منہ میں رام رام بغل میں چھوری

  • ۵۰۷

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: عبرانی زبان کی ویب سائٹ ’وللا‘ نے اپنی ایک تحریر میں لکھا ہے کہ عرب ممالک کی طرف سے مذمتی پالیسی کو ان ممالک کی سرکاری پالیسی نہ سمجھا جائے کیونکہ ان ممالک کی جانب سے صہیونی ریاست کے ساتھ اندر خانہ تعاون جاری ہے۔
ویب سائٹ نے مزید کہا ہے کہ سعودی عرب کی طرف سے یہ بیان جاری کیا گیا کہ فلسطینیوں کے آئینی حقوق کا تحفظ کیا جائے جب کہ سعودی عرب کے ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان امریکا میں یہودی تنظیموں کے رہ نماؤں سے ملاقاتیں کرتے رہے اور انہیں یہ یقین دلاتے رہے کہ فلسطین میں یہودیوں کو اپنا قومی وطن قائم کرنے کا حق ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ عرب ممالک اور اسرائیل کےدرمیان تعلقات میں کوئی رکاوٹ نہیں۔ اسرائیل اور عرب ممالک کا دشمن ایک ہی ہے۔ ان کا اشارہ ایران کی جانب تھا۔
خفیہ ملاقاتوں کی لیک ہونے والی تفصیلات میں بتایا گیا ہے کہ سعودی ولی عہد نے یہودی رہنماؤں سے ملاقات میں فلسطینی اتھارٹی کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا اور کہا کہ فلسطینیوں کو صدر ٹرمپ کی امن تجاویز تسلیم کرنا ہوں گی۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ امریکا سے ابو دیس کو فلسطینی ریاست کا دارالحکومت قرار دینے کا فارمولہ بھی شہزادہ محمد بن سلمان ہی فلسطینی قیادت تک پہنچائے۔
بن سلمان نے شام میں اسرائیلی فوج کی کارروائیوں پر بحرینی وزیرخارجہ کے بیان کا بھی حوالہ دیا جس میں ان کا کہنا تھا کہ اسرائیل کو اپنے دفاع کا حق حاصل ہے۔
عبرانی ویب سائٹ کے مطابق متحدہ عرب امارات نے غزہ میں اسرائیلی فوج کے تشدد کی مذمت کی مگر دوسری طرف یہی امارات اسرائیلی تاجروں کا اپنے ملک میں استقبال کررہا ہے۔
مصر اور اسرائیل دونوں جزیرہ نما سینا میں داعش کو اپنا مشترکہ دشمن اور ہدف سمجھتے ہیں۔ اسی طرح غزہ کی پٹی کا محاصرہ جاری رکھنے میں بھی عرب ممالک کی اسرائیل کو اشیرباد حاصل ہے کیونکہ غزہ کا انتظام حماس کے پاس ہے اور عرب ممالک حماس پر ایران نواز تنظیم ہونے کا الزام عائد کرتے ہیں۔
خیال رہے کہ فلسطینیوں کا وحشیانہ قتل عام ہو یا ارض فلسطین میں اسرائیل کے توسیع پسندانہ اقدامات ہوں عرب ممالک کی طرف سے ان پر بظاہر مخالفت کا تاثر دیاجاتا ہے۔ فلسطینیوں پرمظالم کی بظاہر مذمت بھی کی جاتی ہے مگر اندر ہی اندر سے عرب ممالک صہیونی ریاست کے معاون اور مدد گار ثابت ہوئے ہیں۔
..........

 

 

صہیونیت اور منجی عالم بشریت

  • ۴۲۳

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: اگر چہ اسلامی مصادر میں ظہور کے وقت یہودیوں کے حالات کے بارے میں کچھ زیادہ معلومات نہیں پائی جاتیں، لیکن قرآن کریم میں یہودیوں کی جو صفات بیان ہوئی ہیں خاص طور پر ان کی نسل پرستی،(۱) ان کا برگزیدہ قوم ہونا،(۲) اور پیغمبروں کا انکار کرنا، اور پھر مسلمانوں کی نسبت ان کی شدید دشمنی، ان چیزوں سے معلوم ہوتا ہے کہ جیسا کہ عصر غیبت میں وہ امام زمانہ کے دشمن ہیں آپ کے ظہور کے بعد بھی وہ اپنی دشمنی جاری رکھیں گے اور آپ کے ساتھ جنگ کے لیے آمادہ ہو جائیں گے۔
اس دشمنی کی ایک وجہ یہ ہے کہ قوم یہود تلمودی تعلیمات کی بنا پر خود ایک مسیحا یا عبرانی زبان میں ’ماشیح‘ کے منتظر ہیں جسے وہ موعود یا منجی کا نام دیتے ہیں اور اس بات کے قائل ہیں کہ مسیحا اس وقت ظہور کریں گے جب قوم یہود تمام مقدس سرزمین پر تسلط پیدا کر لے گی۔ چنانچہ کتاب مقدس میں آیا ہے ’’ ہم تمہاری (ابراہیم) اولاد کو نیل سے فرات تک کی زمین عطا کرتے ہیں‘‘۔ (۳)
اس بنا پر وہ قائل ہیں کہ یہودی ہی صرف حضرت ابراہیم کی اولاد ہیں چونکہ وہ جناب اسحاق اور ان کی اولاد کو ہی برحق سمجھتے ہیں اور اس بنا پر کتاب مقدس کی اس آیت کے مطابق صرف یہودی ہی نیل سے فرات تک کی زمین کے حقدار ہیں اور جب تک وہ اس سرزمین پر اپنا قبضہ نہیں جما لیتے مسیحا ظہور نہیں کر سکتے۔
حضرت موسی علیہ السلام اپنی قوم کو سرزمین مقدس میں داخل ہونے اور جہاد کرنے کا حکم دیتے ہیں۔ لیکن بنی اسرائیل ان کے حکم کی نافرمانی کرتے ہیں جس کی وجہ سے۴۰ سال تک بیابانوں میں سرگرداں ہو جاتے ہیں۔ اور آخر کار جناب طالوت اور جناب داؤود کے زمانے میں یہ وعدہ تحقق پاتا ہے اور جناب سلیمان کے دور میں دوبارہ اقتدار یہودیوں کے ہاتھ میں آتا ہے۔ (۴)

