-
Thursday, 2 April 2020، 02:35 AM
ہمارے بعض حکام سمجھتے ہیں کہ برطانیہ طاقت کا مرکز ہے، کیوں؟ اس لئے کہ انھوں نے جو انسانیات (Humanities) کا جو نظام مرتب کیا، اس کے ذریعے یہ اندازہ لگانے میں کامیاب ہوئے کہ لوگوں کے ذہنوں پر حکومت کی جاسکتی ہے اور بغیر اخراجات کے دوسروں کے ذہنوں پر حکومت کی جاسکتی ہے اور یوں وہ حکومت سے حاصلہ مفادات کو حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے۔ یہ روش انگریزوں نے سیکھ لی اور اچھی طرح سیکھ لی۔
خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ کی رپورٹ کے مطابق، ڈاکٹر یعقوب توکلی اسرائیل کے صنفیاتی مطالعے اور پہچان کے شعبے میں وسیع تجربہ رکھتے ہیں؛ وہ حوزہ علمیہ کے فارغ التحصیل ہونے کے ساتھ ساتھ بین الاقوامی تعلقات کے شعبے میں پی ایچ ڈی کر چکے ہیں۔ وہ مجلہ زمانہ کے چیف ایڈیٹر، اسلامی فکر و ثقافت تحقیقاتی مرکز کے شعبے “تاریخ تمدن” گروپ کے ڈائریکٹر، مجلس شورائے اسلامی (پارلیمان) کے ارشاد و تبلیغ کے شعبے کے ڈائریکٹر اور دفاع مقدس کے دائرۃ المعارف کے منصوبے میں شہداء گروپ کے ڈائریکٹر کے عہدہ پر فائز رہے ہیں۔
کتاب “حقیقت سیمر” ان کی اہم ترین کاوشوں میں شمار ہوتی ہے جو حزب لبنان کے کمانڈر شہید سمیر قنطار کے حالات زندگی پر مشتمل ہے۔ شہید قنطار عشروں تک یہودی ریاست کے قیدخانوں میں اسیری کے زندگی گذار چکے تھے اور انھوں نے جناب توکلی کے ساتھ ایک تفصیلی مکالمے کے دوران اپنی یادیں ریکارڈ کرائیں تھیں جنہیں ڈاکٹر صاحب نے داستانی اسلوب میں مرتب کرکے کتاب کی صورت میں شائع کیا ہے۔ ذیل کا متن ڈاکٹر یعقوب توکلی کے ساتھ خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ کا انٹرویو ہے، جو قارئین و صارفین کی خدمت میں پیش کیا جارہا ہے:
– معاصر تاریخ میں یہودیوں کی عہد شکنیاں
بسم اللہ الرحمن الرحیم،
ایک حقیقت ـ جو انقلاب اسلامی اور تشیع کے عنوان سے اسلامی انقلاب کے بعد ظالمانہ یلغار کا نشانہ بنی ـ ہمارے ساتھ صہیونیت اور اسرائیل کی دشمنی کی حقیقت ہے جس کو توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ اس حقیقت کو کئی پہلؤوں سے دیکھنا چاہئے، ایک پہلو یہ ہے کہ صدر اول میں یہودیوں کی تاریخی دشمنی کا نشانہ مسلمان تھے اور یہ دشمنی بعد کے ادوار میں تشیع کے خلاف جاری رہی۔
یہ دشمنی کسی بھی دور میں تعطل کا شکار نہیں ہوئی، یعنی کبھی بھی صہیونیت اور یہود ہمارے دوست نہیں بنے، بلکہ اگر کسی دور میں ہمارے نا آگاہ دوستوں نے مسامحت کی سی کیفیت پیدا کی تو یہودیوں نے اس کیفیت سے اپنے حق میں فائدہ اٹھایا؛ یہاں تک کہ ایران میں پہلوی خاندان کی حکمرانی قائم ہوئی تو یہ خاندان آل سعود کو سواری دے رہا تھا اور مختلف اشکال میں ان کی مدد کررہا تھا؛ ایسی ناقابل انکار دستاویزات موجود ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ جعلی یہودی ریاست ہمارے اندرونی معاملات میں نہایت بےشرمی کے ساتھ مداخلت کرتی تھی۔
