برطانوی مصنف ویلیم شاکراس کا تعارف

  • ۳۸۰

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: آزاد برطانوی مصنف اور اخبار نویس ولیم ہارٹلی ہیوم شاکراس (۱) ۲۸ مئی سنہ ۱۹۴۶ع‍ کو پیدا ہوئے۔ انھوں نے آکسفورڈ یونیورسٹی سے تعلیم مکمل کرنے کے بعد سینٹ مارٹن آرٹ اسکول (۲) میں مجسمہ سازی کے شعبے میں سلسلہ تعلیم جاری رکھا۔ (۳)
وہ مسلسل ریاست ہائے متحدہ امریکہ اور جنوب مشرقی اور مشرقی یورپ کے سفر میں مصروف رہتے ہیں۔ ان کے کالمز اور مضامین وسیع سطح پر ٹائم، نیوز ویک، انٹرنیشنل ہیرلڈ ٹریبیون، اسپیکٹیٹر، سنڈے ٹائمز، واشنگٹن پوسٹ، رولنگ اسٹون، وغیرہ میں شائع ہوتے ہیں۔ (۴)
شاکراس زبردست لکھاری اور رزنامہ نویس ہیں جن کی کاوشوں کے انداز سے نتیجہ لیا جاسکتا ہے کہ وہ اپنی تحریروں کے لئے وسیع مطالعہ کرتے ہیں اور چونکہ وہ عام طور پر حال حاضر کے مسائل کے سلسلے میں مطالعہ، تحقیق اور تالیف و تحریر میں مصروف ہیں، لہذا جدید ذرائع تک رسائی ان کے لئے بالکل ممکن ہے۔ (۵)
ان کی ایک بہت ممتاز کاوش “روپرٹ مردوخ (۶) (ایک ابلاغیاتی سلطنت کی تشکیل) نامی کتاب ہے۔ انھوں نے اس کاوش کے ذریعے ایک بڑے صہیونی (یہودی) مافیا، نیوز کارپوریشن (۷) کے بورڈ آف ڈائریکٹرز کے سربراہ اور مینجنگ ڈائریٹر، فاکس نیوز کے مالک اور فارسی ون نامی نیٹ ورک کے مالک کو ابلاغیاتی صنعت کی دنیا میں متعارف کرایا۔ وہ اس کتاب کی چودہویں فصل کے آغاز پر لکھتے ہیں: “اس کتاب کی تالیف گرد و پیش کے ممالک کے طویل سفر اور روپرٹ مردوخ کے ماضی حال اور مستقبل کے جائزے پر محیط ہے”۔
ان کی دوسری اہم کتاب “شاہ کا آخری سفر” (۸) ہے جس میں انھوں نے ایران کی پہلوی سلطنت کی وسیع بدعنوانیوں، عالمی سیاست میں اتحادوں کی دگرگونی اور وفاداریوں کی ناپائداری کو نہایت سلیس انداز سے تحریر کیا ہے۔
جس چیز نے ہمیں ویلیم شاکراس کا تعارف کرانے پر آمادہ کیا وہ ان کی مذکورہ دو کتابیں اور ان کتابوں میں شاکراس کا طرز فکر ہے۔
ان کی دوسری کاوشوں میں سے کچھ حسب ذیل ہیں:
Dubcek: Dubcek and Czechoslovakia 1918–۱۹۶۸ (۱۹۷۰), a New York Times Book of the Year
Crime and Compromise: Janos Kadar and the politics of Hungary since Revolution (1974)
The Shah’s Last Ride: The fate of an ally (1988)
Kowtow!: A Plea on Behalf of Hong Kong (1989)
Murdoch: the making of a media empire. (1997).
Deliver us from Evil: Warlords, Peacekeepers and a World of Endless Conflict (2000)
Queen Elizabeth The Queen Mother: The Official Biography (2009)
Justice and the Enemy: Nuremberg, 9/11, and the Trial of Khalid Sheikh Mohammed (2011)
Counting One’s Blessings: The Selected Letters of Queen Elizabeth the Queen Mother (2012)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۱٫ William Hartley Hume Shawcross
۲٫ Saint Martin’s School of Art
۳٫ https://www.gov.uk/government/news/william-shawcross-reappointed-as-chair-of-the-charity-commission
۴٫ https://en.wikipedia.org/wiki/William_Shawcross
۵۔ شاوکراس، ویلیام، روپرت مورداک (امپراتوری رسانه‌ای)، ترجمه: امیر حسین بابالار، تهران نشر ساقی، ص ۳۴۱۔
۶٫ Keith Rupert Murdoch (Born: March 11, 1931 (age 87 years), Melbourne, Australia
۷٫ News Corporation
۸٫ The Shah’s Last Ride
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

صہیونیت کے خلاف جد وجہد کرنے والے علماء/ شہید بہشتی

  • ۵۸۲

’شہید سید محمد حسینی بہشتی‘

شہید بہشتی ایک فقیہ، سیاستدان اور امام خمینی (رہ) کے ان قریبی ساتھیوں میں سے تھے کہ جنہوں نے انقلاب سے پہلے اور بعد ہمیشہ حقیقی اور خالص اسلام کی بقاء اور انقلاب کی کامیابی کی راہ میں انتھک مجاہدت کی۔ سامراجیت کے خلاف جد وجہد اور عدالت کے نفاذ کے لیے کوشش اس مجاہد فقیہ کا خاصہ تھا۔ آپ فلسطین پر اسرائیل کے ناجائز قبضے سے بے انتہا رنجیدہ تھے اور ملک کے اندر اور باہر فلسطین کی آزادی کے لیے مہم چلاتے رہے۔
شہید بہشتی مسئلہ فلسطین کو عرب ملکوں کے مسئلہ کے عنوان سے نہیں دیکھتے تھے بلکہ اس انسانی بحران کو عالم اسلام کی مشکل سمجھتے تھے۔ آپ ہمیشہ فلسطینی عوام کے فلاح و بہبود کے لیے کوشاں رہتے تھے یہاں تک کہ اس دور میں جب آپ ہیمبرگ میں زیر تعلیم تھے طالبعلموں سے چندہ کر کے امام موسی صدر اور شہید چمران کے ذریعے فلسطینیوں تک امداد پہنچایا کرتے تھے۔
شہید بہشتی کے شاگرد ’رحیم کمالیان‘ اس بارے میں کہتے ہیں: ’’ ڈاکٹر بہشتی ہمیشہ طلبہ کو اس بات پر تاکید کرتے تھے کہ اگر ہو سکے تو اپنے اخراجات میں سے کچھ بچا کر فلسطینیوں کے لیے مخصوص صندوقچہ میں ڈالیں اور اس طرح پیسہ جمع کر کے ہم ان کی مدد کرتے ہیں۔ آپ اس کے علاوہ یورپ میں اسلامی انجمنوں کو بھی اس کام کی تاکید کرتے تھے۔ جس کے بعد امریکہ اور یورپ کی تمام اسلامی تنظیمیں جو اسلامی یونین کی رکن تھیں فلسطینیوں کے لیے مالی امداد فراہم کرنے لگیں۔ ۱


اس کے علاوہ شہید بہشتی شام اور لبنان کے سفر پر بھی جایا کرتے اور فلسطینی مجاہد گروہوں سے ملاقات کرتے تھے۔ ۲
شہید بہشتی نے اپنی ایک تقریر میں مسئلہ فلسطین کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ایران کی پہلوی حکومت کو اسرائیل کی حمایت کے حوالے سے خبردار کیا اور اسے تنقید کا نشانہ بنایا۔ یہ چیز باعث بنی کہ ’ساواک‘ انہیں تحت نظر رکھے۔ انقلاب کے بعد ساواک کی دستاویزات سے ملی ایک دستاویز میں شہید کے بارے میں کچھ یوں لکھا ہوا تھا:
’’مذکورہ شخص، خمینی کے حامی گروپ کا لیڈر ہے اس نے عرب اور اسرائیل کی حالیہ جنگ کے بارے میں ایران اور مشرق وسطیٰ کی پالیسی کو تنقید کا نشانہ بنایا، ہم ہمیشہ قائل تھے کہ ایران کے رہنما اسرائیل کے حامی ہوں گے اور جو خبریں ہمیں موصول ہوئی ہیں وہ اسی نظریے کی عکاسی کرتی ہیں۔ اس لیے کہ ہمیں اطلاع ملی ہے کہ ایران اور اسرائیل کے درمیان ایک فضائی پل تیار کیا گیا ہے جس کے ذریعے اسلحہ اور امریکہ کی دیگر امداد اسرائیل کو پہنچائی جا رہی ہے۔
مذکورہ شخص نے اپنے اظہار خیال میں یہ امید ظاہر کی ہے کہ جب تک اسلامی حکومتیں آپس میں متحد نہیں ہوں گی کبھی کامیابی کا منہ نہیں دیکھ سکتیں۔ اس لیے کہ جب اسلامی حکومتیں عربوں کی پیٹھ پر خنجر ماریں گیں تو کیسے عرب اس جنگ میں کامیاب ہو پائیں گے۔
مذکورہ شخص نے یہ بھی کہا ہے کہ اسرائیل کو اس وقت تک شکست سے دوچار نہیں کیا جا سکتا جب تک امریکہ کو ایران، ترکی، اردن اور سعودی عرب سے نکال باہر نہ کیا جائے‘‘۔ ۳
حواشی
1 – https://www.teribon.ir/archives/33440.
2- http://ensani.ir/fa/article/9899.
3- http://historydocuments.ir/show.php/print.php?page=post&id=2310

