یوم قدس اور فلسطینی کاز کا ہمہ گیر دفاع

  • ۳۶۶

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: قدس اس وقت دو بنیادی موضوعات کے مقابلے پر ہے ایک مذہبی موضوع ہے اور دوسرا حقوقی موضوع ہے ۔اس کا حقوقی موضوع یہ ہے کہ یہ ایک غصب شدہ شہر ہے اور اقوام متحدہ کی قرار دادوں میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ قدس اور غصبی زمینوں سے اسرائیلی غاصبوں کو نکلنا چاہیے ۔لیکن مذہبی لحاظ سے قدس مسلمانوں کے لیے ایک علامتی شہر ہے اور اس کے ساتھ ہی عیسائیوں کے لیے بھی اور اس کو مطلق طور پر یہودیوں کا شہر نہیں قرار دیا جا سکتا ۔ وہ بھی ان یہودیوں کا کہ جن کی نظروں میں لالچ ہے ۔
قدس فلسطین کی نشانی اور علامت ہے اور جہان اسلام کے اتحاد کا محور ہے جب کہ یہودیوں نے اس شہر پر قبضہ کیا ہے اور اپنی جعلی حکومت کی بقاء کو اس پر قبضے کے باقی رہنے اور اس کو یہودی طرز پر تعمیر کرنے میں سمجھتے ہیں ۔ صہیونیوں نے بارہا تقریروں میں اعلان کیا ہے کہ اسرائیل قدس کے بغیر اور قدس اسرائیل کے بغیر بے معنی ہے ۔لیکن حقیقت یہ ہے کہ قدس شریف پہلے تو اسلام کے متعلق ہے اور مسلمانوں کے لیے مذہبی اور حیاتی اہمیت کا حامل ہے اس لیے کہ مسلمان دنیا قدس اور اس کے مذہبی مفہوم کے گرد جمع ہوتی ہے ۔اس بنا پر مسلمان بھی قدس کے سلسلے میں اپنے مذہبی اعتقادی اور دینی اصول سے صرف نظر نہیں کر سکتے اور نہ ہی کرنا چاہیے کہ ان کو بندھے ہاتھوں یہودیوں کے حوالے کر دیں تا کہ وہ جو چاہیں کریں چونکہ اگر یہودیوں کے اختیار میں چلا جائے تو وہ خود کو قدس یا فلسطین تک محدود نہیں رکھیں گے اس لیے کہ صہیونیوں کا منصوبہ قدس اور فلسطین تک محدود نہیں ہے بلکہ پورے مشرق وسطی کو شامل ہے ۔
ٹھیک اسی مسئلے اور قدس کی مسلمانوں کے لیے حساس اہمیت کو درک کرتے ہوئے امام (رہ ) اور آپ کی پاس کردہ حکومت نے انقلاب اسلامیء ایران کی ابتدا سے ہی مستضعفین اور خاص کر فلسطین کے عوام اور قدس شریف کے دفاع کو جمہوری اسلامی کے ایک اہم اور ناقابل تردید اصول کے طور پر مقرر فرما دیا تھا ۔اسی سلسلے میں ماہ مبارک رمضان کے آخری جمعے کو عالمی یوم قدس اور فلسطین کے کاز کے دفاع کا دن قرار دیا ۔ امام خمینی کی ماہ مبارک رمضان کے آخری جمعے کو عالمی یوم قدس کا نام دینے کی بے نظیر ایجاد نے دنیا والوں کو غافل کر دیا تھا ۔امام رہ نے اس عملی اقدام کے ذریعے صہیونی حکومت اور اس کے عربی اور مغربی حامیوں کو بتا دیا کہ اس کے بعد نہ قدس اور نہ فلسطین اور نہ ہی دنیا کا کوئی مظلوم تنہا ہے ۔

 

علی(ع) اور قرآن تنہا کیوں؟

  • ۵۰۶

خیبر صہیون تحقیقای ویب گاہ: جس طرح کل علی کے گریہ کی آوازیں بلند تھیں آج بھی نخلستانوں سے بلک بلک کر علی کے رونے کی آواز سنی جا سکتی ہے جہاں علی جیسا یکتائے روزگار اپنے معبود کے سامنے فریاد کر رہا ہے ربنا ما خلقت ھذا باطلا سبحانک فقنا عذاب النار ….
آئیے اس مبارک مہینہ میں جہاں ہر طرف برکات کا نزول ہے کچھ ان اساسی اور بنیادی مسائل پر وقت نکال کر غور کرتے ہیں کہ علی کی تہنائی کا راز آخر کیا تھا ؟ قرآن آج کیوں تنہا ہے؟ علی اور قرآن کا رشتہ کیا ہے؟ علی اور قرآن دونوں ہی آج اپنے ہی ماننے والوں کے درمیان مظلوم کیوں ہیں؟ ہم علی اور قرآن کی تنہائی و مظلومیت کو دور کرنے کے لئے کیا کر سکتے ہیں؟ ہماری اجتماعی زندگی میں قرآنی اصولوں اور سیرت علوی کا کتنا عمل دخل ہے؟ کیا ہم خود کو اور اپنے معاشرہ کو قرآن اور علی کا پابند بنا سکتے ہیں؟ کہیں یہ وہی زمانہ تو نہیں جس کے لئے علی نے کہا تھا ” وانہ سیاتی علیکم بعدی زمان … و لیس عند اھل ذالک الزمان سلعة ابور من کتاب …. فقد نبذ الکتاب حملتہ و تناساہ حفظتہ ….
یاد رکھو! میرے بعد وہ زمانہ آنے والا ہے …جب اس زمانے کے لوگوں کے نزدیک کتاب خدا سے زیادہ بے قیمت کوئی متاع نہ ہوگی …حاملان کتاب، کتاب کو چھوڑ دیں گے اور حافطان قرآن قرآن کو بھلا دیں گے (۱)
قرآن اور علی کو سمجھنے کے لئے اس ماہ مبارک سے بہتر اور کون سا موقع ہو سکتا ہے جس مہینہ میں ایک طرف تو قرآن نازل ہوا تو دوسری طرف محافظ قرآن کے خون سے محراب مسجد رنگین ہو گئی، کیا قرآن صامت کا اس مہینہ میں نزول اور قرآن ناطق کا اسی مہینہ میں عروج ان دونوں کے غیر معمولی رابطہ کی طرف اشارہ نہیں ہے؟
کیا شبہائے قدر میں علی کا زخمی ہونا اور انہیں ایام میں علی کا شہید ہو جانا محض اتفاق ہے؟ امام موسی صدر نے بڑے دلنشین انداز میں اس بات پر یوں روشنی ڈالی ہے ” کیا شہادت امام علی کا شب قدر کے ساتھ تقارن محض اتفاق ہے یا پھر علی ہی اس امت کی قدر ہے؟ کیا علی اس امت کی اندھیری راتوں کے لئے وہ نور نہ تھے کہ جس کی روشنی میں امت کی تقدیر لکھی جائے؟… کیا علی وجہ بقائے امت نہ تھے میں تو یہ سمجھتا ہوں کہ حق تو یہ ہے کہ علی اور اس امت کی تقدیر لکھے جانے کے درمیان ایک گہرا تعلق پایا جاتا ہے دونوں کے درمیان ایک اٹوٹ رابطہ ہے میں اپنے ان بھائیوں سے جو اس شب میں اکھٹا ہوئے ہیں پوچھنا چاہتا ہوں بھائیو! یہ بتاؤ کہ قدر کیا ہے ؟ ….
اگر ہم غور کریں تو اس نتیجہ پر پہچیں گے کہ شب قدر کا روزہ سے گہرا تعلق ہے روزہ کا مطلب ہے تزکیہ نفس روزہ یعنی روز مرہ کی جکڑی ہوئی زندگی سے آزادی ،
… انسان روزے کے ذریعہ خود کو نئے سرے سے سنوارتا ہے اپنے نفس کا تزکیہ کرتا ہے ”قَدْ أَفْلَحَ مَنْ زَکَّاہا وَ قَدْ خابَ مَنْ دَسَّاہا ”۔بے شک وہ کامیاب ہوگیا جس نے نفس کو پاکیزہ بنالیا اور وہ نامراد ہوگیا جس نے اسے آلودہ کردیا ہے(٢)
اس آیت کی روشنی میں واضح ہوتا ہے کہ تزکیہ اور تہذیب نفس انسانی کی کامیابی کا راستہ ہے، ہم اس مبارک مہینہ میں روزہ کے ذریعہ اپنے آپ پر قابو پا سکتے ہیں اپنی تقدیر کو اپنے ہاتھوں رقم کر سکتے ہیں اپنے آپ کو غلامی کی زنجیروں سے آزاد کر سکتے ہیں اور اسی بنیاد پر ہم یہ کہتے ہیں کہ علی اس امت کی تقدیر ہیں ہمارے اس دعوے کی دلیل انہیں مبارک راتوں میں علی کی دردناک شہادت ہے انہیں راتوں میں سجدے کی حالت میں علی کوشہید کر دیا گیا۔ یہ وہ حقیقت ہے جو علی اور شب قدر سے جڑی ہوئی ہے اور ہمیں سکھاتی ہے کہ اس مبارک شب میں ہم علی سے بہت کچھ حاصل کر سکتے ہیں، اور یہ امید کر سکتے ہیں کہ ہم اسرائیل پر فتح حاصل کر سکتے ہیں لیکن اس کے لئے ضروری ہے کہ ہماری باتیں ہماری فکریں ان راتوں میں ایک تحریک کا سبب بن سکیں ، معروف مقولہ ہے کہ ہزار کلومیٹر کی مسافت کو طے کرنے کا آغاز پہلے قدم سے ہوتا ہے، اب ہمیں اس شب میں پہلا قدم اٹھانا ہے ہم نتائج سے ناامید نہیں ہیں اس لئے کہ ہمیں خدا پر بھروسہ ہے کہ خدا بہت کریم ہے اگر ہم اس کی راہ میں ایک قدم بھی اٹھائیں گے تو وہ ہماری دس گنا زیادہ مدد کرے گا (۳) ”مَنْ جاء َ بِالْحَسَنَةِ فَلَہُ عَشْرُ أَمْثالِہا ” جو نیک عمل انجام دے گا اسے نیکی کا صلہ دس برابر دیا جائے گا ” (٤)
اور پھر ” وَ لَیَنْصُرَنَّ اللَّہُ مَنْ یَنْصُرُہُ ِانَّ اللَّہَ لَقَوِیّ عَزیز
الَّذینَ ِانْ مَکَّنَّاھمْ فِی الْأَرْضِ أَقامُوا الصَّلاةَ وَ آتَوُا الزَّکاةَ وَ أَمَرُوا بِالْمَعْرُوفِ وَ نَھوْا عَنِ الْمُنْکَرِ وَ لِلَّہِ عاقِبَةُ الْأُمُورِ
اور اللہ اپنے مددگاروں کی یقینا مدد کرے گا کہ وہ یقینا صاحبِ قوت بھی ہے اور صاحبِ عزت بھی ہے۔
یہ وہ لوگ ہیں جنہیں ہم نے زمین میں اختیار دیا تو انہوں نے نماز قائم کی اور زکوِۃ ادا کی اور نیکیوں کا حکم دیا اور برائیوں سے روکا اور یہ طے ہے کہ جملہ امور کا انجام خدا کے اختیار میں ہے ”(٥)
مذکورہ بالا جملے امام موسی صدر کی شبہائے قدر میں کی گئی چار دہائیوں پرانی تقریر سے ماخوذ تھے جس میں انہوں نے جو کچھ اپنی قوم سے کہا وہ کر دکھایا جو وعدہ کیا وہ پورا بھی کیا اور شب ہائے قدر میں اپنی دعاؤں اور سیرت علی سے درس لیتے ہوئے ان کی امت نے حسن نصر اللہ کی قیادت میں اسرائیل کو جولان کی پہاڑیوں سے کھدیڑ ڈالا اور یہ ثابت کر دیا جس علی نے کل خیبر فتح کر کے یہودیوں کو بتایا تھا جہاں واقعی قرآنی تعلیمات ہوتی ہیں وہاں قلعہ خیبر دو انگلیوں پر نظر آتا ہے اسی طرح آج علی کے ماننے والوں نے علی کی سیرت اور قرآنی تعلیمات پر عمل کرتے ہوئے ایک بار پھر ثابت کر دیا کہ حقیقی وارث قرآن علی ہی ہے سیرت علی ہی حققیت میں ترجمان قرآن ہے نہ علی کو قرآن سے الک کیا جا سکتا ہے نہ قرآن کو علی سے ۔
حوالے و حواشی :
١۔نہج البلاغہ ۔ خطبہ ١٤٧
٢۔شمس ١٠
٣۔ادیان در خدمت انسان ، جستار ہای دربارہ دین و مسائل جہان معاصر ،امام موسی صدر ٣٣٥
٤۔حج ٤١٤٠
٥۔ انعام ١٦٠

