عطوان: تہران نہ تو سر تسلیم خم کرے گا، نہ پسپا ہوگا اور نہ ہی پابندیوں کے دباؤ سے متاثر ہوگا

  • ۴۱۶

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: بین الاقوامی اخبار رای الیوم کے چیف ایڈیٹر عبدالباری عطوان نے اپنی یادداشت بعنوان “ان دنوں علاقے کے عرب ملکوں میں امریکی اڈوں پر ایران کی گہری نگرانی کی خبریں منظر عام پر کیوں نہیں آتیں؟”، میں لکھا ہے کہ ایران ہر قیمت پر ایٹمی معاہدے میں نہیں رہے گا اور جنگ کے سائے علاقے پر منڈلارہے ہیں۔
یادداشت کے اہم نکات:
ایٹمی معاہدے سے امریکہ کے الگ ہونے پر ایران دفاعی رد عمل چھوڑ کر گذشتہ چند روز سے حملے کی پوزیشن میں منتقل ہوا ہے، اور یہ نیا اور پہلے سے منصوبہ بند تزویری قدم ان سات شرطوں میں مجسم ہوا ہے جو انقلاب اسلامی کے قائد اعلی آیت اللہ [امام] خامنہ ای نے ایٹمی معاہدے کی نسبت اپنے ملک کی پابندی کے لئے یورپی ممالک کے سامنے رکھی ہیں۔
ادھر ایرانی افواج کے اسٹریٹجک اسٹڈیز کے سربراہ جنرل احمد رضا پوردستان نے بھی براہ راست اور اعلانیہ دھمکی دی ہے کہ اگر ایران کو امریکہ کی طرف سے کسی بھی قسم کی جارحیت کا سامنا کرنا پڑا تو چار عرب ممالک ـ یعنی اردن، سعودی عرب، امارات اور قطر ـ میں امریکی اڈوں کو نشانہ بنایا جائے گا۔
ظاہر ہے کہ ایران کے قائد تین یورپی ملکوں، “برطانیہ، جرمنی اور فرانس” کو موقع فراہم کرنا چاہتے ہیں کہ وہ ایٹمی معاہدے سے ٹرمپ کی علیحدگی پر اپنی غیر جانبداری کا ثبوت دیں لیکن ساتھ ہی وہ اس کھیل کے دورانیے کے تعین کو ان کے سپرد نہیں کرنا چاہتے۔ اسی بنا پر آیت اللہ [امام] خامنہ ای کی طرف سے سات شرطیں متعین ہوئیں جنہیں نائب وزیر خارجہ، عباس عراقچی ویانا کی نشست میں لے گئے۔ یہ نشست گذشتہ جمعرات اور جمعہ کو امریکی پابندیوں کے مقابلے میں ایران کے مفادات کی ضمانت کی فراہمی کے مقصد سے منعقد ہوئی تھی۔
یہاں ہم اہم ترین شرطوں کی طرف اشارہ کرتے ہیں:
پہلی شرط یہ ہے کہ ایران کے ساتھ مغربی ممالک اور چین اور روس کا ایٹمی معاہدہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی منظور کردہ قرارداد ۲۲۳۱ کے تحت منعقدہ ہوا ہے اور امریکہ کی اس سے علیحدگی قرارداد کی خلاف ورزی سمجھی جاتی ہے اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی طرف سے امریکہ کی مذمت میں ایک قرار داد جاری ہونا چاہئے۔
دوسری شرط یہ ہے کہ ایران اپنے بیلسٹک میزائلوں کے سلسلے میں کسی قسم کے مذاکرات میں حصہ نہیں لےگا کیونکہ بیلسٹک میزائل ایران کی دفاعی حکمت عملی کا حصہ ہیں اور ان کے بارے میں کوئی بھی بات سرخ لکیر سمجھی جاتی ہے۔
تیسری شرط یہ ہے کہ یورپ کے ساتھ تجارتی لین دین ـ منجملہ بھارت، چین اور جاپان کو ایران کے تیل کی برآمدات، اور متعلقہ بینکاری کے معاملات ـ کے سلسلے میں یورپ کو مکمل ضمانت دینا پڑے گی۔
عطوان مزید لکھتے ہیں:
اگر یورپ اور تین دیگر اصلی ممالک نے مختصر سی مدت میں ـ جو چند ہی ہفتوں پر مشتمل ہوگی ـ معاہدے کی پابندی کا عملی ثبوت نہیں دیا تو ایران بھی اس معاہدے کا پابند نہیں رہے گا اور یہ ملک یورینیم کی اعلی درجے کی افزودگی کا فورا آغاز کرے گا۔
ایران کی یورینیم کی افزودگی کی طرف واپسی امریکہ کے ساتھ تناؤ میں شدت آنے کا سبب بنے گی اور یہ تناؤ ایسے مرحلے میں داخل ہوگا جو علاقے کو جنگ میں دھکیل دے گا اور یہ بالکل واضح ہے کہ ایران امریکہ کے آگے پسپائی اختیار نہیں کرے گا اور شدید پابندیوں کو برداشت نہیں کرے گا، ایسی پابندیاں جو در حقیقت ایران کے اسلامی نظام کے خاتمے کی تمہید کے طور پر وضع کی جارہی ہیں۔
جنرل پوردستان ایران کے عسکری انٹیلجنس کے اہم کمانڈروں میں شمار ہوتے ہیں۔ اور ان کا ماتحت ادارہ اردن اور خلیح فارس کی ساحلی ریاستوں میں امریکی اڈوں کی نگرانی پر مامور ہے، اور یہ ادارہ خلیح فارس اور اردن میں امریکی نقل و حرکت کی پوری معلومات رکھتا ہے چنانچہ ان کی دھمکی اس نظریئے کی تصدیق کرتی ہے کہ اگر امریکہ نے ایران کے خلاف کوئی جارحیت کی تو مذکورہ ممالک میں موجود امریکی اڈے ایران کے ابتدائی جوابی حملوں کا نشانہ ہونگے۔
یہ وہ پیغامات ہیں جو یک جہت طور پر بھی اور الگ الگ بھی، ایران سے مل رہے ہیں، اور ان سب پیغامات کا لب لباب یہ ہے کہ اقتصادی پابندیوں یا اسرائیل کی طرف شام میں ایران کے فوجی اہداف پر امریکی حملوں جیسے اشتعال انگیز اقدامات کے آگے ایران کے صبر کا پیمانہ لبریز ہورہا ہے اور ایرانی قیادت ایک خاص روش سے ان اقدامات کا جواب دے گی اور وہ بھی بہت محدود مدت میں اور یہ جوابی اقدامات اپنے بچاؤ اور اپنے مفادات کے تحفظ کے زمرے میں شمار ہونگے۔
شام میں ایران کے فوجی اہداف پر اسرائیلی میزائل حملے تقریبا روز کا معمول بن چکے ہیں، اور تازہ ترین حملے میں حمص میں واقع الضبعہ کے ہوائی اڈے کو نشانہ بنایا گیا اور اس موضوع نے نہ صرف ایرانی قیادت کو غضبناک کردیا ہے بلکہ اس کے حلیف روس کے لئے بھی درد سر بن چکا ہے، یہاں تک کہ روس نے حال ہی میں اس کے حوالے سے اپنی شدید تشویش کا اظہار کرتے ہوئے شام کو ایس ۳۰۰ فضائی دفاعی سسٹم کی حوالگی پر زور دیا ہے گوکہ یہ موقف نیم سرکاری ماہرین کے زبانی بیان ہوا ہے۔
گذشتہ منگل کو سعودی عرب کے جنوب میں ابہا ایئرپورٹ کی طرف ڈرون بھجوانا اور اس سے پہلے یمن کے شہر صعدہ سے جیزان پر میزائل حملے بھی ایران کے صبر کا پیمانہ لبریز ہونے کی نشانیاں ہوسکتی ہیں؛ بےشک حوثی مجاہدین کے پاس اس قسم کے ڈرونز بنانے کی ٹیکنالوجی نہیں ہے، اور اگر ان کے پاس یہ ڈرون بنانے کی صلاحیت ہو تو اس کی ٹیکنالوجی بھی ایرانی ہے اور اس کی تربیت دینے والا دماغ بھی ایران ہے، خواہ یہ ڈرونز اور وہ میزائل ایرانیوں نے خود نہ ہی بھیجے ہوں۔
ہم نے دیکھا کہ ایک ۳۵۰ ڈالر کی لاگت سے بنے ڈرون نے جنوبی سعودی عرب کے مرکزی ہوائی اڈے کو کس طرح سراسیمگی سے دوچار کردیا اور سعودیوں کو اسے گرانے کے لئے لاکھوں ڈالر دے کر خریدے جانے والے پیٹریاٹ میزائل استعمال کرنا پڑے۔
بےشک امریکہ ایرانی میزائل کی مار سے بہت دور ہے لیکن عرب ممالک ـ بالخصوص خلیج فارس کی عرب ریاستوں ـ میں امریکی فوجی اڈے ایسے ہرگز نہیں ہیں، یہ پیغام بڑا واضح ہے چنانچہ اگر اس جنگ کی پہلی چنگاری اٹھی تو یہ تباہی اور بربادیوں کے لحاظ سے بھی اور طویل المدت ہونے کے لحاظ سے بھی، سابقہ جنگوں سے بالکل مختلف ہوگی۔
یہ بہت افسوسناک امر ہے کہ ہم عرب ممالک میں سے کئی ممالک پہلی بار اسرائیل کے مترادف سمجھے جائیں گے اور اس جنگ سے ہمیں جانی اور مالی نقصانات اٹھانا پڑیں گے، اور یہ ہماری مصیبت کا عروج ہے۔
منبع: https://www.farsnews.com/news/13970306001105/

