اسرائیل کی جعلی مظلومیت کو ثابت کرنے کے لیے میڈیا کی الفاظ تراشی

  • ۴۴۴

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: فلسطین کے حالات منعکس کرنے میں مغربی میڈیا کی یہ بھرپور کوشش ہوتی ہے کہ فلسطین کے واقعات کو سنسر کر کے بیان کرے جبکہ دوسری جانب اسرائیل کے لئے یہی میڈیا ایسے الفاظ انتخاب کرتا ہے جن سے تشدد اور دھشتگردی کا مفہوم واضح نہ ہو۔ بی بی سی جسکا یہ دعویٰ ہے کہ وہ غیر جانبدارانہ نیوز ایجنسی ہے وہ کبھی بھی اسرائیل کے لیے ’’ٹرور‘‘ کا لفظ استعمال نہیں کرتی چونکہ اس لفظ سے تشدد اور دھشت کا مفہوم ذہن میں منتقل ہوتا ہے جبکہ اسی لفظ کو ہمیشہ ان نہتے فلسطینیوں کے بارے میں استعمال کرتی ہے جو اپنی جان و مال کا دفاع کرنے میں مصروف ہیں انہیں عام طور پر دھشتگرد پہچنواتی ہے۔
مثال کے طور پر امریکہ کا معروف اخبار نیویارک ٹائمز، یہودیوں کے خلاف نازیوں کی جھوٹی جارحیت کے بارے میں ہر طرح کا نازیبا لفظ استعمال کرنے سے گریز نہیں کرتا اور تمام من گھڑت جزئیات کو بھی بیان کرتا ہے لیکن یہی اخبار فلسطین اور غزہ میں اسرائیل کے ہاتھوں کئے جانے والے قتل عام کا تذکرہ تک بھی نہیں کرتا اور کہتا ہے: ’’حالیہ مہینوں میں اسرائیل کی جانب سے کچھ خاص افراد کو ٹارگٹ بنائے جانے نے فلسطینی عوام کو غضبناک کر دیا ہے‘‘   دوسری جگہ پر فلسطینی شخصیتوں کے ٹرور کئے جانے کو ’’سیاست میں تبدیلی‘‘ کے الفاظ سے بیان کرتا ہے۔
اسرائیلی ریاست اپنے حامی ذرائع ابلاغ میں فلسطینی عوام کے قتل عام کے بارے میں؛ ’’صفایا کرنا، روکنا، یہودیوں کے تحفظ کے لیے اقدامات، بامقصد ٹارگٹ کلنگ‘‘ جیسی تعبیریں استعمال کرواتی ہے۔
مثال کے طور پر یروشلیم پوسٹ   نیوز ایجنسی لکھتی ہے: سلامتی کابینہ کے رکن وزیر ’’ماٹن ویلنائے‘‘ نے آرمی ریڈیو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ وہ ہدفمند ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ جاری رکھنے کا ارادہ رکھتے ہیں‘‘۔
اسرائیل کے بارے میں استعمال کئے جانے والے الفاظ میں میڈیا کی باریک بینی اس بات کی علامت ہے کہ اسرائیل یا عالمی صہیونیت، دنیا والوں کے ذہنوں میں اپنی مظلومیت اور بے گناہی کا نقشہ کھینچنے کی کوشش کرتی ہے۔  

 

موساد کے خونی ہاتھ

  • ۳۷۹

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: شائد آپ نے تاحال موساد کے بارے میں کچھ نہیں سنا ہو گا۔ موساد وہی اسرائیل کی خفیہ ایجنسی کا نام ہے کہ جس کا اصلی کام، بین الاقوامی سطح پر جاسوسی کرنا ہے۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد دسیوں ہزار جاسوس اپنے گھروں کو واپس پلٹے لیکن ان میں بہت سارے جاسوس ایسے بھی تھے جو اپنے ملکوں میں واپس جانے کے بجائے اپنے خیال کے مطابق ’’سرزمین موعود‘‘ کی طرف چلے گئے اور اسرائیل کے پہلے وزیر اعظم ’’بن گورون‘‘ کے حکم سے ان کی ہاگانا (Haganah) نامی فوج  میں شامل ہو گئے اور اسی فوج سے موساد گروہ تشکیل دیا گیا۔
یہودی ایجنسیوں کی رہنمائی میں کام کرنے والی فوج ہاگانا، کئی فوج مانند ٹولوں جیسے بیتار، ائرگون اور لحی وغیرہ کو وجود میں لانے کا باعث بنی کہ جنہوں نے ’’دریاسین‘‘ اور دو گاؤں ’’اللد‘‘ اور ’’الرملہ‘‘ میں جارحیت کی۔ حیفا میں بم بلاسٹ کروائے ’’ملک داؤود‘‘ نامی ہوٹل کو منہدم کیا۔ ان ٹولوں کے جرائم اس قدر بھیانک تھے کہ 1948 میں اسرائیل کی فوج جب یافا شہر میں داخل ہوئی تو فلسطینیوں نے اپنی جانوں کے خوف سے گھر بار چھوڑ دئے اور شہر سے بھاگ گئے۔ اور اس شہر پر صہیونیوں نے غاصبانہ کر لیا۔
قابل توجہ بات یہ ہے کہ موساد کے سابق رکن اور کتاب( by way of deception) کے رائٹر ’’وکٹر اسٹرفسکی‘‘ سے موساد کے ذریعے کئے جانے والے قتل عام کے بارے میں جب سوال کیا گیا تو انہوں نامہ نگاروں کو کوئی جواب نہیں دیا اور صرف اپنا استعفیٰ دے کر موساد کے وحشیانہ قتل سے اظہار نفرت کا اعلان کیا۔
تاہم موساد اسرائیلی حکومت کو سکیورٹی دینے کے بہانے، کئی افراد کے خون سے اپنے ہاتھ رنگین کر چکی ہے جن میں محمود المبوح، شیخ احمد یاسین، عبد العزیز رنتیسی، سعید صیام، جرمنی کے ہائنتز کروگ، ہربرتز کوکرز، محمود ہمشاری، ڈاکٹر یحیٰ المشاد، عماد مغنیہ اور فتحی شقاقی وغیرہ کا نام لیا جا سکتا ہے۔