 

ائمہ طاہرین اور مسلمانوں کے بائیولوجیکل قتل میں یہودیوں کا کردار/ حسین پور کے ساتھ گفتگو

  • ۴۱۲

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: تاریخی دستاویزات سے معلوم ہوتا ہے کہ ابتدائے اسلام میں بھی بائیولوجیکل ہتھیاروں کا استعمال کیا جاتا تھا البتہ اس میں یہودیوں کا کردار زیادہ واضح نظر آتا ہے اسی موضوع کے حوالے سے خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ نے حجۃ الاسلام ڈاکٹر سید محمد مہدی حسین پور سے گفتگو کی ہے:
خیبر: کیا صدر اسلام میں بائیولوجیکل ہتھیاروں کا استعمال ہوتا تھا؟ اور اس کے استعمال میں یہودیوں کا کیا کردار تھا؟
۔ ابتداء میں ہی یہ بات عرض کر دوں کہ تاریخ میں کچھ ایسے یہودی نظر آتے ہیں جو اپنے حریفوں کے قتل کے لیے کچھ حربے اپناتے تھے۔ یہاں تک کہ قرآن کریم انہیں انبیاء کے قتل کے ماہرین قرار دیتا ہے۔ لیکن قتل کا طریقہ کیا تھا وہ مختلف حالات و شرائط میں مختلف ہوتا تھا۔
کبھی کبھار یہ قاتلانہ حملہ جنگی ہتھیاروں مثلا تلوار وغیرہ کے ذریعے ہوتا تھا۔ کبھی بائیولوجیکل ہتھیاروں کے ذریعے حملہ کیا جاتا تھا۔ یعنی اپنے دشمن کو زہریلے مادے کے ذریعے مٹایا جاتا تھا۔ یہ چیز اس قدر اہم تھی کہ رسول خدا(ص) کے دور میں بعض لوگوں نے واضح طور پر اعلان کیا ہے کہ وہ اس لیے مسلمان نہیں ہو رہے ہیں کہ انہیں یہودیوں کی جانب سے قاتلانہ حملے کا خوف ہے۔
تاریخ میں نقل ہوا ہے کہ یمن کا ایک یہودی مدینے آیا اور اس نے اسلام قبول کیا، جب اپنے وطن واپس لوٹ کر گیا تو قبیلے کے سردار کے حکم سے اس کے ٹکڑے ٹکڑے کر دئے گئے۔ (۱) بہرحال کسی کو صفحہ ہستی سے مٹانا یہودیوں کے نزدیک معمولی کام تھا۔ یہاں تک کہ رسول خدا (ص) سے روایت نقل ہوئی ہے:اگر دو یہودی ایک مسلمان کے ساتھ کہیں تنہائی میں نظر آئیں تو یقینا وہ اس مسلمان کے قتل کا منصوبہ بنائیں گے‘‘۔
امیر المومنین علی علیہ السلام سے مروی ہے کہ آپ نے فرمایا: ’’مسلمان چھے طرح کے لوگوں سے امان میں نہیں ہیں ان میں سے ایک یہودی ہیں‘‘۔
بہرحال تاریخ اسلام میں یہودیوں نے اپنے دشمنوں کو مٹانے کے لیے دونوں حربوں یعنی جنگی ہتھیاروں اور بائیولوجیکل ہتھیاروں کا استعال کیا ہے اور دونوں کے ذریعے کبھی انفرادی قتل بھی کیا ہے اور کبھی اجتماعی قتل عام بھی۔
صدر اسلام میں یہودیوں کی جانب سے اجتماعی قتل عام معمولا زہر کے ذریعے انجام پاتا تھا۔ تاریخ میں اس دعوے پر دستاویزات موجود ہیں۔ بعض افراد نے اس دور میں زہر کے ذریعے قتل عام کو بائیولوجیکل وار قرار دیا ہے۔
جیسا کہ بعض مورخین قائل ہیں کہ خود پیغمبر اکرم (ص) کی شہادت ایک یہودی عورت ’زینب بن حارث‘ کے زہر سے انجام پائی جو مرحب کی بہن تھی اس نے گوسفند کے گوشت میں زہر ملا کر پیغمبر اکرم کو دیا اور یہ زہر جلدی اثر کرنے والا نہیں تھا بلکہ اس نے دھیرے دھیرے اثر کیا اور اسی کی وجہ سے تین سال کے بعد آپ کی شہادت واقع ہوئی۔ بہت سارے شیعہ اور سنی مورخین نے اس واقعہ کو نقل کیا ہے۔
ہم نے ’’دشمن شدید‘‘ کتاب میں مختلف دلائل کے ساتھ ثابت کیا ہے کہ یہودی امیر شام اور بطور کلی بنی امیہ کے ذریعے اسلام میں گہرا اثر و رسوخ پیدا کرنے میں کامیاب ہوئے اور بنی امیہ کے تمام حکمران یہودیوں کے مہرے تھے۔ اسی وجہ سے ان  کی جانب سے اکثر قاتلانہ حملے بائیولوجیکل ہتھیاروں سے انجام پاتے تھے جو در حقیقت یہودیوں کا حربہ تھا۔
امیر شام جب بھی اپنے دشمن کو مٹانے میں ناکام ہوتا تھا تو اپنے دوست ابن اثال جو یہودی تھا کو زہر تیار کرنے کا حکم دیتا تھا اور اس زہر کے ذریعے اپنے حریفوں کا صفایا کرتا تھا۔

