فرقہ بہائیت کی مختصر تاریخ (۳)

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: بہائیوں کے بانیوں کا تعارف
عباس افندی
عبد البہاء (عباس افندی) تہران میں پیدا ہوئے اور ۹ سال کی عمر سے ہی باپ کے ہمراہ جلاوطنی کا شکار رہے اس جلاوطنی کا ایک فائدہ انہیں یہ ہوا کہ وہ مختلف طرح کے تجربات حاصل کرنے کے علاوہ باپ اور چچا کے جھوٹ و فراڈ اور لوگوں کے ساتھ دھوکے بازیاں بھی اچھی طرح سے سیکھ گئے تھے۔ جبکہ انہوں نے اس دوران بڑے بڑے لوگوں سے اچھے تعلقات بھی بنا لیے تھے۔ عباس افندی اپنے باپ کی موقعیت کی وجہ سے اچھے اچھے اساتید سے بھی تعلیم حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے اور عصری تعلیم میں بھی اچھی ڈگریاں لے لیں۔
عبد البہاء سلطان عبد الحمید کی حکومت کی سرنگونی کے بعد یورپ اور امریکہ کے سفر پر نکلے اور اس سفر میں وہ مغربی تہذیب کے اس قدر شیدائی ہوئے کہ ہمیشہ اپنی تقریروں میں ان کے گن گاتے تھے۔
عباس افندی ۱۹۲۱ عیسوی میں ایک بیماری کی وجہ سے انتقال کر گئے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ان کے انتقال پر برطانیہ کے کئی بڑے بڑے عہدیداروں کی طرف سے تعزیتی پیغامات وصول ہوئے۔
انہوں نے اپنی موت سے پہلے اپنے نواسے شوقی افندی کو اپنا جانشین مقرر کیا تھا۔ البتہ بعض کا کہنا ہے کہ یہ کام اس کی ماں کی چالاکی سے انجام پایا ورنہ خود شوقی بہائیت سے زیادہ متاثر نہیں تھا۔
شوقی افندی ربانی
شوقی ربانی جن کا لقب ’’ولی امر اللہ‘‘ تھا ۱۸۹۷ میں پیدا ہوئے شوقی افندی ربانی در حقیقت عبد البہاء کے نواسے تھے۔ انہوں نے عکا میں ابتدائی تعلیم حاصل کی اور اس کے بعد بیروت یونیورسٹی میں داخلہ لیا۔ لیکن کچھ ہی عرصے بعد برطانیہ کی معروف یونیورسٹی آکسفورڈ میں شفٹ ہو گئے۔ لیکن عبد البہاء کی موت کی وجہ سے اپنے پڑھائی چھوڑنے پر مجبور ہو گئے اس وجہ سے انہیں اعلی تعلیم کی کوئی ڈگری حاصل نہ ہو سکی۔
عبد البہاء نے شوقی افندی کی نسل سے ۲۴ جانشین پیدا ہونے کی پیش گوئی کی تھی مگر شوقی بے اولاد ہونے کی وجہ سے اس سلسلے کو آگے نہیں بڑھا پائے اور عبد البہاء کی پیش گوئی غلط ثابت ہوئی اور ان کی نسل سے بہائیت کی باگ ڈور سنبھالنے والا کوئی جانشین پیدا نہیں ہوا۔
شوقی افندی کے دور صدارت کے چند اہم واقعات
•    شوقی افندی کے دور صدارت میں بہائیوں کے بھرپور تعاون سے صہیونی ریاست تشکیل پائی جس کے بعد شوقی افندی نے اسرائیل کے صدر سے ملاقات کی اور یہودیوں کے ساتھ اپنے تعلقات باقی رکھنے اور ملک کی ترقی میں ان کا تعاون کرنے کا وعدہ دیا۔
•    شوقی افندی کے دور میں بہائیوں نے دنیا بھر کے ملکوں کے دورے کیے اور جگہ جگہ بہائیوں کے مرکز قائم کر کے بہائیت کی تبلیغ کے مواقع فراہم کئے۔
•    اس کے دور میں بہائیت کے بعض بزرگ مبلغین جیسے ’عبد الحسین تفتی آوارہ‘، ’فضل اللہ صبحی مہتدی‘ اور ’مرزا حسن نیکو بروجردی‘ نے توبہ کر کے اسلام کے دامن میں واپس پناہ لی۔
شوقی افندی آخر کار ۱۹۵۷ میں اس سے قبل کہ ’بیت العدل‘ کی تعمیر کو پایہ تکمیل تک پہنچائیں لندن میں مشکوک طریقے سے انتقال کر گئے اور وہیں پر دفن کر دئے گئے۔ ۱۹۵۷ کے بعد بہائیت کی رہبریت اور تبلیغ کی ذمہ داری اسرائیل میں واقع بیت العدل کے سپرد کر دی گئی۔

منبع: در جستجوی حقیقت، روزبهانی بروجردی، علیرضا، مرکز مدریت حوزه علمیه قم، چاپ 1388، قم.

 

آراء: (۰) کوئی رائے ابھی درج نہیں ہوئی
ارسال نظر آزاد است، اما اگر قبلا در بیان ثبت نام کرده اید می توانید ابتدا وارد شوید.
شما میتوانید از این تگهای html استفاده کنید:
<b> یا <strong>، <em> یا <i>، <u>، <strike> یا <s>، <sup>، <sub>، <blockquote>، <code>، <pre>، <hr>، <br>، <p>، <a href="" title="">، <span style="">، <div align="">
تجدید کد امنیتی