قوم یہود کا سرانجام قرآن کریم کی نگاہ میں (۲)

  • ۴۴۷

ارض موعود میں فساد و تباہی

قرآن کریم سورہ اسراء کی تیسری آیہ مبارکہ میں خبر دیتا ہے کہ بنی اسرائیل الہی لطف و کرم کے زیر سایہ اور پیغمبران الہی حضرت سلیمان اور حضرت داؤود کے ہمراہ اس سرزمین موعود میں وارد ہوئے (۹۵۰ ق،م) لیکن بجائے اس کے کہ وہ اس سرزمین پر احکام الہی کو نافذ کریں فساد و تباہی پھیلانے میں مصروف ہو گئے انہوں نے اس سرزمین پر ظلم و ستم کی بساط پھیلائی، الہی نعمتوں کی قدردانی کے بجائے کفران نعمت کیا لہذا خدا نے ان کے ظلم و تشدد کے نتیجے میں انہیں ہلاکت اور عذاب کا وعدہ دیا اور انہیں دردناک سرانجام سے آگاہ کیا۔
قوم یہود کی ہلاکت اور بابل کے زندان میں ان کی اسارت
اس کے بعد قرآن کریم اس سورے کی چوتھی آیت میں بنی اسرائیل پر نازل ہونے والے عذاب کی خبر دیتا ہے اور فرماتا ہے کہ بنی اسرائیل کے فساد و تباہی کی وجہ سے ہم نے ان کی ہلاکت کا وعدہ دے دیا ان پر ظالم و جابر بادشاہ مسلط کیا جو اشارہ ہے ’’بخت النصر اور اس کے لشکر‘‘ کی طرف۔ اور اس کے لشکر نے بنی اسرائیل کو سرزمین موعود کے چپے چپے پر تہہ تیغ کیا یہ ایسا عذاب تھا جو بنی اسرائیل کی لجاجت و ہٹ دھرمی کی وجہ سے ان کے دامن گیر ہوا۔ (۶۰۸ق،م)
قوم یہود کی رجعت اور معبد سلیمان کی تعمیر نو
قرآن کریم بنی اسرائیل کی ہلاکت اور ارض موعود سے ان کو نکال دئے جانے کی طرف اشارہ  کرنے کے بعد جو در حقیقت اسی تاریخی واقعہ کی طرف اشارہ ہے جو بابل کے بادشاہ بخت النصر کے ذریعے رخ پایا، بنی اسرائیل کی اس سرزمین میں بازگشت اور ان کی تجدید حیات کو بیان کرتے ہوئے فرماتا ہے کہ ہم نے ایک بار پھر تمہارے اوپر اپنی نعمتوں کے دروازے کھول دئے اور ایک جوان نسل، کثیر اموال اور دیگر نعمتوں کے ذریعے تمہاری مدد کی اور تمہیں نئی حکومت تک پہنچایا۔ یہ اشارہ ہے بنی اسرائیل کے زندان بابل سے ۷۰ سال کے بعد نجات پانے کی طرف جو دراصل ایرانی بادشاہ ’’کوروش‘‘ کے ذریعے انہیں زندان بابل سے نجات ملی اور ان کی نئی نسل کو دوبارہ زندگی نصیب ہوئی، ہیکل سلیمانی کی تعمیر نو کی گئی اور شریعت حضرت موسیٰ کو دوبارہ نافذ کیا گیا۔

