صہیونیت مخالف شخصیت ’’ڈیوڈ ارنسٹ ڈیوک‘‘ (David Ernest Duke) کا تعارف

  • ۵۳۷

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: طول تاریخ میں ایسے بہت سے گروہ ہیں جنہوں نے گوناگوں نظریات کے حامل ہونے کے باوجود صہیونیت کی فکر پر تنقید کی ہے، یہی وجہ ہے کہ محض فلسطینی مسلمانوں کو یہودیوں اور صہیونیوں کا ناقد و مخالف نہیں سمجھنا چاہیے بلکہ بعض مغربی دانشورو اسکالرز نے بھی انسانی، نسلی ، قومی اور آئڈیالوجیکل بنیادوں پر صہونی فکر کا تجزیہ کیا ہے اور انکی فعالیت و سرگرمیوں پر تجزیاتی گفتگو کرتے آئے ہیں۔
انہیں مغربی دانشوروں میں صہیونی فکر کے خلاف بولنے والی ایک یہود ستیز شخصیت ڈیوڈ ارنسٹ ڈیوک David Ernest Duke” کی [۱]ہے
ڈیوڈ ارنسٹ ڈیوک کو ایک صہیون مخالف اور ماضی میں ’’کے کے کے۔k.k.k‘‘[۲]کے بلند پایہ رہبروں کے روپ میں جانا جاتا ہے۔
ڈیوڈ نے اوکلاھما [۳]ریاست کے شہر ’’ تالزا ‘‘ [۴]میں اس دنیا میں قدم رکھا ، ڈیوڈ کے اجداد و اسلاف جدید امریکہ کے معماروں اور بانیوں میں تھے۔
ڈیوڈ نے ابتدائی تعلیم کے بعد یونیورسٹی میں داخلہ لیا اور یونیورسٹی کی پڑھائی کے ساتھ ساتھ ہی اپنی سیاسی سرگرمیوں کا بھی آغاز کر دیا۔
وہ اپنی کتاب ’’میری بیداری: امریکا میں یہودیوں کے سلسلہ سے ان کہی باتوں‘‘ میں لکھتے ہیں : ’’نوجوانی میں ہی یہ بات میرے گھر والوں کے لئے واضح ہو گئی تھی کہ میں واعظ و مقرر تو بننے سے رہا ،اس لئے کہ میں ایک خاموش اور چپ رہنے والا شخص تھا اور ذرا بھی تقریر کے لئے مناسب نہ تھا چنانچہ یہی وجہ ہے کہ ان لوگوں نے بھی میری مطالعہ کتب کے سلسلہ میں حوصلہ افزائی کی، میرے والد کا اصرار تھا کہ روز کم سے کم میں ایک گھنٹے کا وقت تو مطالعہ کو دوں، شروع میں تو میں اس سے فرار کرتا رہا لیکن آہستہ آہستہ مطالعہ کی مجھے عادت پڑ گئی اور پھر میں دائم المطالعہ ہو گیا ‘‘
ڈیوڈ ماضی میں سیاہ فاموں اور قوم پرستوں کے سلسلہ سے خاص طور پر نسل پرستی کے سلسلہ سے شدت پسندانہ موقف اختیار کرتے رہے ہیں، لیکن وقت کے گزرنے کے ساتھ ساتھ ہجرت، و نسلی بھید بھاو جیسے موضوعات میں انکے شدت پسندانہ رجحان میں لچک پیدا ہوتی گئی، اور شدت پسندانہ نظریات کا پکا رنگ کچا ہوتا چلا گیا جسکی بنیاد پر مختلف النوع و مختلف الفکر لوگوں کو اپنی طرف کھینچنے میں انہیں خاطر خواہ کامیابی نصیب ہوئی، اور ہر قسم کے لوگ ان سے جڑنے لگے ۔
ڈیوڈ ’’کے کے کے‘‘ نامی نسل پرست گروہ کے ان نو نازی اولین سربراہوں میں تھے جنہوں نے کلاں اور نازیوں کے مخصوص لباس پہننے پر روک لگائی ، اسی طرح انہوں نے ان تمام روایتی پہنے جانے والے کپڑوں کے پہننے کی میڈیا میں مخالفت کی جو نسلی تعصب کی علامت تھے اور جن سے نفرت پھیلتی تھی ، انہوں نے نفرت آمیز نسلی امتیاز کی ترجمان علامتوں کی کھل کر مخالفت کی، انہوں نے اپنے گروہ کے اراکین سے مطالبہ کیا کہ وہ شدت پسندی کے رویہ کو ترک کر دیں اور سیاسی سرگرمیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیں ۔
۲۰۰۱ء سے ۲۰۰۲ء میں جعلی حکم ناموں اور تحریروں کے ساتھ ٹیکس سے فرار کے لئے اپنی سیاسی جدو جہد کے سلسلہ سے نقلی دستاویزات بنانے کی بنا پر پولس کو مطلوب رہے، اور چونکہ پولس انکے تعاقب میں تھی لہذا انہوں نے اپنا کچھ وقت روس اور کریمہ یوکرائن میں گزارا ان دونوں ہی مقامات پر قیام کے دوران انہوں نے یہودیوں پر اپنے تنقیدی سرگرمیوں کے سلسلہ کو جاری و ساری رکھا ۔
۱۹۸۰ کی دہائی میں ڈیوڈ سفید فاموں کی برتری کا دفاع کرنے والوں کا ایک جانا پہچانا چہرہ بن چکے تھے ، ۱۹۸۰ میں وہ پہلے تو ڈیموکریٹک پارٹی کی جانب امید وار کے طور پر کھڑے ہوئے ، اسکے بعد چار سال قبل ویلس کارتو کی جانب سے تاسیس پانے والی عوام پارٹی کی جانب سے صدر جمہوریہ کا انتخاب لڑنے کے لئے امیدوار کے طور پر کھڑے ہوئے ۔
۱۹۹۱ میں ریاست لویزانہ کے گورنر کے الیکشن میں بھی میدان رقابت میں امید وار کی طور پر انہوں نے اپنی قسمت آزمائی کی اور چونکہ انہیں لگتا تھا کہ سنا کے انتخابات میں انہوں نے زیادہ ووٹ حاصل کئے ہیں شاید یہ سیاسی نشیب و فراز اسی خاطر ہوں کہ وہ ہر جگہ ابھرتے نظر آئے ڈیوڈ نے اپنے الیکشن کی رقابت کے سلسلہ سے ہونے والی تشہیری مہم میں ایک مقام پر کہا: ’’یہودی اپنی نجات کے لئے تمام ثقافتوں کی نابودی کے درپے ہیں ‘‘انکا ماننا تھا کہ یہود و غیر یہود ایک قومی جنگ کے کگار پر ہیں اور شاید یہی وجہ ہے کہ وہ کہتے تھے ’’ ان دو نسلوں اور دو تہذیبوں کے درمیان جدید صدی کے آغاز کے باجود نہائی معرکہ بہت دور نہیں ہے اور ممکن ہے دونوں کے درمیان ایک نہائی ٹکراو پیش آ جائے[۵]‘‘
ڈیوڈ دسمبر ۲۰۶ ء میں ہلوکاسٹ کے سلسلہ سے ہونے والی کانفرنس کے مندوبین میں سے ایک اہم مقرر تھے، انہوں نے اس بین الاقوامی کانفرنس میں کہا تھا جو بھی آج کی دنیا میں ہلوکاسٹ کے بارے میں کچھ کہتا ہے وہ ایک دلیر و شجاع انسان ہے [۶]۔
حواشی :
[۱] ۔ David Ernest Duke ۔ ایک سفید فام قوم پرست امریکن مصنف جو اپنے یہود مخالف نظریات اور یہودی مخالف رجحان کی خاطر مشہور ہیں
[۲] ۔ The Ku Klux Klan (/ˈkuː ˈklʌks ˈklæn, ˈkjuː۔ سفید فاموں کی برتری کا دفاع کرنے والی ایک ، کیتھولک مخالف امریکن تنظیم ، ۱۸۶۶ اور ۱۸۶۹ میں سیاہ فاموں کے امریکہ میں قتل عام میں اس تنظیم کا بڑا ہاتھ رہا ہے ، یہ لوگ مخصوص قسم کا لباس پہنتے اور ایک صلیب کے سامنے کھڑے ہو کر خاص مراسم انجام دیتے اس کے بعد ایک قتل و غارت گری کا سلسلہ شروع ہو جاتا ۔ مزید مطالعہ کے لئے رجوع کریں : Drabble, John, The FBI, COINTELPRO-WHITE HATE and the Decline of Ku Klux Klan Organizations in Mississippi, 1964-1971, Journal of Mississippi History, 66:4, (Winter 2004)
[۳] ۔ریاستہائے متحدہ امریکا کی ایک ریاست جو ۱۹۰۷ء میں وفاق امریکا میں شریک ہوئی۔ ایسی ریاست جہاں کپاس، گہیوں دوسرے اناج کا شت کیے جاتے ہیں۔ کانوں سے کوئلہ، سیسہ اور جست نکلتا ہے۔ مویشی پالنا لوگوں کا اہم پیشہ ہے۔ شمال مشرق میں تیل نکلتا ہے اور ریاست کی آمدنی کا بہت بڑا ذریعہ ہے۔یہاں امریکا کے قدیم باشندے ریڈ انڈین بھی آباد ہے۔ ۱۹۶۰ء کی مردم شماری کے مطابق ان کی تعداد پینسٹھ ہزار کے قریب بتائی جاتی رہی ہے
[۴] ۔ Tulsa، ریاست اوکلاما Oklahomaکا دوسرا سب سے بڑا اور امریکہ کا سینتالیسواں بڑا شہر
[۵] ۔ www.splcenter.org/fighting-hate/extremist-files/individual/david-duke
[۶] ۔ KKK’s David Duke Tells Iran Holocaust Conference That Gas Chambers Not Used to Kill Jews, Published December 13, 2006, Fox News
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

یہودی اور بائیولوجیکل وار (۲)

  • ۳۹۶

گزشتہ سے پیوستہ

آیت اللہ طائب:

۲۔ نفسیاتی جنگ؛ اس جنگ میں کسی ظاہری ہتھیار کا استعمال نہیں کیا جاتا بلکہ فلموں، ڈراموں، میڈیا، سوشل میڈیا، شبہات اور جھوٹ فراڈ وغیرہ وغیرہ کا استعمال کیا جاتا ہے۔ سوشل میڈیا کے ذریعے جھوٹ و فراڈ کی ایسی فضا بنائی جاتی ہے کہ انسان خود بخود منفعل ہو جاتا ہے اور کسی اقدام کی اس میں توانائی نہیں رہتی۔ فلموں کے ذریعے لوگوں کے ذہنوں پر قبضہ کیا جاتا ہے اور ان کی سوچ کو چھین کو اپنی سوچ دی جاتی ہے۔ اسے نفسیاتی جنگ کہتے ہیں۔ نفسیاتی جنگ میں دشمن بہت آگے نکل چکا ہے پورا میڈیا دشمن کے پاس ہے، تمام ذرائع ابلاغ دشمن کے قبضے میں ہیں، جو وہ چاہتے ہیں وہ لوگوں تک پہنچ پاتا ہے تو ایسی صورت میں تقریبا نفسیاتی جنگ میں اس وقت دشمن جیت چکا ہے اور ہم مسلمان ہار چکے ہیں۔ اس لیے کہ گھر بیٹھے بیٹھے ہمارے بچوں، جوانوں، عورتوں سب کی فکروں پر دشمن کی سوچ حاوی ہو چکی ہے۔
۳۔  کیمیائی جنگ؛ کیمیائی جنگ سے مراد کیمیائی ہتھیاروں کے ذریعے کی جانے والی جنگ نہیں ہے وہ جنگ ہتھیاروں کی جنگ کے ذمرے میں آ جاتی ہے یہاں پر کیمیائی جنگ سے مراد وہ جنگ ہے جو زہریلے مواد کے ذریعے اپنے دشمن کو پسپا کرنے کے لیے کی جاتی ہے مثال کے طور پر گزشتہ دور میں جس بستی یا گاؤں کے ساتھ جنگ ہوتی تھی اس بستی کے پانی کو زہر آلود کر دیا جاتا تھا، اور آج مثلا اس بستی کی فضا کو زہرآلود کر دیا جاتا ہے۔
۴۔ حیاتیاتی جنگ یا بائیولوجیکل وار؛ کسی بیماری کو کسی علاقے میں پھیلا کر یہ جنگ لڑی جاتی ہے گزشتہ دور میں بھی ایسا ہوتا رہا ہے کہ دشمن اپنے حریف کی کسی بستی میں متعدی بیماری پھیلا دیتا تھا اور جس سے بستی کی بستیاں اجڑ جاتی تھیں۔
تاریخ میں طاعون کی بیماری کی بہت ساری مثالیں موجود ہیں جس کے ذریعے بہت سارے لوگ لقمہ اجل بن جاتے رہے ہیں۔ اسلام سے قبل بھی یہ بیماری موجود تھی اور بعد اسلام بھی حالیہ سالوں تک موجود رہی ہے، ۱۸ ھجری قمری کو دوسرے خلیفہ کے دور حکومت میں شام کے علاقے میں طاعون کی بیماری پھیلی جس کی وجہ سے بہت سارے اصحاب رسول جیسے معاذ بن جبل موت کا شکار ہو گئے۔ ۸۷ ہجری میں بھی عبد اللہ بن زبیر کے دور حکومت میں پھیلی اور کئی بستیوں کو اجاڑ دیا۔
لیکن ہمیشہ یہ سوال رہا ہے کہ کیوں ایسا ہوتا ہے اور اس طرح کی مسری اور متعدی بیماریاں کیسے وجود پاتی ہیں۔ لیکن طول تاریخ میں مسلمانوں کو جس قوم پر شک رہا ہے وہ یہودی قوم ہے۔ چونکہ گزشتہ دور میں بھی اکثر یہ بیماری مسلمان بستیوں یا عیسائی بستیوں میں پھیلتی تھی اور یہودی اس کا شکار نہیں ہوتے تھے۔ شام میں یہودی بھی ان علاقوں میں زندگی بسر کرتے تھے جہاں طاعون کی بیماری پھیلی تھی مگر یہودی بہت کم اس بیماری کا شکار ہوئے۔ یوریشیا کے علاقے میں یہ بیماری پھیلی لیکن یہودی وہاں صحیح و سالم بچ گئے اسی وجہ سے یہودی ہمیشہ مشکوک نگاہ سے دیکھے جاتے تھے کہ کہیں یہ انہی کی کارستانیاں تو نہیں۔
انیسویں صدی میں اس وائرس کا انکشاف ہوا دوسری جنگ عظیم کے بعد طاعون کے وائرس کو طاقتور ملکوں نے اپنے حریفوں کے مقابلے میں استعمال کرنے کا کام شروع کر دیا۔ جاپان نے طاعون کے وائرس سے تیار کیے بم اپنے دشمنوں کو شکست دینے کے لیے استعمال کیے۔ لہذا اس طرح کی جنگ کو حیاتیاتی جنگ یا بائیولوجیک وار کہتے ہیں۔

جاری

 

کرونا وائرس کیا بائیولوجیکل وار ہے؟

  • ۴۱۰

بقلم نجیب الحسن زیدی
خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: آج بین الاقوامی سطح پر ہم سب جس بڑی پرشانی سے جوجھ رہے ہیں وہ کرونا وائرس ہے ، ساری دنیا میں ہا ہا کار مچی ہوئی ہے چین کے بعد سب سے زیادہ اس وائرس کی زد میں آنے والا ملک پہلے تو اٹلی تھا، یورپ کے حالات میں کم برے نہیں تھے  امریکہ کی تو بات ہی الگ ہے دنیا میں اس وقت سب سے زیادہ تباہی اس وائرس نے  امریکہ میں مچائی ہوئی ہے با این ہمہ عجیب بات یہ ہے کہ منظم طور پر اسلامی جمہوریہ  ایران کو  اس بیماری سے متاثر ہونے ہونے والے ایسے ملک کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے جہاں پر گویا دنیا میں سب سے زیادہ اموات ہو رہی ہوں جبکہ ایسا نہیں ہے، اور مختلف تجزیہ کار اس بات کو بیان کر رہے ہیں جو صورت حال امریکہ و یورپ کی ہے اس وقت اتنی بدتر صورت حال کہیں نہیں ہے ،انسانی معاشرہ کا یہ ایک ایسا مسئلہ ہے جس پر بین الاقوامی سطح پر سب کو مل جل کر آگے بڑھنا چاہیے اور اس سے مقابلہ کرنا چاہیے لیکن افسوس کہ ایسی صورت میں بھی کچھ لوگ سیاست کر رہے ہیں ، اور عجیب بات یہ ہے کہ اتنی خطرناک وبا کے ہوتے ہوئے دنیا کی تسلط پسندانہ عزائم رکھنے والی طاقت  نہ صرف اپنی ٹکنالوجی اور اپنی طاقت کو اس بیماری سے روکنے پر صرف نہیں کر رہی ہے بلکہ انسانی بنیادوں پر جہاں جہاں اس نے پابندی لگائی ہوئی ہے ان ممالک میں دوائی و میڈیکل سے متعلق سازوسامان کی ارسال و ترسیل کے کام کو بھی نہیں ہونے دے رہی ہے، اسی بات سے ثابت ہوتا ہے کہ انسانی حقوق کا نعرہ لگانے والی بڑی طاقتوں کو کس قدر انسانیت کی فکر ہے، اگر انہیں انسانیت کی فکر ہوتی تو کیا یہ عراق کی سرزمین پردنیا میں موجودہ افراتفری کے باوجود الحشد الشعبی کے ٹھکانوں پر  بمباری کرتے؟ اگر انہیں انسانیت کی فکر ہوتی تو کیا کربلا کے زیر تعمیر ائر پورٹ کو نشانہ بناتے، یا پھر انکی کوشش ہوتی کہ اپنے وسائل کو انسانیت کے تحفظ کی راہ میں استعمال کریں ۔
اور کیوں نہ ہو مختلف تجزیہ کار اس خدشہ کا مسلسل اظہار کرتے رہے ہیں کہ یہ ایک بائیولوجیکل جنگ ہے جسے دنیا کی سب سے بڑی طاقت نے چین کی ابھرتی معیشت کو روکنے کے لئے چھیڑا ہے، یہ اور بات ہے کہ دوسروں کے لئے گھڑہا کھودنے والا زیادہ دیر محفوظ نہیں رہتا اور اپنے کھودے گھڑے میں خود ہی گرتا ہے جو کہ آج ہو رہا ہے اور جتنی ہا ہا کار امریکہ میں مچی ہے کہیں یہ صورت حال نہیں ہے ، جہاں تک اس وائرس کے پیچھے امریکہ کے ہاتھ کی بات ہے تو اگر بات صرف  دنیا کے سپر پاور کے مخالفین کی جانب سے ہوتی تو یہ یقینا کہا جا سکتا تھا کہ بلا وجہ کے ازلی عناد کی وجہ سے کچھ لوگ مخالفت میں یہ بات کر رہے ہیں لیکن مسئلہ یہ نہیں ہے چنانچہ ایک امریکی مصنف ’کیون بیرٹ‘ کے تجزیہ پر اگر غور کریں تو انسان سوچنے پر مجبور ہوجاتا ہے کہ یقینا یہ کرونا وائرس محض ایک بلا یا بیماری نہیں ہے بلکہ اس کے پیچھے ایک تخریبی سیاست کارفرما ہے ، چنانچہ اس تجزیہ کے کچھ اہم نکات کو ہم آپ کے سامنے پیش کر رہے ہیں ۔
۱۔ سب سے پہلی بات یہ ہے کہ چین کے سیاسی اہلکاروں نے واضح طور پر اس بات کا خدشہ ظاہر کیا ہے کہ اس وائرس کے پیچھے امریکہ کا ہاتھ ہے  جسکے بعد  امریکہ میں مختلف خفیہ میٹنگیں ہوئی ہیں جنکی کوئی رپورٹ سامنے نہیں آ سکی ہے،کیااس بات کا احتمال نہیں ہے کہ امریکی مقتدرہ سے ہٹ کر اسکی بعض خفیہ ایجنسیوں نے من مانے طریقے سے اس وائرس کو چین سے مقابلہ کے لئے وہان میں پھیلا دیا ہو  اور اگر حقیقت میں بھی ایسا ہی ہو تو یہ واضح طور پر تیسری عالمی جنگ کی آہٹ ہے ۔
۲۔ آپ اگر غور کریں تو پائیں گے کہ امریکہ اور چین کے درمیان کی تجارت ٹھپ ہو گئی ہے  چین و امریکہ کی معیشتی مراکز کو الگ الگ کیا جا رہا ہے ، اور اس بات میں بھی کوئی دورائے نہیں ہے کہ اٹلی میں موجود چینی بندرگاہوں کو واضح طور پر نشانہ بنایا گیا ہے اور اٹلی کو چین کے ایک بڑے پروجیکٹ  بیلٹ اینڈ روڈ کے لئے مجرم قرار دے کر اسے اسکے کئے کی سزا دی گئی ہے ،
۳۔  جہاں تک ایران کی بات ہے تو ایرانی قیادت  کی فرنٹ لائن کو نشانہ بنایا گیا ہے  جبکہ ایران کے سپاہ پاسداران انقلاب سے وابستہ عہدہ داروں اور دیگر انقلابی اداروں کی جانب سے پہلے ہی اس بات کا اندیشہ ظاہر کر دیا گیا ہے کہ ایران میں بری طرح اس وائرس کا پھیلنا ایک بایولوجیکل جنگ کا حصہ ہو سکتا ہے ۔
یہ وہ باتیں ہیں جو ہم نہیں بلکہ امریکہ ہی کے ایک تجزیہ کار و مصنف نے بیان کی ہیں ،کیا ان باتوں کے پیش نظر یہ مقام غور نہیں ہے کہ ہم جس مصیبت میں پھنسے ہیں ، وہ مصیبت دنیا کی اس بڑی طاقت کی جانب سے ایجاد کی ہوئی ہے جس نے اپنے عزائم کو پورا کرنے کے لئے پوری دنیا کو ایک کھلونا بنا دیا ہے ۔
اگر چین کے بڑھتے عالمی رسوخ اور اسکی تیز رفتار ترقی کرتی معیشت کو دیکھا جائے  اور اس بات پر غور کیا جائے کہ دنیا کی بڑی طاقت اس سے مقابلہ کے لئے کیا کر سکتی تھی تو ہم اس بات کو سمجھ سکتے ہیں  کس طرح وہان شہر میں امریکی فوجی مشقیں ہوئیں اور پھر امریکی فوج جیسے ہی واپس پہنچی وہان شہر میں ہر طرف کرونا وائرس نے ہا ہاکار مچا دی ۔
اس موجودہ وائرس کی وجہ کوئی بھی ہو  فی الحال ہم سب کو مل کر اسکا مقابلہ کرنے کی ضرورت ہے اور اپنے ملک میں اس بات کی کوشش کرنے کی ضرورت ہے کہ وائرس پر جلد از جلد کنڑول ہو یہ ہم سب کی قومی اور شرعی ذمہ داری ہے ۔
     

