اسرائیل کے قیام کا تاریخچہ (۱)

  • ۴۰۱

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: سنہ ۱۸۹۸ع‍ میں آسٹریا میں یہودی صحافی و مصنف “تھیوڈور ہرٹزل” نے “یہودی ریاست” کے زیر عنوان ایک کتاب شائع کی۔ اس نے اس کتاب میں ایک یہودی ریاست کے قیام کے حق میں دلائل دیئے اور صہیونی تحریک کا خیرمقدم کرنے کے لئے مغربی رائے عامہ کو ایک فکری ماحول فراہم کیا۔ چونکہ یہودیوں کو جرمنی میں سب سے زیادہ سیاسی اثر و رسوخ حاصل اور سرگرمیوں کا ماحول فراہم تھا لہذا ہرٹزل نے ابتداء میں جرمنی کے توسط سے ـ یہودیوں کے فلسطین میں بسانے کے سلسلے میں ـ عثمانی سلطان کو اعتماد میں لینے کی کوشش کی لیکن بیرونی حملہ آوروں کے خلاف مسلمانوں کے اعلان جہاد سمیت متعدد اسباب و عوامل کی بنا پر ان کی یہ کوشش کامیاب نہیں ہوئی چنانچہ یہودیوں نے برطانیہ کے دامن میں پناہ لی۔
یہودی عمائدین نے برطانیہ کے نمائندے سائکس کے ساتھ مذاکرات میں، انہیں یقین دلایا کہ “لیگ آف نیشنز” میں فلسطین کے برطانیہ کے زیر سرپرستی یا پروٹیکٹوریٹ ہونے کی حمایت کریں گے اور فرانس یا کسی بھی دوسرے ملک کو اسے اپنے زیر سرپرستی لانے کی اجازت نہیں دیں گے۔ دوسری طرف سے انھوں نے سائکس کو تمام تر مراعاتیں دینے کا وعدہ کیا اور عہد کیا کہ وہ ریاست ہائے متحدہ امریکہ کو اتحادیوں کے حق میں اور جرمنی کے خلاف، مداخلت پر آمادہ کریں گے۔ ان اقدامات سے درحقیقت ۲ نومبر ۱۹۱۷ کے بالفور اعلامیئے کے لئے امکان فراہم کیا گیا۔ برطانیہ کے اس وقت کے وزیر خارجہ بالفور نے لارڈ لوچرڈ کے نام اپنے ایک خط میں ایک قومی یہودی وطن کی تشکیل کی خوشخبری دی۔ یہ خط اعلامیۂ بالفور کے عنوان سے مشہور ہوا۔ اعلامیئے میں کہا گیا تھا:
“فلسطین میں یہودی قومی وطن کی تشکیل کے بابت حکومت برطانیہ کے اشتیاقِ خاص کے پیش نظر، یہ حکومت اس ہدف کے حصول اور اس کے لئے وسائل کی فراہمی کے لئے کوشش کرے گی”۔
اعلامیۂ بالفور کی اشاعت کے بعد، برطانوی افواج نے ۹ دسمبر ۱۹۱۷ کو بیت المقدس پر قبضہ کیا اور خزان سنہ ۱۹۱۸ تک تمام عثمانی افواج کو فلسطین میں ہتھیار ڈالنے پر مجبور کیا اور پوری سرزمین فلسطین پر قبضہ کیا۔ ۱۹۱۹ میں فرانس، برطانیہ اور اٹلی کے مندوبین کی موجودگی میں “سان ریمو” کانفرنس کا انعقاد ہوا جس میں فلسطین کے حالات کا جامع جائزہ لینے کے بعد فیصلہ ہوا کہ مذکورہ ممالک فلسطین پر برطانیہ کی سرپرستی کی حمایت کرتے ہیں۔
مورخہ ۲۴ جولائی ۱۹۲۲ کو لیگ آف نیشنز کونسل میں فلسطین کے برطانیہ کے زیر سرپرستی ملک کے قانون کو باضابطہ طور پر منظور کرلیا گیا۔ برطانیہ کی حمایت کے تحت، عربوں کی مخالفت کے باوجود، یہودیوں کی فلسطین میں ہجرت کے سلسلے کی رفتار میں ـ جو کئی سال پیشتر شروع ہوچکا تھا ـ اضافہ ہوا۔ ادھر ہٹلر کی یہود مخالف پالیسیوں کی وجہ سے بھی فلسطین آنے والے یہودی مہاجرین کی تعداد میں مزید اضافہ ہوا۔ یہاں تک کہ ۱۹۴۶ میں فلسطین کی مجموعی آبادی انیس لاکھ بہتر ہزار پانچ سو پچاس تھی جن میں چھ لاکھ آٹھ ہزار یہودی پناہ گزین شامل تھے، جبکہ ۱۹۱۸ میں فلسطین میں یہودی مہاجرین کی تعداد ۵۶۰۰۰ سے زیادہ نہ تھی۔ فلسطین میں آ بسنے والے یہودی مہاجرین کی زیادہ تر تعداد کا تعلق مشرقی یورپی ممالک سے تھا۔
فلسطین میں یہودی آبادی میں اضافے اور علاقے میں ان کی سیاست قوت بڑھ جانے کی بنا پر عربوں نے برطانیہ پر دباؤ بڑھا دیا کہ وہ یہودیوں کی حمایت نہ کرے۔ اس اثناء میں یہودیوں نے فلسطین میں ایک خودمختار لشکر اور ایک خفیہ فوج بنام “ہاگانا” تیار کی تھی۔ اس خفیہ فوج کی ذمہ داری مخالفین پر قاتلانہ حملے کرنا اور عرب آبادی کے خلاف جنگ کرنا تھی۔
برطانیہ نے عرب آبادیوں کو خاموش کرنے اور ان کی بغاوت کا سدباب کرنے کی غرض سے ۱۹۳۹ میں “کتابِ سفید” شائع کرکے اعلان کیا کہ یہودیوں کو یہ اختیار حاصل ہے کہ فلسطین میں ایک قومی مرکز قائم کریں، لیکن انہیں خودمختار حکومت قائم کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ اس اعلامیے نے یہودیوں میں غیظ و غضب کی لہر دوڑا دی اور انھوں نے انگریزوں کی رائے کے برعکس، اپنے اقدامات کو عملی جامہ پہنانے کا فیصلہ کیا؛ تا ہم اسی زمانے میں دوسری عالمی جنگ کا آغاز ہوا اور فلسطین کا مسئلہ جنگ کی خبروں تلے دب کر رہ گیا۔

