صہیونیت کے خلاف یہودیوں کی ایک صدی پر مشتمل جدو جہد

  • ۴۷۰

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: ’’صہیونیت کے خلاف یہودیوں کی ایک صدی پر مشتمل جدو جہد‘‘ (A Threat from Within: A Century of Jewish Opposition to Zionism)  مصنف اور کنیڈا کی مونٹرال یونیورسٹی کے تاریخ کے استاد پروفیسر ’’یاکوو روبکین‘‘ (Yakov M. Rabkin) کے قلم سے صفحہ قرطاس پر آنے والی کتاب ہے۔
پروفیسر یاکوو روبکین روس میں پیدا ہونے والے مذہب کے اعتبار سے ایک یہودی نقطہ نظر کے حامل فرد ہیں، اور انہیں بین الاقوامی برادری میں یہودیوں اور عربوں کے اسپشلٹسٹ و ماہر کے طور پر جانا جاتا ہے ۔
اس کتاب میں روبکین نے یہودیوں کے دینی متون اور انکے تعلیمات نیز انکے تاریخی شواہد کی روشنی میں صہیہونیوں کے اپنے آپ کو یہودی کہلائے جانے والے دعوے کو چیلنج کیا ہے اورانکی کوشش اس کتاب میں یہ ہے کہ صہیونیوں کو دین یہود کے مقابل قرار دے کر یہ ثابت کیا جا سکے کہ صہیونیوں نے یہودیوں کے دفاع کا نعرہ دے کر یہودیوں کی حمایت کے تحت ہرگز اپنی حکومت نہیں بنائی ہے اور فلسطین یہودیوں کا ملک نہیں ہے { یہ یہودیوں کا کھوکھلا نعرہ ہے کہ ہم نے یہودیوں کی حمایت و انکے دفاع میں اسرائیل کی صورت ایک ملک بنایا ہے}
 
”صہیونیت کے خلاف یہودیوں کی ایک صدی پر مشتمل جدو جہد ،، میں کے مخاطبین اس کتاب کے ذریعہ صہیون مخالف تحریکوں سے آشنا ہو جاتے ہیں اور ان کے لئے یہ بات واضح و ثابت ہو جاتی ہے کہ صہیونیت نہ صرف یہ کہ حقیقت میں زوال پذیر ہے بلکی خود یہودی متون میں بھی اسے نابودی پر محکوم کیا گیا ہے ۔
”صہیونیت کے خلاف یہودیوں کی ایک صدی پر مشتمل جدو جہد ،، نامی کتاب سات فصول اور چار مقدموں پر مشتمل ہے
اس کتاب کی پہلی فصل میں مصنف نے صہیونیت کی تاریخ کو بیان کیا ہے دوسری فصل میں آئین یہود میں ہونے والی تحریفات کو بیان کیا گیا ہے
گناہ اور یہودیوں کا مقدس سرزمین سے دربدر ہونا جیسے مفاہیم نیز صہوینی تفکر کی اساس و بنیاد اور انکی فلسطین کی طرف بازگشت کو تیسری فصل میں بیان کرتے ہوئے اسکا جائزہ لیا گیا ہے ۔
چوتھی فصل کا عنوان ” طاقت کا استعمال اور زور زبردستی “ہے اور ”صہیونیت کے خلاف یہودیوں کی ایک صدی پر مشتمل جدو جہد ،، نامی کتاب کے ایک اہم حصے پر مشتمل ہے ۔
پروفیسر یاکوو روبکین نے اس فصل میں صہیونیوں کے ذریعہ اپنے مقاصدکے حصول میں جبر وتشدد کو قانونی حیثیت بخشنے اوو دین یہود میں زور زبردستی کو جواز فراہم کرانےکا تجزیہ کیا ہے نیز صہیونیوں کے اقتصادی و سیاسی تسلط کا بخیہ ادھیڑتے ہوئے اسکی حقیقت کو واضح کرنے کی کوشش کی ہے۔
پروفیسر یاکوو روبکین کتاب کی پانچویں فصل میں اسرائیلی حکومت کی تشکیل کے سلسلہ سے سے اخذ کئے جانے والے مواقف اور حکومت اسرائیل کے سلسلہ سے ماخوذہ فیصلوں کے پر تبصرہ کرتے ہوئے مختلف موقفوں کے درمیان کے فرق کو بیان کرنے کی کوشش کی ہے اور اس سلسلہ سے وہ کہتے ہیں “سرزمین اسرائیل پر بسنے والے بیشتر لوگ انیسویں صدی کے اواخر میں صہیونیوں کے ظاہر ہونے کے سلسلہ سے نفرت کا اظہار کرتے رہے تھے { انکے خیال میں صہیونیوں کا انیسویں صدی میں ظہور نامبارک تھا اور وہ صہیونی تحریک سے ناخوش تھے } چنانچہ یروشلم کے مومن یہودی ان افراد میں تھے جنہوں نے سب سے پہلے حقیقت میں ان نو واردوں کے سلسلہ سے اظہار خیال کیا اور تورات کے خلاف شورش کرنے والوں کے طور پر انہیں پیش کرتے ہوئے شر انگیز و خطرناک قرار دیتے ہوئے ان کے خلاف اپنے رد عمل کا اظہار کیا ۔
پروفیسر یاکوو روبکین کتاب کی چھٹی فصل میں ان افکار و نظریات کو پیش کیا ہے جواسرائیلی حکومت کی تشکیل کی نسبت اور یہودیت کے دوام نیز یہود مخالفت کے سلسلہ سے بیان ہونے والے نظریات کی بہ نسبت بیان ہوئے ہیں ۔
پروفیسر یاکوو روبکین نے کتاب کے اس حصے میں اسرائیل کو خطرے کی دہلیز پر قرار دیتے ہوئے اسرائیل کے وجود کو یہودیوں کی بے ثباتی کا سبب بیان کیا ہے ۔
پروفیسر یاکوو روبکین نے اپنی کتاب ”صہیونیت کے خلاف یہودیوںکی ایک صدی پر مشتمل جدو جہد ،، کے آخر میں پروفیسر یوہن سلیمن اور بت مورشا فیکلٹی کے طالب علموں کا شکریہ ادا کیا ہے ۔

 

جینسا (JINSA) ریسرچ سینٹر کا تعارف

  • ۴۴۹

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: دنیا میں بسنے والے خاص کر امریکی یہودیوں کو انکے کاموں کے حساب سے ایک چارٹ کے تحت منظم کیا گیا ہے، تقسیم کی بنیاد ہر ایک کا کام ہے، جو جس قسم کا کام کر رہا ہے اسی کے تحت اسے قرار دیا گیا ہے اور یہ لوگ محولہ چارٹ کے تحت اپنے اور صہیونی رژیم کے مسائل کی دیکھ ریکھ کرتے ہیں، یہ لوگ مختلف تحقیقاتی مراکز میں در آئے ہیں اور انہوں نے بعض فکری حلقوں کو بھی اپنے آپ سے مخصوص کر لیا ہے، قومی سلامتی کا یہودی ادارہ JINSA (Jewish Institue For National Security offairs ان لوگوں سے مخصوص ہونے والے مراکز میں ایک ہے۔
جینسا (JINSA) اسرائیل کا حامی ایک ایسا رسرچ سینٹر ہے جو واشنگٹن میں واقع ہے اور ۱۹۷۶ ء میں قومی سلامتی پر فوکس کرتے ہوئے اس کی تاسیس ہوئی ۔ اس ریسرچ سینٹر کا ہدف امریکن کانگریس کے نمائندوں نیز امریکن قومی سلامتی کے ڈپارٹمنٹ میں عسکری و غیر عسکری پالیسی سازوں و قوت فیصلہ رکھنے والے افراد کی امریکہ کے اسٹراٹیجک ودفاعی مفادات کے شعبہ میں تعلیم و تربیت کرنا ہے جو غالبا مشرق وسطی میں امریکی پالیسی کا حصہ ہے، اور ان تمام امریکن مفادات کا اصلی محور امریکہ و اسرائیل کے درمیان ایک مضبوط مشترکہ تعاون بھی اسی ہدف کے طور پر بیان ہوا ہے ۔ یہ مرکز امریکہ و اسرائیل کے مابین سلامتی سے متعلق مشترکہ تعاون کی سطح کے ارتقاء کے لئے مخصوص پروگرامز کی منصوبہ بندی کرتے ہوئے انہیں تجویز کرتا ہے ۔
جینسا (JINSA) جہان اسلام میں رونما ہونے والی اسلامی بیداری کی تحریک کو ایک سیاسی تحریک کے طور پر پیش کرتا ہے جسکا مقصد مغربی ایشیا کے علاقے میں امریکہ و اسرائیل کے ساتھ انکے بہت سے حلیفوں سے مقابلہ آرائی ہے، چنانچہ اسی بنا پر کہ یہ تحریک امریکہ اور اس کے حلیفوں کے لیے ایک اسٹراٹیجکل خطرہ ہے اور اسے وہ اپنے لئے ایک دھمکی کے طور پر دیکھتے ہیں اسی لئے انکی نظر میں اس سے مقابلہ بہت ضروری ہے ۔
اس مرکز کے اہم اہداف یہ ہیں :
بازار تلاش کرنا اور فوجی اسلحوں کو علاقے میں صہیونی رژیم کی عسکری و سیکورٹی ضرورتوں کے پورا ہونے کی خاطرعرب دنیا میں فروخت کرنا ۔
اسلامی جمہوریہ ایران کی جوہری توانائی و علمی فعالیتوں کی راہ میں روڑے اٹکانا اور ان سے مقابلہ ۔
مغربی ایشیا کے علاقے میں صہیونی رژیم کی عسکری طاقت کی بالا دستی کو قائم رکھنا۔
مشرق وسطی میں مزاحمت کے محاذ اور جہاد اسلامی سے جڑے لوگوں کی علمی، فرہنگی اور عسکری پیشرفت کا مقابلہ کرنا۔
 
اس مرکز کی اہم شخصتیں یہ ہیں:
Mark Broxmeyer, David P. Steinmann, Stephen D. Bryen, Anthony Cordesman, Tom Newman, Leon Edney, Micheal Ledeen, Eugene Rostow.
جینسا (JINSA) اپنے کام میں مہارت رکھنے والے باخبر صاحبان صلاحیت کے ساتھ وسیع پیمانے پر متعلقہ کاموں کو سیکھنے والے افراد کو بھی خود سے جوڑے ہوئے ہیں جو اسکے اہداف کے تحت کام کرتے ہیں ۔
جینسا (JINSA) کے تین اکیڈمک سمسٹروں میں اسٹوڈنٹس کا داخلہ، خزان، بہار اور گرمیوں کے موسم میں، جولائی، مارچ، اور نومبر میں دی جانے والی درخواستوں کے بعد عمل میں آتا ہے اور اس مرکز میں خدمت کئے جانے کا فیصلہ درخواست کے دئے جانے کے چار ہفتوں کے بعد لیا جاتا ہے، امید وار اپنے تعلیمی مراحل کو طے کرنے کے بعد، عملی نفاذ سے متعلق حمایت، تحقیق و ریسرچ، سایٹ کے لئے مقالات کے تحریر کرنے مختلف پروگراموں کی منصوبہ بندی اور انکے تہیہ کرنے میں معاونت جیسی کارکردگیوں میں حصہ لیتے ہیں اور متعلقہ سمیناروں اور کانفرنسوں میں شریک ہوتے ہیں ۔
جینسا (JINSA) کی علمی اور ذرائع ابلاغ سے متعلق کارکردگی :
جینسا (JINSA) کی آن لائن سائٹ اس مرکز سے جڑی خبروں اور تحریر شدہ مقالات کو منظر عام پر لاتی ہے، جینسا (JINSA) کے چار جریدے ہیں جن میں اس مرکز کے اعضاء ممبران کے عسکری اور سیاسی موضوعات پر ہونے والے مطالعات کے حاصل اور نچوڑ کو پیش کیا جاتا ہے اور ان جرائد کے مندرجات میں جینسا (JINSA)سے جڑے ممبران کے مطالعات کا لب لباب ہوتا ہے۔
یہ چار جرائد حسب ذیل ہیں :
o Security Affairs
o National Securily Quarterly
o Viewpoints
Middle East Media Survey
منابع:
۔ www.jinsa.org
۔ http://nedains.com/fa/news/315949/
http://www.zien.maarefefelestin.com/index.php ۔
www.Jinsa.org/articles/print/html/8183.
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

