صہیونیت مخالف انٹرنیشنل تنظیم “نیٹوری کارٹا” کا تعارف

  • ۴۸۵

خیبر صیہون ریسرچ سینٹر:  ” نیٹوری کارٹا” (Neturei Karta International Organization) کے نام سے آرتھوڈوکس یہودیوں کی صہیونیت مخالف انٹرنیشنل تنظیم سنہ ۱۹۳۵ میں اس وقت معرض وجود میں آئی جب صہیونی لابی نے فلسطین کی سرزمین پر غاصبانہ قبضہ کر کے ایک مستقل یہودی ملک وجود میں لانے کی کوششیں تیز کر دی تھیں۔
یہ تنظیم بطور کلی اسرائیلی حکومت کی نابودی کے لئے جد و جہد کرتی ہے اور اس بات کی معتقد ہے کہ یہودیوں کی مقدس کتاب “تلمود” کے مطابق، “منجی عالم” کے ظہور سے پہلے یہودیوں کے لئے حکومت تشکیل دینا گناہ عظیم ہے۔
نیٹوری کارٹا تنظیم کا یہ ماننا ہے کہ صہیونیوں کو سرزمین فلسطین پر قبضہ کر کے اپنی حکومت بنانے کا کوئی حق حاصل نہیں ہے اس لئے کہ خداوند عالم نے یہودی قوم کو توریت پر عمل نہ کرنے کی وجہ سے انہیں سزا دی اور ان کی زمینوں کو ان سے چھین کر مختلف ملکوں میں انہیں منتشر کر دیا۔
اس تنظیم کا اہم ترین عقیدہ یہ ہے کہ صہیونیت یا صہیونی اصلاً یہودی ہی نہیں ہیں۔ بلکہ وہ یہودیت اور یہودیوں کو اپنے مقاصد کے حصول کے لئے استعمال کر رہے ہیں۔ چونکہ ایک حقیقی یہودی دوسروں منجملہ فلسطینیوں کی زمینوں کو غصب نہیں کر سکتا۔
حالیہ سالوں میں اس تنظیم کو “موشہ ہرش” کے نام سے بھی جانا جاتا ہے، موشہ ہرش در حقیقت یہودیوں کے وہ مرحوم خاخام ہیں جنہوں نے یاسر عرفات کے دور میں فلسطینی مزاحمتی گروہوں کی تشکیل میں ان کا ساتھ دیا اور بہت سارے عربوں سے زیادہ مسئلہ فلسطین سے جڑے رہے۔
اس تنطیم کے بعض اراکین مقبوضہ بیت المقدس میں زندگی بسر کرتے ہیں انہوں نے اسرائیلی شہریت کو قبول کرنا گوارا نہیں کیا اس وجہ سے فلسطینیوں کے ساتھ یہ بھی صہیونی ظلم و تشدد کا شکار رہتے ہیں۔ اور بہت سارے اراکین برطانیہ اور امریکہ میں رہتے ہیں اور وقتا فوقتا اسرائیل کے خلاف احتجاجی مظاہروں میں بھی شرکت کرتے ہیں۔ صہیونی عناصر نے ان کے بعض اراکین کو دھشتگردی کا نشانہ بھی بنایا مثال کے طور پر ان کے ایک خاخام جنہوں نے بیلفور اعلانیہ کی سختی سے مخالفت کی تھی کو صہیونیوں نے مورد حملہ قرار دے کر قتل کر دیا تھا۔ موشہ ہرش پر بھی ایک زہریلے مواد کے ذریعے حملہ کیا گیا تھا جس کی وجہ سے ان کی ایک آنکھ نابینا ہو گئی۔
موشہ ہرش اس بات کے قائل تھے کہ صہیونیوں نے ہولوکاسٹ کا ڈھونگ رچا کر اسرائیل کو جنم دیا۔ اور اسرائیل کو وجود میں لانے کے لئے صہیونیوں نے ہزاروں یہودیوں کا قتل عام کیا تاکہ ان کے دلوں میں خوف و دھشت پیدا کرکے انہیں اسرائیل کی طرف ہجرت کے لئے مجبور کریں۔
موشہ ہرش نے سرزمین فلسطین پر صہیونی ریاست کی تشکیل کے حوالے سے سوال اٹھاتے ہوئے کہا: اگر ہٹلر کی جارحیت سے یہ سوچ پیدا ہوئی کہ یہودیوں کے لئے ایک الگ ملک وجود میں لایا جائے تو کیوں جرمنی کو ہی ہٹلر کی نابودی کے بعد اس کام کے لئے انتخاب نہیں کیا گیا؟
وہ ہیکل سلیمانی(Solomon’s Temple) کے بارے میں صہیونیوں کے اس دعوے کہ مسجد اقصیٰ ہیکل سلیمانی کی جگہ تعمیر کی گئی ہے ہم اسے گر کر دوبارہ ہیکل سلیمانی بنائیں گے، کے بارے میں کہتے ہیں: ہیکل سلیمانی کو مسمار ہوئے تقریبا دو ہزار سال ہو چکے ہیں اور فلسطین میں اب اس کا کوئی وجود نہیں ہے۔
وہ مزید تاکید کرتے ہیں: اگر یہ طے ہو کہ ہر قوم اپنے دینی اور تاریخی آثار کو دوبارہ زندہ کرے تو بہت سارے ممالک کا نام و نشان ہی مٹانا پڑے گا۔
نیٹوری کارٹا تنظیم مسلمانوں کو احترام کی نظر سے دیکھتی ہے اور اس کا کہنا ہے کہ مسلمانوں نے نہ کبھی یہودیوں کو اذیت دی اور نہ ان کا قتل عام کیا بلکہ ہمیشہ اپنے ملکوں کے دروازے ان پر کھولے رکھے۔
یہ تنظیم سرزمین فلسطین میں دو ملکوں یعنی اسرائیل اور فلسطین کے باقی رہنے کی سخت مخالف ہے بلکہ اس جھگڑے کو مٹانے کے لئے اسرائیلی کی بطور کلی نابودی کی تمنا رکھتی ہے۔
نیٹوری کارٹا تنظیم کو وجود میں لائے جانے کا مقصد ہی اسرائیل کے خلاف اس وقت تک جد و جہد کرنا ہے جب تک یہ ناسور صفحہ ھستی سے مٹ نہ جائے۔

