یہودی طرز کا بینکی نظام صرف ربا اور سود پر استوار

  • ۶۷۰

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ:  آج ہم ایسے دور میں زندگی گزار رہے ہیں جس میں بےشمار مشکلات انسان کے دامن گیر ہیں ثقافتی، سماجی، سیاسی اور معیشتی مشکلات نے انسان کو چاروں طرف سے گھیر رکھا ہے حالانکہ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اس تعجب خیز ٹیکنالوجی ترقی کے دور میں انسان کی زندگی کمال اور سعاتمندی کی طرف گامزن ہوتی اور اس راہ میں پائی جانے والے مشکلات کا خاتمہ ہو چکا ہوتا۔
سائنسی ترقی نے جہاں انسانی زندگی کے دیگر شعبوں میں الجھاؤ پیدا کئے وہاں معیشتی امور میں بھی اسے بہت ساری مشکلات سے دوچار کیا۔ آج دنیا کا اقتصاد صرف سرمایہ داروں کے اختیار میں ہے اور دنیا پر حاکم ظالم اور ستمگر حکمران پوری دنیا کے انسانوں کی معیشت کی لگام اپنے ہاتھوں میں لے کر جس طرف چاہتے ہیں انسانی زندگی کی لگام موڑ دیتے ہیں۔
عصر حاضر کے قارون اور فرعون در حقیقت خدا سے مقابلہ کرنے کے لیے معیشی امور میں جس چیز سے کھلے عام فائدہ اٹھا رہے ہیں وہ ہے ’’ربا اور سود‘‘۔ انہوں نے معیشتی امور میں جس نظام کو سماج میں رائج کیا ہے وہ ہے ’’بینکی نظام‘‘۔ بینکی نظام کا اہم ترین رکن سود اور پرافٹ ہوتا ہے اگر اس رکن کو اس نظام سے نکال دیا جائے تو ان کے بقول بینک بیٹھ جائیں گے اور دنیا کا نظام نہیں چل سکے گا جبکہ ایسا نہیں ہے۔ اگر بنکوں سے سود کا لین دین ہٹایا جائے اور اسے الہی اور اسلامی طرز کے مطابق تشکیل دیا جائے تو نہ سماج کی ترقی میں کوئی کمی آئے گی اور نہ کمال کی طرف ان کی زندگی کے سفر میں کوئی خلل واقع ہو گا لیکن جو عصر حاضر میں یہودیوں کے ذریعے جو بنکوں کا جو طریقہ کار بنایا ہوا ہے اس نے دنیا کے ہر انسان کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے جس کی وجہ سے نہ صرف انسانوں کی زندگیوں کی برکتوں کا خاتمہ ہو چکا ہے بلکہ انہیں معیشتی امور میں خدا کے مقابلے میں لا کر کھڑا کر دیا ہے۔
آج پوری دنیا کے ماہرین اقتصاد کا یہ ماننا ہے کہ جس چیز نے انسانی سماج کو بے روزگاری ، مہنگائی اور بدبختی کے موڑ پر لا کر کھڑا کیا ہے وہ ہے عصر حاضر کا بینکنگ سسٹم۔
موسی پیکاک نامی ایک ماہر اقتصاد کا کہنا ہے کہ دنیا کے بین الاقوامی ماہرین اقتصاد معیشتی ترقی کے لیے جس چیز کی تجویز کرتے ہیں وہ ہے سود جبکہ تمام مشکلات کی بنیادی جڑ یہی سود ہے جس کی طرف انسانوں کو متوجہ نہیں کیا جاتا۔
اگر آپ بینکنگ سسٹم پر غور کریں کہ وہ کیسے وجود میں آیا؟ اور اس کے وجود میں لانے والے کون تھے؟ تو آپ کو معلوم ہو جائے گا کہ اس نظام میں انسانوں کو کس طرح بیوقوف بنا کر انہیں اپنے چنگل میں پھنسایا جاتا ہے۔
بنکوں کے نظام کو وجود میں لانے والے یہودی ہیں۔ یہودیوں نے پوری دنیا کی معیشت کو اپنے ہاتھ میں لینے کے لیے ۷ سو سال کا عرصہ صرف کر کے ایک مثلث وجود میں لائی جس کا ایک ستون بینک ہیں جو مکمل طور پر سود پر مبتنی ہیں دوسرا ستون اسٹاک مارکٹ ہے اور تیسرا قرضہ اور Loan ہے۔ یہودیوں نے ۷ سو سال لگا کر یورپ کے اندر اس نظام کو حاکم کیا اس کے بعد پوری دنیا پر اپنی حکومت قائم کرنے کے لیے اس بینکی نظام کے ذریعے سب سے پہلے ان کی معیشت کو اپنے اختیار میں لیا اور ان تین ستونوں کے ذریعے آج یہودی پوری دنیا کی معیشت کو اپنے اختیار میں لینے پر کامیاب ہو چکے ہیں۔
اس کے باوجود کہ قدیم توریت کی شریعت میں دوسرے ادیان و مذاہب کی طرح سود خواری حرام ہے اور سود کھانے والے افراد اخروی عذاب کے علاوہ دنیا میں بھی سزا کے مستحق ہیں ان پر کفارہ واجب ہے اور انہیں کوڑے مارے جائیں گے لیکن یہودیوں نے جدید توریت میں تحریف کر کے سود خواری کو جائز قرار دے دیا’’ اپنے بھائی سے سود طلب نہ کرو نہ نقد پیسے پر نہ کھانے پر نہ کسی دوسری اس چیز ہر جو قرض دی جاتی ہے۔ صرف غیروں سے قرضے پر سود لے سکتے ہو‘‘ ( کتاب مقدس، عہد قدیم، سفر لاویان، باب ۲۵، آیت ۳۷،۳۸)
اہل سنت کے عالم دین رشید رضا نے اپنے استاد شیخ محمد عبدہ سے نقل کرتے ہوئے لکھا ہے: توریت کی قدیمی نسخوں میں یہ عبارت موجود نہیں تھی کہ تم غیروں سے سود لے سکتے ہو لیکن موجودہ نسخوں میں یہ الفاظ موجود ہیں۔ یہودیوں کی تاریخ بتاتی ہے کہ یہودی حتیٰ اپنے بھائیوں پر بھی رحم نہیں کرتے تھے اور ایک دوسرے سے سود لینے کے علاوہ انہیں اپنا غلام بنا کر حتیٰ دوسری قوموں کو بھی بیچ دیتے تھے۔

