کیا سعودی عرب کو امریکہ پر واقعا بھروسہ ہے؟ امیر عبد اللھیان

  • ۳۸۹

خیبر صیہون ریسرچ سینٹر: گزشتہ سے پیوستہ//
ڈاکٹر امیر عبد اللٰھیان کے ساتھ یمن کے موضوع پر اہم گفتگو:
سوال: پس امریکی کسی صورت میں سعودیوں پر اعتماد نہیں رکھتے، آپ جب نائب وزیر خارجہ کے طور پر سعودی عرب کے دورے پر گئے تھے، تو اس وقت کے وزیر خارجہ سعود الفیصل نے آپ سے کہا تھا کہ “ہم امریکیوں پر اعتماد نہیں رکھتے”، یہ کیونکر ممکن ہے کہ یہ دونوں ایک دوسرے پر اعتماد بھی نہیں رکھتے اور ساتھ ساتھ بھی رہتے ہیں۔
جواب: عرب ممالک میں میرا تجربہ بتاتا ہے کہ یہاں کے حکام جب ذرائع ابلاغ سے بات کرتے ہیں، ان کا موقف کچھ ہوتا ہے، جب بین الاقوامی فورموں میں بات کرتے ہیں، ان کا موقف کچھ اور ہوتا ہے اور جب آپ سے سفارتی اور رسمی بات کرتے ہیں تو ان کا موقف بالکل مختلف ہوتا ہے۔ جناب سعود الفیصل نے وہ موقف علاقے کی صورت حال کے زیر اثر اپنایا تھا۔
امریکیوں نے حسنی مبارک کا ساتھ کیوں چھوڑا؟ جب انھوں نے دیکھا کہ انہیں مزید برسراقتدار نہیں رکھ سکتے؛ میں صرف ایک مثال لاتا ہوں تاکہ آپ دیکھ لیں کہ سیاسی میدان میں انجام پانے والے کسی کام میں اس رویے کا اثر کتنا زیادہ ہے؟ مجھے یاد ہے کہ جب شام کے بحران میں شامی افواج اور ہمارے عسکری مشیر اور حزب اللہ مل کر کسی ایسے علاقے میں داخل ہوتے تھے ان لوگوں کو چھڑانے کے لئے جنہیں مسلح دہشت گردوں نے یرغمال بنایا ہوتا تھا، اور جب جبہۃ النصرہ سے لے کر داعش تک کے دہشت گرد گھیرے میں آجاتے تھے، تو تکفیری دہشت گردی کا پیکر تشکیل دینے والے یہ دہشت گرد پیغام دے دیتے تھے کہ ہم بھاری ہتھیار تحویل میں دے کر اس علاقے سے نکلنے کے لئے تیار ہیں آپ بس ہمیں ماریں نہیں۔
میں اعتماد کے مسئلے کی طرف اشارہ کررہا ہوں؛ جب یہ تکفیری جو براہ راست یہودی ریاست کے ساتھ کام کرتے تھے اور ان سے تنخواہیں لیتے تھے، کہتے تھے کہ کیا ضمانت ہے کہ ہم یہاں سے نکلیں اور شامی افواج ہمیں پیچھے سے نشانہ نہ بنائیں؟ پہلی مرتبہ جب یہ کام انجام پا رہا تھا ہم نے اقوام متحدہ کے ذریعے ان سے پوچھا کہ تمہیں کیسی ضمانت درکار ہے؟ تو کہنے لگے:
اگر ایرانی عسکری مشیران یا حزب اللہ ضمانت دیں کہ شامی افواج ہمیں نشانہ نہیں بنائیں گے تو ہم علاقہ تحویل دینے کے لئے تیار ہیں۔
دیکھئے یہ وہی لوگ ہیں جو حزب اللہ کے مجاہدین اور ہمارے مدافعین حرم کا سر قلم کرنے والی تنظیمیں ہیں لیکن ان کے ساتھ ہمارا برتاؤ یہ تھا اور ان کا ہم پر اعتماد تھا کہ “یہ لوگ مرد ہیں، جوانمرد ہیں، مسلمان ہیں اور ان کے قول پر بھروسہ کیا جاسکتا ہے”۔ یہی لوگ جو ہمارے ساتھ بیٹھ کر کہتے ہیں کہ “ہمیں امریکیوں پر بھروسہ نہیں ہے”۔ تاہم یہ لوگ آشکارا بیان بھی کرتے ہیں کہ ہم آپ کی طرح امریکیوں کو “نہ” نہیں کہہ سکتے۔