 

کیا جعلی اسرائیل کے عہدیدار قرآن میں مذکورہ بنی اسرائیل کے وارث ہیں؟

  • ۴۹۱

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: اقوام اور ملتوں اور معاشروں کو پہچاننا ہو تو سب سے پہلے ان کے ظہور کے تاریخچے کا گہرا مطالعہ کرنا ضروری ہوتا ہے۔
یہود کے تاریخی مآخذ نیز مغربی مآخذ نے بنی اسرائیل کی تاریخ کو دو حصوں میں تقسیم کیا ہے:
۱۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام؛
۲۔ حضرت یعقوب علیہ السلام جن کا دوسرا نام اسرائیل تھا؛ جن کا البتہ موجودہ اسرائیل سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
کیونکہ حضرت ابراہیم علیہ السلام حضرت نوح علیہ السلام کی ذریت سے ہیں اور آج کے انسانی معاشروں کے تمام افراد ان ہی افراد کی اولاد میں سے ہیں جو حضرت نوح علیہ السلام کے ساتھ کشتی پر سوار ہو کر طوفان کے مہلکے سے چھوٹ گئے تھے۔ یہ تاریخچہ اس مضمون میں اختصار کے ساتھ چند حصوں میں بیان کیا جاتا ہے:
قوم بنی‌اسرائیل:
الف۔ تاریخی مستندات کے مطابق، حضرت ابراہیم علیہ السلام عراق میں واقع اور’’کلدانیان‘‘ نامی شہر میں پیدا ہوئے۔ دجلہ اور فرات کے درمیان واقع “بابل” میں سکونت پذیر تھے، نمرود کے ساتھ مقابلہ کیا، بتوں کو توڑ دیا، آگ میں پھینکے گئے وغیرہ وغیرہ ۔۔۔ اور پھر اپنے خاندان اور قبیلے کے ہمراہ عراق ہی کے شہر “حران” ہجرت کرگئے۔ اس علاقے کو ـ جو آج عراق کہلاتا ہے ـ رافدین کہا جاتا تھا اور عبری قوم کے کچھ لوگ بھی اس شہر میں سکونت پذیر تھے۔ بعدازاں حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اللہ کے حکم سے فلسطین، حجاز اور مصر کی طرف ہجرت کی۔ (۱)
ب۔ مغربی اور یہودی مآخذ کے مطابق، حضرت ابراہیم علیہ السلام کے دو بیٹے تھے (۲): اسحاق اور یعقوب، اور یعقوب کا دوسرا نام اسرائیل تھا۔ وہ کنعان میں سکونت پذیر ہوئے، لیکن حضرت یوسف علیہ السلام کے واقعات، مصر میں ان کی وزارت عظمی، کنعان میں قحط سالی وغیرہ کے بعد وہ اپنی قوم کے ہمراہ مصر چلے گئے اور یہ قوم حضرت موسی علیہ السلام کے زمانے تک مصر میں رہی۔
۔ ان کی قوم کو فرعونیوں نے آزار و اذیت کا نشانہ بنایا گیا، اور وہ موسی علیہ السلام کی قیادت میں مصر سے نکل کے کنعان کی طرف روانہ ہوئے۔ جیسا کہ قرآن میں کریم میں بیان ہوا ہے: “انھوں نے کہا اے موسیٰ !ہم ہرگز وہاں داخل نہ ہوں گے، جب تک کہ وہ اس میں ہیں لہذا بس آپ جائیے اور آپ کا پروردگار اور دونوں لڑ لیجئے۔ ہم یہیں بیٹھے ہوئے ہیں۔ موسیٰ نے کہا پروردگار!میں قابو نہیں رکھتا مگر اپنے اوپر اور اپنے بھائی پر، لہذا تو ہی فیصلہ کردے ہمارے درمیان اور اس بد اعمال جماعت کے درمیان۔ ارشاد ہوا کہ پھر اب وہ ان پر چالیس برس کے لیے حرام ہے، وہ جنگل میں سرگردان پھرتے رہیں گے تو تمہیں ان بداعمال لوگوں پر افسوس نہ ہونا چاہئے”۔
یعنی یہ کہ موسی علیہ السلام نے اللہ کے حکم سے انہیں ہدایت کی کہ سرزمین فلسطین میں داخل ہوجاؤ، لیکن انھوں نے منع کیا جس کے نتیجے میں وہ ۴۰ سال تک صحرائے سینا میں دربدر کی ٹھوکریں کھاتے رہے اور بھٹکتے رہے اور ان کی کئی نسلیں وہیں ختم ہوئیں۔ اور نئی نسلیں ظہور پذیر ہوئیں۔
۔ حضرت موسی علیہ السلام کی رحلت کے بعد اور یوشع بن نون کی جانشینی کے دوران، کنعان تدریجی انداز سے فتح ہوا۔ (۳)– بعدازاں بادشاہی کا دور شروع ہوا، طالوت اور داؤود اور پھر سلیمان علیہم السلام اس دور کے طاقتور بادشاہ تھے۔ لیکن اسباط (یعنی فرزندان یعقوب میں سے ہر ایک سے معرض وجود میں آنے والے قبائل) کے درمیان اختلافات نے زور پکڑ لیا اور بادشاہی تقسیم ہوگئی۔ شمالی حصے میں اسرائیلی بادشاہت دس سبطوں پر حکمرانی کررہی تھی۔ اور بنیامین اور یہودا کی اولادوں نے جنوبی فلسطین میں چھوٹی سی بادشاہت تشکیل دی۔
۔ بُختُ النصر (نبوکدنصر) نے حملہ کرکے اسرائیلی بادشاہت پر قبضہ کیا اور ہیکل والی عبادتگاہ منہدم ہوئی اور قوم بنی اسرائیل کو بابل لےجایا گیا۔ سنہ ۵۳۸ قبل از مسیح میں ایران طاقتور ہوا تو کوروش نے بابل کو فتح کیا اور حکم دیا کہ یہودیوں کو اپنی سرزمین میں لوٹایا جائے اور ان پر مہربانیاں کیں اور ان کو اپنی حمایت کے تحت قرار دیا۔ انھوں نے یروشلم کی عبادتگاہ کی تعمیر نو کا اہتمام کیا، لیکن فلسطین پلٹنے کے بعد اسباط کے درمیان اختلاف حل نہیں ہوا اور وہ دوبارہ اپنی خودمختاری حاصل نہ کرسکے۔ یہ قوم ایران کے بعد بالترتیب یونانیوں، بطلیمیسیوں (Ptolemaic Dynasty)، سلوکیوں (Seleucid Empire) اور رومیوں کے زیر تسلط رہے۔ حتی کہ آخرکار سنہ ۷۰ عیسوی میں ـ جب یروشلم میں ہیکل ثانی بھی منہدم ہوا ـ بنی اسرائیلی حکومت انتشار اور شکست و ریخت سے دوچار ہوئی۔ سنہ ۳۹۵ع‍میں سلطنت روم تقسیم ہوئی تو فلسطین مشرقی روم یا بازنطین کا صوبہ ٹہرا جہاں عیسائیوں کی سکونت تھی۔
۔ یہ قوم حضرت عیسی علیہ السلام کی بعثت کے بعد شہر ناصرہ میں یہودی اور عیسائی ادیان میں تقسیم ہوئی اور پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ کی بعثت کے بعد ان کی اکثریت نے اسلام قبول کیا۔
نکتہ – لیکن، یہودی تواریخ کہتی ہیں کہ اسرائیل کا نام حضرت یعقوب کو اس لئے دیا گیا کہ وہ اللہ کے بھیجے ہوئے فرشتے کے ساتھ جنگ میں معجزانہ طور پر غالب آگئے تھے!:
” ان سے کہا: “تمہارا نام کیا ہے؟”، کہا: “یعقوب”۔ اس نے کہا کہ تمہارا نام بعدازیں یعؔقوب نہیں بلکہ تمہارا نام اِسرائیل ہوگا کیونکہ تُو نے خُدا اور انسان کے ساتھ زور آزمائی کی اور غالِب ہُوا”۔ (۵)