 

 

گریٹر اسرائیل کے اہداف و مقاصد

  • ۴۸۱

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: اسرائیل کے ایک سابقہ وزیر اعظم اسحاق رابن کے یہ ہیجان انگیز الفاظ قابل توجہ ہیں کہ “ہر یہودی چاہے وہ مذہبی ہو یا لادینی (سیکولر) یہ عہد کرتا ہے کہ اے یروشلم! اگر میں تجھے بھول جاوں تو میرا دایاں ہاتھ برباد ہو”۔ صہونیوں نے بیان بازی پر ہی اکتفا نہیں کیا (اسلامی ممالک کے حکمرانوں کی طرح) ایک منظم اور مستحکم پالیسی ترتیب دی اور اسے عملی شکل دینے کے سلسلے میں کئی ظالمانہ اور کٹھور اقدامات اٹھائے۔ دجل و فریب کے تمام ممکنہ ہتھکنڈے استعمال کئے۔ فلسطینی مسلمانوں کو شہر بدر کرکے اس میں یہودیوں کو بڑے ہی شدو مد سے بسایا۔ وقتا ً فوقتا ًاس شہر میں اسلامی شعائر و آثار مٹانے کی کوششیں کیں حتیٰ کہ مسجد اقصیٰ میں آگ بھی لگادی۔ بیت المقدس میں عبادت پر پابندی لگا دی۔ بارہا مسجد اقصی کے فرش کو فلسطین کے نمازیوں کے خون سے رنگین بنایا گیا۔ اسرائیل کی نیت اور کاروائیوں کے پیش نظر ۱۹۸۶ میں اقوام متحدہ کی قرار داد نمبر ۱۹ کے تحت اسرائیلی اقدامات کی شدید مذمت کی گئی جب مسلمانوں کے مقامات مقدسہ کی توہین کی گئی تھی۔ مگر دوسری جانب امریکی جائنٹ چیفس آف اسٹاف کی ایک خفیہ رپورٹ زیر نما ۱۹۴۸/۱۱ مورخہ ۳۱ مارچ ۱۹۴۸ کے مطابق عظیم اسرائیل کا جو خاکہ تیار ہوا تھا اس پر اسرائیلی صیہونیت اور عالمی سامراجیت مرحلہ وار عمل پیرا ہے اور اس سلسلے میں عرب کی آمریت اپنے آقاوں کے مقاصد کی آبیاری میں مشغول ہے۔ یہ اور بات ہے کہ جس شجرِ ملعونہ (گریٹر اسرائیل) کی عرب حکمران آبیاری کررہے ہیں۔ اسکے مہیب سائے ان کے شاہی محلوں اور حکومتی ایوانوں کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیں گے۔ مذکورہ رپورٹ کے مطابق گریٹر اسرائیل کے چند ایک درج ذیل اہداف مقرر ہوئے ہیں۔
۱۔ ابتدا میں فلسطین کے ایک حصے پر یہودی اقتدار
۲۔ پھر فلسطین میں یہودیوں کا غیر محدود داخلہ(جو اب تک جاری ہے)
۳۔ پھر، پوری فلسطین پر یہودی اقتدار کی توسیع
۴۔ اسکے بعد اردن، لبنان، شام (بلکہ اس کے آگے) ارضِ اسرائیل کی توسیع
۵۔ پھر، پورے شرقِ اوسط پر اسرائیل کو فوجی، سیاسی اور معاشی تسلط۔(بحوالہ مغرب اور عالم اسلام۔۔۔ ایک مطالعہ۔۔ از خرم مراد)

 