 

 

امریکہ کے صدور یہودیوں کے اشاروں پر چلنے میں مجبور ہیں: ڈاکٹر صفاتاج

  • ۴۱۴

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: امریکہ میں حکومتی عہدیداروں کو اپنے کنٹرول میں رکھنے کے لیے یہودیوں کی طرف سے لابیاں تشکیل دینا اس ملک میں رائج امور کا حصہ ہے۔ امریکی حکومت پر صہیونی لابیوں کا اثر و رسوخ اتنا زیادہ ہے کہ امریکی حکومت میں یہودیوں کو پوشیدہ حکمران سمجھا جا سکتا ہے۔
خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ نے اسی حوالے سے امریکی حکومتی نظام میں صہیونیت کے نفوذ کے موضوع پر ڈاکٹر مجید صفاتاج سے گفتگو کی ہے۔

خیبر: امریکی حکومت پر صہیونی اثر و رسوخ اور اس ملک کے حکمراں طبقے میں صہیونی لابیوں کی تشکیل کے حوالے سے آپ کا کیا نظریہ ہے؟
۔ امریکی حکومت کے تنظیمی ڈھانچے نے ابتدا سے ہی بہت سارے بااثر افراد اور گروپوں کی پالیسیوں کے اثرات قبول کرنے کی راہ ہموار کر رکھی ہے، اس ملک میں مفاد پرست گروہ منتخب نمائندوں اور ایگزیکٹو برانچ کے ممبروں پر اثر انداز ہوسکتے ہیں۔ امریکہ میں ہمیشہ سے ہی دو جماعتیں؛ ڈیموکریٹک اور ریپبلکن رہی ہیں اور وقت گزرنے کے ساتھ ہر ایک ایکزیکیٹو پاور اور سیاسی اقتدار استعمال کرنے میں کامیاب رہی ہے۔ لہذا، صہیونیوں کے لئے ہمیشہ ریاستہائے متحدہ امریکہ پر حکمرانی کرنے اور امریکی خارجہ پالیسیوں میں ایک اہم کردار ادا کرنے کا موقع فراہم رہا ہے۔
اس سلسلے میں، یہودی لابی اور صیہونی گروپوں نے ہر مرحلے اور ہر دور میں صیہونی منصوبوں کی حمایت کرنے کے لئے اپنی خواھش کے مطابق امریکی حکومتیں قائم کیں۔ اصولی طور پر، ریاستہائے متحدہ میں اقتدار میں آنے والی مختلف حکومتوں میں بااثر یہودی جماعتیں ہمیشہ سے شامل تھیں جو امریکی حکومت سے وابستہ تمام تنظیموں، اداروں ، معیشتوں اورحتیٰ فوجی امور میں کلیدی اور حساس عہدوں پر موجود تھیں۔ ان میں سے کچھ لوگوں نے وائٹ ہاؤس کے فیصلہ سازی کے ان مراکز میں بھی کام کیا جو امریکی حکومت کے پالسیوں کو متاثر کر سکتے ہیں۔
یوں تو امریکی حکومت میں یہودیوں کا اثر و رسوخ ہمیشہ سے تھا مگر ۱۹ویں صدی عیسوی کے بعد تو امریکہ کی خارجہ پالیسی تقریبا یہودیوں کے ہی اختیار میں چلی گئی۔
ریاستہائے متحدہ کے صدور اپنی حکومت میں یہودیوں کی موجودگی کے بارے میں مختلف رائے رکھتے تھے اور ہیں۔ کچھ حکومت میں یہودیوں کی موجودگی کی مخالفت کرتے تھے ، جبکہ دوسرے یہودیوں میں سے اپنے نائبوں اور مشیروں کا انتخاب کرتے تھے۔ لیکن ایسا لگتا ہے کہ وہ صدور جو یہودیوں مشیروں کو انتخاب بھی کرتے تھے وہ صہیونی لابیوں کے دباؤ کی وجہ سے ہوتا تھا۔

در حقیقت، امریکی صدر ’روزویلٹ‘ کے دور حکومت میں اس وقت صہیونی لابی کا گہرا اثر و رسوخ شروع ہوا جب ۱۹۱۲ میں اسرائیل کی تشکیل کے لیے بالفور منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کے لیے امریکی صدر کی تصدیق درکار تھی۔ کیونکہ اگر امریکہ کی حمایت حاصل نہ ہوتی تو برطانیہ کی حکومت کبھی بھی بالفور اعلامیہ کو منظور کروانے میں کامیاب نہ ہوتی۔  
پہلی جنگ عظیم کے دوران، وائٹ ہاؤس میں یہودیوں کا ایک مضبوط دباؤ گروپ سامنے آیا، جو امریکہ کا سب سے طاقتور یہودی گروپ تھا۔  یہ گروپ فلسطین میں یہودی ریاست کی تشکیل کے لیے برطانوی اور امریکی حکومت کی حمایت حاصل کرنے میں موثر ثابت ہوا۔
دوسری جنگ عظیم کے بعد ریاست ہائے متحدہ امریکہ میں صہیونی اثر و رسوخ اس حد تک بڑھ گیا کہ ان کی حمایت کے بغیر کسی صدر کا انتخاب یا اس کی بقا ناممکن نظر آنے لگی۔

جاری
https://chat.whatsapp.com/HiMcVN8LrmFEjqVx12pmen

 