کہتے ہیں: آپ نے امریکہ کو “نہ” کہا اور انقلاب بپا کیا اور پوری قوت کے ساتھ ڈٹ گئے لیکن سعودی عرب میں ہمارا نظام کچھ اس طرح سے ہے کہ ہم انہیں “نہ” نہیں کہہ سکتے، اور ساتھ افسوس کا اظہار بھی کرتے ہیں؛ لیکن درحقیقت امریکیوں پر اعتماد بھی نہیں کرتے کیونکہ انہیں مسلسل یہ احساس رہتا ہے کہ جو کچھ عرب دنیا کے راہنماؤں کے ساتھ ہؤا اور وہ زوال پذیر ہوئے اور ان کے ملکوں میں تبدیلیاں آئیں، یہی کچھ سعودی عرب میں ہمارے ساتھ کسی بھی لمحے دہرایا جاسکتا ہے۔
یہ واقعہ کیونکر پیش آیا کہ علی عبداللہ صالح یمن میں کسی وقت انصار اللہ کے ساتھ متحد ہوئے، اور بعد میں غداری پر اتر آئے اور آخرکار ان حالات سے دوچار ہوئے۔
یمن میں علی عبداللہ صالح ایک سیاستدان کھلاڑی تھے اور حکمرانی کو خوب سیکھ چکے تھے۔ یمن میں علی عبداللہ صالح سے یہ جملہ نقل کیا جاتا ہے کہ: یمن میں حکمرانی ایک سات سروں والے سانپ کے سر پر چلنے کے مترادف ہے اور آپ کو ہر لمحے خیال رکھنا پڑتا تھا کہ سانپ کے کسی ایک سر کی گزیدگی آپ کو اوپر سے نیچے نہ پھینک دے۔
سعودیوں کا خیال تھا کہ علی عبداللہ صالح کو پیسہ دے کر یمن کو سعودی عرب کے پچھواڑے میں تبدیل کیا جاسکتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ یہاں کے لوگ سعودی عرب سے اس قدر نفرت کیوں کرنے لگے؟ اور کیا ہؤا کہ علی عبداللہ صالح ـ جنہوں نے اربوں ڈالر سعودی عرب سے لے لئے اور عوام کے لئے خرچ کرنے کی بجائے بیرونی بینکوں میں رکھ لئے ـ اچانک فیصلہ کرتے ہیں کہ سعودی عرب سے علیحدگی اختیار کرکے انصار اللہ کے حلیف کے طور پر کردار ادا کریں؟
صالح نے دیکھا کہ انصار اللہ نامی ایک طاقتور سیاسی اور معاشرتی قوت یمن میں موجود ہے۔ میں یہ نہیں کہہ رہا ہوں کہ انصار اللہ پورے یمن پر تسلط رکھتی ہے یا پورے یمن کو اپنے لئے چاہتی ہے؛ نہیں ایسا نہیں ہے۔ کہنا چاہتا ہوں کہ انصاراللہ کی جڑیں یمنی معاشرے میں بہت گہری ہیں اور ایک حقیقی یمنی قوت ہے اور آج سعودی جارحیت کے آگے کامیاب مزاحمت کے نتیجے میں ایک مرکزی قوت میں بدل گئی ہے جس کے یمن میں بہت سارے متحدین اور حلفاء ہیں؛ یمن کی کمیونسٹ پارٹی سے لے کر مختلف دینی اور قومی جماعتیں انصار اللہ کے ساتھ ہیں اور انصار اللہ ایک اہم طاقت بن چکی ہے۔
علی عبداللہ صالح کے لئے ان کے ساتھ کام کرنا، اہم تھا۔ کل تک سوچ رہے تھے کہ اصل قوت سعودی عرب ہے لیکن کل سمجھ چکے کہ ایسا نہیں ہے بلکہ طاقت یہاں انصاراللہ اور اس کی حلیف جماعتوں کے پاس ہے۔ دوسری طرف سے سعودی عرب کے برتاؤ سے بھی نالاں تھے چنانچہ انھوں نے سوچ لیا کہ انہیں عمر کے اس آخری حصے میں انصار اللہ کی طرف مائل ہونا چاہئے، اسی میں بہتری ہے۔
لیکن کچھ عرصہ گذرجانے کے بعد انہیں بڑی رقوم کی پیشکش ہوئی اور وعدہ دیا گیا کہ ان کے بیٹے کو یمن کا صدر بنایا جائے گا، اور وہ خود یمن کے مستقبل میں اہم اور مرکزی رہنما کے طور پر کردار ادا کرسکیں گے۔ سعودیوں نے کہا: ہم نے کئی مرتبہ بڑی کاروائیاں کرکے دارالحکومت صنعا پر قبضہ کرنے اور انصار اللہ کو نکال باہر کرنے کی کوشش کی لیکن کامیاب نہیں ہوسکے، آپ (علی عبداللہ صالح) اندر سے کاروائی کریں، صنعا کے نظام کو درہم برہم کریں، خانہ جنگی کی کیفیت پیدا کریں تاکہ دارالحکومت انصار اللہ کے ہاتھ سے نکل جائے اور بعد میں ہماری افواج داخل ہوجائے!