ظہور امام عصر عج، آخر الزمان اور صہیونیت کا انجام

  • ۶۸۶

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: حقیقی و خالص اسلام کے مقابلہ پرجو فکر سب سے زیادہ وسیع پیمانہ پر مختلف میدانوں میں اپنی پوری توانائی کے ساتھ کھڑی ہے وہ صہیونی فکر ہے۔
صہیونیوں کو سب سے زیادہ خطرہ اسلام کے ان حقیقی پیرو کاروں سے ہے جنہوں نے قرآن کے مستضعفین کی مستکبرین پرحکومت کے وعدہ [۱]کو پیش نظر رکھتے ہوئے استکبار کے خلاف عملی محاذ قائم کیا ہے اور جہاں وہ وعدہ الہی کے منتظر ہیں وہیں ہاتھ پر ہاتھ دھرے نہیں بیٹھے ہیں بلکہ اس وعدہ الہی کے مقدمات کو فراہم کرنے میں مسلسل قربانیاں دے رہے ہیں۔
آج صہیونیت کو سب سے زیادہ خطرہ بھی اسلام کے ان واقعی پیرو کاروں سے ہے جنہوں نے زمین کے مظلوموں کی وراثت قرار دئے جانے والے قرآنی وعدہ کو محض تلاوت کی حد تک نہ رکھتے ہوئے ساری دنیا میں ان لوگوں کا ساتھ دینے کی ٹھانی جن پر ظلم ہو رہا ہے جنکو بڑی طاقتوں نے کمزور بنا کر انکا استحصال کیا ہے، کمزوروں کی زمین پر وراثت کے وعدہ پر ایمان لانے والے لوگ آج ساری دنیا کے مظلوموں کے ساتھ کھڑے ایک منجی بشریت کے منتظر ہیں اور اس انتظار میں ہاتھ پر ہاتھ دھرے بھی نہیں بیٹھے ہیں بلکہ انتظار کے واقعی مفہوم کو پیش کرتے ہوئے ہر اس جگہ مظلوموں کےساتھ کھڑے ہیں جہاں ان پر عرصہ حیات تنگ کیا جا رہا ہے۔
اسی بنیاد پر صہیونیوں کی نظر میں سب سے زیادہ وہی لوگ کھٹک رہے ہیں۔ اور انہیں لوگوں کے خلاف چو طرفہ سازشیں ہو رہی ہیں جو خدا کے سچے وعدے پر یقین رکھتے ہوئَے دنیا بھر کے مظلوموں کی آواز بنے دشمنوں سے مقابلہ کر رہے ہیں، صہیونی بھی اسی لئے انہیں اپنا سب سے بڑا دشمن کہہ رہے ہیں کہ جب عصر غیبت و انتظار میں ان چند گنے چنے لوگوں نے دنیا کی بڑی طاقتوں کی نیندیں حرام کر دیں ہیں تو اس وقت کیا ہوگا جب انکا وہ منجی آ جائےگا جس کے انتظار میں یہ چشم براہ ہیں ۔
آج کا عرصہ کارزار صہیونیت اور منتظرین حقیقی کے درمیان ہے، یہی سبب ہے کہ جہاں دنیا کے مستضعفین و کمزور لوگ ایک پلیٹ فارم پر جمع ہونے کی کوشش کر رہے ہیں وہیں صہیونیت ان تمام طاقتوں کی پشت پناہی کرتی نظر آ رہی ہے جو مظلوموں اور کمزوروں کی آواز کو دبانا چاہتے ہیں اور نہیں چاہتے یہ کمزور اپنے بل پر کھڑے ہوں۔ آج کمزوروں کی اٹھتی ہوئی آواز کو اگر مہدویت کا نام دیا جا سکتا ہے تو ان کمزوروں کو کچلنے والوں کو صہیونیت و وہابیت کی فکر سے تعبیر کیا جا سکتا ہے جو آج مہدوی فکر کو اپنے لئے سب سے بڑا خطرہ سمجھ کر مظلوموں کو اپنے پیروں کھڑے ہونے دینا نہیں چاہتی اور اسی سبب عالمی سامراج کی حمایت کے چلتے دنیا کے مختلف گوشوں میں انکا قتل عام کیا جا رہا ہے اسکی ایک سامنے کی مثال یمن کی صورت حال ہے جہاں سعودی حکومت مسلسل قتل عام کر رہی ہے اور اسکی پشت پناہی امریکہ و اسرائیل کر رہے ہیں اور یمن ہی نہیں دنیا کے ہر اس علاقہ میں صہیونیت کے ہمراہ وہابیت کے نشان ظلم ملیں گے جہاں اسلامی تعلیمات کے سایہ میں اپنی خود مختاری کی بات ہوگی اور اس کی سب سے بڑی وجہ بیت المقدس کی طرف سے توجہ ہٹا کر سفیانیت کو بڑھاوا دینا ہے انہیں خوب معلوم ہے مہدویت وہ فکر ہے جس کے چلتے لوگوں میں ایک امید جاگتی ہے اور انہیں اپنے حق کے مطالبہ پر اکساتی ہے لہذا ضروری ہے کہ اس کے مقابلہ پر جو فکر بھی ہو اسکی حمایت کی جائے اور تاریخی شواہد کی روشنی میں انہیں پتہ ہے مہدویت کے مقابلہ پر سفیانیت سامنے آئے گی جیسا کہ روایات سے واضح ہے، امام زمانہ عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف کی سخت ترین دشمن سفیانیت کی فکر ہوگی جسے مغرب کی حمایت بھی حاصل ہوگی اور یہودیوں کی بھی ،بلکہ بنیادی طور پر دیکھا جائے تو سفیانی کی حمایت ہی اس لئے ہے کہ ایک طرف تو انقلابی فکر کو دبایا جا سکے اور دوسری طرف اسرائیلی سرحدوں کی حفاظت کی خاطر ان لوگوں سے مقابلہ کیا جا سکے جو لشکر خراسانی اورناصران مہدی عج کی صورت بیت المقدس کی آزادی کے لئے اٹھ کھڑے ہوئے ہیں ،جبکہ یہ وعدہ الہی ہے کہ ظلم و ستم کے پرستاروں کو اس بار کوئی کامیابی ملنے والی نہیں ہے سورہ اسراء میں اسی بات کی طرف یوں اشارہ ملتا ہے:
وَقَضَیْنَآ اِلٰى بَنِیْٓ اِسْرَاۗءِیْلَ فِی الْکِتٰبِ لَتُفْسِدُنَّ فِی الْاَرْضِ مَرَّتَیْنِ وَلَتَعْلُنَّ عُلُوًّا کَبِیْرًا، فَاِذَا جَاۗءَ وَعْدُ اُوْلٰىہُمَا بَعَثْنَا عَلَیْکُمْ عِبَادًا لَّنَآ اُولِیْ بَاْسٍ شَدِیْدٍ فَجَاسُوْا خِلٰلَ الدِّیَارِ۰ۭ وَکَانَ وَعْدًا مَّفْعُوْلًا، ثُمَّ رَدَدْنَا لَکُمُ الْکَرَّۃَ عَلَیْہِمْ وَاَمْدَدْنٰکُمْ بِاَمْوَالٍ وَّبَنِیْنَ وَجَعَلْنٰکُمْ اَکْثَرَ نَفِیْرًا،نْ اَحْسَنْتُمْ اَحْسَنْتُمْ لِاَنْفُسِکُمْ۰ۣ وَاِنْ اَسَاْتُمْ فَلَہَا۰ۭ فَاِذَا جَاۗءَ وَعْدُ الْاٰخِرَۃِ لِیَسُوْۗءٗا وُجُوْہَکُمْ وَلِیَدْخُلُوا الْمَسْجِدَ کَـمَا دَخَلُوْہُ اَوَّلَ مَرَّۃٍ وَّلِــیُتَبِّرُوْا مَا عَلَوْا تَتْبِیْرًا
ترجمہ : اور ہم نے بنی اسرائیل کو کتاب میں آگاہ کر دیا تھا کہ تم زمین میں دو مرتبہ ضرور فساد برپا کرو گے اور ضرور بڑی طغیانی دکھاؤ گے۔ پس جب دونوں میں سے پہلے وعدے کا وقت آیا تو ہم نے اپنے زبردست طاقتور جنگجو بندوں کو تم پر مسلط کیا پھر وہ گھر گھر گھس گئے اور یہ پورا ہونے والا وعدہ تھا۔ پھر دوسری بار ہم نے تمہیں ان پر غالب کر دیا اور اموال اور اولاد سے تمہاری مدد کی اور تمہاری تعداد بڑھا دی۔ اگر تم نے نیکی کی تو اپنے لیے نیکی کی اور اگر تم نے برائی کی تو بھی اپنے حق میں کی پھر جب دوسرے وعدے کا وقت آیا ـ(تو ہم نے ایسے دشمنوں کو مسلط کیا ) وہ تمہارے چہرے بدنما کر دیں اور مسجد (اقصیٰ) میں اس طرح داخل ہوجائیں جس طرح اس میں پہلی مرتبہ داخل ہوئے تھے اور جس جس چیز پر ان کا زور چلے اسے بالکل تباہ کر دیں [۲]۔
امام صادق علیہ السلام }عِبَادًا لَّنَآ اُولِیْ بَاْسٍ شَدِیْدٍ{ ‘‘طاقت ور جنگجو بندوں’’ کے سلسلہ سے فرماتے ہیں :یہ وہ لوگ ہوں گے جنہیں خدا ظہور قائم عج سے قبل سامنے لائے گا اور یہ کسی دشمن اہلبیت کو نہیں پکاریں گے یہاں تک کے اسے واصل نار کر دیں گے [۳]
عیاشی نے اپنی تفسیر میں لکھا ہے کہ امام باقر علیہ السلام نے بعثنا علیکم عبادا لنا کی تلاوت کے بعد فرمایا: اس سے مراد ہمارا قائم عج ہے اور اسکے ناصر ہیں جو طاقت ور ہونگے[۴] امام صادق علیہ السلام سے نقل ہے کہ آپ نے اسی آیت کی تلاوت کی تو آپ کے ایک صحابی نے سوال کیا میری جان آپ پر فدا ہو مولا یہ لوگ کون ہونگے آپ نے جواب میں تین بار فرمایا :یہ لوگ اہل قم میں سے ہوں گے ، اہل قم میں سے ہوں گے اہل قم میں سے ہوں گے [۵]
بظاہر موجودہ حالات اورظہور امام زمانہ عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف کے سلسلہ سے وارد ہونے والی روایات کے لب و لہجہ کو دیکھتے ہوئے بعید نہیں ہے کہ فریقین کی کتابوں میں موجود آخری دور کی جنگ میں مسلمانوں اور یہودی کی جنگ سے مراد یہی آخر الزمان کی جنگ ہو جس کے بارے میں یوں ملتا ہے کہ :قیامت نہیں آئے گی مگر مسلمانوں اور یہودیوں کے درمیان ایک سخت جنگ چھڑے گی ، اور اس جنگ میں مسلمانوں کو غلبہ حاصل ہوگا اور مسلمان سب کو ہلاک کر دیں گے یہاں تک کہ اگر انکا کوئی دشمن کسی پتھر یا درخت کے پیچھے بھی چھپ جائے گا تو درخت و پتھر سے آواز آئے گی تمہارا کھلا ہوا دشمن یہاں چھپا ہے اسے ہلاک کر دو [۶]۔
اس آخری دور میں جہاں یہودیوں کو انکے ظلم و ستم کی بنا پر مسلمانوں کا لشکر ہلاک کرے گا وہیں یہ بھی ہے کہ ان میں سے تیس ہزار کے قریب اس وقت اسلام لے آئیں گے جب دیکھیں گے کہ انطاکیہ کی ایک غار سے توراۃ کو انجیل کو نکالا جائے گا اور صندوق مقدس کو طبریہ کی جھییل سے سامنے لایا جائے گا یہ وہ وقت ہوگا کہ یہودیوں کے لئے سب دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائےگا اور ان علامتوں کو دیکھ کر تیس ہزار یہودیوں اسلام قبول کر لیں گے [۷]۔
اسی انجام کا ڈر ہے جو اسرائیل کو لاحق ہے اور وہ مسلسل ایسے اقدامات کر رہا ہے کہ بزعم خویش تو اپنے بچاو کی چارہ سازی کر رہا ہے لیکن در پردہ اپنی قبر کھود رہا ہے جبکہ وعدہ الہی حق ہے اسے کوئی روک نہیں سکتا ۔ نہ اونچی اونچی دیواریں اسے تباہ ہونے سے روک سکتی ہیں نہ بکتر بند فولادی گاڑیاں نہ مرکاوہ ٹینک اور نہ ہی اپنے مان مانے طریقے سے فلسطینی حدود کی تعیین و فلسطینیوں سرحدوں کے اندر انہیں قید کر دینا وعدہ الہی سچ ہے اوراسکی سچائی ساری دنیا کے سامنے آ کر رہے گی فلسطین، شام، عراق و لبنان میں جوکچھ ہو رہا ہے وہ اسی وعدہ الہی کی آہٹ ہے جس کے بموجب منجی آخر کے ظہور کے ساتھ ساتھ ہی انسانیت کے دشمن صہیونی اپنے انجام کو پہنچیں گے ۔
حوالہ جات
[۱][۱] وَنُرِیْدُ اَنْ نَّمُنَّ عَلَی الَّذِیْنَ اسْتُضْعِفُوْا فِی الْاَرْضِ وَنَجْعَلَہُمْ اَىِٕمَّۃً وَّنَجْعَلَہُمُ الْوٰرِثِیْنَۙ, وَنُمَکِّنَ لَہُمْ فِی الْاَرْضِ…
۵۔ اور ہم یہ ارادہ رکھتے ہیں کہ جنہیں زمین میں بے بس کر دیا گیا ہے ہم ان پر احسان کریں اور ہم انہیں پیشوا بنائیں اور ہم انہی کو وارث بنائیں اور ہم زمین میں انہیں اقتدار دیں ۔۔۔ ۵- ۶ قصص
[۲] ۔ اسراء ، ۴-۷
[۳] تفسیر نورالثقلین، ج ۳، ص ۱۳۸٫
[۴] ایضا
[۵]۔ بحارالانوار، ج ۶۰، ص ۲۱۶٫
[۶] ۔ مسند احمد، ج ۲، ص ۴۱۷؛ معجم احادیث الامام المهدی، ج ۱، ص ۳۱۲
تفصیل کے لئے رجوع کریں بحارالانوار، ج ۵۱، ص ۲۵٫
۷ تفصیل کے لئے رجوع کریں. معجم احادیث الامام المهدی (علیه السلام)، ج ۱، ص ۳۴۴؛ الملاحم و الفتن، ص ۶۹٫:
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