یہودیوں اور ابلیس کے درمیان شباہتیں

  • ۴۴۵

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: یہودی اور ابلیس کی خصوصیات اور صفات نیز ان کا راستہ ایک جیسا ہے اور یہ ہمیشہ ساتھ ساتھ نظر آتے ہیں اور ان کے اہداف ایک جیسے ہوتے ہیں۔
قرآن کریم میں اللہ تعالی نے کئی مرتبہ حضرت آدم علیہ السلام کے ساتھ ابلیس کی دشمنی کا تذکرہ کرنے کے بعد بنی اسرائیل کی طرف اشارہ کیا ہے کہ وہ کتنے عظیم گناہوں کے مرتکب ہوئے ہیں گویا آغاز عالم سے ہی بنی اسرائیل کی طینت اس کا سرچشمہ ہے۔ ارشاد ہوتا ہے:
“وَلَوْ أَنَّهُمْ أَقَامُواْ التَّوْرَاةَ وَالإِنجِیلَ وَمَا أُنزِلَ إِلَیهِم مِّن رَّبِّهِمْ لأکَلُواْ مِن فَوْقِهِمْ وَمِن تَحْتِ أَرْجُلِهِم مِّنْهُمْ أُمَّةٌ مُّقْتَصِدَةٌ وَکَثِیرٌ مِّنْهُمْ سَاء مَا یَعْمَلُونَ؛ اور اگر وہ توریت اور انجیل اور اس کو جو ان کے پاس ان کے پروردگار کی طرف سے اترا تھا ٹھیک طرح قائم رکھتے تو وہ کھاتے پیتے اپنے اوپر سے اور اپنے پیروں کے نیچے سے ان میں سے بس ایک گروہ تو اعتدال پر ہے اور زیادہ ان میں سے بڑا برا کردار رکھتے ہیں”۔ (سورہ مائدہ، ۶۶)
کچھ نمونے:
۱۔ حسد
ابلیس نے آدم(ع) کے ساتھ اور بنی آدم کے ساتھ حسد برتا اور حسد ابلیس کی وجۂ شہرت ہے۔ یہاں تک کہ حسد کی بنا پر اس نے اللہ کی نافرمانی کی اور راندۂ درگاہ ہوگیا لیکن کبھی بھی آدم کو سجدہ نہیں کیا۔ یہودی البتہ ابلیس سے زیادہ حاسد ہیں۔ کیونکہ یعقوب علیہ السلام کے بیٹوں نے اپنے بھائی حضرت یوسف علیہ السلام کے ساتھ حسد کیا اور کہہ ڈالا:
“اقْتُلُواْ یُوسُفَ أَوِ اطْرَحُوهُ أَرْضاً یَخْلُ لَکُمْ وَجْهُ أَبِیکُمْ وَتَکُونُواْ مِن بَعْدِهِ قَوْماً صَالِحِینَ؛ قتل کر دو یوسف کو یا کسی اور سر زمین پر لے جا کر ڈال دو کہ تمہارے باپ کی توجہ تمہاری طرف ہو جائے اور تم اس کے بعد پھر نیک لوگ ہو جانا”۔
(سورہ یوسف، آیت ۹)
۲۔ غرور اور خودغرضی
ابلیس نے اللہ کی بارگاہ میں گستاخانہ انداز سے اپنی آواز بلند کردی اور غرور، خودغرضی اور نسل پرستی کی بنا پر کہا:
قَالَ مَا مَنَعَکَ أَلاَّ تَسْجُدَ إِذْ أَمَرْتُکَ قَالَ أَنَاْ خَیْرٌ مِّنْهُ خَلَقْتَنِی مِن نَّارٍ وَخَلَقْتَهُ مِن طِینٍ؛ ارشاد ہوا کیا امر تجھے مانع ہوا جو تو سجدہ نہ کرے باوجودیکہ میں نے تجھے حکم دیا۔ اس نے کہا میں اس سے بہتر ہوں تو نے مجھے آگ سے پیدا کیا اور اسے تو نے مٹی سے پیدا کیا ہے”۔
(سورہ اعراف، آیت ۱۲)
یہودی بھی نسل پرستی اور کبر و غرور کی بنا پر چلا چلا کر کہتے تھے کہ ہم اللہ کی برگزیدہ قوم ہیں:
“وَقَالَتِ الْیَهُودُ وَالنَّصَارَى نَحْنُ أَبْنَاء اللّهِ وَأَحِبَّاؤُهُ قُلْ فَلِمَ یُعَذِّبُکُم بِذُنُوبِکُم بَلْ أَنتُم بَشَرٌ مِّمَّنْ خَلَقَ؛ اور یہودیوں اور عیسائیوں کا قول ہے کہ ہم اللہ کے بیٹے اور اس کے چہیتے ہیں۔ کہو کہ پھر وہ تمہیں تمہارے گناہوں کی سزا کیوں دیتا ہے بلکہ تم بھی اس کے مخلوقات میں سے کچھ انسان ہو”۔
(سورہ مائدہ، آیت ۱۸)
۳۔ زمین میں فساد پھیلانا
ابلیس کا کام اصولا روئے زمین پر فساد اور برائی پھیلانا ہے؛ جیسا کہ ارشاد ہوتا ہے:
“یَا أَیُّهَا الَّذِینَ آمَنُوا لَا تَتَّبِعُوا خُطُوَاتِ الشَّیْطَانِ وَمَن یَتَّبِعْ خُطُوَاتِ الشَّیْطَانِ فَإِنَّهُ یَأْمُرُ بِالْفَحْشَاء وَالْمُنکَرِ؛ اے ایمان لانے والو! شیطان کے قدم بقدم نہ چلو اور جو شیطان کے قدم بقدم چلے گا تو وہ بلاشبہ شرمناک کام اور برائی ہی کے لئے کہتا ہے”۔ (سورہ نور، آیت ۲۱)
خداوند متعال قرآن کریم میں یہودیوں کے بارے میں ارشاد فرماتے ہیں:
“الَّذِینَ یَنقُضُونَ عَهْدَ اللَّهِ مِن بَعْدِ مِیثَاقِهِ وَیَقْطَعُونَ مَا أَمَرَ اللَّهُ بِهِ أَن یُوصَلَ وَیُفْسِدُونَ فِی الأَرْضِ أُولَـئِکَ هُمُ الْخَاسِرُونَ؛ جو اللہ سے کیے ہوئے معاہدے کو اس کے استحکام کے بعد توڑ دیتے ہیں اور جس رشتہ کے ملائے رکھنے کا اللہ نے حکم دیا ہے، اسے وہ کاٹ ڈالتے ہیں اور دنیا میں خرابی کرتے ہیں، یہی وہ لوگ ہوتے ہیں جو گھاٹے میں رہنے والے ہیں”۔ (سورہ بقرہ، آیت ۲۷)
۴۔ انسانیت کے دشمن
خداوند متعال نے ارشاد فرمایا ہے ابلیس بنی آدم کا شدید ترین دشمن ہے اور انسانوں کو حکم دیتا ہے کہ ابلیس کو اپنا دائمی ابدی دشمن سمجھیں اور قرار دیں، اور ارشاد فرماتا ہے:
“إِنَّ الشَّیْطَآنَ لَکُمَا عَدُوٌّ مُّبِینٌ؛ بلاشبہ شیطان تم دونوں کا کھلا ہوا دشمن ہے”۔ (سورہ اعراف، آیت ۲۲)
ارشاد ہوتا ہے:
“إِنَّمَا یُرِیدُ الشَّیْطَانُ أَن یُوقِعَ بَیْنَکُمُ الْعَدَاوَةَ وَالْبَغْضَاء فِی الْخَمْرِ وَالْمَیْسِرِ وَیَصُدَّکُمْ عَن ذِکْرِ اللّهِ وَعَنِ الصَّلاَةِ فَهَلْ أَنتُم مُّنتَهُونَ؛ شیطان تو بس یہ چاہتا ہے کہ شراب اور جوئے میں مبتلا کرکے تمہارے درمیان کینہ و عداوت ڈالتا رہے اور تمہیں یاد خدا اور نماز سے باز رکھے تو کیا اب تم باز آؤ گے؟ (سورہ مائدہ، آیت ۹۱)
نیز ارشاد ہوتا ہے:
“إِنَّ الشَّیْطَانَ لَکُمْ عَدُوٌّ فَاتَّخِذُوهُ عَدُوّاً؛ یہ حقیقت ہے کہ شیطان تمہارا دشمن ہے تو اسے دشمن سمجھو۔
اب مؤمنین کے ساتھ دشمنی کے بارے میں قرآن کریم کیا ارشاد دیکھتے ہیں:
لَتَجِدَنَّ أَشَدَّ النَّاسِ عَدَاوَةً لِّلَّذِینَ آمَنُواْ الْیَهُودَ؛ یقینا آپ سخت ترین دشمن مسلمانوں کا پاؤ گے یہودیوں کو”۔ (سورہ مائدہ، ۸۲)
۵۔ اللہ تعالی کا انتباہ: ان کی پیروی نہ کرو
خداوند متعال نے مؤمنین کو خبردار کیا ہے کہ شیطان کی پیروی نہ کریں اور ان کے ساتھ دوستی سے اجتناب کریں:
“وَلاَ تَتَّبِعُواْ خُطُوَاتِ الشَّیْطَانِ إِنَّهُ لَکُمْ عَدُوٌّ مُّبِین؛ اور شیطان کے قدم بقدم نہ چلو، یقینا وہ تمہارا کھلا ہوا دشمن ہے”۔
(سورہ بقرہ، آیت۱۶۸ و آیت ۲۰۸؛ سورہ انعام، آیت ۱۴۲؛ سورہ نور، آیت ۲۱)
نیز اللہ تعالی مؤمنوں کو یہود اور نصاری کے ساتھ دوستی سے بھی خبردار فرماتا ہے اور ارشاد فرماتا ہے کہ ان کی دوستوں اور پیروکاروں میں شامل نہ ہوں:
یَا أَیُّهَا الَّذِینَ آمَنُواْ لاَ تَتَّخِذُواْ الْیَهُودَ وَالنَّصَارَى أَوْلِیَاء بَعْضُهُمْ أَوْلِیَاء بَعْضٍ وَمَن یَتَوَلَّهُم مِّنکُمْ فَإِنَّهُ مِنْهُمْ إِنَّ اللّهَ لاَ یَهْدِی الْقَوْمَ الظَّالِمِینَ؛ اے ایمان لانے والو! یہودیوں اور عیسائیوں کو اپنا دوست نہ بناؤ، یہ لوگ آپس میں ایک دوسرے کے دوست ہیں اور جس نے تم میں سے ان سے دوستی کی تو وہ ان ہی میں سے ہے۔ یقینا اللہ ظالموں کو منزل مقصود تک نہیں پہنچاتا۔ (سورہ مائدہ، آیت ۵۱)
۶۔ خیانت، غداری اور عہد شکنی
عہدشکنی شیطان کی فطرت میں شامل ہے؛ وہ عہد و پیمان کو نظر انداز کرتا ہے جیسا کہ یہودی نیز عیسائی بھی ایسا ہی کرتے ہیں اور معاصر تاریخ میں یہود و نصاری کی عہدشکنیوں کی داستانیں بھی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہیں۔
شیطان کی عہدشکنانہ خصلت کے بارے میں ارشاد ربانی ہے:
“وَقَالَ الشَّیْطَانُ لَمَّا قُضِیَ الأَمْرُ إِنَّ اللّهَ وَعَدَکُمْ وَعْدَ الْحَقِّ وَوَعَدتُّکُمْ فَأَخْلَفْتُکُمْ؛ اور شیطان کہے گا اس وقت کہ جب جو ہوتا ہے وہ ہو جائے گا کہ بے شبہ اللہ نے تم سے سچا وعدہ کیا تھا؛ اور میں نے تم سے جھوٹا وعدہ کیا تھا اور میں نے تم سے وعدہ خلافی کی”۔
(سورہ ابراہیم، آیت ۲۲)
آج کے زمانے کے یہودی ـ بطور خاص سیاسی یہودی ـ صہیونیت اور ماسونیت کے پیروکار اور شیطان پرستانہ عقائد کے حامل ہیں۔ یہودی بھی ابتدائے تاریخ سے عہد شکن رہے ہیں اور وعدہ خلافی کرتے ہیں بالکل شیطان کی طرح، جو ان کے وجود میں مجسم ہوچکا ہے؛ جیسا کہ ارشاد ربانی ہے:
“وَإِذْ أَخَذَ اللّهُ مِیثَاقَ الَّذِینَ أُوتُواْ الْکِتَابَ لَتُبَیِّنُنَّهُ لِلنَّاسِ وَلاَ تَکْتُمُونَهُ فَنَبَذُوهُ وَرَاء ظُهُورِهِمْ وَاشْتَرَوْاْ بِهِ ثَمَناً قَلِیلاً فَبِئْسَ مَا یَشْتَرُونَ؛ اور جب کہ اللہ نے ان سے جنہیں کتاب دی گئی تھی، عہدوپیمان لیا تھا کہ تم اسے ضرور لوگوں کے لیے واضح طور پر پیش کرتے رہو گے اور اسے چھپاؤ گے نہیں تو انھوں نے اسے اپنے پس پشت ڈال دیا اور اس کے عوض میں ذرا سی قیمت وصول کر لی تو کیا بری بات ہے وہ معاملت جو انھوں نے کی ہے”۔
(سورہ آل عمران، آیت ۱۸۷)
نیز قرآن کریم نے یہودیوں کے بارے میں ارشاد فرمایا:
“أَوَکُلَّمَا عَاهَدُواْ عَهْداً نَّبَذَهُ فَرِیقٌ مِّنْهُم بَلْ أَکْثَرُهُمْ لاَ یُؤْمِنُونَ؛ اور یہ (یہودی) جب بھی کوئی عہد کریں گے تو ان میں سے ایک جماعت اسے پس پشت ضرور ڈال دے گی بلکہ زیادہ ایسے ہی ہوں گے جو ایمان نہ لائیں گے”۔ (سورہ بقرہ، آیت ۱۰۰)
۷۔ ابلیس اور یہودی مؤمنوں کو کفر سے دوچار کرتے ہیں
شیطان کی آرزو ہے اور اس کو توقع ہے کہ مؤمنوں کو کافر کردے، لہذا راہ حق اور آزادی اور کامیابی و فلاح کے راستے میں گھات لگا کر بیٹھتا ہے جس طرح کے راہزن اور ڈاکو قافلوں اور مسافروں کی راہ میں گھات لگا کر بیٹھتے ہیں؛ چنانچہ شیطان اللہ سے عرض کرتا ہے:
“قَالَ فَبِمَا أَغْوَیْتَنِی لأَقْعُدَنَّ لَهُمْ صِرَاطَکَ الْمُسْتَقِیمَ ٭ ثُمَّ لآتِیَنَّهُم مِّن بَیْنِ أَیْدِیهِمْ وَمِنْ خَلْفِهِمْ وَعَنْ أَیْمَانِهِمْ وَعَن شَمَآئِلِهِمْ؛ اس نے کہا تو جیسا تو نے مجھے گمراہ قرار دیا ہے، اب میں ضرور بیٹھوں گا ان کے لیے تیرے سیدھے راستے پر ٭ پھر میں آؤں گا ان کی طرف ان کے سامنے سے اور ان کے پیچھے سے اور ان کے دائیں سے اور ان کے بائیں سے اور تو ان میں سے زیادہ کو شکر گزار نہیں پائے گا”۔ (سورہ اعراف، آیات ۱۶-۱۷)
معاصر تاریخ میں گناہ اور برائی اور فساد اور اخلاقی تباہی کے تمام بڑے اڈے اور آج کل کے زمانے میں گناہ کی ترویج کے تمام وسائل اور شیطان پرستی کے فروغ کا پورا انتظام نیز اسلامو فوبیا کے تمام منصوبے یہودیوں کے کنٹرول میں ہیں۔ قرآن کریم بنی اسرائیل کے دلوں میں چھپی ہوئی سازشوں اور بدنیتیوں کو برملا کرتا ہے اور ان کے مکر و فریب کے پردوں کو چاک کرتا ہے، ان مسلمانوں کی گمراہی کی شدید یہودی خواہشوں کو بےنقاب کرتا ہے اور فرماتا ہے کہ یہودیوں کا ارادہ، خواہش اور منصوبہ ہے کہ تم مرتد ہوجاؤ اور اسلام کو ترک کرو، وہ بھی ایسے وقت میں کہ وہ جان چکے ہیں کہ مؤمنین برحق ہیں؛ ارشاد فرماتا ہے:
“وَدَّ کَثِیرٌ مِّنْ أَهْلِ الْکِتَابِ لَوْ یَرُدُّونَکُم مِّن بَعْدِ إِیمَانِکُمْ کُفَّاراً حَسَداً مِّنْ عِندِ أَنفُسِهِم مِّن بَعْدِ مَا تَبَیَّنَ لَهُمُ الْحَقُّ؛ بہت سے اہل کتاب کی دلی خواہش یہ ہے کہ کسی طرح ایمان کے بعد پھر دوبارہ تم لوگوں کو کافر بنا لیں صرف حسد کی وجہ سے جو ان کے نفوس میں ہے۔ باوجود یکہ حق ان پر ظاہر ہو چکا ہے”۔ (سورہ بقرہ، آیت ۱۰۹)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