 

علی (ع) اور قرآن کی مظلومیت

  • ۵۶۸

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: قرآن گزرگاہ تاریخ بنی نوع بشر پر جلتا ہوا وہ چراغ جو انسانی زندگی کے تمام پیچ و خم کو قابل دید بنا کر انسان کے ادنی یا اعلی ٰہونے میں مشعل راہ ہے ۔ علم و حکمت کا ٹھاٹھیں مارتا ہوا وہ بحر ذخار کہ علم و دانش کے شناور اس کی گہرائی میں جتنا بھی اترتے چلے جائیں ان کا دامن معرفت کے بیش بہا گوہروں سے اتنا ہی بھرتا چلا جائے ۔

لیکن افسوس! تہجر کے یخ زدہ پہاڑوں کو پگھلانے کے لئے جو کتاب نازل ہوئی تھی آج وہی کتاب تہجر کا شکار ہو کر آواز دے رہی ہے کہ دیکھو کس طرح مجھے ہی میرے ماننے والوں نے خود اپنے ہی وجود میں منجمد کر دیا … میں تو منجمد شدہ پیکروں کو آواز حق کی گرمی سے پگھلا کر اشرف المخلوقات انسان کو کماک کی انتہا پر پہچانے آئی تھی لیکن آج میرا وجود ہی ایک حرف بن کر رہ گیا ہے ۔

علی تاریخ بشریت کی مظلوم ترین شخصیت، اتنی بڑی کائنات میں وہ اکیلا انسان جو صدیا ں گزر جانے کے بعد بھی آج وہیں اکیلا کھڑا ہے جہاں صدیوں پہلے تھا اس انتظار میں کے شاید اسے کچھ وہ لوگ مل جائیں جو اس کے دل میں موجزن دریائے معرفت کے گوہروں کو اپنے دامن میں سمیٹنے کا ظرف رکھتے ہوں، آج بھی علی تنہا ہے اسی طرح جیسے پہلے تنہا تھا۔ علی کی تنہائی تو کیا دور ہوتی بلکہ جیسے جیسے زمانہ گزرتا جا رہا ہے علی کی تنہائی بڑھتی جا رہی ہے بالکل قرآن کی طرح ۔
علی اور قرآن کتنی یکسانیت ہے دونوں میں؟ سچ کتنی اپنائیت ہے دونوں میں؟ جیسے دونوں کا وجود ایک دوسرے ہی کے لئے ہو دونوں ایک دوسرے کے درد کو سمجھتے ہوں … ایک دوسرے کے درد آشنا ہو مونس و ہم دم ہوں ہم راز و ساتھی ہوں ۔

کتنا عجیب اتفاق ہے امت محمدی کو مالک کی طرف سے دو عظیم عطیے ملے لیکن دونوں مظلوم ، دونوں تنہا ، دونوں درد کے مارے دونوں ستائے ہوئے لیکن آپس میں ہم آہنگ آپس میں ایک جاں دو قالب ہم آہنگ اس جہت سے کہ دونوں کا وجود رشد و ہدایت کی راہ میں مشعل راہ دونوں کا وجود مقدس، دونوں پاکیزہ، دونوں علم و معرفت کے بند ریچوں کو کھولنے والے، دونوں حقیقتوں سے روشناس کرانے والے دونوں صادق، دونوں خالق کے عظیم شاہکار حتی دونوں کا درد ایک دونوں کا غم بھی اس جہت سے ایک ہے کہ دونوں پر ظلم کرنے والے دوسرے نہیں خود ان کے اپنے ہی ماننے والے ہیں، خود وہی لوگ ہیں جو انہیں مقدس سمجھتے ہیں، خود وہی لوگ ہیں جو انکی عظمتوں کا کلمہ پڑھتے ہیں، خود وہی لوگ ہیں جو دونوں کو ہر وقت ورد کرتے نہیں تھکتے۔
 جس طرح آج کروڑوں لوگ اپنی زندگی میں صبح شام قرآن کا ورد کرتے نظر آتے ہیں ، قرآن کا تعویذ گلے میں ڈالے گھومتے ہیں قرآن کی آیتوں سے اپنے روز مرہ کے مسائل کو حل کرتے ہیں قرآن کی شفا بخش آیتوں سے اپنے امراض کو دور کرتے ہیں ،چھوٹی سی دکان سے لیکر بڑے بڑے مالوں تک میں قرآن کی آیات سجی رہتی ہیں کہ ان سے کاروبار میں برکت ہوتی ہے بڑی بڑی فیکٹریوں میں قرآنی آیات سے مزین طغرے سجے نظر آتے ہیں کہ حوادث روزگار اور بلائیں اس عمل سے دور ہوتی ہیں۔
 لیکن کتنے ایسے لوگ ہیں جو یہ جانتے ہیں کہ قرآن کیوں آیا تھا ؟ اس کا مقصد کیا تھا؟ کتنے لوگوں کو قرآنی معارف سے آشنائی ہے کتنے لوگ اس کے مفاہیم سے واقف ہیں؟ کتنے لوگ یہ جانتے ہیں کہ قرآن ان سے کیا کہہ رہا ہے؟ کتنے لوگ …
 اسی طرح علی کی ذات بھی ہے لوگ علی کا تذکرہ کرتے نہیں تھکتے صبح و شام علی علی کرتے ہیں ان کی محفلوں میں علی کا نام ہے ، مجلسوں میں علی کا ذکر ہے تقریبوں میں علی کا چرچا ہے ، نشستوں میں علی علی خلوت کدوں میں علی کا ورد ہے جلوت میں علی ہی علی کی دھوم ہے لیکن ان میں کتنے ہیں وہ لوگ جو یہ جانتے ہیں کہ یہ تاریخ کی عظیم اساطیری شخصیت کن اسرار کی حامل ہے؟ کتنے لوگ یہ جانتے ہیں کہ علی کی جن فضیلتوں کا تذکرہ وہ دن بھر کرتے ہیں وہ تمام فضیلتیں تو علی کے فضائل کے سمندر کا ایک قطرہ بھی تو نہیں علی کی ذات تو کچھ اور ہی ہے؟
علی کی ذات کو نہ سمجھنا ایک مسئلہ ہے علی ع کے درد سے ناواقفیت اور بات ہے کیا ہم نے سوچا علی کا درد کیا تھا ؟ علی کو کون سا غم کھائے جا رہا تھا علی کیوں مار گزیدہ کی طرح تڑپا کرتے تھے؟ علی کی ریش مبارک کیوں آنسووں میں تر ہو جاتی تھی علی نخلستانوں میں جا کر اپنا کون سا غم بیان کرتے تھے؟ علی کنویں میں منھ ڈال کر کیوں روتے تھے؟ آج جس ضربت نے سر علی کو دوپارہ کر دیا اس پر رونے والے تو بہت مل جائیں گے لیکن وہ زخم زباں جنہوں نے علی کے حساس وجود کو اندر سے کرچی کرچی کر دیا اس پر رونے والا کوئی نہیں ملتا۔ وہ نشتر جو دل علی کے آر پار ہو گئے وہ بہت کم لوگوں کو نظر آتے ہیں ان پر رونے والا کون ہے؟
 کیا ہمیں علی کے دل کو ٹکڑے ٹکڑے کر دینے والے مصائب نظر آتے ہیں؟ کیا ہم نے کبھی خود سے سوال کیا کہ آخر وہ کون سی مصیبت تھی وہ کون سا جانکاہ غم تھا جسکی وجہ سے راتوں کو علی کنویں میں سر ڈال کر رویا کرتے تھے ،کاش ہم اس راز کو سمجھ پاتے جسے علی اپنے گریہ کے ذریعہ بنی نوع بشر تک منتقل کرنا چاہتے تھے واقعی عاشقان علی کو جہاں علی کی مصیبتوں کا غم ہے وہیں ان کا دل یہ سوچ سوچ کر بھی پاش پاش ہونا چاہیے کہ علی ہم سے کیا کہنا چاہتے تھے ؟ وہ کون سی بات تھی جو علی اپنے چاہنے والوں سے کہنا چاہتے تھے کیا علی اپنے حق کی غصب ہو جانے کی وجہ سے گریہ کناں تھے یا علی کو اپنی شریک حیات فاطمہ زہرا سلام للہ علیھا پر پڑنے والی مصبیتں رلا رہی تھیں اور بعد فاطمہ علی فاطمہ بتول سلام اللہ علیھا کے غموں کو یاد کر کے روتے تھے؟ علی کو اپنی تنہائی کا غم تھا یا علی کو فراق رسول رونے پر مجبور کر رہا تھا ۔ آخر علی کیوں روتے تھے؟ ۔۔۔۔

