مسئلہ فلسطین نے پیغمبر اکرم کا دل لہو کیا ہے: شہید مطہری

  • ۶۷۸

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: شہید مرتضیٰ مطہری کی شہادت کے ایام ہیں اس مناسبت سے مسئلہ فلسطین سے متعلق شہید کے کچھ بیانات کو پیش کرنے کی سعادت حاصل کرتے ہیں:
’’اگر پیغمبر اکرم (ص) زندہ ہوتے تو آج کیا کرتے؟ کس مسئلہ کو اہمیت نہ دیتے؟ واللہ اور باللہ، میں قسم کھاتا ہوں کہ پیغمبر اکرم(ص) اپنی قبر مقدس میں بھی آج یہودیوں سے پریشان ہیں۔ یہ دو دو چار والا مسئلہ ہے۔ اگر کوئی نہیں کہتا تو وہ گناہ کا مرتکب ہوا ہے۔ میں اگر نہ کہوں تو خدا کی قسم گناہ کا مرتکب ہوا ہوں۔ جو بھی خطیب اور واعظ اگر اس مسئلے کے حوالے سے بات نہ کرے وہ گناہ کا مرتکب ہوا ہے۔ اسلامی نکتہ نظر سے ماوراء،  فلسطین کی تاریخ کیا ہے؟ فلسطین کا مسئلہ کسی اسلامی مملکت کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ ایک قوم و ملت کا مسئلہ ہے وہ قوم و ملت جسے ان کے گھروں سے زبردستی باہر نکالا گیا اور انہیں بے گھر کیا گیا۔
خدا کی قسم ہم اس قضیہ کے مقابلے میں مسئول ہیں۔ خدا کی قسم ہمارے دوش پر ذمہ داری ہے۔ خدا کی قسم ہم غافل ہیں۔ واللہ یہ وہ مسئلہ ہے جس نے آج پیغمبر اکرم(ص) کے دل کو زخمی کیا ہے۔ وہ داستان جس نے حسین بن علی کے دل کو لہو کیا ہے فلسطین کا مسئلہ ہے۔ اگر ہم اپنی اہمیت کو سمجھنا چاہتے ہیں اگر ہم امام حسین علیہ السلام کی عزاداری کو اہمیت دینا چاہتے ہیں تو سوچیں کہ اگر حسین بن علی آج زندہ ہوتے اور خود کہتے میرے لیے عزاداری کریں تو کون سا نوحہ پڑھنے کے لیے کہتے؟ کیا یہ کہتے کہ کہو ’’ہائے میرا جوان اکبر‘‘ کیا یہ کہتے کہ کہو ’’میری مظلوم زینب الوداع الوداع‘‘؟
اگر امام حسین آج زندہ ہوتے وہ یہ کہتے کہ میرے لیے عزاداری کرو میرے لیے ماتم کرو لیکن تمہارا نوحہ فلسطین ہونا چاہیے تمہارا نعرہ فلسطین ہونا چاہیے، آج کا شمر موشہ دایان ہے، ۱۴ سو سال پہلے والا شمر واصل جہنم ہو گیا آج کے شمر کو پہچانو، آج اس شہر کے در و دیوار فلسطین کے نعروں سے بھرے ہونا چاہیے، ہمارے ذہنوں میں اتنا جھوٹ بھر دیا گیا ہے کہ یہ مسئلہ داخلی مسئلہ ہے عربوں اور اسرائیلیوں کا مسئلہ ہے۔