بنی اسرائیل کا دوسری بار فساد پھیلانا
بنی اسرائیل کو دین سے دوری اور زمین میں فساد و تباہی پھیلانے کی وجہ سے اللہ نے انہیں جلاوطن اور ۷۰ سال تک زندان بابل میں اسیر کر دیا آخر کار توبہ و استغفار کے بعد زندان سے نجات ملی اور دوبارہ اپنے وطن واپس جانا نصیب ہوا۔ لیکن انسان کی سرشت یہ ہے کہ جب اسے کسی عذاب سے چھٹکارا ملتا ہے تو وہ اس عذاب اور اس کے اسباب کو فراموش کر دیتا ہے اور دوبارہ اسی گناہ و معصیت کا ارتکاب کرنے لگتا ہے جس کی وجہ سے عذاب میں مبتلا ہوا ہوتا ہے۔
بنی اسرائیل جب دوبارہ اپنے وطن واپس لوٹے تو شریعت حضرت موسی (ع) پر عمل پیرا ہونے کے بجائے رومیوں کے دین اور آداب و رسوم کے گرویدہ ہو گئے جن بتوں کی وہ پرستش کرتے تھے ان کو اپنا خدا ماننے لگے۔ الہی پیغمبروں حضرت یحییٰ اور حضرت زکریا جو انہیں توحید و یکتائی کی طرف دعوت دے رہے تھے اور دین الہی کی تعلیمات سے آشنا کر رہے تھے کو جھٹلا کر قتل کر دیا۔ اور رومیوں کے باطل دین کے پیروکار ہو گئے خداوند عالم نے ایک بار پھر انہیں عذاب میں مبتلا کیا اور انہی رومیوں جن کے دین کے وہ پیروکار ہو چکے تھے کے ذریعے انہیں ہلاکت سے دوچار کیا۔
قرآن کریم اس بارے میں فرماتا ہے: اس وقت کو یاد کرو جب تمہاری ہلاکت کا دوسرا وعدہ بھی پورا ہو گیا، اور تم ایک بار پھر ظلم و فساد میں ڈوب گئے اور تمہارے چہرے سیاہ ہو گئے۔ یعنی خدائے وحدہ لاشریک کو چھوڑ کر رومیوں کے خداوں کی پرستش اور ان کے باطل دین کی پیروی اور ان کے ظالم و ستمگر بادشاہ جسے قرآن نے ’’طاغوت‘‘ کا نام دیا ہے کی اطاعت وہ اسباب تھے جن کی وجہ سے بنی اسرائیل ایک بار عذاب الہی میں مبتلا ہوئے اور ان کے چہرے سیاہ ہو گئے۔
وَلِیُتَبِّرُوا مَا عَلَوْا تَتْبِیرًا ؛ قرآن کریم فرماتا ہے: اس کے بعد جب دوسرے وعدے کا وقت آیا تو ہم نے دوسری قوم کو مسلط کر دیا تاکہ تمہاری شکلیں بگاڑ دیں۔۔۔
رحمت و مغفرت کا وعدہ
قرآن کریم بنی اسرائیل کو دو مرتبہ عذاب میں مبتلا کرنے کے بعد انہیں رحمت و مغفرت کا وعدہ دیتا ہے یعنی الہی شریعت کو چھوڑ کر بابل و روم کے طاغوتوں کی پیروی نے انہیں کوئی فائدہ نہیں پہنچایا بلکہ انہیں ذلیل و رسوا کیا اور اللہ نے بھی اپنے دردناک عذاب  کا مزہ انہیں چکھا دیا۔ آخر کار دوسری مرتبہ عذاب الہی کا مزہ چکھنے کے بعد بنی اسرائیل نے توبہ اور استغفار کا راستہ اختیار کیا اور اللہ نے بھی ان کی توبہ قبول کی اور ان پر رحمت و مغرفت کا دروازہ کھول دیا۔
لیکن قرآن کریم بیان کرتا ہے کہ یہ قوم اس کے بعد بھی اپنی توبہ پر باقی نہیں رہی اور سب رحمت الہی کے دروازے سے داخل نہیں ہوئے انہوں نے حضرت عیسی پر ایمان لانے سے انکار کیا، پیغمبر اسلام کی رسالت کو ماننے سے انکار کیا جبکہ یہ یہودیوں کے لیے ایک غنیمت کا موقع تھا کہ وہ رسول خدا پر ایمان لے آتے اور گزشتہ انبیاء کے ساتھ جو انہوں نے ناروا سلوک کیا انہیں جھٹلایا، انہیں قتل کیا اس دھبے کو اپنے دامن سے پاک کر سکتے تھے۔ لیکن انہوں نے پھر وہی تاریخ دھرائی اور اللہ کے اس آخری نبی پر ایمان لانے کے بجائے اس کے خلاف بغاوت کے لیے اٹھ کھڑے ہوئے اور ابوجھل و ابو سفیان جیسوں کا سہارا لے کر اللہ کے آخری نبی کے مد مقابل آگئے۔
قوم یہود کی آخری ہلاکت
قرآن کریم اس بات کا قائل ہے کہ ایک مرتبہ پھر سرزمین موعود پر واپسی بنی اسرائیل اور قوم یہود کے مقدر میں ہے لیکن وہ ہمیشہ کی طرح اس بار بھی اس مقدس سرزمین پر سوائے ظلم و فساد کی بساط پھیلانے کے علاوہ کچھ نہیں کریں گے لیکن یہ ان کے پاس آخری موقع ہو گا اور اس کے بعد جب عذاب الہی ان کے سوراغ میں آئے گا تو ان کی بساط مکمل طور پر سمٹ جائے گی۔ «وَقُلْنَا مِن بَعْدِهِ لِبَنِی إِسْرَائِیلَ اسْکُنُواْ الأَرْضَ فَإِذَا جَاء وَعْدُ الآخِرَةِ جِئْنَا بِکُمْ لَفِیفًا» (سوره اسراء/104)
’’اور اس کے بعد ہم نے بنی اسرائیل سے کہہ دیا کہ اب زمین میں آباد ہو جاؤ پھر جب آخرت کے وعدے کا وقت آ جائے گا تو ہم تم سب کو سمیٹ کر لے آئیں گے۔‘‘
بعض تفسیروں کے مطابق قرآن کی یہ تعبیر ’’وعد الآخرہ‘‘ قوم یہود کی ہلاکت کا آخری وعدہ ہے جو اسی سرزمین موعود میں انجام پائے گا ان کی ’’ارض نعمت‘‘ ’’ارض نقمت‘‘ میں تبدیل ہو جائے گی۔
سورہ اسراء کی آٹھویں آیت میں بھی قرآن کریم بنی اسرائیل کی آخری ہلاکت کے بارے میں فرماتا ہے: «عَسَى رَبُّکُمْ أَن یَرْحَمَکُمْ وَإِنْ عُدتُّمْ عُدْنَا وَجَعَلْنَا جَهَنَّمَ لِلْکَافِرِینَ حَصِیرًا»
امید ہے کہ تمہارا پروردگار تم پر رحم کر دے لیکن اگر تم نے دوبارہ فساد کیا تو ہم پھر سزا دیں گے اور ہم نے جہنم کو کافروں کے لیے ایک قید خانہ بنا دیا ہے۔
یعنی اگر تم نے دوبارہ اس سرزمین موعود پر ظلم و ستم کی داستان شروع کر لی تو ہمارا عذاب تمہارے سوراغ میں پھر آئے گا۔ گویا اس آیت میں قرآن کریم بنی اسرائیل کے انجام کی خبر دیتا ہے اور اس کی نشانی اور علامت انکا ظلم و ستم اور فساد و تباہی ہے۔ یعنی واضح لفظوں میں یوں کہیں کہ اس ارض موعود میں یہودیوں کا ایک بار پھر جمع ہونا اور ان کی طرف سے ظلم و ستم کی داستان دوبارہ رقم کرنا ان کے آخری زوال اور نابودی کی علامت ہے۔
قرآن کریم اس بات پر تاکید کرتا ہے کہ اب آخری بار خداوند عالم خود قوم یہود کی نابودی کے لیے اقدام کرے گا اس لیے کہ اس نے اس سے قبل دو مرتبہ دوسروں کو ان کی نابودی کے لیے بھیجا ایک مرتبہ بادشاہ بابل کو اور دوسری مرتبہ بادشاہ روم کو لیکن تیسری اور آخری مرتبہ جو عذاب الہی ان کے دامن گیر ہو گا اور ان کی نابودی یقینی ہو گی وہ خدا کے صالح بندوں اور مومنین کے ذریعے ہو گی اور یہ ایسی نابودی ہو گی کہ اس کے بعد وہ اس سرزمین کا رخ نہیں کر پائیں گے۔

 

قوم یہود کا سرانجام قرآن کریم کی نگاہ میں (۱)