 

کیا غاصب جعلی اسرائیل قرآن میں مذکورہ بنی اسرائیل کے وارث ہیں؟ (۲)

  • ۴۶۳

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: گزشتہ سے پیوستہ
فلسطین کا تاریخچہ:
حضرت عیسی علیہ السلام کی ولادت سے ۲۵۰۰ سال قبل، کئی عرب نژاد قبائل جزیرہ نمائے عرب سے بحیرہ روم کے جنوبی ساحلی علاقوں کی طرف کوچ کرگئے۔ ان میں سے کچھ قبائل فلسطین میں سکونت پذیر ہوئے۔ ان کا پیشہ کاشتکاری اور زراعت سے عبارت تھا اور وہ کنعانی کہلائے اور اسی بنا پر سرزمین فلسطین ارض کنعان کہلائی۔
کچھ عرب قبائل لبنان میں رہائش پذیر ہوئے اور ان کا پیشہ کشتیرانی سے عبارت تھا۔ انہیں فینیقی (Phoenicians) بھی کہا گیا ہے۔
کنعانیوں کا ایک اہم قبیلہ “یبوسی” قبیلہ تھا جو بیت المقدس میں رہائش پذیر تھا اسی بنا پر قدیم زمانے میں بیت المقدس کو یبوس بھی کہا جاتا تھا۔
غاصب اسرائیلی ریاست کی تشکیل کا تاریخچہ:
غاصب اسرائیلی ریاست نظری لحاظ سے ایک “ماسونی ـ صہیونی” تحریک کا نام ہے اور عملی لحاظ سے ـ بطور خاص مغربی ایشیا اور شمالی افریقہ میں ـ استکباری دنیا کا انتظامی مرکز ہے۔ کسی وقت استکباری دنیا کا سرغنہ برطانیہ تھا اور آج امریکہ ہے۔
ایک۔ فلسطینی قوم ـ جو اسلام، عیسائیت اور یہودیت پر مشتمل تھی ـ صدیوں سے اس سرزمین میں قیام پذیر تھی۔ یہاں تک کہ سنہ ۱۰۹۹ع‍میں صلیبی جنگوں کا سلسلہ شروع ہوا اور عیسائیوں نے فلسطینی مسلمانوں کا قتل عام کیا۔
یورپی اور عیسائی مؤرخین کہتے ہیں کہ انھوں نے صرف بیت المقدس کی حدود میں ۶۰۰۰۰ افراد کا قتل عام کیا اور مسلمانوں کے خون سے ہولی کھیلی۔ (۶)
فلسطین ۸۸ سال کے عرصے تک صلیبیوں کے زیر تسلط رہا اور انھوں نے اس عرصے میں مسلمانوں کے ساتھ نہایت بےرحمانہ سلوک روا رکھا۔ یہاں تک کہ سنہ ۱۱۸۷ع‍(بمطابق ۵۸۳ہجری) میں صلاح الدین ایوبی نے صلیبیوں کو شکست دی اور اور فلسطین بشمول بیت المقدس مسلمانوں کی آغوش میں پلٹ آیا۔
دو۔ سنہ ۱۸۸۰ع‍میں قوم فلسطین کی آبادی پانچ لاکھ تھی جن میں یہودیوں کی تعداد صرف ۲۴۰۰۰ تھی؛ یعنی ۵ فیصد سے بھی کم۔ سنہ ۱۸۹۶ع‍میں ایک آسٹریائی یہودی صحافی تھیوڈور ہرزل (Theodor Herzl) نے ایک کتاب لکھی اور صہیونی تحریک کی بنیاد رکھی جس کا نصب العین یہ تھا کہ “یہودی کسی ایک سرزمین میں اپنی ریاست قائم کریں”۔
تین – ایک سال بعد، سنہ ۱۸۹۷ع‍میں سوئیٹزلینڈ کے شہر بیسل (Basel) میں صہیونی کانگریس کا اہتمام کیا گیا اور فلسطین میں یہودی آبادی میں اضافے کے لئے پوری دنیا سے یہودیوں کی فلسطین ہجرت اور ایک اسلامی سرزمین میں یہودی ریاست کی تشکیل کا منصوبہ منظور کیا گیا۔
اس منصوبے کے تحت ایک سال کے مختصر عرصے میں فلسطین میں (فلسطینی اور غیر فلسطینی) یہودیوں کی آبادی ۵ فیصد سے بڑھ کر ۱۱ فیصد تک پہنچ گئی۔ یعنی فلسطین کی کل آبادی (۷۵۰۰۰۰ افراد میں) یہودیوں کی تعداد ۸۵ ہزار تک پہنچی، البتہ اس دوران بھی مسلمانوں کی نسل کشی رائج تھی۔
چار – پہلی عالمی جنگ کے دوران سنہ ۱۹۱۷ع‍میں انگریز وزیر خارجہ بالفور نے ایک اعلامیئے کے تحت فلسطین میں یہودی ریاست کے قیام اور اس کی حمایت کی برطانوی پالیسی کا اعلان کیا۔
ایک سال بعد، برطانیہ نے فلسطین پر قبضہ جمایا اور غیر فلسطینی یہودیوں کی فلسطین ہجرت کا سیلاب امڈ آیا۔ سنہ ۱۹۱۹ع‍سے ۱۹۲۳ع‍کے چار سالہ عرصے میں ۳۵ ہزار غیر فلسطینی یہودی فلسطین میں آ بسے۔
برطانوی حکومت نے ۱۹۳۲ سے ۱۹۳۵ع‍کے عرصے میں ایک لاکھ پینتالیس ہزار یہودیوں کو برطانیہ اور برطانیہ کی نوآبادیوں سے فلسطین منتقل کیا اور ۱۰ہزار یہودی بلا اجازت اور غیر قانونی طور پر فلسطین میں آ ٹپکے۔ یوں یہودیوں کی آبادی کی شرح ۵ فیصد سے ۳۰ فیصد تک پہنچی۔
پانچ – دوسری عالمی جنگ بہترین بہانہ بن گئی۔ یہ جنگ عیسائیوں کے درمیان تھی لیکن ہٹلر کی کشورگشائی کو یہودکشی کا نام دیا گیا اور جنگ کے اہداف میں تحریف کی گئی حالانکہ اس جنگ میں سات کروڑ انسان مارے گئے تھے لیکن یورپی قوانین میں اس بات پر زور دیا گیا کہ اس جنگ کے حوالے سے صرف یہودی ہالکین کو موضوع سخن بنائیں؛ اور جہاں خدا اور انبیاء الہی حتی کہ عیسی علیہ السلام کی توہین کو بیان کی آزادی کے تحت جائز قرار دیا جاتا ہے، قرار دیا گیا کہ کسی کو بھی یہ حق اور اختیار حاصل نہیں ہے کہ وہ اپنی تحقیقات میں اس قانون کو چیلنج کرے اور یہودیوں کے ہالکین کی تعداد کو ساٹھ لاکھ سے کم گردانے اور اس قانون کا نام “ہالوکاسٹ” کا قانون رکھا گیا۔
اگر مان بھی لیا جائے کہ یہودی ہلاک شدگان کی تعداد اتنی ہی تھی تو یہ تعداد جنگ کے مجموعی مقتولین میں ۱۰ فیصد سے بھی کم تھے اور اس سے بھی بدتر یہ ہے کہ مقرر کیا گیا کہ یہودی ہلاک شدگان کا تاوان جرمنوں کے جائے فلسطینی مسلمانوں سے وصول کیا جائے!! اور مسلمانان عالم ان ہی یورپیوں اور امریکیوں کو انسانی تہذیب کا نقیب قرار دیتے رہے۔
چھ – سنہ ۱۹۴۵ع‍میں برطانیہ نے ریاست ہائے متحدہ امریکہ کے ساتھ مل کر ایک لاکھ یہودیوں کو امریکہ اور یورپ سے فلسطین بھجوایا اور ۱۹۴۷ع‍میں فلسطین کی کل آبادی اٹھارہ لاکھ سرسٹھ ہزار تک پہنچی جس میں یہودیوں کی آبادی چھ لاکھ پندرہ ہزار (یعنی ۳۲٫۹ فیصد) تھی جبکہ مسلمانوں کی آبادی دس لاکھ نوے ہزار (یعنی ۵۸٫۴ فیصد) تھی جبکہ اس آبادی میں ایک لاکھ پچاس ہزار (یعنی ۷٫۸ فیصد) کے لگ بھگ عیسائی شامل تھے۔
سات – سنہ ۱۹۴۸ع‍نے ـ جس نے یہودی ریاست کے لئے مناسب ماحول فراہم کرلیا تھا ـ فلسطین سے انخلاء کا اعلان کیا اور یہودی پناہ گزینوں نے اس سرزمین کو غصب کرلیا۔ جس طرح کہ بعد کے برسوں میں امریکیوں اور انگریزوں نے بظاہر افغانستان اور عراق سے انخلاء کا اعلان کیا اور چند قومی دہشت گردوں کو اپنے متبادل کے طور پر ان ملکوں پر مسلط کیا۔ یہودی پناہ گزینوں نے بلا روک ٹوک کے فلسطینیوں کا قتل عام کیا اور انہیں ملک چھوڑنے پر مجبور کیا۔ یہاں تک کہ ڈیوڈ بن گورین نے تل ابیب میں یہودی ریاست کے قیام کا اعلان کیا۔
غاصب اسرائیلی ریاست کے اعلان کے بعد فلسطینی مسلمانوں کی نسل کشی میں شدت آئی اور زیادہ شدت سے انہیں ملک چھوڑنے پر مجبور کیا گیا اور یہ سلسلہ آج [۲۰۱۸ع‍] میں بھی جاری ہے۔
نکتہ: تو جیسا کہ تاریخ بتاتی ہے، اسرائیل کی صہیونی ـ یہودی ریاست کا قوم بنی اسرائیل سے کوئی تعلق نہیں ہے کیونکہ جو فلسطینی تھے ـ جس قوم سے بھی تعلق رکھتے تھے ـ ان کی اکثریت نے اسلامی قبول کیا اور کچھ لوگ عیسائی اور ایک چھوٹی اقلیت یہودی رہے۔
۔ کردوں کے لئے ایک الگ سرزمین اور غاصب اسرائیل کی طرح، امریکہ، برطانیہ اور یہودی ریاست کی حمایت سے کردی ریاست ـ جو درحقیقت دہشت گردوں اور شرپسندوں کی سرزمین ہوگی ـ کے قیام کے بہانے القاعدہ، داعش، النصرہ اور ان جیسے دہشت گرد اور خونخوار ٹولوں کی پرورش کی روش، بالکل غاصب اسرائیلی ریاست کی مانند ہے۔
ابتداء میں شیطانی استکباری طاقتوں نے اعلان کیا کہ مشرق وسطی کے جدید نقشے میں، بہت سے ملکوں کو تقسیم ہونا چاہئے، بعدازاں اعلان کیا کہ کردوں کے لئے ایک خودمختار کردی ریاست کا قیام عمل میں آنا چاہئے۔، بعدازاں مغربی طاقتوں نے دہشت گرد ٹولوں کو تشکیل دیا، انہیں تربیت دی اور اسلحہ فراہم کیا۔ مغرب اور یہودی ریاست نے ان کی حمایت کی اور مسلمانوں کے قتل عام کے سلسلے میں نفرت انگیز مناظر تخلیق کئے تا کہ مسلمانوں کا قتل عام ہو، انہیں خوفزدہ کیا جائے اور اپنا گھر بار اور وطن چھوڑنے پر مجبور ہوجائیں اور مسلمانوں کا وسیع قتل عام کرایا۔
اس بار البتہ دہشت گردوں نے اپنے ادارے کا نام “دولۃ الاسلامیہ” رکھا تاکہ کوئی یہ نہ کہے کہ یہ لوگ یہودی ریاست کے لئے کام کررہے ہیں اور پھر دنیا بھر کے انسان اسلام اور اس کے نام اور دولت اسلامی سے خوفزدہ ہوجائیں اور اسلامو فوبیا کو فروغ ملے۔ لیکن اس کے باوجود وہ یہ بھی اقرار کرتے ہیں کہ سترہ ہزار داعشیوں میں بارہ ہزار غیر ملکی بھی شامل ہیں جن میں سے اکثر کا تعلق یورپ سے ہے۔
یورپ نے ایک طرف سے داعش اور اس جیسے خونخوار اور نسل کش ٹولوں کو پروان چڑھایا، مسلح کیا، حربی آلات سے لیس کیا اور عراق اور شام کا چوری کا تیل خرید کر انہیں صاحب ثروت بنایا اور اپنے ملکوں سے رضاکارانہ طور پر داعش اور دوسرے ٹولوں میں شامل ہونے کو سفر اور شمولیت کا امکان فراہم کیا اور اپنے حلیف ملک ترکی کو انہیں شام میں اور عراق میں بھجوانے کا ٹاسک دیا اور اب انھوں نے اعلان کیا ہے کہ یورپی دہشت گردوں کو ندامت اور توبہ کا حق حاصل نہیں ہے تا کہ وہ علاقے کے مسلم ممالک کے اندر رہ کر لڑیں۔
امریکہ نے بھی دہشت گردوں کے ساتھ نوراکشتی کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے تا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ کے بہانے اپنی افواج کو ان ممالک میں متعین کرے اور ان ممالک کی تقسیم میں براہ راست کردار ادا کرسکے۔
امریکہ کا سرکاری اعلان یہ کہ داعش اور اس جیسے دہشت گردوں کو کم از کم ۲۰ سال کے عرصے تک زندہ اور سرگرم رکھا جائے گا۔ گوکہ بظاہر ان کا کہنا ہے کہ “ان ٹولوں کا خاتمہ ۲۰ سال تک ممکن نہیں ہے”۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۱۔ آلبرائٹ ، ص۲۳۶؛ ڈانئیل ـ ریپس ، ص۱۴ـ ۱۵؛ اسمارٹ، ص۳۸۴ـ۳۸۵۔۔۔
۲۔ قرآن سمیت اسلامی منابع و مآخذ میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کے دو بیٹے اسماعیل اور اسحاق علیہما السلام تھے۔
٭۔ سورہ، مائدہ، آیات ۲۴ تا ۲۶۔
۳۔ بیک، ص۲۸ـ ۴۸؛ اسمارٹ، ص۲۹۱؛ د۔ جوڈائیکا، ج۸۔
۴۔ د۔ جوڈائیکا ، ج۸، کالم ۵۹۳ ـ۵۹۹۔
۵۔ عہد قدیم، پیدائش ، باب ۳۲: ۲۷ـ ۲۸۔۔۔ یہودیوں کی تحریف شدہ کتاب میں آیا ہے کہ یعقوب(ع) پیغمبری کی وجہ سے نہیں بلکہ خدا اور بندگان خدا پر غلبہ پانے کے بعد اسرائیل کہلائے۔
۶۔ گستاولی بون، تاریخ تمدن اسلام و عرب، ص۴۰۱۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