 

‘آمنون اسحاق’ صہیونیت مخالف یہودی خاخام

  • ۶۳۶

خیبر صیہون ریسرچ سینٹر: آمنون اسحاق اسرائیل کے دار الحکومت تل آبیب کے غیر مذہبی خاندان میں پیدا ہوئے لیکن ۲۴ سال کی عمر میں مذہبی تعلیم حاصل کرنے کے بعد نہ صرف خود ایک مذہبی شخصیت ابھر کر سامنے آئے بلکہ عوام کو بھی دین و شریعت کی دعوت دینا شروع کر دیا۔
اسحاق اپنی شعلہ بیاں تقریروں اور دینی سرگرمیوں کی وجہ سے ایک یہودی خاخام جانے جاتے ہیں۔
انہوں نے اسرائیل کے اندر رہتے ہوئے بارہا اپنی تقریروں میں صہیونیزم کو تنقید کا نشانہ بنایا۔
انہوں نے اپنی ایک تقریر میں اسرائیل اور امریکہ کے بارے میں کہا کہ اگر چہ امریکہ خود کو بہت بڑی طاقت سمجھتا ہے لیکن اس پر بھروسہ نہیں کیا جا سکتا۔
انہوں نے کہا کہ امریکہ دن بدن کمزور ہوتا جا رہا ہے اور آج امریکہ کی یہ صورتحال ہے کہ ہر کوئی امریکہ کے آگے سر اٹھا رہا ہے اور امریکہ اسے کچھ نہیں کر پا رہا۔
الصباح اخبار کی ایک رپورٹ کے مطابق، اسحاق نے امریکہ کے کمزور ہونے کی علامتوں کو گنواتے ہوئے کہا کہ امریکہ کی کمزوری کی ایک علامت یہ ہے کہ ایران امریکہ کے مقابلے میں کھڑا ہے اور اسے کوئی اہمیت نہیں دیتا اور اسے شیطان بزرگ کے نام سے یاد کرتا ہے۔
اسحاق کا کہنا ہے کہ آج کی دنیا میں کوئی بھی امریکہ سے نہیں ڈرتا بلکہ یہ امریکہ ہے جو کوشش کر رہا ہے کہ بعض ملکوں پر پابندیاں لگا کر دنیا کی توجہ کو اپنی طرف موڑے۔

 

صہیونیت مخالف یہودی دانشور ‘ہاجو میئر’

  • ۳۷۱

خیبر صیہون ریسرچ سینٹر: “ہایو میئر “(Hajo G. Meyer) جرمنی کے ایک معروف دانشور تھے جو فیزیکس کے ایک ماہر استاد ہونے کے علاوہ صہیونی مخالف یہودی سیاست میں بھی کافی سرگرم تھے ۔ میئر صہیونی جرائم کے خلاف اور فلسطینی کاز کی حمایت میں آواز اٹھانے کی وجہ سے دو مہینے جیل میں بھی گزارنے پر مجبور ہوئے۔ ۹۰ سال کی عمر میں ۲۰۱۴ کو ان کا انتقال ہو گیا۔
میئر کئی سال پولینڈ میں “ایک مختلف یہودی آواز” نامی تنظیم کے سربراہ رہے اور ۲۰۰۳ میں انہوں نے “یہودیت کا خاتمہ” نامی ایک کتاب لکھی اور اس میں انہوں نے واضح طور پر تحریر کیا کہ اسرائیل نے ہولوکاسٹ کا ڈرامہ صرف فلسطینیوں پر جاری اپنے جرائم کی توجیہ کے لئے رچایا ہے۔
میئر اسی طرح “صہیونیزم مخالف بین الاقوامی یہودی چینل” کے بھی رکن تھے۔ وہ اس بات کے قائل تھے کہ صہیونیزم تاریخی اعتبار سے فاشزم پر مقدم ہے اور صہیونیوں اور فاشسٹوں کے درمیان تاریخی تعلقات پائے جاتے ہیں۔ اور اسرائیل اس کوشش میں ہے کہ دنیا میں یہود ستیزی کا ڈھونگ رچا کر زیادہ سے زیادہ یہودیوں کو اسرائیل جانے پر مجبور کرے۔
میئر کا کہنا ہے کہ اسرائیلی یہودیوں کی فلسطینیوں کی نسبت نفرت جرمنیوں کی یہودیوں کی بانسبت نفرت سے کئی گنا زیادہ ہے اسرائیلی یہویوں کا گزشتہ ساٹھ سال سے برین واش(Brainwash) کیا جا رہا ہے اور اسرائیلی یہودی کسی بھی صورت میں ایک فلسطینی کو انسان قبول کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں۔
میئر سے ایک انٹرویو کے دوران جب پوچھا گیا کہ آپ فلسطینیوں کو کیا پیغام دینا چاہتے ہیں تو انہوں نے کہا:” فلسطینیوں کو میرا یہ پیغام ہے کہ ہرگز مزاحمت سے پیچھے نہ ہٹیں اور پتھر، لاٹھی، اسلحہ ہر چیز سے ان کا مقابلہ کریں۔ اگر وہ اسرائیلیوں کے سامنے جھک گئے تو یاد رکھیں ان کی کوئی عزت و آبرو نہیں رہے گی اور اسرائیلی ان کے لئے ذرہ برابر احترام کے قائل نہیں ہوں گے”۔
میئر اپنی ایک یاداشت میں لکھتے ہیں کہ جب میں فلسطینیوں کی موجودہ صورتحال کا مشاہدہ کرتا ہوں تو میں مجھے بہت درد و الم کا احساس ہوتا ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ “صہیونی مخالف بین الاقوامی یہودی چینل” جو امریکی یہودی جوانوں کے توسط سے کام کر رہا ہے اس کا مقصد یہ ہے کہ ہم اس کے ذریعے صہیونیزم کا مقابلہ کریں اور فلسطینی عوام کی حمایت کریں۔ اس لئے کہ اسرائیل نے اپنے مظالم کے ذریعے پوری یہودی کمیونٹی کو بدنام کر دیا ہے۔