جاری

 

فرقہ بہائیت کی مختصر تاریخ (۳)

  • ۴۱۳

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: بہائیوں کے بانیوں کا تعارف
عباس افندی
عبد البہاء (عباس افندی) تہران میں پیدا ہوئے اور ۹ سال کی عمر سے ہی باپ کے ہمراہ جلاوطنی کا شکار رہے اس جلاوطنی کا ایک فائدہ انہیں یہ ہوا کہ وہ مختلف طرح کے تجربات حاصل کرنے کے علاوہ باپ اور چچا کے جھوٹ و فراڈ اور لوگوں کے ساتھ دھوکے بازیاں بھی اچھی طرح سے سیکھ گئے تھے۔ جبکہ انہوں نے اس دوران بڑے بڑے لوگوں سے اچھے تعلقات بھی بنا لیے تھے۔ عباس افندی اپنے باپ کی موقعیت کی وجہ سے اچھے اچھے اساتید سے بھی تعلیم حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے اور عصری تعلیم میں بھی اچھی ڈگریاں لے لیں۔
عبد البہاء سلطان عبد الحمید کی حکومت کی سرنگونی کے بعد یورپ اور امریکہ کے سفر پر نکلے اور اس سفر میں وہ مغربی تہذیب کے اس قدر شیدائی ہوئے کہ ہمیشہ اپنی تقریروں میں ان کے گن گاتے تھے۔
عباس افندی ۱۹۲۱ عیسوی میں ایک بیماری کی وجہ سے انتقال کر گئے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ان کے انتقال پر برطانیہ کے کئی بڑے بڑے عہدیداروں کی طرف سے تعزیتی پیغامات وصول ہوئے۔
انہوں نے اپنی موت سے پہلے اپنے نواسے شوقی افندی کو اپنا جانشین مقرر کیا تھا۔ البتہ بعض کا کہنا ہے کہ یہ کام اس کی ماں کی چالاکی سے انجام پایا ورنہ خود شوقی بہائیت سے زیادہ متاثر نہیں تھا۔
شوقی افندی ربانی
شوقی ربانی جن کا لقب ’’ولی امر اللہ‘‘ تھا ۱۸۹۷ میں پیدا ہوئے شوقی افندی ربانی در حقیقت عبد البہاء کے نواسے تھے۔ انہوں نے عکا میں ابتدائی تعلیم حاصل کی اور اس کے بعد بیروت یونیورسٹی میں داخلہ لیا۔ لیکن کچھ ہی عرصے بعد برطانیہ کی معروف یونیورسٹی آکسفورڈ میں شفٹ ہو گئے۔ لیکن عبد البہاء کی موت کی وجہ سے اپنے پڑھائی چھوڑنے پر مجبور ہو گئے اس وجہ سے انہیں اعلی تعلیم کی کوئی ڈگری حاصل نہ ہو سکی۔
عبد البہاء نے شوقی افندی کی نسل سے ۲۴ جانشین پیدا ہونے کی پیش گوئی کی تھی مگر شوقی بے اولاد ہونے کی وجہ سے اس سلسلے کو آگے نہیں بڑھا پائے اور عبد البہاء کی پیش گوئی غلط ثابت ہوئی اور ان کی نسل سے بہائیت کی باگ ڈور سنبھالنے والا کوئی جانشین پیدا نہیں ہوا۔
شوقی افندی کے دور صدارت کے چند اہم واقعات
•    شوقی افندی کے دور صدارت میں بہائیوں کے بھرپور تعاون سے صہیونی ریاست تشکیل پائی جس کے بعد شوقی افندی نے اسرائیل کے صدر سے ملاقات کی اور یہودیوں کے ساتھ اپنے تعلقات باقی رکھنے اور ملک کی ترقی میں ان کا تعاون کرنے کا وعدہ دیا۔
•    شوقی افندی کے دور میں بہائیوں نے دنیا بھر کے ملکوں کے دورے کیے اور جگہ جگہ بہائیوں کے مرکز قائم کر کے بہائیت کی تبلیغ کے مواقع فراہم کئے۔
•    اس کے دور میں بہائیت کے بعض بزرگ مبلغین جیسے ’عبد الحسین تفتی آوارہ‘، ’فضل اللہ صبحی مہتدی‘ اور ’مرزا حسن نیکو بروجردی‘ نے توبہ کر کے اسلام کے دامن میں واپس پناہ لی۔
شوقی افندی آخر کار ۱۹۵۷ میں اس سے قبل کہ ’بیت العدل‘ کی تعمیر کو پایہ تکمیل تک پہنچائیں لندن میں مشکوک طریقے سے انتقال کر گئے اور وہیں پر دفن کر دئے گئے۔ ۱۹۵۷ کے بعد بہائیت کی رہبریت اور تبلیغ کی ذمہ داری اسرائیل میں واقع بیت العدل کے سپرد کر دی گئی۔

منبع: در جستجوی حقیقت، روزبهانی بروجردی، علیرضا، مرکز مدریت حوزه علمیه قم، چاپ 1388، قم.

