-
Friday, 22 May 2020، 02:57 AM
خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: ماہ مبارک کا آخری جمعہ امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کی جانب سے یوم القدس کے نام سے موسوم ہوا تاکہ مسلمانان عالم صہیونیت کے خلاف اتحاد اور یکجہتی کا ثبوت دیں اور قدس شریف کی آزادی کے لیے قدم اٹھائیں۔ خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ نے یوم القدس کے موقع پر امام صادق (ع) یونیورسٹی کے پروفیسر ڈاکٹر ’محمد ہادی ہمایون‘ کے ساتھ گفتگو کی ہے جس کا خلاصہ قارئین کے لیے پیش کرتے ہیں؛
خیبر: مسئلہ فلسطین خصوصا عالمی یوم القدس اور اس کی اہمیت کے حوالے سے آپ کا کیا تجزیہ ہے؟
انقلاب اسلامی کی کامیابی کے ابتدائی ایام میں ہی امام خمینی (رہ) کی جانب سے ماہ مبارک کے آخری جمعہ کو یوم القدس قرار دیا جانا ایک انتہائی حکیمانہ اقدام تھا جس سے نہ صرف دنیا کے مسلمانوں کو مسئلہ فلسطین اور قدس کی جانب متوجہ کیا بلکہ اسلامی انقلاب کی آواز کو بھی دنیا کے کونے کونے میں پہنچا دیا۔
اگر ہم یہاں پر یوم قدس کے بارے میں امام خمینی (رہ) کے بیانات پر غور کریں تو دیکھیں گے کہ آپ نے کتنی وضاحت سے اس مسئلے کو بیان کیا ہے جیسا کہ آپ نے فرمایا: ’’یوم قدس کا مسئلہ صرف فلسطین کا مسئلہ نہیں ہے۔۔۔‘‘، اگر چہ اس دن مرکزیت اسی مسئلے کو ہے لیکن منحصرا یہی مسئلہ یوم قدس کا مسئلہ نہیں ہے، ’’یوم قدس وہ دن ہے جس دن اسلامی انقلاب جو ایران میں تشکیل پایا ہے کو ایک نمونے کے طور پر پیش کیا جائے، ایک مزاحمتی تحریک کے طور پر جانا جائے اور تمام اسلامی ممالک میں یہ انقلاب پہنچنوایا جائے‘‘۔
میری نظر میں یوم القدس کی فکر ایک آسمانی فکر ہے اسے ہمیشہ تاریخ میں باقی رہنا چاہیے جب تک کہ امام علیہ السلام کا ظہور ہوتا یہ دن پوری شان و شوکت سے منایا جانا چاہیے اس لیے کہ یہ حق و باطل کے مابین معرکہ آرائی کو ظاہر کرنے والا دن ہے جیسا کہ قیامت کی ایک صفت یہ ہے کہ اس دن حق و باطل ایک دوسرے سے الگ ہو جائیں گے حق و باطل کے درمیان یہ ملاوٹ ہے جو بہت ساروں کی گمراہی کا باعث بنتی ہے اور بہت سارے لوگ اس سے درست تجزیہ و تحلیل نہیں کر سکتے ۔
میری نظر میں یہ اہم ترین کنجی ہے جو ہمیں ظہور کی جانب رہنمائی کرتی ہے اور ظہور کا راز بھی اسی میں پوشیدہ ہے۔ ظہور کا مطلب یہ ہے کہ حق ظاہر اور آشکار ہو گا، ظہور کے بارے میں ہمارا عقیدہ یہ نہیں ہے کہ معاذ اللہ امام چھپ گئے ہیں اور ایک دم ظاہر ہو جائیں گے، نہیں، امام تو ہمارے درمیان اسی دنیا میں زندگی گزار رہے ہیں ہمارے اندر ان کو پہچاننے کی صلاحیت نہیں ہے ظہور کے وقت جو چیز رونما ہو گی وہ یہ ہے کہ حق جو باطل کے ساتھ گڈ مڈ ہو چکا ہے وہ ظاہر و آشکار ہو گا۔
آج ہم دیکھتے ہیں کہ جعلی صہیونی ریاست ایک ملک سے وہاں کے رہنے والے لوگوں کو نکال کر باہر کر دے اور دوسرے ملکوں سے اپنے ہم فکر لوگوں کو اکٹھا کر کے اپنی حکومت قائم کر لے اور دنیا خاموش تماشا دیکھتی رہے بلکہ اس کی حمایت کرے کہ تم نے اچھا کیا ہے تو ایسے میں آپ سوائے اس کے اور کیا کہیں گے کہ حق اور باطل آپس میں گڈ مڈ ہو چکے ہیں۔ ایک غاصب حکومت ۷۰ سال سے ایک ملت کے اوپر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑ رہی ہو بچوں عورتوں بوڑھوں کا قتل عام کر رہی ہو اور دنیا کا کوئی انسان حتیٰ الہی ادیان کے ماننے والے مسلمان اور غیر مسلمان سب اس جعلی حکومت کی حمایت کرنے لگیں اور اس کے ظلم و ستم سے چشم پوشی کر لیں یہ حق وباطل میں آمیزش نہیں تو اور کیا ہے؟
یوم قدس حق و باطل کے ایک دوسرے سے الگ کرنے کا نام ہے حق و باطل کے مابین معرکہ آرائی دنیا والوں کے سامنے پیش کرنے کا دن ہے۔ دنیا والے اس دن پہچانیں کہ حق کیا ہے اور باطل کیا ہے۔ اور یہ بھی دیکھیں کہ دنیا میں حق کے حامی کتنے ہیں اور باطل کا ساتھ دینے والے کتنے ہیں؟