  • ۵۹۵

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: قرآن کریم بنی اسرائیل اور قوم یہود جو حضرت موسی (ع) کے واسطے نجات یافتہ ہوئے اور اللہ کی ان پر نعمتیں نازل ہوئی کی کمزوریوں کو بیان کرتا ہے کہ یہ بچھڑے کی پوجا کرنے لگے اللہ کی نشانیوں کا انکار کرنے لگے ان کے دل پتھر کے مانند ہو گئے انہوں نے انبیائے بنی اسرائیل کا قتل کیا اور آخر کار خداوند عالم کے غضب کا نشانہ بنے اور خدا نے انہیں ذلت و رسوائی سے دوچار کیا۔
مقدمہ
قرآن کریم قوم یہود کو مسلمانوں کا بدترین دشمن قرار دیتا ہے۔ عصر حاضر میں بھی اس کی مثال یہودی ریاست ہے جو عالم اسلام کی بدترین دشمن ہے۔ اس یہودی ریاست اور قوم یہود کا سرانجام کیا ہو گا؟ اس کو جاننے کے لیے درج ذیل تحریر ملاحظہ فرمائیں۔
قرآن کریم سورہ یوسف میں بنی اسرائیل کی پیدائش اور کنعان سے سرزمین مصر ان کی ہجرت کے واقعات کو بیان کرتا ہے، سورہ یوسف کے بعد سورہ اسراء میں ان کی گمراہی اور سرزمین موعود میں ان کے ظلم و فساد اور ان کی وعدہ خلافیوں کا تذکرہ کرتا ہے اور آخر میں ان پر نازل ہونے والے الہی قہر و غضب کی خبر دیتا ہے کہ اس قوم نے جو عہد شکنیاں کیں، زمین میں جو فساد و تباہی پھیلائی اس کی وجہ سے ان کی ’’ارض موعود‘‘ ’’ارض ہلاکت‘‘ میں تبدیل ہو گئی۔ اور ان کا سرانجام بھی ابلیس کے جیسا انجام ہوا کہ اس نے بھی الہی نعمتوں کی قدردانی نہیں کی اور طغیان و تکبر سے کام لیا اور راندہ درگاہ ہو گیا۔ جیسا کہ سورہ بقرہ میں بھی ابلیس کے قصے کے بعد بنی اسرائیل کے عناد و استکبار کا تذکرہ ہوا ہے کہ یہ قوم بھی مجسم شیطان اور دجال زمانہ ہے۔
سورہ اسراء جس کا دوسرا نام ہی بنی اسرائیل ہے قرآن کریم کے حیرت انگیز سوروں میں سے ایک ہے اور اس میں بہت ہی اہم نکات کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔
پیغمبر اسلام کا ارض موعود میں داخلہ
خداوند عالم اس سورہ کی پہلی آیت جو لفظ ’’سبحان‘‘ سے شروع ہوتی ہے اور اس کے مطالب کی عظمت اور اہمیت کی طرف اشارہ کرتی ہے میں پیغمبر اسلام کے ایک ہی رات میں مسجد الحرام سے مسجد الاقصیٰ کے سفر اور انہیں الہی نشانیوں کو دکھلانے کی خبر دیتا ہے۔ اس آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ خداوند عالم اپنے نبی کو سرزمین مکہ؛ جو توحید ابرہیمی کا مرکز ہے سے پیغمبروں کی ارض موعود جو سرزمین فلسطین ہے کا سفر کرواتا ہے اور در حقیقت ان دونوں سرزمینوں پر اپنے نبی کی حاکمیت کو بیان کرتا ہے جیسا کہ احادیث معراج سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ اس مقام پر تمام پیغمبر رسول خدا(ص) کے حضور میں حاضر ہوتے ہیں اور آپ کی رسالت و امامت کا اقرار کرتے ہیں اور تمام انبیائے الہی کے واسطے اس سرزمین موعود پر امت واحدہ تشکیل پاتی ہے گویا وہ سرزمین جس پر تمام پیغمبر حکومت الہی کی تشکیل اور شریعت الہی کے نفاذ کے لیے سعی و تلاش کرتے رہے اس پر پیغمبر اسلام کی امامت میں امت واحدہ تشکیل پانے کی نوید دیتے ہیں۔
لہذا اس سورہ کی سب سے پہلی آیت اس سرزمین میں عدل الہی کے قیام کی بشارت دیتی ہے اور پیغمبر اسلام اور ان کے اصحاب و انصار و ان کے کلمہ گو کو اس سرزمین کے وارث قرار دیتی ہے۔
تورات کا نزول عدالت کی حاکمیت کے لیے
قرآن کریم اس سورہ مبارکہ کی دوسری آیت میں حضرت موسی علیہ السلام کی رسالت کا تذکرہ کرتا ہے اور بیان کرتا ہے کہ خداوند عالم نے موسی کو مقام نبوت پر فائز کیا اور ان پر تورات نازل کی اور تورات کو بنی اسرائیل کی ہدایت کا منشور قرار دیا تاکہ وہ شریعت الہی کا نفاذ عمل میں لائیں، تورات پر عمل کریں، شریعت کو اپنا حاکم بنائیں اور خدا کو اپنا مولا اور ولی قرار دیں۔ (۱۴۴۷ ق۔ م)

 