 

صہیونیوں کو آڑے ہاتھوں لینے والی امریکی صحافی خاتون’ ہیلن تھامس’

  • ۳۸۷

خیبر صیہون ریسرچ سینٹر: ہیلن تھامس امریکہ کی ایک معروف صحافی اور کالم نگار تھی ۵۷ سال انہوں نے وہائٹ ہاؤس کے اخبار”یو پی آئی” میں کام کیا اور ۲۰۰۰ء میں اس اخبار سے ریٹائرمنٹ کے بعد کہا: “میں نے اپنی زندگی کے پچاس سال کو سنسر کر رکھا تھا اور اب میں آزاد ہوں اور خود سے پوچھتی ہوں کہ تم کس سے نفرت کرتی ہو” اگر چہ اس نے اپنی سروس کے دوران ہی امریکی صدور کے کارناموں کو متعدد بار تنقید کا نشانہ بنایا اور اس وقت جب جارج ڈبلیو بوش نے عراق پر حملہ کیا تو ہیلن تھامس نے بوش سے انٹرویو لیتے ہوئے پوچھا: “جناب محترم صدر صاحب! میں آپ سے عراق کی جنگ کے بارے میں کچھ سوال کرنا چاہتی ہوں۔۔۔ جو بھی دلائل اب تک آپ نے عراق پر حملے کے سلسلے میں بیان کئے ہیں عوام کی نگاہ میں غلط ہیں، میرا سوال یہ ہے کہ سچ میں آپ کیوں عراق میں جنگ کے لئے گئے؟ آپ نے کہا کہ نہ ہی یہ جنگ تیل کی خاطر تھی، نہ اسرائیل کی وجہ سے تھی، نہ کسی دوسری چیز کے لئے تھی، تو پھر اس جنگ کا مقصد کیا تھا؟ آپ نے کیوں ایسا کیا؟
ہیلن تھامس پر زندگی کے آخری ایام تک صہیونی لابی کی طرف سے “اینٹی سامی” ہونے کا الزام لگایا جاتا تھا جبکہ وہ ہمیشہ کہتی تھی کہ میں یہودیوں کی مخالف نہیں ہوں میرا یہ کہنا ہے کہ اسرائیلی اپنے ملکوں میں واپس چلے جائیں اور فلسطینیوں کو ان کی سرزمین واپس کر دیں۔ سنہ ۲ دسمبر ۲۰۱۰ میں ایک کانفرنس کے دوران ایک یہودی ربی سے گفتگو کرتے ہوئے صہیونی ریاست کے خلاف اپنے ایک انتقادی بیان میں انہوں نے کہا: یہودیوں کو چاہیے کہ وہ فلسطین کی مقبوضہ سرزمینوں کو ان کے حقیقی مالکوں یعنی عربوں کے حوالے کر دیں اور خود جرمنی، پولینڈ یا امریکہ واپس چلے جائیں Jews should “get the hell out of Palestine” and “go home” to Poland and Germany)۔
اس بیان کے کچھ ہی دیر بعد ہیلن تھامس اپنے عہدے سے استعفیٰ دینے پر مجبور ہو گئیں۔ انہوں نے استعفیٰ دینے کے بعد کینساس سٹی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا: ” مجھے اس بات کی تو اجازت ہے کہ میں اپنی کتاب میں امریکی صدر کو جس نام و لقب سے لکھنا چاہوں لکھ سکتی ہوں لیکن اس بات کی اجازت نہیں کہ اسرائیل کے خلاف ایک لفظ بھی بول سکوں!!”
تھامس کے صہیونی مخالف نظریات کو سراہتے ہوئے حزب اللہ لبنان نے ان کی گفتگو کو “شجاعانہ اور صداقت پر مبنی”گفتگو کا نام دیا اور حماس نے حقیقت کی عکاسی کرنے والے بیانات سے تعبیر کیا۔
اگر چہ ہیلن تھامس کو صہیونیوں کے خلاف بیان دینے کے ایک ہفتہ بعد معذرت خواہی کے لئے مجبور کر دیا گیا لیکن اس کے بعد بھی وہ ہمیشہ کہتی تھی کہ میری نظر وہی ہے جو میں نے کہہ دیا اگر چہ مجھے اس کا تاوان دینا پڑا۔ انہوں نے اپنی ایک تقریر میں یہاں تک کہہ دیا تھا کہ امریکی کانگریس، وہائٹ ہاؤس اور وال اسٹریٹ ان سب کو صہیونیوں نے اجیر کر رکھا ہے۔ اور میں سے کوئی بھی ان کے سامنے زبان کھولنے کی جرئت نہیں کر سکتا۔