’یسرائیل ڈیوڈ ویس‘ کی شخصیت کا تعارف

  • ۴۳۳

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: یسرائیل ڈیوڈ ویس (Yisroel Dovid Weiss) ایک یہودی ربی (خاخام) اور صہیونیت مخالف بین الاقوامی یہودی یونین کے ترجمان ہیں۔ وہ ۱۹۵۶ میں نیویارک میں پیدا ہوئے۔
ڈیوڈ ویس صہیونیت کے مخالف اور ہولوکاسٹ کے منکر ہونے کے عنوان سے معروف ہیں۔ وہ کہتے ہیں: ’’ہمیں اس بات کی اجازت نہیں ہے کہ ہمارے پاس اپنا ایک ملک ہو۔ حتی ایک ایسی متروکہ سرزمین کو بھی ہم اپنا ملک نہیں بنا سکتے جہاں کوئی رہائش پذیر نہ ہو۔ نیز وہ قائل ہیں کہ واقعی یہودیوں کو چاہیے کہ وہ پرامن طریقے سے موجودہ صہیونی ریاست ’’اسرائیل‘‘ کا مقابلہ کریں‘‘۔
ڈیوڈ ویس ہمیشہ کوشش کرتے ہیں یہودیت اور صہیونیت کے درمیان ایک سرحد قائم کر کے یہ ثابت کریں کہ صہیونیوں کا یہودیت سے کوئی رشتہ نہیں ہے۔ ویس اس نکتے کو بیان کرنے کے ساتھ کہ یہودیوں کی دعاؤں کی کتابوں میں، اس قوم کو ان کے گناہوں کی وجہ سے ملک بدر کر دیا گیا تھا، لیکن صہیونیوں نے اسرائیل کا قیام کر کے عہد شکنی کی‘‘۔ وہ کہتے ہیں: صہیونیوں نے دین یہودیت کو تحریف کیا ہے۔ وہ یہودی قوم کی سرزمین موعود میں بازگشت کے نظریہ کو مزاق سمجھتے ہیں۔
چند ایک وہ کانفرنسیں جن میں ڈیوڈ ویس کو میہمان خصوصی کے عنوان سے دعوت دی جاتی رہی ہے:
· اقوام متحدہ کی نسل پرستی کے خلاف کانفرنس، جنوبی افریقہ، سنہ ۲۰۰۱
· سامراجیت مخالف کانفرنس، ایران، سنہ ۲۰۱۷
· افق نو کانفرنس بعنوان ’’قدس فلسطین کا دائمی پایتخت‘‘ ایران، ۲۰۱۸
یسرائیل نے ۲۰۰۶ میں منعقدہ ایک کانفرنس میں بیان کیا تھا کہ اسرائیلیوں نے ہولوکاسٹ کا ڈھونگ رچا کر اپنی مظلومیت کو چرچا کیا اور اس کے ذریعے اپنے مقاصد حاصل کئے۔ ان کی اس تقریر کے بعد صہیونیوں نے ان پر شدید تنقیدی حملے کئے۔
ڈیوڈ نے ۲۰۱۷ میں ایران میں منعقدہ کانفرنس میں کہا کہ صہیونی ریاست کے جرائم کا دین یہودیت سے کوئی تعلق نہیں ہے اور اسرائیل کا وجود پوری دنیا کی سالمیت کے لیے خطرہ ہے۔
ڈیوڈ نے ایران میں منعقدہ اس سال ’افق نو‘ کانفرنس میں تقریر کرتے ہوئے درج ذیل موضوعات پر روشنی ڈالی:
’’صہیونیوں نے خدا کے عہد کو نسل پرستی، قومی پرستی اور دین کے نام سے بدل دیا ہے۔ اسرائیلی خدا کی مالکیت کے منکر ہیں اور طاقت کو اسلحہ کے مفہوم سے ثابت کرتے ہیں‘‘۔
یسرائیل ڈیوڈ ویس نے اس کانفرنس میں مزید کہا کہ دین یہودیت صہیونیت کے لیے کسی طرح کے جواز کا قائل نہیں ہے اور یروشلم کو اسرائیل کا دار الحکومت قرار دینا ایک بڑی غلطی ہے۔
انہوں نے ایرانی اور عربی میڈیا کو انٹرویو دیتے ہوئے واضح اعلان کیا کہ اسرائیل اور حزب اللہ کے درمیان ممکنہ جنگ میں کبھی بھی صہیونی ریاست کی حمایت نہیں کریں گے۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا: یہودی فقہ کے مطابق، ایک مستقل ملک رکھنا ہمارے لیے ممنوع اور ناجائز ہے۔ خدا نے ہمیں سرزمین مقدس سے باہر نکال دیا تھا تاکہ دو ہزار سال تک اس عہد کو پورا کر سکیں، لیکن صہیونیوں نے اس فرمان الہی کی مخالفت کرتے ہوئے ایک مستقل ملک تشکیل دے دیا۔

 

اسلامی محاذ مزاحمت سرزمین شام ہی کیوں؟

  • ۲۸۵

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ کے مطابق، اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ شام کے ملک، قوم اور حکومت کو لبنان اور فلسطین میں محاذ مزاحمت کی زبردست حمایت کے بدلے سامراجی طاقتوں کے غیظ و غضب کا نشانہ بننا پڑا ہے اور شاید سامراجی طاقتیں، یہودی ریاست اور علاقے میں استعمار کے کٹھ پتلی شام سے اسلامی جمہوریہ ایران کی بےلوث حمایت کا بھی بدلہ لینا چاہتے تھے؛ اور بہرحال شام فلسطین میں مغربی استکباری مورچے کے محاذ مزاحمت کا اگلا مورچہ ہے اور محاذ مزاحمت کے فلسفے کا تقاضا ہے کہ اس حکومت اور اس ملک کا دفاع کیا جائے۔
جس طرح کہ مزاحمت کے دو “دینی اور تزویری” پہلو ہیں، شام میں مزاحمت کے بھی دو پہلو ہیں اور ایک اسلامی ملک، اس میں موجود مقامات مقدسہ، اس کی سرزمینی سالمیت اور جغرافیائی اعتقادی سرحدوں کا تحفظ دینی لحاظ سے بھی واجب ہے اور تزویری لحاظ سے بھی “غیور، فعال، سیاسی اور با استقامت اسلام نیز اسلامی مزاحمت کی بقاء کا تحفظ اور اسلام کی قلمرو میں کفر کی پیشقدمی روکنا” واجب اور ضروری ہے۔


حکومت شام کی درخواست
قانونی لحاظ سے، صرف وہ ممالک کسی ملک میں بحران کی کیفیت ظاہر ہونے کی صورت میں مداخلت کرسکتے ہیں جنہیں اس ملک کی قانونی حکومت نے ایسا کرنے کی دعوت دی ہو اور اسلامی جمہوریہ ایران اور اسلامی مزاحمت محاذ شام کی قانونی اور آئینی حکومت کی درخواست پر اس سرزمین شام میں حاضر ہوا اور اس کو استکبار کے حلق سے کھینچ کر محفوظ بنایا اور اس کے استقلال اور سالمیت کو تحفظ دیا۔ اور ۱۰ سالہ، ۵۰ سالہ اور ۱۰۰ سالہ منصوبوں کے خاکہ کشوں کو ۲۰۰۶ع‍کی ۳۳ روزہ جنگ کے بعد، ایک بار پھر اپنے منصوبہ بندیوں میں شکست کا سامنا کرنا پڑا؛ اور اب وہ مسائل کی فروعات پر بحث و مباحثے کررہے ہیں اور شام کے سیاسی نظام کی قانونی حیثیت کو تسلیم کرچکے ہیں۔
شام میں محاذ مزاحمت کی موجودگی، بنی سعود، قطر، ترکی، امارات، امریکہ، فرانس نیز القاعدہ، النصرہ، داعش اور درجنوں چھوٹے بڑے دہشت گرد ٹولوں کی طرح ناجائز اور غیر قانونی نہیں ہے کیونکہ یہ ممالک اپنے ناجائز مقاصد کے حصول کے لئے شام کی سرزمین پر آموجود ہوئے ہیں اور یہ دہشت گرد ٹولے ان ہی ممالک کے حمایت یافتہ ہیں اور ان ہی کے لئے خون خرابے میں مصروف ہیں جبکہ محاذ مزاحمت حکومت شام کی دعوت پر یہاں کے عوام اور سرزمین کی حفاظت کے لئے کردار ادا کررہا ہے۔