یہاں تک کہ یہودیوں کی مداخلت نے شاہ ایران کو بھی تھکا دیا تھا اور کبھی وہ بھی تنگ آ جاتا تھا اور ان مداخلتوں کو برداشت نہیں کرپا تھا تھا۔ کیونکہ ان کی مداخلت حتی شاہ کی حکومت کو بھی خطرے سے دوچار کر دیتی تھی۔ لیکن اس کے باوجود وہ شاہ کے قوم پرست اور کمیونسٹ مخالفین کے ساتھ رابطہ قائم کرتے تھے اور حکومت کی اندرونی تہوں تک پہنچنے کے درپے رہتے تھے۔ تاکہ ایران کے ایسے معاشی فیصلوں میں اپنی رائے مسلط کرسکیں جو شاہ کی خفیہ ایجنسی ساواک پر حاوی تھے۔
البتہ پہلوی حکومت اس مسئلے کی طرف توجہ رکھتی تھی لیکن ان کا تسلط پہلوی بادشاہ کی مرضی سے کہیں زیادہ تھا اور وہ ہر صورت میں مداخلت کرتے تھے۔ مثال کے طور پر مجھے ایران میں اسرائیل کے خفیہ اداروں کے نمائندہ “یعقوب نیمرودی” کی مداخلتیں یاد ہیں اور مجھے یاد ہے کہ وہ ایران میں مختلف سماجی اور سیاسی طبقوں سے رابطے برقرار کرچکا تھا۔
یہودی ریاست کے بھیجے ہوئے افراد کی تعداد ـ پہلوی حکومت کی مرضی کے بغیر ـ ایران میں بہت زیادہ تھی۔ اگر آپ تاریخ میں کہیں ایران اور یہودیوں کی دوستی کا تذکرہ دیکھتے ہیں تو دوستی نہیں تھی بلکہ ان ادوار میں یہودیوں نے ایرانیوں اور ایرانی حکومتوں سے فائدہ اٹھایا ہے اور دوستی کا مقصد بھی یہی رہا ہے۔ وہ قدیم تاریخ میں بھی اس موضوع کی طرف توجہ رکھتے ہیں، کوروش کی تعریف کرتے ہیں؛ کیونکہ انھوں نے کوروش کو بھی اپنے مفاد کے لئے استعمال کیا اور ان سے فائدہ اٹھایا۔ انھوں نے کوروش کو قائل کرلیا کہ جاکر سرزمین فلسطین میں ان کے لئے لڑیں اور فلسطین کو بخت النصر سے آزاد کرا کر یہودیوں کے حوالے کریں۔
لیکن دلچسپ امر یہ ہے کہ یہ واقعہ ایسے وقت رونما ہوا جب یہودی آکر بین النہرین اور بابل میں سکونت پذیر ہوچکے تھے، کیونکہ وہ یہاں سونے کی منڈی اور سودی کاروبار کو اپنے ہاتھ میں لئے ہوئے تھے؛ یہ وہ یہودی تھے جو فلسطین کی کوروش کے ہاتھوں آزادی کے بعد بھی بابل چھوڑنے پر تیار نہ ہوئے؛ چنانچہ آپ دیکھتے ہیں کہ بعد کے ادوار میں عراق اور بابل کے علاقے میں بہت سارے یہودی آباد تھے، عراقی یہودیوں کی تعداد بہت زیادہ تھی۔ بطور مثال پہلی عالمی جنگ میں صرف بغداد میں رہائش پذیر یہودیوں کی آباد دو لاکھ تک پہنچتی تھی۔
– کیا اب بھی عراق میں یہودی موجود ہیں؟
عراق میں ان کی سکونت بہت محدود ہوچکی ہے، یعنی جب اسرائیل نامی ریاست معرض وجود میں آئی، اس زمانے میں حکومت عراق کے خلاف دہشت گردانہ کاروائیاں شروع ہوئیں؛ دھماکے کئے جاتے تھے اور ان کی ذمہ داری یہودیوں پر ڈالی جاتی تھی تاکہ عراقی حکومت یہودیوں پر اپنا دباؤ بڑھا دیں اور نتیجے کے طور پر عراقی یہودی مقبوضہ فلسطین میں جاکر بسیں۔ چنانچہ نتیجہ یہ ہوا کہ عراق میں یہودیوں کی سکونت محدود ہوگئی۔ میری بات کا مقصد اعلی سطحی تعلقات ہیں، یکطرفہ تعلقات اور فریق مقابل کا یہودی مفادات کے لئے استعمال ہے، میری بات کا مقصد پڑوسی یہودی نہیں ہیں، یہ یہودی معاشرے کے لوگ ہیں، میرا مقصد صہیونی یہودی نہیں ہیں۔