 

اسلحے کی تجارت کی مافیا کا نشانہ تیسری دنیا کے ممالک

  • ۵۶۵

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: اسلحے کی تجارت بذات خود ایک ایسا خفیہ مسئلہ ہے جس کے بارے میں تحقیق کرنا ایک دشوار کام ہے۔ خاص طور پر اس کی وسعت کی وجہ سے یہ کام مزید دشوار ہو جاتا ہے چونکہ دنیا کے ایک سو پچاس ممالک اور سیکڑوں کمپنیاں اور ہزاروں دلال اس تجارت میں شامل ہیں۔ سامراجی حکومتوں کے دور میں اسلحے کے بعض دلال دو فریقوں کے درمیان جنگ کے خاتمے کے بعد ان سے استعمال نشدہ یا ناکارہ اسلحہ خرید لیتے ہیں اور اس کی مرمت کر کے دنیا میں انتہا پسند گروہوں کو بیچ دیتے ہیں یہ وہ تجارت ہے جو نہ سرکاری ہے اور نہ کبھی اس کی خبر آتی ہے۔  
دنیا میں ہتھیار بنانے اور بیچنے والے ممالک میں امریکہ ، روس ، فرانس ، برطانیہ ، چین ، جرمنی ، چیکوسلواکیہ ، اٹلی ، نیدرلینڈز ، سویڈن اور برازیل کا نام سر فہرست ہے جبکہ خریداروں میں ہندوستان ، عراق ، سعودی عرب ، شام ، مصر ، ترکی ، افغانستان اور خلیجی ریاستیں شامل ہیں۔
مصر ، سعودی عرب ، اردن ، شام اور متحدہ عرب امارات نے سن ۱۹۸۱ سے ۱۹۹۱ کے دوران دولاکھ ساٹھ ہزار بلین ڈالر کا اسلحہ خریدا تھا۔  
اسلحہ کی خریداری کسی دوسرے جارح ملک کے مقابلے میں دفاع سے پہلے خود ملک کے اندرونی نظام کے تحفظ کے لیے ضروری سمجھی جاتی ہے۔ گوکہ مسلح افواج، حکمران حکومت کی طاقت اور اس کے اقتدار کا اصلی اڈہ ہوتی ہیں۔
بعض اوقات، سرمایہ دارانہ سامراجی نظام کے حکمران طبقے کے ساتھ اچھے تعلقات برقرار رکھنے کے لئے بھی اسلحہ کی خریداری کی جاتی ہے۔ سرمایہ دار ممالک ہھتیاروں کی کثیر تعداد میں پیداوار کر کے تیسری دنیا میں اسے فروخت کرنے کے لیے پہلے جنگیں چھیڑتے ہیں ایک ملک کو دوسرے ملک سے لڑاتے ہیں اور پھر انہیں اسلحہ فروخت کرتے ہیں۔
اس دوران ، امریکی اسلحہ ساز کمپنیوں ’رومن‘ اور ’جنرل ڈائنامکس‘ اور ’ایم ، سی ڈونیلی ، اور ’ڈگلس‘ نے آنے والے برسوں میں اپنے اسلحے کی برآمدات کو دوگنا کرنے کے منصوبوں کا اعلان کیا ہے۔
اس پالیسی کے بعد ۱۹۹۰ میں تیسری دنیا کے ممالک کو امریکی ہتھیاروں کی برآمد دوگنا ہوکر 18.5 بلین ڈالر تک پہنچ گئی اور بھاری ہتھیاروں کی برآمد میں ریاستہائے متحدہ امریکہ پہلے نمبر پر آیا۔
بالادست ممالک کا تسلط اسلحے کی برآمد تک ہی محدود نہیں ہے، بلکہ بعض اوقات خود فوجیوں کا غیر قانونی استعمال بھی اسی پالیسی کا حصہ ہوتا ہے جیسا کہ کیہان اخبار نے اپنے ایک مقالے میں لکھا: برطانوی ایم او ڈی پولیس افسران نے حالیہ دنوں میں لندن اور برطانیہ کے دیگر شہروں میں متعدد کمپنیوں کے ہیڈ کوارٹرز پر چھاپہ مارا تاکہ بیس ملین پونڈ کے گھپلے کی تفصیلات جمع کر سکیں جو انہوں نے دلالوں کے استعمال اور حکومتی عہدیداروں کے تعاون سے برطانوی فوجیوں کو خلیج فارس کی جنگ میں دھکیلنے پر خرچ کئے تھے۔  
منبع: ایرج تبریزی، تجارت شیطانی

 