 

کتاب” صہیونی لابی اور امریکہ کی خارجہ پالیسی” کا تعارف

  • ۴۱۲

خیبر صیہون ریسرچ سینٹر: یہ کتاب “اوہ جوزف میئر شیمر”(John Mearsheimer ( mɪrʃhaɪmər ؛ اور “اسٹیفن والٹ” کی مشترکہ کاوش ہے دونوں ہی “آر وینیل ہیریسن ڈسٹرکٹ” میں ممتاز استاد کی حیثیت سے جانے جاتے ہیں. کتاب کے مصنفین کا مقصد اسرائیلی حکومت کی حمایت کے سلسلہ سے صہیونیوں کی غلط توجیہات اور نئے قدامت پسندوں کی اس ناجائز حکومت کی حمایت کے سلسلہ سے کی جانے والی تاویلوں کو آشکار کرتے ہوئے ان پر خط بطلان کھینچنا ہے ۔
اس کتاب میں واضح طو ر پر اس بات کو بیان کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ امریکی سیاست مداروں نے عراق اور افغانستان میں ہزاروں لوگوں کو خاک و خون میں غلطاں کر دیا جبکہ صہیونی چھوٹی سی منظم لابی کے سامنے انکی گھگھی بندھی رہتی ہے اور انکی حقارت کی انتہا نہیں ۔
مصنفین کی نظر کے مطابق مشرق وسطی میں امریکہ کی خارجی سیاست ہر ایک عامل سے زیادہ صہیونی لابی سے متاثر ہے یہاں تک کہ آخری چند دہایہوں میں خاص کر اسرائیل و عربوں کی جنگ کے دور سے اسرائیل سے تعلقات کا مسئلہ مشرق وسطی میں امریکہ کی بنیادی سیاست میں تبدیل ہو گیا ہے ۔
یہ کتاب ۲۰۰۶ میں چھپی، اور اسکے مارکیٹ میں آنے کے بعد دنیا بھر میں مخالفین و موافقین کے درمیان بحث و گفتگو کا بازار گرم ہو گیا قابل ذکر ہے کہ ۲۰۰۶ ء میں ہی یہ کتاب کئی بار پرنٹ ہوئی اور اس کے ایڈیشن کے ایڈیشن ختم ہو گئے یہاں تک کے ۲۰۰۶ء میں سب سے زیادہ بکنے والی کتاب قرار پائی۔
کتاب کے ایک حصہ میں ہمیں ملتا ہے” صہیونی لابی امریکہ میں اس قدر طاقت ور ہے کہ اس نے ناقابل خدشہ یہ عقیدہ لوگوں کے ذہنوں میں ترسیم کر دیا ہے کہ دونوں ملکوں کے قومی مفادات ایک ہی ہیں ”
واضح سی بات ہے کہ ہر ملک کی خارجہ پالیسی اس ملک کے قومی مفادات کے پیش نظر تدوین پاتی ہے ، جبکہ یہ بات مشرق وسطی میں امریکی پالیسی پر صادق نہیں آتی اس لئیے کہ صہیونی رژیم کے مفادات کا تحفظ اس علاقہ میں امریکہ کی اصلی خارجہ پالیسی کا محور و مرکز ہے ۔
جبکہ امریکہ کی داخلی سیاست میں ہم پورے استحکام و یقین کے ساتھ دعوی کر سکتے ہیں کہ امریکہ کی صورت حال تو کچھ یہ ہے کہ امریکہ کی صدارت کے امیدواروں میں کوئی ایک ایسا نہیں ہے چاہیں وہ ریپبلکن ہوں یا ڈیموکراٹ کوئی بھی ایسا نہیں جو صہیونیوں کو خوشنود کئیے بغیر، انکی رضایت کے بغیر، انکی مالی حمایت کے بغیر الیکشن میں کامیابی کے بارے میں سوچ بھی سکے ۔

 