ہم اسلام اور پیغمبر خدا کے سامنے کیا جواب دیں گے؟ ہم نے مسلمان ہونے کے حوالے سے کیا کیا؟ خدا کی قسم ہمیں اپنے مسلمان ہونے پر شرم آتی ہے، ہمیں اپنے علی بن ابی طالب کا شیعہ کہتے ہوئے شرم آتی ہے۔ مجھے یہ کہنے کا حق ہے کہ آج کے بعد یہ داستان جو ہم علی ابن ابیطالب سے ممبروں پر نقل کرتے ہیں اس کے بعد اس کو نقل کرنا ہمارے لیے حرام ہے، کہ ایک دن علی بن ابی طالب نے سنا کہ دشمن نے اسلامی ممالک پر حملہ کیا ہے فرمایا کہ میں نے سنا ہے کہ دشمنوں نے مسلمانوں کی سرزمین پر حملہ کر کے ان کے مال کو لوٹ لیا ہے ان کے مردوں کو قتل کر دیا ہے اور ان کی عورتوں کو اسیر بنا لیا ہے،  ان کے زیورات چھین لیے ہیں، اس کے بعد فرمایا: «فَلَوْ أَنَّ امْرَأً مُسْلِماً مَاتَ مِنْ بَعْدِ هَذَا أَسَفاً مَا کَانَ بِهِ مَلُوماً بَلْ کَانَ بِهِ عِنْدِی جَدِیراً» اگر ایک مسلمان یہ خبر سن کر دق کرے اور مر جائے تو موت اس کے لیے سزاوار ہے۔
کیا ہمیں فلسطینیوں کی مدد نہیں کرنا چاہیے؟ کیا انہیں اپنے جائز انسانی حقوق لینے کا حق نہیں ہے؟ کیا بے گھر فلسطینیوں کو اپنے گھر واپس نہیں جانا چاہیے؟
ہمارے مراجع تقلید جیسے آیت اللہ حکیم نے صریحا فتویٰ دیا ہے کہ جو شخص فلسطین میں مارا جائے وہ شہید ہے گرچہ نمازی نہ ہو، وہ شہید راہ حق ہے۔ لہذا آئیں اپنے گریباں میں جھانک کر دیکھیں کہ ہم ان کے لیے کیا کر رہے ہیں، آج جو بڑی بڑی حکومتیں ہمارے مقابلے میں کھڑی ہیں اور ہماری تقدیر کا فیصلہ کرتی ہیں وہ جانتی ہیں کہ مسلمانوں کے اندر غیرت نہیں ہے۔ امریکہ کو اسی بات نے جری بنایا ہے کہ مسلمان جماعت بے غیرت ہے ۔
کہتے ہیں کہ یہودی پیسے کے لیے مرتے ہیں، وہ پیسے کے علاوہ کچھ نہیں پہچانتے، ان کا خدا بھی پیسہ ہے ان کی زندگی بھی پیسہ ہے ان کی موت و حیات بھی پیسہ ہے یہ ٹھیک ہے اپنی جگہ درست ہے لیکن یہی یہودی اپنے یہودی بھائی پر کروڑوں ڈالر بھی خرچ کرتا ہے لیکن ہم مسلمان اپنے مسلمان بھائی پر کتنا خرچ کرنے کو تیار ہوتے ہیں؟
منبع:
حماسه حسینی، مرتضی مطهری، ج 1، ص 270-280