 

فلسطین کی تقدیر اور اس کا مستقبل رہبر انقلاب کی نگاہ میں

  • ۳۶۲

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: فلسطین میں صہیونی سیاستوں اور سازشوں کے کارآمد نہ ہونے کے حوالے سے رہبر انقلاب کے بیانات میں سے کچھ اقتباسات قارئین کے لیے پیش کئے جاتے ہیں؛
 بقائے فلسطین و نابودی اسرائیل:
•    اب غاصب حکومت کے عمائدین جو ایک اسلامی ملک فلسطین پر قابض ہیں اور ان کے امریکی حامی جو بڑے ہی احمقانہ و ابلہانہ انداز میں ان کی ہمہ جہت حمایت کر رہے ہیں، اس کوشش میں لگ گئے ہیں کہ فلسطین کا نام تاریخ اور عوام کی یادداشت سے پوری طرح مٹا دیں تاکہ عوام کے ذہنوں میں فلسطین نام کی کوئی چیز ہی باقی نہ رہے۔ انیس سو سینتالیس، اڑتالیس میں جب فلسطین پر پوری طرح قبضہ کر لیا گیا اور صیہونی حکومت کی تشکیل عمل میں آ گئی اس وقت سے اب تک وہ یہ کام نہیں کر سکے اور آئندہ بھی عشروں تک وہ اس مقصد میں کامیاب نہیں ہو پائیں گے۔ وہ فلسطین کا نام مٹانے کی خواہش پوری نہیں کر سکیں گے بلکہ اسی کوشش میں وہ خود ہی صفحہ ہستی اور تاریخ کے اوراق سے ناپید ہو جائیں گے۔ جبکہ فلسطین اور فلسطینی عوام کو جاویدانی ملے گی۔ یہ اس زعم میں ہیں کہ فلسطین اور فلسطینی قوم کو مٹا لے جائیں گے۔ لیکن فلسطینی قوم ہمیشہ باقی رہے گی اور فلسطین بھی باقی رہے گا اور فلسطینی و لبنانی جیالوں کی بلند ہمتی کے نتیجے میں ایک دن پرچم فلسطین بھی لہرائے گا۔

•    صیہونزم اور فلسطین میں غاصب و جعلی صیہونی حکومت کا مقدر فنا ہے۔ فلسطینی عوام کو چاہئے کہ اللہ تعالی سے نصرت و مدد کی دعا کریں اور اس کی ذات پر توکل کریں۔ فلسطینی جوان، لبنانی جوان، تمام عالم اسلام کے جوان اور سبھی دانشور اسی سمت میں آگے بڑھیں۔

•    غاصب و ظالم صیہونیوں کی سمجھ میں یہ بات آ جانا چاہئے کہ لبنان و فلسطین کی زیور ایمان سے آراستہ یہ نوجوان نسل ناقابل تسخیر ہے۔ فلسطینی قوم کے جذبہ ایمانی و قوت صبر پر استوار جہاد کو سیاسی سازباز، فوجی دباؤ، سکیورٹی کی چالوں اور تشہیراتی ہلڑ ہنگاموں سے روکا نہیں جا سکتا۔ بالکل اسی طرح جیسے عظیم الشان ملت ایران کی قوت مزاحمت اور بے مثال استقامت کو ان فرسودہ اور ناکارہ حربوں سے مغلوب نہیں کیا جا سکا جنہیں گزشتہ برسوں کے دوران صیہونیوں اور ان کے حامیوں نے جی بھر کے استعمال کیا ہے۔

 

یقینی مستقبل:
•    فلسطین کی موجودہ صورت اس یقینی انجام اور مستقبل کی نوید دے رہی ہے جس کا وعدہ اللہ تعالی نے صادق و ثابت قدم مجاہدین سے کیا ہے، وہ وعدہ جس کا پورا ہونا یقینی ہے۔ بے رحم و ظالم صیہونی حکومت اور اس کے پس پشت امریکا اور عالمی صیہونزم کو یہ زعم ہے کہ مجرمانہ اقدامات اور غیر انسانی حرکتوں سے ملت فلسطین کو مغلوب کر لے جائیں گے اور اسے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دیں گے۔ یہ بہت بڑی بھول ہے، اس بھول میں پڑنے والوں کو آگے چل کر بہت بڑی چپت لگنے والی ہے۔

•    فلسطین، فلسطینی قوم کا ہے، جلد یا کچھ دیر میں غاصب حکومت کو سرانجام اس حقیقت کے سامنے سر جھکانا ہوگا۔ اس وقت فلسطین کے مسلمان مجاہدین کے دوش پر یہ عظیم اور تاریخی ذمہ داری ہے۔ انہیں چاہئے کہ حتمی وعدہ الہی پر بھروسہ کریں اور اللہ تعالی کی نصرت و مدد سے آس لگائیں اور اپنی امید و جذبہ ایمانی اور جہاد کے ذریعے اپنی قوم اور اپنے ملک کو اپنا عظیم تحفہ پیش کریں۔ فلسطین کے مسلمانوں کی مزاحمت و استقامت کے جاری رہنے اور عالم اسلام کی جانب سے ان کی بلا وقفہ حمایت کے نتیجے میں فلسطین بفضل الہی ایک دن آزآد ہو جائے گا اور بیت المقدس، مسجد الاقصی اور اس اسلامی سرزمین کا گوشہ گوشہ دوبارہ عالم اسلام کی آغوش میں آ جائے گا۔

منبع: خامنہ ای ڈاٹ آئی آر

 

