انتظار کیوں اور کیسے؟

  • ۴۵۱

بقلم نجیب الحسن زیدی

جب بھی ہمارے درمیان امام زمانہ عجل اللہ تعالی الشریف کے انتظار کی بات ہوتی ہے تو بہت سے جوانوں کے ذہن میں مختلف قسم کے سوالات گردش کرنے لگتے ہیں کہ آخر انتظار کیوں ؟ وہ بھی اتنا طویل انتظار اور پھر انتظار کے معنی کیا ہیں ؟ اس لیے کہ انتظار کے سلسلہ سے بھی معاشرہ میں مختلف معنی بیان ہوتے ہیں کوئی انتظار کا مطلب محض امام ع کی سلامتی کی دعاوں اور ان سے توسل میں جانتا ہے تو کوئی اس کے معنی کو ظہور امام عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف سے جوڑتا ہے اور عصر غیبت میں آپکے ظہور کے لئے مکمل آمادگی کو انتظار سمجھتا جبکہ انتظار ایک فطری امر ہے جس کے لئے اثبات کی ضرورت نہیں بلکہ انسان اپنے وجود کے سلسلہ سے اگر غور کرے گا تو کیفیت انتظار کو پورے وجود پر طاری پائے گا، انسان طالب چین و سکون ہے ، اسے تحفظ چاہیے ، اسے امن چاہیے اسے مشکلوں سے نجات چاہیے تو کیسے ممکن ہے کہ پروردگار نے یہ ساری خواہشیں انسان کے وجود میں رکھی ہوں لیکن ایک ایسے منجی کا انتظام نہ کرے جو پروردگار کے مطلوب معاشرہ کو تشکیل دے کر بتائے کہ الہی قوانین کا مکمل نفاذ کیونکر ایک انسان کو وہ سب کچھ دیتا ہے جس کی تشنگی پروردگار نے انسان کے وجود میں رکھی ہے۔
ادیان ومذاہب میں انتظار ایک مشترکہ قدر:
شک نہیں کہ ”انتظار“ انسانی فطرت میں شامل ہے اور ہر قوم و ملت اور ھر دین و مذھب میں انتظار کا تصور پایا جاتا ہے، انتظار کے اندر جو چیز اسے اہم بناتی ہے وہ یہ ہے کہ انسان انتظار کس کا کر رہا ہے ؟ اب رہ جاتی ہے بات اس شخصیت کے انتظار کی جسکی آمد کا انتظار ہر قوم و ملت میں ہے تو ظاہر سی بات ہے اسکی اپنی ایک عظمت ہے اور اس کی اپنی ایک جلالت ہے
اس لئے کہ منجی آخر کا تصور ہر قوم و مذہب میں پایا جاتا ہے اور ہمارے لئے یہ بہت اہم اس لئے ہے کہ اس کے سلسلہ سے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی احادیث وارد ہوئی ہیں اور اسی بنیاد پر تقریباً اسلام کے تمام فرقے اس سلسلہ میں اتفاق نظر رکھتے ہیں، نیز اس سلسلہ میں احادیث بھی متوا تر ہیں۔
عقیدہ انتظار باعث ارتقاء یا زوال :
ممکن ہے کسی کے ذہن میں یہ سوال اٹھے جیسا کہ بعض لوگوں نے اس قسم کے شبہات چھیڑے بھی ہیں کہ انتظار کی بنیاد پر سارے کام ٹھپ ہو جاتے ہیں اور ایک طرح ساری قوم ایک فرد واحد کی طرف دیکھ رہی ہوتی ہے اس کی ساری امیدیں اس بات سے وابستہ ہوتی ہیں کہ ہم جس کا انتظار کر رہے ہیں جب وہ آئے گا تو کچھ ہوگا جسکی بنیاد ہر قوم تنزلی کی طرف جاتی ہے اور جدو جہد نہیں کر پاتی۔
جہاں تک اس شبہے کی بات ہے تو یہ ایک منفی طرز فکر کا عکاس ہے اس لیے کہ نہ صرف یہ کہ انتظار کی کیفیت میں انسان مکمل طور پر بیدار ہوتا ہے ہر طرح کی غفلت برتنے تک سے پرہیز کرتا ہے اور وہی کچھ انجام دیتا ہے جو اس کے منتظر کو مطلوب ہو اس قسم کی باتیں کرنے والوں کو سب سے پہلے تو یہ سمجھنا چاہیے کہ انتظار کہتے کسے ہیں؟
