروئن ابابیل کا نام دیتے ہیں۔
یہودیت کے دین کو اس پر کوئی اعتراض نہیں ہے بلکہ رابی ایری شوات (Rabbi Ari Shvat) نے تو فتوی دے دیا اور دعوی کیا کہ یہ یہودی دین کا حکم ہے کہ اسرائیل کے امن کے لئے بہت اہم اور حیاتی معلومات کے حصول کے لئے عورتوں کو دہشت گردوں اور دشمنوں کے ساتھ “ہم خوابگی” تک کی اجازت ہے اور مغربی اخباروں نے بھی لکھا کہ: “Rabbi Ari Shvat declares sleeping with the enemy kosher” یعنی دشمن کے ساتھ ہم خوابگی حلال ہے!
اس رپورٹ کے مطابق، شوات نے اعلان کیا ہے خاتون ایجنٹوں کے لئے دہشت گردوں (یعنی فلسطین کی آزادی کے لڑنے والے مجاہدین اور دیگر جنگجؤ‎وں نیز مخالفین) کے ساتھ جنسی رابطہ برقرار کرنا جائز ہے تاکہ یہ رابطہ ان کی گرفتار پر منتج ہوجائے۔ اس یہودی رابی کی تحقیقی کاوش بعنوان “غیر قانونی رابطہ قومی سلامتی کے سلسلے میں” بیت المقدس کے قریب یہودی آبادکاروں کی بستی “گوش عتصیون (Gush Etzion)” سے شائع ہوئی ہے۔
ایک یہودی جاسوسہ یائیل (شایدYeil) کا کہنا ہے کہ: “زنانہ ادائیں جاسوسی کے مشن میں بہترین کردار ادا کرتی ہیں”۔
اس کا کہنا ہے: “عورت بعض اوقات جاسوسی مشنز میں مردوں سے بہتر کارکردگی دکھاتی ہے؛ جو مرد ممنوعہ علاقوں میں داخل ہونا چاہے تو اسے کامیابی کے لئے بہت کم مواقع میسر آتے ہیں؛ جبکہ ایک جاذب نظر ہنستی مسکراتی عورت کے لئے کامیابی کے مواقع بہت زیادہ ہیں”۔
موساد کی اعلی خاتون آپریشنل کمانڈر “اِفرات Efrat” کہتی ہے: “ہم اپنی نسوانیت سے فائدہ اٹھاتے ہیں کیونکہ کامیابی کے لئے ہر کام جائز ہے”۔
واضح رہے کہ یہودی ادارے موساد کے دنیا بھر کے جاسوسی ادارے بھی اس روش کو بروئے کار لاتے ہیں۔

 

ہندوستان کے اسرائیل کے ساتھ تزویری تعلقات کا جائزہ اور ایران پر اسکے اثرات (۱)