پروفیسر راجر گیروڈی کا مختصر تعارف/ اسلام کب اور کیوں قبول کیا؟

  • ۸۵۵

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: راجر گیروڈی(Roger Garaudy) ایک فرانسیسی فلاسفر اور سیاستدان ہیں وہ ۱۷ جنوری ۱۹۱۷ کو مارسیلی شہر میں پیدا ہوئے۔ ان کا تعلق ایک بے دین اور غیر مذہبی گھرانے سے تھا۔ ۲۰ سال کی عمر میں انہوں نے حضرت ابراہیم اور حضرت عیسی علیہما السلام کی تعلیمات پر ایمان لاتے ہوئے عیسائی مذہب قبول کر لیا۔ انہوں نے ۱۹۵۲ میں سوربن یونیورسٹی سے ادبیات میں ڈاکٹریت کی ڈگری حاصل کی۔
راجر گیروڈی ان تین سو افراد میں سے ایک تھے جنہیں ہٹلر نے ایک بیابان میں جلاوطن کر دیا تھا۔ وہ ۱۹۴۰ سے ۱۹۴۳ تک اس بیابان میں ایک کیمپ میں رہے۔ ایک دن کیمپ کے افسر نے اس میں رہنے والوں پر گولی چلانے کا حکم دیا لیکن کیمپ کے محافظ مسلمان سپاہیوں نے جرمن افسروں کے حکم کی نافرمانی کرتے ہوئے گولی چلانے سے انکار کردیا اور کہا کہ ہم اسیروں پر گولی نہیں چلائیں گے۔ اس واقعہ کے بعد جب گیروڈی مسلمان سپاہیوں کی طرف سے گولی نہ چلائے جانے کی وجہ معلوم کرتے ہیں تو ان سے کہا جاتا ہے کہ مسلمان ایسے لوگوں پر گولی نہیں چلاتے جن کے ہاتھ بندھے ہوئے ہوں۔ یہی وہ لمحہ تھا جس کے بعد گیروڈی نے اسلام کے بارے میں تحقیقات کرنا شروع کر دیں۔ انہوں نے اپنی پوری زندگی حریت کی طلب اور حقیقت کی جستجو میں گزار دی۔
راجر گیروڈی ۳۹ سال تک فرانس کی کمیونیسٹ پارٹی کے فعال رکن رہے کہ اس دوران ۲۵ سال اس پارٹی کی مرکزی کمیٹی کی سربراہی کے عہدہ پر فائز رہے۔ انہوں نے کیمپ کی اسیری سے رہائی پانے کے بعد الجزایر میں فرانس ریڈیو میں کام کرنا شروع کیا اور ۱۹۴۵ میں ہٹلر کی شکست کے بعد فرانس واپس چلے گئے۔
گیروڈی ۱۹۴۵ سے ۱۹۸۵ تک فرانسیسی پارلیمنٹ کے نمائندے اور ۱۹۵۹ سے ۱۹۹۲ تک فرانس کی پارلیمانی سناریو کے رکن تھے۔ انہیں یہ جملہ کہنے پر کہ “سوویت یونین قومی اتحاد ایک سوشیالیسٹ ملک نہیں ہے” کمیونیسٹ پارٹی سے نکال دیا گیا۔ “متبادل”، “زندوں کو آواز” اور “ابھی زندگی کا وقت” ان کی بعض کتابیں ہیں۔
انہوں نے انسانی معاشرے کی تمام سماجی اور اجتماعی مشکلات کا حل اور انحطاط و پسماندگی سے نجات کا واحد راستہ، دین اسلام قرار دیا۔ بنابرایں، انہوں نے اسلام کے بارے میں مختلف کتابیں تحریر کرنے کے بعد ۱۹۸۱ میں رسمی طور پر اسلام قبول کر لیا۔
وہ اسلام کے بارے میں کہتے ہیں: “اسلام ایک عالمی اور آفاقی دین ہے۔ میں جو عیسائی تھا، یا مارکسیسٹ تھا تو اس وجہ سے مسلمان ہوا کہ میں نے دین اسلام کو عالمی اور جہانی دین پایا۔ لہذا ہم مسلمانوں کو چاہیے کہ آپسی اتحاد کے ساتھ دنیا کے ستمگر حکمرانوں کے خلاف جنگ کے لیے اٹھیں”۔ (۱)
پروفیسر راجر گیروڈی نے اپنے ایران سفر کے دوران قم موسسہ امام خمینی(رہ) میں ایک تقریر کی اور کہا: صہیونیوں نے سرزمین فلسطین کے عظیم منابع اور ذخائر پر قبضہ کر کے اس بڑے جرم یعنی فلسطین کو ہتھیانے کا ارتکاب کیا۔ اگر چہ صہیونیوں کی اس حرکت کی اقوام متحدہ اور حتی خود امریکہ نے بھی مذمت کی لیکن امریکی حکمرانوں نے ہمیشہ اسرائیل کے خلاف کسی قسم کے ٹھوس اقدام پر دلچسپی نہیں دکھلائی۔ امریکہ اور صہیونی ریاست صرف اپنے مفاد کی تلاش میں ہیں اور جہاں بھی انہیں اپنا مفاد نظر آئے وہ وہاں پہنچ جاتے ہیں”۔
رہبر انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمیٰ خامنہ ای نے فرانسیسی مجاہد مسلمان راجر گیروڈی سے ملاقات میں، صہیونیت اور اس کے حامیوں سے مقابلے کو ایک عظیم الہی اور معنوی ذمہ داری قرار دیا اور اس جنگ اور مبارزے میں راجر گیروڈی کی شجاعت اور دلیری کو سراہا۔ آپ نے ۱۲ مئی سن ۲۰۰۰ کے نماز جمعہ کے خطبے میں فرانسیسی حکومت کے راجر گیروڈی کے خلاف اقدام (گیروڈی قائل تھے کہ جرمنیوں نے یہودیوں کا قتل عام نہیں کیا ہولوکاسٹ ایک خود ساختہ افسانہ ہے) کی مذمت کرتے ہوئے فرمایا: آپ نے کہاں دیکھا ہے کہ مغربی سرزمین پر کوئی صہیونیزم کے خلاف بات کرے۔
سینیگال کے شہر ڈیکار میں بین الاقوامی یونیورسٹی کی بنیاد، جنیوا میں مختلف تمدنوں کے درمیان گفتگو کے لیے ایک ادارے کا قیام، کورڈوا شہر میں ایک میوزیم قائم کر کے مشرق و مغرب کے درمیان روابط کی برقراری اس فرانسیسی مسلمان پروفیسر کی اہم سرگرمیوں میں شامل تھا۔
ان کی دیگر کتابوں ’’امریکہ انحطاط میں سب سے آگے‘‘، ’’اسرائیلی سیاست کے بنیادی افسانے‘‘ اور ’’اسراییلی فائل‘‘ وغیرہ کی طرف اشارہ کیا جا سکتا ہے۔
(۱)؛ میراث سوم (وعده های اسلام) روژه گارودی، ترجمه دکتر حدیدی،ص ۷ تا ۱۰٫

 