دوستی اور دفاع مظلوم کے تقاضے
جیسا کہ بیان ہوا، جس وقت اسلامی جمہوریہ ایران بین الاقوامی اور علاقائی سطح پر بالکل تنہا تھا، اس کے پاس طاقتور فوج نہیں تھی، اور کوئی اس کو ہتھیار نہیں بیچ رہا تھا اور تمام عرب ممالک صدام کی پشت پر کھڑے تھے، شام اسلامی جمہوریہ ایران کے ساتھ کھڑا ہوا گوکہ ان دنوں لیبیا، الجزائر اور جنوبی یمن نے بھی ایران کے ساتھ دشمنی نہیں کی۔ عرب جمہوریہ شام کی طرف سے اسلامی جمہوریہ ایران کی ہمہ جہت حمایت کی وجہ سے صدام کی قیادت میں قائم عرب محاذ میں دراڑ پڑ گئی، جو ان دنوں اسلامی جمہوریہ کی ضرورت تھی۔
اس وقت کے شامی صدر حافظ الاسد نے اپنی وصیت میں کہا تھا کہ “اگر کبھی شام پر برا وقت آیا تو ایران سے مدد مانگ لو، اور ایران وہ واحد ملک ہے جو شام کی مدد کو آئے گا”؛ چنانچہ کہا جاسکتا ہے کہ جس وقت شام ایران کو امداد فراہم کررہا تھا، اسے یہ بھی توقع تھی کہ ایران دوستی کے تقاضوں کو پورا کرے گا، گوکہ ایران ان ہی ایام میں بھی جولان کی طرف سے یہودی ریاست کی کسی بھی جارحیت کا منہ توڑ جواب دینے کے لئے شامی افواج کی مدد کررہا تھا اور جاننے والے اس حقیقت سے بخوبی واقف ہیں؛ یا یوں کہئے کہ اسلامی جمہوری نظام، دنیا بھر کے اسلامی ترین اور اخلاقی ترین نظام کے طور پر کبھی بھی اپنے فرائض کی انجام دہی سے غافل نہیں رہا اور اسے یقین راسخ ہے کہ نیکی کا بدلہ نیکی کے سوا کچھ اور نہیں ہے جیسا کہ قرآن کریم میں ذوالجلال والاحسان عز و جل کا ارشاد ہے: “هَلْ جَزَاء الْإِحْسَانِ إِلَّا الْإِحْسَانُ؛ کیا اچھائی کا بدلہ اچھائی کے سوا کچھ اور ہے؟”. (رحمٰن، ۶۰)
اسلامی جمہوریہ ایران کے وجود کا فلسفہ دنیا کے مستضعفین اور مسلمانوں کی حمایت پر استوار ہے اور حتی کہ اس کے آئین کے تقاضے بھی کچھ ایسے ہی ہیں، یہ اسلامی اخلاقیات کا مبلغ ملک ہے، پہلے خود عمل کرتا ہے اور پھر دوسروں کو دعوت عمل دیتا ہے۔ یہاں سب اس حدیث شریف پر یقین کامل رکھتے ہیں کہ ” مَنْ اَصْبَحَ لا یَهْتَمُّ بِاُمورِ الْمُسْلِمینَ فَلَیْسَ مَنْهُمْ وَمَنْ سَمِعَ رَجُلاً یُنادى یا لَلْمُسْلِمینَ فَلَمْ یُجِبْهُ فَلَیْسَ بِمُسْلِمٍ ؛ جس نے صبح کی جبکہ مسلمانوں کے امور کو اہمیت نہیں دے رہا ہے، وہ مسلمان نہیں ہے اور جس نے ایک مسلمان کی مدد کی پکار سنی اور لبیک کہنے سے گریز کیا، تو وہ مسلمان نہیں ہے”۔ (الکافی، ج۲، ص۱۶۳) گوکہ اس حدیث کی بنیاد پر، جب ایک مسلم ملک کو کفر کی یلغار کا سامنا ہو تو ہر اس شخص پر اس کی مدد کرنا فرض ہے جو مسلمان کہلاتا اور کہلواتا ہے۔ نیز حضرت امیرالمؤمنین علی علیه السلام نے امام حسن اور امام حسین علیهما السلام سے وصیت کرتے ہوئے فرمایا: “کُونا لِلظّالِمِ خَصماً ولِلمَظلُومِ عَوناً؛ ظالم کے دشمن اور مظلوم کے مددگار بنے رہنا”۔ (مکتوب نمبر ۴۷، نہج البلاغہ)


شرعی اور دینی واجب
مغربی حکومتیں اور ان کی چوٹی پر مستکبر امریکہ، حال ہی میں شام اور عراق میں اپنی ہمہ جہت شکستوں کے بعد، شام میں اور علاقے کے دوسرے ممالک میں اسلامی جمہوریہ ایران کے اثر و رسوخ یا موجودگی اور اس کی میزائل قوت پر شور مچائے ہوئے ہیں، جو در حقیقت مستکبر طاقتوں اور علاقے میں ان کے کٹھ پتلیوں کی کمزوری اور بے بسی کا ضمنی اعتراف ہے۔
مسٹر ٹرمپ نے حال ہی میں “مدعی سست گواہ چست” کا مصداق بن کر اپنے متنازعہ اور نامعقول پیغامات اور خطابات میں اس جملے کو مسلسل دہرا رہے ہیں کہ “اسلامی جمہوری حکومت ایرانی عوام کی دولت کو شام اور دوسرے ممالک میں ضائع کررہی ہے اور اس کے اپنے عوام کیا ہیں اور کیا نہیں ہیں؛ جبکہ وہ اس بات کی ہرگز وضاحت نہیں کرتے کہ امریکہ شام، عراق، قطر، بحرین، سعودی عرب، کویت، افغانستان، یمن، کوریا، اور جاپان سمیت دنیا بھر کے سینکڑوں علاقوں میں کیوں موجود ہے؟ کیا اس سلسلے میں جو اخراجات امریکی عوام کو برداشت کرنا پڑ رہے ہیں، ان کے لئے کوئی منطقی اور عقلی جواز ہے؟ اور اگر ان سے یہی سوال پوچھا جائے تو بے دھڑک کہیں گے کہ امریکہ سے کئی ہزار میل دور کے “ان علاقوں میں ہم امریکی مفادات کا تحفظ کررہے ہیں”، لیکن وہ اسی اثناء میں یہی حق اسلامی جمہوریہ ایران یا کسی بھی دوسرے ملک کو دینے کے لئے تیار نہیں ہیں۔ کیونکہ امریکی استکبار دنیا کو اپنی ملکیت سمجھنے پر اصرار کرتا ہے اور اسلامی جمہوریہ ایران جیسی ابھرتی طاقتوں کے عالمی اور علاقائی کردار کو برداشت نہیں کرتا؛ گوکہ زبانی نعروں اور تنقید و اعتراض اس کی کمزوری کی علامت ہے ورنہ تو جب وہ طاقتور تھا تو کوئی جواز پیش کئے بغیر معمولی بہانوں سے ممالک پر چڑھائی کرتا رہا ہے لیکن اب اسے زبانی لڑائی پر اکتفا کرنا پڑ رہا ہے کیونکہ اسلامی جمہوریہ ایران پوری طاقت کے ساتھ عالمی سیاست میں کردار ادا کرنے کے لئے میدان میں موجود ہے۔
اور دوسری طرف سے خداوند متعال قرآن کریم میں ارشاد فرماتا ہے:
“یَا أَیُّهَا الَّذِینَ آمَنُواْ خُذُواْ حِذْرَکُمْ فَانفِرُواْ ثُبَاتٍ أَوِ انفِرُواْ جَمِیعاً؛ اے ایمان لانے والو!اپنی حفاظت کا سامان مکمل رکھو اور پھر جب وقت آئے تو نکل کھڑے ہو خواہ دستہ دستہ ہو کر الگ الگ اور خواہ اکٹھا نکلو”۔ (نساء، ۷۱)
نیز حضرت حق تعالی ٰ ارشاد فرماتا ہے:
“وَدَّ الَّذِینَ کَفَرُواْ لَوْ تَغْفُلُونَ عَنْ أَسْلِحَتِکُمْ وَأَمْتِعَتِکُمْ فَیَمِیلُونَ عَلَیْکُم مَّیْلَةً وَاحِدَةً؛ کفار کی تو آرزو یہ ہے کہ تم لوگ اپنے ہتھیاروں اور سامانوں سے غافل ہو جاؤ تو وہ تم پر ایک دم ٹوٹ پڑیں”۔ (نساء، ۱۰۲)
نیز فرماتا ہے:
“وَأَعِدُّواْ لَهُم مَّا اسْتَطَعْتُم مِّن قُوَّةٍ وَمِن رِّبَاطِ الْخَیْلِ تُرْهِبُونَ بِهِ عَدْوَّ اللّهِ وَعَدُوَّکُمْ وَآخَرِینَ مِن دُونِهِمْ لاَ تَعْلَمُونَهُمُ اللّهُ یَعْلَمُهُمْ؛ اور مہیا رکھو ان کے لیے جو تم فراہم کر سکو طاقت کی قسم سے (افرادی قوت، جدیدترین ہتھیار اور جنگی اخراجات اور) اور بندھے ہوئے تیار گھوڑوں (اور نقل و حرکت کے مناسب وسائل) کو مورچوں پر تیار رکھنے کی صورت سے، جن کے ذریعے سے تم خوفزدہ بناؤ اللہ کے دشمن اور اپنے دشمن اور دوسروں کو جو ان کے علاوہ ہیں، جنہیں تم نہیں جانتے ہو، اللہ انہیں جانتا ہے”۔ (انفال، ص۶۰)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

کتاب ’فلسطین، امریکیوں کی نگاہ میں‘ کا تعارف

  • ۳۷۶

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: امریکی حکومت اور وہاں کے باشندوں کی فلسطین کے سلسلہ میں شناخت کی بنیاد کو امریکی رائے عامہ پر مسلط ،فرہنگی و ثقافتی ،اجتماعی اور سیاسی آئیڈیلس کی طرف توجہ کر کے دریافت کیا جا سکتا ہے ، (یعنی آج اگر کوئی چاہے کہ فلسطین کے سلسلہ سے امریکہ کے لوگوں اور وہاں کی حکومت کے موقف کو جانے اور یہ سمجھنا چاہے کہ فلسطینیوں کے سلسلہ سے امریکی شناخت کا مبنا کیا ہے تو ضروری ہے کہ وہ وہاں کی رائے عامہ پر مسلط آئیڈیلس کی طرف رجوع کرے )سرزمین فلسطین پر غاصب اسرائیل کے قبضہ سے برسوں پہلے امریکہ کی رائے عامہ نے دنیا کو دو حصوں میں بانٹ رکھا تھا، اس دو قطبی دنیا کے زاویہ دید میں جو بظاہر سامراجیت imperialism [1] امپریالزم کے خیر خواہانہ مفروضہ سے فروغ حاصل کر رہا تھا ، دنیا دو حصوں میں منقسم تھی ، ایک طرف وہ متمدن مغرب تھا کہ جو فنی مہارتوں کا حامل تھا ،دنیا کی پیشرفت کا نمائندہ تھا اور دنیا کے لئے ایک کار آمد ماڈل جسکی پیروی دنیا ایک آئیڈیل کے طور پر کر سکتی تھی ،دوسری طرف پچھڑا ہوا مشرق تھا جو اپنی ترقی و پیشرفت کے لئے رہنمائی و ہدایت کا محتاج تھا کہ کوئی اسکی انگلی تھام کر اسے ترقی کے زینوں پر گامزن کر سکے
دنیا میں بسنے والے انسانوں کی شرق و غرب کے محور پریہ تقسیم صرف امریکی عوام کے اذہان میں نہ تھی بلکہ امریکہ کے شعر و لٹریچر میں بھی اپنی پیٹھ بنا چکی تھی ، اور غیر مغربی ممالک کے سلسلہ سے انکی نظر یورپ کی طرح ایک ایسے دو قطبی تصور کائنات سے ماخوذ تھی جس میں دنیا دو حصوں میں امپریا لسٹی طرز فکر سے ماخوذ نتائج کے طور پر تقسیم ہے ۔
«فلسطین :امریکیوں کی نگاہ میں » [۲]ویسٹ چسٹر یونیورسٹی [۳]میں مشرق وسطی کی تاریخ کے استاد لاورنیس ڈیوڈسان[۴] ، کے قلم سے سپرد قرطاس ہونے والی ایک تنقیدی نقطہ نظر سے لکھی جانے والی کتاب ہے ، اس کتاب میں مصنف نے فلسطین اور صہیونزم کے سلسلہ سے امریکی حکام اور امریکی باشندوں کے درک و فہم اور اس مسئلہ کے سلسلہ سے انکے تصور کو تنقیدی نظر سے دیکھنے کی کوشش کی ہے، یہ کتاب نو فصلوں پر مشتمل ہے جن میں فلسطین کے اسٹراٹیجک محل وقوع کے سلسلہ سے عالمی صہوینزم و امریکہ کے نقطہ نظر کی مصداقی اور تاریخی حقیقت کو پرکھنے کی کوشش کی گئی ہے اور بین الاقوامی صہیونی سیاست کے ساتھ انکے طرز فکر خاص کرامریکہ کے زاویہ نظر کو اس سلسلہ سے بیان کرنے کی کوشش کی گئی ہے ۔
«فلسطین :امریکیوں کی نگاہ میں »، بیسوی صدی کے نصف میں لگے پیکر بشریت پر کاری و گہرے زخم کے سلسلہ سے انجام پانے والی ایک بیرونی و ابجیکٹیو objective تحقیق ہے ۔
 