 

فلسطین کے غاصب پیشواؤں کا تعارف

  • ۳۷۹

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: فلسطین پر استعمار کی نظر اچانک نہیں پڑی بلکہ قلب مملکت اسلامی ہونے کی وجہ سے سینکڑوں سال قبل سے استعمار اپنی پیہم صلیبی جنگوں کا بدلہ لینے کیلئے طرح طرح کی سازش اور ترکیبیں بنا رہا تھا ، کبھی منہ کی کھائی تو کبھی دو چار حربے کامیاب ہوئے ، بیسویں صدی کے آغاز سے چند یہودی ’’ وطن یہود ‘‘کی اپنی دیرینہ آرزو کو عملی جامہ پہنانے کیلئے سامنے آئے ، حالات نے بھی ساتھ دیا برطانیہ نے دست دوستی بڑھایا،’’ اسلام دشمنی‘‘ کی مشترک فکر کے ساتھ یہودی و عیسائی ہر طرح کے مکر و فریب سے آراستہ ہو کر اٹھ کھڑے ہوئے ۔ فلسطین کو غصب کرنے اور تحریک اسرائیل کو آگے بڑھانے میں درج ذیل افراد کو شمار کیا جا سکتا ہے:
ہربرٹ ( Herbert)
یہ شخص پکا یہودی تھا ، برطانیہ نے مقبوضہ فلسطین پراپنی سپاہ کا افسر اعلیٰ ’’Commissioner‘‘بنا کر بھیجا تھا ۔
یہی وہ شخص ہے جس نے برطانیہ پردباؤ ڈالا تھا کہ اس کی (برطانیہ) نگرانی میں فلسطین کے اندر یہودی حکومت قائم کی جائے اور دنیا کے مختلف ملکوں میں پراگندہ تیس چالیس لاکھ یہودیوں کو فلسطین میں بود وباش دی جائے ۔
اسی نے کہا تھا کہ یہودی مملکت کے وجود میں آجانے کے بعدمصر و نہر سوئز کے قریب برطانیہ کے مفاد کی حفاظت ہو سکے گی ۔
اسی نے اُس خفیہ مسودے کو آشکار کیا تھا جسے وزیر خارجۂ برطانیہ بالفور (Balfour)نے تہیہ کیا تھا جس میں فلسطین میں یہودیوں کے بسائے جانے کا منصوبہ طے پایا تھا۔
جنرل ایلن بی
آزادی خواہ عربوں کی حمایت میں امریکہ ، انگلینڈ ، اٹلی اور فرانس نے اپنی اپنی جو فوج بھیجی تھی جنرل ایلن بی اس کا سربراہ تھا اس نے جنرل ایلن بی (Allenby نے اپنی حکمت عملی سے عثمانی اقتدار والے شہروں پر قبضہ کیا ۔
۱۷؍دسمبر ۱۹۱۷ ؁ء کو یہ شخص فاتحانہ طور پر بیت المقدس میں داخل ہوا اور فخریہ کہا ’’میں آخری صلیبی ہوں ‘‘ اس جملہ کا مفہوم یہ تھا کہ بیت المقدس پر قبضہ کیلئے یورپی مسیحیوں نے ۱۰۹۶ ؁ ء میں صلیبی جنگوں کے سلسلے کا آغاز کیا تھا اس کا اختتام اب ہواہے ۔(۱) اس جنرل نے عثمانی اقتدار والے شہروں پر قبضہ کے بعدبرطانیہ ایک خط بھیجا جس میں انقلابی عربوں کی خدمات کو سراہا ہے ، خط کا مضمون اس طرح تھا :
۲۸؍جنوری ۱۹۱۸ ؁ ء :آپ کو مطلع کیا جاتا ہے کہ عثمانی حکومت سے جو جنگ لڑی جا رہی تھی وہ ہم نے جیت لی اس کامیابی کا سہرا عربوں پر ہے انہوں نے جی جان سے ہماری مدد کی ۔
جنرل ایلن بی کے اس اعتراف حمایت کے بعد بھی استعمار نے آزادی خواہ عربوں کو آزادی کے بجائے اس وقت سے یہودیوں کی اسارت واذیت کی آماجگاہ بنا دیا ۔
فلسطین پر فتح کے بعد جنرل ایلن بی نے اعلان کیا کہ فلسطین فوج کے کنٹرول میں ہے اس کا نظم و نسق آزادی خواہ عربوں کے بجائے فوج انگلستان انجام دیا کرے گی ۔