یہودیوں کی خصلتیں قرآن کریم کی نظر میں

  • ۴۲۲

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: عالم انسانیت کے بد ترین دشمن یہودی ہیں قرآن کریم نے بھی اس بات اعلان کیا ہے اور تاریخ و تجربہ نے بھی اس چیز کو ثابت کیا ہے۔
اس بات سے قطع نظر کہ آج کی دنیا میں یہودی قوم دوسری قوموں کے ساتھ کیسا سلوک کر رہی ہے اگر ہم اس قوم کی گزشتہ تاریخ پر بھی نظر دوڑائیں تو معلوم ہو گا کہ دیگر قومیں کس قدر اس ستمگر قوم کے ظلم و تشدد کا شکار رہی ہیں۔
اس مختصر تحریر میں ہم قرآن کریم کی نگاہ سے قوم یہود کی چند خصلتوں کی طرف اشارہ کرتے ہیں جو پروردگارعالم نے خود قرآن میں بیان کی ہیں۔
قرآن کریم میں چار سو سے زیادہ آیتیں بنی اسرائیل کے بارے میں ہیں ان آیتوں میں بنی اسرائیل کے قصوں کے علاوہ دوسری قوموں کی نسبت پائی جانے والی ان کی دشمنی کی طرف بھی اشارہ کیا گیا ہے۔ لیکن چونکہ ان تمام آیتوں کا جائزہ لینا ایک مستقل اور مفصل موضوع ہے اور اس تحریر میں اس کی گنجائش نہیں لہذا صرف بعض عناوین کی طرف یہاں اشارہ کرتے ہیں:
الف؛ تاریخی خصلتیں (۱)
۱، دین سے بغاوت اور سامری کے بچھڑے کی پرستش
۲، خدا کی جسمانیت پر عقیدہ اور خدا کی رؤیت کا مطالبہ
۳، صحراؤں میں چالیس سال تک جلاوطنی کی سزا بھگتنا
۴، خدا اور حضرت موسی (ع) کے ساتھ ہٹ دھرمی اور لجاجت
۵، انبیاء اور پیغمبروں کا قتل
۶، اسیروں کا قتل جن کے قتل سے منع کیا گیا تھا
۷، سنیچر کے دن کی حرمت کی اطاعت نہ کرنا
۸، ان میں بعض کا بندر کی شکل میں تبدیل ہونا (۲)
۹، ربا، سود اور چوری کو جائز قرار دینا
۱۰، کلمات الہی میں تحریف پیدا کرنا (۳)
۱۱، اس بات پر عقیدہ رکھنا کہ خدا کا ہاتھ نعوذ باللہ مفلوج ہے (۴)
۱۲، حق کی پہچان کے بعد اس کی پیروی نہ کرنا
۱۳، آیات الہی کا مشاہدہ کرنے کے باوجود ان کا انکار کرنا(۵)
۱۴، آسمانی بجلی گرنے کے بعد سب کو ایک ساتھ موت آنا اور دوبارہ زندگی ملنا (۶)
۱۵، گناہوں کی وجہ سے شقاوت قلب کا پیدا ہونا (۷)
۱۶، اس بات پر عقیدہ کہ وہ خدا کے بیٹے ہیں اور خدا انہیں عذاب نہیں کرے گا۔ (۸)
یہودیوں کی ذاتی خصلتیں قرآن کریم کی روشنی میں
۱، مادہ پرستی
قرآن کریم نے قوم یہود کی ایک خصلت یہ بیان کی ہے کہ وہ مادہ پرست ہیں یہاں تک کہ وہ خدا کو بھی اپنی ظاہری آنکھوں سے دیکھنا چاہتے ہیں۔ فَقَدْ سَأَلُوا مُوسَىٰ أَکْبَرَ مِنْ ذَٰلِکَ فَقَالُوا أَرِنَا اللَّهَ جَهْرَةً فَأَخَذَتْهُمُ الصَّاعِقَةُ بِظُلْمِهِمْ ۚ )9(
’’انہوں نے موسیٰ سے اس سے بڑی مانگ کی اور کہا ہمیں خدا کو آشکارا دکھلاؤ پس ان کے ظلم کی وجہ سے آسمانی بجلی نے انہیں اپنی لپیٹ میں لے لیا‘‘۔
۲، مال و ثروت کی لالچ
پروردگار عالم نے قرآن کریم میں یہودیوں کی ایک صفت یہ بیان کی ہے کہ وہ مال دنیا کی نسبت بے حد حریص اور لالچی ہیں۔
وَ لَتَجِدَنَّهُمْ أَحْرَصَ النَّاسِ عَلى‌‌ حَیاةٍ وَ مِنَ الَّذینَ أَشْرَکُوا یَوَدُّ أَحَدُهُمْ لَوْ یُعَمَّرُ أَلْفَ سَنَةٍ وَ ۔۔۔ (بقرہ ۹۶)
’’اے رسول آپ دیکھیں گے کہ یہ (یہودی) زندگی کے سب سے زیادہ حریص ہیں اور بعض مشرکین تو یہ چاہتے ہیں کہ انہیں ہزار برس کی عمر دی جائے جبکہ یہ ہزار برس بھی زندہ رہیں تو طول حیات انہیں عذاب الہی سے نہیں بچا سکتا‘‘
۳، مومنوں اور مسلمانوں سے دشمنی و عداوت
قرآن کریم سورہ مائدہ کی ۸۲ ویں آیت میں فرماتا ہے: لَتَجِدَنَّ أَشَدَّ النَّاسِ عَداوَةً لِلَّذِینَ آمَنُوا الْیَهُودَ وَ الَّذِینَ أَشْرَکُوا  ’’آپ دیکھیں گے کہ صاحبان ایمان سے سب سے زیادہ عداوت رکھنے والے یہودی اور مشرک ہیں‘‘۔
آخری دو خصلتوں کو آج کے یہودیوں اور صہیونیوں میں بھی تلاش کیا جا سکتا ہے۔ جو کچھ اس وقت دنیا میں خصوصا بیت المقدس میں ہو رہا ہے وہ یہودیوں کی مسلمانوں اور اسلامی آثار کی نسبت شدید ترین دشمنی کا نمونہ ہے۔ سورہ آل عمران کی ۹۹ آیت میں خداوند عالم یہودیوں کی ملامت کرتے ہوئے فرماتا ہے: قُلْ یَا أَهْلَ الْکِتَابِ لِمَ تَصُدُّونَ عَنْ سَبِیلِ اللَّهِ مَنْ آمَنَ تَبْغُونَهَا عِوَجًا وَأَنْتُمْ شُهَدَاءُ وَمَا اللَّهُ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُونَ
’’کہیے! اے اہل کتاب کیوں صاحبان ایمان کو راہ خدا سے روکتے ہو اور اس کی کجی تلاش کرتے ہو جبکہ تم خود اس کی صحت کے گواہ ہو اور اللہ تمہارے اعمال سے غافل نہیں ہے‘‘۔
یہودی اپنے برے مقاصد حاصل کرنے کے لیے عام طور پر خفیہ سازشیں اور خطرناک پروپیگنڈے کرتے ہیں جن کے ذریعے نادان اور سادہ لوح افراد کو با آسانی شکار کر لیتے ہیں۔ اس وجہ سے خداوند عالم نے بعد والی آیت میں مومنین کو مخاطب کرتے ہوئے خبردار کیا ہے کہ دشمن کی زہر آلود سازشوں کا شکار نہ بنیں اور انہیں اپنے اندر نفوذ پیدا کرنے کی اجازت نہ دیں۔ (۱۰)
صدر اسلام کے مسلمانوں کی نسبت قوم یہود کی عداوتوں اور خفیہ سازشوں کے بے شمار نمونے تاریخ میں موجود ہیں جو اس بات کی عکاسی کرتے ہیں کہ انہوں نے مومنین کی سادہ لوحی اور غفلت سے بخوبی فائدہ اٹھایا۔ مثال کے طور پر جنگ خندق میں وہ منافقین اور یہودی جو پیغمبر اکرم کے حکم سے مدینہ چھوڑنے پر مجبور ہوئے انہوں نے دشمنان اسلام کو تحریک کیا کہ وہ مسلمانوں کے خلاف صف آراء ہوں اور وہ ان کی پشت پناہی کریں۔ انہوں نے کفار سے کہا: تم مطمئن رہو کہ تم حق پر ہو اور تمہارا دین محمد کے دین سے بہتر ہے(۱۱) اس کے بعد بنی قینقاع، بنی قریظہ اور بنی نظیر کے یہودیوں کی مسلمانوں کے خلاف سازشیں کسی پر ڈھکی چھپی نہیں ہیں۔ (۱۲)
لیکن خداوند عالم نے انہیں ہر مقام پر ذلیل و رسوا کیا ’’ضربت الیھم الذلۃ‘‘ ذلت اور رسوائی کی طوق ان کی گلے میں لٹکا دی جو بھی قوم گناہوں میں غرق ہو جائے گی دوسروں کے حقوق پر تجاوز کرے گی اس کا سرانجام ذلت و رسوائی ہو گا۔ (۱۳)
آج بھی یہ قوم مسلمانوں کے خلاف پروپیگنڈے اور سازشیں کرنے میں سرفہرست ہے فلسطین کے مظلوم مسلمانوں کو ان کے آشیانوں اور کاشانوں سے باہر نکال کر ان کا قتل عام کر رہی ہے ان پر ظلم و ستم کی تاریخ رقم کر رہی ہے صرف دنیا کی لالچ میں اقتدار کی لالچ میں ملک اور زمین کی لالچ میں۔ لیکن اللہ کا وعدہ ہے کہ مستضعفین زمین کے وارث بنیں گے اور ظالم و ستمگر ذلیل و خوار ہو کر نابود ہو جائیں گے۔ (۱۴)
حوالہ جات
1. تفسیر نمونه و المیزان، ذیل آیات 153- 161، سوره نساء
2. نساء(4)/47
3. بقره(2)/79
4. مائده(5)/64
5. عنکبوت(29)/32
6. بقره(2)/55
7. بقره،(2)/74
8. بقره(2)/95
9. نساء(4)/153
10. ر.ک: نفسیر نمونه، ج3، ص 23- 22
11. ر.ک: تاریخ اسلام، محلاتی، ج1، ص 132- 131
12. ر.ک : تاریخ اسلام، منتظر القائم، صص 214- 220
1۳. ر.ک: تفسیر نمونه،ج 3، ص 54
1۴. وہی، ج23، ص 499