دستاویزی فلم To Die In Jerusalem کی حقیقت کیا ہے؟

  • ۴۴۲

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: ھِلّا میڈالیا (Hilla Medalia) کو دستاویزی فلموں کے ذریعہ پہچانا جاتا ہے، یروشلم میں موت مڈالیا کی ایک ایسی فلم ہے جو راہیل لوی نامی ایک اسرائیلی لڑکی کی ذاتی زندگی کو پیش کرتی ہے جسے فلسطینی خاتون خودکش بمبار، آیت الاخراس Ayat al-Akhras.. الہراس نے کرۃ ہیویلیل Kiryat HaYovel’s کے اہم سپر مارکیٹ کے دروازے پر ایک خودکش حملہ میں دھماکے سے اڑا کر ہلاک کر دیا تھا۔
فلم “یروشلم میں موت” ( To Die In Jerusalem) اس حملہ کی خودکش داستان کے ساتھ دونوں ہی لڑکیوں کی ماوں کے نظریات کو کیمرہ کے ذریعہ پیش کر رہی ہے ۔ وہ چیز جو اس فلم کی داستان کو لائق توجہ بنا رہی ہے وہ قاتل و مقتول لڑکیوں کی آپس میں عجیب و غریب شباہت ہے دونوں کی ملتی جلتی شکل و صورت ناظرین کے لئیے حیرانی کا سبب ہے ، اس فلم کو امریکی چینل ایچ بی او H.B.Oنے نشر کیا۔
 
اس ڈاکومنٹری فلم کے سلسلہ سے ایک وبلاگر لکھتے ہیں: یہ ایک ایسی دستاویزی فلم ہے جو آیات الاخرس نامی لڑکی کے خود کش بم کے ذریعہ ہلاک ہونے والی ایک یہودی لڑکی موت کو پیش کرتی ہے ، یہ ایک ایسی مخصوص زاویہ دید پر مشتمل فلم ہے جو مبالغہ آرائی سے بھری ہوئی ہے اسکے برخلاف نیویارک ڈیلی نیوز نے شدید طور پر اس دستاویزی فلم کی بے طرفی کی حمایت کی ہے ۔اس اخبار کی بے نظیر حمایت اور اسی طرح دیگر امریکن اخباروں کا کھل کر اس کی حمایت میں کھڑا ہونا اس بات کا عندیہ ہے کہ میڈیا کا زنجیری حلقوں کی صورت ایک پورا سلسلہ ہے جو چاہتا ہے کہ ایک بار پھر اسرائیل کی دستاویزی فلموں کو فعال و متحرک کریں تاکہ اس کے ذریعہ اسرائیل کے کاموں اور اس کی جنایتوں کو جواز فراہم کرتے ہوئے اسکا ہاتھ کھلا رکھیں ۔خاص طور پر یہ کہ یہ لوگ اس بات سے اچھی طرح واقف ہیں کہ اسرائیل کو اپنا دامن داغدار پاک کرنے کے لئیے مختلف پہلووں میں حمایت کے ساتھ میڈیا و ذرائع ابلاغ سے مربوط امور میں تعلیم کی ضرورت ہے ابھی بہت کچھ ایسا ہے جسے اسے سکھانا ضروری ہے ۔
مغرب کے سربراہان و سرمایہ دار لوگ اس بات کی کوشش میں مشغول ہیں کہ ہر سال اسرائیلی ذرائع ابلاغ کی بنیادوں اور اس کے ذیلی شعبوں کو مضبوط کرتے ہوئے ان میں اضافہ کریں، اور اس سلسلہ سے اسرائیل کے مختلف ادارہ جات و فاونڈیشنز جیسے اقدار پر مبنی فلموں کے فاونڈیشن کی تمجید، اور انہیں کام میں رغبت دلانے کے لئیے انکی حوصلہ افزائی کرتے نظر آ رہے ہیں ، اسرائیلی سنیما کی اکیڈمی نے حالیہ چند برسوں میں اسکار کی طرز پر اس سے ملتے جلتے پروگرامز اور شو منعقد کئیے ہیں جن میں سے شایک افئیر کی طرف اشارہ کیا جا سکتا ہے ۔
بہر کیف! اس بات پر توجہ کی ضرورت ہے کہ حالیہ چند سالوں میں اسرائیل میں میڈیا و ذرائع ابلاغ سے جڑے ادارے بہت مضبوط ہوئے ہیں اور اسرائیل کے سٹلائیٹ چنیل کی فزونی کی مقدار اور پے در پے انکی بنیاد و تاسیس اسی بات کی بیان گر ہے ۔
“یروشلیم میں مرنے کے لئے” نے ۲۰۰۷ میں پیڈڈی ایوارڈ کے ساتھ مل کر، ایچ ڈی او کے دستاویزی فلموں کو جنم دیا.

............

فلسطینی نوجوانوں کی تعلیم و تربیت کے لیے صہیونی مراکز کے قیام کا اہم مقصد

  • ۴۳۰

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: سن ۱۹۴۸ میں فلسطین کے بہت سارے علاقوں پر ناجائز قبضہ کر کے عالمی صہیونیت نے اسرائیل کے نام سے ایک یہودی ریاست کے قیام کا اعلان کرتے ہی صدیوں سے اس سرزمین پر مقیم فلسطینیوں پر جارحیت، قتل و غارت اور ظلم و تشدد کا سلسلہ شروع کر دیا تھا۔
یہودی ریاست کے ظلم و تشدد کا مقابلہ کرنے کی غرض سے فلسطینی جوانوں نے مزاحمتی گروہ تشکیل دے کر اینٹ کا جواب پتھر سے دیا۔ اور قدم بہ قدم صہیونی ریاست کے مظالم کا منہ توڑ جواب دیتے رہے۔ آخرکار جب اسرائیلی عہدیداروں نے فلسطینی نوجوانوں کے اندر جذبہ مزاحمت اور جوش شہادت کو محسوس کیا تو ان کے خلاف مسلحانہ کاروائیوں کے علاوہ دوسرے منصوبے تیار کرنا شروع کئے۔
درج ذیل رپورٹ ملت فلسطین کے اندر صہیونی نفوذ کا ایک نمونہ ہے اس رپورٹ سے یہ واضح ہوتا ہے کہ صہیونی ریاست مختلف حربوں سے فلسطینیوں کے اندر نفوذ حاصل کرنے کی منصوبہ بندی کرتی ہے۔
 