کتاب کے مصنف لاورنیس ڈیوڈسان Lawrence Davidson ، کا ماننا ہے کہ ۱۹۱۷ ء میں اعلان بالفور [۵]کے بعد ۱۹۴۸ میں اسرائیل کی تشکیل تک صہیونیت کی یہی کوشش رہی کہ فلسطین کو ایک یہودی نشین ریاست میں تبدیل کر دیا جائے ،اور اسی بنا پر صہیونیت مغرب کے فلسطین سے مذہبی و انجیلی رابطہ سے ناجائز فائدہ اٹھاتی رہی ( یعنی صہیونیوں نے عیسائیوں کے فلسطین سے مذہبی رابطہ کا غلط فائدہ اٹھا کر انہیں اپنے مقاصد کے حصول کے سلسلہ سے استعمال کیا ) مصنف کا ماننا ہے کہ یہی رجحان اس بات کا سبب بنا کہ امریکہ کے باسی صہیونیت کو ایک خیر خواہانہ اور اپنے حق میں مفید سامراجیت امپریالسزم imperialism کی حیثیت سے دیکھیں جس نے ایک تمدن اور شاد و آباد و زندگی کو پچھڑے ہوئے فلسطین پر ارزاں رکھا ( یعنی یہ خیر خواہانہ سامراجی امپریالسیٹی زوایہ دید سبب بنا کہ امریکہ کے لوگ اسے ایک تمدن کے پھلنے پھولنے اور اور خوشحالی و ترقی کا سبب جانیں اور انہوں نے پچھڑے فلسطین پر آباد اسرائیل کو مقدم جانا )
لاورنیس ڈیوڈسان Lawrence Davidson ، اپنی اس کتاب میں امریکی حکام کے ذریعہ فلسطین کو یہودی ریاست میں تبدیل کر دینے کے مراحل اور اسکی سیر کی طرف بھی کتاب میں اشارہ کرتے ہیں اور انکا ماننا ہے کہ ۱۹۴۵ تک امریکی صہیونی اپنے اہداف تک پہچنے کے لئے جو مقدمہ چینی کر رہے تھے اس میں وزارت خارجہ کا روڑا اٹکا تھا اور خود امریکی وزارت خارجہ انکے اہداف کے حصول میں مانع بن رہی تھی ۔ چنانچہ مصنف نے اس کتاب میں فلسطین میں طرفین کی لڑائی کی بنیاد پر پیدا ہونے والے مخاصمہ کی روز افزوں کیفیت کے سلسلہ سے جائزہ لیتے ہوئے اس بات کو واضح کرنے کی کوشش کی ہے کہ کس طرح عالمی صہیونیت نے ایک طاقت ور اور عزم پیہم کے ساتھ نفوذ کر جانے والے گروہ کی صورت ایک امریکی خارجہ سیاسی پالیسی کو اپنے حق میں کر لیا، اور یہ گروہ کس طرح امریکہ کی خارجی سیاست کو اپنے مقاصد کے تحت استعمال میں لانے لگا اور اسے اپنے مقاصد کے ہمراہ کر لیا ۔
۔۔۔۔۔۔۔
حواشی:
.[۱] ایک ملک کی سرحدوں سے باہر جا کے دوسرے ملک کے اختیارات پر دخل اندازی کرنے کے عمل کو سامراجیت (imperialism) کہا جاتا ہے۔ یہ دخل اندازی جغرافیائی، سیاسی یا اقتصادی طور پر ہو سکتی ہے۔ کسی ملک یا کسی خطّے کو اپنے سیاسی یا مالیاتی اختیار میں لا کے وہاں کے باشندوں کو مختلف حقوق سے محروم کرنا اِس نظام کی سب سے ظاہری صورت ہے۔نوآبادیات کے ذریعہ اپنے سامراج کو وسعت دینے والا یہ نظام، نامناسب اقتصادی، تہذیبی اور جغرافیائی مسائل پیدا کرتا ہے۔
قدیم چینی سامراج اور سکندر کے یونانی سامراج سے جدید امریکی سامراجیت تک اس کی بے شمار مثالیں ہیں۔ انیسویں صدی کے نصفِ اوّل سے بیسویں صدی کے نصفِ اوّل تک کا زمانہ زمانۂ سامراجیت کے نام سے معروف ہے۔ برطانیہ،فرانس، اٹلی، جاپان، امریکہ وغیرہ جیسے ممالک نے اس زمانے میں عالمی پیمانے پر نوآبادیات قائم کیں۔
[۲]۔ America Palestine: Popular And Official Perceptions From Balfour To Israeli Statehood
.[۳] ۔ Pennsylvania
[۴] ۔ لاورنیس ڈیوڈسان Lawrence Davidson ، ، نے امریکی ریاست نیوجرسی کی ایک معروف یونیورسٹی روٹگیرز یونیورسٹی Rutgers University، سے تاریخ کے موضوع میں بے اے کی ڈگری حاصل کی اور ۱۹۶۷ء میں جارج ٹاون یونیورسٹی سےوابستہ ہوئے ۱۹۷۰ ء میں ڈیوڈسان نے امریکہ کو کینڈا کی غرض سے ترک کر دیا اورقیام کینڈا ہی کے دوران انہوں نے جدید پورپ کی فکری تاریخ کے موضوع پر پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی ۔ڈیوڈسان ۱۹۸۹ ء کی دہائی میں ویسٹ چسٹر یونیورسٹی میں مشرق وسطی کی تاریخ کے استاد کی حیثیت سے مصروف عمل ہوگئے ساتھ ہی تاریخ ِعلم اور جدید یورپ میں روشن خیالی کی تاریخ بھی تدریس کرنے لگے نیز اسی موضوع میں رسرچ و تحقیق سے بھی جڑ گئے ،
[۵] ۔اعلانِ بالفور اس اعلان کو کہا جاتا ہے جس کے بموجب برطانوی حکومت کی صیہونی یہودیوں سے ایک خفیہ معاہدے کی توثیق تھی جس کا تعلق پہلی جنگِ عظیم کے بعد سلطنتِ عثمانیہ کے ٹکڑے کرنے سے تھا۔ ۔ اس اعلان کی علامت برطانوی دفترِ خارجہ کے ایک خط کو سمجھا جاتا ہے جو ۲ نومبر ۱۹۰۱۷ء کو آرتھر جیمز بالفور (سیکریٹری خارجہ) نے صیہونیوں کے نام لکھا تھا۔ اس خط میں برطانیہ نے صیہونیوں کو یہودی ریاست کی تشکیل میں مدد کا یقین دلایا تھا اس خط سے یہ بھی واضح تھا کہ اس معاہدہ کی توثیق برطانوی کابینہ کے ایک خفیہ اجلاس میں ۳۱ ,اکتوبر۱۹۱۷ کو ہو چکی ہےچانچہ اسی اعلان کے تحت اسرائیل کا قیام عمل میں آیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

جمی کارٹر کی کتاب ’’فلسطین، امن نہ کہ نسل پرستی‘‘

  • ۳۴۰

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: کتاب “فلسطین، امن نہ کہ نسل پرستی” (۱) سابق امریکی صدر جمی کارٹر (۱۹۸۱ـ۱۹۷۷) کی تحریر ہے۔
یہ مشرق وسطی کا اہم ترین اور حساس ترین دور تھا جب امریکی خارجہ پالیسی جمی کارٹر کے ہاتھ میں تھی اور ان ہی کے زمانے میں مصر کے سابق صدر انورالسادات اور یہودی ریاست کے وزیر اعظم مناخم بیگن کے درمیان کیمپ ڈیویڈ معاہدہ طے پایا۔
جیمی کارٹر کی صدارت کا دور ختم ہوا تو بھی انھوں نے مختلف سیاسی مشنز کے ضمن میں مشرق وسطی کے موضوع اور امن کے کئی علاقائی اور عالمی منصوبوں کے ساتھ اپنا رابطہ جوڑے رکھا۔ چنانچہ مشرق وسطی کے حالات اور تبدیلیوں کے بہتر ادراک کے لئے کارٹر کی آراء سے واقفیت مفید ہے اور ان کی کتاب کا مطالعہ صرف اسی لئے تجویز کیا جاتا ہے کہ مشرق وسطی کے مطالعے کو زیادہ بہتر انداز سے آگے بڑھایا جاسکے۔
وہ اپنی کتاب میں ۱۹۷۰ع‍ کی دہائی کے آغاز سے علاقے کے جائزے کا آغاز کرتے ہیں اور علاقے کے پیچیدہ حالات کی بنا پر اٹھائے گئے سوالات پیش کرکے ان کے لئے اپنی سوچ کی بنیاد پر مناسب جوابات تلاش کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
کارٹر کہتے ہیں: “کوئی بھی خیالی افسانہ فلسطین ـ اسرائیل تنازعے کے خاتمے کی کوششوں سے زیادہ سنسنی خیز، غیر متوقع واقعات اور حیرت انگیز کرداروں سے بھرپور نہیں ہوسکتا۔ حقیقت یہ ہے کہ معاصر تاریخ کا دلچسپ ترین، اور حقیقتاً اہم ترین سیاسی اور عسکری فلسطین کا مسئلہ ہے”۔
کارٹر کی رائے کے مطابق مشرق وسطی دنیا کا غیر مستحکم ترین علاقہ ہے، اور یہ عدم استحکام عالمی سلامتی کے لئے دائمی ابدی خطرہ ہے۔
 
جمی کارٹر کی نظر میں، دو بنیادی اسباب نے علاقے میں تشدد اور عوامی اٹھان کو مدد بہم پہنچائی ہے:
٭ امریکہ ـ جو خود عالمی صہیونیت کا اطاعت گذار ہے ـ یہودی ریاست کے غیر قانونی اقدامات سے چشم پوشی کرتا ہے اور ان غیر قانونی اقدامات کا انتظام و انصرام حالیہ برسوں میں ریاست ہائے متحدہ امریکہ کی کانگریس کے ہاتھ میں رہا ہے۔
٭ بین الاقوامی راہنماؤں کو لالچ دلا کر انہیں سر تسلیم خم کرنے پر آمادہ کرنا، جنہوں نے امریکہ کی اس غیر سرکاری پالیسی کو علاقے میں مسلط ہونے کا موقع فراہم کیا ہے اور ایک تاریخی قوم کی قدیم سرزمین پر ایک جعلی ریاست معرض وجود پر آئی ہے۔
کارٹر کا خیال ہے کہ امریکہ نے عالمی صہیونیت کے ہاتھوں سرزمین فلسطین پر قبضہ کرنے جیسے عمل کو نہ صرف نظر انداز کیا بلکہ غاصبوں کے ساتھ پورا پورا تعاون بھی کیا اور یوں اس ملک نے اپنے بین الاقوامی اعتبار اور خیرسگالی کے اصولوں کو برباد کرکے رکھ دیا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۱۔ Palestine peace not apartheid