 

صہیونیزم کے ناقد یہودی مصنف ’’آرتھر کویسٹلر ‘‘ کا مختصر تعارف

  • ۳۶۶

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: آرتھر کویسٹلر (Arthur Koestler)  ایک یہودی مصنف اور محقق تھے۔ وہ ۵ ستمبر ۱۹۰۵ کو ہنگری کے دارالحکومت بوڈاپیسٹ میں اشکنازی یہودی گھرانے میں پیدا ہوئے۔ ان کا باپ ’ہنریک‘ ہنگری کا رہنے والا تھا اور ماں آسٹریا کی۔ (۱)
آرتھور نے مختلف ممالک کے سفر کا شوق اور تحقیق و جستجو کا جذبہ رکھنے کی وجہ سے ہسپانوی، انگریزی، جرمن، روسی، عبرانی، اور فرانسیسی زبانوں پر مہارت حاصل کی تاکہ باآسانی مغربی ثقافت اور کلچر کا مطالعہ کر سکیں۔ انہوں نے اسی شوق کی بنا پر اپنے دادا سے ییدیش (۲) زبان بھی سیکھ لی تھی۔
کویسٹلر نے ویانا یونیورسٹی سے علم نفسیات میں ماسٹر کی ڈگری حاصل کی اور اس کے بعد صہیونی طالبعلوں کی ایک تنظیم کے صدر مقرر ہوگئے۔ جوانی میں صہیونیسم کے خیالی اہداف و مقاصد نے ان کے جذبات کو خوب بڑھاوا دیا جس کی وجہ سے وہ فلسطین ہجرت کرنے والے یہودیوں کی صف میں شامل ہو گئے۔ اور یروشلم اور بعد میں تل ابیب میں سکونت اختیار کی۔ فلسطین میں زندگی ان کے لیے انتہائی دشوار ہو گئی شدید فقر اور فاقے انہیں گھیر لیا آخر کاروہ فلسطین کو ترک کرنے پر مجبور ہوئے اور برلن چلے گئے برلن میں انہوں نے صحافت کا کام شروع کیا۔ کویسٹلر کی زندگی ۱۹۳۸ تک مختلف نشیب و فراز سے گزری۔ وہ پہلے جرمنی کی کمیونیسٹ پارٹی کے رکن ہوئے، اور اس دوران انہوں نے یوکرائن اور مشرقی ایشیا سے لے کر باکو اور افغانستان کی سرحدوں تک کی سیر کی اور ماسکو میں سابق سوویت یونین کے رہنماؤں سے کئی ملاقاتیں کی۔ (۳)
اس عرصے میں جو تجربات انہوں نے حاصل کئے تھے ان کے پیش نظر کمیونیسٹوں کی یہودی نما بہشت کو صرف دھوکا اور فراڈ پایا جس کی وجہ سے وہ کمیونیزم کے شدید مخالف ہو گئے، یورپ سے نکل کر لندن چلے گئے اور وہاں سٹالین کے خلاف ’’دن دھاڑے اندھیرا‘‘ ناول تحریر کر کے کمیونیسٹ کا پردہ چاک کیا اور اپنی وافر معلومات جو انہوں سے اس عرصے میں حاصل کی تھیں اور اپنے سلیس قلم کی بدولت لاکھوں لوگوں کو جو شک و تردید میں مبتلا تھے کو کمیونیزم کے جال میں پھنسنے سے بچا لیا۔ جوں جوں وقت گزرتا گیا آرتھور کویسٹلر صہیونیزم کے بھی سخت ناقدین اور مخالفین میں سے شمار ہونے لگے اور افسانہ ’’یہودی نسل کا خلوص‘‘ پر تنقید کر کے یہودیوں سے دشمنی مول لی۔ (۴)
کویسٹلر نے اپنی پرنشیب و فراز زندگی کے دوران چند اہم تصانیف بھی تحریر کیں جن میں سے بعض یہ ہیں:
The Thirteenth Tribe: The Khazar Empire and Its Heritage
The Gladiators
Arrival and Departure
Thieves in the Night
The Age of Longing
The Call Girls
فرانس کے سماجی ماہر، فلاسفر، مورخ اور سیاسی مفسر رائمنڈ آرون (۵) اپنے مقالے ’’آرتھور کویسٹلر اور آدھے دن میں تاریکی‘‘ میں کویسٹلر کو زمانے کی ایک عظیم روشن فکر شخصیت کا نام دیتے ہیں کہ جس نے بیسویں صدی کے ابتدائی حصے میں عالم وجود میں قدم رکھا۔ (۶)
آرتھور کویسٹلر ۱ مارچ ۱۹۸۳ کو لندن میں دنیا سے رخصت ہوئے۔ ان کی موت کے سلسلے میں مورخین کے درمیان اختلاف پایا جاتا ہے بعض کا کہنا ہے کہ وہ کافی عرصہ بیمار رہے اور آخر کار اپنی بیوی کے ہمراہ خود کشی کر گئے لیکن بعض مورخین کہتے ہیں کہ صہیونی اپنے خلاف ان کے محکم دلائل اور ان کی مستند کتابوں کو برداشت نہیں کر سکے لہذا انہوں نے آرتھور کو زہر دے دیا اور یہی زہر ان کی بیماری اور پھر موت کا باعث بنا۔
۱٫    Arthur Koestler, Arrow in the Blue (AIB), Collins with Hamish Hamilton, 1952, p. 21.
۲٫    ایک زبان کا نام ہے جو یہودی اشکنازیوں کے بعض علاقوں میں بولی جاتی تھی.
۳٫ Hamilton, David. (Hamilton) Koestler, Secker & Warburg, London 1982 p. 14.
۴٫ http://teeh.ir/fa/news-details/2517/
۵٫ Raymond Aron
۶٫ https://en.wikipedia.org/wiki/Arthur_Koestler#cite_ref-15