صہیونی ریاست اپنے زوال سے کیوں خوفزدہ؟

  • ۳۶۱

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ کے مطابق، نابودی کا خوف، ایک اہم چیلنج ہے جو ہمیشہ یہودی قوم اور صہیونی ریاست کو دھمکا رہا ہے۔ موجودہ دور میں سرزمین فلسطین کو غصب اور ستر سال سے زیادہ عرصے سے اس میں جرائم کا ارتکاب، نیز پوری دنیا کے میڈیا پر قبضہ کرنے کے باوجود اس ریاست پر اپنی نابودی کے کالے بادل چھائے ہوئے ہیں۔
اسی وجہ سے صہیونی ریاست کے حکام کے خصوصی جلسوں میں صرف اپنی بقا پر ہی غور و خوض کیا جاتا ہے۔ یہودی ایجنسی کے ڈائریکٹر بورڈ کے حالیہ جلسے جو ڈائریکٹر بورڈ کے سربراہ ’’ناٹن شارنسکی‘‘ کی موجودگی میں منعقد ہوا اور جلسہ میں انتخابات کے بعد ’’اسحاق ہرٹزوک‘‘ کو ناٹن شارنسکی کا نائب صدر مقرر کیا، میں انہوں نے یہ اپنا عہدہ سنبھالنے کے فورا بعد جلسے سے خطاب کرتے ہوئے کہا: ہمیں یہودیوں کو متحد کرنے کے لیے ہر ممکن کوشش کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمیں اس مقام تک پہنچنا ہے کہ ہمیں یقین ہو جائے کہ یہودی نابود نہیں ہوں گے۔ یہودی، یہودی ہے ضروری نہیں ہے کہ وہ کیسا لباس پہنے اور کس پارٹی سے منسلک ہو، ہم سب ایک ہیں۔ (۱)
اسی سلسلے سے صہیونی تنظیم نے ’’قدس میں کتاب مقدس کی اراضی‘‘ کے زیر عنوان ایک سروے کیا جس میں آدھے سے زیادہ صہیونیوں نے صہیونی ریاست کی مکمل نابودی کی نسبت تشویش کا اظہار کیا۔ (۲)
صہیونی آبادکاروں کے چینل نمبر ۷ کی رپورٹ کے مطابق، یہ سروے ۵۰۰ یہودیوں کے درمیان انجام دیا گیا جن کی عمر ۱۸ سال سے ۶۵ سال کے درمیان تھی سروے کے نتائج سے معلوم ہوا کہ ۴۲ فیصد یہودیوں نے صہیونی ریاست کی مکمل نابودی کی رائے دی جبکہ ۱۰ فیصد نے اسرائیل کی نسبت اظہار تشویش کیا۔ (۴) سروے کی رپورٹ کے مطابق، مذہبی یہودیوں کو زیادہ تر تشویش اس بات سے ہے کہ پوری دنیا صہیونی ریاست سے نفرت کا اظہار کر رہی ہے۔
یہودی قوم ڈرپوک اور بزدل
زوال کے خوف کی ایک وجہ یہودیوں کا ڈرپوک اور بزدل ہونا ہے۔ ان کے اندر یہ صفت اس وجہ سے پائی جاتی ہے چونکہ وہ حد سے زیادہ دنیا سے وابستہ ہیں۔ قرآن کریم کے سورہ آل عمران کی آیت ۱۱۲ میں یہودیوں کی اس صفت کی مذمت کی گئی ہے۔ خداوند عالم اس آیت میں ارشاد فرماتا ہے: «ضُرِبَتْ عَلَیْهِمُ الذِّلَّةُ أَیْنَ مَا ثُقِفُوا إِلَّا بِحَبْلٍ مِنَ اللَّهِ وَحَبْلٍ مِنَ النَّاسِ وَبَاءُوا بِغَضَبٍ مِنَ اللَّهِ وَ ضُرِبَتْ عَلَیْهِمُ الْمَسْکَنَةُ ذَلِکَ بِأَنَّهُمْ کَانُوا یَکْفُرُونَ بِآیَاتِ اللَّهِ وَیَقْتُلُونَ الْأَنْبِیَاءَ بِغَیْرِ حَقٍّ ذَلِکَ بِمَا عَصَوْا وَکَانُوا یَعْتَدُونَ، ’’ان پر ذلت کے نشان لگا دئے گئے ہیں یہ جہاں بھی رہیں مگر یہ کہ خدائی عہد یا لوگوں کے معاہدے کی پناہ مل جائے، یہ غضب الہی میں رہیں گے اور ان پر مسکنت کی مار رہے گی۔ یہ اس لیے کہ یہ آیات الہی کا انکار کرتے تھے اور ناحق انبیاء کو قتل کرتے تھے۔ یہ اس لیے کہ یہ نافرمان تھے اور زیادتیاں کیا کرتے تھے‘‘۔
اس آیت کی تفسیر میں آیا ہے کہ یہودی ہمیشہ ذلیل و خوار تھے۔ اگر چہ بسا اوقات انہوں نے دنیا کی معیشت یا سیاست پر قبضہ جمایا۔ لیکن انسانی وقار، عزت و سربلندی اور امن و سکون کے اعتبار سے بدترین منزل پر رہے ہیں۔ ( جیسے چور اور ڈاکو جو اگر چہ چوری کر کے، ڈاکہ مار کے عظیم مال و ثروت کے مالک بن جاتے ہیں لیکن انسانی اقدار کے حوالے سے ان کا کوئی مقام و مرتبہ نہیں ہوتا)۔ لہذا «ضُرِبَتْ عَلَیْهِمُ الذِّلَّةُ» (۵)
 
صہیونی ریاست کی جڑیں شیطانی افکار میں پیوست
یہودی ریاست کے خوفزدہ ہونے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ اس کی بنیادیں شیطانی افکار پر قائم ہیں۔ اس غاصب اور طفل کش ریاست کی جڑیں شیطان کے وجود سے پھوٹتی ہیں۔ اسی وجہ سے یہ کبھی بھی قائم و دائم نہیں رہ سکتی۔ اس کے مقابلے میں اسلامی حکومت ثابت قدم اور استوار ہے۔ اگر چہ دنیا ساری کے ذرائع ابلاغ مشرق سے لے کر مغرب تک اس نظام حکومت کے خلاف عمل پیرا ہیں۔
سینکڑوں مفکر اور ماسٹر مائنڈ روز و شب اس کام پر جٹے ہوئے ہیں کہ کوئی نہ کوئی سازش، کوئی منصوبہ کوئی پراپیگنڈہ اسلامی جمہوریہ ایران کے خلاف جنم دیں اور اسے متزلزل کرنے کی کوشش کریں لیکن اسلامی نظام کو کوئی ٹھیس نہیں پہنچا سکتے۔ ایسا کیوں ہے؟ ایسا اس لیے ہے کہ اس نظام حکومت کا قیام خدا پر ایمان اور توکل کی بنا پر ہے۔ (۶)
صہیونی ریاست اور دنیا کے ظالمین کا زوال اس وجہ سے ہے کہ ان کی بنیاد ظلم، باطل اور شیطانی افکار پر قائم ہے خداأوند عالم نے خود ان کی نابودی کا وعدہ دیا ہے۔ قرآن کریم جب حق و باطل کے تقابل کی منظر کشی کرتا ہے تو یوں فرماتا ہے:
«اَنزَلَ مِنْ السَّمَاءِ مَاءً فَسَالَتْ اَوْدِیَهٌ بِقَدَرِهَا فَاحْتَمَلَ السَّیْلُ زَبَداً رَابِیاً وَمِمَّا یُوقِدُونَ عَلَیْهِ فِی النَّارِ ابْتِغَاءَ حِلْیَه اَوْ مَتَاعٍ زَبَدٌ مِثْلُهُ کَذَلِکَ یَضْرِبُ اللهُ الْحَقَّ وَالْبَاطِلَ فَاَمَّا الزَّبَدُ فَیَذْهَبُ جُفَاءً وَاَمَّا مَا یَنفَعُ النَّاسَ فَیَمْکُثُ فِی الاْرْضِ کَذَلِکَ یَضْرِبُ اللهُ الاْمْثَالَ»؛
’’اس نے آسمان سے پانی برسایا تو وادیوں میں بقدر ظرف بہنے لگا اور سیلاب میں جوش کھا کر جھاگ پیدا ہو گیا جسے آگ پر زیور یا کوئی دوسرا سامان بنانے کے لیے پگھلاتے ہیں۔ اسی طرح پروردگار حق و باطل کی مثال بیان کرتا ہے کہ جھاگ خشک ہو کر فنا ہو جاتا ہے اور جو لوگوں کو فائدہ پہنچانے والا ہے وہ زمین میں باقی رہ جاتا ہے اور خدا اسی طرح مثالیں بیان کرتا ہے‘‘۔ (سورہ رعد، ۱۷) (۷)
دینی علماء کی مجاہدت صہیونی ریاست کے زوال کا سبب
صہیونیوں کے خوفزدہ ہونے کی ایک وجہ مشرق وسطیٰ میں مخلص، متدین اور مجاہد علماء کا وجود ہے۔ وہ علماء جو دین کی حقیقت کو پہچانتے ہیں اور دین کو صرف نماز و روزے میں محدود نہیں جانتے ہمیشہ سے باطل طاقتوں کے لئے چیلنج بنے رہے ہیں اور باطل طاقتیں ان کے چہروں میں اپنے زوال کا نقشہ دیکھتی رہی ہیں۔
اس کی ایک مثال رہبر انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ خامنہ ای کے یہ الفاظ ہیں جو آپ نے ۸ ستمبر ۲۰۱۵ کو اپنی ایک تقریر کے دوران بیان فرمائے تھے: تم (صہیونیو) آئندہ ۲۵ سال کو نہیں دیکھ پاؤ گے۔ انشاء اللہ آئندہ ۲۵ سال تک اللہ کے فضل و کرم سے صہیونی ریاست نام کی کوئی چیز علاقے میں نہیں ہو گی‘‘۔ آپ کا یہ بیان عالمی ذرائع ابلاغ میں ایسے پھیلا جیسے خشک جنگل میں آگ پھیلتی ہے۔ اس بیان نے صہیونی رژیم کے منحوس وجود پر لرزہ طاری کر دیا۔ اور اس کے بعد سے آج تک وہ صرف اپنی بقا کے لیے جد و جہد کر رہے ہیں۔ خدا کرے ان کی یہ جد و جہد خاک میں ملے اور طفل کش صہیونی رژیم ہمیشہ کے لیے صفحہ ھستی سے محو ہو جائے۔
حواشی
[۱]۔ https://kheybar.net/?p=6515
[۲] www.masaf.ir/View/Contents/40012
[۳] TNS
[۴] www.isna.ir/news/94050502500/
[۵] تفسیر نور، محسن قرائتی، تهران:مرکز فرهنگى درس‌هایى از قرآن، ۱۳۸۳ش، چاپ یازدهم سوره مبارکه آل‌عمران ذیل آیه‌ی ۱۱۲
[۶] بیانات در دیدار فرمانده و پرسنل نیروی هوایی ارتش ۱۹/۱۱/۱۳۸۸
[۷] پیام قرآن‏، آیت الله العظمى ناصر مکارم شیرازى، دار الکتب الاسلامیه‏، تهران‏، ۱۳۸۶ ه.ش‏، ج۸، ص۱۲۸٫