 

سی آئی اے پر عدم اعتماد کے اسباب

  • ۳۲۱

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: موجودہ امریکی صدر ٹرمپ نے بھی ماضی میں مرکزی جاسوسی ادارہ (CIA) وفاقی ادارہ تفتیش (FBI)، قومی سلامتی ایجنسی (NSA) پر تنقید کی تھی۔ ان کا دعوی ہے کہ امریکی سرکاری اداروں میں اعتماد کا خاتمہ ہورہا ہے لیکن سوال یہ ہے کہ اس سے قبل کیا کسی قسم کا کوئی اعتماد ان اداروں میں موجود تھا؟
ہلسنکی (Helsinki) میں ٹرمپ ـ پیوٹن ملاقات کے بعد، ٹرمپ کو روسی صدر کے سامنے اپنے ہی ملک کے سراغرساں اداروں پر تنقید کی بنا پر ذرائع ابلاغ کی شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔ ٹرمپ نے بھی ماضی میں سی آئی اے، ایف بی آئی اور این ایس اے پر تنقید کی تھی۔ ان کا دعوی ہے کہ امریکی سرکاری اداروں میں اعتماد کا خاتمہ ہورہا ہے لیکن سوال یہ ہے کہ اس سے قبل کیا کسی قسم کا کوئی اعتماد ان اداروں میں موجود تھا؟
یہاں ہم ایسے دس حقائق بیان کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں جن کے ہوتے ہوئے سی آئی پر اعتماد ممکن نہیں رہتا اور یہ کہ جو کچھ بھی سی آئی اے یا کسی بھی جاسوسی ادارے نے آج تک کہا ہے، وہ جھوٹ کے سوا کچھ نہیں ہے۔
۱۔ آپریشن پیپر کلپ
(۱) (۲) سنہ ۱۹۴۵ع‍ میں اتحادیوں نے دیکھا کہ جرمنی دو محاذوں میں پیشقدمی کررہا ہے، امریکہ نے امریکہ کی “مشترکہ انٹیلی جنس مقاصد ایجنسی (Joint Intelligence Objectives Agency [JIOA])” نے دوسری عالمی جنگ کے بعد، سی آئی سی (Counterintelligence Corps) کی فورسز کے ذریعے “آپریشن پیپیر کلپ Operation paperclip” کے دوران جرمنی کے ۱۶۰۰ سائنس دانوں، انجینئروں اور ٹیکنیکل عملے کو خفیہ طور پر جرمنی سے امریکہ منتقل کیا۔ یہ لوگ جرمنی کی راکٹ اور کیمیاوی ٹیکنالوجی کے ماہرین اور ان میں سے متعدد افراد کا تعلق ہٹلر کی نازی جماعت سے تھا۔ ان میں ایسے افراد بھی تھے جو زندہ انسانوں پر مختلف قسم کے تجربات کرنے کے ماہر تھے۔ ان لوگوں کو امریکی تجربہ گاہوں میں غیر روایتی اسلحہ بنانے کے کام پر لگایا۔ واضح رہے کہ دوسری عالمی جنگ کے وقت جرمنی کو راکٹ سازی میں ساری دنیا پر برتری حاصل تھی۔ جنگ کے بعد جرمنی کے سائنسدانوں کو اپنے اپنے ملک میں لے جانے کے لیے امریکا اور روس کے بھی دوڑ سی لگ گئی تھی۔
۲۔ نارتھ ووڈز کاروائی
سی آئی کو جن اہم الزامات کا سامنا ہے، ان میں سے ایک “جھوٹے جھنڈوں کے حملوں” سے عبارت ہے۔ سی آئی اے اور امریکی وزارت دفاع کے مشترکہ حملوں کا مقصد تھا کہ اپنے امریکی شہریوں اور فوجی ٹھکانوں پر حملہ کرکے ان کا الزام کیوبا کے سر تھونپ دیا جائے اور یوں کیوبا کے خلاف جنگ کا آغاز کیا جائے۔ کینڈی نے اس زمانے میں اس منصوبے کو ویٹو کردیا لیکن آج پچاس سال بعد امریکہ میں جان ایف کینڈی (John F. Kennedy) جیسا کوئی عاقبت اندیش شخص نہیں ہے جو نفسیاتی مریضوں کے منصوبوں کو ویٹو کرے۔
۳۔ سیلواڈور آلیندے کے خلاف بغاوت:
سنہ ۱۹۷۰ع‍ میں لاطینی امریکی ملک کے عوام نے سیلواڈور آلیندے (Salvador Allende) کو اپنے راہنما کے طور پر منتخب کیا۔ وہ جنوبی امریکی میں منتخب ہونے والے پہلے سوشلسٹ صدر تھے۔ امریکی صدر رچرڈ نکسن (Richard Nixon) نے فوری طور ان کے خلاف معاشی جنگ کا آغاز کیا۔ یہ جنگ بےاثر رہی اور آلیندے نے ۱۹۷۳ کے پارلیمانی انتخابات میں اپنی جماعت کی نشستوں میں اضافہ کرکے زیادہ سے زیادہ نشستیں حاصل کرلیں۔ جس پر امریکی سی آئی نے جنرل آگسٹو پنوشے (Augusto Pinochet) کے ذریعے فوجی بغاوت کروائی۔ پنوشے ایک فاشسٹ آمر تھے جنہوں نے ہزاروں ہموطنوں کا قتل عام کیا لیکن مغربی حکام اس کو پسند کرتے تھے۔
۴۔ ڈاکٹر مصدق کے خلاف بغاوت:
سنہ ۱۹۵۳ع‍ میں ایران کے وزیر اعظم محمد مصدق ایک سوشل ڈموکریٹ شخص تھے جنہوں نے برطانوی ـ ایرانی تیل کمپنی کی آمدنی کی ایران کو پلٹانے کا مطالبہ کیا اور کسی حد تک ان کی یہ بھی کوشش تھی کہ ایران کے تیل پر بیرونی تسلط کم کیا جائے۔ برسراقتدار آنے کے چند مہینے بعد ہی سی آئی کے کی کاروائی آجاکس ( Operation Ajax) اور فوجی بغاوت کے ذریعے محمد مصدق کا تختہ الٹ دیا گیا اور ملک کے تمام معاملات شاہ ایران محمد رضا پہلوی کے سپرد کئے گئے۔
۵۔ آپریشن ماکنگ برڈ:
آپریشن ماکنگ برڈ (Operation Mockingbird) سی آئی کا وسیع و عریض منصوبہ تھا جو ۱۹۵۰ع‍ کی دہائی کے آغاز سے ہی ذرائع ابلاغ پر تسلط پانے کی غرض سے شروع ہوا تھا۔ منصوبے کے تحت پورے ملک کے اخبارنویسوں کو قابو میں لانا اور انہیں تربیت دینا اور ان کے ذریعے امریکی حکومت کی تشہیری مہم کو آگے بڑھانا تھا۔ یہ خفیہ منصوبہ ۱۹۷۶ میں طشت از بام ہوا تو اس وقت کے ڈائریکٹر سی آئی نے دعوی کیا کہ سی آئی کا ذرائع ابلاغ، اخبارات اور ٹی وی نیٹ ورکس نیز ریڈیو سروسز سے کوئی تعلق نہیں ہے!!
۶۔ لوگوں کی گفتگو چپکے سے سننا
لوگوں کے مکالمات کو چپکے سے سننے (Eavesdropping) کا مسئلہ آج کل امریکہ میں [بھی اور امریکیوں کے ذریعے دنیا بھر میں بھی] اٹھا ہوا ہے اور اکثر و بیشتر ذرائع اس کے بارے میں بات کررہے ہیں اور کہا جاتا ہے کہ امریکہ کی نیشنل سیکورٹی ایجنسی (NSA) پوری دنیا کے لوگوں کی باہمی گفتگؤوں کو چپکے سے سن رہی ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ یہ ایک حقیقت ہے کیونکہ ایڈورڈ سنوڈن (Edward Snowden) نے اس امریکی جرم کو فاش کردیا ہے۔ جب یہ بات سامنے آئی تو این ایس اے اور سی آئی کے نمائندوں نے جھوٹ کا سہارا لیا۔ حتی جب امریکی کانگریس میں عوامی نمائندوں نے ان سے اس بارے میں پوچھ گچھ کی تو پھر بھی جھوٹ بولتے رہے۔ جب ان کا جھوٹ ثابت ہوا تو انھوں نے اپنے جھوٹ کے لئے جواز پیش کرنا شروع کیا؛ حالانکہ جھوٹ کی توجیہ اور اس کا جواز فراہم کرنا پھر بھی جھوٹ ہی ہے۔ اس وقت بھی کوئی بھی ایسی دستاویز موجود نہیں ہے جس سے ثابت ہوسکے کہ امریکہ اور دنیا میں امریکی ایجنسیوں کے توسط سے لوگوں کی باتیں سننے اور ان کی جاسوسی کرنے کا عمل رک بھی گیا ہے یا نہیں!
۷۔ صحرائی طوفان آپریشن کے لئے ایک لڑکی کا استعمال
سنہ ۱۹۹۰ع‍ میں امریکہ نے صدام کو کویت پر چڑھ دوڑنے کی اجازت دی، کویت پر صدام کا قبضہ ہوا، امریکہ نے اپنی اصل سازش منظر عام پر لاکر عراق پے حملہ کرنے کے لئے بہانہ بنانے کی کوششوں کا آغاز کیا۔ اس دوران امریکی ٹیلی ویژن چینلوں میں اچانک ایک نوجوان نرس کو روتے بلبلاتے دکھایا گیا جو کہہ رہی تھی کہ “عراقی سپاہی کویت میں گھس آئے تو انھوں نے ہسپتالوں کا رخ کیا، بیماروں کو قتل کیا، یہی نہیں بلکہ انھوں نے انکیوبیٹرز (incubators) تک کو توڑ دیا اور ان میں موجود بچوں تک کو ہلاک کر ڈالا”۔ بہرصورت امریکہ نے حملہ کیا، کویت سے عراقی افواج کو بھاگنا پڑا اور اس کے بعد معلوم ہوا کہ وہ لڑکی کوئی نرس نہیں تھی بلکہ امریکہ میں کویتی سفیر “سعود بن ناصر الصباح” کی ۱۵ سالہ بیٹی نیرہ بنت ناصر الصباح تھی جس کو ایک منصوبے کے تحت اور امریکی رائے عامہ کو جنگ کے لئے ہموار کرنے کے لئے ایک کردار سونپا گیا تھا تا کہ صدام کے خلاف “صحرائی طوفان Desert Storm” نامی کاروائی کا آغاز کیا جاسکے۔
۸۔ کو انٹیل پرو
کو انٹیل پرو (COINTELPRO) ـ جو “کاؤنٹر انٹلیجنس پروگرام Counter Inteligence Program” کا مخفف ہے ـ امریکی وفاقی تفتیشی ادارے (FBI) کے جوابی جاسوسی (Counter Intelligence) پروگراموں کو کہتے ہیں۔ اس سلسلے کے پروگرام ایف بی آئی کے خفیہ اور کبھی غیر قانونی منصوبوں میں شامل تھے جو اس ادارے نے اندرون ملک سیاسی اداروں کی جاسوسی کرنے اور ان کے اندر تک رسائی حاصل کرنے اور انہیں غیر معتبر بنانے کی غرض سے نافذ کئے۔ ان اندرونی اداروں میں انسانی حقوق سے متعلق ادارے، سوشلسٹ تنظیمیں، جنگ ویت نام کے نقادین، کمیونسٹ پارٹی، ماحولیات سے متعلق تنظیمیں اور حقوق نسوان سے متعلق تنظیمیں (Feminist organizations) شامل تھیں۔ کو انٹیل پرو کا مقصد ذرائع ابلاغ کو جعلی رپورٹوں اور جعلی معلومات فراہم کرکے بائیں بازو کے کارکنوں اور تنظیموں کو ناکارہ بنانا تھا۔ ہم سب کو یاد ہے کہ امریکی سینٹر “رینڈ پال Rand Paul” کو ایک “غدار” اور برطانوی لیبر پارٹی کے راہنما “جیریمی کوربین Jeremy Corbyn” کو یہود دشمن (anti-Semitist) قرار دیا گیا۔
۹۔ منصوبہ “ایم کے الٹرا
“منصوبہ ایم کے الٹرا Project MKUltra” انسان کا ذہن بدلنے کے سلسلے میں سی آئی اے کا خفیہ اور غیر قانونی تحقیقاتی منصوبہ تھا۔ امریکی حکومت کا یہ سرکاری منصوبہ سنہ ۱۹۵۳ سے شروع ہوکر ۱۹۷۳ تک جاری رہا۔ اس پروگرام میں عمل تنویم (Hypnotism) اور القاء یا امالۂ جرم (Crime Induction)، تشدد (Torture) کے بارے میں تحقیق، زبانی طور پر ہراساں کرنا اور جنسی طور پر ہراساں کرنے کے بارے میں مطالعہ شامل ہے؛ گوکہ ہمارے پاس ان جرائم اور اقدامات کے بارے میں دقیق اور صحیح معلومات دستیاب نہیں ہیں۔
۱۰۔ عراق کی جنگ
سنہ ۲۰۰۳ع‍ کی جنگ اگر خطرناک ترین اور خفیہ ترین کاروائی نہ ہو تو کم از کم شرمناک ترین اور گستاخانہ ترین ضرور ہے۔ ایک جنگ جو بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کے بہانے آغاز کی گئی جبکہ سب جانتے تھے کہ ایسے ہتھیار موجود ہی نہیں ہیں لیکن سب نے مل کر جھوٹ بولا۔ صدر نے جھوٹ بولا، نائب صدر نے جھوٹ بولا، وزیر دفاع اور وزیر خارجہ نے جھوٹ بولا۔ انھوں نے عوام سے بھی اور اقوام متحدہ سے بھی جھوٹ بولا۔ اس جنگ میں ۱۰ لاکھ عراقی مارے گئے۔ انھوں نے پیسہ کمانے اور عراق اپنے قابو میں لانے اور اپنا اثر و رسوخ بڑھانے کے لئے اس جنگ کا آغاز کیا۔
ہم امریکیوں کا حکمران طبقہ ایسے نفسیاتی مریضوں اور جنگی مجرموں سے بھرا ہوا ہے جو عوام کو ذرہ برابر بھی توجہ نہیں دیتے۔ وہ اپنے بچہ گانہ اور شیطانی سازشوں کو بار بار دہراتے ہیں۔ انھوں نے لیبیا اور عراق پر بھی جنگیں مسلط کردیں۔
ہمارے جمہوری ادارے جھوٹ بولتے ہیں، تا کہ کہیں کسی جنگ کا آغاز کرسکیں۔ وہ اپنے کرتوتوں کے بارے میں سوچتے نہیں ہے، یہ رویہ وہ ایران، شمالی کوریا اور روس کے ساتھ بھی اپنائے ہوئے ہیں۔ یہ ادارے نہ صرف سچائی سے عاری ہیں بلکہ انھوں نے سچ کا ستیاناس کردیا ہے۔
بقلم: رانیا خالق (امریکی فری لانسر، قلمکار اور سیاسی نظریہ پرداز
فارسی ترجمہ: محترمہ مریم فتاحی
اردو ترجمہ: فرحت حسین مہدوی