صہیونی معاشرے میں بڑھتی دراڑوں کی حقیقت

  • ۴۷۵

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: اسرائیل کے اندر معاشرتی دراڑیں مختلف سطحوں پر اور مختلف پہلووں میں پائی جا رہی ہیں، جبکہ سیاسی مشینریاں بعض دراڑوں کو عمیق بنانے میں جیسے قومی دراڑ و شگاف اور مذہبی و سیکولر طبقے کے درمیان بڑھتی خلیج کے باقی رکھنے میں اپنا رول ادا کر رہی ہیں ۔کہا جا سکتا ہے کہ کم از کم چار طرح کے قابل ذکر شگاف صہیونی معاشرہ میں پائے جا رہے ہیں ، یہ شگاف حسب ذیل ہیں :
۱۔ اعراب و یہودیوں کے درمیان تاریخی اور قومی شگاف
۲۔ یہودیوں کے درمیان نسلی شگاف
۳۔ یہودیوں کے درمیان دینی شگاف
۴۔ صہیونی سماج میں طبقاتی شگاف
یہ وہ دراڑیں ہیں جو بعض جگہوں پر ایک دوسرے کی شدت کا سبب بن رہی ہیں اور صہیونی رژیم کی آبادی کی تقسیم اس بات کا سبب بنی ہے کہ ان دراڑوں میں اور بھی گہرائی پیدا ہو چنانچہ صہیونی صدر جوکہ ہرتزلیا کانفرنس ۲۰۱۵ء میں اس کانفرنس کے بنیادی و اصلی مقررین کے طور پر مدعو تھا خود اس نے ہی صہیونی معاشرہ میں وسیع پیمانہ پر پائے جانے والی دراڑوں اور وہاںک کے آپسی اختلافات و تفرقوں کو ایک بڑے خطرہ کے طور پر بیان کرتے ہوئے ان دراڑوں اور تفرقوں کے وجود کا اعتراف کیا ۔ روئن ریولین نے اس کانفرنس میں کہا : گزشتہ ۹۰ کی دہائی میں اسرائیلی معاشرہ ایک بڑی اکثریت و چھوٹی اقلیت سے تشکیل پاتا تھا جس میں اکثریت کا تعلق صہیونیوں سے تھا جو کہ تین اقلتیوں ، مذہبی صہیونیوں، عربوں اور افراطی آرتھوڈکسوں حریدیوں کے ساتھ اسرائیل سماج کو تشکیل دیتا تھا ۔ شاید آج بھی اسرائیل میں بہت سے لوگ یہ سوچتے ہوں اور ذرائع ابلاغ اور اسرائیل نظام کے لوگ یہ سوچتے ہوں کہ اسرائیلی سماج اب بھی اپنی پرانی حالت پر ہے ۔لیکن اس وقت سے لیکر اب تک حقیقت بنیادی طور پر تبدیل ہو چکی ہے فی الحال صورت حال یہ ہے کہ پہلے درجہ کے شہری سیکولر صہیونی ۳۸ فیصد قوم پرست و مذہبی۱۵ فیصد ۲۵ فیصد عرب اور ۲۵ فیصد افراطی آرتھوڈکس ہیں بہرحال آبادی کی بناوٹ کی تبدیلی ایک ایسی حقیقت ہے جو آج اسرائیل کے موجودہ چہرہ کو پیش کر رہی ہے اور اس موجودہ صورت حال میں حقیقت یہ ہے کہ کسی گروہ کو واضح اکثریت حاصل نہیں ہے اور کوئی اقلیت چھوٹی نہیں ہے۔

 

ہندوستان کو طبقاتی و نسلی بھید بھاو سے ابھارنے میں مسلمانوں کا کردار

  • ۴۲۷

بقلم سید نجیب الحسن زیدی
خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: آج ہمارے ملک میں جو ہر طرف مسموم فضا چھائی ہوئی ہے اور بری طرح ہمیں چو طرفہ نشانہ بنایا جا رہا ہے اسکو دیکھتے ہوئے ضروری ہے کہ ہم بہت سوچ سمجھ کر اپنے مستقبل کے لئے لائحہ عمل تیار کریں کہ ہمیں کس طرح آگے بڑھنا ہوگا؟۔  مستقبل کے خطوط کی ترسیم کے ساتھ ساتھ ہمارے لئے یہ بھی ضروری ہے کہ  جتنا ہو سکے میڈیا کے ذریعہ قلم و بیان کے ذریعہ اس بات کو بیان کرنے کی کوشش کریں کہ ہم نے مذہبی و نسلی بھید بھاو سے کس طرح اس ملک کو اس مقام تک پہنچایا جہاں سب مل جل کر ملک کی ترقی میں حصہ لے سکیں اور طبقاتی فاصلوں کی دیواریں ملک کی ترقی میں آڑے نہ آئیں ۔
 اگر ہمارے خلاف زہر بھرنے والی طاقتیں صرف اس چیز کو جان لیں کہ ہم نے نسلی و مذہبی و قومی ہماہنگی میں ایک لافانی کردار ادا کیا ہے تو انہیں خود اندازہ ہو گا کہ  اجتماعی و معاشرتی زندگی میں جس طاقت کو وہ لوگ ہمارے خلاف استعمال کر رہے ہیں  اگر مسلمان اس ملک میں نہ آئے ہوتے تو ہرگز وہ اس گندے گٹر سے نہیں نکل سکتے ہیں  جہاں اس وقت چھوا چھوت کے تعفن میں پوری قوم کو مبتلا کئے انسانی صلاحیتوں گا گلا گھونٹ رہے تھے۔
چھوت چھات کی ایسی بیماری اس ملک کو لاحق تھی کہ قومیت کا تصور ہی مشکل ہو چکا تھا، ہندوستان کے لئے سب سے بڑی نعمت یہ رہی کہ مسلمانوں نے اجتماعی زندگی کا شعور دیا چونکہ اسلام کی نظر میں نہ طبقاتی نظام کی کوئی حیثیت ہے نہ نسلی و قومی برتری کا تصور، اس دور میں جب ہندو مذہب کا طبقاتی نظام دبے کچلے لوگوں کو مزید دبا رہا تھا مسلمانوں نے یہ تصور پیش کیا کہ  کوئی شخص پیدائشی طور پر نہ تو ناپاک ہوتا ہے کہ اسے دھتکار دیا جائے اور نہ ہی جاہل ہوتا ہے کہ اسے علم حاصل کرنے کاحق ہی نہ ہو اور نہ ہی خاص پیشے خاص لوگوں کے لئے ہوتے ہیں، بلکہ ایک ساتھ سب ایک جگہ بیٹھ بھی سکتے ہیں کھا بھی سکتے ہیں ، امیر و غریب پہلو بہ پہلو بیٹھ بھی سکتے ہیں کام بھی کر سکتے ہیں ، ہندوستان کے طبقاتی نظام کے لئے یہ مساوات کا پیغام کوئی معمولی بات نہیں ہے یہ وہ چیز ہے جسکا اعتراف ہندوستان کے پہلے وزیر اعظم پنڈت نہرو نے بھی یوں کیا ہے''  مسلمانوں کے عملی مساوات کے نظام نے ہندوں کے ذہنوں پر بہت گہرا رنگ چھوڑا خاص طور پر وہ ہندو جو اونچ نیچ کا شکار تھے اور برابری کے حقوق سے محروم تھے اسلام کے مساوات کے نظام سے بہت متاثر ہوئے'' {جواہر لعل  تلاش ہند ، ص ۵۲۶-۵۲۵ Discoery off india }
ہندوستان کی موجودہ فضا میں ہم سب کے لئے ضروری ہے کہ ہم اس بنیادی مسئلہ کی  طرف لوگوں کی توجہات کو مبذول کرائیں اور ساتھ ہی ساتھ اپنے حقوق کی بازیابی کی جنگ کو بھی جاری رکھیں، اور پر امن طریقے سے مظاہرہ و احتجاج کرتے رہیں، اور ملک کو تقسیم کرنے والوں کو یہ سمجھا دیں کہ جب ہم نے کل دبے کچلے لوگوں کو سہارا دیا تو کیوں کر آج ہم ہر طرح کا ظلم سہہ سکتے ہیں اگر ہم دوسروں کو ظلم کی چلتی چکی کے پاٹوں کے درمیان سے نکال سکتے ہیں تو یقینا ایسانہیں ہو سکتا کہ خود کو ظلم و ستم کی چکی کے حوالے کر دیں ،ہماری آواز احتجاج اس بات کی علامت ہے کہ ہم آئین کی رو سے  حاصل حقوق کی روشنی میں اپنے حق کے لئے اس وقت تک لڑتے رہیں گے ہم تک ہمارا حق ہمیں نہ مل جائے ۔

 

 

 

کورونا وائرس; پردے کے پیچھے بڑی سازش کا آغاز (دوسرا حصہ)