علی عبداللہ صالح نے دھوکہ کھایا۔ وہ خود زیدی شیعہ تھے اور ایک زمانے میں تاکتیکی حکمت عملی کے تحت انصاراللہ کے قریب گئے اور انصاراللہ کا طے شدہ پروگرام بھی یہی ہے کہ یمن کی تمام جماعتوں کے ساتھ کام کرے۔ یعنی اگر اسی وقت عبدربہ منصور کی مستعفی حکومت کہہ دے کہ ہم انصار اللہ کے ساتھ ملکی آئین اور سیاسی مفاہمت کے دائرے میں کام کرنا چاہتے ہیں تو انصاراللہ “نہ” نہیں کہے گی اور کہے گی کہ آجائیں بیٹھتے ہیں، مذاکرہ کرتے ہیں ۔۔ یہ انصار اللہ کی وسیع النظری ہے۔ کیونکہ اسے یقین ہے کہ یمن یمنیوں کے لئے ہے۔

 

سعودی، یہودی اور صہیونی لابیاں یمن کے دلدل میں گرفتار: امیر عبد اللھیان

  • ۴۵۰

خیبر صیہون ریسرچ سینٹر: ڈاکٹر امیر عبد اللٰھیان کے ساتھ یمن کے موضوع پر اہم گفتگو:
س: بات کا آغاز یہاں سے کرتے ہیں کہ امریکیوں نے یمن میں انصار اللہ کے مجاہدین کی میزائل قوت کے سلسلے میں ایک نفسیاتی جنگ جاری رکھی ہوئی ہے۔ ان کا دعوی ہے کہ یہ میزائل انصار اللہ کو ایران نے بطور تحفہ دے دیئے ہیں تاکہ سعودی عرب کو نشانہ بنا دے۔ بعض اوقات وہ کچھ تصاویر بھی دکھاتے ہیں اور حال ہی میں نیتن یاہو نے میونخ اجلاس میں ایک ڈرون کا ٹکڑا لہراتے ہوئے دعوی کیا کہ “یہ ایرانیوں کے لئے ہے” اس کے پس پردہ منظرنامہ کیا ہے؟
ج: حقیقت یہ ہے کہ یمن کے مسئلے میں، ہم انصاراللہ کی اخلاقی حمایت کرتے ہیں۔ ہم انصار اللہ کے ساتھ اس لئے رابطے میں ہیں کہ وہ یمنی عوام کے حقوق کے حصول اور امریکہ اور یہودی ریاست کی غلط پالیسیوں کا مقابلہ کرنے کے سلسلے میں سیاسی جماعت اور ایک عوامی تحریک کے طور پر اہم کردار ادا کررہی ہے؛ ہم ان کی اخلاقی حمایت کرتے ہیں اور ان کے ساتھ رابطے میں ہیں، یہ ایسی حقیقت ہے جو کسی سے چھپی ہوئی نہیں ہے۔
لیکن یہ جو دعوی کیا جارہا ہے کہ ہم ان کو میزائل دے رہے ہیں، تو میں یہاں ایک نکتہ بیان کرنا چاہوں گا اور وہ یہ کہ: جس وقت جناب اسماعیل ولد الشیخ کو یمن میں اقوام متحدہ کے ایلچی کے طور پر تعینات کیا گیا، میں نے تہران میں اور اس کے دو ہفتے بعد برسلز میں ان کے ساتھ ملاقات کی۔ اسی وقت سعودی دعوی کررہے تھے کہ ایران انصار اللہ کو ہتھیار فراہم کررہا ہے۔
ولد الشیخ نے گفتگو کا آغاز کرتے ہوئے کہا: میں ایک واقعہ بیان کرتا ہوں اور بعد میں آپ اس کا جواب دیں۔ اور انھوں نے جو واقعہ سنایا وہ یوں تھا کہ “چند سال قبل میں اقوام متحدہ کے غذائی پروگرام کے نمائندے کے طور پر یمن میں تعینات تھا اور میں اس وقت اس نتیجے پر پہنچا تھا کہ یمن میں ہر شہری کے مقابلے میں چار ہتھیار پائے جاتے ہیں” یعنی آبادی: ۲۳۸۳۳۳۷۶ افراد، ہتھیاروں کی تعداد: ۹۵۳۳۳۵۰۴۔