 

فرقہ بہائیت کی مختصر تاریخ (۲)

  • ۴۹۳

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: بہائیوں کا عقیدہ ہے کہ مرزا حسین علی نوری (بہاء اللہ) اللہ کے پیغمبر تھے۔ بہاء اللہ کا باپ ایران کے بادشاہ قاجار کے دور میں درباری مشیر تھا اور حکومت میں کافی اثر و رسوخ رکھتا تھا۔ دوسری طرف امیرکبیر کے حکم سے ’سید علی محمد باب‘ کو پھانسی دیے جانے کے بعد ان کے مریدوں کو عراق ملک بدر کر دیا گیا تھا جس میں ’مرزا حسین علی نوری‘ (بہاء اللہ) بھی شامل تھے لیکن امیر کبیر کے قتل یا انتقال کے بعد جب مرزا آقاخان نوری نے اقتدار سنبھالا تو انہوں نے مرزا حسین علی نوری کو عراق سے واپس تہران بلوا لیا۔
کچھ عرصہ کے بعد بابیوں کی جانب سے بادشاہ ایران ’ناصر الدین شاہ‘ پر قاتلانہ حملہ کیا گیا معلوم ہوا کہ مرزا حسین نوری کا اس میں ہاتھ تھا۔ اسی وجہ سے بہاء اللہ کو جیل میں بند کر دیا گیا۔ لیکن چونکہ وہ پہلے روس کے سفارتخانے میں پناہ حاصل کر چکے تھے کچھ مہینے جیل میں رہنے کے بعد روسی حکومت کی طرف سے ڈالے گئے دباؤ کی بنا پر انہیں رہائی مل گئی۔ اور اس کے بعد روسی سفارتخانے نے انہیں روس میں زندگی بسر کرنے کے لیے دعوت دی۔
بہاء اللہ نے روسی حکومت کا شکریہ ادا کرتے ہوئے اپنے بھائی مرزا یحییٰ کے ساتھ عراق کا رخ کیا۔ بغداد میں بہائیوں کے نزدیک انہیں کافی مقبولیت حاصل ہوئی اور انہوں نے وہاں تبلیغی سلسلہ شروع کیا۔
دوسری طرف بابیوں کے درمیان ’سید علی محمد باب‘ کی موت کے بعد جانشینی پر کافی اختلاف وجود میں آیا اور بہاء اللہ کے مخالفین میں روز بروز اضافہ ہونے لگا، بہاء اللہ کافی ہوشیاری دکھاتے ہوئے اپنے مخالفین کو ایک ایک کر صفحہ ھستی سے مٹانے کی کوشش کر رہے تھے۔ لیکن ناکامی کی صورت میں حکومت عثمانیہ انہیں استنبول چلے جانے کا مشورہ دیا۔
بہاء اللہ اپنے بھائی مرزا یحیی کے ساتھ ۱۸۶۳ میں استنبول کی طرف روانہ ہوئے اور ’ادرنہ‘ علاقے میں سکونت اختیار کی۔ چار سال یہاں پر رہنے کے بعد دونوں بھائیوں میں شدید اختلاف ہوا، جس کے بعد مرزا یحییٰ کو جزیرہ قبرس میں بھیج دیا گیا اور مرزا حسین علی نوری کو ’حیفا‘ کے نزدیک ’عکا‘ کے علاقے میں منتقل کر دیا گیا۔
اہم بات یہ ہے کہ بہاء اللہ اور ان کے بیٹے عباس افندی (عبد البہاء) ’عکا‘ میں رہنے کے بعد یہودیوں اور برطانوی فوجیوں سے کافی گہرے تعلقات قائم کرنے میں کامیاب ہوئے جس کے بعد ان کے بیٹے نے صہیونی ریاست کی تشکیل میں برطانیہ اور یہودی لابی کی کتنی مدد کی اس کا تذکرہ بعد میں کیا جائے گا۔
بہاء اللہ ۷۵ سال کی عمر میں ۱۸۹۲ میں انتقال کر گئے اور ان کے بیٹے عباس افندی یا وہی ’عبد البہاء‘ نے باپ کی جانشینی اختیار کی اور بہائیت کو پھیلانے میں کوئی لمحہ فروگذاشت نہ کیا۔

 