کتاب ’’اسرائیل اور ایٹمی ہتھیار‘‘ کا تعارف

  • ۴۲۳

خیبر صیہون ریسرچ سینٹر: اسرائیل و ایٹمی ہتھیار نامی کتاب اسرائیل کے موجودہ ایٹمی ہتھاروں کے اسلحوں کے انبار کے ساتھ اسکی ایٹمی توانائی کی صلاحیت کے سلسلہ سے لکھی گئی ہے ۔
«آونرکوہن» اس کتاب کے مصنف نے اس کتاب کو امریکہ و اسرائیل کے حکومتی اسناد و ثبوتوں سے استفادہ کرتے ہوئے لکھا ہے جو کہ غالبا آخری ان چند سالوں میں درجہ بندی classification سے خارج ہوئی ہے ۔اس کتاب میں تقریبا سو سے زیادہ ان کلیدی شخصتیوں سے انٹرویو لیا گیا ہے جو ایٹمی اسلحوں سے جڑے ہوئے ہیں ان افراد کے اسرائیل کے ایٹمی اسلحوں کے سلسلہ سے تجزیہ و تبصروں کو کتاب میں پیش کیا گیا ہے ۔
اس کتاب میں «کوهن» نے ایک جامع رپورٹ اس سلسلہ میں پیش کی ہے کہ جس کا نام خود انہوں نے اسرائیل کے غیر واضح ایٹمی نظریات Doctrine کی توسیع و تشکیل رکھا ہے ۔ انہوں نے اس سلسلہ سے وضاحت کی ہے کہ اسرائیلی سربراہوں نے امریکی اہلکاروں کو دھوکہ دے کر اور انجام کار خود انہیں کے نرم رویہ و تسامح کی بنیاد پر خود کو ایٹمی اسلحوں کے پھیلاو کے معاہدہ سے دور رکھا ہے ، تب سے اب تک تین دہایہاں اس معاہدہ کو گزر چکی ہیں لیکن ایسا محسوس نہیں ہوتا کہ اسرائیل اس معاہدہ سے جڑنے کا کوئی ارادہ و قصد رکھتا ہو۔
اس کتاب کی ۱۷ فصلیں ہیں کنڈی اور اسرائیل کا پروجیکٹ، ڈیمونا کے سلسلہ سے کشمکش ، کنڈی اور اشکول کا معاہدہ ، ۶ دن کی جنگ ، NPT کے سلسلہ سے کشمش و مبھم راہ جیسے عناوین اس کتاب کی بعض فصلوں کو بیان کرر ہے ہیں۔

 

کتاب ‘جاسوس کی تلاش اور اس کا شکار’ کا تعارف

  • ۴۲۹

خیبر صیہون ریسرچ سینٹر: سرد جنگ کا خاتمہ نہیں ہوا محض ایک وقفہ ایجاد ہوا، ایک نئی سرد جنگ جاری ہے جو پچھلی سرد جنگ سے زیادہ پیچیدہ ہے ،مزید بر آن اس میں پروپیگنڈہ، جاسوسی، شکنجہ ، دہشت و ٹرر ، مجازی فضا میں جاسوسی سائبری حملے اور نیابتی جنگ کا بھی اضافہ ہوا ہے۔
اگر ہم مستقبل سے روبرو ہونا چاہتے ہیں تو ضروری ہے کہ ماضی سے آگاہ ہوں جو تاریخ سے سبق نہیں لے گا وہ تاریخ کو دہرائے گا ، جاسوس کی تلاش و جستجو اور اسکا شکار نامی کتاب برطانیہ کی جاسوسی تنظیم MI5))، کے عالی رتبہ اہلکار پیٹر رایت کے دستاویز و ڈائری پر مشتمل ہے اور یہ ایک وہ ماخذ ہے جو اسرار جنگ کی حقیقت و واقعیت سے بہت نزدیک ہے ۔
اس کتاب کے اہم مباحث میں ایک ایک زبردست جاسوس کی ماھیت کی شناسائی ہے جو پانچویں مرد کے طور پر جانا جاتا ہے اور وافر دلائل و شواہد کی روشنی میں اس کے سلسلہ سے یہ انکشاف ہوتا ہے کہ یہ ایک بیرونی جاسوسی تنظیم کے حساس مرکز میں تھا جسے MI6)) کہا جاتا ہے اس پانچویں آدمی کا کام تھا سویت یونین کے لئیے معلومات و اطلاعات کے ذخیرہ کو بھیجے یہ اپنے اس کام میں ہوشیاری سے اس طرح لگا رہا کہ کبھی بھی کسی جال میں نہ پھنسا پیٹر رایت کے بقول اس نے پانچویں مرد کا تعاقب کر کے اس کی شناخت کر لی ہے اور یہ وہ ہے کہ جس کے سلسلہ سے خفیہ ایجنسیوں کے ماہرین اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ یہ شخص سویت یونین کا جاسوس تو ہرگز نہ تھا البتہ برطانیہ کی سیاست و اقتصاد پر حکومت کرنے والے صہیونی دہشت گرد مافیا کا برطانیہ کے جاسوسی ادارہ میں نمائندہ تھا ۔
اس کتاب کے پڑھنے والے محترم قاری کو ان عجیب حوادث و دلائل کو پڑھنے کا موقع ملے گا جسے اس کتاب کے مصنف نے ۲۰ سال کی جانفشانی کے بعد اس شخص کے جاسوس ہونے کو ثابت ہونے کے لئیے یکجا کیا ہے ، اور یہ وہ بات ہے جسکے سبب سالہا سال تک یہ کتاب برطانیہ میں ممنوع رہی ایسے ملک میں جہاں آزادی کا دعوی کیا جاتا ہے لیکن عمل کچھ اور کہتا ہے لیکن اب سوال یہ ہے کہ آخر کیا ہوا کہ یہ پانچواں مرد کبھی کسی کے جال میں نہ پھنس سکا اس کا جواب کتاب کو پڑھ کر ہی معلوم ہو سکتا ہے ۔

 