  • ۳۶۱

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ:
مقدمہ
حالیہ برسوں اسرائیل اور ہندوستان کے درمیان دوستانہ تعلقات ہیں، ہندوستان کی بھرپور کوشش ہے کہ وہ اسرائیل کے اعلی درجے کے دفاعی سسٹم اور فوجی ٹیکنالوجی سے فائدہ اٹھائے۔ ہندوستان ان ممالک سے رشتہ مضبوط کرنا چاہتا ہے جو جدید ٹیکنالوجی کے اعتبار سے آگے ہیں اور چونکہ اسرائیل بھی ایک ترقی یافتہ ریاست کہلاتی ہے اس لیے اس کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھانا ہندوستان کی خارجہ پالیسی کا حصہ ہے۔ اور پھر ہندوستان اس بات سے بھی بخوبی واقف ہے کہ اسرائیل امریکہ کے نزدیک خاصی اہمیت رکھتا ہے۔ اور اسرائیل کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھانا درحقیقت امریکہ سے قربت حاصل کرنے کے مترادف ہے۔ دوسری جانب سے اسرائیل بھی ایشیائی ممالک مخصوصا ہندوستان کے ساتھ اپنے تعلقات کی توسیع کو اپنے خارجہ پالیسی کی ترجیحات میں سے قرار دیتا ہے۔ اس لیے کہ وہ ہندوستان کو پاکستان کے مقابلے میں زیادہ وزن دار ملک سمجھتا ہے اس لیے کہ پاکستان تنہا اسلامی ملک ہے جو ایٹمی طاقت کا مالک ہے اور اس پر دباؤ رکھنے کے لیے اسرائیل کا ہندوستان کے ساتھ تعلقات قائم کرنا گویا اس کی مجبوری بھی ہے اور پھر پاکستان اور مسلمانوں کو دھشتگرد قرار دے کر اسرائیل آسانی سے ہندوستان کو اپنی طرف کھینچ سکتا ہے۔ اسرائیل کے سابق وزیر اعظم بن گوریان کی ہندوستان کے بارے میں گفتگو آپ کو یاد ہو گی جس میں انہوں نے کہا تھا: ’’میرے خیال میں ہندوستان وہ بہترین جگہ ہے جہاں سے ہم مسلمانوں کے خلاف کارروائیوں کی بخوبی رہنمائی کر سکتے ہیں‘‘۔ بعض اسرائیلی محققین جیسے ’آبراہام سیگال‘ اور ’ہیری ایسریگ‘ اس بارے میں کہتے ہیں: ہندوستان اسرائیل کے نزدیک ایک عظیم اخروٹ کی حیثیت رکھتا ہے کہ اسرائیل نے اسے اپنے ہاتھ میں لے لیا ہے اب اسے صرف توڑنا باقی ہے‘‘۔ (ابوالحسنی، ۱۳۷۷؛ ۴۴۰)
بھارت اور اسرائیل تعلقات پر تاریخی نظر
اگر چہ ہندوستان نے اسرائیل کو مستقل ریاست کے عنوان سے ۱۹۵۰ میں تسلیم کر لیا لیکن اس نے اسرائیل کے ساتھ سیاسی روابط قائم نہیں کئے۔ ہندوستان میں سرگرم سامراجیت مخالف تنظیمیں اس بات کے آڑے تھیں کہ بھارت اسرائیل کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھائے۔ ایک طرف سے ہندوستان کے مسلمان فلسطینی عوام کی حمایت کے خواہاں تھے اور دوسری طرف سے عرب ممالک بھی ناوابستہ تحریک کے ذریعے ہندوستان پر دباؤ ڈال رہے تھے کہ وہ اسرائیل کے قریب نہ جائے۔ لیکن ۱۹۶۲ میں بھارت چین جنگ کے بعد ہندوستان کو اپنی دفاعی قوت مضبوط کرنے کے لیے اسرائیل کی فوجی طاقت سے فائدہ اٹھانے کی ضرورت محسوس ہوئی، لیکن اس کے باوجود دونوں ملکوں کے درمیان ۱۹۹۲ تک سیاسی روابط محدود اور خفیہ رہے۔ آخر کار ۱۹۹۲ میں سرد جنگ کے خاتمے کے ساتھ ہندوستان نے اپنی نئی اسٹریٹجک پالیسیوں کے تحت ان تعلقات کو ایک نئی جہت دی اور صہیونی ریاست کے ساتھ سیاسی روابطہ کو وسیع اور علنی کر دیا۔ (ملکی، ۱۳۸۹؛ ۴۷)
۱۹۹۲ میں بھارت اور اسرائیل کے درمیان سفارتی تعلقات میں گرم جوشی پیدا ہوتے ہی غیر معمولی حجم کے دوطرفہ تجارتی اور سکیورٹی معاہدے شروع ہو گئے اور حالیہ دنوں میں یہ روابط سکیورٹی تعاون، سیٹلائٹ سسٹم، پیشرفتہ میزائل، ایٹمی سرگرمیوں اور دیگر فوجی ساز و سامان کی فراہمی کے معاہدوں کی صورت میں مضبوط سے مضبوط تر ہوتے چلے جا رہے ہیں۔ اگر چہ ہندوستان اور اسرائیل کے سامنے پائے جانے والے خطرات ایک جیسے نہیں ہیں اور ان کا کوئی مشترکہ دشمن نہیں ہے اس کے باوجود دونوں ملک اپنے دفاعی سسٹم کو اپڈیٹ کرنے کی کوشش میں جٹے ہوئے ہیں۔ ہندوستان کے نزدیک اسرائیل جدید دفاعی سسٹم کو اپڈیت کرنے کے لیے ایک قابل بھروسہ ملک ہے اور اسرائیل کے لیے بھی ایشیا میں تزویری اعتبار سے بھارت ایک مستحکم اتحادی شمار ہوتا ہے۔
ہندوستان میں ہندو نسل پرستی کے زور پکڑ جانے اور بھارتیا جنتا پارٹی کے برسر اقتدار آنے سے بھارت و اسرائیل کے درمیان روابط ایک نئے مرحلے میں داخل ہو گئے۔ مثال کے طور پر ۱۹۹۱، ۹۲ میں فوجی اور دفاعی تعاون کے حوالے سے تقریبا دو ملکوں کے درمیان لگ بھگ پچاس ملاقاتیں اور معاہدے ہوئے۔ یہاں تک کہ ہندوستان کی معیشتی مشکلات اور اسرائیلی ساخت کے ہتھیاروں کی نامرغوب کیفیت کے باوجود دونوں ملکوں میں بعض فوجی ساز و سامان جیسے ہلکے طیارے، ارجن ٹینک (مرکاوا) پریٹوی میزائل(جریکو ۱)، (جریکو ۲) نیز مشترکہ فوجی تحقیقات اور ٹیکنالوجی کا رد و بدل کیا گیا۔ (کلانتری، ۱۳۸۸؛ ۹)
چنانچہ اگر ہندوستان اور اسرائیل کے گہرے تعلقات اور اس کے ایران و ہند تاریخی روابط پر پڑنے والے اثرات کو مزید گہرائی کی نگاہ سے دیکھا جائے تو درج ذیل تین بنیادی سوالوں کے جوابات دینا ضروری ہوں گے:
۱؛ کیا حقیقت میں اسرائیل اور ہندوستان کے تعلقات تزویری ہیں؟
۲؛ اس حساسیت کی طرف توجہ کرتے ہوئے جو ایران اور عرب ممالک تل ابیب و نئی دہلی کے روابط کی نسبت رکھتے ہیں ہندوستان کے اسرائیل کے ساتھ تزویری روابط بڑھانے کی وجوہات کیا ہیں؟
۳؛ کیا ہندوستان کا اسرائیل سے اسٹریٹجک روابط بڑھانے کا مقصد امریکہ سے نزدیک ہونا ہے؟
مذکورہ سوالات پر غور کرنے سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ ہندوستان علاقے میں خصوصا چین کے مقابلے میں بڑی طاقت بننے کی کوشش کر رہا ہے۔ لہذا اسرائیل اس کے لیے فوجی ساز و سامان فراہم کرنے کے اعتبار سے بہترین آپشن ہے۔
جاری