اسرائیلی ریاست نے فلسطینیوں کے خلاف جہاں ایک طرف ’’سخت جنگ‘‘(Hard War) کا سلسلہ جاری رکھا وہاں دوسری طرف ’’نرم جنگ‘‘ (Soft War) کے ذریعے فلسطینی جوانوں کے جذبہ مزاحمت کو کمزور کرنے کی کوشش کی۔
نرم جنگ کے تحت انجام پانے والا صہیونی منصوبہ در حقیقت وہی امریکی منصوبہ ہے جو امریکیوں نے ’’سرخ پوست‘‘ اینڈین کے خلاف اور یورپ میں فرانیسیوں نے اس ملک کے مہاجرین کے خلاف اپنایا تھا۔
 
 اس اسٹراٹیجیک کا بنیادی مقصد یہ تھا کہ وہ مختلف حربوں کے ذریعے نوجوانوں کے اندر سے جذبہ مزاحمت کو ختم کریں اور انہیں اپنے دین، اپنی ثقافت، اپنی زبان اور اپنی فکر کا گرویدہ بنائیں۔ صہیونی ریاست نے اسی منصوبہ کو فلسطینی نوجوانوں پر آزمانے کے لیے فلسطین میں جگہ جگہ ’’امن کے لیے پرز مرکز‘‘(The peres center for peace) کے نام سے کئی مراکز قائم کئے ہیں۔
’’امن کے پرز مراکز‘‘
’’امن کے لیے پرز مراکز‘‘ کی ۱۹۹۶ میں اسرائیلی وزیر اعظم شیمون پرز کے ذریعے بنیاد رکھی گئی۔ جیسا کہ اس مرکز کے آئین نامے میں درج ہے اس مرکز کا مقصد علاقے مخصوصا مغربی کنارے، مقبوضہ قدس اور غزہ کی پٹی کے عوام کے درمیان امن کی ثقافت کو توسیع دینا اور انہیں ان مراکز کی تعمیر اور ترویج میں مشارکت کی تشویق دلانا ہے۔
    
فلسطینی معاشرے میں سرگرم ان مراکز کی سرگرمیاں ۳ سے ۲۵ سال کے نوجوانوں کے لیے مخصوص ہوتی ہیں اور انہیں تعلیمی، طبی، فن و ہنر، کھیل کود، کھیتی بھاڑی وغیرہ وغیرہ کی خدمات فراہم کی جاتی ہیں۔
ان مراکز کے آئین نامے کے مطابق، امن کے مراکز کا اصلی مقصد فلسطینی ۔ اسرائیلی باہمی تعاون کے لیے مناسبت پلیٹ فارم فراہم کرنا ہے۔
امن کے پرزمراکز کی سرگرمیاں
یہ مراکز ’’امن کے لیے تعلیم و تربیت‘‘ کے شعار کو اپنا سرلوحہ قرار دے کر نوجوانوں کو اپنی طرف کھینچنے کی کوشش کر رہے ہیں اور انہیں اسرائیلی مقاصد کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرنے سے روکنے اور مزاحمت کی راہ سے دوری اختیار کرنے کی ترغیب دلاتے ہیں۔
    
خیال رہے کہ فلسطینی ایسے حال میں امن اور صلح کی بات کرتے ہیں کہ اس غاصب صیہونی ریاست کے جنگی طیارے شب و روز فلسطینی باشندوں پر بم گرا کر انہیں خاک و خوں میں غلطاں کرتے ہیں۔
         
یہودی ریاست ایک طرف سے امن کے مراکز قائم کر کے فلسطینی نوجوانوں کے اندر سے اپنے حقوق کی بازیابی اور اپنی زمینوں کو واپس لینے کے لیے جد و جہد کے جذبے کو ختم کر رہی ہے جبکہ دوسری طرف مقبوضہ فلسطین میں یہودی بچوں کے لیے اسلحہ کی ٹریننگ کے مراکز قائم کر کے انہیں فلسطینیوں کے خلاف لڑنے کے لیے بچپن سے ہی آمادہ کر رہی ہے۔

 

صہیونی تفکر کے ناقد اور فلسطینی مقاصد کے حامی اسرائیل شحاک کا تعارف

  • ۵۲۱

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: اسرائیل شحاک، اسرائیل کے ایک اہم اسکالر اور معروف محقق تھے وہ ۱۹۳۳ میں پولینڈ کے شہر ورسزاوا(۱) میں پیدا ہوئے۔ شحاک اشکنازی یہودی گھرانے کے سب سے چھوٹے فرزند تھے۔(۲)
شحاک نے اپنے بچپنے کے کچھ ایام بلسن (۳) کے جنگی اسراء کے کیمپ میں گزارے اور ۱۹۲۵ میں فلسطین ہجرت کر کے اس ملک کے مکین ہو گئے۔ نوجوانی کا دور فلسطین میں گزارا اور اس دوران عبری زبان پر بھی مہارت حاصل کی۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ یہودی معاشرے کے اخلاق و اداب سے بھی بخوبی آشنا ہوئے۔