ممکن تھا کہ اس اعلان سے عربوں میں بے چینی و بے اطمینانی پیدا ہوں لہٰذا فوراً انگلینڈ و فرانس نے عوام کے ذہنوں کے شک و شبہ کو بر طرف کرنے کیلئے سربراہ فوج کی طرف سے یہ بیانیہ منتشرکیا ۔
انگلستان و فرانس کی مشرق وسطیٰ میں دخل اندازی صرف اس لئے تھی کہ عرب کی مجبور وبیکس قوم کو ترکوں کی غلامی سے رہا کرائیں تاکہ یہ آزادانہ اپنی حکومت تشکیل دے سکیں ۔ انگلستان و فرانس جیسی عادل حکومت ان کی مدد سے قطعاً دریغ نہیں کرے گی ۔ آنے والے دنوں میں بھی انگلستان و فرانس کی عادل حکومت اسی طرح کی آزادی دلاتی رہے گی ۔ اس اعلان نے عربوں کے ذہنوں سے بچے کھچے شبہ کو بھی نکال دیا ۔
ڈاکٹر وائز مین
مانچسٹر یونیورسٹی میں کیمسٹ Chemist کا پروفیسر تھا عقیدے کے اعتبار سے کٹر یہودی تھا، اپنی علمی صلاحیت کی وجہ سے انگلینڈ میں قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا ۔
یہودی حکومت کے قیام کے لئے امریکہ فرانس اور انگلینڈ کے سربراہوں سے بار بار ملاقاتیں کیں ، اور یہودی مملکت کے لئے راستے ہموار کئے ۔
پہلی جنگ عظیم میں اس شخص نے انگریزوں سے کہا تھا کہ اگر وہ جرمنی پر فتح حاصل کرنے کے بعد سر زمین فلسطین پر یہودیوں کا قومی وطن قائم کردیں تو اس جنگ میں یہودیوں کے سارے خزانے ان کے قدموں تلے قربان کر دئے جائیں گے ۔آخر کار ۱۹۱۷ ؁ ء میں انگریزوں سے وعدہ لینے میں کامیاب ہوگیا ، لہٰذا انگریزوں نے وعدہ کرلیا کہ اگر وہ جرمنی پر فتح حاصل کرلیتے ہیں تو وہ فلسطین کو ایک آزاد یہودی وطن بنا دیں گے ،لہٰذا جب کامیابی مل گئی تو انگریزوں نے اپنے وعدے کو پورا کرنے کے لئے وہ جال بچھایا جس میں آج تک فلسطین الجھا ہوا ہے اسرائیل کی غصبی حکومت کا یہ شخص پہلا صدر تھا ۔
عربوں نے جس وقت انگلستان کی در پردہ یہود نوازی کو بھانپا تو ان میں یہودیوں کے خلاف بغاوت و غم و غصہ کی لہر دوڑ گئی ، ہر عربی ملک نے فلسطین بچاؤ تحریک میں حصہ لیا اور یہودیوں کا بائکاٹ کیا ، اس بائکاٹ نے ساٹھ فیصد یہودیوں کو بے روزگار بنا دیا ، اس موقع پر ڈاکٹر وائز مین نے یہودیوں کی پیغام دیا کہ تم لوگ اس وقت تاریخ کے نہایت سخت ترین دور سے گذر رہے ہو ، صبر وضبط کا مظاہرہ کرو ۔اس اعلان کے فوراً بعد شر پسند یہودیوں نے برطانیہ سے اپنی جان و مال کی حفاظت کیلئے اسلحوں کا مطالبہ کیا ، بوڑھی برطانیہ نے پانچ ہزار قبضے توپ وتفنگ اور بم فلسطین کے غاصب یہودیوں کو روانہ کیا جسے پانے کے بعد انہوں نے گھنی آبادیوں ، سبزی منڈیوں میں عربوں پر حملے کئے ، انڈوں کی ٹرے اور سبزیوں کی ٹوکروں میں بم رکھے جس کے پھٹنےکے بعد پہلی بار چوہتر (۷۴) فلسطینی جاں بحق اور ایک سو تیس (۱۳۰)زخمی ہوئے ،اس دن سے آج تک بے گناہ عورتوں بچوں بیماروں ، مزدوروں اور طالب علموں کویہود خاک و خون میں آلودہ کر رہے ہیں ۔
بالفور (Balfour)
یہودی ملک کے قیام کیلئے سب سے پہلے اس شخص نے یوگنڈاکا انتخاب کیا تھا ، لیکن یہودیوں نے اس تجویز کو رد کردیا ۔