مفہوم انتظار
لغت میں انت‍ظار کے معنی کسی کی راہ تکنے اور کسی کی آمد کے لئے چشم براہ ہو نے کے بیان ہوئے ہیں ۔
انتظار روح کی ایسی کیفیت ہے جو انسان کی آمادگی کا سبب بنتی ہے جبکہ اس کے مخالف مفہوم مایوسی کا ہے جتنی شدت کا انتظار ہوگا اتنا ہی انسان اس کی تیاری بھی کرے گا
انسان جب کسی منجی کا انتطار کر رہا ہے تو جہاں وہ عدل و انصاف پر مبتنی معاشرہ کی تشکیل کا خواہاں ہے بالکل سیدھی سی بات ہے کہ موجودہ صورت حال سے راضی نہیں ہے اورظلم و جور کا مخالف ہے لہذا ایک منتظر کی ذمہ داری ہے کہ وہ ظلم و ستم، فتنہ و فساد اور برائی کرنے والوں کی کسی بھی طرح کی اعانت اور ہم آہنگی سے پرہیز کرے اوراپنے نفس کی اصلاح کرے تاکہ جسمانی اور روحانی، مادی اور معنوی لحاظ جس کا انتظار کر رہا ہے سے اسکی توقعات پر پورا اتر سکے۔
اس لئے کہ ”انتظار“ ہمیشہ منتظر کی اہمیت کے ساتھ انسان کی قدر و قمیت کو بیان کرتا ہے اب اتنظار چاہے معمولی ہو مگر ایک چیز ہر انتطار میں مشترک ہے اور وہ انتظار کرنے والے کی اپنی آمادگی و تیاری ہے۔
ایک مسافر کے سفر سے واپسی کا انتظار اسکا انداز الگ ہوتا ہے ۔ایک بہت ہی عزیز دوست کے پلٹنے کا انتظار۔اسکا انداز مختلف ہے۔
پھلوں کے پکنے کی فصل کا انتظار یا فصل کاٹنے کے وقت کا انتظار ۔اسکا انداز بھی نوعیت کے اعتبار سے الگ ہے لیکن ہر انتظار کی کیفیت متعلق انتظار پر منحصر ہے اورہر انتظار میں ایک طرح کی آمادگی ضروری ہو تی ہے، ایک انتظار میں مہمان نوازی کا سامان فراہم کیا جائے، دوسرے میں بعض دوسرے وسائل کی ضرورت ہوتی ہے ہر ایک میدان کی الگ الگ ضرورتیں ہیں اگر ایک فوج اپنے دشمن سے مقابلہ کرنا چاہے تواسکی ایک تیاری ہوتی ہے اس کے لئے ایسے اسلحہ کی ضرورت ہوتی ہے جو اس جہاد کے لئے مناسب اور کارگر ہو، اسی لحاظ سے مورچہ بنائے، اور لشکرکے ساز و سامان میں اضافہ کرے۔لشکر کا حوصلہ بلند کرے اور ہر فوجی کے دل میں مقابلہ کے شوق و رغبت کو بڑھائے ، اگر فوج میں اس طرح کی آمادگی نہیں ہے تو وہ دشمن کے حملہ کی منتظر نہیں ۔
ایک عالمی مصلح کے انتظار کے معنی یہ ہیں کہ انسان معاشرہ کی اصلاح کے لئے مکمل طور پر فکری، اخلاقی اور مادی و معنوی لحاظ سے تیار رہے، پوری دنیا کی اصلاح کرنا اور ظلم و ستم کا خاتمہ کرنا کوئی کھیل نہیں ہے، یہ عظیم مقصد ہے ، ایسے عظیم مقصد کے لئے اسی لحاظ سے تیاری بھی ہونی چاہئے۔ایسے مقصد کے لئے اپنی اصلاح کے لئے ضروری ہے کہ فکری، اخلاقی اور اجتماعی طور پر ایک بہترین منصوبہ بندی کی جائے ، اور حقیقی انتظار کا یہی مطلب ہے، کیا پھر بھی کوئی یہ کہہ سکتا ہے کہ ایسا انتظار قوم کی تنزلی کا سبب ہے۔