انہوں نے ۱۹۶۱ میں امریکہ کا سفر کیا اور “اسٹین فورڈ”(۴) یونیورسٹی سے پوسٹ ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی۔ وہ دو سال کے بعد واپس اسرائیل لوٹے اور “ہیبرو یروشلم(۵) یونیورسٹی میں ایک تجربہ کار استاد کی حیثیت سے کام شروع کیا۔
اسرائیل شحاک ایک لیبرل مفکر اور انسانی حقوق کے حامی جانے جاتے تھے۔ صہیونی تفکر کی نسبت تنقید اور فلسطین کے مظلوم عوام کی نسبت حمایت کا موقف اختیار کر کے یہودیوں کے درمیان انہوں نے خاص شہرت حاصل کی۔ وہ ۱۹۷۰ سے ۱۹۹۰ تک اسرائیل کے انسانی حقوق یونین(۶) کے چیئرمین مقرر ہوئے اور ہمیشہ اسرائیلی حکومت کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے رہے۔ انہوں نے اس دوران متعدد بار فلسطینیوں کو “Apartheid ” (نسل پرستی کے ظلم کا شکار) کے عنوان سے یاد کیا۔ اور ان صہیونیوں کو جو فلسطینیوں کے حقوق کو نظر انداز کرتے تھے متعصب یہودیوں کا نام دیا۔ شحاک صہیونیت پر تنقید کرنے کی وجہ سے یہودیوں کے درمیان “یہود ستیز” (یہودی مخالف) معروف تھے۔
پروفیسر شحاک اسرائیل نے بہت ساری کتابیں اور مقالے تحریر کئے ہیں کہ جن میں سے اہم ترین درج ذیل ہیں: “عیسائیت کی نسبت یہودیوں کی نفرت”(۷)، الخلیل کے قتل عام کے پشت پردہ خفیہ سازشیں”(۸)، “تاریخ یہود اور تین ہزار سالہ یہودی دین”، “اسرائیل میں یہودی بنیاد پرستی”۔(۹)
امریکہ کے معروف رائٹر گورویڈل (۱۰) کتاب “تاریخ یہود” کے مقدمے میں شحاک کو ایک یہودی محقق کا لقب دیتے ہیں کہ جو اپنی پر نشیب و فراز زندگی کے تلاطم میں انسانیت کے حامی رہے اور اپنی توانائی کے مطابق یہودیت کے ظلم و جور کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرتے رہے۔
اسرائیل شحاک نے ۱۹۹۰ میں شوگر کی بیماری کی وجہ سے یونیورسٹی میں تدریس کی سرگرمیوں کو ترک کر دیا اور آخر کار ۶۸ سال کی عمر میں ۲ جون ۲۰۰۱ کو اسی بیماری کی وجہ سے انتقال کیا۔
حوالے
۱ Warszawa
۲ catalogue.bnf.fr/ark:/12148/cb13521443g
۳ Belsen or Belson
۴ Stanford University
۵ Hebrew University
۶ Israeli Human Rights league
۷ Jewish Hatred toward Christianity
۸ Idealogy behind the Hebron Massacre
۹٫The Jewish fundamentalism and its Profound Impact on Israeli Politics
۱۰ Gore vidal
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

سعودی ولی عہد کا امریکی جریدے ’دی اٹلانٹک‘ کو انٹرویو

  • ۴۲۸

خیبر صیہون ریسرچ سینٹر: سعودی ولیعہد نے کہا ہے کہ سعودی عرب اور اسرائیل کے درمیان بہت سارے مشترکہ مفادات موجود ہیں اور اگر امن قائم ہو جائے تو اسرائیل اور خلیجی عرب ممالک کے درمیان روابط میں استحکام آ سکتا ہے۔
محمد بن سلمان نے اس انٹرویو میں مزید کہا کہ اسرائیلیوں کو بھی اپنی مستقل سرزمین رکھنے کا حق حاصل ہے جس میں وہ پرامن طریقے سے زندگی بسر کر سکیں۔
پیر کے روز شائع ہونے والے امریکی جریدے دی اٹلانٹک میں سعودی شہزادے نے اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ سعودی عرب اور اسرائیل کے درمیان تعلقات بتدریج بہتری کی طرف جا رہے ہیں۔
بن سلمان سے پوچھے گئے اس سوال کے جواب میں کہ کیا یہودیوں کو ایک مستقل جگہ پر جینے اور اپنا ملک بنانے کا حق حاصل نہیں ہے؟ کہا: فلسطینیوں اور اسرائیلیوں دونوں کو اپنی اپنی سرزمین رکھنے کا حق حاصل ہے لیکن ان دونوں ملکوں کو چاہیے کہ ایک پرامن معاہدے پر اتفاق کر لیں جس سے علاقے میں استحکام پیدا ہو اور باہمی تعلقات بھی معمول پر آئیں۔
سعودی ولیعہد کا اپنے انٹرویو کے دوران مزید کہنا تھا کہ ان کی کسی قوم کے ساتھ کوئی لڑائی نہیں ہے بلکہ ان کے تمام خدشات یروشلم میں واقع مسجد الاقصیٰ کے مستقبل اور فلسطینی عوام کے حقوق سے متعلق ہیں۔ اس کے علاوہ ہمیں اسرائیل سے کوئی مشکل نہیں ہے۔
انہوں نے اس بات پر تاکید کرتے ہوئے کہ ہمارا یہودیوں سے کوئی جھگڑا نہیں ہے کہا: ہمارے اور اسرائیل کے ساتھ مشترکہ مفادات ہیں اور اگر امن حاصل ہو جاتا ہے تو اسرائیل اور خلیج تعاون کونسل کے رکن ملکوں جیسے مصر اور اردن کے ساتھ بہت سارے مشترکہ مفادات حاصل ہوں گے۔
حالیہ برسوں کے دوران سعودی عرب کے اسرائیل کے ساتھ بڑھتے تعلقات کی خبریں سامنے آ رہی تھی لیکن سعودی ولیعہد محمد بن سلمان نے اقتدار کی کرسی سنبھالتے ہی ان تعلقات میں مزید استحکام پیدا کر دیا ہے۔ انہوں نے گزشتہ ماہ اسرائیلی پروازوں کے لیے اپنی فضائی حدود کھول کر یہودیوں کے دل خوش کر دئے اور صہیونی ریاست نے بھی بڑی گرم جوشی سے ان کے اس اقدام کا خیر مقدم کیا۔
گزشتہ سال نومبر کے مہینے میں اسرائیل کابینہ کے ایک وزیر نے اسرائیل کے سعودیہ کے ساتھ خفیہ روابط کا پردہ چاک کرتے ہوئے کہا تھا کہ اسرائیل کے سعودی اعلیٰ حکام سے گہرے اور قریبی تعلقات ہیں۔
خیال رہے کہ سعودی شہزادہ بن سلمان جو حالیہ دنوں طویل امریکی دورے پر ہیں نے امریکہ میں یہودی لابی سرغنوں سے ملاقاتیں کی ہیں جبکہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے داماد کوشنر سے ملاقات کے دوران امریکی مجوزہ امن منصوبہ ’’صدی کی ڈیل‘‘ کے حوالے سے بھی بات چیت کی ہے۔