 

یمن کی جنگ میں اسرائیل کا کردار

  • ۳۶۴

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ کے مطابق، اسرائیلی اخبار نے یہ دعویٰ کیا ہے کہ اسرائیل کا یمن کی جنگ میں کوئی کردار نہیں اور وہ صرف علاقے کے حالات کا جائزہ لینے پر اکتفا کرتا ہے۔
اسرائیل اخبار نے یہ دعویٰ ایسے حال میں کیا ہے کہ ’’باحث‘‘ تحقیقاتی سنٹر نے یمن پر سعودیہ کی سرکردگی میں جاری یلغار میں صہیونی ریاست کے کردار کو مختلف دستاویزات اور قرآئن کے ذریعے ثابت کیا ہے۔
اس مقالے میں تحریر کیا گیا ہے کہ یمن کی جنگ میں صہیونی ریاست کا کردار امکانات کے مرحلے سے گزر چکا ہے۔ یہ بات یقینی ہے کہ صہیونی ریاست ۱۹۶۰ کی دہائی سے اب تک یمن میں مداخلت کر رہی ہے۔ برطانوی اور امریکی دستاویزات جو خفیہ ذرائع سے سامنے آئی ہیں ان سے معلوم ہوتا ہے کہ صہیونی ریاست یمن کی جنگ میں سعودی اتحاد کو اسلحہ فراہم کر رہی ہے۔
صہیونیوں کا یمن کے لیے ایک طویل المدۃ منصوبہ تھا جو کبھی یمن سے یہودیوں کو اسرائیل منتقل کر کے، کبھی یمن میں اپنے جاسوس چھوڑ کر اور کبھی اپنے آلہ کار سعودیہ کے ذریعے نیابتی جنگ کی صورت میں عملی جامہ پہن رہا ہے۔
یمن کے سکیورٹی ادارے نے صوبہ ذمار سے کچھ عرصہ قبل ۱۷ افراد پر مشتمل ایک جاسوسی ٹولہ گرفتار کیا جس کے افراد کا تعلق صومالیہ اور ایتھوپیا سے تھا۔ اس ٹولے سے ہاتھ لگی سی ڈیوں اور دیگر معلومات سے پتا چلا کہ وہ صہیونی ریاست کی طرف سے اس ملک میں جاسوسی پر مامور تھے سی ڈیوں میں یمن کے مختلف اہم مراکز اور سکیورٹی اداروں کی معلومات ضبط کی ہوئی تھیں۔
اس سے قبل بھی یمنی فورس نے ایک ایسے شخص کو گرفتار کیا تھا جس کا تعلق اسرائیل سے تھا۔ ۲۰۰۹ میں یمن کی عدالت نے اس ملک کے ایک شہری کو صہیونی ریاست کے لیے جاسوسی کے جرم میں پھانسی کا حکم دیا جبکہ دیگر دو افراد کو جیل میں بند کیا۔
ستمبر ۲۰۱۲ میں ایک اسرائیلی شہری کو یمن سے گرفتار کیا گیا یہ شخص موساد کے لیے کام کیا کرتا تھا اور یمن میں ایک جاسوسی چینل کو چلا رہا تھا۔ اس کے دو نام تھے ایک ’’علی عبد اللہ الحمیمی السیاغی‘‘ اور دوسرا ’’ابراھام درعی‘‘۔ تحقیقات کے بعد معلوم ہوا کہ وہ صہیونی جاسوس ہے اور یمن سے بچوں کی اسرائیل اسمگلنگ کرتا ہے۔
یہ بچے اسرائیل میں موساد کے ذریعے ٹریننگ حاصل کرتے ہیں اور اس کے بعد اسرائیل کے لیے کام کرتے ہیں یعنی انہیں یمن یا کسی دوسرے اسلامی ملک میں بھیج دیا جاتا ہے۔ اور وہاں وہ اسلامی حکومتوں اور اداروں میں اپنا نفوذ پیدا کرتے ہیں۔

 

پیغمبر اکرم (ص) کی معراج؛ مکہ سے قدس تک

  • ۴۱۹

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ، مسئلہ قدس کا جائزہ اور سرزمین فلسطین کے ماضی اور حال پر تبصرہ، ان اہم موضوعات میں سے ہیں جن کو ہمیشہ علمی تحریروں اور گفتگوؤں میں مورد بحث قرار پانا چاہیے۔ اس مقصد کے پیش نظر خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ کے نامہ نگار نے حجت الاسلام و المسلمین سید حسن موسوی زنجانی جو فلمنامہ حضرت موسی(ع) کے مشیر ہیں سے مسئلہ قدس پر قرآنی زاویہ نگاہ سے گفتگو کی ہے۔
خیبر: آپ کی نظر میں قرآن کریم مسئلہ قدس اور فلسطین کو کس قدر اہمیت دیتا ہے اور کیا یہ مسئلہ صرف ایک نظریہ کی حد تک ہے؟
بسم اللہ الرحمن الرحیم؛ تین براعظموں کو آپس میں ملانے والا مغربی ایشیا ہے اور مغربی ایشیا کا قلب عبارت ہے ایک مثلث سے؛ بیت المقدس، مسجد کوفہ اور مسجد الحرام۔ خداوند عالم نے حضرت آدم سے کہا کہ اس مثلث سے ارادہ الہی دنیا میں تحقق پانا چاہیے۔
اس مثلث کی حضرت ابراہیم نے حفاظت کی۔ خداوند عالم نے حضرت ابراہیم کو حکم دیا کہ دنیا کو یہ بتلائیں کہ پوری دنیا میں ایک نظم برقرار رہنا چاہیے، یہ کون سا نظم تھا؟ یعنی یہ کہ جس شخص کے لیے ممکن ہو مکہ جائے تاکہ مکہ کو تعمیر کرے۔ سورہ حج میں آیا ہے کہ لوگوں کو اعلان کرو کہ سب مکہ جائیں۔ سب سے پہلے خود حضرت ابراہیم مکہ گئے، اسی وجہ سے حضرت ابراہیم مکہ کی علامت اور نشان قرار پائے۔ مسجد کوفہ میں بھی مقام ابراہیم ایسی جگہ پر ہے کہ جو شخص مسجد کوفہ میں جاتا ہے وہاں دو رکعت نماز ادا کرتا ہے۔
مکہ کو حضرت ابراہیم کے ایک بیٹے حضرت اسماعیل نے آباد کیا اور بیت المقدس کو انکے دوسرے بیٹے جناب اسحاق نے آباد کیا اور انہیں کی نسل سے بنی اسرائیل کا سلسلہ شروع ہوا۔ مکہ میں بنی اسماعیل بر سر اقتدار آئے اور انہیں کی نسل سے پیغمبر اسلام(ص) تشریف لائے۔ اسلام آنے کے بعد ان دونوں بھائیوں (اسماعیل اور اسحاق) کی آباد کردہ بستیوں کو آپس میں جوڑا گیا، اب بیت المقدس نہ صرف بیت المقدس رہا بلکہ مسلمانوں کا قبلہ قرار پایا۔ اس لیے مسلمانوں کو پہلے بیت المقدس کی طرف نماز پڑھنے کا حکم دیا گیا تھا اس کے بعد حکم ہوا کہ بنی اسماعیل کے قبلے کی طرف نماز ادا کریں یعنی خانہ کعبہ کی طرف۔
 