کتاب” اسرائیل کی مقدس دہشت گردی” کا تعارف

  • ۶۲۶

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: ’’اسرائیل کی مقدس دہشت گردی‘‘ لیویا روخارچ نامی ایک یہودی و اسرائیلی خاتون کے ذریعہ صفحہ قرطاس پر سامنے آنے والی ایسی کتاب [۱] ہے جو ۱۹۸۰ میں منظر عام پر آئی اور اس کتاب پر مقدمہ معروف امریکن یہودی نوام چومسکی [۲] نے لکھا ہے ۔
یہ کتاب۱۹۳۳ ۔ ۱۹۴۸) تک یہود ایجینسی کے سیاسی ڈپارٹمنٹ کے سربراہ کا عہدہ رکھنے والے موشے شارٹ[۳] کی ڈائری اور انکی جانب سے لکھے جانے والے نوٹس پر مشتمل ہے جو کہ بعد میں صہیونی حکومت کے سب سے پہلے وزیر خارجہ ہوئے جسکا دورانیہ ۱۹۴۸۔سے ۱۹۵۶ ء رہا اور اسکے بعد ۱۹۵۴ سے ۱۹۵۵ تک اسرائیل کے وزیر اعظم کے طور پر انہوں نے اپنا کام کیا ۔موشے شارٹ کی ہر روز کی ڈائری کو سب سے پہلے ان کے بیٹے نے ۱۹۷۹ میں مقبوضہ فلسطین میں شائع کیا تھا ۔
مصنفہ لیویا روخارچ ،موشے شارٹ کی وزارت عظمی کے دوران وزیر داخلہ کے عہدہ پر رہنے والے اسرائیل راکاخ کی بیٹی ہیں۔
موشے شارٹ کی منظر عام پر آنے والی ڈائری جو کہ عبری میں نشر ہوئی تھی اسرائیل میں کسی کی توجہ کو اپنی طرف مبذول نہ کر سکی البتہ لیویا روخارچ کے قلم سے انگریزی زبان میں جب یہی کتاب مارکیٹ میں آئی تو بین الاقوامی سطح پر چوطرفہ طور پراس کی پذیرائی ہوئی ۔
مصنفہ روخارچ ۱۹۷۰ کی دہائی میں اٹلی کی طرف ہجرت کر گئیں، اور انہوں نے اپنے تشخص کو مخفی رکھا اور اپنی نام نشانی کو پوشیدہ رکھتے ہوئے انہوں نے فلسطین سے متعلق ایک اطالوی شہری کی شناخت ظاہر کرتے ہوئے اپنی زندگی گزاری ۔
۱۹۸۰ ء میں روخارچ نے صہیونی حکومت کی شدید دھمکیوں کے باوجود امریکہ میں اس کتاب کو منتشر کیا، اور پھر ٹھیک ۵ سال بعد ۱۹۸۵ء میں روخارچ کی لاش روم کے ایک ہوٹل میں ملی ۔
اس کتاب کا اہداء ان فلسطینیوں کے نام ہے جو اسرائیل کے مظالم اور اس کی خبیث دہشت گردانہ کاروائیوں کا شکار ہوئے ہیں ۔مصنفہ روخارچ اپنے اہداییہ میں لکھتی ہیں :’’ دہشت گردانہ کاروائیوں اور ٹرریزم اور انتقام کو اسرائیلی معاشرہ میں ایک نئی قدر حتی تقدس کی حد تک سراہا جاتا ہے ‘‘۔ ۱۹۸۶ میں’’ اسرائیل کی مقدس دہشت گردی‘‘ کا تیسرا ایڈیشن بھی شایع ہو گیا ۔
اس کتاب میں سب سے پہلے ٹرریزم کی تعریف کرتے ہوئے اسکے مفہوم کی وضاحت کی گئی ہے اس کے بعد صہیونی حکومت کے فکری اور اعتقادی پس منظر کو اسی مفہوم کے تحت پیش کرنے کی کوشش کی گئی ہے نیز اس کے تاریخی سابقہ کا جائزہ بھی لیا گیا ہے ۔اسکے بعد صہیونی حکومت کی دہشت گردانہ کاروائیوں کے طریقہ کار اور اس کے انواع و اقسام پر روشنی ڈالی گئی ہے اور اختتام میں فلسطین میں موجود صہیونیوں کے فاشسٹی و دہشت گردانہ نظریات کے حامل گروہوں کو اسرائیل کے وجود سے قبل و بعد دونوں ہی مراحل میں متعارف کرایا گیا ہے ۔
اس کتاب میں چامسکی نے اپنے مقدمہ میں بہت ہی عمدہ و نفیس مطالب کو بیان کیا ہے من جملہ ان میں ایک بات یہ ہے کہ روخارچ نے اپنے مقدمہ میں دو صہیونی اسلوبوں mythical پر مشتمل مفروضوں اور ایک احساس کا نام لیا ہے اور ان اسلوبوں اور ایک احساس کے مجموعہ کو صہیونیوں نے، فلسطینیوں کی سرکوبی، ان پر تشدد، قتل، جیل میں ڈالنے ، دربدر کر دینے، انکے گھروں کو ویران کرنے، اور مقبوضہ فلسطین سے خود کو پیچھے نہ ہٹنے دینے کی دستاویز بنایا ہوا ہے ۔ یہ وہ چیزیں ہیں جن سے صہیونی حکومت نے بھر پور فائدہ اٹھایا ہے اور اٹھا رہی ہے ۔
 
ان صہیونی مفرضوں کو حسب ذیل انداز میں پیش کیا جا سکتا ہے۔
الف: مفروضہ تحفظ وامنیت : مفروضہ تحفظ و امنیت یا اس بات کا توہم کہ فلسطین میں موجود یہودیوں کا وجود دائمی خطرات کے سایہ میں ہے جوکہ بہت ہی سنگین ہیں ۔
ب : عربوں کا ڈر اور انکا خوف اور انکی دھمکیاں ؛ عربوں کی دھمکیوں، انکے خوف و ڈر کو اس انداز سے پیش کیا گیا ہے کہ صہیونیوں نے پروپیگنڈہ کے ذریعہ اپنی مظلومیت کو اس کے بل پر پیش کیا ہے اور پیش کر رہے ہیں۔
ج: روخارچ نے حساس انداز میں اس بات کی طرف اشارہ کیا ہے کہ یہ وہ چیز ہے جسے صہیونیوں نے اعراب کے خوف و ہراس کو اپنے لوگوں کے دلوں میں بٹھانے کے لئے مصنوعی انداز میں پیش کیا ہے ، اس ڈر و خوف کی فضا کو اس طرح بنایا گیا ہے کہ لوگوں کو یہ باور کرایا جا سکے اور انہیں اس بات کی تلقین کی جا سکے کہ اسرائیلی معاشرہ بہت بری طرح چو طرفہ طور پر گھرا ہوا ہے اور محاصرہ میں ہے ۔
حوالہ جات
[۱] ۔ Livia Rokach, Israel”s Sacred Terrorism, A Study Based on Moshe Sharett’s Personal Diary and Other Documents, USA: AAUG Press, 1980
[۲] ۔ اَورام ناؤم چومسکی (عبرانی: אברם נועם חומסקי) (پیدائش ۷ دسمبر ۱۹۲۸) ایک یہودی امریکی ماہر لسانیات ، فلسفی ، مؤرخ ، سیاسی مصنف، اور لیکچرار ہیں۔ ان کے نام کا اولین حصہ اَورام دراصل ابراہیم کا عبرانی متبادل ہے۔ وہ مشہور زمانہ میساچوسٹس انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی شعبہ لسانیات میں پروفیسر رہے اور اس ادارے میں پچھلے ۵۰ سالوں سے کام کیا۔ چومسکی کو لسانیات میں جینیریٹو گرامر کے اصول اور بیسویں صدی کے لسانیات کا بانی تصور کیا جاتا ہے۔ ان کے کام سے کمپیوٹرسائنس ، ریاضی اور نفسیات کے شعبے میں ترقی ہوئی۔ چومسکی کی خاص وجہ شہرت ان کی امریکی خارجہ پالیسی اور سرمایہ دارانہ نظام پر تنقید رہی ہے۔ وہ ۱۰۰ سے زیادہ کتابوں کے مصنف رہے ہیں۔ انکی ایک کتاب دنیا کس طرح کام کرتی ہے نے بڑی شہرت پائی۔
[۳] ۔ Moshe Sharett, Yoman Ishi [Personal Diary], edited by Yaqov Sharett, Tel Aviv: Ma”ariv, 1979.