یہودیوں کے ساتھ صہیونی عیسائی بھی ہم صدا
لہذا توریت میں جو اللہ نے یہودیوں کے ساتھ وعدہ کیا وہ حضرت سلیمان کے دور میں پورا ہو گیا اور وہ سرزمین مقدس پر قابض ہوئے۔ لیکن جو چیز یہاں پر قابل توجہ ہے وہ یہ ہے کہ اس مسئلے میں صہیونی عیسائی بھی یہودیوں کے ساتھ ہم صدا اور ہم نوا ہو چکے ہیں۔ جبکہ عیسائی یہ جانتے ہیں کہ جب حضرت عیسیٰ مسیحا بن کر قوم یہود کے لیے آئے تھے اس قوم نے انکی نبوت کا انکار کیا اور آخر کار انہیں قتل کرنے کا منصوبہ بنایا بلکہ اپنی طرف سے انہیں قتل کر دیا لیکن اللہ نے انہیں بچا کر آسمان پر اٹھا لیا۔
عصر حاضر میں امریکہ اور برطانیہ رہنے والے اکثر عیسائی بنی اسرائیل اور یہودیوں کے ساتھ ہم نوا ہو کر مسیح کے پلٹنے کا انتظار کر رہے ہیں۔ لیکن عیسائیوں میں ایک پروٹیسٹنٹ نامی فرقہ ہے جو آخر الزمان کے موضوع کو لے کر بہت ہی حساس ہے اور انتہاپسند یہودیوں کے ساتھ مل کر مسیح کے ظہور کے لیے مقدمات فراہم کرنے میں بے انتہا سرمایہ لگا رہا ہے۔
یہ فرقہ قائل ہے کہ بنی اسرائیل کے لیے ایک مسیحا ظہور کرے گا مگر اس سے قبل فلسطین میں ایک خطرناک ایٹمی جنگ ہو گی جس کے حوالے سے انہوں نے تاہم دسیوں فلمیں بھی بنائی ہیں۔
انہوں نے ان فلموں کے اندر یہ یقین دہانی کروانے کی کوشش کی ہے کہ دنیا میں لوگ دو طرح کے ہیں ایک شرپسند اور دوسرے خیر پسند۔ خیر پسند صہیونی ہیں چاہے وہ یہودی ہوں یا عیسائی، جبکہ شرپسند مسلمان، عرب یا اسرائیل کے مخالف لوگ ہیں۔ اور اس جنگ میں شرپسند تمام طاقتیں ختم ہو جائیں گی اور ہزاروں سال حکومت صہیونیوں کے ہاتھوں میں چلی جائے گی۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ ان کے بقول اسی خطرناک جنگ کے دوران مسیح ظہور کریں گے جو عیسائیوں کی حمایت کریں گے۔ اسی وجہ سے ۲۰ ویں صدی عیسوی کے ابتدا سے ہی بنیاد پرست عیسائیوں اور انتہا پسند یہودیوں نے سیاست میں قدم رکھا اور اسرائیل کو جنم دیا اور اب اپنا حیرت انگیز سرمایہ لگا کر صہیونی ریاست کی حفاظت میں کوشاں ہیں اور منتظر ہیں اس وقت کے جب فلسطین میں خیر و شر کی غیر معمولی جنگ ہو گی اور اس میں مسیح ظہور کر کے انہیں نجات دیں گے اور پھر ہزاروں سال دنیا پر صہیونی حکومت ہو گی۔
حواشی
1 – بقره: ۱۱۱ و ۱۱۳ و ۱۲۰ ، ۱۳۵
2- بقره: ۸۷
3- الکنیسة ، ۱۹۸0م؛ سفر التکوین الأصحاح الخامس عشر، ۲0 ص ۲۳.
4- مائده: 26-21
    
ماخذ: فصلنامه مشرق موعود، مواجهه امام زمان علیه السلام با قوم یهود در عصر ظهور، سعید بخشی، سید مسعود پورسید آقایی، تابستان 1396، سال یازدهم، شماره 42، ص86-39.
 

 

ہیکل سلیمانی کی تعمیر کے ساتھ ہی حضرت عیسی(ع) کا ظہور ممکن

  • ۵۷۴

گزشتہ سے پیوستہ
آج کے یہود کا خیال ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام اور ان کے ساتھی آخرالزمان میں فلسطین کے شمالی علاقے “ارمگدون” میں ظہور کریں گے اور یہاں ایک بڑی جنگ ہوگی۔ آج یہودی تفکر کے بانی حضرت عیسی علیہ السلام کے ظہور کو ان چار مرحلوں سے مشروط کرتے ہیں۔
ایران، امریکہ، ارجنٹائن، روس، یورپ اور دوسرے ممالک کی طرف سے یہودیوں کی ہجرت کے بعد، سنہ ۱۹۴۸ع‍ میں سرزمین فلسطین میں یہودی ریاست کا قیام عمل میں آیا اور ۱۹۶۷ع‍ میں یہودی ریاست نے بیت المقدس پر قبضہ کیا۔ ایوانجیلی یا صہیونی عیسائی (۵) بھی سمجھتے ہیں کہ عیسی علیہ السلام اپنے نئے ظہور کے بعد اسی شہر سے دنیا پر حکومت کریں گے۔
اسی بنا پر وہ امریکی حکومت کو آج تک مسلسل دباؤ کا نشانہ بناتے رہے ہیں کہ اس شہر کو اسرائیل کے قطعی اور ابدی دارالحکومت کے طور پر تسلیم کرے۔ امریکی سینٹ نے اپریل ۱۹۹۰ع‍‌ میں صہیونی عیسائیوں کے اس مطالبے کو منظور کرلیا۔
 