امام زمانہ کا ظہور اور عہد یہود کا تابوت

  • ۴۹۱

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: امام زمانہ (عج) کے ظہور کے زمانے کو جن قوموں کی جانب سے بڑا چیلنج ہے ان میں سے ایک قوم یہود ہے۔ یہودیوں کی تاریخ کئی نشیب و فراز سے بھری پڑی ہے۔ قرآن کریم میں یہودیوں اور بنی اسرائیل کے بارے میں متعدد آیات موجود ہیں جو ان کے کردار و صفات کی طرف اشارہ کرتی ہیں۔ بعض آیات میں ان کی ابدی ذلت و خواری اور ہمیشہ کے لیے نابودی کی طرف بھی اشارہ ملتا ہے۔
موجودہ قرائن سے معلوم ہوتا ہے کہ امام زمانہ عصر ظہور میں دو مراحل میں یہودیوں سے روبرو ہوں گے۔ پہلے مرحلے میں یہودیوں کو منطقی دلائل کے ذریعے اسلام کی دعوت دیں گے۔ جس کی وجہ سے بعض ایمان لے آئیں گے لیکن بہت سارے عناد، دشمنی اور اپنی نسل پرستی کے تعصب کی وجہ سے اسلام قبول کرنے سے انکار کر دیں گے۔ ایسی صورت میں دوسرے مرحلے میں ان کے ساتھ جنگ کرنے پر مجبور ہوں گے۔
ظہور امام زمانہ سے متعلق روایات کا بغور مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ دجال، یہود، سفیانی اور شام کے درمیان ایک خاص رابطہ پایا جاتا ہے۔ امام زمانہ دجال اور سفیانی لشکر کو شکست دے کر شام پر قبضہ کریں گے، اور آخر کار مسجد الاقصیٰ میں داخل ہوں گے کہ جو یہودی قوم کی ذلت و خواری اور شکست کی انتہا ہو گی۔
امام زمانہ اور یہودیوں کو دعوت اسلام
دین اسلام، دین فطرت اور دین عقل و منطق ہے۔ امام زمانہ (عج) بھی دیگر ہادیان برحق؛ انبیاء اور اوصیاء کی طرح سب سے پہلے تمام غیر مسلمانوں منجملہ یہودیوں کو اسلام کی دعوت دیں گے۔ اس حقیقت کی طرف اسلامی کتابوں اور روایتوں میں اشارہ ہوا ہے۔ مثال کے طور پر عبد اللہ بن بکیر نے امام صادق علیہ السلام سے روایت کی ہے کہ میں نے امام علیہ السلام سے آیت     «وله أسلم من فی السماوات و الأرض»  کی تفسیر معلوم کرنا چاہی تو آپ نے فرمایا: ’’یہ آیت ہمارے ’قائم‘ کے بارے میں نازل ہوئی ہے، جب وہ یہودیوں، نصرانیوں، صابئین، مادہ پرستوں اور کرہ ارض کے مشرق و مغرب میں رہنے والے کفار و مشرکین کے خلاف قیام کریں گے اور انہیں اسلام کی دعوت دیں گے۔ جو اسلام قبول کر لے گا اسے نماز و زکات کا حکم دیں گے ۔۔۔‘‘ (عیاشی، محمد بن مسعود، ج۱، ص۱۸۳-۱۸۴)
امام زمانہ صرف دعوت حق پر اکتفا نہیں کریں گے بلکہ بعض احادیث کے مطابق دین خدا اور اپنی حقانیت کے اثبات کے لیے ہر دین کے ماننے والوں کے لیے انہی کے دین سے دلائل پیش کریں گے۔ آئین یہودیت میں مقدس ’تابوت‘ عظیم مقام و منزلت کا حامل ہے۔ خداوند عالم جناب طالوت کی حقانیت کے بارے میں فرماتا ہے: ’’اور ان کے پیغمبر نے ان سے یہ بھی کہا کہ ان کی حکومت کی نشانی یہ ہے کہ یہ تمہارے پاس وہ تابوت لے آئیں گے جس میں پروردگار کی طرف سے سامان سکون اور آل موسی اور آل ہارون کا چھوڑا ہوا ترکہ بھی ہے۔ اس تابوت کو ملائکہ اٹھائے ہوئے ہوں گے اور اس میں تمہارے لیے پروردگار کی نشانی بھی ہے اگر تم صاحب ایمان ہوں‘‘۔ (بقرہ، ۲۴۸)
تاریخ میں ہے کہ بنی اسرائیل میں یہ تابوت جس خاندان کے پاس ہوتا تھا نبوت اسی خاندان کو نصیب ہوتی تھی لہذا یہودیوں کے یہاں اس تابوت کا بہت احترام ہے۔ اسی بنا پر امام زمانہ ظہور کے بعد یہ تابوت لے کر یہودیوں پر حجت تمام کریں گے اور جو آپ پر ایمان نہیں لائیں گے ان کے ساتھ جنگ کر کے ان کا قلع قمع کر دیں گے۔

 

دہلی کے حالیہ فسادات اور متاثرین کی بازآبادکاری

  • ۳۹۷

بقلم سید نجیب الحسن زیدی
  دہلی کے حالیہ فسادات میں مسلمانوں کا جو نقصان ہوا اسکی تلافی جلد اور آسانی سے ممکن نہیں ہے،  جس ماں نے اپنا بیٹا کھویا ہے جس بیوہ نے اپنا سہاگ کھویا ہے جس بہن نے اپنا بھائی کھویا ہے اسکے زخم زندگی بھر کے ہو گئے  ،جن کے گھر تباہ ہوئے ہیں ان سے کوئی پوچھے تنکا تنکا اکھٹاکر کے آشیانہ بنانا کتنا کٹھن اور سخت ہوتا ہے  اور اسکے  بعد آشیانہ کو اپنے سامنے دھوں دھوں جلتے دیکھنا کتنا سخت ہوتا ہے  یہ وہی بیان کر سکتا ہے جس نے اپنے گھر کو اپنے سامنے آگ کی لپٹوں میں جلتے دیکھا ہو ،خدا ہی ان لوگوں کو صبر دے جنکا گھر بار لٹا یا جنکے کسی عزیز کو ہمیشہ کے لئے چھین لیا گیا  ،لیکن ایک چیز جس پر ہم سب کو غور کرنا ہے وہ یہ ہے کہ ان دہلی کے فسادات نے ہم سب کو یہ سبق بھی دے دیا کہ ہم خدا کے علاوہ کسی کی ذات پر بھروسہ نہیں کر سکتے ، اسکی ذات پر بھروسہ رکھتے ہوئے اپنی باز آباد کاری کے ساتھ ہمی جس چیز پر توجہ دینے کی ضرورت ہے وہ اپنی حفاظت ہے  ہمیں اپنی  حفاظت کا انتظام خود  ہی کرنا ہوگا ، اس لئے کہ واضح ہے پولیس جس کے ہاتھ میں ہے اسی کے اشاروں پر کام بھی کرے گی پولیس سے امید لگانا یا کسی حکومتی ادارے سے آس لگانا بے سود ہے حتی  خود اپنے ہی قومی لیڈروں سے بھی امید باندھنا فضول ہے خدا سے ہی لو لگانا ہے اسی سے امید باندھنا ہے اسی پر بھروسہ کرنا  وحدہ لاشریک  کی ذات پر بھروسہ کرتے ہوئے اب  جو دوسری چیز ہے وہ یہ ہے محکمہ انصاف میں چاہے جتنے بھی حالات خراب ہوں ہمیں اپنی طرف سے پوری کوشش کرنا ہے کہ  پکے ثبوتوں کے ساتھ ان لوگوں کو انصاف کے کٹگھرے میں لا کھڑا کریں جو ان فسادات کے ذمہ دار ہیں ،اگر سب مل جل کر ایک فیصلہ لیں اور فسادات کے اصلی مجرموں کے بارے میں عدالت میں چارج شیٹ داخل کریں تو یقینا یہ ایک مثبت قدم ہوگا ۔
امید کے ہم ان فسادات سے سبق لے کر آگے بڑھیں گے اور ہرگز ان باتوں میں نہیں آئیں گے جنکے ذریعہ ہمیں یہ باور کرانے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ حکومت وقت جو کچھ کر رہی ہے وہ آپ سبھی کے لئے کر رہی ہے آپ سبھی ملک کے باشندے ہو آپ کے بغیر ملک ترقی نہیں کر سکتا ہم سبھی مذاہب کو ساتھ لیکر چلنے والے ہیں ، اگر یہ باتیں سچ ہوتیں تو یقینا نہ دہلی میں اتنے بھیانک فساد ہوتے اور نہ مسلمانوں پر اتنی کاری ضرب لگتی اور نہ ہی آج ہماری مائیں بہنیں مختلف جگہوں پر دھرنے پر بیٹھی ہوتیں ،
کونسی بڑی بات تھی پولیس کے لئے دنگائیوں کو لگام دینا جو پولیس چند طلباء کو پکڑنے کے لئے جامعہ ملیہ کے اندر گھس کر آنسو گیس کے گولے داغ سکتی ہے لاٹھی چارج کر سکتی ہے وہ پولیس دنگائیوں کے سامنے بے بس کیونکر ہو جاتی ہے یہ وہ سوال ہے جسکا جواب کسی کے پاس نہیں ہے اور جواب نہ ہونا ہی یہ بتاتا ہے کہ جن لوگوں کے پاس مسلمانوں کے قتل عام اور انہیں تباہ کر دینے میں پولیس کے رول کا جواب نہیں ہے ان کے پاس کل یقینا مسلمانوں کی شہریت کے سلب کئے جانے کا بھی جواب نہیں ہوگا ۔لہذا ہم سب کو بہت سوچ سمجھ کر آگے بڑھنے کی ضرورت ہے ، خدا پر بھروسہ رکھتے ہوئے ایک دوسرے کے دکھ درد کو سمجھنے کی ضرورت ہے اور ان لوگوں کی باز آباد کاری کے لئے مل جل کر آگے آنے کی ضرورت ہے جنکا سب کچھ ان فسادات کی نذر ہو گیا ، ہم مشکل کشا کے ماننے والے ہیں مشکلوں سے گھرے لوگوں کے ساتھ ہمارا سلوک ہمدردانہ و دلسوزانہ نہ ہوگا تو کس کا ہوگا ، امید کہ ہم سب سے جو بھی بن پڑے گا ان لوگوں کے لئے کریں گے جنہیں ان فسادات میں نقصان اٹھانا پڑا ہے ۔یقینا اگر ہم خلق خدا کی مدد کریں گے تو خدا ہماری مدد کرے گا انشاء اللہ ۔

