-
Tuesday, 5 May 2020، 12:42 AM
-
۷۲۶
خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: شہید مرتضیٰ مطہری کی شہادت کے ایام ہیں اس مناسبت سے مسئلہ فلسطین سے متعلق شہید کے کچھ بیانات کو پیش کرنے کی سعادت حاصل کرتے ہیں:
’’اگر پیغمبر اکرم (ص) زندہ ہوتے تو آج کیا کرتے؟ کس مسئلہ کو اہمیت نہ دیتے؟ واللہ اور باللہ، میں قسم کھاتا ہوں کہ پیغمبر اکرم(ص) اپنی قبر مقدس میں بھی آج یہودیوں سے پریشان ہیں۔ یہ دو دو چار والا مسئلہ ہے۔ اگر کوئی نہیں کہتا تو وہ گناہ کا مرتکب ہوا ہے۔ میں اگر نہ کہوں تو خدا کی قسم گناہ کا مرتکب ہوا ہوں۔ جو بھی خطیب اور واعظ اگر اس مسئلے کے حوالے سے بات نہ کرے وہ گناہ کا مرتکب ہوا ہے۔ اسلامی نکتہ نظر سے ماوراء، فلسطین کی تاریخ کیا ہے؟ فلسطین کا مسئلہ کسی اسلامی مملکت کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ ایک قوم و ملت کا مسئلہ ہے وہ قوم و ملت جسے ان کے گھروں سے زبردستی باہر نکالا گیا اور انہیں بے گھر کیا گیا۔
خدا کی قسم ہم اس قضیہ کے مقابلے میں مسئول ہیں۔ خدا کی قسم ہمارے دوش پر ذمہ داری ہے۔ خدا کی قسم ہم غافل ہیں۔ واللہ یہ وہ مسئلہ ہے جس نے آج پیغمبر اکرم(ص) کے دل کو زخمی کیا ہے۔ وہ داستان جس نے حسین بن علی کے دل کو لہو کیا ہے فلسطین کا مسئلہ ہے۔ اگر ہم اپنی اہمیت کو سمجھنا چاہتے ہیں اگر ہم امام حسین علیہ السلام کی عزاداری کو اہمیت دینا چاہتے ہیں تو سوچیں کہ اگر حسین بن علی آج زندہ ہوتے اور خود کہتے میرے لیے عزاداری کریں تو کون سا نوحہ پڑھنے کے لیے کہتے؟ کیا یہ کہتے کہ کہو ’’ہائے میرا جوان اکبر‘‘ کیا یہ کہتے کہ کہو ’’میری مظلوم زینب الوداع الوداع‘‘؟
اگر امام حسین آج زندہ ہوتے وہ یہ کہتے کہ میرے لیے عزاداری کرو میرے لیے ماتم کرو لیکن تمہارا نوحہ فلسطین ہونا چاہیے تمہارا نعرہ فلسطین ہونا چاہیے، آج کا شمر موشہ دایان ہے، ۱۴ سو سال پہلے والا شمر واصل جہنم ہو گیا آج کے شمر کو پہچانو، آج اس شہر کے در و دیوار فلسطین کے نعروں سے بھرے ہونا چاہیے، ہمارے ذہنوں میں اتنا جھوٹ بھر دیا گیا ہے کہ یہ مسئلہ داخلی مسئلہ ہے عربوں اور اسرائیلیوں کا مسئلہ ہے۔
ہم اسلام اور پیغمبر خدا کے سامنے کیا جواب دیں گے؟ ہم نے مسلمان ہونے کے حوالے سے کیا کیا؟ خدا کی قسم ہمیں اپنے مسلمان ہونے پر شرم آتی ہے، ہمیں اپنے علی بن ابی طالب کا شیعہ کہتے ہوئے شرم آتی ہے۔ مجھے یہ کہنے کا حق ہے کہ آج کے بعد یہ داستان جو ہم علی ابن ابیطالب سے ممبروں پر نقل کرتے ہیں اس کے بعد اس کو نقل کرنا ہمارے لیے حرام ہے، کہ ایک دن علی بن ابی طالب نے سنا کہ دشمن نے اسلامی ممالک پر حملہ کیا ہے فرمایا کہ میں نے سنا ہے کہ دشمنوں نے مسلمانوں کی سرزمین پر حملہ کر کے ان کے مال کو لوٹ لیا ہے ان کے مردوں کو قتل کر دیا ہے اور ان کی عورتوں کو اسیر بنا لیا ہے، ان کے زیورات چھین لیے ہیں، اس کے بعد فرمایا: «فَلَوْ أَنَّ امْرَأً مُسْلِماً مَاتَ مِنْ بَعْدِ هَذَا أَسَفاً مَا کَانَ بِهِ مَلُوماً بَلْ کَانَ بِهِ عِنْدِی جَدِیراً» اگر ایک مسلمان یہ خبر سن کر دق کرے اور مر جائے تو موت اس کے لیے سزاوار ہے۔
کیا ہمیں فلسطینیوں کی مدد نہیں کرنا چاہیے؟ کیا انہیں اپنے جائز انسانی حقوق لینے کا حق نہیں ہے؟ کیا بے گھر فلسطینیوں کو اپنے گھر واپس نہیں جانا چاہیے؟
ہمارے مراجع تقلید جیسے آیت اللہ حکیم نے صریحا فتویٰ دیا ہے کہ جو شخص فلسطین میں مارا جائے وہ شہید ہے گرچہ نمازی نہ ہو، وہ شہید راہ حق ہے۔ لہذا آئیں اپنے گریباں میں جھانک کر دیکھیں کہ ہم ان کے لیے کیا کر رہے ہیں، آج جو بڑی بڑی حکومتیں ہمارے مقابلے میں کھڑی ہیں اور ہماری تقدیر کا فیصلہ کرتی ہیں وہ جانتی ہیں کہ مسلمانوں کے اندر غیرت نہیں ہے۔ امریکہ کو اسی بات نے جری بنایا ہے کہ مسلمان جماعت بے غیرت ہے ۔
کہتے ہیں کہ یہودی پیسے کے لیے مرتے ہیں، وہ پیسے کے علاوہ کچھ نہیں پہچانتے، ان کا خدا بھی پیسہ ہے ان کی زندگی بھی پیسہ ہے ان کی موت و حیات بھی پیسہ ہے یہ ٹھیک ہے اپنی جگہ درست ہے لیکن یہی یہودی اپنے یہودی بھائی پر کروڑوں ڈالر بھی خرچ کرتا ہے لیکن ہم مسلمان اپنے مسلمان بھائی پر کتنا خرچ کرنے کو تیار ہوتے ہیں؟
منبع:
حماسه حسینی، مرتضی مطهری، ج 1، ص 270-280