حقیقت یہ ہے کہ ہم یمن کے زمینی حقائق کی رو سے ایک مثلث دیکھ رہے ہیں جس کا ایک بازو امریکہ، دوسرا بازو یہودی ریاست اور تیسرا بازو ـ جس نے اپنی دولت کو بھی اور اپنی عزت و آبرو کو بھی اس بساط پر ڈال دیا ہے ـ سعودی عرب ہے۔
میرا خیال ہے کہ سعودی عرب یہودی لابی کی منصوبہ بندی کے تحت شروع ہونے والے ایک خطرناک کھیل میں الجھا ہؤا ہے۔ میں سعودی حکام اور علاقے کے ممالک کے نمائندوں سے اپنی ملاقاتوں میں ـ جو آج تک جاری ہیں ـ اپنی تشویش ظاہر کرتا رہا ہوں کہ یہودی ریاست کا منصوبہ یہ ہے کہ علاقے کے ممالک کو تقسیم در تقسیم کردے اور اس یہودی منصوبے میں سعودی عرب بھی شامل ہے۔
عرب دنیا کے مفکرین، صاحبان نقد و نظر اور سیاستدان ـ جو کہ عرب معاشروں کے منورالفکر طبقے سے تعلق رکھتے ہیں ـ کہتے ہیں کہ سعودی عرب اپنے غلط اندازوں کی وجہ سے ایسے جال میں پھنس چکا ہے جو اس ملک کے مستقبل کو خطرات سے دوچار کررہا ہے، اور یہ مغربی ایشیا اور عالم اسلام کے ایک ملک کے طور پر مستقبل میں مزید بحرانوں اور بالآخر تقسیم کے خطرے کا شکار ہوسکتا ہے۔
سوال: سعودی عرب طویل عرصے سے یمن میں الجھا ہؤا ہے، کیا وہ یمن کا مسئلہ ختم نہیں کرنا چاہتا یا پھر ایسا کرنے سے عاجز ہے؟
جواب: میرا تصور یہ ہے کہ سعودی عرب یمن میں ایک بہت بڑی دلدل میں دھنسا ہؤا ہے؛ یمن پر سعودی عرب کی ٹھونسی ہوئی جنگ کا تیسرا ہفتہ شروع ہوچکا تھا اور جناب عادل الجبیر کی وزارت خارجہ کے وزیر خارجہ بننے کا بھی تیسرا ہفتہ شروع ہوچکا تھا کہ میں نے اسلامی ممالک کے وزرائے خارجہ کے اجلاس میں شرکت کے لئے جدہ کے دورے پر تھا۔ وہاں میری ملاقات عادل الجبیر سے ہوئی تو میں نے ان سے یہی کہا کہ “تم غلطی کے مرتکب ہوچکے ہو، اور یمن کے بحران کا حل سیاسی ہی ہے”۔ الجبیر نے غصے کی حالت میں کہا: دیکھ لوگے کہ ہم تین مہینوں سے بھی کم عرصے میں انصار اللہ کو شمالی یمن میں نیست و نابود کریں گے و۔۔۔” میں کھسیانی سی ہنسی ہنسا اور مسکرا کر کہا: “میرا نہیں خیال۔۔۔” لیکن آپ کہتے ہیں تو آنے والے دنوں کا انتظار کرتے ہیں۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ سعودی عرب میں بہت سے وہ لوگ جو بہ زعم خویش یمن پر حملے کے حوالے سے عقلیت کے راستے پر گامزن تھے، سوچ رہے تھے کہ سعودی زیادہ سے زیادہ تین مہینوں کے عرصے میں یمن میں قطعی طور پر کامیاب ہوجائے گا اور یمن کا بحران اسی انداز سے ختم ہوگا جس طرح کہ سعودی عرب کی آرزو ہے۔