 

 

کرونا سے زیادہ خطرناک وائرس (پہلا حصہ)

  • ۳۷۶

بقلم سید نجیب الحسن زیدی


خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: یقینا کرونا ایک ایسا خطرناک وائرس ہے جس نے پوری دنیا کو متاثر کیا ہے، ایسی بیماری یقینا خطرناک ہے اور ہر ایک کو اس بیماری کے سلسلہ سے تشویش لاحق ہونا چاہیے  جس نے دنیا بھر میں پچاس لاکھ سے زیادہ لوگوں کو متاثر کیا ہو اور جس کے چلتے تین لاکھ سے زائد لوگ لقمہ اجل بن چکے ہوں   شک نہیں کہ پوری دنیا اس وائرس سے پریشان ہے اور ہونا بھی چاہیے ۔
ایسے میں ہر ایک پر لازم ہے کہ خود بھی احتیاطی  تدابیر کو بروئے کار لاتے ہوئے اپنے اور اپنے گھر والوں کو اس خطرناک وائرس کے حملہ سے بچائے ساتھ کوشش کرے کہ یہ موذی وائرس کہیں اور نہ پھیلنے پائے ،ہر صاحب شعور یقینا احتیاط بھی کر رہا ہے اور اسکی کوشش ہے کہ دوسرے افراد اس سے متاثر نہ ہو یہی وجہ ہے کہ اگر کسی کے اندر اس وائرس کی نشان دہی ہوتی ہے تو کچھ دنوں کے لئے اسے الگ تھلگ کر دیا جاتا ہے اس کے اپنے بھی اس سے نہیں ملتے کہ کہیں وائرس کی زد میں نہ آ جائیں  جگہ جگہ قرنطینہ کے مراکز قائم کئے گئے ہیں مبتلا لوگوں کو وہاں رکھا جا رہا ہے یہ سب ہم دیکھ رہے ہیں  کہ اس وائرس سے دنیا کیسے لڑ رہی ہے  ، کاش جس طرح دنیا اس وائرس سے لڑ رہی ہے ویسے ہی ا س سے زیادہ خطرناک وائرس سے بھی لڑتی ایسا وائرس جو دنیا کی سلامتی کے لئے خطرہ ہے  بشریت کے سکون کے لئے خطرہ ہے ۔
کرونا وائرس کے سلسلہ سے دنیا جس طرح سر جوڑے بیٹھی ہے کاش دنیا کے امن کو غارت کرنے والے مہلک وائرس کے بارے میں کچھ سوچتی  اس لئے کہ یہ وائرس تو ایسا ہے جو کرونا کے مریضوں کوبھی نہیں بخشتا  یہ وائرس تو ایسا ہے جو کرونا کی وبا سے جوجھتے لوگوں کی جانوں تک کو نہیں بخشتا ہے۔
جس طرح کرونا وائرس انسان کے جسم میں داخل ہو کر اس کے خلیوں میں سرایت ہو کر انسانی  پھیھپڑوں کو ناکارہ بنا دیتا ہے اسی طرح کرونا سے خطرناک وائرس  لوگوں  کی فکروں میں سرایت کر کے ان سے سوچنے سمجھنے کی صلاحیت چھین لیتا ہے، جس طرح کرونا وائرس کے حامل  افرادکو الگ تھلگ نہ کیا جائے تو یہ پھیلتا چلا جاتا ہے اور جتنا لوگوں سے گھلنا ملنا بڑھتا ہے متاثرین کی تعداد میں اضافہ ہوتا ہے ویسے یہی کرونا سے زیادہ خطرناک وائرس ہے یہ اقتصادی تعلقات کے بہانے ، ٹکنالوجی و پیشرفت کے نعروں کی آڑ میں قوموں کے اندر گھس کر انہیں برباد کر دیتا ہے اسکا علاج یہی ہے کہ اس وائرس کو پھیلنے سے روکا جائے اور اس وائرس میں مبتلا جو بھی لوگ ہیں چاہے اپنے ہوں یا پرائے سب کو ضروری ہے ایک محدود فضا میں سمیٹ دیا جائے اور مل جل کر اس سے لڑنے کی حکت عملی تیار کی جائے ، سوال یہ ہے کہ کرونا سے زیادہ خطرناک وائرس ہے کہاں پایا کہاں جاتا ہے اور کیسے پتہ  کہ یہ وائرس کرونا سے بھی زیادہ خطرناک ہے تو اس کے لئے مطالعہ و غور فکر کی ضرورت ہے اس مختصر سے نوشتے میں ہم کرونا سے زیادہ خطرناک وائرس کی نشاندہی کے ساتھ کوشش کریں گے کہ ثبوتوں کی روشنی میں یہ بتا سکیں کہ یہ کتنا مہلک ہے ، اس وائرس کا نام ہے اسرائیل ، یوں تو اسکا مرکز مشرق وسطی ہے لیکن یہ آج ہر طرف پھیلا نظر آتا ہے۔  
کیوں کرونا سے خطرناک ؟
یہ کرونا سے خطرناک اس لئے ہے کہ یہ دہشت گردی کو تقدس فراہم کرتا ہے اور بے گناہوں کا قتل عام کرواتا ہے ،آپ کہیں گے ثبوت کیا ہے تو ثبوت یہ ہے کہ اس نے لاکھوں لاکھ  لوگوں کو بے گھر کر دیا ہے لاکھوں کا قتل عام کیا  اور ہر دن کے سورج کے طلوع ہونے  کے ساتھ روز ہی اس کی قتل و غارت گری شروع ہو جاتی ہے ،یہ نہ بچوں کو دیکھتا ہے نہ بوڑھوں کو اور نہ عورتوں کو  جو اسکے سامنے آ جائے یہ اسے نشانہ بناتا ہے اور دہشت گردی کو ایک تقدس عطا کرتے ہوئے اسے قانون کی صورت پیش کرتا ہے  ممکن ہے  کسی کے ذہن میں سوال ہو  کیسے؟ توجواب کے لئےاسے اسرائیل کی تشکیل کی تاریخ اٹھا کر دیکھنا ہوگا جابجا اسے ایسے ثبوت مل جائیں گے کہ یہ وائرس کتنا خطرناک ہے خاص کر انتفاضہ اول سے لیکر اگر دوسرے انتفاضے کی تاریخ  پر ایک سرسری نظر ڈالی جائے تو بہت کچھ واضح ہو جاتا ہے جب  آپ انتفاضہ دوم   کے وجود میں آنے کے محرکات کو دیکھیں گے تو اس وائرس کا بھیانک چہرہ سامنے آ جائے گا  چنانچہ  ۲۸ ستمبر  ۲۰۰ ء اس دور کے اسرائیلی وزیر اعظم « شارون» نے جب خاصی  تعداد میں فوج کی بھاری نفری کے مسجد الاقصی کا رخ کیا تو مزاحمت کے طور پر انتفاضہ  دوم  وجود میں آیا جسے انتفاضہ اقصی کے نام سے  جانا گیا جسکے نتیجہ میں  ۲۰۰۲ ء میں کچھ فلسطینیوں نے اپنی سرحدوں کی حفاظت کے لئیے شہادت طلبانہ آپریشن کئیے ، اور جب یہ تحریک آگے بڑھی تو واشنگٹن یونیورسٹی کے شعبہ قانون  کے ممتاز استاد « ناتھن لوین  » نے اعلان کیا کہ فلسطینیوں کے اس شہادت طلبانہ اقدام کو روکنے کے لئیے ضروری ہے کہ انکے گھروالوں کو تختہ دار پر لٹکا دیا جائے ۔