بالفور پکا یہودی تھا اور یہودی مملکت کو فلسطین میں فوری قائم کرنےکیلئے تحریری مسودہ بھی تیار کیا تھا جس کی عبارت کا مفہوم تھا :جیسا کہ دنیا کی چار بڑی حکومتیں اپنے کو یہودیوں کا طرفدار بتاتی ہیں ، ان پر واضح ہونا چاہئے کہ ہمیں فلسطینیوں کی قطعاً کوئی پرواہ نہیں ہے ہم خواہ حق پر ہوں یا باطل پر، ہمارے مفاد مقدم رکھنا پڑیں گے ان بڑی حکومتوں کو ہماری آرزؤں ، تمناؤں کا خیال رکھنا چاہئے، ہم سات لاکھ فلسطین کےباشندوں پر ہر حال میں مقدم ہیں۔
ڈاکٹر ہرٹزل (Dr Theodore Hertzel)
ایک عام سا مقالہ نویس تھا رفتہ رفتہ اسی مقالہ نویسی سے لوگوں میں پہچانا جانے لگا ، کچھ دنوں بعد پیرس کے اخبار کا خبر نگار بنایا گیا لیکن اس کو شہرت تمام اس وقت حاصل ہوئی جب فرانس کے اسلحہ خانے کے دریفوس نامی یہودی افسر پر الزام تھا کہ اس نے فرانس کے خفیہ اسرار جاپان کو منتقل کر دئے ہیں ، اس خبر کے عام ہوتے ہی فرانسیسیوں میں یہودیوں کے خلاف غم و غصہ بھڑک اٹھا اور انہیں غدار و خائن کے لفظ سے پکارا جانے لگا ، جہاں کہیں یہودی ہوتے ان کو فرانسیسی حقارت ، نفرت ، اور ذلت کی نظر سے دیکھتے ۔
ملکی پیمانے پر اس حقارت کے باوجود یہودی خاموش نہیں بیٹھے بلکہ دس سال تک اس کوشش میں رہے کہ کسی صورت سے مقدمے کی دوبارہ اپیل کا موقع مل جائے ، آخر کار اس سلسلے میں یہودیوں کو کامیابی ملی اور اسناد جاسوسی کو پھر سے کھنگالا گیا اور آخر کار مجرم کو بے خطا ثابت کرا دیا ۔
اس پورے واقعہ کا پیرو یہی اخباری نمائندہ ڈاکٹر ہرٹزل تھا اس نے اپنے ایک یہودی بھائی کو نہیں بچایا تھا بلکہ یہودی برادری کو جس حقارت و نفرت سےفرانس میں دیکھا جا رہا تھا اس سے آزاد کرایا تھا ۔اس مقدمہ کی کامیابی نے ہرٹزل کو یہودیوں کا قائد و رہبر بنا دیا ۔
اسی ہرٹزل نے ترکی کے خلیفہ سلطان عبد الحمید سے کہا تھا کہ اگر وہ سر زمین فلسطین پر یہودی مملکت کے قیام کی اجازت دے دیں تو یہودی ترکی کے تمام قرضوں کو ادا کرنے کیلئے تیار ہیں ، لیکن سلطان نے یہ کہتے ہوئے اس کے مطالبہ کو ٹھکرا دیا کہ جس سر زمین کو ہمارے آباء و اجداد نے خون دیکر حاصل کیا ہے اس کو چنددرہموں کے بدلہ نہیں بیچا جا سکتا ہے۔ہرٹزل نے اپنی کتاب ’’مملکت یہود‘‘ میں یہودیوں کو پیغام دیا :
یہودیو! تم لوگ دنیا میں پراگندہ ہو اسی لئے ان ممالک کی اذیت و ذلت برداشت کررہے ہو اگر تم میں سے کوئی اپنے ملک کی اذیتوں کو برداشت نہیں کر سکتا ہے تو اسے کسی ایسی جگہ ہجرت کرکے پہنچناچاہئے جہاں وہ مستقل اپنا ایک ملک بنا سکے ۔اس شخص نے یہودیوں کے درمیان باہمی رابطہ مضبوط کر نے کےلئے ایک تنظیم بنائی ،تاکہ یہودیوں کی اقتصادی ،سیاسی ،سماجی اطلاع رکھی جا سکے ۔
ہرٹزل نے اپنی دوڑ دھوپ سے یہودی مملکت کے قیام کی راہیں ہموار اور مشکلیں برطرف کرنے کیلئے سالانہ کانفرنس کا انتظام بھی کیا تھا جس میں دنیا بھر کے اعلیٰ یہودی شریک ہوتے اور تسخیر کائنات کے منصوبے بناتے ۔
کانفرنس کی جو بنیاد ہرٹزل نے رکھی تھی آج تک یہودیوں میں جاری ہے۔
مآخذ: فلسطین خونبار تعارف اور جائزہ