 

بیت المقدس کی تعمیر جدید

  • ۹۳۴

خیبر صیہون ریسرچ سینٹر: محدثین کہتے ہیں کہ ایک بار سرزمین بیت المقدس میں طاعون کی وبا آئی جس میں کثرت سے لوگ جان بحق ہوئے ، حضرت داوٗد کا زمانہ تھا انہوں نے لوگوں سے کہا : پاک و پاکیزہ ہو کر بیت المقدس کی پہاڑی پر چلو اور رو رو کر خدائے رحیم سے رحم کی التجا کرو ۔ قوم داوٗد علیہ السلام نے ویسا ہی کیا سجدے میں اسوقت تک روتی رہی جب تک خدا نے طاعون کی بلا ان سے اٹھا نہیں لی ۔
جب تین دن عافیت سے گذر گئے تو حضرت داوٗد نے دوبارہ ان لوگوں کو جمع کیا اور فرمایا ‘اللہ نے تم لوگوں پر رحم وکرم کیا لہٰذا تم لوگ دوبارہ اس کا شکریہ ادا کرو ، اور بطور شکریہ اس پہاڑی بیت المقدس کی بنیاد ڈالو۔
لوگوں نے اس تجویز کو قبول کیا اور اس طرح بیت المقدس کی تجدیدِ تعمیر کا کام شروع ہوا ، اس وقت اگر چہ حضرت داؤد کی عمر ایک سو ستائیس سال تھی لیکن اس کے باوجود اپنے کاندھوں پرپتھر اٹھا کر لائے اور قد آدم دیوار بلند کی تعمیر کا سلسلہ جاری ہی تھا کہ وحی کے ذریعہ اللہ نے خبر دی کہ اس تعمیر کی تکمیل آپ کے بیٹے سلیمان ؑ کے ہاتھوں ہوگی ، ایک سو چالیس سال کی عمر میں حضرت داؤد کی رحلت ہوئی اور حضرت سلیمان نے خدا کے گھر کو مستحکم و دیدہ زیب بنانے کیلئے دریاؤں سے جواہرات نکلوائے ، پہاڑوں کو کٹواکر رنگ برنگے پتھر ترشوائے ، زمین کی تہوں سے لعل و جواہر اکٹھا کرائے ، جنات و انسان و شیطان سب مل کر کام کرتے رہے جب عمارت مکمل ہو گئی تو بہترین مشک و عنبر سے معطر کرایا ۔
روئے زمین پر اس وقت بیت المقدس سے زیادہ کوئی خوبصورت عمارت نہیں تھی، اندھیری رات میں جواہرات کی چمک دمک سے عمارت تو عمارت ماحول چودھویں رات کا منظر پیش کرتا تھا ۔
بیت المقدس اسی شان و شوکت سے سالوں باقی رہا بخت نصر نے جب حملہ کیا تو سارے جواہرات لوٹ لئے ، دیواریں منہدم کرادیں ، شہر کو تاراج کردیا ۔

 

مسجد ’’الخلیل‘‘ کا تعارف

  • ۷۸۴

خیبر صیہون ریسرچ سینٹر: فلسطین میں ناجائز آبادکاریوں کی دیواروں کے پیچھے ایک ویران مسجد پائی جاتی ہے۔ اسے مسجد کہیں یا حرم حضرت ابراہیم، مسجد الاقصیٰ کے بعد فلسطین کی یہ دوسری اہم ترین مسجد ہے۔
اس کے بعد کہ یونیسکو نے اس مسجد کو فلسطینیوں سے متعلق قرار دیا صہیونیوں نے یونیسکو کے اس فیصلے پر بہت اعتراضات کئے اور بجائے اس کے کہ اس مسجد کو فلسطینیوں کے حوالے کریں فلسطینیوں اس میں آمد و رفت پر قدغن لگا دی۔ یہ مسجد صدیوں سے آج تک پوری دنیا کے خداپرست یہودیوں، عیسائیوں اور مسلمانوں کی زیارت کا مرکز اور محل عبادت رہی ہے۔
مورخین کے مطابق، اس مسجد کی تاریخ حضرت ابراہیم کے زمانے سے تعلق رکھتی ہے اور کہا جاتا ہے کہ حضرت ابراہیم اسی مسجد میں دفن ہیں اسی لئے اس مسجد کا نام بھی آپ کے نام یعنی الخلیل سے موسوم ہے۔ اس مسجد میں چھوٹے چھوٹے گنبد بنے ہوئے ہیں جو بعض تاریخی منابع کے مطابق، بعض پیغمبروں اور حضرت ابراہیم کے اہل بیت یعنی جناب سارہ، جناب اسحاق، جناب اسماعیل، جناب یعقوب، جناب یوسف سے منسوب ہیں۔
سن ۱۵ ہجری میں مسلمانوں نے اس مسجد کی تعمیر نو کی مورخین کا کہنا ہے کہ اسلام سے قبل یہ مسجد اہل عبادت کے لئے قبلہ کے عنوان سے بنائی گئی تھی۔
قابل ذکر ہے کہ اسرائیل نے اس کے باوجود کہ یونیسکو نے اس مسجد کو مسلمانوں سے متعلق قرار دیا اس بین الاقوامی ادارے کے فیصلے کی مخالفت کرتے ہوئے مسجد الخلیل کو مسلمانوں کے حوالے نہیں کیا اور مسجد الاقصیٰ کی طرح اس پر بھی ناجائز قبضہ جمایا ہوا ہے۔