کیا ڈین کونٹز نے 40 سال پہلے کورونا وائرس کی پیش گوئی کی تھی؟

  • ۴۰۷

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: حالیہ دنوں میں، امریکی ناول نگار ڈین کونٹز (Dean Koontz)  کے ناول "اندھیرے کی آنکھیں" کے بارے میں بہت کچھ کہا جا رہا ہے کہ اس نے 40 سال قبل ’’ووہان ۴۰۰‘‘ نامی کورونا وائرس کے پھیلنے کی پیش گوئی کی تھی۔
ڈین کونٹیز کا ناول ایک خیالی ناول ہے۔ کورونا وائرس آخر الزمان میں دنیا بھر میں بہت سارے لوگوں کو ہلاک کرنے والے آرماجیڈن وائرس (The Armageddon virus)  کی صنف میں سے ہے اور گزشتہ دہائیوں سے کئی فلمیں اور ٹیلی ویژن سیریز اور داستانیں اسی موضوع پر بنائی جا چکی ہیں۔  لہذا ڈین کونٹز نے جس موضوع کا انتخاب کیا وہ کوئی نیا موضوع نہیں ہے اور اس کی ایک طولانی تاریخ ہے۔
حالیہ دنوں میں ڈین کونٹیز کی مقبولیت کی دو وجوہات ہیں: ایک ، اس وائرس کے پھیلنے کا سال ۲۰۲۰ ہے، دوسری ’’ووہان ۴۰۰‘‘ کے نام کا انتخاب جو چین کا شہر ہے جہاں سے اس وقت یہ وائرس پھیلنا شروع ہوا ہے۔
۲۰۲۰ آخری زمانے کے وائرس کے پھیلاؤ کا سال بھی کوئی ڈین کونٹز کی ایجاد نہیں ہے۔ بلکہ اس سے قبل بھی کچھ لوگ ایسے تھے جنہوں نے آخری زمانے کے عنوان سے مختلف سال بیان کئے ہیں جن میں سے ڈین ڈیکسن امریکی منجمہ کا نام لیا جا سکتا ہے انہوں نے بھی ۲۰۲۰ کو آخری زمانے کا سال قرار دیا۔
’’ووہان ۴۰۰ وائرس‘‘ کے نام کا انتخاب بھی کوئی ڈین کانٹز کی ہی پیش گوئی نہیں ہے۔ ڈین کانٹز کی کتاب پہلی بار ۱۹۸۱ میں منظر عام پر آئی، یہ وہ زمانہ تھا جب رونالڈ ریگن کی صدارت کا آغاز ہوا اور امریکہ اور سوویت یونین کے دو بلاکوں کے درمیان زبردست سرد جنگ جاری تھی۔ امریکہ میں ’برائی‘ کو کمیونسٹ معاشرے سے نسبت دے کر اس کے بارے میں قابل توجہ فلمیں بنائی اور کہانیاں لکھی جا رہی تھیں۔ ڈین کونٹیز نے اپنی کتاب میں جو اپنے تخلص ’لی نکولس‘ کے نام سے شائع کی میں آخری زمانے کے وائرس کو سوویت یونین کی طرف منسوب کیا۔ وہ پہلے ایڈیشن میں اس کا نام ’گورکی ۴۰۰‘ رکھتے ہیں جو سوویت یونین کا اس دور میں اہم تحقیقاتی شہر تھا۔
ڈین کونٹز کی کتاب کا دوسرا ایڈیشن ۱۹۸۹ میں شائع ہوا جس میں انہوں نے اپنے اصلی نام کا استعمال کیا۔ یہ سوویت یونین کے خاتمے کا دور تھا اور اس زمانے میں سوویت یونین سے خوف کوئی معنی نہیں رکھتا تھا۔ لہذا ڈین کونٹز نے اس ایڈیشن میں وائرس کو ووہان ۴۰۰ کے نام سے بدل دیا۔ اور اس کا مرکز چین کا شہر ’ووہان‘ قرار دیا جو ۱۹۶۰ سے چین کا علمی اور تحقیقاتی شہر کہلاتا تھا۔ چین نے چونکہ اس دور میں مغرب پر قبضہ جمانے کی ابھی نئی پالیسیوں کا آغاز نہیں کیا تھا۔