 

بہائیت کو پروان چڑھانے میں یہودیوں کا ہاتھ

  • ۴۳۰

یہودیوں کے ذریعے بہائیوں کی ترقی
خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: استعماری اور سامراجی طاقتیں اٹھارہویں اور انیسویں صدی کی تبدیلیوں کے بعد براہ راست دنیا پر اثرانداز ہونے میں ناکام ہو رہی تھیں۔ اس وجہ سے بوڑھے سامراج یعنی برطانیہ کو مسلمانوں میں اپنا اثر و رسوخ بڑھانے اور ان کے قومی اور مذہبی سرمائے کو لوٹنے کے لیے سوائے مسلمانوں کے درمیان پھوٹ اور اختلاف ڈالنے کے کوئی اور چارہ نہ سوجا۔ لہذا، شیعوں کے درمیان بہائیت اور اہل سنت کے درمیان وہابیت کو جنم دیا گیا۔
اس درمیان یہودی جو ہمیشہ سامراجیت کے شانہ بشانہ حرکت کرتے رہے ہیں ایک مرتبہ پھر بوڑھے سامراج کی مدد کو پہنچے اور انہوں نے مسلمانوں میں ان فرقوں کو ترقی دینے کے لیے اپنی تمام تر قوت کا استعمال کیا۔ فرقہ بابیت جو بہائیت کا پیش خیمہ تھا جدید المسلمان یہودیوں کے ذریعے ایران کے شہر رشت سے شروع ہوا اور اس کے بانی ’مرزا ابراہیم جدید‘ تھے۔
خراسان میں سب سے پہلے جو لوگ فرقہ بابیت کے ساتھ ملحق ہوئے وہ یہودی تھے جو تازہ مسلمان ہوئے تھے ان میں ملا عبد الخالق یزدی معروف ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ شخص یہودی علماء میں سے ایک تھا شیخ احمد احسائی کے دور میں مسلمان ہو کر شیخ کے مریدوں میں شامل ہوا تھا۔ شیعوں میں اس نے اپنا اتنا اثر و رسوخ پیدا کر لیا کہ مشہد میں حرم امام رضا علیہ السلام کے ایک صحن میں نماز جماعت کا پیش امام بن گیا اور وہاں اپنی تقریروں کا سلسلہ شروع کر دیا۔ بعض مورخین کے مطابق وہ مشہد کے ممتاز علماء میں شمار ہونے لگا۔
اس سے بھی حیرت انگیز بات یہ ہے کہ ۱۸۳۱ء میں مشہد کے یہودیوں کی تعداد تقریبا ۲ ہزار تھی جبکہ کچھ ہی عرصہ بعد یعنی ۱۸۳۹ میں یہ تعداد بڑھ کر پانچ ہزار ہو گئی اسی دوران یہودی کمپنی ’ساسونی‘ کے قیام کے بعد ’علی محمد باب‘ کی دعوت پر مشہد کے تمام یہودی ایک ساتھ مسلمان ہو گئے۔
قابل غور بات یہ ہے کہ اس جماعت کے مسلمان ہونے کی خبر یہودی دائرۃ المعارف میں ’’خفیہ یہودیوں‘‘ کے باب میں بیان کی گئی ہے نہ کہ مرتد یہودیوں کے حصے میں۔ تازہ مسلمان ہوئے یہودیوں کی یہ جماعت بعد میں دو گروہوں میں تقسیم ہو جاتی ہے ایک گروہ بہائیوں کا اور دوسرا صوفیوں کا۔ اور دونوں نے حتی الامکان کوشش کی کہ اسلام کی جڑوں کو اپنے اپنے حساب سے کاٹیں۔ یہودی محقق ’والٹر فیشل‘ کے بقول یہ جدید المسلمان یہودی در پردہ دین یہود پر باقی تھے۔
اسماعیل رائین نے اپنی کتاب ’بہائیت میں تقسیم‘ میں اس بارے میں لکھا ہے: ’ایران کے اکثر بہائی یا یہودی تھے یا زرتشتی، اس فرقہ میں مسلمانوں کی تعداد اقلیت میں تھی‘۔ البتہ رائین سے پہلے بہائیت کے سابق مبلغ ’’آیتی‘‘ نے اس حقیقت کا پردہ چاک کیا تھا۔ انہوں نے اپنی کتاب کشف الحیل میں یہوں لکھا: ’’یہ مسلمانوں کے لیے ایک خوش خبری ہے کہ بہائی جماعت اہل علم و قلم سے خالی ہو چکی ہے اور اس کی لگام ’حکیم رحیم‘ اور ’اسحاق یہودی‘ جیسوں کے ہاتھوں میں چلی گئی ہے۔‘’
لیکن اس جماعت کے بہائی ہونے کی وجوہات کے بارے میں مختلف اقوال پائے جاتے ہیں اسماعیل رائین نے اپنی کتاب میں لکھا ہے: ’ہم جانتے ہیں کہ پیسے سے محبت اور سرمایے میں اضافہ کا شوق یہودیوں کی ذات میں رچا بسا ہوا ہے۔ مسلمان ممالک کے یہودی کہ جن میں کی اکثریت مسلمانوں کی دشمن ہے اور جا بجا مسلمانوں کی نسبت اپنی دشمنی کا اظہار بھی کرتے رہتے ہیں، بہت جلد بہائی فرقے میں شامل ہو گئے اور اس طریقے سے انہوں نے مالی مراعات سے فائدہ اٹھایا اور خود کو عکا کے بہائی مرکز سے جوڑ لیا‘۔
بطور خلاصہ مالدار اور معروف یہودی صرف مشہد، گیلان اور مازندران میں ہی موجود نہیں تھے بلکہ ایران کے دیگر شہر جیسے کاشان، ہمدان اور یزد وغیرہ میں بھی کافی تعداد میں تھے جو اس فرقہ ضالہ کے ساتھ ملحق ہو گئے تھے۔
لہذا فرقہ بہائیت مسلمانوں میں پیدا نہیں ہوا اور نہ اس کا اسلام سے کوئی تعلق ہے بلکہ اس کے بانی اور اس کو پروان چڑھانے والے یہودی اور سامراجی طاقتیں ہیں۔

ماخذ:

عبدالله شهبازی، ۱۳۹۶/۰۲/۱۸، سایت ادیان، ماله «یهودیان و گسترش بابی‌گری و بهایی‌گری»

 

