-
Monday, 18 May 2020، 05:54 PM
خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: سائبر اسپیس کے ماہر انجنیئر روح اللہ مؤمن نسب، جو عرصہ دراز سے ایرانی ٹی وی چینلوں اور مختلف قسم کے اجتماعات میں اسی حوالے سے کردار ادا کرتے رہے ہیں، “پاک انٹرنیٹ تک پہنچنے کے طریقہ کار” جیسے موضوعات کے موضوع پر خطابات کرتے رہے ہیں، اور اس شعبے میں اہم کورسز بھی کرواتے رہے ہیں۔
ذیل میں انجنیئر روح اللہ مؤمن نسب کے ساتھ خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ کا مکالمہ قارئین کی خدمت میں پیش کیا جارہا ہے:
خیبر: سائبر اسپیس پر دشمن شناسی کی اہمیت کیا ہے اور اس شعبے میں دشمن کا کیونکر مقابلہ کیا جاسکتا ہے؟
– ابتداء میں مجھے آپ کے صہیونیت شناسی کے عنوان سے منعقدہ کورس کے بارے میں کچھ کہنے دیجئے۔ رہبر معظم نے بارہا فرمایا ہے کہ اس طرح کے کورسوں کا انعقاد کیا جانا چاہئے، کیونکہ دشمن نے اس سلسلے میں بہت ساری سرگرمیاں دکھائی ہیں اور وہ ایسے منصوبوں کو عملی جامہ پہنانے میں ایسی کامیابی حاصل کرسکا ہے جن کے بارے میں وہ سوچ تک نہیں سکتا تھا، وہ آکر ہمارے ممالک میں بہت بڑے بڑے اقدامات کرنے میں کامیاب ہوا ہے؛ آج ہمارے ممالک ایک لحاظ سے مقبوضہ ممالک ہیں کیونکہ ہمارے ملکوں کے تمام افراد کے پاس انٹرنیٹ بھی ہے اور اسمارٹ فون بھی۔
ماضی میں رابطوں کے لئے ہمیں بہت سارے وسائل کی ضرورت ہوتی تھی لیکن آج ہم ایسی فضا میں کام کررہے ہیں جس کا تعلق یہودی ریاست سے ہے۔ یعنی یہ منصوبہ بندی اسرائیلیوں کی ہے اور آپ کو نہیں معلوم کہ ہم کن کن چیزوں سے ٹویٹر، انسٹاگرام، فیس بک وغیرہ وغیرہ کے ذریعے ہم چاہتے ہوئے یا نہ چاہتے ہوئے، اسرائیل کی جیبوں کو بھر رہے ہیں۔
آج حالات بدل چکے ہیں، یعنی کسی وقت سامنے جاکر دشمن سے لڑتے تھے لیکن آج ہم دشمن کے دامن میں ہی جنگ لڑ رہے ہیں اور اگر کچھ طاقت کا مظاہرہ کرنا چاہیں تو Delete بٹن کا شکار ہوکر حذف ہوجاتے ہیں۔ بہرحال دشمن شناسی بہت واجب موضوع ہے۔
دشمن تیرہویں یہودی پروٹوکول میں کہتا ہے کہ “تم جاکر ایک یہودی حاخام (رابی) کی بات کو مسلم دینی علماء کی زبان پر ڈال دو، کیونکہ کوئی بھی یہودی حاخام کی بات کو قبول نہیں کرتا لیکن اپنے علما کی بات سنتے اور مانتے ہیں”؛ وہ اپنی دشمنانہ پالیسیوں کو اس انداز سے نافذ کرتا ہے اور اپنی دشمنی کا اس ذریعے سے ظاہر کرتا ہے، تا کہ اپنی بات کو علماء کی زبان پر جاری کرے اور اس طرح مسلم معاشرے میں فکری دراندازی کرے۔
میں نے ایرانی ساختہ مصنوعات کا بہت خوبصورت اور متاثرکن پوسٹر دیکھا لیکن اس کے سائبر اسپیس کا پتہ یا برقی پتہ بیرونی پیغام رسانوں پر مشتمل تھا، اور یہ تمام ممالک میں رائج ایک بڑا تضاد ہے؛ اور ہم گویا ایک جاسوس کا کردار ادا کررہے ہیں جو نہ صرف اس جاسوسی کے بدلے کوئی اجرت نہیں لیتے کچھ رقم خرچ بھی کرتے ہیں۔
خیبر: ہمیں اس وقت کس چیز کے بارے میں فکرمند ہونا چاہئے اور ہم کس قسم کے استعمار کا سامنا کررہے ہیں؟
ـ ہم آج جدید استعمار کے دور سے گذر رہے ہیں۔ جس کو آیت اللہ حائری شیرازی (رہ) نے “فکری استعمار” کا نام دیا، آج بےزبانی کی زبان میں ہم سے کہہ رہے ہیں کہ “آپ کو مزید سوچنے کی ضرورت نہیں ہے، ہم آپ کی جگہ سوچتے ہیں”۔ ہم نے کسی سے بھی سوشل میڈیا کی درخواست نہیں کی لیکن انھوں نے بڑی آسانی سے اسے ہمارے لئے فراہم کیا۔ ہم میں سے جو لوگ کچھ کچھ ذمہ داری محسوس کرتے ہیں وہ روزانہ کچھ باتیں کہیں سے اٹھا کر کہیں نشر کردیتے ہیں اور ہماری تخلیقی سرگرمیوں کی انتہا صرف اتنی ہے کہ کچھ بیرونی سافٹ ویئرز کو لے کر اسی شکل میں، تیار کریں اور یہ وہی پیچیدہ جنگ ہے جس کا عام جنگوں سے اختلاف اسلحے کے حوالے سے ہے۔ آج کا اسلحہ مختلف ہے۔