 

تحریک فلسطین کی کامیابی میں ایران کا کردار

  • ۵۷۵

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: مصری صدر جمہوریہ، انور السادات پہلے عرب حکمران تھے جنہوں نے “جنگ رمضان” کے عنوان شہرت پانے والی ۱۹۷۳ کی جنگ کے بعد، اسرائیل کے ساتھ سازباز کا راستہ اپنایا اور یہودی ریاست کو تسلیم کیا اور کیمپ ڈیویڈ نامی سازباز کی قرارداد منعقد کرکے جعلی ریاست کا مقابلہ کرنے اور فلسطین کی آزادی کے سلسلے میں عربی امت کی ناامیدی کے اسباب فراہم کئے۔
حضرت امام خمینی (قُدِّسَ سِرُّه) نے فلسطینی کاز اور امت اسلامی کے ساتھ اس خیانت و غداری کی بارہا مذمت فرمائی اور انورالسادات کی صلح کے سلسلے میں فرمایا:
“میں سنجیدگی کے ساتھ انور السادات کے اقدامات کی مذمت کرتا ہوں، سادات نے اسرائیل کے ساتھ صلح کی سازش قبول کرکے حقیقتاً امریکہ کی استعماری حکومت سے اپنی وابستگی کو مزید آشکار کردیا اور مصری قوم کو چاہئے کہ اس غدار کو اپنے ملک سے دور کردے اور امریکہ اور صہیونیت سے اپنے ملک کی وابستگی کے دھبے کو اپنے ملک کے ماتھے سے مٹا دے”۔
بے شک؛ ایران کے اسلامی انقلاب نے نہ صرف فلسطینی عوام کے اسلامی انقلاب میں اہم کردار ادا کیا ہے بلکہ عالم اسلام کی بیداری اور ہوشیاری میں بھی اس کا کردار ناقابل انکار ہے۔ ایران کا اسلامی انقلاب اسلام پسندی، استکبار کے خلاف جدوجہد اور اسلامی اقوام کے درمیان اسلامی حکومتوں کے قیام کے حوالے سے ایک مثالی نمونے میں تبدیل ہوچکا ہے۔ یہاں تک کہ مغربی کیمپ اور غیر جمہوری عرب ممالک کے سربراہان کے لئے ایک سنجیدہ چیلنج بن چکا ہے۔ وہ بخوبی اس حقیقت کا ادراک کرچکے ہیں کہ اتنے وسائل اور امکانات کے ہوتے ہوئے، عالم اسلام کی بیداری، مغربی دنیا اور غیر جمہوری عرب حکومتوں کے سربراہوں کے مفاد میں نہیں ہے۔ انقلاب اسلامی دینی تعلیمات کی طرف بازگشت، اپنی قوتوں پر بھروسہ کرنے، فلسطینی مجاہدین کی طرف سے اسلامی نظام کو نمونۂ عمل قرار دیئے جانے، دشمنوں کے خلاف جہاد کے لئے مسجد کو کمان کا اصل مرکز قرار دینے، اسلام کی بنیاد پر وحدت و یکجہتی اور جہادی تنظیموں کے قیام کے حوالے سے ملت فلسطین پر گہرے اثرات مرتب کرچکا ہے یہاں تک کہ انتفاضہ تحریک اسلامی انقلاب سے ملت فلسطین کی اثر پذیری کا ثمرہ ہے۔
فلسطینی بحران کا انتظام طویل عرصے تک عرب حکومتوں اور فلسطینی چھاپہ مار تنظیموں کے زعماء کے ہاتھ میں رہا لیکن وہ جاری قواعد میں کوئی تبدیلی نہ لا سکے۔
انقلاب اسلامی کی کامیابی کے بعد، امام خمینی کی ہدایات اور راہنمائیوں کی روشنی میں ـ جو مسئلہ فلسطین کو اسلامی مزاحمت اور اسرائیل کے ساتھ سازباز سے اجتناب کے دریچے سے دیکھتے تھے ـ اس مسئلے میں عظیم تبدیلیاں رونما ہوئیں۔
لبنان میں حزب اللہ کی کامیابی امام خمینی کے تفکرات کے مرہون منت ہے۔ سید مقاومت، سید حسن نصراللہ کے مطابق “لبنان میں شروع اور متحرک ہونے والی مزاحمت کی بنیاد اور اساس، اپنی گہرائیوں، اپنی قوت، فعالیت اور سنجیدگی کے لحاظ سے امام خمینی کی طرف ہی پلٹتی ہے اور سنہ ۲۰۰۰ میں صہیونی ریاست کی لبنان سے غیر مشروط پسپائی، صہیونی ریاست پر ان کی اہم ترین کامیابی تھی جو کہ اسلام پسندوں کے ہاتھوں حاصل ہوئی۔
سنہ ۲۰۰۵ میں غزہ کی پٹی سے یہودی ریاست کی پسپائی بھی فلسطین کی اسلامی مزاحمت کے مرہون منت ہے جس نے اپنے اگلے مرحلے میں انتخابات میں کامیاب ہوکر فلسطینی حکومت کی باگ ڈور سنبھالی۔ اور انقلابی مشروعیت کے ساتھ انتخابی مشروعیت کو بھی حاصل کرچکے۔
یہ تمام تر عظیم تبدیلیاں امام خمینی کے افکار کے مرہون منت ہیں جنہوں نے انقلاب اسلامی اور جدوجہد کو فلسطین کی آزادی کی بنیاد قرار دیا اور علاقے میں اسلامی مزاحمت کو فروغ دیا۔
تحریک جہاد اسلامی کے شہید قائد ڈاکٹر فتحی شقاقی نے ایران کے اسلامی انقلاب اور فلسطینی جدوجہد پر اس کے اثرات کے بارے میں کہا ہے: “کوئی بھی چیز امام خمینی (قُدِّسَ سِرُّہ) کے انقلاب کی طرح ملت فلسطین کو متحرک نہ کرسکی، اور ان کے جذبات کو نہ ابھار سکی اور فلسطینی ملت کے دلوں میں امید کو زندہ نہ کرسکی۔ انقلاب اسلامی کے بعد ہم جاگ اٹھے اور سمجھ گئے کہ امریکہ اور اسرائیل کو بھی شکست دی جاسکتی ہے، ہم سمجھ گئے کہ دین اسلام کی تعلیمات کی رو سے معجزہ رقم کرسکتے ہیں اور اسی بنا پر فلسطین میں ہماری مجاہد قوم اسلامی انقلاب اور اسلامی جمہوریہ کو قدر کی نگاہ سے دیکھتی ہے اور امام خمینی کو تاریخ اسلام کے زندہ جاوید قائد سمجھتے ہیں”۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

یہودی اور بائیولوجیکل وار (۱)

  • ۴۱۵

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: حیاتیاتی جنگ یا بائیولوجیکل وار اس جنگ کو کہا جاتا ہے جس میں ظاہری ہتھیاروں کے استعمال کے بجائے ایسے جراثیم استعمال کیے جاتے ہیں جو تیزی کے ساتھ ایک شخص سے دوسرے شخص کی طرف بڑھ سکتے ہوں، ہوا کے ذریعے پھیل سکتے ہوں، سانس کے ذریعے پھیل سکتے ہوں یا ایک دوسرے کو چھونے کے ذریعے۔ گزشتہ دور سے دشمن ایک دوسرے کے خلاف جنگ کا یہ طریقہ استعمال کرتے آئے ہیں اور اس کی مثالیں کثرت سے تاریخ میں موجود ہیں۔ عصر حاضر میں پھیلی یا پھیلائی گئی اس بیماری کے بارے میں بھی یہ خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ یہ بھی انسانیت کے دشمنوں کی جانب سے ایک قسم کی حیاتیاتی جنگ ہے۔ اس حوالے سے حوزہ علمیہ قم کے معروف استاد حجۃ الاسلام و المسلمین مہدی طائب نے اپنے فقہ کے درس کے دوران ایک تفصیلی تجزیہ پیش کیا ہے جس کو مختلف حصوں میں قارئین کے لیے پیش کرنے کی کوشش کریں گے؛
کتاب و سنت کی روشنی میں کسی بھی چیز کے حکم کو معلوم کرنے کے لیے سب سے پہلے ضروری ہے کہ ہم اس چیز کے بارے میں مکمل طور پر آشنائی حاصل کر لیں۔ اگر ہم جنگ کے احکام معلوم کرنا چاہیں، جہاد اور دفاع کے احکامات معلوم کرنا چاہیں تو ضروری ہے کہ پہلے دشمن کی جانب سے کئے جانے والے حملوں کی قسموں کو پہچانیں پھر ان کا مقابلہ کرنے کے راستوں کو جان سکتے ہیں اور اپنا دفاع کر سکتے ہیں۔
جہاد کی دو قسمیں بیان کی گئی ہیں؛ ابتدائی جہاد اور دفاعی جہاد۔
ابتدائی جہاد کفار و مشرکین کے ساتھ جنگ اور انکو اسلام کی دعوت دینا اور عدالت برقرار کرنا کے معنی میں ہے جس میں جنگ کے آغاز گر مسلمان ہوتے ہیں اور مقصد کفر کا خاتمہ اور دین الہی کی گسترش ہوتی ہے، یہ جہاد اہل تشیع کے نزدیک امام معصوم کے عصر غیبت میں منتفی ہے چونکہ ابتدائی جہاد کے لیے نبی یا امام معصوم کا حکم ضروری ہے۔
لیکن دفاعی جہاد مسلمانوں اور اسلامی سرزمین کی حفاظت کے لیے ہر دور میں موجود ہے اور ہر انسان پر فرض ہے۔ دشمن کے حملے کے مقابلے میں اپنے جان و مال اور اپنے دین و وطن کی حفاظت کرنا ایسا مسئلہ ہے جو عقلی اعتبار سے ثابت ہے اور آیات و روایات میں اس کی تصدیق کی گئی ہے۔
لیکن دفاعی جہاد کرنے سے پہلے دشمن کے حملوں کو پہچانا ضروری ہے کہ دشمن کتنے طریقے سے ہمارے اوپر حملہ ور ہو سکتا ہے۔ بطور کلی اگر دیکھا جائے تو دشمن نے ابھی تک چار طرح کی جنگیں کی ہیں؛
۱۔ ہتھیاروں کی جنگ؛ ہتھیاروں کی جنگ ہر دور میں متعارف ہے اور زمانہ قدیم سے آج تک جتنی جنگیں ہوئی ہیں وہ مختلف قسم کے ہتھیاروں سے ہی لڑی گئی ہیں صرف فرق یہ ہے کہ قدیم زمانے کی جنگوں میں استعمال ہونے والے ہتھیار تیر و کمان تھے لیکن آج میزائل اور ایٹم بم ہے۔ گزشتہ دور کی جنگوں میں دونوں فریقوں کو آپس میں لڑنے کے لیے میدان جنگ کا رخ کرنا پڑتا تھا لیکن آج گھر بیٹھے بیٹھے شہروں کے شہر برباد کیے جا سکتے ہیں۔
لہذا ہتھیاروں کی جنگ میں دشمن کا مقابلہ کرنے کے لیے ہر ملک کو اتنے ہی قوی ہتھیار بنانے پڑتے ہیں جتنے اس کے دشمن کے پاس ہیں اور یہ چیز متعارف ہے اور اسلام بھی اس چیز کی اجازت دیتا ہے کہ اپنے دفاع کے لیے وہ ایسے ہتھیار بنا اور استعمال کر سکتا ہے جن سے دشمن کا منہ توڑ جواب دیا جا سکے لیکن ایسے ہتھیار بنانے اور ان کے استعمال کی اجازت نہیں دیتا جن سے اجتماعی قتل و بربادی ہو اور بے گناہ لوگ مارے جائیں۔