 

دواؤں کی شیطانی تجارت کی عالمی منڈی

  • ۷۲۶


خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: دواؤں کی تجارت بیسویں صدی کے دوسرے نصف حصے میں عالمی سطح پر شروع ہوئی۔ جس کے بعد دنیا میں دواؤں کی بڑی بڑی کمپنیاں وجود میں آئیں۔ دوا ساز کمپنیوں نے کیمیکل مواد کی پیداوار کے لیے بڑے بڑے کارخانے کھولے۔ دنیا کے آٹھ ممالک؛ جرمنی، امریکہ، فرانس، اٹلی، سوئٹرزلینڈ، اسپین، برطانیہ اور جاپان میں دنیا کی تقریبا ۸۰ فیصد دوائیں تیار کی جانے لگیں۔
دوائیں بنانے والے دنیا کے ان اہم ترین ممالک میں امریکہ سر فہرست ہے جس میں ۱۶ بڑے کارخانے ہیں جن میں سالانہ ۴۵۵۱۶ ملین ڈالر کی دوائیں تیار کی جاتی ہیں۔ اس کے بعد جرمنی ہے جس میں چار بڑی فکٹریاں ہیں جو ۶۸۶۶ ملین ڈالر کی سالانہ دوائیں بناتی ہیں۔ بعد از آں سوئٹرزلینڈ ہے جو ۳ فکٹریوں کے ذریعے ۸۹۷۴ ملین ڈالر اور برطانیہ چار کارخانوں کے ذریعے ۴۳۲۳ ملین ڈالر کی دوائیں تیار کرتے ہیں اس کے بعد فرانس، جاپان، ہالینڈ اور اٹلی کا نمبر آتا ہے۔
اعدادوشمار بتاتے ہیں کہ ۳۲ دوا ساز کمپنیاں سالانہ ۳۵ بلین ڈالر کی دوائیں عالمی منڈی میں سپلائی کرتی ہیں۔ سالانہ سیکڑوں ٹن کیمیکلز دواؤں کے نام پر جن میں پین کیلر، اینٹی بایٹک، سردرد کی دوائیں وغیرہ وغیرہ شامل ہیں لوگوں کے جسموں میں وارد کئے جاتے ہیں۔ یہ کیمیکلز  ہزاروں قسم کی دواؤں کے نام سے دنیا میں تقسیم کیے جاتے ہیں اور عالمی تجارتی منڈی میں اس تجارت سے ناقابل تصور منافع کمایا جاتا ہے۔
دوسرے ممالک میں دوا ساز کمپنیوں کے گمراہ کن کردار کے بارے میں بہت کچھ کہا جاسکتا ہے۔ سامراجی سرمایہ دارانہ معاشروں میں پیش کی جانے والی زیادہ تر دوائیں نہ صرف جانوروں پر بلکہ اقوام عالم اور بسا اوقات اپنے ہی لوگوں پر بھی آزمائی جاتی ہیں۔
لیکن دواؤں کے تجربے کے اصلی چوہے تو تیسری دنیا کے بے خبر لوگ، خاص طور پر خواتین اور بچے ہوتے ہیں، اور اس جرم میں شریک وہ ڈاکٹر، ہسپتال اور ادارے ہیں جو رشوت  کے بدلے ان دواؤں کو تجویز کرتے ہیں اور اس کے بعد اس کے نتیجے کو دوا ساز کمپنیوں تک پہنچاتے ہیں۔
اس قسم کے ٹیسٹ، جو خفیہ طور پر اور مریضوں کے علم کے بغیر کئے جاتے ہیں، نہ صرف بہت سارے موارد میں مریضوں میں طرح طرح کی مشکلات پیدا کرتے ہیں بلکہ بسا اوقات مریض کی موت کا سبب بھی بنتے ہیں۔
اس کی متعدد مثالیں موجود ہیں کہ بہت ساری ایسی دوائیں جو سرمایہ دار ممالک میں خطرناک منفی اثرات رکھنے کی وجہ سے ان پر پابندی عائد کر دی جاتی ہے لیکن دوسرے ممالک میں وہ دوائیں کثرت سے استعمال ہوتی رہتی ہیں اور تجارتی منڈی میں ان کا بازار گرم رہتا ہے۔ اور یہاں تک کہ بعض ممالک میں وہ دائیں بھی کثرت سے بیچی جاتی ہیں جن کے استعمال کی تاریخ بھی ختم ہو چکی ہوتی ہے۔
اس کی ایک مثال ہندوستان کی میڈیسن مارکیٹ ہے۔ ایک سرکاری رپورٹ کے مطابق، سن ۱۹۸۴ میں ۴۶ فیصد دوائیں جو عالمی دوا ساز کمپنیوں کے ذریعے ہندوستان میں استعمال کی گئیں ان کے استعمال کی تاریخ گزر چکی تھی اور وہ اکسپائر دوائیں تھیں۔
۱۹۷۰ کی دہائی کے آغاز میں ہندوستان کی میڈیسن مارکیٹ میں ہزاروں قسم کی دوائیں اور ویٹامنز ایسے تقسیم کیے گئے جن میں الکحل (Alcohol) حد سے زیادہ استعمال کیا گیا تھا اور جو لوگ ان دواؤں کو ایک دو بار استعمال کرتے تھے وہ انکے عادی ہو جاتے تھے اور اس طرح سے شیطانی تجارت کو خوب رواج ملتا تھا۔
منبع: ایرج تبریزی، تجارت شیطانی ص163

 