کتاب “امریکہ میں اسرائیل کا اثر و رسوخ” پر اجمالی نظر

  • ۵۶۴

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: کتاب “امریکہ میں اسرائیل کا اثر و رسوخ” (۱) نیویارک کی بنگ ہمٹن یونیورسٹی (۲) کے ممتاز پروفیسر “جیمز پیٹراس” (۳) کی کاوش ہے۔ انھوں نے اب تک ۶۳ کتابیں لکھی ہیں اور ان کے کتب کے تراجم ۲۹ زبانوں میں شائع ہوچکے ہیں۔
اس کتاب میں مشرق وسطی کے سلسلے میں امریکی پالیسیوں میں یہودی لابی کے اثر و رسوخ اور تسلط کی تصویر کشی ہوئی ہے۔ مؤلف کا خیال ہے کہ یہودی لابی کے اثر و رسوخ کی جڑیں امریکہ کے نہایت بااثر، طاقتور اور خوشحال ترین خاندانوں کے ساتھ یہودی خاندانوں کے غیر معمولی تعلقات میں پیوست ہیں۔ مزید برآں یہودی لابیوں اور نظرپردازوں نے دباؤ بڑھانے، بلیک میل کرنے اور رائے عامہ کی حمایت اپنی جانب مبذول کروا کر اپنی فکری برتری کو بھی منوا لیا ہے۔
جیمز پیٹراس لکھتے ہیں کہ آج کے معاشروں میں وہ وقت آن پہنچا ہے کہ بحث و مباحثے کی آزادی اور اسرائیلی لابیوں پر علی الاعلان تنقید کے لئے تحریک چلائی جائے۔ ان کا خیال ہے کہ عالمی معاشروں کی خارجہ پالیسیوں کا نئے سرے سے اور زیادہ غور و فکر کے ساتھ، جائزہ لیا جائے۔ اور انھوں نے اپنی کتاب “امریکہ میں اسرائیل کا اثر و رسوخ” کو اسی مقصد سے تالیف کیا ہے۔


 
کتاب “امریکہ میں اسرائیل کا اثر و رسوخ” چار حصوں اور ۱۴ فصلوں پر مشتمل ہے۔ مؤلف ابتدائی حصے کو “امریکہ میں اسرائیل کی طاقت” کے عنوان سے، امریکہ کو عراق کے خلاف لڑنے پر آمادہ کرنے میں اسرائیل کے حامی امریکی حکام اور یہودی لابیوں کے کردار پر زور دیتے ہیں؛ اور مختلف فصلوں میں بین الاقوامی معاشروں میں امریکہ کی طرف سے جنگوں کے اسباب فراہم کئے جانے کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔
دوسرے حصے میں، شکنجے (ٹارچر)، دہشت گردی اور نسل کشی کو امریکہ اور یہودی ریاست کی سلطنت سازی کے عمل کا ناقابل جدائی اجزاء کے طور پر زیر بحث لاتے ہیں۔ اس حصے میں ایک فصل کو غزہ پر اسرائیلیوں کی وحشیانہ یلغار سے مختص کرتے ہیں اور اسے ہولناک بمباریوں کے ذریعے ایک نسل کو فنا کرنے اور ایک علاقے کے بنیادی ڈھانچے کو تباہ کرنے کی اسرائیلی کوششوں کا نمونہ قرار دیتے ہیں۔
جیمز پیٹراس تیسرے حصے میں نفسیاتی جنگ کے شعبے نیز مزاحمت کی اخلاقی بنیادوں پر بحث کرتے ہیں۔ انھوں نے اس بحث کے ضمن میں “دہشت گردی کے ماہرین” نیز یہودی لابی کے کردار کا بھی جائزہ لیا ہے۔ پیٹراس کی رائے کے مطابق، دہشت گردی کے ماہرین شکنجے (ٹارچر) اور تشدد آمیز اقدامات، اجتماعی اور خودسرانہ گرفتاریوں، پورے عوام اور مختلف معاشروں کو بیک وقت سزا دینے جیسے اقدامات کا جواز فراہم کرنے کے لئے صہونیت اور استکبار کے دشمنوں کو غیر انسانی اوصاف اور خصوصیات کا ملزم ٹہراتے ہیں۔
کتاب کا چوتھا اور آخری حصہ، ریاستہائے متحدہ امریکہ کی استکباری پالیسیوں کی تشکیل اور استعماری منصوبہ سازیوں میں یہودی لابی کی اہمیت اور صہیونی لابیوں سے اس کے رابطوں کے جائزے پر مشتمل ہے؛ اور کتاب کی آخری فصل میں امریکہ کی مشرق وسطائی پالیسیوں کو زیر بحث لایا گیا ہے۔ (۴)
حواشی
[۱]POWER OF ISRAEL IN THE UNITED STATES
[۲] Binghamton University
[۳] James Petras
[۴] www.coalitionoftheobvious.com/17112929