 

فرقہ بہائیت کی مختصر تاریخ (۱)

  • ۴۶۸

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: فرقہ بہائیت کی داستان در حقیقت ’فرقہ بابیہ‘ سے جڑتی ہے۔ فرقہ بابیہ کا آغاز ’سید علی محمد شیرازی‘  سے ہوتا ہے جو ’’باب‘‘ کے نام سے معروف ہوئے۔ یہ شخص پندرہ سال کی عمر میں اپنے ماموں کے ہمراہ ایران کے شہر بوشہر میں تجارت کی غرض سے گیا اور وہاں تجارت کے ساتھ ساتھ اس نے ریاضت کر کے کچھ شعبدہ بازی بھی سیکھ لی۔ بعد از آں بوشہر میں واقع ایک یہودی کمپنی ’’ساسون‘‘ میں نوکری اختیار کی اور اپنی غیرمعمولی صلاحیت کی وجہ سے بہت جلد وہ کمپنی کے اہم افراد کے اندر اثر و رسوخ پیدا کر گئے۔ علی محمد شیرازی نے یہودی کمپنی میں نوکری کے بعد ۱۹ سال کی عمر میں ایک معروف عالم دین ’سید کاظم رشتی‘ کے درس میں شرکت کرنا شروع کر دی اور جب سید کاظم رشتی انتقال کر گئے تو اس نے ان کی جانشینی کا دعویٰ کر دیا۔
کچھ عرصہ گزرنے کے بعد اپنی شعبدہ بازی کے ذریعے لوگوں میں شہرت پانا شروع کی اور  خود کو بارہویں امام کا ’باب‘ ہونے کا دعویٰ کر دیا۔ جس کی وجہ سے لوگوں میں ’باب‘ کا لقب پا لیا اور اسی بنا پر فرقہ بابیہ وجود میں آیا۔
فرقہ بابیہ کے پیروکاروں اور علی محمد شیرازی کے مریدوں کی تعداد دن بدن بڑھنے لگی اور دھیرے دھیرے ایران کے دیگر شہروں میں اس شخص کے خرافات پھیلنے لگے اور لوگ گمراھی کا شکار ہونے لگے۔ تبریز کے کچھ علماء نے ولیعہد کی موجودگی میں اس کے ساتھ ایک مناظرہ کے دوران اسے شکست سے دوچار کیا جس کے نتیجے میں حکومت نے اسے جیل میں بند کر دیا۔ جیل سے ایک معافی نامہ حکومت کے نام لکھ کر اپنے کاموں سے توبہ کی اور معافی مانگ کا رہائی کا مطالبہ کیا۔
حکومت وقت نے سید علی محمد شیرازی (باب) کو جیل سے رہا کیا مگر رہائی کے کچھ عرصہ بعد دوبارہ اپنے پیروکاروں کے ذریعے پورے ملک میں ایک شورش برپا کر ڈالی۔ جس کے بعد امیر کبیر نے اسے پھانسی دینے کا حکم دے دیا جس کے نتیجے میں ۱۲۶۶ ہجری قمری میں سید علی محمد شیرازی (باب) کو تختہ دار پر لٹکا دیا گیا۔
علی محمد شیرازی نے اپنے بعد کسی کو اپنا جانشین مقرر نہیں کیا تھا لیکن کئی لوگوں نے اس کی جانشینی کا دعویٰ کر دیا اس کے اہم ترین دعویداروں میں ’مرزا یحییٰ صبح ازل‘ ، ’شیخ علی ترشیزی عظیم‘ اور ’مرزا حسین علی نوری‘ المعروف ’’بہاء اللہ‘‘ کا نام لیا جا سکتا ہے۔
بہائیوں کو ’مرزا حسین علی نوری‘ کہ جنہیں ’’بہاء اللہ‘‘ کا لقب دیا گیا کی وجہ سے زیادہ شہرت ملی۔ اور ان کے لقب بہاء اللہ کے نام سے ان کے پیروکاروں کو ’بہائی‘ کہا جانے لگا۔

 