 

تحریر تمثال/ کورونا پے پھیلاؤ میں امریکہ کا مفاد

  • ۳۶۲

تحریر تمثال/ آخری جنگ شیعوں اور یہودیوں کے درمیان ہو گی

  • ۴۸۰

صہیونیت کے تئیں امریکہ اور مغرب کی حمایت کے وجوہات

  • ۳۹۲

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: صہیونی لابیاں امریکی اور بعض مغربی ممالک کی سیاسی پالیسیوں میں انتہائی اہم اور بنیادی اثر و نفوذ رکھتی ہیں۔ ان لابیوں نے مغربی ممالک میں صہیونی مفادات کے حق میں سیاسی پالیسیاں عمل میں لانے کی بے انتہا کوششیں کی ہیں۔ ایسے حالات میں کہ امریکی، برطانوی، فرانسیسی اور جرمن عوام لیبرالیزم سرمایہ دارانہ نظام کی چکی میں پس رہے ہیں صہیونی تنظیمیں ان کے معیشتی سرمایے کو بڑی آسانی کے ساتھ اسرائیل منتقل کرنے میں کوشاں ہیں۔
امریکہ
امریکہ میں صہیونی تنظیمیں بہت سرگرم اور فعال ہیں۔ AIPAC ( American Israel Public Affairs Committee) جیسی اہم تنظمیں ریاست ہائے متحدہ امریکہ میں طاقتور ترین صہیونی لابیوں میں شمار ہوتی ہیں۔ بعض عیسائیوں کی جانب سے جاری ان صہیونی تنظیموں کی حمایت در حقیقت صہیونی لابیوں کے امریکہ میں اس گہرے نفوذ کی وجہ سے ہے جو یہ چاہتی ہیں کہ یہودیوں اور عیسائیوں کو آپس میں جوڑ کر اسلام کے خلاف ایک پلیٹ فارم پر انہیں جمع کریں۔
’’ماؤنٹ ٹیمپل فاؤنڈیشن‘‘ امریکہ کے عیسائی صہیونیوں کی ایک اور بانفوذ ترین تنظیم ہے جس کا مرکز کیلیفورنیا کے شہر لاس اینجلس میں واقع ہے اور اس کا مقصد ’’قدس‘‘ میں ’’معبد‘‘ کی تعمیر ہے۔ اس تنظیم کا عقیدہ یہ ہے کہ یہودی معبد (ہیکل سلیمان) کی تعمیر ان آخری علامتوں میں سے ایک ہے جس کا مسیح کے ظہور سے پہلے تحقق پانا ضروری ہے۔ ان کا یہ ماننا ہے کہ ہیکل سلیمانی (Temple of Solomon) موجودہ مسجد الاقصیٰ کی جگہ پر تعمیر ہونا چاہیے۔ ان کے اس نقشے میں ’’قدس الاقداس‘‘ کا مقام بھی معین کیا گیا ہے۔
صہیونی عیسائیوں اور یہودیوں کے اس عقیدے کہ مسجد الاقصیٰ کی جگہ ہیکل سلیمانی کی تعمیر کی جائے کی جڑیں کیبالیسٹی تفکر Kabbalist ideas (یہودی تصوف) میں پائی جاتی ہیں۔ یہودی عیسائی تصوف سحر و جادو سے بھرا پڑا ہے۔ کیبالیسٹ کی اہم ترین کتاب ’’زوھر‘‘ ہے جس میں صرف غیب کی خبریں پائی جاتی ہیں۔ یہودی تصوف نے عیسائی معاشرے کو اپنی طرف کھینچنے کے لیے آخری زمانے کی غیبی خبریں بیان کی ہیں جس کا حاصل صہیونیزم کی حمایت کے علاوہ اور کچھ نہیں ہے۔
برطانیہ
برطانیہ عرصہ دراز سے یہودیت کا گہوارہ اور یہودیوں کے رشد و نمو کا مناسب پلیٹ فارم رہا ہے۔ برطانوی یہودی اس ملک کی صرف پانچ فیصد آبادی کو تشکیل دیتے ہیں۔ لیکن برطانوی سیاست میں ان کا گہرا اثر و رسوخ باآسانی اسرائیلی مفادات کو حاصل کر لیتا ہے۔ برطانوی یہودی اس ملک کے سیاسی، سماجی، اقتصادی اور ثقافتی میدانوں میں اس قدر سرگرم ہیں کہ یہ کہنا بالکل درست ہو گا کہ برطانوی معیشت کی شہ رگ یہودیوں کے ہاتھ میں ہے۔
برطانیہ کی جانب سے صہیونی غاصب ریاست کی حمایت در حقیقت یہودی سیاستمدار اور سرمایہ دار گھرانوں جیسے روتھسلیڈ فیملی (Rothschild family) کے اس ملک کے سیاسی معیشتی میدان میں گہرے اثر و رسوخ کی وجہ سے رہی ہے۔ ۱۹۲۹ سے ۱۹۴۹ تک کے عرصے میں برطانیہ کے ۳۱ سرمایہ دار تاجروں میں ۲۴ تاجر یہودی تھے۔ برطانوی معیشت میں اثر و رسوخ رکھنے والے یہودی گھرانوں میں سے درج ذیل گھرانوں کا نام لیا جا سکتا ہے: Rothschild family,montefiore, Goldschmidt family, Samuel family, Badington family, sassoon family.