شاید یہی وجہ ہے کہ ایک انتظار کرنے والا محض اپنے بارے میں نہیں سوچ رہا ہوتا ہے وہ پوری قوم کو دیکھ رہا ہوتا ہے جیسا کہ ایک بہادر جنگجو و مجاہد صرف یہ نہیں دیکھ رہا ہوتا ہے کہ وہ کتنا کامیاب ہے بلکہ اپنی کامیابی کے ساتھ اسے اپنے لشکر کی کامیابی کی فکر بھی رہتی ہے اس لئے اس کے بظاہر کامیاب ہونے کے بعد بھی لشکر اگر ناکام ہو گیا تو وہ بھی ناکام ہی کہلائے گا چنانچہ صحیح طور پر انتظار کرنے والے افراد کی ذمہ داری یہ نہیں ہے کہ صرف اپنی اصلاح کرلی جائے، اور بس، بلکہ دوسروں کی حالت بھی دیکھنی ہوگی، اپنی اصلاح کے علاوہ دوسروں کی اصلاح کے لئے کوشش کرنا ہوگی، کیونکہ جس عظیم انقلاب کا انتظار کررہے ہیں وہ ایک انفرادی منصوبہ نہیں ہے بلکہ ایک ایسا منصوبہ ہے جس میں تمام پہلووٴں سے انقلاب آنا ہے، جس کے لئے پورے معاشرہ میں ایک ھم آہنگ حرکت ضروری ہے۔
جس طرح ایک مقابلہ کرنے والے لشکر میں کوئی بھی ایک دوسرے سے غافل نہیں ہوسکتا، بلکہ ہر فوجی کی یہ ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ جہاں بھی کمی دیکھے تو فوراً اس کی اصلاح کرے ، جس جگہ سے نقصان کا احتمال پایا جاتا ہو اس کا سدّ باب کرے اور ہر طرح کے ضعف و ناتوانی کو تقویت پہچائے، کیونکہ بہترین کارکردگی اور تمام لشکر میں یکسوئی اور ہم آہنگی کے بغیر یہ عظیم منصوبہ عملی کرنا ممکن نہیں ہے۔
لہٰذا حقیقی منتظرین پر اپنی اصلاح کے علاوہ دوسروں کی اصلاح کرنے کی بھی ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔
منتظرین کی ایک بڑی ذمہ داری ہے کہ زندگی کے مختلف شعبہ ہائے حیات میں اس طرح خود کو آمادہ و تیار رکھیں کہ امام علیہ السلام کو بعد از ظہور جہاں بھی ہماری ضرورت ہو ہمیں اس محاذ پر جانے میں کوئی تامل نہ ہو کہ ہم نے خود کو ہر طرح تیار کیا ہوا ہے علمی سیاسی اقتصادی ہر محاذ پر ہم اپنے امام کا ساتھ نبھا سکتے ہیں۔
البتہ امام کے ظہور کی مکمل تیاری اسی وقت ممکن ہے جب ہم فکری و ثقافتی اعتبار سے بھی ہر طرح سے خود کو لیس کر چکے ہوں اور آمادہ و تیار ہوں فکری اور ثقافتی آمادگی کا معنی یہ ہے کہ لوگوں کی فکر بلند ہو جائے ۔ خود ان کو یہ سمجھ میں آنا چاہیے کہ قومیت ،نسل پرستی و عصبیت کے، انسان کی زندگی میں کوئی معنی نہیں ہیں ۔ رنگ و زبان میں اختلاف ہونا انسان کی قدر و قیمت میں کوئی دخالت نہیں رکھتا ۔ہم سب الگ الگ نسلوں ،خطوں ملکوں اور شہروں و قبیلوں سے ہونے کے باوجود ایک ہی قبیلہ کے باشندہ ہیں اور وہ ہے قبیلہ انتظار اور بس
اسی کے ساتھ اجتماعی طور پر بھی ہمیں تیار رہنے کی ضرورت ہے کہ لوگوں کے اندر یہ شعور بیدار ہو سکے کہ جب تک ہماری اجتماعی طاقت نہیں ہوگی ہرگز ہم اپنے دشمن پر کامیاب نہیں ہو سکتے لیکن اگر اجتماعی شعور ہے تو تعداد میں کمی کے باوجود ہم دشمن کو ناکوں چنے چبوا سکتے ہیں جیسا کہ حزب اللہ نے اسرائیل کے ساتھ کیا ،یہی وجہ ہے اسرائیل آج دنیا کے ۵۰ سے زائد نام نہاد اسلامی ممالک کے ہوتے ہوئے کسی سے ڈرتا ہے تو وہ حزب اللہ ہے ،اس لئے کہ وہ حقیقی منتظر ہیں اور انہیں پتہ ہے کب کیا کرنا ہے ۔