یہودیوں کا خیال ہے کہ ہیکل سلیمانی بالکل اسی مقام پر بنا ہوا تھا جہاں مسجد الاقصی تعمیر ہوئی ہے اور دسیوں مرتبہ مسجد الاقصی کی دیواروں کے نیچے آثار قدیمہ کی تلاش کے بہانے اسے نقصان پہنچاتے رہے ہیں۔ امریکی سفارتخانہ تل ابیب سے بیت المقدس منتقلی یہودیوں کی تزویری حکمت عملی کا تیسرا مرحلہ ہے، جس کو عملی جامہ پہنا کر وہ نجات دہندہ کے ظہور اور ارمگدون میں آخری جنگ کی تیاری کے قریب پہنچنا چاہتے ہیں۔
یہ امام زمانہ(عج) کے ظہور کا مقابلہ کرنے کا یہودی منصوبہ ہے جس پر مرحلہ بہ مرحلہ اور قدم بہ قدم عمل ہورہا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ جات:
۱۔ قران کریم
۲۔ تاریخ انبیاء، سید ہاشم رسولی محلاتی
۳۔ دانشنامہ صہیونیسم و اسرائیل، مجید صفاتاج
۴۔ نگین آفرینش، جلد اول، مرکز تخصصی مہدویت حوزہ علمیه قم/ بنیاد فرہنگی مہدی موعود
۵۔ انجیلی عیسائی (Evangelicalism)، انجیلی مسیحیت، انجیلی پروٹسٹنٹزم، صہیونی عیسائیت یا ایوانجیلی عیسائیت۔
 

 

عقیدہ مہدویت کا مقابلہ اور یہودی ریاست کی حکمت عملی

  • ۴۰۰

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: قرآن کریم یہود کو مؤمنوں کا شدید ترین دشمن قرار دیتا ہے۔ (۱) چنانچہ مؤمنین اور عقیدہ مہدویت کے مقابلے میں اس شدید ترین دشمن کے نظریات اور حکمت عملیوں کا جائزہ لینا بہت اہمیت رکھتا ہے۔ بنی اسرائیل حضرت یعقوب علیہ السلام کی نسل سے تھے جو سنہ ۱۷ قبل از مسیح سے کنعان میں ہجرت کرکے آگئے اور وہاں سے مصر میں داخل ہوئے۔ اس قوم کو قبطیوں اور فرعون کے شدید ترین مظالم کا سامنا کرنا پڑا یہاں تک کہ خداوند متعال نے ان میں سے حضرت موسی علیہ السلام کو پیغمبر کے طور پر مبعوث فرمایا، جن کا مشن یہ تھا کہ اپنی قوم کو فرعون کے مظالم سے نجات دلائیں۔
فرعون نے بنی اسرائیل کی منتقلی کی مخالفت کی تو حضرت موسی(ع) اپنی قوم کے ساتھ دریا / سمندر پار کرگئے اور فیصلہ کیا کہ سرزمین موعود (بیت المقدس) چلے جائیں۔ بنی اسرائیل حضرت موسی علیہ السلام کے معجزے سے دریا پارکرنے میں کامیاب ہوئے اور فرعون اور اس کے سپاہی ڈوب کر ہلاک ہوئے۔
راستے میں بنی اسرائیل کی سرکشیاں اور نافرمانیاں اللہ کے وعدوں میں تاخیر کا سبب بنے۔ (۲) اور بنی اسرائیل صحرائے سینا میں ۴۰ سال تک دربدری اور سرگردانی کے بعد موسی(ع) کے وصی یوشع بن نون(ع) کی قیادت میں سرزمین مقدس کی طرف روانہ ہوئے۔
حضرت یوشع بن نون علیہ السلام اپنی سپاہ کو لے کر شہر “اریحا” پر قابض ہوئے اور بنی اسرائیل اس شہر میں سکونت پذیر ہوئے۔ یوشع(ع) عمالقہ کے خلاف لڑے اور شام اور فلسطین کی سرزمینوں کو بنی اسرائیل میں تقسیم کیا۔ ان کی وفات کے بعد، بنی اسرائیل کے درمیان کے اختلاف زور پکڑ گئے اور دشمنوں نے بنی اسرائیل کے شہروں پر حملے کئے اور ان کا قتل عام کیا۔ بنی اسرائیل نے خداوند متعال سے التجا کی کہ دشمنوں کے خلاف جدوجہد اور بنی اسرائیل کی عظمت رفتہ بحال کرانے کے لئے انہیں ایک رہبر و قائد متعین فرمائے۔ (۳)
خداوند متعال نے بنی اسرائیل کی دعا قبول فرمائی اور حضرت طالوت علیہ السلام کو ان کے دشمنوں کے خلاف لڑنے پر مامور فرمایا۔ طالوت اور جالوت کے درمیان ہونے والی جنگ میں داؤد نامی نوجوان نے جالوت کو ہلاک کر ڈالا اور خداوند متعال نے انہیں نبوت اور فرمانروائی عطا کی۔ (۴)
حضرت داؤد علیہ السلام نے بنی اسرائیل کو متحد کیا۔ تاریخ یہود میں حضرت داؤد(ع) اور ان کے فرزند حضرت سلیمان نبی علیہ السلام کی حکمرانی کا دور، سنہری دور کہلاتا ہے۔ حضرت سلیمان(ع) نے جنوں کی مدد سے بیت المقدس میں ایک عظیم عبادتگاہ تعمیر کی۔
حضرت سلیمان(ع) کی وفات کے بعد، اختلافات نے ایک بار پھر بنی اسرائیل کی راہ دیکھ لی اور ان کی قوت زائل ہو گئی اور آخر کار، سنہ ۵۸۶ قبل از مسیح میں بُختُ النَصر ـ جو ان دنوں بغداد اور مدائن کا حکمران تھا ـ بیت المقدس پر حملہ آور ہوا اور شہر کو خاک کے ڈھیر میں تبدیل کیا اور سلیمان(ع) کی عبادتگاہ کو منہدم کیا۔
یہود کی تزویری حکمت عملی کا تاریخی پہلو چار مراحل کی پیروی کرتا ہے۔ حضرت موسی علیہ السلام سے آج تک کے ۳۰۰۰ سال سے زائد عرصے میں یہودی اسی پروگرام کے مطابق مصروف عمل رہے ہیں۔