تجزیہ نگاروں کی نظر میں برطانیہ اور اسرائیل ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں اور جب بھی اسرائیل کسی بحران کا شکار ہوتا ہے برطانوی وزیر اعظم اور اس ملک کے دیگر صہیونی سیاستدان اس غاصب ریاست کے تئیں اپنی وفاداری کا ثبوت دیتے ہیں اور اس کے دفاع میں دوسروں سے بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں۔ لیکن عصر حاضر میں ایران، لبنان اور شام کا باہمی مزاحمتی اتحاد، صہیونی ریاست کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دے گا اور برطانیہ، امریکہ اور فرانس کی حمایت صہیونی ریاست کو کوئی فائدہ نہیں پہنچا پائے گی۔
فرانس
فرانس منجملہ ان ممالک میں سے ایک ہے جن کی قابل توجہ آبادی یہودیوں پر مشتمل ہے بلکہ یورپ کے تمام ممالک کی نسبت فرانس میں سب سے زیادہ یہودی زندگی بسر کر رہے ہیں۔ اور فرانس کے اکثر یہودی صہیونیت کی طرف رجحان رکھتے ہیں۔ فرانس اور اسرائیل کے باہمی تعلقات دوسری جنگ عظیم کے بعد بہت قریبی رہے ہیں۔
۱۹۵۶ میں فرانس اور برطانیہ نے اسرائیل کی حمایت میں ’’سینا جزائر‘‘ پر حملہ کیا اور ’’نہر سوئز‘‘ کو اپنے قبضے میں لے لیا۔ فرانس نے اب تک بے شمار فوجی اسلحہ اسرائیل کو فروخت کیا ہے اور ۱۹۵۰ کے بعد ایٹمی ہتھیار بنانے میں اسرائیل کی بے انتہا مدد کی ہے۔ فرانس اور اسرائیل کی ایٹمی سرگرمیاں اس قدر وسیع تھیں کہ ڈیمونا ایٹمی نیوکلر پلانٹ ۱۵۰ فرانسیسی انجینئروں کی مدد سے اسرائیل میں تاسیس کیا گیا۔
جب نکولاس سرکوزی (Nicolas Sarkozy) نے فرانسیسی حکومت کی لگام اپنے ہاتھ میں لی تو اس ملک کے سیاسی حالات میں عظیم تبدیلی آئی۔ سرکوزی نے اسرائیل کے ساتھ اپنی خارجہ پالیسی کو اس قدر مضبوط بنا دیا کہ شیرون کے ساتھ ملاقات میں انہوں نے اسرائیل کو ڈیموکریسی کا بہترین نمونہ قرار دیا اور شیرون نے بھی فرانس کو اسرائیل کا بہترین دوست گردانا۔ سرکوزی نے صہیونی لابیوں کے مقابلے میں کہا: ’’میں پوری سچائی سے یہ وعدہ کرتا ہوں کہ ہر گز ان لوگوں سے ہاتھ نہیں ملاؤں گا جو اسرائیل کو تسلیم نہیں کرتے‘‘۔ غزہ کی ۲۲ روزہ جنگ اور لبنان کی ۳۳ روزہ جنگ میں سرکوزی نے اسرائیل کی بھرپور حمایت کی اگر چہ ان جنگوں میں اسرائیل کو شدید شکست کا سامنا ہوا۔
جرمنی
بہت سارے جرمن مفکرین اسرائیلی سیاستوں کے مخالف ہیں۔ ایک سروے کے مطابق جرمن شہری، اسرائیل کو عالمی صلح کی راہ میں سب سے بڑا خطرہ سمجھتے ہیں اور اس ملک کی ۵۳ فیصد آبادی جرمنی اور اسرائیل کے تعلقات کے مخالف ہے اور صرف چالیس فیصد ان تعلقات کو ضروری سمجھتے ہیں۔ جرمنی کے وزارت خارجہ کے عہدیداروں نے حالیہ ایام میں جرمنی میں پائی جانے والی اسرائیل مخالف فضا میں اضافہ کی خبر دی۔ لیکن یہ یہودی مخالفت جرمنی میں موجود مسلمان مہاجرین کے سر ڈال دی اور جرمنیوں کو سبکدوش کر دیا۔ اسلاموفوبیا اور ایرانوفوبیا صہیونیزم کی ایک اہم ترین اسٹراٹیجی ہے کہ جو وہ اپنی نشستوں میں ’’ دہشت گردی اور اسلامی بنیاد پرستی کے خلاف بین الاقوامی مہم‘‘ کے عنوان سے پیش کرتے ہیں۔
۱۹۵۳ سے اب تک جرمنی نے ۳۵ ارب ڈالر صہیونی ریاست کو عطیہ دیے ہیں۔ جرمنی کی موجودہ چانسلر ’’انجیلا میرکل‘‘ نے جرمنی اور اسرائیل کے باہمی تعلقات کو اعلیٰ ترین سطح تک پہنچا دیا ہے یہاں تک کہ انجیلا میرکل نے جنوری ۲۰۰۸ میں یہ اعلان کیا تھا کہ دونوں ملکوں کی حکومتیں اسرائیل کے قیام کی ۶۰ ویں سالگرہ کے موقع پر مشترکہ جشن منائیں گی۔ اس وقت بھی ہم دیکھ رہے ہیں کہ جرمنی کے صہیونی سربراہوں نے اسرائیل کی ۷۰ ویں سالگرہ کے جشن میں شرکت کر کے اپنے تعلقات کو مزید فروغ دیا۔
منابع:
۱- مسیحیت صهیونیسم و بنیادگرای آمریکا، رضا هلال
۲- لابی صهیونیسم در ایالات متحده آمریکا، محسن اسلامی
۳- یهود، صهیونیسم و اروپا، ضحی ربانی خوارسگانی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