جاری

انٹرویو/ بہائیت کا مقابلہ ان کے مبانی پر تنقید سے ممکن نہیں: حدادپور جہرمی

  • ۴۹۹

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: بہائیت اور صہیونیت کے باہمی تعلقات کے موضوع سے متعلق اس سے قبل بھی خیبر نے کچھ مضامین تحریر کئے ہیں اور اس بار ایک علمی شخصیت جناب حجۃ الاسلام و المسلمین محمد رضا حدادپور جہرمی سے گفتگو کا موقع حاصل کیا ہے امید ہے کہ قارئین کو پسند آئے گی:
خیبر: کیا آپ ہمارے قارئین کو فرقہ ضالہ ’بہائیت‘ کے بارے میں آگاہ کریں گے اور خاص طور پر اس حوالے سے کہ بہائیت اور صہیونیت کے درمیان تعلقات کس حد تک ہیں؟
۔ بہائیوں اور صہیونیوں کے درمیان تعلقات کے عنوان سے بس اتنا عرض کر دینا کافی ہے کہ بہائیوں کا اصلی مرکز ’بیت العدل‘ اسرائیل میں واقع ہے اور اسرائیلی حکومت ہر سال اس کے لیے بجٹ منظور کرتی ہے۔ لیکن میں اس حوالے سے اس موضوع پر گفتگو نہیں کرنا چاہوں گا کہ ان کا چونکہ مرکز وہاں ہے لہذا وہ فرقہ گمراہ شدہ ہے بلکہ میں دوسرے زاویہ سے اس موضوع پر گفتگو کرنا چاہتا ہوں۔
دنیا میں سب سے بڑا خیانتکار اور شیطان صفت کوئی ملک اگر ہے تو وہ برطانیہ ہے۔ برطانیہ بہت اطمینان سے بغیر شور و واویلا کئے اپنی ثقافتی سرگرمیاں انجام دیتا ہے۔ جہاں بھی دین و مذہب کی لڑائی اور فرقہ واریت کی بات آتی ہے برطانیہ کا ہاتھ اس کے پیچھے ضرور پوشیدہ ہوتا ہے۔ انگریز ایشیا پر گہرا مطالعہ کرنے کے بعد اس نتیجے تک پہنچے کہ مسلمانوں کو اندر سے ٹکڑے ٹکڑے کر کے ہی کامیابی حاصل کی جا سکتی ہے، لہذا انہوں نے اہل سنت میں وہابیت کو جنم دیا اور اہل تشیع میں بہائیت کو۔
بہائیت کو پہچاننے کے لیے ہمارے پاس دو راستے ہیں۔ یک، ہم علمی اور سیاسی پہلو سے گفتگو کریں، دوسرا ہم علاقے کا گہرا مطالعہ کریں اور دیکھیں کہ بہائیت کے جال میں کون کون لوگ پھنسے ہیں۔ عام طور پر لوگ اس موضوع پر علمی گفتگو کرتے ہیں اور میدانی گفتگو کی طرف توجہ نہیں کرتے ہم یہاں پر اس حوالے سے گفتگو کرنا چاہیں گے۔
میدانی اعتبار سے بہائیت کے موضوع پر گفتگو کرنے سے پہلے ہم چار موارد کی طرف اشارہ کرتے ہیں جن کی طرف توجہ کرنا بہت ضروری ہے:
ایک۔ بہائی سکیورٹی اور سالمیت کے اعتبار سے بہت حساس ہیں اور انٹیلیجنس میں ان کا گہرا اثر و رسوخ ہے۔ میں اس سے زیادہ اس مسئلہ کو زیر بحث نہیں لاؤں گا، صرف اتنا عرض کروں گا کہ بہائیت تنہا ایسا فرقہ ہے جس کے بارے میں رہبر انقلاب اسلامی کا فتویٰ ہے کہ وہ نجس ہیں اور ان کے ساتھ خرید و فروخت درست نہیں ہے۔
دو۔ دوسرا مسئلہ اقتصادی اور معاشی مسئلہ ہے۔ کوئی بہائی مالی اعتبار سے کبھی مشکل میں گرفتار نہیں ملے گا۔ ان کے یہاں فقیر لفظ نہیں ہوتا۔ بڑے بڑے شاپنگ مال اور سپر مارکیٹوں کے مالک بہائی ہیں۔ وہ اپنی کمیونٹی میں کسی کو اقتصادی اعتبار سے کمزور نہیں ہونے دیتے بلکہ دوسروں کو بھی پیسے سے خرید لیتے ہیں۔
تین۔ بہائیوں کے لیے سچائی بہت اہمیت کی حامل ہے، کوئی بھی بہائی کبھی اپنے بہائی ہونے کا انکار نہیں کرے گا۔
چار۔ بہائی بیت العدل سے بتائی جانے والی تعلیمات کے بہت پابند ہیں، خیال رہے کہ ان کا مرکز بیت العدل آنلائن اور چوبیس گھنٹے بہائیوں کے لیے تعلیمی پروگرام نشر کرتا ہے اور یہ اس سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔ اور جو آنلائن تعلیم حاصل نہیں کر سکتے وہ فیسبوک اور ٹیلیگرام کے ذریعے مرکز سے جڑے رہتے ہیں۔

 