 

یہودیوں کی خصلتیں قرآن کریم کی نظر میں 3

  • ۸۹۴

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: عالم انسانیت کے بد ترین دشمن یہودی ہیں قرآن کریم نے بھی اس بات اعلان کیا ہے اور تاریخ و تجربہ نے بھی یہ ثابت کیا ہے۔
اس بات سے قطع نظر کہ آج کی دنیا میں یہودی قوم دوسری قوموں کے ساتھ کیسا سلوک کر رہی ہے اگر ہم اس قوم کی گزشتہ تاریخ پر بھی نظر دوڑائیں تو معلوم ہو گا کہ دیگر قومیں کس قدر اس ستمگر قوم کے ظلم و تشدد کا شکار رہی ہیں۔
اس مختصر تحریر میں ہم قرآن کریم کی نگاہ سے قوم یہود کی چند خصلتوں کی طرف اشارہ کرتے ہیں جو پروردگارعالم نے خود قرآن میں بیان کی ہیں۔
قرآن کریم میں چار سو سے زیادہ آیتیں بنی اسرائیل کے بارے میں ہیں ان آیتوں میں بنی اسرائیل کے قصوں کے علاوہ دوسری قوموں کی نسبت پائی جانے والی ان کی دشمنی کی طرف بھی اشارہ کیا گیا ہے۔ لیکن چونکہ ان تمام آیتوں کا جائزہ لینا ایک مستقل اور مفصل موضوع ہے اور اس تحریر میں اس کی گنجائش نہیں لہذا صرف بعض عناوین کی طرف یہاں اشارہ کرتے ہیں:
الف؛ تاریخی خصلتیں (۱)
۱، دین سے بغاوت اور سامری کے بچھڑے کی پرستش
۲، خدا کی جسمانیت پر عقیدہ اور خدا کی رؤیت کا مطالبہ
۳، صحراؤں میں چالیس سال تک جلاوطنی کی سزا بھگتنا
۴، خدا اور حضرت موسی (ع) کے ساتھ ہٹ دھرمی اور لجاجت
۵، انبیاء اور پیغمبروں کا قتل
۶، اسیروں کا قتل جن کے قتل سے منع کیا گیا تھا
۷، سنیچر کے دن کی حرمت کی اطاعت نہ کرنا
۸، ان میں بعض کا بندر کی شکل میں تبدیل ہونا (۲)
۹، ربا، سود اور چوری کو جائز قرار دینا
۱۰، کلمات الہی میں تحریف پیدا کرنا (۳)
۱۱، اس بات پر عقیدہ رکھنا کہ خدا کا ہاتھ نعوذ باللہ مفلوج ہے (۴)
۱۲، حق کی پہچان کے بعد اس کی پیروی نہ کرنا
۱۳، آیات الہی کا مشاہدہ کرنے کے باوجود ان کا انکار کرنا(۵)
۱۴، آسمانی بجلی گرنے کے بعد سب کو ایک ساتھ موت آنا اور دوبارہ زندگی ملنا (۶)
۱۵، گناہوں کی وجہ سے شقاوت قلب کا پیدا ہونا (۷)
۱۶، اس بات پر عقیدہ کہ وہ خدا کے بیٹے ہیں اور خدا انہیں عذاب نہیں کرے گا۔ (۸)
ب: ذاتی خصلتیں
۱، مادہ پرستی
قرآن کریم نے قوم یہود کی ایک خصلت یہ بیان کی ہے کہ وہ مادہ پرست ہیں یہاں تک کہ وہ خدا کو بھی اپنی ظاہری آنکھوں سے دیکھنا چاہتے ہیں۔ فَقَدْ سَأَلُوا مُوسَىٰ أَکْبَرَ مِنْ ذَٰلِکَ فَقَالُوا أَرِنَا اللَّهَ جَهْرَةً فَأَخَذَتْهُمُ الصَّاعِقَةُ بِظُلْمِهِمْ ۚ )۹(
’’انہوں نے موسیٰ سے اس سے بڑی مانگ کی اور کہا ہمیں خدا کو آشکارا دکھلاؤ پس ان کے ظلم کی وجہ سے آسمانی بجلی نے انہیں اپنی لپیٹ میں لے لیا‘‘۔
۲، مال و ثروت کی لالچ
پروردگار عالم نے قرآن کریم میں یہودیوں کی ایک صفت یہ بیان کی ہے کہ وہ مال دنیا کی نسبت بے حد حریص اور لالچی ہیں۔
وَ لَتَجِدَنَّهُمْ أَحْرَصَ النَّاسِ عَلى‌‌حَیاةٍ وَ مِنَ الَّذینَ أَشْرَکُوا یَوَدُّ أَحَدُهُمْ لَوْ یُعَمَّرُ أَلْفَ سَنَةٍ وَ ۔۔۔ (بقرہ ۹۶)
’’اے رسول آپ دیکھیں گے کہ یہ (یہودی) زندگی کے سب سے زیادہ حریص ہیں اور بعض مشرکین تو یہ چاہتے ہیں کہ انہیں ہزار برس کی عمر دی جائے جبکہ یہ ہزار برس بھی زندہ رہیں تو طول حیات انہیں عذاب الہی سے نہیں بچا سکتا‘‘
۳، مومنوں اور مسلمانوں سے دشمنی و عداوت
قرآن کریم سورہ مائدہ کی ۸۲ ویں آیت میں فرماتا ہے: لَتَجِدَنَّ أَشَدَّ النَّاسِ عَداوَةً لِلَّذِینَ آمَنُوا الْیَهُودَ وَ الَّذِینَ أَشْرَکُوا  ’’آپ دیکھیں گے کہ صاحبان ایمان سے سب سے زیادہ عداوت رکھنے والے یہودی اور مشرک ہیں‘‘۔
آخری دو خصلتوں کو آج کے یہودیوں اور صہیونیوں میں بھی تلاش کیا جا سکتا ہے۔ جو کچھ اس وقت دنیا میں خصوصا بیت المقدس میں ہو رہا ہے وہ یہودیوں کی مسلمانوں اور اسلامی آثار کی نسبت شدید ترین دشمنی کا نمونہ ہے۔ سورہ آل عمران کی ۹۹ آیت میں خداوند عالم یہودیوں کی ملامت کرتے ہوئے فرماتا ہے: قُلْ یَا أَهْلَ الْکِتَابِ لِمَ تَصُدُّونَ عَنْ سَبِیلِ اللَّهِ مَنْ آمَنَ تَبْغُونَهَا عِوَجًا وَأَنْتُمْ شُهَدَاءُ وَمَا اللَّهُ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُونَ
’’کہیے! اے اہل کتاب کیوں صاحبان ایمان کو راہ خدا سے روکتے ہو اور اس کی کجی تلاش کرتے ہو جبکہ تم خود اس کی صحت کے گواہ ہو اور اللہ تمہارے اعمال سے غافل نہیں ہے‘‘۔
یہودی اپنے برے مقاصد حاصل کرنے کے لیے عام طور پر خفیہ سازشیں اور خطرناک پروپیگنڈے کرتے ہیں جن کے ذریعے نادان اور سادہ لوح افراد کو با آسانی شکار کر لیتے ہیں۔ اس وجہ سے خداوند عالم نے بعد والی آیت میں مومنین کو مخاطب کرتے ہوئے خبردار کیا ہے کہ دشمن کی زہر آلود سازشوں کا شکار نہ بنیں اور انہیں اپنے اندر نفوذ پیدا کرنے کی اجازت نہ دیں۔ (۱۰)
صدر اسلام کے مسلمانوں کی نسبت قوم یہود کی عداوتوں اور خفیہ سازشوں کے بے شمار نمونے تاریخ میں موجود ہیں جو اس بات کی عکاسی کرتے ہیں کہ انہوں نے مومنین کی سادہ لوحی اور غفلت سے بخوبی فائدہ اٹھایا۔ مثال کے طور پر جنگ خندق میں وہ منافقین اور یہودی جو پیغمبر اکرم کے حکم سے مدینہ چھوڑنے پر مجبور ہوئے انہوں نے دشمنان اسلام کو تحریک کیا کہ وہ مسلمانوں کے خلاف صف آراء ہوں اور وہ ان کی پشت پناہی کریں۔ انہوں نے کفار سے کہا: تم مطمئن رہو کہ تم حق پر ہو اور تمہارا دین محمد کے دین سے بہتر ہے(۱۱) اس کے بعد بنی قینقاع، بنی قریظہ اور بنی نظیر کے یہودیوں کی مسلمانوں کے خلاف سازشیں کسی پر ڈھکی چھپی نہیں ہیں۔ (۱۲)
لیکن خداوند عالم نے انہیں ہر مقام پر ذلیل و رسوا کیا ’’ضربت الیھم الذلۃ‘‘ ذلت اور رسوائی کی طوق ان کی گلے میں لٹکا دی جو بھی قوم گناہوں میں غرق ہو جائے گی دوسروں کے حقوق پر تجاوز کرے گی اس کا سرانجام ذلت و رسوائی ہو گا۔ (۱۳)
آج بھی یہ قوم مسلمانوں کے خلاف پروپیگنڈے اور سازشیں کرنے میں سرفہرست ہے فلسطین کے مظلوم مسلمانوں کو ان کے آشیانوں اور کاشانوں سے باہر نکال کر ان کا قتل عام کر رہی ہے ان پر ظلم و ستم کی تاریخ رقم کر رہی ہے صرف دنیا کی لالچ میں اقتدار کی لالچ میں ملک اور زمین کی لالچ میں۔ لیکن اللہ کا وعدہ ہے کہ مستضعفین زمین کے وارث بنیں گے اور ظالم و ستمگر ذلیل و خوار ہو کر نابود ہو جائیں گے۔ (۱۴)
حوالہ جات
۱٫ تفسیر نمونه و المیزان، ذیل آیات ۱۵۳- ۱۶۱، سوره نساء
۲٫ نساء(۴)/۴۷
۳٫ بقره(۲)/۷۹
۴٫ مائده(۵)/۶۴
۵٫ عنکبوت(۲۹)/۳۲
۶٫ بقره(۲)/۵۵
۷٫ بقره،(۲)/۷۴
۸٫ بقره(۲)/۹۵
۹٫ نساء(۴)/۱۵۳
۱۰٫ ر.ک: نفسیر نمونه، ج۳، ص ۲۳- ۲۲
۱۱٫ ر.ک: تاریخ اسلام، محلاتی، ج۱، ص ۱۳۲- ۱۳۱
۱۲٫ ر.ک : تاریخ اسلام، منتظر القائم، صص ۲۱۴- ۲۲۰
۱۳. ر.ک: تفسیر نمونه،ج ۳، ص ۵۴
۱۴. وہی، ج۲۳، ص ۴۹۹