پہلا مرحلہ:
پہلا مرحلہ مختلف سرزمینوں سے سرزمین مقدس کی طرف ہجرتوں کا مرحلہ ہے۔ یہ مسئلہ حضرت موسی(ع) کے زمانے میں دریا پار کرنے کی صورت میں انجام کو پہنچا۔
دوسرا مرحلہ:
یہ مرحلہ حضرت یوشع(ع) کی قیادت میں اریحا کی فتح اور فلسطین میں قیام حکومت پر مشتمل تھا۔
تیسرا مرحلہ:
یہ مرحلہ بیت المقدس کی تسخیر کا مرحلہ تھا؛ حضرت سلیمان(ع) کی سلطنت کے دور میں بیت المقدس پر یہودیوں نے قبضہ کیا۔ بعد میں بُختُ النَصر نے حملہ کرکے یہودیوں کو منتشر کردیا۔
جس وقت مسلمانوں نے بیت المقدس کو آزاد کرایا تو یہودیوں نے عیسائیوں کو اکسایا اور مسلمانوں اور عیسائیوں کو ۸ صلیبی جنگوں میں الجھایا تا کہ آخرکار ایک بار پھر بیت المقدس کو مسخّر کریں۔
چوتھا مرحلہ:
یہود کی تزویری حکمت عملی کا چوتھا مرحلہ سلیمان کی عبادتگاہ یا ہیکل سلیمانی کی تعمیر نو ہے جسے بُختُ النَصر نے منہدم کردیا تھا۔

 

جاری

فلسطین کی حمایت میں اردوگان کا منافقانہ کردار

  • ۴۱۵

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: مسلم امہ کا وفادار سمجھا جانے والا ترکی وہ پہلا مسلمان اکثریتی ملک تھا جس نے ۱۹۴۹ میں اسرائیل کو باقاعدہ تسلیم کیا یعنی فلسطینیوں کے گھروں اور سرزمین پر صہیونیوں کے قبضے کو رسمی طور پر تسلیم کیا اور اس دردناک حقیقت پر راضی ہوا کہ فلسطینی اپنے ہی وطن میں پناہ گزین اور تیسرے درجے سے بھی کم تر کے شہری بنا دئے گئے ہیں۔
ترکی اور اسرائیل کے درمیان فوجی، اسٹریٹیجک اور سفارتی تعلقات قائم ہیں۔ اسرائیل میں ترکی کا سفارت خانہ ہے اور ترکی میں اسرائیل کا سفارت خانہ موجود ہے۔
امریکی اخبار نیو یارک ٹائمز کی ایک رپورٹ کے مطابق ترکی اور اسرائیل کے تعلقات میں یہ صلاحیت موجود ہے کہ وہ مشرقِ وسطیٰ کی سیاست کو بدل دیں۔
اردگان نے ۲۰۰۵ میں باقاعدہ اسرائیل کا دورہ کیا لیکن بعد میں کچھ عرصے بعد ایسا تاثر دیا گیا کہ ترکی اسرائیل کے خلاف ہے اور فلسطین کا حامی ہے۔
اگر ترکی اتنا ہی فلسطین کا حامی ہے تو اسرائیل سے سفارتی تعلقات کیوں رکھے ہوئے ہیں؟ یہ نری منافقت ہے جسے مسلم امہ کو سمجھنے کی ضرورت ہے اور منافقت کا مقصد مسلم امہ کو ایک جعلی لیڈرشپ فراہم کرنا ہے جو اصل اور حقیقی اسلامی قیادت سے منحرف کر دے۔ اس وقت نظامِ ولایت کے سائے میں ایران، حزب اللہ اور دیگر ولائی قوتیں اسلام اور فلسطین کی اصل ناصر و حامی ہیں جو نہ صرف یہ کہ اسرائیل کو تسلیم نہیں کرتیں بلکہ ہر ممکن طریقے سے فلسطین کی مدد کرتی ہیں۔ اس مدد میں صرف راشن پہنچانا نہیں کہ پہلے اسرائیل کو کھل کر بمباری کرنے دو اور اس کے بعد امت کو دھوکہ دینے کیلئے دو آنسو بہاو اور آٹے کے تھیلے فلسطین بھیج کر سرخ رو ہو جاؤ۔ تم اس وقت کہاں ہوتے ہو جب فلسطین میں آتش و آہن برس رہا ہوتا؟ اگر فلسطین کا دفاع نہیں کر سکتے تو کم از کم اسرائیل سے سفارتی تعلقات تو ختم کر سکتے ہو؟ اسے تسلیم کرنے سے انکار تو کر سکتے ہو!
اس وقت صرف ایران اور حزب اللہ وہ قوتیں ہیں جو فلسطین کو مالی، فوجی اور اخلاقی مدد فراہم کر رہی ہیں جس کا اعتراف خود حماس اور اسلامی جہاد نے کیا ہے۔
پوری عرب دنیا کے حکمران اپنی عوام کی امنگوں کے برعکس اسرائیلی مظالم پر خاموش تماشائی ہیں اور اس طرح اسرائیل کی بھرپور مدد کر رہے ہیں۔ امام خمینی نے مسئلہ فلسطین کو زندہ کیا جسے عرب دنیا نے گوشۂ گمنامی میں ڈال دیا تھا حالانکہ امام خمینی نہ عربی تھے اور نہ ہی سنی مسلمان کیوں کہ غزہ کے مسلمان عربی اور اہل سنت ہیں۔ امام خمینی ایک حقیقی مسلمان تھے جنہوں نے عرب و عجم اور شیعہ و سنی کی تقسیم سے بالاتر ہو کر اپنے اسلامی اور اخلاقی فریضے کو پہچانا اور مسلم امہ کو بھی بیدار کیا۔ فلسطین کی حمایت دراصل تمام دنیا کی مظلومین کی حمایت ہے کیوں کہ فلسطین مظلومیت کی علامت بن چکاہے اور اسرائیل تمام فتنوں کی جڑ ہے۔ فتنے کی شاخیں کاٹںے سے کچھ نہیں ہوگا جب تک اس کی جڑ کو نہ کاٹا جائے۔
ترکی کی منافقت سے ہوشیار رہیں اور موسیٰ کو چھوڑ کر سامری کے بنائے ہوئے گوسالوں کے پیچھے نہ چلیں!
………………

 