یعنی سیاسی صہیونیت نے سیاسی شعبے میں ان لوگوں اور قوتوں کو استعمال کیا جن کے ساتھ ان کا بظاہر دوستانہ تعلق تھا۔ لیکن اس وقت سنجیدگی کے ساتھ ہم مسلمان اور شیعہ کے عنوان سے صہیونیت کی دشمنی کا ہدف ہیں؛ اسرائیل کے بارے میں تحقیق کرنے والے محققین کے ذہنوں میں اس تصور نے جنم لیا ہے، اور یہ مسئلہ آہستہ آہستہ ایک اعتقاد میں بدل چکا ہے کہ یہودی ایک جعلی طاقت کے مالک ہیں؛ ہاں وہ جعل و تحریف کرتے ہیں اور قرآن نے بھی اس کی طرف اشارہ کیا ہے اور فرمایا ہے کہ یہ جعل اور تحریف کرنے والے ہیں، یہ نہ صرف تاریخ میں تحریف کرتے ہیں بلکہ پوزیشن اور واقعات میں بھی تحریف کرتے ہیں۔
مثال کے طور پر اگر عسکری میدان میں ان کے پاس ایک میزائل ہے تو کہیں گے کہ “ہمارے پاس ۱۰۰۰ میزائل ہیں” تا کہ آپ ایک ہزار میزائلوں کا خواب دیکھیں اور پھر یقین کرلیں کہ آپ کے دشمن کے پاس ایک ہزار میزائل ہیں، اگر ان کے پاس تھوڑی سی طاقت ہو تو کہیں گے کہ یہ طاقت سو گنا زیادہ ہے؛ تو اس صورت میں انجام کار کیا ہوگا؟
ممکن ہے کہ کسی موضوع میں ان کا کوئی کردار نہ ہو لیکن یہ جتانے کی کوشش کریں گے کہ اس موضوع میں ان کا کردار تھا بلکہ دعوی کریں گے کہ وہی اس موضوع اور واقعے کا اصل کردار ہیں۔ نتیجہ یہ ہوگا کہ تصورات کی دنیا میں ایک عظیم طاقت کو اپنے سامنے پائیں گے اور تصور کریں گے کہ طاقت کا ایک عظیم سلسلہ آپ کے سامنے ہے، حالانکہ حقیقت میں وہ طاقت سرے سے موجود ہی نہیں ہے؛ یا پھر آپ صہیونیت کے عناصر کو کسی موضوع میں شریک دیکھتے ہیں جبکہ اس موضوع میں ان کا کوئی کردار نہیں تھا؛ ان مسائل کا نتیجہ کیا ہوگا؟
– حقائق اور واقعات میں تحریف کا فائدہ کیا ہے؟
اس کا فائدہ یہ ہے کہ آپ ایک حریف یا علیحدہ یا غیرجانبدار قوت کے طور پر جہاں بھی جاتے ہیں، اس طاقت کا سایہ اپنے پیچھے آتا ہوا دیکھتے ہیں؛ یہ وہی تجربہ ہے جو برطانیہ نے اپنی خارجہ پالیسی میں حاصل کیا اور اقوام عالم کے آگے طاقت کا ایک تصوراتی ہیولا کھڑا کرکے نہایت قلیل آبادی کے باوجود پوری دنیا پر حکومت کی۔ اس کی دوسری مثالیں بھی ہیں؛ اور یاددہانی کے لئے برطانیہ کی طرف اشارہ کرتا ہوں جو ہندوستان پر مسلط ہوا، وہاں کے کئی سو میلین ہندوستانیوں کو شکست دی اور ایران دنیا کے مختلف ممالک پر مسلط ہوا، لیکن ان ہی برطانویوں کو سوڈان میں شکست ہوئی؛ اس شکست کا سبب کیا تھا؟
سوڈان میں وہ ایسے وہ افراد اور اوزار تلاش نہیں کرسکے تھے جن کے ذریعے وہ وہم اور خوف کا وائرس عوام تک منتقل کرسکتے توہم کو اس ملک کے عوام میں منتقل کرسکتے تھے، چنانچہ سوڈانیوں نے تمام انگریزوں اور جنرل بورڈن کو ہلاک کرڈالا اور انگریز مدتوں تک سوڈان کی طرف جانے کی جرئت نہیں کرسکتے تھے۔ انیسویں صدی میں انگریزوں نے افغانستان کا رخ کیا؛ اور افغانستان میں بھی شکست سے دوچار ہوئے، نہایت ہولناک شکست کھانا پڑی۔
وہ مدتوں تک افغانستان جانے کی جرئت نہیں کرستے تھے؛ کیونکہ وہ افغانستان میں ایسے افراد کو تلاش نہیں کرسکے تھے جن کو وہ منوا سکیں کہ انگریز افغانیوں سے زیادہ طاقتور ہیں اور یہی خوف وہ عوام میں رائج کریں لیکن انھوں نے ایران میں یہی کام کیا؛ عسکر خان رومی سے لے کر میرزا ملکم خان اور حتی رضا خان نوری اور محمود محمود تک، جناب خان ملک ساسانی سے لے کر محمد علی خان فروغی اور دوسروں تک، اور ان جیسے بہت سے دوسرے یقین کرچکے ہیں کہ برطانیہ طاقتور ہے۔