قدس شریف کی یہودی سازی، صہیونیت کا اہم پروپیگنڈا

  • ۳۵۲

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: قدس شریف اور فلسطین پر قبضہ کیے ہوئے چھ دہائیوں سےزیادہ گذر چکی ہیں ۔عرب حکومتوں نے ابتدائی مقابلے اور اقدامات کے بعد اور غاصب اسرائیلی حکومت کے چھ روزہ جنگ میں عربوں کی شکست کے بعد کہ جس میں مصر شام اور لبنان کے کچھ علاقوں پر صہیونیوں کا قبضہ ہو گیا تھا ،بعض قدامت پرست اور سازشی عرب حکومتوں نے کچھ مواقع پر فلسطین کے مقاصد کے ساتھ بے وفائی شروع کر دی ۔ قدس شریف اور فلسطین کے مقاصد کے سلسلے میں قدامت پرست عرب سربراہوں کی بے توجہی کی وجہ سے فلسطینیوں کا دائرہ حیات تنگ ہو چکا تھا اور صہیونی بھی نئے نئے نقشوں اور منصوبوں کے تحت مسجد الاقصی کے جغرافیے کو تبدیل کرنے کے پراگندہ خواب دیکھ رہے تھے ۔قدس شریف کو یہودی بنانا قدس پر قبضے کو جاری رکھنے کے لیے ایک اہم ترین منصوبہ تھا ۔حقیقت میں مسجد الاقصی کی عمارت کے نیچے سے سرنگ بنانا اور فلسطین نشین علاقوں میں بے رویہ شہروں کی تعمیر وغیرہ کے پیچھے صہیونیوں کے دو بڑے مقاصد ہیں ایک فلسطینیوں کو نکالنا اور دوسرا اسلامی آثار کو مکمل طور پر مٹانا ہیں تا کہ یہ حکومت اس مقدس شہر کو کہ جو بنیادی طور پر فلسطینیوں اور مسلمانوں کا ہے اپنے قبضے میں رکھ سکیں ۔
واقعیت یہ ہے کہ صہیونیوں کی نظر میں قدس شریف ایک بہت اہم جغرافیائی حساسیت کا حامل ہے لہذا یہ دعوی کیا جا سکتا ہے کہ صہیونزم کے سربراہ اور پالیسی میکر اپنی جعلی حکومت کی بقاء اور اس کے دوام کو اس مقدس شہر سے منسلک کیے ہوئے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ گذشتہ دہائیوں کے دوران اور خاص کر گذشتہ دو دہائیوں میں صہیونی رہنماوں کی پوری کوشش ہے کہ قدس شریف کو یہودی شہر میں تبدیل کر دیا جائے کہ جس پر اس وقت اربوں ڈالر خرچ ہو رہے ہیں ۔ اصل میں شہر تعمیر کرنے اور مقبوضہ سر زمینوں کو یہودی سر زمینوں میں تبدیل کرنے کا خاص کر بیت المقدس کے اطراف کی سر زمینوں کو یہودی زمینوں میں تبدیل کرنے کا صہیونیوں کا مقصد قدس شریف کو مکمل طور نابود کرنا اور مقبوضہ زمینوں میں یہودی حکومت کی تشکیل دینا ہے ۔
صہیونیوں کے بوڑھے جنرل ایریل شیرون کو کہ جو عربوں اور فلسطینیوں کے خلاف اسرائیل کی تمام جنگوں میں محاذ پر سب سے آگے رہا ہے اور فلسطینیوں اور مسلمانوں کے قتل عام کے ساتھ اس کا نام ایک طرح سے جڑ گیا ہے شہر قدس اور غصبی سر زمینوں میں شہر بنانے کی سیاست کا معمار قرار دیا جا سکتا ہے واقعیت یہ ہے کہ مسکونی علاقے بنانا اور قدس کو یہودی بنانا اور اس کو اسرائیل کے ساتھ ملحق کرنا کہ جو بین الاقوامی قوانین کے خلاف ہے اور فلسطین کے سلسلے پاس کی گئی قراردادوں کی اس سے خلاف ورزی ہوتی ہے، مدتوں پہلے شروع ہو گیا تھا اور اس وقت تیزی کے ساتھ جاری ہے جیسا کہ بتایا جا چکا ہے کہ سب سے پہلے صہیونی اس مقدس مکان کو یہودیوں کی طرز پر تبدیل کرنا چاہتے ہیں ۔اس لیے کہ شہر قدس مقدس اور مسلمانوں کے لیے مذہبی اور اسلامی شان کا حامل ہونے کے ساتھ ،یہودیوں کے لیے بھی مختلف پہلووں سے اہمیت کا حامل ہے اس طرح کہ صہیونی رہبر اور خاص کر ان کے انتہا پسند گروہ اسرائیل کی عبری حکومت کی تاسیس اور بقا کو قدس کی اسلامی ماہیت اور شناخت کی نابودی اور قدس کی یہودی طرز پر ساخت کو قرار دیتے ہیں ۔
صہیونی پہلے تو اس شہر کو مذہبی اہمیت کے اعتبار سے دیکھتے ہیں ۔جس زمانے میں دیگر ملکوں جیسے یوگینڈا ، سیبری ، یا اتریش میں دنیا کے یہودیوں کے لیے اسرائیل کی غاصب حکومت کی تاسیس کی بات چلی تو اس کو رد کر دیا گیا اس لیے کہ یہودیوں کی عالمی تنظیم نے محسوس کیا کہ یہودیوں کو کسی ایک ملک میں جمع کرنے کا واحد راستہ صرف مذہبی مسئلہ ہے ۔اسی لیے انہوں نے فلسطین پر اصرار کیا ،نہ اس اعتبار سے کہ وہ فلسطین کی سر زمین کو دوست رکھتے ہیں بلکہ اس لیے کہ وہ قدس پر غلبہ حاصل کریں ،چونکہ قدس یہودیوں کے لیے ایک مذہبی محرک ہے ۔اگر چہ صہیونی تحریک کے رہنما اور خود تحریک بے دین اور لا مذہب تھی ،لیکن انہوں نے یہ محسوس کیا کہ یہودیوں کے یکجا کرنے کا واحد راستہ قدس ہے اسی بنا پر انہوں نے طے کیا کہ یہودی حکومت اس ملک میں ایجاد کی جائے ۔یہ ایسی حالت میں تھا کہ برطانیہ کے حیاتی منافع بھی اس مذہبی رجحان کے ساتھ وابستہ تھے ،اس بنا پر مذہبی اور حیاتی منافع کا یکجا ہونا باعث بنا کہ فلسطین صہیونیوں کی نسل پرستی کے منصوبے کا شکار بن جائے ۔
اس بنا پر صہیونیوں کے لیے قدس کی اہمیت کو صہیونی حکومت کے پہلے وزیر اعظم بن گورین کے اس مشہور جملے سے جانا جا سکتا ہے کہ اسرائیل کا قدس کے بغیر اور قدس کا ھیکل سلیمانی کے بغیر کوئی وجود نہیں ہے اور یہ تینوں ایک دوسرے کے بغیر بے معنی ہیں ۔ اس بنا پر آپ دیکھتے ہیں کہ قدس کس قدر یہودیوں کے لیے اہمیت کا حامل ہے اور صہیونی بھی اس کی یہودی طرز پر تعمیر کے لیے کس قدر ہاتھ پیر مار رہے ہیں ۔ اور اس کے بارے میں امریکہ میں بھی پروپیگنڈا ہوتا ہے کہ قدس کو اس کے اطراف کی زمینیں غصب کر کے یہودی طرز پر تعمیر کیا جائے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