 

بوڑھا سامراج اور استعماری طاقتیں

  • ۴۸۲

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: برطانیہ ان سامراجی اور استعماری طاقتوں میں سے ایک ہے جس نے برصغیر کے سرمایے کو لوٹنے میں کوئی لمحہ فروگزاشت نہیں کیا۔ سالہا سال اس علاقے پر ناجائز قبضہ کر کے برصغیر کا سارا سرمایہ غارت کر لیا لیکن آخر کار ہندوستان کے عوام نے انقلابی تحریک وجود میں لا کر انگریزوں کو بظاہر اپنی سرزمین سے باہر کیا اور برصغیر سے سامراجی نظام کا خاتمہ کیا۔
لیکن حقیقت یہ ہے کہ صہیونی دانشور اور سیاست دان سامراجی عناصر کے ہمراہ، قدیم الایام سے اپنے عالمی تسلط کے نظریے کے تحت برصغیر پر قبضہ جمانے کے لیے تزویری اقدامات انجام دینے کے قائل تھے اور برطانیہ کے ہندوستان پر قبضے کے دوران اپنے قدم مضبوط کرنے کی کوششوں میں مصروف رہے اور سامراجی طاقت بھی اس راہ میں انہیں تعاون فراہم کرتی رہی۔ در حقیقت برطانیہ نے جب ہندوستان کو چھوڑا تو اسرائیل کے لیے ہندوستان میں مکمل فضا قائم ہو چکی تھی اس لیے بغیر کسی شور شرابے کے برطانیہ ہندوستان میں اپنا جانشین چھوڑنے پر کامیاب ہوا تاکہ قدس کی غاصب ریاست برصغیر مخصوصا بھارت کے سکیورٹی نظام میں اپنا گہرا نفوذ حاصل کر سکے۔
دوسری جانب سوویت یونین نے جب افغانستان پر اپنا تسلط ختم کیا تو امریکہ کو اس علاقے میں گھسنے کا موقع مل گیا۔ امریکہ نے سوویت یونین کا مقابلہ کرنے کے بہانے سے، پاکستان میں اپنی امداد رسانی شروع کر دی۔ اور سوویت یونین کی شکست اور خاتمے کے بعد القاعدہ اور طالبان جیسے ٹولے وجود میں لاکر علاقے میں اپنی موجودگی کے لیے ایک نیا بہانہ تراش لیا۔ لہذا ۱۱ ستمبر کے حادثے کے بعد پاکستان بھی علاقے میں دھشتگردی کا مقابلہ کرنے کی غرض سے امریکہ کا اتحادی بن گیا۔ یہ ایسے حال میں ہے کہ پاکستان پر جوہری تجربات کی بنا پر امریکہ کی جانب سے پابندیاں عائد تھیں۔ لیکن اس کے باوجود امریکہ نے علاقے میں اپنی موجودگی کو بحال رکھنے کے لیے بعض مسائل سے چشم پوشی اختیار کر لی۔
تیسری جانب سعودی عرب نے برصغیر میں اہل سنت کی تمایلات اور رجحانات سے فائدہ اٹھاتے ہوئے وہابیت کو پھیلا دیا۔ سعودی عرب نے امریکہ کی حمایت کہ جو افغانستان پر قبضہ کرنے میں سوویت یونین کا مقابلہ کرنے کے دوران آغاز ہوئی، سے ہندوستان، پاکستان اور افغانستان کے حوزہ ہائے علمیہ کو اپنے اختیار میں لے لیا۔
علاوہ از ایں علاقے میں اسلامی انقلاب کے نفوذ کو روکنا بھی امریکی سعودی پالیسیوں کا ایک حصہ تھا۔
تنازعہ اور کشمکش
ہندوستان پر برطانیہ کے قبضے کے دوران برصغیر کا اکثر علاقہ ایک ہی جیوپولیٹک علاقہ شمار ہوتا تھا صرف نیپال اور بوٹان کے کچھ علاقے انگریزیوں والے ہندوستان سے باہر تھے۔ لیکن برطانیہ کے تسلط کے خاتمہ اور برصغیر کی تقسیم کے بعد، یہ علاقہ جنگ و جدال کا مرکز بن گیا۔ یہاں تک کہ ہند و پاک کے درمیان ہونے والی جنگوں میں ایک ملین سے زیادہ لوگ مارے گئے۔
اس کے علاوہ، سری لنکا جو ۱۹۴۸ میں آزاد ہوا تقریبا دو دہائیوں سے تامل بدھسٹ انسٹی ٹیوٹ کی علیحدگی پسند تحریک کی بغاوت سے دوچار ہے۔ اس علاقے میں بنگلادیش حکومت نے بھی ایسے دور میں جنم لیا کہ مشرقی بنگال پاکستان کے زیر تسلط تھا اور ۱۹۷۱، ۷۲ کی جنگوں میں پاکستان سے الگ ہوا جس میں تقریبا پانچ سو افراد کا قتل عام ہوا۔
ایسے حال میں کہ آج استعماری حاکمیت کے دور سے ستر سال سے زیادہ کا عرصہ گزر چکا ہے لیکن ابھی بھی ہندوستان کی رگوں میں سامراجیت کا خون دوڑ رہا ہے بظاہر تو ہندوستانی سیاسی پارٹیاں بھارتی ہونے کے نام پر جمہوریت کے میدان میں سرگرم عمل ہیں اور لوگوں کے ووٹوں سے منتخب ہو کر ریاستی حکومت تشکیل دیتی ہیں لیکن باطن میں ابھی بھی سامراجی فکر، سامراجی سوچ، سامراجی پالیسیوں اور قوانین پر عمل ہو رہا ہے۔ ابھی بھی بہت کچھ اصلاح کرنے کے لیے باقی ہے۔ برصغیر کا علاقہ دنیا کی آبادی کے پانچویں حصے کو تشکیل دیتا ہے لیکن اس کے باوجود اس کی خستہ حالی اور غربت و مفلسی دنیا کے لیے مثالی تصویر بن چکی ہے۔ ہند و پاک کا سارا بجٹ سرحدوں کے تحفظ اور عسکری طاقت کو مضبوط بنانے میں صرف ہوتا جا رہا ہے دوسری طرف اندرونی حالت یہ ہے کہ مذہبی اختلاف اور قومی فرقہ واریت اپنے عروج کو پہنچ چکی ہے۔ یہ تمام عوامل اس بات کا باعث بن رہے ہیں کہ برصغیر کے ممالک میں مزید دوریاں پیدا ہوں اور آپسی اعتماد کو زبردست ٹھیس پہنچے جبکہ علاقائی سطح پر اپنی شناخت میں ناکامی کا منہ دیکھنا پڑے۔