  • ۴۲۳

گزشتہ سے پیوستہ

امریکا کی سیاست میں اکثر یہودی افراد شامل ہیں اور اس منصوبہ بندی کے پیچھے دنیا کے سب سے  بڑے  دولت مند اور پاورفل لوگ موجود ہیں جو دنیا کی بڑی بڑی کمپنیوں کے مالک ہے یہاں تک کہ Uno اور World Bank,  unicefوغیرہ جیسے اداروں اور عالمی تنظیموں کے افراد بھی اس پروپیگنڈے میں شامل ہیں۔ اسی لئے ان کے لئے خود امریکیوں کا مرنا بھی کوئی معنی نہیں رکھتا ہے ۔  9/11 کے حادثے کی زندہ مثال ہمارے سامنے موجود ہے۔ اس حادثے میں پانچ ھزار سے زائد امریکی مارے گئے تھے۔ اسلئے اس امریکی صہیونیوں سے بعید نہیں ہے کہ انہوں نے یہ منحوس وائرس ایجاد کیا ہو جو عمر رسیدہ  افراد کو ہی زیادہ تر نشانہ بنائے جس وجہ سے انہیں ایران کی بزرگ افراد جسمیں مراجع کرام شامل ہیں کو  ٹارگٹ کرنے کا منصوبہ ہو۔ اور یوں امریکا کے سب سے بڑے دشمن ولی امر مسلمین امام خامنہ ای کو مین ٹارگیٹ میں رکھا گیا ہو۔ اس دوران  ابھی تک یہ لوگ ایران میں چند بڑی شخصیات کو نشانہ بنانے میں کامیاب ہوئے۔ اگرچہ ان کے استکباری میڈیا نے اعلان کر ہی دیا ہے کہ امام خامنہ ای بھی اس وائرس میں مبتلا ہو چکے ہیں ۔ یہاں تک کہ رہبرمعظم کے مشاور علی اکبر ولایتی تک یہ کرونا وائرس  پہنچایا گیا ہے۔ اور وہ اس وائرس سے متاثر ہوئے۔
 اس طرح یہ لوگ ایران میں بڑی اور انقلابی شخصیات کو نشانہ بنانے پہ تلے ہیں جسمیں سپاہ پاسداران اسلامی بھی شامل ہیں چنانچہ ایران کی اکثر انقلابی شخصیات عمر رسیدہ ہیں لیکن عالمی استکبار کی یہ پھونکیں نور الہی کو بجا نہیں سکتیں اور یہ لوگ  اپنے مکر میں زیادہ کامیاب نہیں ہونے والے ہیں۔ و مکروا ومکراللہ و اللہ خیر الماکرین۔ رسول اللہ ۖ فرماتے ہیں کہ یہ '' دنیا محضر خدا ہے '' اس میں جو بھی گناہ کرتا ہے وہ اس کیلئے بھاری پڑ جاتا ہے اور  مخلوق خدا  اور  عیال خدا کے ساتھ جو بھی چھیڑتا ہے خدا اس کے ساتھ چھیڑتا ہے ان کے اس مکر سے اب امریکی خود اس مرض کی لپیٹ میں آچکے ہیں بہر حال قدرت کا نظام ہی اسی طرح بنا ہے کہ جو کسی پر ظلم کرے وہ خود بھی ظلم کا شکار ہوتا ہے۔ جو کسی کے لیے گڑھا کھودتا ہے وہ خود اس میں گرتا ہے۔
 امریکا کے وزیر خارجہ پمپو نے ایران کو چند بار مدد کی پیشکش کی اس کے جواب میں ایران کے سپریم لیڈر نے اپنے خطاب میں انہیں جواب دیا کہ ہمیں آپ کی مدد کی ضرورت نہیں ہے آپ اپنے لوگوں کیلئے جو میڈیکل کی عدم سہولیات سے پریشان ہیں ان کی مدد کریں ۔ ایران کا انقلاب واقعا  پوری دنیا اورخصوصا یہاں کے لوگوں کیلئے بڑی نعمت ہے ایران نے اس وائرس  سے  جہادی طور پر جنگ کی ہے ۔ یہاں کی رضا کارانہ  فوج جو  یہاں پر بسیج  کے نام سے جانے جاتے ہیں نے بے حد شجاعانہ کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے۔ انہوں نے رضاکارانہ طور پر یہاں کے ہسپتالوں میں کام کیا ہے، لوگوں کے گھر جا جا کر انہیں مفت میں جراثیم کش ادویات اور ماسک بانٹے ہیں۔  
امریکا اور برطانیہ اس shadow politics پالیسی کے ذریعے اپنے دیرینہ مفادات کو پانے کیلئے  بہت سی حدیں پار کرنا چاہتے ہیں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کرونا وائرس، برڈ فلیو سے زیادہ خطرناک ہے بلکہ اس کی شرح اموات میں زیادہ فرق نہیں ہے تو کیونکر اس کی دوا جلد تیار کی گئی اور کرونا کی دوا تیار کرنے میں یہ لوگ تساہلی سے کام لے رہے ہیں ۔
    BBC کی رپورٹ کے مطابق کرونا کی دوائی اٹھارہ مہینے تک آمادہ ہو جائے گی ۔ اگرچہ یہ دوائی پہلے ہی بنائی جا چکی ہے ادھر دوسری جانب ٹرمپ نے اعلان کیا ہے کہ مذکورہ وائرس جلد ہی معجزاتی طور پر ختم ہو جائے گا۔ اگرچہ یہ بات مسلم نہیں ہے کیا پتا کہ یہ ایک اور سازش ہو دنیا کو تحقیق سے روکنے کیلئے کہ جس طرح چین نے مکمل طور پر اس وبا کو کنٹرول کیا ہوا ہے اسی طرح دوسرے ممالک بھی اس وائرس کو روکنے میں کامیاب ہوگئے تو امریکی مفادات حاصل نہیں ہوں گے۔
بہرکیف خداوند تعالی امریکا کی اس عالمی دہشت گرد رجیم کو کیفر کردار تک پہنچائے اور پوری انسانیت کو خدا اپنی رحمت کی آغوش میں رکھ کر اس منحوس وائرس کو دنیا سے جلد نابود کرے اور پوری دنیا میں امن و سلامتی قائم کرے ۔ آمین

رابطہ نمبر
00989927941087
Email: javeeddilnavi@gmail.com

 

یہود ستیزی کا ڈرامہ یہودی ریاست کی تشکیل کے لیے بہانہ

  • ۴۰۲

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: صہیونی موومنٹ کا اصلی مقصد ایک ایسی حکومت کی تشکیل تھا کہ جس میں دنیا بھر میں بکھرے ہوئے یہودی یہودیوں کی نابودی سے فرار کرتے ہوئے وہاں پناہ لے سکیں لیکن اس کی حقیقت کچھ اور ہی ہے ، یہودیوں کا قتل عام اور یہود ستیزی تو ایک بہانہ تھا کہ یہودیوں کو اس کے ذریعہ ہجرت کرنے پر وادار کیا جا سکے اور اس کے ذریعہ صہیونی اہداف کو حاصل کیا جا سکے ۔
یہودیوں کی ایجنسی کے سربراہ ڈیوڈ بن گوریان نے امریکی و یہودی کے ایک مشترکہ اجتماع میں اس سلسلہ سے کہا تھا : صہیونیت کے اصولوں میں سے ایک تمام یہودیوں کو اسرائیل لانا تھا ، ہم مختلف گھرانوں سے اپیل کرتے ہیں کہ ہمار ی مدد کریں تاکہ ہم انکے بچوں کو اسرائیل لے جائیں البتہ یاد رہے کہ اگر وہ ایسا نہیں بھی کریں گے تو ہم زبردستی انہیں اسرائیل لے جائیں گے ،، ان جملوں کا مطلب یہ ہے کہ صہیونی اہداف کے امتداد میں یہودیوں کی اپنی رائے اور انکی اپنی نظر کی کوئی اہمیت نہیں ہے .حتی بیت المقدس میں عبری یونیورسٹی کے بانیوں میں ایک ڈاکٹر ماگنس اس سلسلہ سے لکھتے ہیں : ہمارا ہمیشہ سے یہ خیال رہا کہ صہیونزم کی تحریک دنیا میں یہودی ستیزی کے ختم ہونے کا سبب ہوگی لیکن آج ہم اس کا بالکل الٹا اثر دیکھ رہے ہیں ۔
صہیونیوں نے یہود ستیزی سے سب سے زیادہ ناجائز فائدہ ہٹلر کے سامنے آنے کے بعد اٹھایا ، ماریس ارنسٹ رفیوجی اور ملک بدری امور سے متعلق بین الاقوامی ادارہ روزولٹ کے نمائندہ اس بارے میں کہتے ہیں :
جب یہودیوں کے لئے میں جرمنی میں ایک امن و سکون کی جگہ تلاش کر رہا تھا اس وقت یہودی میرے اس کام کے خلاف تھے اور میرا مذاق اڑا رہے تھے حتی شدت کے ساتھ میرے اوپر حملہ آور تھے ۔
صہیونیت کا نفاق اس وقت واضح ہوتا ہے جب آڈلف ایشمن نازیوں کا ایک سربراہ فلسطین جاتاہے اور یہود ایجنسی کے سربراہوں جیسے بن گارین ، ٹڈی کوکل وغیرہ سے ملاقات کرتا ہے جسکے بموجب ان لوگوں نے نازیوں سے ٹرانسفر کے توافق کے تحت ایک قرارداد پر بھی دستخط کئیے تاکہ وہ یہودی جو فلسطین ہجرت کر کے جانا چاہتے ہیں وہ اپنے سرمایہ کو منتقل کر سکیں جبکہ یہ اس وقت کی بات ہے جب یہودیوں نے جرمنی پر پابندیاں عائد کی ہوئی تھیں ۔
جوبات مسلم ہے وہ یہ کہ فلسطین میں اسرائیلی حکومت کی تشکیل کی خاطر دنیا میں بہت سے یہودیوں کو صہیونزم کے جعلی یہود ستیزی کے ڈرامہ کا شکار ہونا پڑا ۔
Alison Weir
Against our better judgment: the hadden history of how the U.S was used to create Israel.