 

سامراجیت کے لیے بہائیت کی بے لوث خدمات

  • ۶۵۴

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: فرقہ بہائیت نے جو سامراجی نظام خصوصا برطانیہ کے لیے خدمات انجام دیں اس کی ایک مثال پہلی جنگ عظیم میں عثمانی بادشاہت کی سرنگونی کی غرض سے برطانیہ کے لیے جاسوسی تھی جس کے بدلے میں انہیں کافی مراعات ملیں۔
’شوقی افندی‘ کے بقول صہیونیت کی حاکمیت کے دوران بہائی اوقاف کے نام سے فلسطین میں ایک شاخ قائم کی گئی کہ جس سے ٹیکس نہیں لیا جاتا تھا اور اس کے علاوہ بہائیوں کے مقدس مقام کے نام پر دنیا بھر سے جو کچھ فلسطین آتا تھا وہ کسٹم ڈیوٹی اور ٹیکس سے معاف ہوتا تھا۔
جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ صہیونی یہودی، فلسطین کو برطانیہ کے قبضے سے الگ کروانے سے پہلے سلطان عبد الحمید کے پاس گئے، اور انہیں مختلف وعدے دے کر ان کی رضایت کو حاصل کرنے کی کوشش کی اور ان سے اس سرزمین کو یہودیوں کے حوالے کرنے کا مطالبہ کیا۔ لیکن چونکہ انہوں نے اس معاملے میں یہودیوں کے ساتھ تعاون کرنے سے انکار کیا اسی وجہ سے ان سے اس سرزمین کی حاکمیت چھین لی گئی۔
سلطان عبد الحمید چونکہ بہائیوں اور انگریزوں کے باہمی پروپیگنڈوں سے آگاہ ہو گئے تھے اس وجہ سے انہوں نے اپنی سلطنت کے خاتمے سے قبل بہائیوں کے سربراہ کے قتل اور اس کی نابودی کا حکم دے دیا۔ شوقی افندی اپنی کتاب ’قرن بدیع‘ میں اس بات کی طرف بھی اشارہ کرتے ہیں کہ عثمانی حکمران ’جمال پاشا‘ نے ’عباس افندی‘ کو جاسوسی کے جرم میں قتل کی دھمکی دی۔
اس بار بھی برطانیہ بہائیوں کی فریاد کو پہونچتا ہے اور ان کی خدمتوں کا صلہ دیتے ہوئے ’’لورڈ بالفور‘‘ فلسطین میں برطانیہ کے جنگی کمانڈر ’اللنبی‘ کو ایک خط کے ذریعے حکم دیتا ہے کہ ’عبد البہاء‘ (عباس افندی) اور اس کے خاندان کو فوج کی حمایت میں رکھے اور ہر طرح کے خطرے اور گزند سے محفوظ رکھے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ صہیونی ریاست کے قیام کے بعد ’عباس افندی‘ کی خدمتوں کا بدلہ دیتے ہوئے اسی برطانوی جنرل نے انہیں (sir) کا لقب دیا۔
کچھ عرصے کے بعد جب عباس افندی فوت کر جاتے ہیں تو فلسطین میں برطانوی کمیشنر اور معروف صہیونی شخصیت ’سر ہربٹ ساموئل‘ برطانیہ کی جانب سے افندی کے خاندان کو تسلیت پیش کرتے ہیں اور بذات خود افندی کے تشییع جنازہ میں شرکت کرتے ہیں۔
عباس افندی کے بعد شوقی افندی بہائیت کی سربراہی کی لگام کو اپنے ہاتھ میں لیتے ہیں اور بہائیت اور صہیونیت کے درمیان تعلقات کو مزید بڑھاوا دیتے ہیں۔
ماخذ
1 – فصلنامه تاریخ معاصر ایران، بهائیت و اسرائیل: پیوند دیرین و فزاینده، شکیبا، پویا، بهار 1388، شماره 49، ص 640-513.
2- فصلنامه انتظار موعود، پیوند و همکاری متقابل بهائیت و صهیونیسم، تصوری، محمدرضا، بهار و تابستان 1385، شماره 18، ص 256-229.