جاری

 

اسرائیل کے قیام کا تاریخچہ (۲)

  • ۳۷۴

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: دوسری عالمی جنگ کے بعد سنہ ۱۹۴۷ میں برطانیہ اگلے سال (۱۹۴۸ میں) فلسطین سے اپنے انخلا اور فلسطین کا انتظام اقوام متحدہ کے سپرد کرنے کا اعلان کیا۔ ۲۹ نومبر سنہ ۱۹۴۷ کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے ایک قراداد کے تحت فلسطین کو تین حصوں میں تقسیم کیا اور اس سرزمین کے ۴۳ فیصد حصے کو عربوں اور ۵۶ فیصد حصے کو یہودیوں کے حوالے کیا اور بیت المقدس کو بین الاقوامی عملداری میں دیا گیا۔
مورخہ ۱۵ مئی کو فلسطین پر برطانیہ کی سرپرستی کی مدت اختتام پذیر ہوئی تو فلسطین کے تمام ادارے نیست و نابود ہوچکے تھے اور انگریزوں کے انخلاء سے پیدا ہونے والے خلا کو پر کرنے کے لئے کوئی بھی ادارہ موجود نہیں تھا۔ یہودیوں نے ـ جو اقوام متحدہ کے تقسیم کردہ علاقوں پر مسلط ہوچکے تھے ـ ایک عبوری حکومتی کونسل تشکیل دی جو ۳۸ اراکین پر مشتمل تھی اور اس کونسل نے ایک تیرہ رکنی کابینہ کا انتخاب عمل میں لایا۔ اسی دن ڈیوڈ بن گورین نے ـ جو بعد میں وزیر اعظم بنا ـ وزارت دفاع کا قلمدان سنبھال لیا اور کابینہ کے قیام کا اعلان کیا۔
اس اقدام کے چند ہی گھنٹے بعد امریکہ اور سووویت روس نے اس ریاست کو تسلیم کیا۔ اور یہودی ایجنسی نے اسرائیلی ریاست کی تشکیل کے اعلامیے کے ضمن میں اقوام متحدہ کی قرارداد ۱۸۱ کو یہودی عوام کی طرف سے خودمختار ریاست کی تشکیل کا حق تسلیم کئے جانے کا اظہار قرار دیا۔
اس اعلامیے میں البتہ اسرائیل کے لئے کوئی سرحد متعین نہیں کی گئی تھی لیکن یہودی ایجنسی نے امریکی صدر ٹرومین کے نام اپنے پیغام میں انہیں اسرائیل کے باضابطہ تسلیم کرنے کی ترغیب دلاتے ہوئے کہا تھا کہ اسرائیلی کا اعلامیہ ان سرحدوں تک محدود ہے جن کا تعین اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی ۲۹ نومبر ۱۹۴۷ کی منظور کردہ قرارداد میں ہوا تھا۔ قرارداد نمبر ۱۸۱ کے ساتھ ساتھ، یہودی ایجنسی نے فلسطین کے سلسلے میں اپنے دعوے کے ضمن میں مقدرات کے فیصلے اور فلسطین پر قدیم یہودی مالکیت کی طرف بھی اشارہ کیا ہے اور مختلف ملکوں اور اقوام میں سے ہجرت کرنے والے یہودیوں کو قدیم عبرانیوں کا جانشین قرار دیا۔
اسی دن، بوقت شام، مصر، شام، اردن اور لبنان نے نوظہور اسرائیلی ریاست کے خلاف اعلان جنگ کیا اور یہ عرب ـ اسرائیل کی پہلی خونریز جنگ تھی۔
اسرائیل کے قیام کے اعلامیے میں فلسطینی عوام ـ جو ۹۷ فیصد سرزمینوں کے مالک تھے ـ کو “غیر یہودی معاشروں” کے تحت سرے سے نظر انداز کیا گیا تھا جس کے باعث پوری دنیا کے یہودی غیر قانونی طور پر فلسطین کی طرف آنا شروع ہوئے اور امریکی صدر ولسن نے بھی اس غیرقانونی ہجرت کی حمایت کا اعلان کیا۔ دوسری طرف سے فلسطین کے خون بھرے واقعات کی وجہ سے عالمی رائے عامہ میں نفرت کی لہر دوڑ گئی اور یہودیوں کی نوزائیدہ ریاست کو شدید تنہائی کا سامنا کرنا پڑا۔
امریکہ میں مقیم صہیونی یہودیوں نے بھی اپنی سرگرمیوں میں اضافہ کرکے یہودی ریاست کی تشکیل پر زور دیا۔ فلسطینیوں پر تشدد اور ان کے آزار و اذیت کے باعث صہیونیوں کے خلاف عالمی غیظ و غضب میں شدت آئی اورانھوں نے اقوام متحدہ سے احتجاج کیا۔ قبل ازیں ـ یعنی ۲۹ نومبر ۱۹۴۷ کو ـ امریکہ اور سوویت روس نے اپنے ایک غیر معمولی اور نادر مفاہمت نامے کے تحت فلسطینی سرزمین کی دو عرب اور یہودی حصوں میں تقسیم کے منصوبے پر عملدرآمد کیا اور اقوام متحدہ سے کہا کہ اس منصوبے کو منظور کرلے؛ جس نے عالم اسلام میں غصے اور نفرت کی لہر دوڑا دی اور سابق سوویت روس اور صہیونیوں کے خلاف بیت المقدس، یافا، حیفا اور فلسطین کے کئی دوسرے شہروں اور کئی اسلامی ممالک میں خونی مظاہرے ہوئے۔
مورخہ ۸ دسمبر ۱۹۴۷ کو عرب لیگ نے ایک نشست میں اقوام متحدہ کے خائنانہ فیصلے پر تنقید کرتے ہوئے یہودی صہیونیوں کا مقابلہ کرنے کے لئے کچھ فیصلے کئے۔ سنہ ۱۹۴۸ میں مصری طیاروں نے ابتداء میں اسرائیلی دارالحکومت تل ابیب کو بمباری کا نشانہ بنایا اور لبنان کی بکتر بند یونٹوں نے شمال سے، شام اور اردن نے مشرق اور مصر نے مغرب سے فلسطین کی طرف عزیمت کی۔
ابتدائی دنوں میں اردن کی افواج نے بیت المقدس کے ایک بڑے حصے کو یہودی قبضے سے آزاد کرایا۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے دیکھا کہ جنگ یہودی غاصبوں کے نقصان میں ہے، تو اس نے ۲ جون ۱۹۴۸ کو ـ جبکہ جنگ کے آغاز سے ۱۹ دن گذر رہے تھے ـ جنگ بندی کی اپیل کی۔ یہودیوں نے اس جنگ بندی سے فائدہ اٹھایا اور امریکہ اور چیکوسلواکیہ کی مدد سے اپنے فوجی دستوں کو کیل کانٹے سے لیس کیا اور اسی سال ماہ ستمبر میں ـ یعنی صرف تین ماہ بعد ـ جنگ بندی کی خلاف ورزی کا ارتکاب کیا اور فلسطین کے اندر “ہاگانا” یا “یہودی حملہ آور اور دفاعی فوج” نے علاقہ “عکا” پر حملہ کیا جہاں حیفا اور دوسرے عرب علاقوں کے ہزاروں عربوں نے پناہ لی تھی اوران پر زبردست فائرنگ کی۔ اور بعدازاں ہاگانہ کے ساتویں بریگیڈ نے گھمسان کی لڑائی کے بعد شہر “ناصرہ” پر قبضہ کرلیا اور مصر کی طرف پیشقدمی کا آغاز کیا۔
دوسری جنگ میں عرب افواج مشترکہ کمان اور ہماہنگی نہ ہونے کے باعث استقامت نہ دکھا سکے جس کے نتیجے میں اسلامی سرزمینوں کا ۶۰۰۰ کلومیٹر کا رقبہ یہودیوں کے قبضے میں چلا گیا اور یہ جنگ اقوام متحدہ کی مداخلت سے اختتام پذیر ہوئی۔
بہار ۱۹۴۹ میں اسرائیل نے مصر، لبنان، ماورائے اردن اور شام کے ساتھ الگ الگ مذاکرات کرکے اختتام جنگ کے مفاہمت ناموں پر دستخط کئے۔ لیکن یہ مفاہمت نامے بھی دیرپا ثابت نہ ہوئے اور اسرائیلی ریاست کے حملے وقتا فوقتا جاری رہے۔ اسی سال غاصب یہودی ریاست نے فلسطین کے ۴۰۰ شہروں اور دیہاتوں کو ویراں کردیا اور ویرانوں پر مصنوعی جنگل کاری کا اہتمام کیا۔
چنانچہ اس جنگ میں ۱۰ لاکھ فلسطینی بےگھر ہوکر عرب ممالک میں پناہ گزین ہوئے اور فریقین کے ہزاروں سپاہی ہلاک اور زخمی ہوئے اور یہودی فلسطین کے ۷۸ فیصد حصے پر مسلط ہوئے۔ دوسری طرف سے دنیا بھر سے یہودیوں کی فلسطین آمد میں اضافہ ہوا اور یہ سلسلہ ۱۹۵۱ میں اپنے عروج کو پہنچا۔
جنگ اور فلسطینیوں کے قتل اور ان کے خلاف دہشت گردانہ کاروائیوں نیز اپنی آبائی سرزمینوں سے ان کے مسلسل فرار کے نتیجے میں فلسطینی پناہ گزینوں کا مسئلہ معرض وجود میں آیا اور یہ مسئلہ ۱۹۶۷ کی ۶ روزہ عرب ـ اسرائیل جنگ کا سبب بنا۔