صہیونیت عالم بشریت کے لیے ناسور

  • ۴۳۸

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: دوسری جنگ عظیم کے بعد، جب یہودی پوری دنیا سے اپنے افراد کو جمع کر کے ایک ملک کی تشکیل کی کوشش میں تھے تو بہت سارے عراقی یہودی اس مقصد کو پورا کرنے کی طرف ذرہ برابر بھی مائل نہیں تھے۔ جس کی اصلی وجہ، عراق میں عربوں اور یہودیوں کی عرصہ دراز سے آپس میں ملی جلی زندگی تھی۔
صہیونیوں نے یہ طے کیا کہ عراق کے یہودیوں پر دھشتگردانہ حملے کروا کر عراقی مسلمانوں کی نسبت ان میں نفرت کا بیج بوئیں اور انہیں اسرائیل کی طرف بھاگنے کے لیے تیار کریں۔ سی آئی اے کے سابق رائٹر ویلبر کرین اولنڈ (wilbur crane eveland) یوں لکھتے ہیں: صہیونیوں نے عراق میں یہودیوں کے مذہبی مراکز اور امریکہ سے متعلق اداروں جیسے امریکی انفارمیشن سروس لائبریری میں بم بلاسٹ کروائے تاکہ اس طریقے سے عراقیوں کی امریکہ کی نسبت مخالفت ثابت کریں اور یہودیوں کے اندر خوف و دھشت پھیلائیں‘‘۔
اولنڈ مزید اس بارے میں لکھتے ہیں: عراق میں بہت تیزی سے ایسے اطلاعیے منتشر ہوئے کہ جن کے ذریعے یہودیوں کو اسرائیل کی طرف بھاگنے کی ترغیب دلائی جانے لگی۔ دنیا کے اکثر لوگوں نے عربوں کے دھشتگرد ہونے اور عراقی یہودیوں کے اسرائیل بھاگے جانے کے حوالے سے شائع کی جانے والی رپورٹوں پر یقین کر لیا‘‘۔
اسی طرح عراقی یہودی نعیم گیلادی جو خود ان واقعات میں تشدد کا شکار بنے لکھتے ہیں: اسلامی سرزمینوں میں سکونت پذیر یہودی اپنی مرضی اور چاہت سے فلسطین کی طرف ہجرت کر کے نہیں گئے بلکہ صہیونی یہودی اس مقصد سے کہ دوسرے ممالک میں رہنے والے یہودی اپنے ملکوں کو چھوڑ کر فلسطین بھاگ جائیں انہیں قتل کرتے تھے‘‘۔
یہاں پر یہ کہنا بےجا نہ ہو گا کہ صہیونیت تمام عالم بشریت کے لیے ایک خطرناک وائرس اور ناسور ہے جو کبھی بھی انسانوں کی نابودی کا باعث بن سکتی ہے۔ چونکہ صہیونی فکر کے مالک افراد اپنے مقاصد تک پہنچنے کے لیے کسی بھی جرم کا ارتکاب کرنے سے گریز نہیں کرتے یہاں تک کہ اپنی قوم اور اپنے ہم مذہب افراد کو بھی اپنے مفاد کی بھینٹ چڑھا دیتے ہیں۔
ماخذ:
رائٹر: Alison Weir
کتاب کا نام: Against our better judgment: the hadden history of how the U.S was used to create Israel.

 

اسرائیل کی معیشت گھراوٹ کا شکار

  • ۵۰۴

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: اسرائیل کی معیشت، بازار اور ٹیکنالوجی پر چلتی ہے۔ اسرائیل خام تیل، دالیں، خام مواد اور جنگی اسلحہ درآمد کرتا اور ہیرے، ہائی ٹیکنالوجی کا سامان اور زرعی مصنوعات کو برآمد کرتا ہے۔
۲۰۰۸ وہ سال ہے جس سال اسرائیل کی برآمدات اور سالانہ پیداوار میں قابل توجہ ترقی ہوئی، البتہ یورپی یونین جو اسرائیل کی سب سے بڑی تجارتی حصہ دار ہے وہ اس سلسلے میں غیر مؤثر نہیں تھی۔ اس معیشتی ترقی کی وجہ سے اسرائیل نے اپنی فوج کو قوی کر لیا اور بہت سارے مہاجرین کو اپنی طرف جذب کیا، لیکن آج ایک طرف سے طولانی اور طاقت فرسا جنگوں اور دوسری طرف سے حکومت کی بے لیاقتی، سماجی مشکلات اور نسل پرستی جیسے گہرے مسائل اس ریاست کی معیشتی صورت حال کو روز بروز کمزور کر رہے ہیں۔
challenge کی ماہنامہ اقتصادی رپورٹ کے مطابق، گزشتہ سالوں میں اس ریاست کی اقتصادی پوزیشن بڑھ رہی تھی اس طریقے سے کہ ۱۹۸۲ میں ۰٫۲۲۲ سے ۲۰۰۵ میں ۰٫۳۹۲ تک پہنچ گئی لیکن ۲۰۰۶ میں لبنان کے ساتھ ہوئی صیہونی ریاست کی ۲۲ روزہ جنگ میں اسے جہاں جنگی اعتبار سے شکست کا سامنا ہوا وہاں اسے اقتصادی طور پر بھی شدید دھچکا لگا اور اسرائیل کی اقتصادی صورتحال ترقی کے بجائے تنزلی کی طرف گامزن ہو گئی۔

 