اسرائیلی ریاست کی اندرونی دراڑیں

  • ۴۲۳

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ کے شعبے “فلسطین اور مزاحمت” کی رپورٹ کے مطابق، اسرائیل میں موجودہ دراڑوں کے جائزے اور اس مسئلے میں غور و فکر کے بموجب اسرائیل اور فلسطین کے شعبے کے محققین اس مسئلے کی طرف متوجہ ہوئے ہیں اور جامع تحقیقات کے ذریعے ان دراڑوں کو آشکار کر رہے ہیں اور نظریات کو منصوبہ سازی کے ہمراہ میدان میں عمل میں لا رہے ہیں۔ ڈاکٹر علی رضا سلطان شاہی طویل عرصے سے صہیونیت اور اسرائیل کے سلسلے میں مطالعے اور تحقیق میں مصروف ہیں۔
ذیل کا متن ڈاکٹر سلطان شاہی کے ساتھ خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ کے نمائندے کا مکالمہ ہے جو قارئین و صارفین کی خدمت میں پیش کیا جارہا ہے:
خیبر: اسرائیل نامی ریاست کی دراڑیں آج کے ایام میں ماضی سے کہیں زیادہ قابل مشاہدہ ہیں؛ اس ریاست میں موجود اہم ترین دراڑوں کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟
سلطان شاہی: میں نے صہیونی ریاست کے وحود کے اندر کی دراڑوں میں زیادہ تر کام اس کی آبادی سے متعلق کیا ہے اور میرا خیال ہے کہ آبادی کا مسئلہ اس ریاست کا سب سے اہم مسئلہ ہے۔ دنیا کے ۱۰۲ ممالک سے اٹھاون لاکھ یہودی مقبوضہ فلسطین میں آن بسے ہیں؛ جب ہم کہتے ہیں کہ ۱۰۲ ممالک سے، یعنی ۱۰۲ مختلف ثقافتی، کرداری، سیاسی، سماجی، مذہبی، قومی اور زبانی خصوصیات، جنہیں ایک ریاست کی عملداری میں اکٹھا کیا گیا ہے۔
یہاں ہجرت کرنے والے اکثر یہودی عبرانی زبان نہیں بول سکتے ہیں بلکہ صرف کچھ لوگ عبرانی میں بات چیت کرسکتے ہیں۔ بطور مثال مقبوضہ فلسطین میں یہودی ریاست کے تحت ایرانی یہودیوں کی تعداد تقریبا دو لاکھ ہے لیکن اس قدر دوسرے یہودیوں سے بیگانہ ہیں کہ ایرانی یہودیوں کی اپنی کتابیں اور اپنے رسالے اور اخبارات ہیں اور اتنا طویل عرصہ گذرنے کے باوجود جبرا بنائی گئی تہذیب میں گھل مل نہیں سکے ہیں۔
البتہ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اس ریاست میں معمول کے معنوں میں کوئی خاص تہذیب موجود نہیں ہے بلکہ سب یورپی روش اپنائے ہوئے ہیں کیونکہ زیادہ تر یہودی یورپ سے یہاں آ گئے ہیں۔ مشہد کے یہودی صہیونی ریاست میں حتی دوسرے ایرانی یہودیوں سے بھی بیگانے ہیں، چہ جائےکہ وہ اسرائیلی بن جائیں۔ اس وقت نیویارک میں مقیم مشہد کے یہودیوں کی اپنی الگ تنظیم ہے۔
یہ دراڑیں جس قدر کہ زبانی، قومی، ثقافتی اور اعتقادی لحاظ سے زیادہ ہوں، صہیونی معاشرے کی سطح پر اتنی ہی دراڑیں معرض وجود میں آئیں گی۔ اسی بنا پر صہیونی اپنے منصوبوں میں مسائل کا شکار ہوگئے ہیں۔ کیونکہ المختصر: “یہاں آبادی کا مسئلہ ہے”؛ جب سے یہودی ریاست بنی ہے، اب تک اسقاط حمل کے ۲۰ لاکھ واقعات سامنے آئے ہیں۔
یہودی ریاست کی آبادی میں اضافے کی شرح بمشکل ۱٪ ہے؛ الٹی ہجرت [اور یہودیوں کی اپنے آبائی ممالک میں واپسی] میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے اور فلسطین کی طرف یہودیوں کی ہجرت مسلسل کم ہورہی ہے۔ یہودی نوجوانوں میں امریکی اور یورپی طرز زندگی اپنانے کے رجحان میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے یعنی یہ کہ یہودی ریاست میں رہنے کے لئے ان کے ہاں کوئی محرک نہیں ہے۔
یہاں کے مردوں اور عورتوں کو فوج میں جبری خدمت کرنا پڑتی ہے، اس کے باوجود ان کے مردوں اور عورتوں میں جنگ کی طرف رغبت بالکل نہیں پائی جاتی اور آسائش طلبی کا شوق ان کے اوپر مکمل طور پر غالب آچکا ہے۔ یہودی ریاست کی افواج میں نافرمانی کے واقعات بہت زیادہ ہیں۔
