-
Sunday, 8 March 2020، 06:45 PM
ارض موعود میں فساد و تباہی
قرآن کریم سورہ اسراء کی تیسری آیہ مبارکہ میں خبر دیتا ہے کہ بنی اسرائیل الہی لطف و کرم کے زیر سایہ اور پیغمبران الہی حضرت سلیمان اور حضرت داؤود کے ہمراہ اس سرزمین موعود میں وارد ہوئے (۹۵۰ ق،م) لیکن بجائے اس کے کہ وہ اس سرزمین پر احکام الہی کو نافذ کریں فساد و تباہی پھیلانے میں مصروف ہو گئے انہوں نے اس سرزمین پر ظلم و ستم کی بساط پھیلائی، الہی نعمتوں کی قدردانی کے بجائے کفران نعمت کیا لہذا خدا نے ان کے ظلم و تشدد کے نتیجے میں انہیں ہلاکت اور عذاب کا وعدہ دیا اور انہیں دردناک سرانجام سے آگاہ کیا۔
قوم یہود کی ہلاکت اور بابل کے زندان میں ان کی اسارت
اس کے بعد قرآن کریم اس سورے کی چوتھی آیت میں بنی اسرائیل پر نازل ہونے والے عذاب کی خبر دیتا ہے اور فرماتا ہے کہ بنی اسرائیل کے فساد و تباہی کی وجہ سے ہم نے ان کی ہلاکت کا وعدہ دے دیا ان پر ظالم و جابر بادشاہ مسلط کیا جو اشارہ ہے ’’بخت النصر اور اس کے لشکر‘‘ کی طرف۔ اور اس کے لشکر نے بنی اسرائیل کو سرزمین موعود کے چپے چپے پر تہہ تیغ کیا یہ ایسا عذاب تھا جو بنی اسرائیل کی لجاجت و ہٹ دھرمی کی وجہ سے ان کے دامن گیر ہوا۔ (۶۰۸ق،م)
قوم یہود کی رجعت اور معبد سلیمان کی تعمیر نو
قرآن کریم بنی اسرائیل کی ہلاکت اور ارض موعود سے ان کو نکال دئے جانے کی طرف اشارہ کرنے کے بعد جو در حقیقت اسی تاریخی واقعہ کی طرف اشارہ ہے جو بابل کے بادشاہ بخت النصر کے ذریعے رخ پایا، بنی اسرائیل کی اس سرزمین میں بازگشت اور ان کی تجدید حیات کو بیان کرتے ہوئے فرماتا ہے کہ ہم نے ایک بار پھر تمہارے اوپر اپنی نعمتوں کے دروازے کھول دئے اور ایک جوان نسل، کثیر اموال اور دیگر نعمتوں کے ذریعے تمہاری مدد کی اور تمہیں نئی حکومت تک پہنچایا۔ یہ اشارہ ہے بنی اسرائیل کے زندان بابل سے ۷۰ سال کے بعد نجات پانے کی طرف جو دراصل ایرانی بادشاہ ’’کوروش‘‘ کے ذریعے انہیں زندان بابل سے نجات ملی اور ان کی نئی نسل کو دوبارہ زندگی نصیب ہوئی، ہیکل سلیمانی کی تعمیر نو کی گئی اور شریعت حضرت موسیٰ کو دوبارہ نافذ کیا گیا۔
بنی اسرائیل کا دوسری بار فساد پھیلانا
بنی اسرائیل کو دین سے دوری اور زمین میں فساد و تباہی پھیلانے کی وجہ سے اللہ نے انہیں جلاوطن اور ۷۰ سال تک زندان بابل میں اسیر کر دیا آخر کار توبہ و استغفار کے بعد زندان سے نجات ملی اور دوبارہ اپنے وطن واپس جانا نصیب ہوا۔ لیکن انسان کی سرشت یہ ہے کہ جب اسے کسی عذاب سے چھٹکارا ملتا ہے تو وہ اس عذاب اور اس کے اسباب کو فراموش کر دیتا ہے اور دوبارہ اسی گناہ و معصیت کا ارتکاب کرنے لگتا ہے جس کی وجہ سے عذاب میں مبتلا ہوا ہوتا ہے۔