دہلی کے حالیہ فسادات اور محکمہ انصاف کا خون

  • ۴۶۸

بقلم سید نجیب الحسن زیدی
خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: دہلی کے حالیہ فسادات کی نوعیت بتا رہی ہے کہ یہ ایک سوچہ سمجھا منصوبہ تھا ان فسادات کے ذریعہ ایک واضح  پیغام یہ دینے کی کوشش کی گئی ہے کہ اگر ہماری ہاں میں ہاں نہیں ملائی گئی اور اپنے اختیار کا استعمال ہمارے خلاف کیا تو تمہاری زندگی کو کیڑوں مکوڑوں کی زندگی میں بدل دیں گے ، ہم حق حیات بھی چھین سکتے ہیں اور اگر یہ حق دیں گے بھی تو زندگی کے حقوق کو سلب کر کے اور تمہیں اسی طرح جینا ہوگا  کہ اپنے کسی حق کے لئے کھڑے ہونے کے بارے  میں نہ سوچ سکو اور ہرگز یہ نہ سمجھنا کہ تمہیں انصاف مل سکے گا اس لئے کہ اگر کوئی انصاف کرنے  کے لئے آگے بڑھے گا تو ہم اقتدار میں  ہیں اس سے اسکا منصب چھین کر اسے شہر بدر بھی کر سکتے ہیں۔
 غرض منصف بھی تبھی تک منصف ہوگا جب تک ہم چاہیں گے اور جب تک وہ ہماری منشاء کے مطابق بولے تبھی تک عدالت میں اسکی بات معتبر ہوگی لیکن ہماری منشاء کے خلاف اگر کچھ کہا اور ضمیر کی آواز سن کر فیصلہ کیا تو ہمارا فیصلہ اسکے خلاف ہوگا جسکا نتیجہ یہ ہوگا کہ عدالت میں اسکی دسترس کو ہی ختم کر دیا جائے گا  ایسی جگہ بھیج دیا جائے گا جہاں کی دنیا ہی الگ ہو معاملات ہی الگ ہوں ۔
یقینا دہلی کے فسادات دل دہلانے والے ایسے مناظر پیش کر رہے ہیں جنہیں دیکھ کر انسان بے چین ہو جاتا ہے اور ایک ایسا کرب و اضطراب پورے وجود پر طاری ہو جاتا ہے کہ راتوں کو سونا مشکل ہو جاتا ہے سمجھ نہیں آتا کہ کیا کرے بے ساختہ ظالموں اور قاتلوں کے لئے بدعاء کے جملے نکتے ہیں بے ساختہ مظلوموں کے لئے دعاء نکلتی ہے پروردگار ان لوگوں پر رحم فرما جو تیرے دین کی خاطر سخت ترین صعوبتوں کو برداشت کر رہے ہیں لیکن تیرے دین کے ساتھ سمجھوتہ کرنے کو تیار نہیں انہیں آج بھی اس بات پر فخر ہے کہ ہم ہندوستانی مسلمان ہیں ۔
جو کچھ مسلمانوں کے ساتھ ہوا ہے وہ قابل غور بھی ہے مقام عبرت بھی لیکن افسوس تو اس بات کا ہے کہ مسلمانوں کے  پاس اس جمہوری ملک میں  جو ایک آسرا محکمہ انصاف و عدالت کا تھا اب وہ بھی ان سے چھنتا جا رہا ہے  چنانچہ اگر آپ غور کریں گے تو  واضح ہوگا کہ دہلی کے حالیہ فسادات میں جہاں مسلمانوں کو سفاکانہ انداز میں قتل کیا گیا انکی پراپرٹی و انکے کاروبار کو نقصان پہنچایا گیا وہیں محکمہ انصاف کا بھی خون ہوا ہے ، اس عدالت  کی روح کو بھی تار تار کیا گیا ہے جس پر ملک کے حریت پسند یقین رکھتے ہیں اور اس کی دلیل  اشتعال انگیز بیانات دینے والوں کو صاف طور پر بچا لے جانا ہے  اور الزامات کا نشانہ مخصوص انداز میں انہیں پر سادھنا  ہے جنہیں بلی کا بکرا بنا کر خود ہی از قبل تیار کیا جا چکا تھا ۔ایسی صورت حال میں مسلمانوں کو سمجھنا ہوگا کہ آنے والا کل کتنا بھیانک اور خطرناک ہوگا اگر انہوں نے مل جل کر اپنی  تدبیر سے اپنے مستبقل کے بارے میں نہ سوچا تو   جو تباہی انکا مقدر ہوگی شاید وہ اس سے بھی بری ہو جو تقسیم کے وقت تھی ۔

 

ہالی ووڈ میں یہودیوں کے تابع رہو ورنہ دھمکائے جاؤ گے

  • ۵۰۴

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: ہسپانوی محقق و مصنف مانوئل گالیانا (Manuel Galiana) ان اہم شخصیات میں سے ہیں جنہوں نے صہیونیت سے متعلق مختلف شعبوں ـ جیسے اقتصاد اور سیاست ـ میں متعدد کتابیں تالیف کی ہیں۔ انہوں نے حالیہ برسوں میں سینما آرٹ، صہیونیت اور ہالی ووڈ کے سلسلے میں متعدد مضامین اور مقالات شائع کئے ہیں جن کی بنا پر انہیں خاص توجہ دی گئی ہے۔ گالیانا کی تازہ ترین کاوش “سینما اور صہیونیت” کی اشاعت کے سلسلے میں انھوں نے ایک پریس بریفنگ دی اور اس کے بعد ان سے ایک انٹرویو لیا گیا جس کا متن پیش خدمت ہے:
س۔ ایران میں جب کوئی ہالی ووڈ کے پس پردہ ماسونیوں اور صہیونیوں کے کردار پر بات کرتا ہے تو کچھ لوگ اس کا جواب سخت الفاظ میں دیتے ہیں اور اس پر الزام لگاتے ہیں کہ یہ آپ کا وہم ہے اور آپ ہر چیز کو سازش سمجھتے ہو، کیا آپ کے خیال میں بھی یہ ایک خودساختہ تصور اور وہم ہے؟
– جن نشستوں میں مجھے بلایا گیا ہے اور جن کانفرنسوں میں دوسرے ماہرین کے ساتھ شریک ہوتا رہا ہوں، وہاں میں نے “ہالی ووڈزم” کے بارے میں بات کی ہے اور ان امور پر بھی روشنی ڈالتا رہا ہوں۔ نتیجہ یہ رہا ہے کہ میں نے اس حقیقت کا ادراک کرلیا ہے کہ ہالی ووڈ کچھ منصوبہ بند اقدامات کر رہا ہے، مثلا کچھ اقدار کا خاتمہ کررہا ہے، خاندان اور گھرانے کی بنیادیں اکھاڑ رہا ہے وغیرہ وغیرہ۔۔۔ اسی بنا پر میں اور میرے جیسے دوسرے ماہرین کا ہرگز یہ تصور نہیں ہے کہ یہ صرف ایک ابہام یا ایک نظریۂ سازش (Conspiracy theory) ہے۔ ممکن ہے کہ ایک عام ایرانی یا ہسپانوی شہری ایسا تصور رکھتا ہو کہ یہ ایک حقیقی قضیہ نہیں ہے اور صرف ایک وہم ہے جس کا سبب یہ ہے کہ ان کی معلومات کافی نہیں ہیں۔
مغرب میں، یورپ اور امریکہ میں ایسی متعدد کتابیں اور مقالات کی اشاعت عمل میں آئی ہے جن میں اشارہ ہؤا ہے کہ اداکار، ہدایتکار اور دوسرے اہم افراد جو سینمائی صنعت میں کردار ادا کررہے ہیں، یہودیوں کے ساتھ رابطے میں ہیں یا پھر وہ خود یہودی ہیں۔ کِرک ڈاگلس (Kirk Douglas) اور آرنلڈ شوازینگر (Arnold Schwarzenegger) وہ اداکار ہیں جنہوں نے اپنے نام تک تبدیل کئے ہیں۔
 