ادھر آبادی میں اضافے کا رجحان کم ہونے کے ساتھ ساتھ، فلسطینیوں کی آبادی میں اضافے کی شرح ۴ فیصد تک پہنچ چکی ہے؛ وہ قدس کی آزادی کی آرزو سے لیس ہیں، یہودیوں کے خلاف ہیں اور اس وقت [ملینوں فلسطینیوں کو ملک سے نکال باہر کئے جانے کے باوجود] فلسطینیوں کی آبادی تقریبا یہودی آبادی کے برابر ہے۔
خیبر: کیا مذکورہ فلسطینی آبادی میں آپ نے بیرون ملک مقیم فلسطینی پناہ گزینوں کو شمار نہیں کیا؟
– نہیں! اگر پناہ گزینوں کو بھی فلسطینیوں کی اندرونی آبادی میں شامل کریں تو ان کی آبادی یہودیوں کے دو گنا ہوجائے گی؛ اور یہی یہودی ریاست کے لئے بہت بڑی آفت ہے جس کا وہ اعلانیہ اظہار نہیں کرتے لیکن بہت سے ادارے ہیں جو اس مسئلے کے حل کے درپے ہیں؛ اور وہ خود بھی کہہ رہے ہیں کہ اگر آبادی میں توازن بحال نہ کرسکیں تو انہیں شکست کا سامنا کرنا پڑے گا۔
خیبر: آبادی کی بنیاد پر اہم دراڑ کے علاوہ کیا فلسطین پر قابض یہودی ریاست میں مزید دراڑیں بھی ہیں؟
– کسی وقت جب یہاں اشکنازی یہودی تھے تو ان میں سے ہر کسی کا اپنا ایک رتبہ ہوتا تھا اور بہتر اقتصادی اور معاشرتی پوزیشن کے ساتھ حساس اور کلیدی مناصب تک رسائی ممکن تھی لیکن ۱۹۷۰ کے عشرے سے ۱۹۸۰ کے عشرے تک ایتھوپیا کے یہودی بھی ہجرت کرکے مقبوضہ فلسطین آگئے اور یوں یہاں بڑی تعداد میں سیاہ فام باشندے بھی آباد ہوئے جس کے نتیجے میں صہیونی ـ یہودی ریاست کے مسائل میں نسلی دراڑ بھی شامل ہوگئی۔
ابتداء میں تو افریقی کوئی خاص توقع نہیں رکھتے تھے لیکن جب انھوں نے دیکھا کہ فلسطین میں بہت سے طبقے ہیں جو اپنے حقوق کے لئے ہڑتالیں کرتے ہیں، احتجاج کرتے ہیں اور سڑکوں کو بند کرتے ہیں تو وہ بھی اپنے حقوق کے لئے سڑکوں پر آئے اور دوسرے یہودیوں کے برابر کے شہری حقوق کا مطالبہ کیا۔ اب صورت حال یہ ہے کہ اشکنازی، کالے اور سفارادی یہودیوں کے درمیان کشمکش اور تنازعے کی صورت حال حکمفرما ہے۔
علاوہ ازیں میزبان [مقبوضہ] ملک “عرب” اور “دروزی” نامی قوم کا ملک ہے جن کی آبادی میں اضافہ ہو رہا ہے؛ اور پھر یہاں “عرب یہودی” بھی ہیں جو پوچھ رہے ہیں کہ انہیں فوج میں کیوں نہیں جانے دیا جاتا اور انہیں فوج کے فوائد سے مستفید کیوں نہیں ہونے دیا جاتا؟ اب آپ خود اسرائیل نامی جعلی ریاست کے اندر ایک نگاہ ڈالیں اور دیکھ لیں کہ یہودیوں کے درمیان کیا واقعات رونما ہو رہے ہیں اور غیر یہودی، یہودیوں کی نسبت کس طر عمل کررہے ہیں؟
بعض یہودی نوجوان کہتے ہیں کہ اگر یہاں کا حکمران نظام صہیونیت اور قومی یہودی تحریک ہے تو پھر یہودی ریاست کے کنیسے میں ایک عرب اذان کیوں دیتا ہے؟ اس کا کیا جواز ہوسکتا ہے؟ اسی بنا پر دائیں بازو کی یہودی جماعتوں کا خیال ہے کہ اب وہ زمانہ گذر گیا ہے جب ہمارا اپنا آپ دنیا کو دکھانے کا دور گذر چکا ہے، اسی بنا پر انھوں نے کچھ اقدامات کا منصوبہ بنایا ہے کہ کنیسے کو ایسے افراد سے خالی کرایا جائے۔ “اپنا آپ لوگوں کو دکھانے کا زمانہ گذر چکا ہے” سے مراد یہ ہے کہ اب وہ وقت گذر گیا ہے کہ ہم دنیا کو بتاتے رہیں کہ اگر ایک غیر یہودی بھی آیا تو کوئی حرج نہیں ہے اور ہم اسے شہریت دے دیں۔
اس وقت فلسطینیوں کی آبادی میں اضافہ ہورہا ہے، دوسری طرف سے دروزیوں کی آبادی میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ ادھر ۲۰ لاکھ عرب ۱۹۴۸ کی فلسطینی سرزمین میں سکونت پذیر ہیں، تو کیا یہودی انہیں دریابرد کریں گے؟ قتل کریں گے؟ نکال باہر کریں گے؟ اصولی طور پر وہ کچھ بھی نہیں کرسکتے جس کا مطلب یہ ہے کہ یہودی ریاست کو مختلف قسم کی بند گلیوں کا سامنا ہے جنہوں نے اسے شکست و ریخت سے دوچار کردیا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