 

ہندوستان کے اسلامی معاشرے کی اہم ترین ذمہ داری دشمن کی شناخت ہے: دستمالچیان

  • ۳۹۰

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ نے لبنان اور اردن میں رہے ایران کے سابق سفیر ڈاکٹر دستمالچیان کے ساتھ ہندوستان اور اسرائیل کے باہمی تعلقات پر ایک مختصر گفتگو کی ہے جو قارئین کے لیے پیش کی جاتی ہے۔
خیبر: اسرائیل کو ہندوستان سے سیاسی تعلقات قائم کرنے ضرورت کیا ہے؟
۔ صہیونی ریاست چونکہ بین الاقوامی سطح پر تنہا ہو چکی ہے اور وہ اس تنہائی سے خود کو باہر نکالنے کے لیے علاقے کے ہر اس ملک سے روابط قائم کرنے کی کوشش کرے گی جہاں اس کو اپنا مفاد نظر آئے گا۔ اور ہندوستان اس اعتبار سے کہ اس کی خارجہ پالیسی میں کافی تبدیلی آچکی ہے وہ خود بھی اسرائیل سے تعلقات برقرار کرنا چاہتا ہے اور پھر اسرائیل کو ہندوستان کی وسیع مارکٹ پر نظر ہے کہ وہ اپنا اسلحہ ہندوستان کو بیچ سکتا ہے اور ہندوستان سے نئی ٹیکنالوجی خرید سکتا ہے، علاوہ از ایں اسرائیل اگر ہندوستان کے ساتھ اپنے تعلقات کو مزید مضبوط بنانے میں کامیاب ہو جاتا ہے تو وہ بھارت کے ثقافتی، سیاسی، سماجی اور دیگر میدانوں میں گہرا اثر چھوڑے گا۔ اور ایسی صورت میں اگر اسرائیل واقعا ہندوستان پر اثر انداز ہو جاتا ہے تو وہ یقینا اپنے کام کر دکھائے گا۔
اب اس وقت اسرائیل کی ہندوستان میں موجودگی کا جو واضح مقصد نظر آ رہا ہے وہ فی الحال بھارت کو اپنا اسلحہ پیچنا اور بھارت سے نئی ٹیکنالوجی حاصل کرکے اپنے مفاد میں استعمال کرنا ہے، لیکن اس کا یہ مقصد وقتی طور پر ہے اصل مقصد اسرائیل کا ہندوستان میں اپنا گہرا اثر و رسوخ پیدا کرنا ہے۔ میری نظر میں بھارتی حکمرانوں کو ہوشیار رہنا چاہیے کہ اسرائیل کی ہندوستان میں موجودگی مستقبل میں مختلف مکاتب فکر اور مختلف ادیان کے ماننے والوں کے لیے بڑی مشکلات کھڑی کر سکتی ہے۔ اس لیے کہ صہیونی ریاست ایسی خبیث رژیم ہے جس کے بنیادی اصول میں یہ چیز شامل ہے کہ قوم یہود کے علاوہ کوئی دوسری قوم انسان ہی شمار نہیں ہوتی۔ لہذا یہی وجہ ہے کہ وہ اتنی آسانی سے دوسروں کا قتل عام کرتی ہے دوسروں پر جارحیت روا رکھتی ہے بچوں کو تہہ تیغ کرتی ہے چونکہ ان کے نزدیک انسان کا قتل مچھر کو مارنے کے برابر ہے وہ اپنے علاوہ کسی کے لیے قدر و قیمت کے قائل نہیں ہیں۔ اس فکر کی مالک یہ قوم جہاں بھی اپنا اثر و رسوخ پیدا کرے گی وہاں اس فکر کو عملی جامہ پہنانے کی کوشش کرے گی۔ ہندوستانی برادران کو اس موضوع کے حوالے سے انتہائی ہوشیاری سے کام لینا چاہیے۔
خیبر: جیسا کہ آپ نے اشارہ کیا کہ اسرائیل کی ہندوستان میں موجودگی مختلف مکاتب فکر کے لیے مشکلات کھڑی کر سکتی ہے تو کیا چند ایک مشکلات کی طرف اشارہ کر سکتے ہیں؟
۔ قومی اختلافات پیدا کرنا، مختلف مکاتب فکر کو ایک دوسرے کے خلاف مشتعل کرنا، ان کے اندر ایک دوسرے کے لیے جاسوسی چینل قائم کرنا، ملکی معیشت کو کمزور بنانا، سماجی اور سیاسی دراڑیں پیدا کرنا، اور ہر وہ کام جو نفرت اور اختلاف کی بو دے وہ صہیونی ریاست کی پالیسی کا حصہ ہے۔ ہندوستان اس اعتبار سے بہت زیادہ نقصان اٹھا سکتا ہے چونکہ اس میں مختلف قومیں، مختلف مکاتب فکر اور کئی ادیان و مذاہب کے ماننے والے موجود ہیں۔ اور اسرائیل کا اثر و رسوخ ہندؤوں کو مسلمانوں کے خلاف، مسلمانوں کو ہندؤوں کے خلاف، سکھوں کو ہندؤوں کے خلاف وغیرہ اکسا سکتا ہے لہذا اس اعتبار سے ہندوستان کو بہت احتیاط سے کام کرنا چاہئے۔
خیبر: ہندوستان ایک جانب سے روس اور اسرائیل کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھاتا ہے اور دوسری طرف ایران کے ساتھ بھی اپنے تاریخی روابط قائم رکھنے کی کوشش کرتا ہے۔ اس کا کیا مطلب ہے؟
۔ ہندوستان جغرافیائی اعتبار سے ایک خاص اہمیت کا حامل ملک ہے اور اقتصادی اور سیاسی اعتبار سے کافی مضبوط ہے لیکن آبادی کے لحاظ سے ایک ایسا ملک ہے جس کو چلانا بہت دشوار کام ہے اس کے علاوہ وہ ایک طرف سے چین کا پڑوسی ملک ہے جو اس وقت دنیا کی سب سے بڑی اقتصادی طاقت ہے دوسری طرف سے وہ پاکستان کے ساتھ کشمیر پر مسئلے پر الجھا ہوا ہے اور پھر وہ خود بھی چاہتا ہے کہ ایشیا میں ایک بڑی طاقت ابھر کر سامنے آئے اور اس کے لیے وہ بنیادی ڈھانچے تیار بھی کر رہا ہے اس اعتبار سے ہندوستان کو ایک ہمہ جھت اور وسیع نگاہ رکھنا ہو گی تاکہ وہ وسعت نظر کے ساتھ ساتھ اپنے اندر سیاسی و معیشتی استحکام بھی پیدا کر سکے لہذا ہم دیکھتے ہیں کہ ہندوستان ایک ہی وقت میں کئی جوانب پر نگاہ رکھتا ہے امریکہ کے ساتھ تعلقات، روس کے ساتھ، صہیونی ریاست کے ساتھ، ایران کے ساتھ، سعودی عرب کے ساتھ، تمام ان ممالک کے ساتھ تعلقات برقرار رکھنے کی کوشش کرتا ہے جہاں سے اس کا مفاد پورا ہو سکے۔ ان تمام ممالک کے ساتھ تعلقات برقرار رکھنے کا مقصد ملک میں ایک قسم کا اعتدال اور وزن پیدا کرنے کی کوشش ہے تاکہ اپنے انواع و اقسام کی فکریں رکھنے والے معاشرے کو پرامن طریقے سے محفوظ رکھ سکے اس لیے کہ ایک ایسے معاشرے اور سماج کو جس میں اتنے مکاتب فکر اور اتنے ادیان اور مذاہب پائے جاتے ہوں اسے پرامن رکھنا ایک انتہائی دشوار کام ہے۔

خیبر: ہندوستان کے اسلامی معاشرے کو کیا نصیحت کرنا چاہیں گے؟
۔ میری نظر میں ہندوستان کے اسلامی سماج کی اہم ترین ذمہ داری، خودشناسی ہے، معرفت ہے اپنی نسبت اور اپنے دشمن کی نسبت، ہندوستان کے مسلمانوں کو یہ جاننا چاہیے کہ تاریخ کے اس دور میں وہ کیا خدمات انجام دے سکتے ہیں اپنے دین کی ترویج کے لیے، اپنے اسلامی اقدار کے تحفظ کے لیے اور اپنے مقام و منزلت کو پائیدار رکھنے کے لیے۔
میری نظر میں ہندوستان کے مسلمانوں کو اپنے ملک میں ایسی تنظیمیں بنانا چاہیے جو مسلمانوں کے اندر سیاسی اور معیشتی شعور پیدا کریں ان کے اندر آگہی پیدا کریں، اگر ہندوستان کا ہر مسلمان اسلامی شعور اور بصیرت رکھتا ہو اور اپنے مقام کو پہچانتا ہو اور اپنے دشمن کو پہچانتا ہو تو یہ سماج ایک کامیاب اور سربلند سماج ہو گا۔
ہمیں یہ جان لینا چاہیے کہ کسی بھی صورت میں اختلاف کی گھنٹی نہ بجائیں وَاعتَصِموا بِحَبلِ اللَّهِ جَمیعًا وَلا تَفَرَّقوا۔ ہمیں یہ جان لینا چاہیے کہ ہم شیعہ سنی ایک ہی دین کے پیروکار ہیں ایک خدا ایک رسول اور ایک کتاب کے ماننے والے ہیں۔ ہمیں جان لینا چاہیے کہ ہمارے پڑوسی دوسرے مکاتب فکر کے لوگ ہیں اور ہمیں ان کے ساتھ رواداری سے کام لینا ہے۔ دین اسلام ایک جملہ میں خلاصہ ہوتا ہے لا إِکْراهَ فِی الدِّینِ قَدْ تَبَیَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَیِّ ‘‘ دین اسلام فرماتا ہے فَبَشِّرْ عِبَادِ الَّذینَ یَسْتَمِعُونَ الْقَوْلَ فَیَتَّبِعُونَ أَحْسَنَهُ. اس لیے کہ دین اسلام دین فطرت ہے۔ امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں: ھل الدین الا الفطرہ؟ دین فطرت کے علاوہ کیا ہے؟ انسانوں کی فطرت ایک ہے لہذا ہمیں اپنے فطری امور سے آگاہ ہونا چاہیے۔ تمام امت مسلمہ خصوصا ہندوستان کے اسلامی سماج کی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ انسانوں کی فطرتوں کو بیدار کریں جیسا کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے صدر اسلام میں انسانوں کو بیدار کیا انسانوں کی فطرتوں کو بیدار کیا آپ نے عرب جاہلوں سے سلمان، ابوذر اور مقداد جیسوں کو بنایا اور اتنے گرانقدر اصحاب تیار کیے۔ لہذا میرا یہ ماننا ہے کہ ہندوستان کے مسلمانوں کو چاہیے کہ اپنے باطنی اور اندرونی وجود کو تقویت بخشیں۔
خیبر: بہت بہت شکریہ جو آپ نے اپنا قیمتی وقت ہمیں دیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