ڈاکٹر عبد الوہاب المسیری کا تعارف

  • ۶۲۵

خیبر صیہون ریسرچ سینٹر: مشہور مصری مفکر اور انسائکلوپیڈیا (دائرۃ المعارف) کے مولف، ڈاکٹر عبدالوہاب المسیری سنہ ۱۹۳۸ع‍ کو قاہرہ سے ۱۵۰ کلومیٹر شمال کی جانب شہر “دمنہور” میں پیدا ہوئے۔ سنہ ۱۹۵۹ میں ابتدائی تعلیمی مراحل طے کرکے جامعہ اسکندریہ سے فارغ التحصیل ہوئے اور سنہ ۱۹۶۹ میں ریاست ہائے متحدہ امریکہ کی رتگرز یونیورسٹی (۱) سے پی ایچ ڈی کی سند حاصل کی۔
المسیری نوجوانی کے دور میں کچھ عرصے تک جماعت اخوان المسلمین کے رکن رہے اور انقلاب جولائی (۲) (۳) کے بعد شورائے آزادی سے جا ملے۔ ۱۹۷۰ع‍ کے عشرے میں مغربی دنیا میں ظہور پذیر ہونے والی اس تنقیدی تحریک سے متاثر ہوئے جو جدیدیت سے پیدا ہونے والے بحران کو ہدف تنقید بنا رہی تھی اور انسان کی ـ اپنے آپ سے بھی اور فطرت سے بھی ـ بیگانگی کو دستاویز بنا کر جدیدیت پر حملہ آور ہوچکی تھی۔ تنقیدی تفکرات سے متاثر ہونے اور مسلمانوں کے قدیم آثار و باقیات کا مشاہدہ اور مسلم علماء اور مفکرین کی کاوشوں کا مطالعہ کرکے فکری طور پر اسلام کی طرف پلٹ آئے۔ المسیری نے مادیت سے اسلام کی طرف طے کردہ راستے کو “من المادیۃ إلى الإنسانیۃ الإسلامیۃ (مادیت سے اسلامی انسانیت (۴) تک)” سے معنون کیا ہے۔ اس اسلامی انسانیت کا آغاز عالم وجود کی نسبت ردّ و انکار کی یک پہلو (۵) سوچ سے ہوتا ہے اور یہ انسان اور فطرت کی دوہریت پر تاکید کرتی ہے۔ یہ تصور اس مقام پر عروج کی طرف گامزن ہوجاتا ہے اور خالق و مخلوق، آسمان و زمین، جسم اور روح، حلال و حرام اور مقدس اور مُدَنِس کی دوہریت تک پہنچ جاتا ہے۔ المسیری کی نظر میں جس توحید کا تعارف اسلام کراتا ہے، سب سے زیادہ ترقی پسند اور سب سے زیادہ جدید ہے۔
المسیری کہتے ہیں: “میں نے محسوس کیا کہ اسلامی نظام (۶)، عالمی نظریئے (۷) کے طور پر، مجھے حقیقت کی مُرکّب اور کثیر الجہتی تفسیر فراہم کرتا ہے، اور اس سے زیادہ اہم بات یہ کہ انسانی مظاہر (۸) اور رجحانات کی صحیح تشریح میرے سامنے رکھتا ہے۔ غیر دینی نظام انسان کے مظاہر اور انفرادیتوں کی تشریح کی قوت و استعداد نہیں رکھتا”۔ (۹)
المسیری کی شائع ہونے والی کاوشوں کی تعداد ۵۷ تک پہنچتی ہے۔ انہوں نے تین بنیادی موضوعات پر تصنیف تالیف کا کام کیا ہے:
۔ مغربی معاشرے اور تہذیب پر تنقید: المسیری مغرب میں طویل عرصے تک قیام کے تجربے کی بنا پر اس نتیجے پر پہنچے تھے کہ مغربی تہذیب بالآخر انسان اور انسانیت کو مسخ کرکے اسے اعلی انسانی اقدار سے خالی کرکے کھوکھلا کر دیتی ہے اور انسان کو اوزار میں بدل دیتی ہے، اور اس زمینی جنت کا انجام کار جہنم کی بھڑکتی ہوئی آگ ہے جو انسان کے سر و پا کو جلا کر راکھ کردیتی ہے۔
۔ صہیونیت اور یہود کے بارے میں متعدد تحقیقات ـ جس کا المسیری نے اہتمام کیا اور اسے توسیع دی اور ان کی یہ کاوشیں صہیونیت کے بارے میں عربی مطالعات کا بنیادی ذریعہ ہیں۔ اور المسیری صہیونیت کو نازیت (۱۰) ہی کی ایک شکل سمجھتے تھے۔
۔ علمانیت (۱۱) پر المسیری کی تحقیقات جو مغربی جدیدیت کی فکری اور سماجی کثرتیت کے پہلؤوں کی نسبت ان کے نظریئے کی بنیاد ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۱۔ Rutgers University
۲۔ ثورة ۲۳ یولیو ۱۹۵۲ July 23, 1952 Revolution.
۳۔ انقلاب جولائی در حقیقت اس فوجی بغاوت کا نام ہے جو مصری افواج کے “ضباط الحر یا آراد افسران” کہلوانے والے افسروں نے مصری بادشہای حکومت کے خلاف کی تھی اور اس کے سرکردگان محمد نجیب اور جمال عبدالناصر تھے۔
۴۔ Islamic humanity
۵۔ Unilateral
۶۔ منظومہ یا System
۷٫ Worldview
۸٫ Human phenomena
۹۔ الشیخ، ممدوح، عبدالوهاب المسیری من المادیة الی الانسانیة الاسلامی‍ة، ص۵۹٫
۱۰٫ نازیت (انگریزی: Nazism، جرمنی: Nationalsozialismus) ایک نسل پرست قومی تحریک جو جرمنی میں شروع ہوئی۔ اس تحریک کے مطابق ایک جرمن قوم باقی سب پر فضیلیت رکھتی ہے۔ جرمن حکمران ہٹلر کا اس تحریک میں اہم کردار تھا۔
۱۱٫ Secularism