بنی اسرائیل جب دوبارہ اپنے وطن واپس لوٹے تو شریعت حضرت موسی (ع) پر عمل پیرا ہونے کے بجائے رومیوں کے دین اور آداب و رسوم کے گرویدہ ہو گئے جن بتوں کی وہ پرستش کرتے تھے ان کو اپنا خدا ماننے لگے۔ الہی پیغمبروں حضرت یحییٰ اور حضرت زکریا جو انہیں توحید و یکتائی کی طرف دعوت دے رہے تھے اور دین الہی کی تعلیمات سے آشنا کر رہے تھے کو جھٹلا کر قتل کر دیا۔ اور رومیوں کے باطل دین کے پیروکار ہو گئے خداوند عالم نے ایک بار پھر انہیں عذاب میں مبتلا کیا اور انہی رومیوں جن کے دین کے وہ پیروکار ہو چکے تھے کے ذریعے انہیں ہلاکت سے دوچار کیا۔
قرآن کریم اس بارے میں فرماتا ہے: اس وقت کو یاد کرو جب تمہاری ہلاکت کا دوسرا وعدہ بھی پورا ہو گیا، اور تم ایک بار پھر ظلم و فساد میں ڈوب گئے اور تمہارے چہرے سیاہ ہو گئے۔ یعنی خدائے وحدہ لاشریک کو چھوڑ کر رومیوں کے خداوں کی پرستش اور ان کے باطل دین کی پیروی اور ان کے ظالم و ستمگر بادشاہ جسے قرآن نے ’’طاغوت‘‘ کا نام دیا ہے کی اطاعت وہ اسباب تھے جن کی وجہ سے بنی اسرائیل ایک بار عذاب الہی میں مبتلا ہوئے اور ان کے چہرے سیاہ ہو گئے۔
وَلِیُتَبِّرُوا مَا عَلَوْا تَتْبِیرًا ؛ قرآن کریم فرماتا ہے: اس کے بعد جب دوسرے وعدے کا وقت آیا تو ہم نے دوسری قوم کو مسلط کر دیا تاکہ تمہاری شکلیں بگاڑ دیں۔۔۔
رحمت و مغفرت کا وعدہ
قرآن کریم بنی اسرائیل کو دو مرتبہ عذاب میں مبتلا کرنے کے بعد انہیں رحمت و مغفرت کا وعدہ دیتا ہے یعنی الہی شریعت کو چھوڑ کر بابل و روم کے طاغوتوں کی پیروی نے انہیں کوئی فائدہ نہیں پہنچایا بلکہ انہیں ذلیل و رسوا کیا اور اللہ نے بھی اپنے دردناک عذاب کا مزہ انہیں چکھا دیا۔ آخر کار دوسری مرتبہ عذاب الہی کا مزہ چکھنے کے بعد بنی اسرائیل نے توبہ اور استغفار کا راستہ اختیار کیا اور اللہ نے بھی ان کی توبہ قبول کی اور ان پر رحمت و مغرفت کا دروازہ کھول دیا۔
لیکن قرآن کریم بیان کرتا ہے کہ یہ قوم اس کے بعد بھی اپنی توبہ پر باقی نہیں رہی اور سب رحمت الہی کے دروازے سے داخل نہیں ہوئے انہوں نے حضرت عیسی پر ایمان لانے سے انکار کیا، پیغمبر اسلام کی رسالت کو ماننے سے انکار کیا جبکہ یہ یہودیوں کے لیے ایک غنیمت کا موقع تھا کہ وہ رسول خدا پر ایمان لے آتے اور گزشتہ انبیاء کے ساتھ جو انہوں نے ناروا سلوک کیا انہیں جھٹلایا، انہیں قتل کیا اس دھبے کو اپنے دامن سے پاک کر سکتے تھے۔ لیکن انہوں نے پھر وہی تاریخ دھرائی اور اللہ کے اس آخری نبی پر ایمان لانے کے بجائے اس کے خلاف بغاوت کے لیے اٹھ کھڑے ہوئے اور ابوجھل و ابو سفیان جیسوں کا سہارا لے کر اللہ کے آخری نبی کے مد مقابل آگئے۔