اس پیچیدہ لڑائی کا پیچیدہ ترین پہلو یہ ہے کہ ہم دشمن کی زمین میں بیٹھ کر لڑرہے ہیں۔ ہمارے اچھے اور نیک نوجوان جانے بوجھے بغیر اپنے موقف کے ذریعے اپنے اوپر ہی حملہ کرتے ہیں۔ رہبر معظم کی رائے یہ ہے کہ “دشمن کی زمین پر نہیں کھیلنا چاہئے کیونکہ اس میں ہار اور جیت دونوں کا فائدہ دشمن کو پہنچتا ہے”؛ جیسے کہ ہم کھیل کے میدان میں یہودی ریاست کے کھلاڑیوں سے نہیں کھیلتے، کیونکہ کھیلنے کی صورت میں کوئی فرق نہیں پڑتا کہ ہم جیتیں یا ہاریں، اہم بات یہ ہے کہ گویا ہم ان کے ساتھ کھیل کر یہودی ریاست کو تسلیم کرلیا ہے۔
ہماری جنگ کی روش کچھ یوں ہے کہ جب کسی چیز کو دیکھتے ہیں اس کی طرف لپکتے ہیں اور مشکل کا خاتمہ کرنا چاہتے ہیں جبکہ باقی محاذ خالی رہتا ہے اور دوسرے نقاط سے نقصان اٹھاتے ہیں؛ جس طرح کہ یہودی ریاست کے وزیر اعظم نیتن یاہو نے ۲۰۱۳ میں بی بی سی کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا تھا کہ “اگر ایران کے عوام آزاد ہوتے تو جینز کے پتلون پہنتے!” جبکہ ہمارے ذرائع ابلاغ کے پاس بی بی سے کہیں زیادہ افرادی قوت ہے لیکن وہ ہمیں اس طرح کے قصوں سے چیلنج کرتے ہیں اور یہ در حقیقت کاروائی کی روش میں وہ خلا ہے جس کا ہمیں سامنا ہے۔
خیبر: اس بات کا سبب کیا ہے کہ ہمارے پاس تربیت یافتہ افرادی قوت بھی ہے اور تخلیقی صلاحیت بھی ہے لیکن پھر بھی کوئی کام انجام نہیں پاتا؟
– ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم حملہ کرنے کی صلاحیت حاصل کریں اور جان لیں کہ کس وقت کونسا کام کرنا چاہئے۔
خیبر: کیا ہم کوئی ہمآہنگ تھنک ٹینک قائم کرنے میں کامیاب ہوسکے ہیں جو اس قسم کی سرگرمیوں کو منظم کرے اور حملے اور دفاع کے لئے منصوبہ بندی کرے؟
– رہبر معظم نے نوجوانوں سے فرمایا کہ “اپنے اختیار سے اٹھ کر دشمن کا مقابلہ کرو اور خود جاکر منصوبہ بندی کرو”، اس وقت اس لحاظ سے تقریبا تمام اسلامی ممالک کا کمانڈ روم خلل کا شکار ہے، اسی بنا پر بہت سے مقامات پر مختلف قسم کے کام ہورہے ہیں۔ دشمن ہمارے اگلے قدم کو نہیں بھانپ سکتا اور یوں نقصان نہیں پہنچا سکتا۔ جو کام دشمن کرسکتا ہے یہ ہے کہ وہ نیٹ ورک بنا لیتا ہے اور ایک ایسی فکر کو اندر لے کر آتا ہے جو کہ بہت ہی زیادہ کامیاب ہے۔
وہ ہماری ترجیحات بدلنے کی کوشش کرتا ہے، ہر روز ملکی ساختہ مصنوعات کے استعمال کے رجحان کے مقابلے میں ایک نئی ترجیح لاتا ہے تا کہ اندرونی مصنوعات کی عوامی حمایت کے لئے متعینہ ایک سال کا عرصہ گذر جائے۔ دشمن نے ایران کے خلاف آٹھ سالہ جنگ کے دوران، ہر بار نئے ہتھکنڈے استعمال کئے۔ عراق نے ایران پر حملہ کیا تو ہمارے دشمن “اسرائیل” نے افواہ اڑا دی کہ “ایران اسرائیل کا دوست ہے”۔
ایران نے بھی اپنے کچھ سپاہی اسرائیل کے خلاف براہ راست لڑائی کے لئے شام بھجوا دیئے اور امام خمینی(رہ) نے اس حوالے سے ان سے فرمایا: “قدس کا راستہ کربلا سے گذرتا ہے”؛ یعنی وہ زمانہ یہودی ریاست کے خلاف براہ راست لڑائی کا زمانہ نہیں تھا اور ہمیں چاہئے تھا کہ پہلا قدم زیادہ مضبوطی کے ساتھ اٹھائیں۔