س۔ ابلاغیاتی پیداوار (production) کے شعبے میں صہیونی اور ماسونی لابیوں کی کارکردگی کی کیفیت کیا ہے؟ کیا وہ براہ راست میدان میں کود جاتی ہیں یا پھر اپنا ایجنڈا خاص قسم کے افراد کے سپرد کرتے ہیں، یا پھر ماحول سازی کے ذریعے فنکاروں اور ذرائع ابلاغ سے وابستہ افراد کو اپنی طرف کھینچ لیتی ہیں اور انہیں خاص سمت میں کام کرنے کی ہدایات دیتی ہیں؟
– شاید ماسونیت کو صہیونیت کا بہت اچھا چہرہ اور اچھی شکل قرار دیا جاسکے۔ وہ تقریبا تمام ذرائع ابلاغ سے وابستہ افراد کو اپنے قابو میں رکھتے ہیں۔ ایک کانفرنس کے دوران میرا رابطہ ہالی ووڈ کے ایک ہدایت کار سے تھا۔ وہ اس بات کو جھٹلا رہا تھا کہ یہودیوں کا کوئی کنٹرول ہے اور کہتا تھا کہ “مسئلہ پیسے کا ہے، جس کے پاس دوسروں سے زیادہ پیسہ ہو، وہ بہتر فلم بنا دیتا ہے”۔ اسی وقت بھی متعدد یہودی ہدایتکار، پروڈیوسرز اور اداکار تھے جو کہتے تھے کہ “ہالی ووڈ ہمارا ہے”۔
س۔ کیا صہیونی اور ماسونی براہ راست ابلاغیات اور فن کے شعبوں میں افرادی قوت کی تربیت کے لئے براہ راست اقدام کرتے ہیں؟ کیا آپ نو وارد اور مشہور افراد میں سے کسی کو جانتے ہیں جو اس تربیتی عمل کا ثمرہ ہو؟
– نام سے تو میں کسی کو نہیں جانتا جو اس قسم کے حالات میں واقع ہؤا ہو، لیکن ابلاغیات سے وابستہ اکثر افراد یا تو یہودی ہیں یا پھر اگر یہودی نہیں ہیں تو ممکن ہے کہ انہیں بعض پس پردہ تنظیموں کی طرف سے ڈرایا دھمکایا جائے۔
گو کہ ٹام کروز (Tom Cruise) یہودی نہیں ہیں اور سائنٹالوجی کلیسا (Church of Scientology) کے پیروکار ہیں لیکن وہ کبھی بھی نہیں چاہتے تھے کہ یہ حقیقت آشکار ہوجائے کہ وہ ایک ہمجنس باز ہیں اور ان کا تعلق دوسرے ہم جنس باز جان ٹراولٹا (John Travolta) سے ہے اور ان کے ساتھ زندگی بسر کررہے ہیں۔ تاہم یہ مسئلہ فاش ہوگیا۔ اس کے باوجود کہ وہ یہودی نہیں ہیں اور خدا پر ایمان نہیں رکھتے لیکن وہ صہیونیوں اور ماسونیوں کے مفادات کے لئے کام کررہے ہیں۔
 
س۔ امریکی اور یورپی سینما میں ان خاص لابیوں کا کتنا حصہ ہے؟
ـ میری رائے یہ ہے کہ یورپ اور امریکہ میں جتنی بھی فلمی صنعت ہے، یا تو مکمل طور پر ان لابیوں اور یہودیوں کے ہاتھ میں ہے یا پھر ان کے مقاصد کی راہ میں سرگرم عمل ہے۔ یہ لابیاں زندگی کے لئے نئے معیار متعارف کرانے کے درپے ہیں، روایتی اقدار اور گھر اور خاندان، ماں اور باپ کے ساتھ اولاد کے تعلق کو نابود کرنا چاہتی ہیں؛ ادیان و مذاہب کی بےحرمتی کرتی ہیں اور یہودیوں کے سوا کسی بھی دین و مذہب پر حملہ آور ہوتی ہیں۔
س۔ سنا ہے کہ ان یہودی سرغنوں کی منظوری کے بغیر دنیا میں فلم کی نمائش ممکن نہیں ہے یا پھر بہت ہی دشوار ہے، کیا آپ کے خیال میں یہ درست ہے؟ کیا اس کے لئے کوئی مثال دی جاسکتی ہے؟ ہمارے ہاں تو مثال یہ ہے کہ مشہور ایرانی ہدایتکار مجید مجیدی نے “محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ ـ نامی فلم بنائی تو اس کی عالمی نمائش کے سلسلے میں ان کے خلاف شدید کوششیں ہوئیں۔
ـ جی ہاں! اگر کوئی فلم ان کے مفادات کی سمت میں نہ ہو تو اس کی نمائش بہت مشکل ہے۔ میل گبسن (Mel Gibson) نے فلم دی پیشن آف دی کرائسٹ (The Passion of the Christ) بنائی اور اس فلم کی نمائش ہوئی تو پانچ چھ سال تک انہیں فلم بنانے کی اجازت تک نہ ملی۔ میل گبسن اس فلم کی نمائش میں اس لئے کامیاب ہوئے کہ وہ ذاتی طور پر بہت زیادہ مشہور و مقبول انسان تھے اور ان کے دوستوں کا اچھا خاصا حلقہ تھا، بہت طاقتور تھے اور ماضی میں اچھے خاصے فنکارانہ کارناموں کے خالق رہ چکے تھے۔ ورنہ اگر کوئی اٹھنا چاہے اور ان لابیوں کی مرضی اور طرز فکر و اسلوب کے مقابلے میں نئے افکار اور نئے اسلوب کی بنیاد رکھنا چاہے تو تقریبا اس کی کامیابی کی امید تقریبا نہ ہونے کے برابر ہے۔
 