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

یہودی ریاست جعلی تشخص کی بازیابی کے درپے/ صہیونیوں کی جھوٹی طاقت کا راز

  • ۳۶۴

ہمارے بعض حکام سمجھتے ہیں کہ برطانیہ طاقت کا مرکز ہے، کیوں؟ اس لئے کہ انھوں نے جو انسانیات (Humanities) کا جو نظام مرتب کیا، اس کے ذریعے یہ اندازہ لگانے میں کامیاب ہوئے کہ لوگوں کے ذہنوں پر حکومت کی جاسکتی ہے اور بغیر اخراجات کے دوسروں کے ذہنوں پر حکومت کی جاسکتی ہے اور یوں وہ حکومت سے حاصلہ مفادات کو حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے۔ یہ روش انگریزوں نے سیکھ لی اور اچھی طرح سیکھ لی۔

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ کی رپورٹ کے مطابق، ڈاکٹر یعقوب توکلی اسرائیل کے صنفیاتی مطالعے اور پہچان کے شعبے میں وسیع تجربہ رکھتے ہیں؛ وہ حوزہ علمیہ کے فارغ التحصیل ہونے کے ساتھ ساتھ بین الاقوامی تعلقات کے شعبے میں پی ایچ ڈی کر چکے ہیں۔ وہ مجلہ زمانہ کے چیف ایڈیٹر، اسلامی فکر و ثقافت تحقیقاتی مرکز کے شعبے “تاریخ تمدن” گروپ کے ڈائریکٹر، مجلس شورائے اسلامی (پارلیمان) کے ارشاد و تبلیغ کے شعبے کے ڈائریکٹر اور دفاع مقدس کے دائرۃ المعارف کے منصوبے میں شہداء گروپ کے ڈائریکٹر کے عہدہ پر فائز رہے ہیں۔
کتاب “حقیقت سیمر” ان کی اہم ترین کاوشوں میں شمار ہوتی ہے جو حزب لبنان کے کمانڈر شہید سمیر قنطار کے حالات زندگی پر مشتمل ہے۔ شہید قنطار عشروں تک یہودی ریاست کے قیدخانوں میں اسیری کے زندگی گذار چکے تھے اور انھوں نے جناب توکلی کے ساتھ ایک تفصیلی مکالمے کے دوران اپنی یادیں ریکارڈ کرائیں تھیں جنہیں ڈاکٹر صاحب نے داستانی اسلوب میں مرتب کرکے کتاب کی صورت میں شائع کیا ہے۔ ذیل کا متن ڈاکٹر یعقوب توکلی کے ساتھ خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ کا انٹرویو ہے، جو قارئین و صارفین کی خدمت میں پیش کیا جارہا ہے:
– معاصر تاریخ میں یہودیوں کی عہد شکنیاں
بسم اللہ الرحمن الرحیم،
ایک حقیقت ـ جو انقلاب اسلامی اور تشیع کے عنوان سے اسلامی انقلاب کے بعد ظالمانہ یلغار کا نشانہ بنی ـ ہمارے ساتھ صہیونیت اور اسرائیل کی دشمنی کی حقیقت ہے جس کو توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ اس حقیقت کو کئی پہلؤوں سے دیکھنا چاہئے، ایک پہلو یہ ہے کہ صدر اول میں یہودیوں کی تاریخی دشمنی کا نشانہ مسلمان تھے اور یہ دشمنی بعد کے ادوار میں تشیع کے خلاف جاری رہی۔
یہ دشمنی کسی بھی دور میں تعطل کا شکار نہیں ہوئی، یعنی کبھی بھی صہیونیت اور یہود ہمارے دوست نہیں بنے، بلکہ اگر کسی دور میں ہمارے نا آگاہ دوستوں نے مسامحت کی سی کیفیت پیدا کی تو یہودیوں نے اس کیفیت سے اپنے حق میں فائدہ اٹھایا؛ یہاں تک کہ ایران میں پہلوی خاندان کی حکمرانی قائم ہوئی تو یہ خاندان آل سعود کو سواری دے رہا تھا اور مختلف اشکال میں ان کی مدد کررہا تھا؛ ایسی ناقابل انکار دستاویزات موجود ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ جعلی یہودی ریاست ہمارے اندرونی معاملات میں نہایت بےشرمی کے ساتھ مداخلت کرتی تھی۔
یہاں تک کہ یہودیوں کی مداخلت نے شاہ ایران کو بھی تھکا دیا تھا اور کبھی وہ بھی تنگ آ جاتا تھا اور ان مداخلتوں کو برداشت نہیں کرپا تھا تھا۔ کیونکہ ان کی مداخلت حتی شاہ کی حکومت کو بھی خطرے سے دوچار کر دیتی تھی۔ لیکن اس کے باوجود وہ شاہ کے قوم پرست اور کمیونسٹ مخالفین کے ساتھ رابطہ قائم کرتے تھے اور حکومت کی اندرونی تہوں تک پہنچنے کے درپے رہتے تھے۔ تاکہ ایران کے ایسے معاشی فیصلوں میں اپنی رائے مسلط کرسکیں جو شاہ کی خفیہ ایجنسی ساواک پر حاوی تھے۔
البتہ پہلوی حکومت اس مسئلے کی طرف توجہ رکھتی تھی لیکن ان کا تسلط پہلوی بادشاہ کی مرضی سے کہیں زیادہ تھا اور وہ ہر صورت میں مداخلت کرتے تھے۔ مثال کے طور پر مجھے ایران میں اسرائیل کے خفیہ اداروں کے نمائندہ “یعقوب نیمرودی” کی مداخلتیں یاد ہیں اور مجھے یاد ہے کہ وہ ایران میں مختلف سماجی اور سیاسی طبقوں سے رابطے برقرار کرچکا تھا۔
یہودی ریاست کے بھیجے ہوئے افراد کی تعداد ـ پہلوی حکومت کی مرضی کے بغیر ـ ایران میں بہت زیادہ تھی۔ اگر آپ تاریخ میں کہیں ایران اور یہودیوں کی دوستی کا تذکرہ دیکھتے ہیں تو دوستی نہیں تھی بلکہ ان ادوار میں یہودیوں نے ایرانیوں اور ایرانی حکومتوں سے فائدہ اٹھایا ہے اور دوستی کا مقصد بھی یہی رہا ہے۔ وہ قدیم تاریخ میں بھی اس موضوع کی طرف توجہ رکھتے ہیں، کوروش کی تعریف کرتے ہیں؛ کیونکہ انھوں نے کوروش کو بھی اپنے مفاد کے لئے استعمال کیا اور ان سے فائدہ اٹھایا۔ انھوں نے کوروش کو قائل کرلیا کہ جاکر سرزمین فلسطین میں ان کے لئے لڑیں اور فلسطین کو بخت النصر سے آزاد کرا کر یہودیوں کے حوالے کریں۔
لیکن دلچسپ امر یہ ہے کہ یہ واقعہ ایسے وقت رونما ہوا جب یہودی آکر بین النہرین اور بابل میں سکونت پذیر ہوچکے تھے، کیونکہ وہ یہاں سونے کی منڈی اور سودی کاروبار کو اپنے ہاتھ میں لئے ہوئے تھے؛ یہ وہ یہودی تھے جو فلسطین کی کوروش کے ہاتھوں آزادی کے بعد بھی بابل چھوڑنے پر تیار نہ ہوئے؛ چنانچہ آپ دیکھتے ہیں کہ بعد کے ادوار میں عراق اور بابل کے علاقے میں بہت سارے یہودی آباد تھے، عراقی یہودیوں کی تعداد بہت زیادہ تھی۔ بطور مثال پہلی عالمی جنگ میں صرف بغداد میں رہائش پذیر یہودیوں کی آباد دو لاکھ تک پہنچتی تھی۔
– کیا اب بھی عراق میں یہودی موجود ہیں؟
عراق میں ان کی سکونت بہت محدود ہوچکی ہے، یعنی جب اسرائیل نامی ریاست معرض وجود میں آئی، اس زمانے میں حکومت عراق کے خلاف دہشت گردانہ کاروائیاں شروع ہوئیں؛ دھماکے کئے جاتے تھے اور ان کی ذمہ داری یہودیوں پر ڈالی جاتی تھی تاکہ عراقی حکومت یہودیوں پر اپنا دباؤ بڑھا دیں اور نتیجے کے طور پر عراقی یہودی مقبوضہ فلسطین میں جاکر بسیں۔ چنانچہ نتیجہ یہ ہوا کہ عراق میں یہودیوں کی سکونت محدود ہوگئی۔ میری بات کا مقصد اعلی سطحی تعلقات ہیں، یکطرفہ تعلقات اور فریق مقابل کا یہودی مفادات کے لئے استعمال ہے، میری بات کا مقصد پڑوسی یہودی نہیں ہیں، یہ یہودی معاشرے کے لوگ ہیں، میرا مقصد صہیونی یہودی نہیں ہیں۔