سامراج کے ہاتھوں قیدی و بے بس میڈیا

  • ۴۵۰

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: کسی عربی کے ایک رسالہ  میں ایک کہاوت پڑھی تھی  کہ ایک مصور دیوار پر نقش ونگار بنا رہا تھا اور تصویر میں ایک انسان اور ایک شیر کو اس کیفیت میں دکھا رہا تھا کہ انسان شیر کا گلا گھونٹ رہا ہے۔ اتنے میں ایک شیر کا وہاں سے گزر ہوا اور اس نے تصویر کو  ایک نظر دیکھا۔ مصور نے تصویر میں شیر کی دلچسپی دیکھ کر اس سے پوچھا سناؤ میاں!  تصویر اچھی لگی؟ شیر نے جواب دیا کہ میاں! اصل بات یہ ہے کہ قلم تمھارے ہاتھ میں ہے۔ جیسے چاہو منظر کشی کرو، ہاں اگر قلم میرے ہاتھ میں ہوتا تو یقیناً تصویر کا منظر اس سے مختلف ہوتا۔ کچھ اسی قسم کی صورت حال کا سامنا عالم اسلام کو آج مغربی میڈیا کے ہاتھوں کرنا پڑ رہا  ہے ۔ ابلاغ کے تمام تر ذرائع پرمغرب کا کنٹرول ہے۔ الیکٹرانک میڈیا اور پرنٹڈ میڈیا دونوں کے سرچشمے اس کی تحویل میں ہیں۔ متعصب یہودی کا دماغ اورسیکولر عیسائی دنیا کے وسائل اکھٹے ہوچکے ہیں۔
سیکولر لابیاں انسانی معاشرے میں مذہب کی دوبارہ اثراندازی سے خائف ہوکر مذہب کا راستہ روکنے کے لئے سیاست، معیشت، میڈیا لابنگ اور تحریف و تحریص کے تمام ذرائع استعمال کررہی ہیں اور عیسائی دنیا کے مذہبی لوگ بھی خود کو میڈیا کے آگے سرینڈر کر کے لادینت کا راگ الاپ رہے ہیں ،مغرب کی سیکولر لابیوں کے اعصاب پر یہ خوف سوار ہے کہ انسانی معاشرہ دو  صدیوں میں مذہب سے بغاوت کےتلخ نتائج بھگت کر اب مذہب کی طرف واپسی کے لئے ٹرن لے رہا ہے اور دنیا میں مسلمانوں کے سوا کسی اور قوم کے پاس مذہب کی بنیادی تعلیمات (آسمانی وحی اور پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم  کی تعلیمات وسیرت) اصلی حالت میں موجود ومحفوظ نہیں ہیں۔ اس لئے اسلام منطقی طور دنیا کے مستقبل کی واحد امید بنتا جارہاہے۔ چنانچہ یہودی دماغ اور سیکولر قوتوں کی  صلاحیتیں اور وسائل اب صرف اس مقصد کے لئے صرف ہورہے ہیں کہ اسلام اور اسلامی اصولوں کے علمبردار مسلمانوں کے خلاف میڈیا کے زور سے نفرت کی ایسی فضا قائم کردی جائے جو اسلام کی طرف انسانی معاشرہ کے متوقع بازگشت میں رکاوٹ بن سکے۔
اسلام اور دیندار مسلمانوں کے خلاف مغربی میڈیا اور لابیوں کا سب سے بڑا ہتھیار انسانی حقوق کا نعرہ ہے اور انہیں جھوٹ کا یہ سبق اچھی طرح رٹایا جا رہا ہے  کہ “جھوٹ بولو!اور اتنی بار بولو کہ لوگ اسے سچ سمجھنے پر مجبور ہوجائیں”چنانچہ اسی فلسفہ کے مطابق اسلام کو انسانی حقوق کے مخالف کے طور پر متعارف کرایا جارہا ہے عورتوں،اقلیتوں،اور کمزور طبقات کی دہائی دے کر اسلام کو جبر کے نمائندے کے طور پر  پیش کیا جارہا ہے، دنیا میں اگر میراث و حجاب پر سوال اٹھائے جاتے ہیں تو ہمارے ملک میں طلاق اور جہاد کی باتوں کو ایشو بنا کر گھنٹوں ٹی وی شو ہوتے ہیں جن میں لاحاصل بحث ہوتی ہے جبکہ کوئی ملکی ترقی کی بات نہیں کرتا کہ ملک کہاں تھا اور کہاں جا رہا ہے۔
آج آزادی کے چوتھے ستون میڈیا اور ذرائع ابلاغ کا جو حال ہے وہ آپ تمام حضرات کے پیش نظر ہے  یہ کہیں مجرم کو منصنف تو کہیں منصف کو مجرم بنا کر پیش کر رہا ہے تو کہیں قاتل کو مقتول اور مقتول کو قاتل ۔  ساری دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونک کر عالمی ذرائع ابلاغ جو کچھ کر رہے ہیں وہ کسی سے پوشیدہ نہیں، تو انکا تو شیوہ ہی یہی ہے انکے اپنے مفادات ہیں ان کا  لحاظ نہیں کریں گے تو انہیں بجٹ کی فراہمی سے لیکر دیگر مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا  لہذا وہ تو سچ اور جھوٹ کے پالے کو  درہم و دینار کی کھنک کے ساتھ تبدیل کریں گے ہی لیکن  یہ اب ہم پر ہے کہ اپنے تجزیہ کی صلاحیت کو اتنا بڑھائیں کہ میڈیا کی خبروں کے درمیان اصل و نقل پہچان سکیں یہ جان سکیں کہ ذرائع ابلاغ کے پیچھے کونسی لابی کام کر رہی ہے اور دن بھر چلنے والی بریکنگ نیوز کے پیچھے کیا سیاست ہے ؟
میڈیا تو خیر میڈیا ہے جب اقوام متحدہ جیسا ادارہ بھی پیسوں پر تل رہاہے تو اوروں کی تو بات ہی کیا  کون بھول سکتا ہے کہ پچھلے سال کس طرح اقوام متحدہ نے سعودی عرب کو بلیک لیسٹ میں قرار دیا پھر جب یہ دھمکی دی گئی کہ بجٹ کی فراہمی روک دی جائے گی تو اقوام متحدہ کے جنرل سکریٹری نے افسوس کے ساتھ اپنی مجبوری کی دہائی دیتے ہوئے اسے بلیک لیسٹ  سے نکال دیا  اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ پیسے اور دولت کے بل پر کس طرح حق کو ناحق کیا جا رہا ہے۔
یہ تو دنیا کی  موجودہ  صورت حال ہے جبکہ اس صورت حال سے کہیں بدتر معاملہ ہندوستان کا ہے جہاں وہ سب کچھ تو ہے ہی جو اوپر بیان کیا گیا ،علاوہ از ایں مقامی میڈیا ہر چیز کو زعفرانی رنگ میں دیکھ رہا ہے اور چند گنے چنے منصف صحافیوں اور چند گنے گنے منصف چینلوں کے سوا ہر طرف ہندوستان کی سب سے بڑی اقلیت کے خلاف چوطرفہ زہر اگلا جا رہا ہے ،کہیں اشتعال انگیز تقریریں کرنے میں مشہور بعض مسلم عمائدین کو ٹی وی شو میں سجا کر پیش کیا جا رہاہے تو کہیں میدان سیاست سے بے خبر سیدھے سادے مولویوں کو سیاست کے تپتے اکھاڑے میں ہاتھ پیر باندھ کر ماہرین سیاست، و سیاسی مبصرین کے چبھتے سوالوں کے سامنے چھوڑ دیا جاتا ہے جسکا لازمی نتیجہ عوام میں اس بات کا القاء ہے کہ انکے پاس کہنے کے لئے اب کچھ نہیں ہے، انہیں جو کرنا تھا یہ اپنی تقریبا سات سو سالہ حکومت میں کر چکے اب ہمیں کچھ کرنا ہے اور ہندوستان کو بچانا ہے، ملک کی تخریب ہو چکی اب تعمیر کرنا ہے دوسری طرف سوشل میڈیا پر کھلے عام اور بعض لوکل چینلز پر ڈھکے چپھے انداز میں مسلمانوں کو ایک خوفناک موجود کی صورت پیش کیا جا رہا ہےاور ان سے مقابلہ کے لئے گہار لگائی جا رہی ہے تاکہ ووٹوں کو مذہب کی بنیاد پر تقسیم کر کے حکومت تک رسائی حاصل ہو سکے ۔
 ایسے میں کیا ضروری نہیں کہ ہم اپنے تشخص کو باقی رکھتے ہوئے  انصاف کی آواز بلند کریں اور کم از کم سوشل میڈیا کی حد تک اتنا جاگ جائیں کہ وہ کام نہ کریں جو دشمن ہم سے لینا چاہتا ہے اور کم سے کم اسکی سجائی دکان سے سامان نہ خریدیں اور اسکی مصنوعات کی مارکیٹنگ نہ کریں ۔اس دور میں جب کہ میڈیا سامراجی طاقتوں کے ہاتھوں اسیر ہو کر حق بیانی سے نہ صرف کترا رہا ہے بلکہ کھلم کھلا غلط بیانی سے کام لے رہا ہے اور ملک میں شدت پسندانہ طرز فکر کی ترویج کر رہا ہے ایسے میں ہمارا کمترین وظیفہ یہ ہے کہ اگر خود میڈیا کے ذریعہ نشر ہونے والی خبروں کا تجزیہ نہیں کر سکتے  تو صاحبان فکر و نظر کی طرف  رجوع کریں اور سوشل میڈیا پر کوئی بھی پیغام یا کلپ فارورڈ کرنے سے پہلے سوچ لیں کہ ہم کہیں دشمن کے ہاتھوں استعمال تو نہیں ہو رہے ۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