میل گبسن سے کہا گیا تھا کہ “تمہاری فلم فلاپ ہوجائے گی، کیونکہ تمہیں کسی بھی کمپنی کی حمایت حاصل نہیں ہے” لیکن یہ فلم بہت کامیاب رہی اور اچھی خاصی تجارتی سطح تک پہنچی۔ جیسا کہ کہا جارہا ہے حضرت عیسی علیہ السلام پر یہودیوں کے ہاتھوں ہونے والے مظالم بیان کرنے والی یہ فلم واحد فلم تھی جو کسی کمپنی کی مدد کے بغیر تیار کی گئی اور اس قدر بکی۔
جی ہاں! جہاں تک مجھے معلوم ہے میل گبسن اور ان کے دوستوں نے یہ فلم ذاتی خرچے پر بنائی تھی۔
س۔ کیا مستقل اور خودمختار فلمسازی سے کسی قسم کی امید رکھنا درست ہے؟ کیا یہ امید رکھنا درست ہے کہ ماسونی صہیونی طاقت کے حلقے سے باہر، ایک خودمختار سینما کو نشوونما دی جائے جو عالمی تہذیب اور عوامی سفارتکاری میں کردار ادا کرسکے؟
ـ موجودہ حالات کو مد نظر رکھا جائے تو میرا نہیں گیا کہ ایسا کچھ ممکن ہو؛ کیونکہ جس مالی بحران کی پیشنگوئی کی جاسکتی ہے، وہی رونما ہوجائے، اس طرح کے بحرانوں کا ازالہ کرنے کے لئے منظم تبدیلیوں کی ضرورت ہے اور اس ہدف تک پہنچنے کے لئے بھی بنیادی تبدیلیوں کی ضرورت ہے۔
خودمختار اور آزاد سینما ـ جس کی اس وقت دنیا میں مثال دی جاسکتی ہے ـ وہی سینما ہے جو ایران میں موجود ہے اور ہر کوئی یہاں منعقدہ فلم فیسٹیولوں میں اپنی مستقل اور آزاد کاوشیں نمائش کے لئے پیش کرسکتا ہے۔ وہ چیز جو اسی نام سے یورپ میں بھی موجود ہے، اس کے پس پردہ بھی بہرحال ایسا ہی کنٹرول پایا جاتا ہے جو امریکہ میں پایا جاتا ہے۔
منبع: http://resanehenghelab.com

 

برطانوی صحافی ویلیم شاکراس کی کتاب ‘ روپرٹ مردوخ’ (ابلاغی سلطنت) کا تعارف

  • ۴۰۵

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: کتاب “روپرٹ مردوخ (ابلاغی سلطنت)” (۱) کے مؤلف، آزاد برطانوی صحافی ویلیم شاکراس (۲) ہیں۔ شاکراس نے اس کتاب میں تقریبا صحافتی طرز تحریر اپناتے ہوئے مردوخ کی زندگی کی لمحہ بہ لمحہ حکایت بیان کی ہے جس میں انھوں نے صہیونیت کے صحافتی جرنیل روپرٹ مردوخ کی ۱۹۶۳ تک کی ذاتی، خاندانی اور پیشہ ورانہ زندگی کی تصویر کشی کی ہے۔
کتاب “روپرٹ مردوخ (ابلاغی سلطنت)” پندرہ فصلوں پر مشتمل ہے۔ مؤلف پہلی فصل میں اس کاوش کی تالیف کے مقاصد بیان کرتے ہیں۔ شاکراس کہتے ہیں: “روپرٹ مردوخ کے بارے میں اٹھنے والے سوالات میں چند ایسے سوالات ہیں جو دوسرے سوالات سے زیادہ دہرائے جاتے ہیں جو یوں ہیں: مردوخ نے اپنی عمر کے ۴۵ برس مختلف ممالک کے دوروں میں گذار دی ہے تا کہ ایک بین الاقوامی سطنت کی داغ بیل ڈالنے کا منصوبہ تیار کریں؟ اس راہ میں ان کے محرکات کیا تھے؟”۔
 
اس کتاب میں جس چیز کو خاص توجہ دی گئی ہے وہ دنیا کے ذرائع ابلاغ پر ایک صہیونی ـ یہودی فرد کی سطلنت ہے۔
اس کتاب میں ایسے حالات کو بیان کیا گیا ہے جو دوران حیات مردوخ کی ترقی کا باعث بنے ہیں اور صہیونیت کے ہاتھوں ایک ابلاغی سلطنت کے قیام پر منتج ہوئے ہیں۔
مؤلف نے پہلی فصل میں جینیاتی اور وراثتی لحاظ سے روپرٹ مردوخ کی اخلاقی خصوصیات اور افکار پر روشنی ڈالی ہے؛ دوسری فصل میں مردوخ کے بچپن کے حالات سے مختص کیا ہے اور بعد کی فصلوں میں ان کی سماجی سرگرمیوں کو بیان کیا ہے اور ان تمام اقتباسات میں روپرٹ کی تسلط پسندی پر زور دیا ہے۔
مؤلف آٹھویں فصل کے ایک حصے میں لکھتے ہیں: “مردوخ بخوبی سمجھ چکے تھے کہ تفریحی صنعت روز بروز مغرب ـ اور بالخصوص امریکی ثقافت ـ کے معاشرتی مزاج میں بدل رہی ہے۔ عالمی گاؤں (۴) میں ٹیلی ویژن رفتہ رفتہ معمولی دیہاتوں کی سرسبزی اور خُرَّمی کی جگہ لے رہا ہے؛ چھوٹے مگر دلفریب سبزہ زار ہر گھر میں دکھائی دے رہے ہیں، بَصَری تصویریں رفتہ رفتہ کلامی مباحث کے متبادل کے طور پر سامنے آرہی ہیں اور (یوں) معلومات تفریح کے ضمن میں لوگوں کو سامنے رکھی جاتی ہیں”۔ یہودی المذہب روپرٹ مردوخ نے ان مواقع کو غنیمت سمجھا اور ان سے اپنے ابلاغی تسلط کے قیام میں بھرپور فائدہ اٹھایا۔
مردوخ نے ۱۹۷۶ میں اخبار نیویارک پوسٹ کو خرید لیا اور امریکہ کی ابلاغی دنیا میں داخل ہوئے اور اس کے بعد کئی دیگر ذرائع ابلاغ ـ منجملہ: ٹیلی ویژن، سیٹلائٹ چینل، اخبارات وغیرہ ـ کو بھی اپنی سلطنت میں شامل کیا۔
۔۔۔۔۔۔۔
۱٫ Murdoch: the making of a media empire.
۲٫ William Hartley Hume Shawcross.
۳۔ شاوکراس، ویلیام، روپرت مورداک (امپراتوری رسانه‌ای) فصل اول
۴٫ Global village
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