خیبر: یعنی پیغمبر اکرم ایک مدت تک صرف بیت المقدس کی طرف اپنی نماز ادا کرتے تھے؟
۔ میں یہاں پر ایک اہم نکتے کی طرف اشارہ کروں جو شیعہ سنی کتابوں میں معمولا بیان نہیں ہوتا وہ یہ ہے کہ پیغمبر اکرم اپنی پوری زندگی یعنی اس سے قبل کہ انہیں خانہ کعبہ کی طرف نماز ادا کرنے کا حکم ملتا مکہ میں خانہ کعبہ کی مشرقی سمت کھڑے ہوتے تھے تاکہ کعبہ اور بیت المقدس دونوں کی طرف رخ کر کے ایک ساتھ نماز ادا کریں۔
جتنا عرصہ آپ(ص) مکہ میں تھے اور مدینے ہجرت کے بعد بھی ابتدائی چند مہینے تک آپ اس طریقے سے نماز کے لیے کھڑے ہوتے تھے کہ اگر کوئی آپ کی نیت سے باخبر نہ ہوتا تھا تو یہی سوچتا تھا کہ آپ خانہ کعبہ کی طرف رخ کر کے نماز پڑھ رہے ہیں۔ امام باقر اور امام صادق علیہما السلام نے اس مسئلے کو یوں واضح کیا ہے کہ پیغمبر اسلام اس طریقہ سے نماز ادا کیا کرتے تھے کہ خانہ کعبہ اور بیت المقدس دونوں ایک ہی سمت میں واقع ہوتے تھے۔
لہذا بیت المقدس کی اہمیت اس حد تک ہے کہ خداوند عالم نے مسلمانوں کو اس کی طرف رخ موڑ کر نماز پڑھنے کا حکم دیا۔ اور پھر بنی اسرائیل کے ۴۸ پیغمبر بیت المقدس میں مدفون ہیں۔ جبکہ بنی اسرائیل کا کوئی ایک بھی نبی حجاز میں نہیں ہے۔
یہ مثلث جس کا تذکرہ کیا گیا حضرت ابراہیم سے مخصوص ہے۔ اور ہم حضرت ابراہیم کے وارث ہیں۔ آپ تمام مسلمان اپنے جد حضرت ابراہیم کے وارث ہیں۔ اور یہ روایت تواتر کے ساتھ ہے۔ یعنی حجاز، کوفہ اور بیت المقدس مسلمانوں کا ہے اور اس مثلث کا ایک دائرہ ہے اور وہ دائرہ فردوس ہے؛ فدک اور ام القریٰ۔
آپ پرکار کی ایک نوک کو کعبہ پر رکھیں۔ اور پرکار کی دوسری نوک کو عراق اور فلسطین پر گمائیں تو دریائے نیل سے لے کر بحر ہند، نہر سوئز، باب المندب، جبل الطارق اور ابنائے ہرمز تک کا علاقہ اس دائرے میں سمٹ جائے گا کہ اس دائرے کو ام القریٰ کہتے ہیں، یہ وہ فدک اعظم ہے جو پیغمبر اکرم نے حضرت زہرا (س) کو تحفہ دیا تھا۔ ورنہ فدک صرف ایک باغ نہیں تھا بلکہ ام القریٰ تھا۔
رسول خدا نے فرمایا کہ بیت المقدس اتنی اہمیت کا حامل ہے کہ قرآن کے سورہ اسراء میں اس کا یوں تذکرہ ہوا ہے: «سبحان الذی اسری بعبده لیلا من المسجد الحرام الی مسجد الاقصی».
اس سورہ کے دو نام ہیں ایک اسراء اور دوسرا بنی اسرائیل۔ تاریخ بشریت کی سب سے بڑی جنگ جو اقوام عالم کی تقدیر کو بدل دے گی اس خطے میں ہو گی۔ سورہ بنی اسرائیل کی پہلی سات آیتوں میں مسلمانوں اور بنی اسرائیل کے درمیان اس خطے میں جنگ کا تذکرہ ہے اور دوسری جنگ مسلمانوں کی اسرائیل سے ہے اور اس جنگ کے بعد یہودی اس قدر بکھر جائیں گے کہ مسلمان اگر انہیں ڈھونڈنا بھی چاہیں گے تو نہیں ڈھونڈ پائیں گے۔
بیت المقدس کی فتح، اسلام کی طاقت کا عروج
بیت المقدس کی فتح کے بعد اسلام کی طاقت کو عروج ملے گا۔ پیغمبر اکرم جو ’’قاب قوسین او ادنی‘‘ کی منزل تک خداوند عالم کے قریب ہوئے ان کی معراج کے سفر کا آغاز بیت اللہ الحرام سے بیت المقدس تک ہوا۔
قرآن کریم کے اکثر مقامات پر ’’اہل الکتاب‘‘ کا تذکرہ ہے اس لیے جو مسلمان بھی قرآن کریم کا مطالعہ کرتا ہے دیکھتا ہے کہ اسلام کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ اہل الکتاب ہیں وہ نہیں چاہتے کہ اسلام ترقی کرے۔ قرآن کریم میں اہل کتاب کے علاوہ کسی قوم و ملت کا تذکرہ نہیں۔ لہذا پورا قرآن اس بات کی طرف متوجہ کر رہا ہے کہ بیت المقدس اور یہود کا مسئلہ، عالم اسلام کے اہم ترین مسائل میں سے ہے، «و لتجدن اشد الناس عداوه للذین آمنوا الیهود» ۔ یہود کو مومنین کا شدید ترین دشمن پاؤ گے۔

 

شوقی افندی کے دور میں بہائیت اور اسرائیل کے باہمی تعلقات

  • ۴۰۶

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: شوقی افندی کے دور میں صہیونی ریاست تشکیل پائی، بہائی جماعت بھی ہر اعتبار سے اس ریاست کی تشکیل کی مکمل حامی تھی۔ مثال کے طور پر ۱۹۴۷ میں جب اقوام متحدہ نے فلسطین کے مسئلے کے حل کے لیے ایک کمیٹی تشکیل دی تو شوقی افندی نے اس کمیٹی کو ایک لیٹر لکھ کر صہیونی ریاست کے ساتھ اپنی وابستگی اور مشترکہ مفادات کو یوں بیان کیا:
’’صرف یہودی ہیں کہ جنہیں اس سرزمین ’فلسطین‘ سے اتنی ہی محبت ہے جتنی بہائیوں کو ہے۔ اس لیے کہ یروشلم میں ان کے معبد کے باقیات پائے جاتے ہیں اور قدیمی تاریخ میں یہ شہر مذہبی اور سیاسی اداروں کا مرکز رہا ہے‘‘۔
۱۹۴۸ میں اس ریاست کی تشکیل کے بعد نوروز کے پیغام میں بہائی معاشرے کو مخاطب کرتے ہوئے شوقی افندی نے کہا:
’’ وعدہ الہی کا مصداق، ابنائے خلیل، وارث کلیم، ظاہر اور درخشاں، اسرائیل کی حکومت ارض مقدس میں تشکیل پائی اور اس کے واسطے بہائی مذہب کو رسمیت حاصل ہوئی اور عکا میں بہائی موقوفات کو معاف کیا گیا اور بہائیت کے مرکز کی تعمیر کی ضروریات کو پورا کرتے ہوئے اس کے مالیات (ٹیکس) کو معاف کر دیا گیا‘‘۔
شوقی افندی کی بیوی ماکسول اس بارے میں اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہتی ہے:
’’ ۔۔۔ مجھے کہنا چاہیے کہ ہم (بہائیت اور اسرائیل) مستقبل میں ایک زنجیر کے حلقوں کی طرح آپس میں پیوست ہیں‘‘۔
شوقی نے ۹ جنوری ۱۹۵۱ کو بین الاقوامی بہائی تنظیم کی تشکیل کا حکم دیا جو بعد میں ’بیت العدل‘ مرکز  کے نام سے معروف ہوا۔ انہوں نے اس تنظیم کی تین اہم ذمہ داریاں معین کیں: اسرائیلی حکومت کے عہدیداروں کے ساتھ اچھے روابط رکھنا، ملکی امور میں حکومت کے عہدیداروں کے ساتھ مذاکرات کرنا اور پھر کچھ ذاتی مسائل کے بارے میں وصیت۔
اس بین الاقوامی تنظیم نے ایران میں بہائیوں کی ایک کمیٹی کو بہائیت اور اسرائیل کے تعلقات کے بارے میں لکھا: اسرائیلی حکومت ولی امر اللہ (شوقی افندی) اور بہائی بین الاقوامی تنظیم کے ساتھ اچھے تعلقات رکھتی ہے اور اس سے زیادہ خوشی کی بات یہ ہے کہ ارض مقدس میں بہائیت کو پہچنوانے میں کافی کامیابی حاصل ہوئی ہے۔
اسرائیل کے وزیر اعظم بن گورین نے اپنے امریکی دورے میں امریکی بہائیوں کے ساتھ ایک ملاقات میں کہا: ’اسرائیلی حکومت کی تشکیل کے ابتدائی دور سے ہی اس کے بہائیوں کے ساتھ اچھے تعلقات رہے ہیں‘۔