اسرائیل عراق، لبنان، شام اور ایران کو کمزور کرنا چاہتا ہے: سی آئی اے کے سابق افیسر

  • ۳۸۷

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: سی آئی اے کے سابق افیسر ’’فلپ ایم گرالڈی‘‘ کے ساتھ خیبر صہیون تحقیقاتی سینٹر نے اسرائیل کے عدم استحکام کے بارے میں گفتگو کی جس میں انہوں نے کہا:  میں بیس سال سے CIA کے لیے دھشتگردی سے مقابلے کے شعبے میں کام کر رہا ہوں۔ اسرائیل کی پالیسی یہ ہے کہ وہ چار ملکوں عراق، لبنان، شام اور ایران کو کمزور کرنا چاہتا ہے تاکہ اپنی قدرت کا لوہا منوا سکے اور ہماری پالیسی یہ ہے کہ ہم کیسے اس کے ساتھ مقابلہ کریں؟ اس طرح کی کانفرانسوں کا انعقاد بہت اچھا ہے تاکہ ان میں ان مسائل پر غور و خوض کیا جائے۔
اسرائیل اپنا دار الحکومت تبدیل کر کے اپنی کمزوری چھپانا چاہتا ہے، قدس عیسائیوں، یہودیوں اور مسلمانوں سب کا ہے اسے اسرائیل کے لیے سیاسی دار الحکومت میں تبدیل نہیں ہونا چاہیے۔
خیبر: اسرائیل کے عدم استحکام کا اہم ترین سبب جو اسرائیل کی نابودی کا باعث بنے کیا ہے؟
۔ ہمیں دنیا کو یہ بتانا ہو گاکہ اسرائیل بین الاقوامی قوانین کے خلاف کون کون سے کام انجام دیتا ہے انہیں دنیا والوں کے لیے برملا کرنا ہو گا اور جتنا لوگ اسرائیل سے نفرت کریں گے بغیر شک کے اتنا جلدی اسرائیل کی نابودی ممکن ہو گی۔
خیبر: صہیونی ریاست کا اہم ترین چیلنج کیا ہے اور قدس کی غاصب موجودہ حکومت کن مشکلات سے دوچار ہے؟
اسرائیل کی مشکلات بہت زیادہ ہیں انتہا پسندی جو اسرائیل میں پائی جاتی ہے اسرائیل کی ایک اہم مشکل ہے، نیتن یاہو کے بے انتہا مالی گپھلے بھی موجودہ حکومت کی اہم ترین مشکلات میں ایک ہے۔

 

اسرائیلی اسپتالوں میں یہودیوں کا مفت علاج فلسطینیوں سے لوٹ مار

  • ۳۵۴

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: مرکز اطلاعات فلسطین کی جانب سے تیار کردہ ایک رپورٹ میں لرزہ خیز انکشافات کیے گئے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق اسرائیلی اسپتالوں میں جہاں یہودی مرد و خواتین اور بچوں کا نہ صرف علاج مفت ہوتا ہے بلکہ انہیں گھروں کی دہلیز پر مفت طبی سہولیات مہیا کی جاتی ہیں لیکن دوسری طرف فلسطینی مریضوں اور ان کے اقارب کوعلاج کے نام پر منظم انداز میں لوٹا جاتا ہے۔
اسرائیلی اخبار ’ہارٹز‘ نے انکشاف کیا ہے کہ اسرائیل کے چلڈرن اسپتالوں اور زچہ وبچہ مراکز میں لانے والی عرب خواتین کے ساتھ کھلم کھلا امتیازی سلوک کیا جاتا ہے۔
اخباری رپورٹ میں اسرائیل کے چار زچہ وبچہ اسپتالوں کا تذکرہ کیا گیا ہے جہاں پر فلسطینی عرب خواتین کے ساتھ نسل پرستی کا سلوک کیا جاتا ہے۔
رپورٹ کے مطابق اسرائیل کے ھداسا، ھار ہٹزوفیم، سوروکا اور الجلیل شہر میں قائم ’ھعمیک‘ اسپتال یہودیوں کے لیے طبی مراکز اور فلسطینیوں کے لیے لوٹ مار کے مراکز بن چکے ہیں۔
اخباری رپورٹ کے مطابق حال ہی میں چار فلسطینی خواتین نے اسرائیلی اسپتالوں کے خلاف نسل پرستی کا مقدمہ درج کرایا ہے۔ انہوں نے عدالت سے مطالبہ کیا ہے وہ چاروں کو فی کس ۶۰۰۰ ڈالر کے مساوی رقم اسپتالوں سے ہرجانہ دلوائے جو ان کے زچکی کیسز میں مجرمانہ لاپرواہی کے ساتھ نسل پرستی کے مرتکب ہوئے ہیں۔
اسرائیلی رکن کنیسٹ بزلیل مسوٹیرچ کا کہنا ہے کہ اسپتالوں میں یہودی خواتین اور عرب خواتین مریضوں کے درمیان امتیاز برتنا ضروری ہے۔ ڈھٹائی کا مظاہرہ کرئے اسرائیلی رکن کنیسٹ کا کہنا ہے کہ عرب خواتین کو زیادہ بچے جنم دینے کا حق نہیں۔
دوسری جانب عرب رکن کنیسٹ یوسف جبارین نے اسپتالوں میں عرب اور یہودی خواتین کے ساتھ برتے جانے والے امتیازی سلوک کی تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے۔
خیال رہے کہ اسرائیلی ہسپتالوں میں فلسطینی عوام کے ساتھ ایسے حال میں امتیازی سلوک برتا جا رہا ہے کہ اسرائیل کی پشت پناہی کرنے والے عالمی انسانی حقوق ادارے جو دنیا میں انسانی حقوق کو ڈھنڈورا پیٹتے ہیں اسرائیل میں کھلے عام انسانی حقوق کی پامالی سے آگاہ ہیں مگر زبانوں پر تالے ہیں۔