ہمارے بعض حکام سمجھتے ہیں کہ برطانیہ طاقت کا مرکز ہے، کیوں؟ اس لئے کہ انھوں نے جو انسانیات (Humanities) کا جو نظام مرتب کیا، اس کے ذریعے یہ اندازہ لگانے میں کامیاب ہوئے کہ لوگوں کے ذہنوں پر حکومت کی جاسکتی ہے اور بغیر اخراجات کے دوسروں کے ذہنوں پر حکومت کی جاسکتی ہے اور یوں وہ حکومت سے حاصلہ مفادات کو حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے۔ یہ روش انگریزوں نے سیکھ لی اور اچھی طرح سیکھ لی۔
جو کچھ انھوں نے تاریخ کے تجربے سے سیکھا، اسے اگلوں کو منتقل کیا اور ان کے درمیان یہ تجربہ باقی رہا لیکن جس وقت آپ برطانیہ کے حقائق اور ان ظاہری واقعات کے پس پردہ دیکھتے ہیں تو دیکھتے ہیں کہ یہ برطانیہ کی حقیقت نہیں ہے، بلکہ برطانیہ تو اسرائیل کا ورثہ لیئے ہوئے ہے لیکن بعد میں ہم دیکھتے ہیں کہ برطانیہ ہی اسرائیل کو معرض وجود میں لاتا ہے، لہذا اسرائیل کے نزدیک خوف و ہراس پیدا کرنے کا تجربہ اسلحے، وسائل اور مختلف قسم کے اوزار دینے سے زیادہ اہم اور قابل قدر تھا؛ چنانچہ اسرائیل اپنی ابتداء ہی سے کوشاں رہا کہ اسرائیل کی برتری کے وہم کو منتقل کرے۔
بالفاظ دیگر طاقت کا وہم پیدا کرنے اور حقائق میں تحریف کے سلسلے میں انھوں نے اچھی خاصی مہارت کا مظاہرہ کیا، اسی بنا پر مختصر سی جنگیں ـ جو انھوں نے لڑیں ـ جنگ کا اچانک کا آغاز کرکے شوشہ چھوڑ دیتے تھے کہ “اسرائیل ناقابل شکست ہے”، حالانکہ اگر ۱۹۶۷ کی ۶ روزہ جنگ اگر ۱۶ دن تک پہنچتی تو اسرائیل کو شکست ہوتی؛ اگر جنگ کچھ ہی دن مزید جاری رہتی تو اسرائیلی شکست کھا جاتے، چنانچہ وہ عربوں کے ذہنوں پر مسلط ہوئے، اور چونکہ ان کے ذہنوں پر مسلط ہوئے تھے آسانی سے عربوں کو شکست دے سکے۔
مجھے یاد ہے کہ کسی زمانے میں سید محمد شیرازی نے ایک کتاب لکھی جس کا عنوان تھا “دنیا یہود کا بازیچہ”؛ جس میں وہ یہ کہنا چاہتے تھے کہ یہودی پوری دنیا پر مسلط ہیں، اور ہر جگہ موجود ہیں، یہودی ہر جگہ طاقتور ہیں، ذرائع ابلاغ ان کے ہاتھ میں ہیں، اور یہ سوچ ہمارے ہاں بھی یہودیت کے بارے میں تحقیق کرنے والے دانشوروں کے درمیان راسخ ہوئی۔
یہودیوں کے بارے میں جادو ٹونے کرنے والے گروہ بھی ہیں، افسانہ سازی کرتے ہیں، جھوٹ پھیلا دیتے ہیں، کیونکہ ان کے ہاں داستان پردازی رواج رکھتی ہے، سوال یہ ہے کہ لوگ دوسروں کی داستان پردازیوں سے کیوں نہیں ڈرتے؟ وہم و گمان کیوں پیدا نہیں ہوتا؟ اس لئے کہ ہم نے داستانوں کے اس وہم پردازی والے پہلو پر زور نہیں دیا۔ ہمارے ہاں کی ایک مشکل یہ ہے کہ یہود کے بارے میں تحقیق کرنے والے بعض محققین نے عجیب انداز سے اس طاقت ان کی اصل طاقت سے کہیں زیادہ دیکھا۔ میں نے اپنی کتاب “عقاب علیہ شیر (عقاب شیر کے خلاف)” میں بھی ایک مثال دی ہے اور کہا ہے کہ تسلط پسند استکباری نظام ایک اخطبوطی (octopuslike) نظام ہے۔ اخطبوط (یا اخبوط) کے آٹھ بازو ہیں اور اس کا حلیہ بہت ہولناک ہے لیکن جب جب وہ شکار کو آٹھ بازؤوں سے پکڑتا ہے لیکن کیا اس کی پوری طاقت یکجا ہوجاتی ہے؟