یعنی سیاسی صہیونیت نے سیاسی شعبے میں ان لوگوں اور قوتوں کو استعمال کیا جن کے ساتھ ان کا بظاہر دوستانہ تعلق تھا۔ لیکن اس وقت سنجیدگی کے ساتھ ہم مسلمان اور شیعہ کے عنوان سے صہیونیت کی دشمنی کا ہدف ہیں؛ اسرائیل کے بارے میں تحقیق کرنے والے محققین کے ذہنوں میں اس تصور نے جنم لیا ہے، اور یہ مسئلہ آہستہ آہستہ ایک اعتقاد میں بدل چکا ہے کہ یہودی ایک جعلی طاقت کے مالک ہیں؛ ہاں وہ جعل و تحریف کرتے ہیں اور قرآن نے بھی اس کی طرف اشارہ کیا ہے اور فرمایا ہے کہ یہ جعل اور تحریف کرنے والے ہیں، یہ نہ صرف تاریخ میں تحریف کرتے ہیں بلکہ پوزیشن اور واقعات میں بھی تحریف کرتے ہیں۔
مثال کے طور پر اگر عسکری میدان میں ان کے پاس ایک میزائل ہے تو کہیں گے کہ “ہمارے پاس ۱۰۰۰ میزائل ہیں” تا کہ آپ ایک ہزار میزائلوں کا خواب دیکھیں اور پھر یقین کرلیں کہ آپ کے دشمن کے پاس ایک ہزار میزائل ہیں، اگر ان کے پاس تھوڑی سی طاقت ہو تو کہیں گے کہ یہ طاقت سو گنا زیادہ ہے؛ تو اس صورت میں انجام کار کیا ہوگا؟
ممکن ہے کہ کسی موضوع میں ان کا کوئی کردار نہ ہو لیکن یہ جتانے کی کوشش کریں گے کہ اس موضوع میں ان کا کردار تھا بلکہ دعوی کریں گے کہ وہی اس موضوع اور واقعے کا اصل کردار ہیں۔ نتیجہ یہ ہوگا کہ تصورات کی دنیا میں ایک عظیم طاقت کو اپنے سامنے پائیں گے اور تصور کریں گے کہ طاقت کا ایک عظیم سلسلہ آپ کے سامنے ہے، حالانکہ حقیقت میں وہ طاقت سرے سے موجود ہی نہیں ہے؛ یا پھر آپ صہیونیت کے عناصر کو کسی موضوع میں شریک دیکھتے ہیں جبکہ اس موضوع میں ان کا کوئی کردار نہیں تھا؛ ان مسائل کا نتیجہ کیا ہوگا؟
– حقائق اور واقعات میں تحریف کا فائدہ کیا ہے؟
اس کا فائدہ یہ ہے کہ آپ ایک حریف یا علیحدہ یا غیرجانبدار قوت کے طور پر جہاں بھی جاتے ہیں، اس طاقت کا سایہ اپنے پیچھے آتا ہوا دیکھتے ہیں؛ یہ وہی تجربہ ہے جو برطانیہ نے اپنی خارجہ پالیسی میں حاصل کیا اور اقوام عالم کے آگے طاقت کا ایک تصوراتی ہیولا کھڑا کرکے نہایت قلیل آبادی کے باوجود پوری دنیا پر حکومت کی۔ اس کی دوسری مثالیں بھی ہیں؛ اور یاددہانی کے لئے برطانیہ کی طرف اشارہ کرتا ہوں جو ہندوستان پر مسلط ہوا، وہاں کے کئی سو میلین ہندوستانیوں کو شکست دی اور ایران دنیا کے مختلف ممالک پر مسلط ہوا، لیکن ان ہی برطانویوں کو سوڈان میں شکست ہوئی؛ اس شکست کا سبب کیا تھا؟
سوڈان میں وہ ایسے وہ افراد اور اوزار تلاش نہیں کرسکے تھے جن کے ذریعے وہ وہم اور خوف کا وائرس عوام تک منتقل کرسکتے توہم کو اس ملک کے عوام میں منتقل کرسکتے تھے، چنانچہ سوڈانیوں نے تمام انگریزوں اور جنرل بورڈن کو ہلاک کرڈالا اور انگریز مدتوں تک سوڈان کی طرف جانے کی جرئت نہیں کرسکتے تھے۔ انیسویں صدی میں انگریزوں نے افغانستان کا رخ کیا؛ اور افغانستان میں بھی شکست سے دوچار ہوئے، نہایت ہولناک شکست کھانا پڑی۔
وہ مدتوں تک افغانستان جانے کی جرئت نہیں کرستے تھے؛ کیونکہ وہ افغانستان میں ایسے افراد کو تلاش نہیں کرسکے تھے جن کو وہ منوا سکیں کہ انگریز افغانیوں سے زیادہ طاقتور ہیں اور یہی خوف وہ عوام میں رائج کریں لیکن انھوں نے ایران میں یہی کام کیا؛ عسکر خان رومی سے لے کر میرزا ملکم خان اور حتی رضا خان نوری اور محمود محمود تک، جناب خان ملک ساسانی سے لے کر محمد علی خان فروغی اور دوسروں تک، اور ان جیسے بہت سے دوسرے یقین کرچکے ہیں کہ برطانیہ طاقتور ہے۔
ہمارے بعض حکام سمجھتے ہیں کہ برطانیہ طاقت کا مرکز ہے، کیوں؟ اس لئے کہ انھوں نے جو انسانیات (Humanities) کا جو نظام مرتب کیا، اس کے ذریعے یہ اندازہ لگانے میں کامیاب ہوئے کہ لوگوں کے ذہنوں پر حکومت کی جاسکتی ہے اور بغیر اخراجات کے دوسروں کے ذہنوں پر حکومت کی جاسکتی ہے اور یوں وہ حکومت سے حاصلہ مفادات کو حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے۔ یہ روش انگریزوں نے سیکھ لی اور اچھی طرح سیکھ لی۔
جو کچھ انھوں نے تاریخ کے تجربے سے سیکھا، اسے اگلوں کو منتقل کیا اور ان کے درمیان یہ تجربہ باقی رہا لیکن جس وقت آپ برطانیہ کے حقائق اور ان ظاہری واقعات کے پس پردہ دیکھتے ہیں تو دیکھتے ہیں کہ یہ برطانیہ کی حقیقت نہیں ہے، بلکہ برطانیہ تو اسرائیل کا ورثہ لیئے ہوئے ہے لیکن بعد میں ہم دیکھتے ہیں کہ برطانیہ ہی اسرائیل کو معرض وجود میں لاتا ہے، لہذا اسرائیل کے نزدیک خوف و ہراس پیدا کرنے کا تجربہ اسلحے، وسائل اور مختلف قسم کے اوزار دینے سے زیادہ اہم اور قابل قدر تھا؛ چنانچہ اسرائیل اپنی ابتداء ہی سے کوشاں رہا کہ اسرائیل کی برتری کے وہم کو منتقل کرے۔
بالفاظ دیگر طاقت کا وہم پیدا کرنے اور حقائق میں تحریف کے سلسلے میں انھوں نے اچھی خاصی مہارت کا مظاہرہ کیا، اسی بنا پر مختصر سی جنگیں ـ جو انھوں نے لڑیں ـ جنگ کا اچانک کا آغاز کرکے شوشہ چھوڑ دیتے تھے کہ “اسرائیل ناقابل شکست ہے”، حالانکہ اگر ۱۹۶۷ کی ۶ روزہ جنگ اگر ۱۶ دن تک پہنچتی تو اسرائیل کو شکست ہوتی؛ اگر جنگ کچھ ہی دن مزید جاری رہتی تو اسرائیلی شکست کھا جاتے، چنانچہ وہ عربوں کے ذہنوں پر مسلط ہوئے، اور چونکہ ان کے ذہنوں پر مسلط ہوئے تھے آسانی سے عربوں کو شکست دے سکے۔
مجھے یاد ہے کہ کسی زمانے میں سید محمد شیرازی نے ایک کتاب لکھی جس کا عنوان تھا “دنیا یہود کا بازیچہ”؛ جس میں وہ یہ کہنا چاہتے تھے کہ یہودی پوری دنیا پر مسلط ہیں، اور ہر جگہ موجود ہیں، یہودی ہر جگہ طاقتور ہیں، ذرائع ابلاغ ان کے ہاتھ میں ہیں، اور یہ سوچ ہمارے ہاں بھی یہودیت کے بارے میں تحقیق کرنے والے دانشوروں کے درمیان راسخ ہوئی۔
یہودیوں کے بارے میں جادو ٹونے کرنے والے گروہ بھی ہیں، افسانہ سازی کرتے ہیں، جھوٹ پھیلا دیتے ہیں، کیونکہ ان کے ہاں داستان پردازی رواج رکھتی ہے، سوال یہ ہے کہ لوگ دوسروں کی داستان پردازیوں سے کیوں نہیں ڈرتے؟ وہم و گمان کیوں پیدا نہیں ہوتا؟ اس لئے کہ ہم نے داستانوں کے اس وہم پردازی والے پہلو پر زور نہیں دیا۔ ہمارے ہاں کی ایک مشکل یہ ہے کہ یہود کے بارے میں تحقیق کرنے والے بعض محققین نے عجیب انداز سے اس طاقت ان کی اصل طاقت سے کہیں زیادہ دیکھا۔ میں نے اپنی کتاب “عقاب علیہ شیر (عقاب شیر کے خلاف)” میں بھی ایک مثال دی ہے اور کہا ہے کہ تسلط پسند استکباری نظام ایک اخطبوطی (octopuslike) نظام ہے۔ اخطبوط (یا اخبوط) کے آٹھ بازو ہیں اور اس کا حلیہ بہت ہولناک ہے لیکن جب جب وہ شکار کو آٹھ بازؤوں سے پکڑتا ہے لیکن کیا اس کی پوری طاقت یکجا ہوجاتی ہے؟