قدس شریف اور اس کی سیاسی و جغرافیائی موقعیت

  • ۵۹۱

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: قدس شریف وحی کی حامل اور اسلامی نگاہ میں مسجد الاقصی کی وجہ سےغیر معمولی قدر و قیمت کا حامل ہے۔ قدس شریف کی اہمیت اس وجہ سے ہے کہ یہ مقدس سر زمین انبیاء کی جائے سکونت اور ان کی بعثت کی جگہ ،مسلمانوں کا پہلا قبلہ اور پیغمبر اعظم (ص) کے آسمانی معراج کی جانب جانے کی جگہ ہے ۔جیسا کہ بیت المقدس یہودیوں اور عیسائیوں کے لیے بھی دینی اور مذہبی لحاظ سے خاص اہمیت رکھتا ہے ۔
قدس شریف ایک مقدس شہر ہے کہ عمر بن عاص بن وائل نے صدر اسلام میں اس کو فتح کیا تھا اور صلاح الدین ایوبی نے ۱۱۸۷ میں اس کو صلیبیوں کے چنگل سے آزاد کروایا تھا سلیمان قانونی نے سولہویں صدی میں اس کی دیواریں تعمیر کی تھیں ۔یہ شہر مسلمانوں کے نزدیک خاص اہمیت کا حامل ہے ۔ قبۃ الصخرۃ اور مسجد الاقصی دو مقدس مقامات ہیں جو اس شہر میں ہیں اور جیسا کہ بیان ہوا یہ پہلا قبلہ اور دنیائے اسلام کا تیسرا حرم شریف اور پیغمبر اکرم ص کے معراج کی جانب عروج پانے کی جگہ ہے ۔
۱۹۶۷ میں جب سے قدس شریف پر صہیونیوں نے قبضہ کیا ہے اس کو اسرائیل کا دائمی پایتخت اعلان کر دیا گیا ہے۔ تمام نظریں قدس پر جمی ہوئی ہیں اور مسلمانوں اور عیسائیوں کے دل اس پر ٹکے ہوئے ہیں۔ اسی وجہ سے یہودی اس کوشش میں ہیں کہ اپنے لیے ایک تاریخ بنائیں اور انہوں نے اپنی پوری کوشش اس کو یہودی بنانے پر متمرکز کر رکھی ہے اور ان کا دعوی ہے کہ دیوار ندبہ ان کی ہے ،قدس کو اس کے مقام اور مرتبے کے پیش نظر دنیا کو بہت اہم اور حساس شہر قرار دیا جانا چاہیے، اس طرح کہ اس وقت وہ اسرائیل کی غاصب حکومت اور مسلمانوں اور خاص کر قدس کے رہنے والوں کے درمیان تنازعے کی بنیاد بن چکا ہے۔ اس شہر کی اصلی اہمیت اس اعتبار سے ہے کہ یہ تین آسمانی ادیان، اسلام، عیسائیت اور یہودیت کا مرکز ہے ۔ یہ وہ مشترکہ نقطہ ہے جو اسلامی مقولے کو بیان اور مجسم کرتا ہے اور جو دوسرے ادیان اور مذاہب سے مختلف ہے ۔ خداوند عالم نے مسجد الاقصی کو اس شہر میں قرار دیا ہے اور اس کو مبارک قرار دیا ہے اور اس شہر کا انتخاب کیا ہے کہ یہ تین آسمانی ادیان کے اتصال کا مرکز بن جائے۔ لیکن اس کو یہودی بنانا اور اس میں یہودیوں کے رہائشی شہر تعمیر کرنا اور اسلامی اور وحی کے آثار کو مٹانے کی سیاست اس حکومت کی وسعت طلبی اور نسل پرستی کی سیاستوں کے ساتھ کہ جن پر اس وقت عمل ہو رہا ہے وہ بالکل اس شہر کی ماہیت اور اس مقدس شہر کے واقعی مفہوم کے ساتھ متضاد اور متعارض ہے ۔

 