 

بھارت اسرائیل کے دوطرفہ تعلقات

  • ۳۹۷

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ کے مطابق، بھارت اسرائیل تعلقات کا قیام مختلف عوامل کا حامل ہے دونوں فریق ان تعلقات کو صرف اپنے مفادات کی عینک سے دیکھتے ہیں۔ اسرائیل ہندوستان کو اسلحہ فروشی کی بہترین منڈی اور اپنے جنگی ہتھیاربیچنے کے لیے بہترین مارکٹ کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔ جبکہ بھارت بھی اسرائیل کو فوجی ساز و سامان اور دفاعی میدان میں جدید ٹیکنالوجی جو امریکہ و یورپ سے اسے اتنی آسانی سے دستیاب نہ ہو پاتی کو فراہم کرنے والے دلال کے عنوان سے دیکھتا ہے۔
ہندوستان کی خارجہ پالیسی میں ایک اور تبدیلی بھارت کی اسرائیل کے ساتھ تعلقات میں گہرائی ہے کہ ایسے روابط بدرجہ اولیٰ ہندوستانی کی خارجہ سیاست کو متاثر کریں گے۔ البتہ ان روابط کا ایک نتیجہ یہ ہے کہ بھارت میں ہندو نسل پرستی عروج پا جائے گی اور اسلامی سماج زوال کا شکار ہو گا۔ (صدوقی، ۱۳۸۷؛ ۹۴)
اسرائیل اس وقت روس کے بعد بھارت کے نزدیک دوسرا فوجی شریک شمار ہوتا ہے۔ دونوں فریق میزائلی طاقت کو وسعت دینے میں ایک دوسرے کا تعاون کرتے ہیں۔
ہندوستان کی پی ٹی آئی نیوز ایجنسی نے جنوری ۲۰۰۴ میں ایک رپورٹ شائع کی تھی جس میں کہا گیا تھا کہ ہندوستان اور اسرائیل کے درمیان دفاعی قوت کو بڑھانے کے لیے قرار داد منظور کی گئی ہے۔ اس قرارداد پر بھارتی عہدیداروں اور صہیونی ریاست کے وزیر سائنس و ٹیکنالوجی نے بنگلور میں دستخط کئے۔ اس معاہدے کے مطابق، جی ایس آئی ۴ سیٹلائٹ بھارتی خلائی ریسرچ آرگنائزیشن ۲۰۰۵ میں ایک اسرائیلی ٹیلی اسکوپ کو اپنے ساتھ خلاء میں بھیجے گا یہ ٹیلی سکوپ خلاء سے تصویربرداری پر قادر ہو گا اور اس کے ذریعے حاصل ہونے والی معلومات بھارتی اور اسرائیلی متخصصین کے ذریعے مورد تحقیق قرار پائیں گی۔
بھارت اور اسرائیل کے درمیان عسکری تعاون خاص طور پر خلائی میدان میں ستمبر ۲۰۰۷ میں اسرائیلی سیٹلائٹ کو خلاء میں بھیجنے پر منتج ہوا۔ بعض رپورٹوں سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس سیٹلائٹ کو بھیجنے کا اہم ترین مقصد اسلامی جمہوریہ ایران کے ایٹمی پلانٹ پر نظر رکھنا ہے۔ اس سیٹلائٹ کا ۳۰۰ کلو گرام وزن تھا اور ٹکسار اس کا نام۔ اس سے قبل بھی اسرائیل افق ۷ سیٹلائٹ کو خلاء میں بھیجنے کا تجربہ کر چکا تھا۔ لیکن دوسرا سیٹلائٹ کہیں زیادہ قابلیتوں اور صلاحیتوں کا مالک تھا خاص طور پر وہ راڈٓر ٹیکنالوجی سے لیس تھا۔ یہ عرض کر دینا بھی ضروری ہے کہ اس سے قبل بھی ہندوستان اور اسرائیل کے درمیان عسکری میدان میں باہمی تعاون جاری تھا۔
اسرائیل کی جانب سے ہندوستان کے ساتھ خصوصی تعلقات وجود میں لانے کی کوشش جاری ہے۔ یہ تعلقات انفارمیشن ٹیکنالوجی، بالیسٹک میزائیل، خلائی پروگراموں اور اسلحہ سازی کی صنعت کے میدان میں تعاون کے حوالے سے پائے جاتے ہیں۔