 

صہیونی تنظیم پروشیم(parushim) کا تعارف

  • ۳۹۴

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: صہیونی یہودیوں کا اپنے مفاد تک پہنچنے کے لیے ایک طریقہ کار یہ ہے کہ وہ دنیا بھر میں طرح طرح کی انجمنیں اور تنظیمیں تشکیل دیتے ہیں۔ تنظیمیں بنانے کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ وہ خفیہ اور غیر محسوس طریقے سے اپنے مفاد تک پہنچ سکیں اور دنیا میں ان کی نسبت کوئی بدگمانی اور غلط سوچ پیدا نہ ہو۔
یہ تنظیم ۱۹۱۳ میں ہارس۔ ام۔ کالن [۱] کے ذریعے وجود میں آئی۔ ’’پروشیم‘‘ مذہبی بنیاد پرستوں کی تحریک کا ایک حصہ تھا جو فکری طور پر ’’حسیدی فرقے‘‘(ایک یہودی فرقہ جو انتہائی طور مذہبی بنیاد پرست اور قدامت پرست تھا) سے وابستہ تھے۔ اس تنظیم کا بنیادی مقصد امریکہ سمیت دیگر ممالک میں صہیونیت کی ترویج کرنا تھا۔ اسی وجہ سے کالن نے ان افراد کو اس تنظیم کا رکن بنایا جنہوں نے صہیونی مقاصد کی حمایت کا بھرپور اعلان کیا اور ان کو پورا کرنے کے لیے مکمل طور پر کوشاں رہنے کا عزم ظاہر کیا۔
پروشیم عملی میدان میں گوریلا فورس کی طرح خفیہ تنظیم تھی جو خفیہ اور پوشیدہ طریقے سے سیاستمداروں پر اپنا سیاسی اثر و رسوخ پیدا کرنے کی غرض سے وجود میں لائی گئی تھی۔ لہذا کبھی بھی یہ تعجب نہیں کرنا چاہیے کہ کیسے امریکہ کے سابق صدر ویلسن کے قریبی دوست ’’لوئیس برانڈیس‘‘ [۲] (یہودی زادہ) سپریم کورٹ کی سربراہی سنبھالنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں یا کیسے ’’کالن‘‘ پہلی عالمی جنگ کے سلسلے میں اسرائیل حکومت کی تشکیل کی تجویز برطانیہ کے وزیر خارجہ کو دیتے ہیں کہ جس کے نتیجہ میں ’’بالفور اعلان‘‘ کیا جاتا ہے۔
بطور مثال جب برطانوی حکومت پہلی جنگ عظیم میں گرفتار تھی تو جنگ میں برطانیہ کی کمزوری اور شکست باعث بنی کہ ایک دن میں تقریبا ۶۰ ہزار لوگ مارے گئے۔ صہیونیوں نے اس کمزوری سے فائڈہ اٹھایا اور برطانیہ کی حمایت میں یہودی ریاست وجود میں لانے کے لیے امریکہ پر دباؤ ڈالا۔
دلچسپ یہ ہے کہ یہودی حکومت کی تشکیل کا نظریہ، پروشیم کے بانی کالن نے پیش کیا۔ انہوں نے دسمبر ۱۹۱۵ میں اپنے ایک بانفوذ دوست کے ذریعے اپنی تجویز کو برطانیہ کے وزیر خارجہ تک پہنچایا۔ کالن کی تجویز قبول کئے جانے کے بعد پروشیم تنظیم کے سربراہ’’لوئیس برانڈس‘‘ نے برطانیہ کے یہودیوں اور امریکہ کے صدر کے درمیان تعلقات کا پلیٹ فارم ہموار کرکے امریکی حکومت کو عملی طور پر برطانیہ کی حمایت میں جنگ میں شامل کر دیا۔[۳]
حواشی
[۱] Horacc. M .kallen
[۲] Louis Brandis
[۳] کتاب:  Against our better judgment: the hadden history of how the U.S was used to create Israel.
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