بہائیت کے لیے اسرائیل کی خصوصی خدمات
صہیونی ریاست نے بین الاقوامی سطح پر بہائیت کے لیے خصوصی خدمات کا اہتمام کیا۔ مثال کے طور پر اسرائیل نے مختلف ممالک منجملہ برطانیہ، ایران، کینیڈا، اسٹریلیا، مقبوضہ فلسطین وغیرہ میں بہائیوں کے لیے مراکز تعمیر کئے تاکہ وہ ان میں دائمی طور پر اپنی سرگرمیاں انجام دے سکیں۔
اسرائیل کے نزدیک بہائیوں کی اہمیت کا اندازہ یہاں سے لگایا جا سکتا ہے کہ اسرائیلی وزیر اعظم اور صدر مملکت کے براہ راست ٹیلیفون سے پارلیمنٹ کے پانچ افراد پر مشتمل وزارت ادیان میں ایک خصوصی تنظیم تشکیل دی گئی۔ اور بعد از آن وقت کے وزیر اعظم نے عید رضوان کے موقع پر سرکاری طور پر بہائیوں کے مقدس مقام کا دورہ کیا۔
حواشی
1 – فصلنامه تاریخ معاصر ایران، بهائیت و اسرائیل: پیوند دیرین و فزاینده، شکیبا، پویا، بهار 1388، شماره 49، ص 640-513.
2- فصلنامه انتظار موعود، پیوند و همکاری متقابل بهائیت و صهیونیسم، تصوری، محمدرضا، بهار و تابستان 1385، شماره 18، ص 256-229.

 

 

جنرل پیٹراس کی جاسوسی کی ضرورت کیا تھی؟

  • ۳۸۴

مبصرین نے پیٹراس کے استعفے اور جنسی رسوائی کے اسباب کا جائزہ لیتے ہوئے لکھا کہ جنرل ڈیوڈ پیٹراس امریکہ کے سیاسی ماحول پر برملا تنقید کرتے تھے، اسرائیل کے اقدامات کو مورد تنقید بناتے تھے اور اسرائیل کے ساتھ امریکہ کے تزویری تعلقات پر سوال اٹھاتے تھے۔
خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: جنرل پیٹراس نے ۲۰۱۰ میں امریکی کانگریس سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ اسرائیل کے ساتھ امریکی تعلقات مشرق وسطی کے عوام کے درمیان امریکہ مخالف جذبات کو تقویت مل رہی ہے جس کے چند ہی مہینے بعد موساد کے سربراہ مائیر داگان (Aluf Meir Dagan) نے یہودی ریاست کی پارلیمان سے خطاب کرتے ہوئے کہا: “رفتہ رفتہ اسرائیل ایک خزانے اور ذخیرے کے بجائے امریکہ کے سر پر ایک بوجھ میں بدل گیا ہے”۔
علاوہ ازیں امریکی جاسوسی اداروں نے ۸۲ صفحات پر مشتمل ایک رپورٹ بعنوان “اسرائیل کے بعد کے مشرق وسطی کے لئے تیاری” (Preparing For A Post Israel Middle East) پیش کی جس میں نتیجہ اخذ کیا گیا تھا کہ امریکی مفادات اور صہیونی ریاست کی موجودگی سرے سے دو متضاد مسائل ہیں؛ ریاست ہائے متحدہ امریکہ کو یہودی ریاست کی حمایت کے لئے نہ تو مالی وسائل میسر ہیں اور نہ ہی عوامی حمایت حاصل؛ ہمارے لئے امریکی ٹیکس دہندگان کے تین ہزار ارب ڈالر بلاواسطہ یا بالواسطہ طور پر اسرائیل کے خزانے میں انڈیلنا مزید ممکن نہیں ہے؛ اسرائیل کی مداخلتوں کے خلاف عوامی احتجاجات میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے؛ عوام مزید یہ قبول کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں کہ امریکہ اسرائیل کی ناجائز جنگوں کی مالی اور عسکری پشت پناہی کرے۔
اس موقف کے ساتھ ساتھ، پیٹراس نے امریکہ میں سعودی سفیر پر قاتلانہ حملہ کرکے اس کی ذمہ داری ایران پر ڈالنے سمیت اس ملک میں موساد کی تخریبی کاروائیوں کو طشت از بام کیا۔
لیبیا کے شہر بن غازی میں امریکی قونصلیٹ پر حملہ کرکے امریکی سفیر کو قتل کرکے مشہور کیا گیا کہ سفیر قونصلیٹ کی عمارت میں لیبیائی عوام کے ہاتھوں مارا گیا ہے۔ لیکن جنرل پیٹراس نے اس سازش کو بےنقاب کیا اور کہا کہ قونصلیٹ پر حملہ اسرائیلی خفیہ ایجنسی موساد کا کام تھا، اور سفیر کو بھی موساد نے ہی قتل کیا تھا اور یہ کہ امریکی سفیر کو قونصلیت کی عمارت میں قتل نہیں کیا گیا بلکہ ان کی گاڑی کو سڑک میں راکٹ حملے کا نشانہ بنایا گیا۔ پیٹراس نے اس واقعے کو موساد اور سی آئی کے درمیان خفیہ جنگ کی نمایاں ترین مثال قرار دیا۔
ان حقائق اور اسناد و شواہد کی بنیاد پر، بہت سے مبصرین کا خیال ہے کہ جنرل پیٹراس کی جنسی رسوائی موساد کی سازش کا نتیجہ تھی جس کے زیر اثر امریکی انتظامیہ کے اندر اسرائیل کے نہایت اہم مخالف کو اپنے اعلی منصب سے ہاتھ دھونا پڑا۔
یہ یہودی موساد سمیت جاسوسی اور خفیہ ایجنسیوں کا خاصہ ہے کہ متعدد ملکی اور غیر ملکی اہم عہدیداروں کے لئے جال بچھاتی ہیں، انہیں رسوا کردیتی ہیں، ان کے شواہد اور ثبوت تیار کرتی ہیں اور پھر انہیں بلیک میل کرکے ان سے معلومات حاصل کرتی ہیں اور اگر ان کی متعلقہ حکومتوں کے مفاد کے خلاف کوئی اقدام کریں تو مذکورہ معلومات برملا کرکے ان کی عزت و آبرو کو فنا کردیتی ہیں اور یوں یا تو انہیں استعفا دینا پڑتا ہے یا پھر انہیں برخاست کیا جاتا ہے۔
ڈیوڈ پیٹراس اسکینڈل سمیت مذکورہ بالا تمام تر اسکینڈلز خفیہ ایجنسیوں کی پالیسیوں اور تزویری حکمت عملیوں کا کامل نمونہ فراہم کرتے ہیں اور ان پالیسیوں میں حتی کہ حلیفوں کو بھی نہیں بخشا جاتا۔
یہ درست ہے کہ یہودی ریاست نے ڈیوڈ پیٹراس کو رسوائے سر بازار کردیا لیکن وہ اس حقیقت کو نہیں بدل سکی کہ اس کی خباثت آلود زندگی کے چند ہی دن باقی ہیں اور اب فلسطین میں قائم قابض و غاصب یہودی ریاست کو منہا کرکے نئے مشرق وسطی یا مغربی ایشیا کے نئے نقشے کا تصور ہر کسی کے ذہن میں ابھرنا چاہئے، وہی غاصب ریاست جس کے بچاؤ کے لئے امریکہ عرب ریاستوں کو لوٹ رہا ہے اور عرب ریاستوں نے اپنے مقدرات کو اسی ریاست کے مفادات سے جوڑ رکھا ہے۔ گویا وہ سمجھ رہی ہیں کہ اسرائیل نامی ریاست کی بقاء ان کی بقاء کی ضامن ہے کیونکہ بنی سعود کی حکومت سمیت خلیج فارس کی عرب ریاستوں کا قیام اسرائیل کو تحفظ دینے کے لئے عمل میں لایا گیا تھا اور اسرائیل کا خاتمہ ان کے فلسفۂ بقاء کے خاتمے کے مترادف ہوگا؛ بہرحال وہ پوری دولت اور طاقت اور امریکی اثر و رسوخ کو استعمال کرکے بھی نوشتہ دیوار کو مٹانے سے عاجز ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