-
Tuesday, 7 April 2020، 08:23 PM
خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: اسرائیل کی معیشت، بازار اور ٹیکنالوجی پر چلتی ہے۔ اسرائیل خام تیل، دالیں، خام مواد اور جنگی اسلحہ درآمد کرتا اور ہیرے، ہائی ٹیکنالوجی کا سامان اور زرعی مصنوعات کو برآمد کرتا ہے۔
۲۰۰۸ وہ سال ہے جس سال اسرائیل کی برآمدات اور سالانہ پیداوار میں قابل توجہ ترقی ہوئی، البتہ یورپی یونین جو اسرائیل کی سب سے بڑی تجارتی حصہ دار ہے وہ اس سلسلے میں غیر مؤثر نہیں تھی۔ اس معیشتی ترقی کی وجہ سے اسرائیل نے اپنی فوج کو قوی کر لیا اور بہت سارے مہاجرین کو اپنی طرف جذب کیا، لیکن آج ایک طرف سے طولانی اور طاقت فرسا جنگوں اور دوسری طرف سے حکومت کی بے لیاقتی، سماجی مشکلات اور نسل پرستی جیسے گہرے مسائل اس ریاست کی معیشتی صورت حال کو روز بروز کمزور کر رہے ہیں۔
challenge کی ماہنامہ اقتصادی رپورٹ کے مطابق، گزشتہ سالوں میں اس ریاست کی اقتصادی پوزیشن بڑھ رہی تھی اس طریقے سے کہ ۱۹۸۲ میں ۰٫۲۲۲ سے ۲۰۰۵ میں ۰٫۳۹۲ تک پہنچ گئی لیکن ۲۰۰۶ میں لبنان کے ساتھ ہوئی صیہونی ریاست کی ۲۲ روزہ جنگ میں اسے جہاں جنگی اعتبار سے شکست کا سامنا ہوا وہاں اسے اقتصادی طور پر بھی شدید دھچکا لگا اور اسرائیل کی اقتصادی صورتحال ترقی کے بجائے تنزلی کی طرف گامزن ہو گئی۔