بھارت کے اسرائیل کے ساتھ تزویری تعلقات

  • ۳۷۸

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: حالیہ برسوں اسرائیل اور ہندوستان کے درمیان دوستانہ تعلقات ہیں، ہندوستان کی بھرپور کوشش ہے کہ وہ اسرائیل کے اعلی درجے کے دفاعی سسٹم اور فوجی ٹیکنالوجی سے فائدہ اٹھائے۔ ہندوستان ان ممالک سے رشتہ مضبوط کرنا چاہتا ہے جو جدید ٹیکنالوجی کے اعتبار سے آگے ہیں اور چونکہ اسرائیل بھی ایک ترقی یافتہ ریاست کہلاتی ہے اس لیے اس کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھانا ہندوستان کی خارجہ پالیسی کا حصہ ہے۔ اور پھر ہندوستان اس بات سے بھی بخوبی واقف ہے کہ اسرائیل امریکہ کے نزدیک خاصی اہمیت رکھتا ہے۔ اور اسرائیل کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھانا درحقیقت امریکہ سے قربت حاصل کرنے کے مترادف ہے۔ دوسری جانب سے اسرائیل بھی ایشیائی ممالک مخصوصا ہندوستان کے ساتھ اپنے تعلقات کی توسیع کو اپنے خارجہ پالیسی کی ترجیحات میں سے قرار دیتا ہے۔ اس لیے کہ وہ ہندوستان کو پاکستان کے مقابلے میں زیادہ وزن دار ملک سمجھتا ہے اس لیے کہ پاکستان تنہا اسلامی ملک ہے جو ایٹمی طاقت کا مالک ہے اور اس پر دباؤ رکھنے کے لیے اسرائیل کا ہندوستان کے ساتھ تعلقات قائم کرنا گویا اس کی مجبوری بھی ہے اور پھر پاکستان اور مسلمانوں کو دھشتگرد قرار دے کر اسرائیل آسانی سے ہندوستان کو اپنی طرف کھینچ سکتا ہے۔ اسرائیل کے سابق وزیر اعظم بن گوریان کی ہندوستان کے بارے میں گفتگو آپ کو یاد ہو گی جس میں انہوں نے کہا تھا: ’’میرے خیال میں ہندوستان وہ بہترین جگہ ہے جہاں سے ہم مسلمانوں کے خلاف کارروائیوں کی بخوبی رہنمائی کر سکتے ہیں‘‘۔ بعض اسرائیلی محققین جیسے ’آبراہام سیگال‘ اور ’ہیری ایسریگ‘ اس بارے میں کہتے ہیں: ہندوستان اسرائیل کے نزدیک ایک عظیم اخروٹ کی حیثیت رکھتا ہے کہ اسرائیل نے اسے اپنے ہاتھ میں لے لیا ہے اب اسے صرف توڑنا باقی ہے‘‘۔ (ابوالحسنی، ۱۳۷۷؛ ۴۴۰)
بھارت اور اسرائیل تعلقات پر تاریخی نظر
اگر چہ ہندوستان نے اسرائیل کو مستقل ریاست کے عنوان سے ۱۹۵۰ میں تسلیم کر لیا لیکن اس نے اسرائیل کے ساتھ سیاسی روابط قائم نہیں کئے۔ ہندوستان میں سرگرم سامراجیت مخالف تنظیمیں اس بات کے آڑے تھیں کہ بھارت اسرائیل کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھائے۔ ایک طرف سے ہندوستان کے مسلمان فلسطینی عوام کی حمایت کے خواہاں تھے اور دوسری طرف سے عرب ممالک بھی ناوابستہ تحریک کے ذریعے ہندوستان پر دباؤ ڈال رہے تھے کہ وہ اسرائیل کے قریب نہ جائے۔ لیکن ۱۹۶۲ میں بھارت چین جنگ کے بعد ہندوستان کو اپنی دفاعی قوت مضبوط کرنے کے لیے اسرائیل کی فوجی طاقت سے فائدہ اٹھانے کی ضرورت محسوس ہوئی، لیکن اس کے باوجود دونوں ملکوں کے درمیان ۱۹۹۲ تک سیاسی روابط محدود اور خفیہ رہے۔ آخر کار ۱۹۹۲ میں سرد جنگ کے خاتمے کے ساتھ ہندوستان نے اپنی نئی اسٹریٹجک پالیسیوں کے تحت ان تعلقات کو ایک نئی جہت دی اور صہیونی ریاست کے ساتھ سیاسی روابطہ کو وسیع اور علنی کر دیا۔ (ملکی، ۱۳۸۹؛ ۴۷)
۱۹۹۲ میں بھارت اور اسرائیل کے درمیان سفارتی تعلقات میں گرم جوشی پیدا ہوتے ہی غیر معمولی حجم کے دوطرفہ تجارتی اور سکیورٹی معاہدے شروع ہو گئے اور حالیہ دنوں میں یہ روابط سکیورٹی تعاون، سیٹلائٹ سسٹم، پیشرفتہ میزائل، ایٹمی سرگرمیوں اور دیگر فوجی ساز و سامان کی فراہمی کے معاہدوں کی صورت میں مضبوط سے مضبوط تر ہوتے چلے جا رہے ہیں۔ اگر چہ ہندوستان اور اسرائیل کے سامنے پائے جانے والے خطرات ایک جیسے نہیں ہیں اور ان کا کوئی مشترکہ دشمن نہیں ہے اس کے باوجود دونوں ملک اپنے دفاعی سسٹم کو اپڈیٹ کرنے کی کوشش میں جٹے ہوئے ہیں۔ ہندوستان کے نزدیک اسرائیل جدید دفاعی سسٹم کو اپڈیت کرنے کے لیے ایک قابل بھروسہ ملک ہے اور اسرائیل کے لیے بھی ایشیا میں تزویری اعتبار سے بھارت ایک مستحکم اتحادی شمار ہوتا ہے۔
ہندوستان میں ہندو نسل پرستی کے زور پکڑ جانے اور بھارتیا جنتا پارٹی کے برسر اقتدار آنے سے بھارت و اسرائیل کے درمیان روابط ایک نئے مرحلے میں داخل ہو گئے۔ مثال کے طور پر ۱۹۹۱، ۹۲ میں فوجی اور دفاعی تعاون کے حوالے سے تقریبا دو ملکوں کے درمیان لگ بھگ پچاس ملاقاتیں اور معاہدے ہوئے۔ یہاں تک کہ ہندوستان کی معیشتی مشکلات اور اسرائیلی ساخت کے ہتھیاروں کی نامرغوب کیفیت کے باوجود دونوں ملکوں میں بعض فوجی ساز و سامان جیسے ہلکے طیارے، ارجن ٹینک (مرکاوا) پریٹوی میزائل(جریکو ۱)، (جریکو ۲) نیز مشترکہ فوجی تحقیقات اور ٹیکنالوجی کا رد و بدل کیا گیا۔ (کلانتری، ۱۳۸۸؛ ۹)
چنانچہ اگر ہندوستان اور اسرائیل کے گہرے تعلقات اور اس کے ایران و ہند تاریخی روابط پر پڑنے والے اثرات کو مزید گہرائی کی نگاہ سے دیکھا جائے تو درج ذیل تین بنیادی سوالوں کے جوابات دینا ضروری ہوں گے:
۱؛ کیا حقیقت میں اسرائیل اور ہندوستان کے تعلقات تزویری ہیں؟
۲؛ اس حساسیت کی طرف توجہ کرتے ہوئے جو ایران اور عرب ممالک تل ابیب و نئی دہلی کے روابط کی نسبت رکھتے ہیں ہندوستان کے اسرائیل کے ساتھ تزویری روابط بڑھانے کی وجوہات کیا ہیں؟
۳؛ کیا ہندوستان کا اسرائیل سے اسٹریٹجک روابط بڑھانے کا مقصد امریکہ سے نزدیک ہونا ہے؟
مذکورہ سوالات پر غور کرنے سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ ہندوستان علاقے میں خصوصا چین کے مقابلے میں بڑی طاقت بننے کی کوشش کر رہا ہے۔ لہذا اسرائیل اس کے لیے فوجی ساز و سامان فراہم کرنے کے اعتبار سے بہترین آپشن ہے۔