قوم یہود کی آخری ہلاکت
قرآن کریم اس بات کا قائل ہے کہ ایک مرتبہ پھر سرزمین موعود پر واپسی بنی اسرائیل اور قوم یہود کے مقدر میں ہے لیکن وہ ہمیشہ کی طرح اس بار بھی اس مقدس سرزمین پر سوائے ظلم و فساد کی بساط پھیلانے کے علاوہ کچھ نہیں کریں گے لیکن یہ ان کے پاس آخری موقع ہو گا اور اس کے بعد جب عذاب الہی ان کے سوراغ میں آئے گا تو ان کی بساط مکمل طور پر سمٹ جائے گی۔ «وَقُلْنَا مِن بَعْدِهِ لِبَنِی إِسْرَائِیلَ اسْکُنُواْ الأَرْضَ فَإِذَا جَاء وَعْدُ الآخِرَةِ جِئْنَا بِکُمْ لَفِیفًا» (سوره اسراء/104)
’’اور اس کے بعد ہم نے بنی اسرائیل سے کہہ دیا کہ اب زمین میں آباد ہو جاؤ پھر جب آخرت کے وعدے کا وقت آ جائے گا تو ہم تم سب کو سمیٹ کر لے آئیں گے۔‘‘
بعض تفسیروں کے مطابق قرآن کی یہ تعبیر ’’وعد الآخرہ‘‘ قوم یہود کی ہلاکت کا آخری وعدہ ہے جو اسی سرزمین موعود میں انجام پائے گا ان کی ’’ارض نعمت‘‘ ’’ارض نقمت‘‘ میں تبدیل ہو جائے گی۔
سورہ اسراء کی آٹھویں آیت میں بھی قرآن کریم بنی اسرائیل کی آخری ہلاکت کے بارے میں فرماتا ہے: «عَسَى رَبُّکُمْ أَن یَرْحَمَکُمْ وَإِنْ عُدتُّمْ عُدْنَا وَجَعَلْنَا جَهَنَّمَ لِلْکَافِرِینَ حَصِیرًا»
امید ہے کہ تمہارا پروردگار تم پر رحم کر دے لیکن اگر تم نے دوبارہ فساد کیا تو ہم پھر سزا دیں گے اور ہم نے جہنم کو کافروں کے لیے ایک قید خانہ بنا دیا ہے۔
یعنی اگر تم نے دوبارہ اس سرزمین موعود پر ظلم و ستم کی داستان شروع کر لی تو ہمارا عذاب تمہارے سوراغ میں پھر آئے گا۔ گویا اس آیت میں قرآن کریم بنی اسرائیل کے انجام کی خبر دیتا ہے اور اس کی نشانی اور علامت انکا ظلم و ستم اور فساد و تباہی ہے۔ یعنی واضح لفظوں میں یوں کہیں کہ اس ارض موعود میں یہودیوں کا ایک بار پھر جمع ہونا اور ان کی طرف سے ظلم و ستم کی داستان دوبارہ رقم کرنا ان کے آخری زوال اور نابودی کی علامت ہے۔
قرآن کریم اس بات پر تاکید کرتا ہے کہ اب آخری بار خداوند عالم خود قوم یہود کی نابودی کے لیے اقدام کرے گا اس لیے کہ اس نے اس سے قبل دو مرتبہ دوسروں کو ان کی نابودی کے لیے بھیجا ایک مرتبہ بادشاہ بابل کو اور دوسری مرتبہ بادشاہ روم کو لیکن تیسری اور آخری مرتبہ جو عذاب الہی ان کے دامن گیر ہو گا اور ان کی نابودی یقینی ہو گی وہ خدا کے صالح بندوں اور مومنین کے ذریعے ہو گی اور یہ ایسی نابودی ہو گی کہ اس کے بعد وہ اس سرزمین کا رخ نہیں کر پائیں گے۔