صہیونی ریاست کا وجود ناجائز ہے ہم اس کا زوال چاہتے ہیں: یہودی ربی

  • ۳۸۸

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ؛ یہودی ربی یسرائیل ڈیوڈ ویس(Yisroel Dovid Weiss)  جو عالمی صہیونیت کے خلاف کام کرنے والی بین الاقوامی یہودی تنطیم نیٹوری کارٹا (International Neturei Karta) کے فعال رکن ہیں کے ساتھ خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ نے ایک مختصر گفتگو کی جو قارئین کے لیے پیش کی جاتی ہے:
خیبر: صہیونیوں کا اسرائیل کے دار الحکومت کو بیت المقدس منتقل کرنا کس قدر اہمیت کا حامل ہے؟
۔ میں نیٹوری کارٹا تحریک کا ایک دینی رکن ہوں۔ میں یہودیوں کا ربی ہوں۔ میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ اسرائیل ہماری سرگرمیوں میں کوئی مداخلت نہیں رکھتا۔ اور ہم پوری آزادی سے صہیونیزم کے خلاف سرگرمیاں انجام دے رہے ہیں۔ میں یہ کہوں گا کہ صہیونیوں نے بنیادی طور پر ہی یہ غلطی کی ہے کہ انہوں نے اپنے لیے ایک الگ ملک بنایا اور اس کا نام اسرائیل رکھا۔
حتیٰ کہ انہوں نے ہمارے داؤؤد کے ستارے کو بھی ہم سے چھین لیا اور اسے اپنے لیے مخصوص کر لیا اور انہوں نے کوشش کی کہ ہماری آواز کو دبائیں۔ البتہ ان علاقوں میں ہمارے بھی کچھ افراد ہیں جو ان کا مقابلہ کر رہے ہیں۔ ہم حضرت موسی کے دین کے پیروکار ہیں لیکن وہ صہیونیسٹ ہیں۔ یہاں تک کہ میں نے اسرائیل کے وزیر اعظم نیتن یاہو سے بھی کہا کہ یہ چیز ہمارے نزدیک قابل قبول نہیں ہے کہ آپ ملک بنائیں اور یہاں تک کہ ہم اپنی دستاویزات اقوام متحدہ میں بھی لے گئے اور ہم کوشش کر رہے ہیں کہ اسرائیل کے ناجائز وجود کو دنیا والوں کے لئے ثابت کریں۔
خیبر: اسرائیل کی طرف سے فلسطینی عوام پر جاری ظلم و تشدد کے بارے میں آپ کیا کہتے ہیں؟
۔ ہم فلسطینی مظلوم عوام کے ساتھ اظہار ہمدردی کرتے ہیں اور دنیا کو یہ پیغام دینا چاہتے ہیں کہ پوری دنیا کے یہودی جو مذہب یہود اور توریت پر ایمان رکھتے ہیں، وہ اسرائیلی ریاست کے وجود کے سخت خلاف ہیں۔ صیہونی ریاست کا وجود توریت کی تعلیمات کے یکسر منافی اور خدا کے ساتھ بغاوت کے مترادف ہے۔
ظلم تو یہ ہے کہ صیہونی اس سرزمین پر قابض ہوئے جو دراصل مسلمانوں، عیسائیوں اور یہودیوں کی آبائی سرزمین ہے اور وہ اس قبضے کے شدید مخالف ہیں۔ میرے پاس ایک تاریخی خط ہے، جو ۱۹۴۷ء میں فلسطین کے چیف ربی نے اقوام متحدہ کو لکھا اور مطالبہ کیا کہ پوری دنیا کی آرتھوڈاکس یہودی کمیونٹی جو ساٹھ ہزار نفوس پر مشتمل ہے صیہونی ریاست کے قیام کے سخت خلاف ہے اور یروشلم کو یہودی ریاست میں شامل کرنے کی شدید مخالفت کرتی ہے۔ ہمارا مطالبہ ہے کہ یروشلم کو بین الاقوامی زون قرار دیا جائے، تاکہ وہاں کے باسی آزادی سے اپنے زندگی بسر کر سکیں۔ لیکن جب فلسطین کے چیف ربی نے دیکھا کہ ان کے مطالبے کو رد کر دیا گیا ہے تو اس دن سے یہودی مذہبی پیشواؤں نے صیہونیت کے خلاف احتجاج شروع کیا جو تاحال جاری ہے اور اسرائیل کے زوال تک جاری رہے گا۔

 

صہیونیت کے خلاف جد و جہد کرنے والا علماء/ شہید محمد مفتح

  • ۴۵۴

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: شہید مفتح جن کی شہادت کے دن کو حوزات علمیہ اور یونیورسٹیوں کے درمیان اتحاد کا دن قرار دیا گیا ہے کا شمار ان مجاہد اور انقلابی علماء میں سے ہوتا ہے جنہوں نے امام خمینی (رہ) کی پیروی میں زندگی بھر جبر و استکبار اور ظلم و ستم کے خلاف جنگ کی۔ اور آخر کار دشمنوں اور منافقوں نے ان کی مجاہدت اور ظلم مخالف جد و جہد کو اپنے مفادات کے لیے خطرہ سمجھتے ہوئے انہیں شہید کر دیا۔
امام خمینی (رہ) کے دیگر ساتھیوں اور شاگردوں کی طرح شہید مفتح کے نزدیک بھی عالم اسلام کے مسائل خصوصا مسئلہ فلسطین انتہائی اہمیت کا حامل تھا۔ رضا شاہ کے دور میں حکومت مخالف اور انقلابی سرگرمیوں کی بنا پر آپ کو جیل میں بند کر دیا گیا تھا اور طرح طرح کی سزائیں دی گئیں تھی لیکن جب جیل سے رہا ہوئے تو نہ صرف اپنے مقصد سے پیچھے نہ ہٹے بلکہ اپنی جد و جہد میں مزید اضافہ کر دیا۔ لبنان کے وہ شیعہ جو اسرائیل کے حملے کی وجہ سے اپنا سب کچھ کھو چکے تھے اور بھاری نقصان سے دوچار ہوئے تھے ان کے لیے آپ نے امداد جمع کرنا شروع کر دی۔ اور امداد جمع کر کے خود لبنان کا سفر کیا اور اپنے ہاتھوں سے ستم دیدہ افراد کو امداد پہنچائی۔ ۱
اسی طرح فلسطین کے عوام کے لیے ان کا دل بہت جلتا تھا اور ہمیشہ ان مظلوموں کو ظلم و ستم کی چکی سے نکالنے کے لیے کوشش کرتے اور صہیونی مظالم کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرتے تھے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ ۱۹۷۹ میں یوم القدس کے موقع پر جو پہلی قرارداد لکھی گئی وہ شہید مفتح نے لکھی تھی۔ آپ نے اس قرارداد میں جن اہم نکات کی طرف اشارہ کیا وہ درج ذیل ہیں:
۔ ہم ملت فلسطین کے اہداف کی حمایت کا اعلان کرتے ہیں جو قدس کی آزادی کی راہ میں پیش قدم ہیں اور انقلاب اسلامی کی کامیابی کے تجربہ سے یہ امید ظاہر کرتے ہیں کہ اسرائیل کے خلاف جنگ اگر اسلامی طرز کے مطابق ہو گی تو کامیابی سے دوچار ہو گی۔
۔ ہم فلسطینی مفادات کے خلاف ہر طرح کی قرارداد منجملہ ’کارٹر، سادات اور بیگن‘ نامی قراردادوں کی سخت الفاظ میں مذمت کرتے ہیں۔ ۲
حواشی
۱۔ http://fa.wikishia.net/view/شهید محمد مفتح.
۲۔ http://www.irdc.ir/fa/news/4194.