 

صہیونی تنظیم پروشیم(parushim) کا تعارف

  • ۳۹۸

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: صہیونی یہودیوں کا اپنے مفاد تک پہنچنے کے لیے ایک طریقہ کار یہ ہے کہ وہ دنیا بھر میں طرح طرح کی انجمنیں اور تنظیمیں تشکیل دیتے ہیں۔ تنظیمیں بنانے کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ وہ خفیہ اور غیر محسوس طریقے سے اپنے مفاد تک پہنچ سکیں اور دنیا میں ان کی نسبت کوئی بدگمانی اور غلط سوچ پیدا نہ ہو۔
یہ تنظیم ۱۹۱۳ میں ہارس۔ ام۔ کالن [۱] کے ذریعے وجود میں آئی۔ ’’پروشیم‘‘ مذہبی بنیاد پرستوں کی تحریک کا ایک حصہ تھا جو فکری طور پر ’’حسیدی فرقے‘‘(ایک یہودی فرقہ جو انتہائی طور مذہبی بنیاد پرست اور قدامت پرست تھا) سے وابستہ تھے۔ اس تنظیم کا بنیادی مقصد امریکہ سمیت دیگر ممالک میں صہیونیت کی ترویج کرنا تھا۔ اسی وجہ سے کالن نے ان افراد کو اس تنظیم کا رکن بنایا جنہوں نے صہیونی مقاصد کی حمایت کا بھرپور اعلان کیا اور ان کو پورا کرنے کے لیے مکمل طور پر کوشاں رہنے کا عزم ظاہر کیا۔
پروشیم عملی میدان میں گوریلا فورس کی طرح خفیہ تنظیم تھی جو خفیہ اور پوشیدہ طریقے سے سیاستمداروں پر اپنا سیاسی اثر و رسوخ پیدا کرنے کی غرض سے وجود میں لائی گئی تھی۔ لہذا کبھی بھی یہ تعجب نہیں کرنا چاہیے کہ کیسے امریکہ کے سابق صدر ویلسن کے قریبی دوست ’’لوئیس برانڈیس‘‘ [۲] (یہودی زادہ) سپریم کورٹ کی سربراہی سنبھالنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں یا کیسے ’’کالن‘‘ پہلی عالمی جنگ کے سلسلے میں اسرائیل حکومت کی تشکیل کی تجویز برطانیہ کے وزیر خارجہ کو دیتے ہیں کہ جس کے نتیجہ میں ’’بالفور اعلان‘‘ کیا جاتا ہے۔
بطور مثال جب برطانوی حکومت پہلی جنگ عظیم میں گرفتار تھی تو جنگ میں برطانیہ کی کمزوری اور شکست باعث بنی کہ ایک دن میں تقریبا ۶۰ ہزار لوگ مارے گئے۔ صہیونیوں نے اس کمزوری سے فائڈہ اٹھایا اور برطانیہ کی حمایت میں یہودی ریاست وجود میں لانے کے لیے امریکہ پر دباؤ ڈالا۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ یہودی حکومت کی تشکیل کا نظریہ، پروشیم کے بانی کالن نے پیش کیا۔ انہوں نے دسمبر ۱۹۱۵ میں اپنے ایک بانفوذ دوست کے ذریعے اپنی تجویز کو برطانیہ کے وزیر خارجہ تک پہنچایا۔ کالن کی تجویز قبول کئے جانے کے بعد پروشیم تنظیم کے سربراہ’’لوئیس برانڈس‘‘ نے برطانیہ کے یہودیوں اور امریکہ کے صدر کے درمیان تعلقات کا پلیٹ فارم ہموار کرکے امریکی حکومت کو عملی طور پر برطانیہ کی حمایت میں جنگ میں شامل کر دیا۔[۳]
حواشی
[۱] Horacc. M .kallen
[۲] Louis Brandis
[۳] کتاب:  Against our better judgment: the hadden history of how the U.S was used to create Israel.