سعودیوں کو امریکہ سے بہت توقعات تھیں۔ ایک بار میں نے علاقے کے ایک عسکری ماہر سے کہا: میں فوجی نہیں ہوں اور فوجی مسائل کا زیادہ ادراک نہیں رکھتا اور میرا جنگی تجربہ دفاع مقدس کے دور میں ایک رضاکار بسیجی کا تجربہ ہی ہے، یہ جو امریکی کہہ رہے ہیں کہ یمن کی جنگ میں سعودیوں کی مدد کررہے ہیں، اس کی حقیقت کیا ہے تو اس نے کہا: امریکی کہتے ہیں کہ ہم سیارچوں کے ذریعے یمن میں سعودی کاروائیوں کی نگرانی کرتے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ امریکہ بہت بڑی قیمت وصول کرکے اپنے پیشرفتہ ترین جنگی طیارے سعودیوں کو فراہم کرتا ہے لیکن امریکہ کی یہودی ـ صہیونی لابیوں اور امریکی سلامتی کے اداروں کے درمیان مسلسل تشویش پائی جاتی ہے کہ اگر سعودی عرب میں بھی اچانک مصر کی طرح کا انقلاب آجائے اور حالات تبدیل ہوجائیں تو یہ جنگی سازوسامان کسی طور پر بھی یہودی ریاست کے خلاف استعمال نہیں ہونا چاہئے۔ چنانچہ امریکہ نے جدیدترین طیارے تو سعودیوں کو دے دیئے ہیں لیکن انہیں کئی مسائل کا سامنا ہے:
۱۔ یہ طیارے جب صنعا پر بمباری کے لئے جاتے ہیں تو واپسی میں یمن کی فضائی حدود سے نکلنے سے پہلے ہی ان جدید طیاروں کا ایندھن ختم ہوجاتا ہے لہذا انہیں یمن سے نکلنے سے قبل ہی ایندھن وصول کرنا پڑتا ہے۔ ایندھن لینے کی کاروائی کے لئے ایک خاص قسم کا پٹرول چاہئے جو امریکیوں نے سعودیوں کو فراہم نہیں کیا ہے، اور بحر ہند میں اس قسم کے ایندھن کا حامل ایک جہاز تعینات ہے جس سے انتقال پذیر ایندھن بھرنے کی صورت میں ان طیاروں کو ایندھن فراہم کیا جاتا ہے لیکن جو طیارے یہ ایندھن اس جہاز سے اٹھا کر اس طیاروں کو منتقل کرتے ہیں، بھی سعودی عرب کو فراہم نہیں کئے گئے ہیں اور وہ روش نیز وسائل امریکی ایندھن رساں طیاروں کے پاس ہیں۔ پس ان طیاروں کا ایندھن اور اس کی منتقلی کا کام ہر لحاظ سے اور ۱۰۰ فیصد امریکیوں نے اپنے پاس رکھا ہوا ہے۔
۲۔ یہ طیارے بہت جدید ہیں اور جب یہ مثلا صنعا میں کسی ہدف کو نشانہ چاہیں تو اس سے پہلے ایک ڈرون پرواز کرتا ہے، علاقے کو دیکھ لیتا ہے اور ریکی کرتا ہے، مختصات کو سعودی فضائی کمانڈ کے لئے بھیجتا ہے، کمانڈ اسے طیارے کے پائلٹ کے لئے بھیجتی ہے جس کے بعد وہ جاکر کسی اسکول، پانی کی کسی ٹینکی، کسی چھاؤنی یا کسی بازار کو نشانہ بنانے چلا جاتا ہے۔ یہ ڈرون بھی سعودیوں کے پاس نہیں ہیں؛ چنانچہ یہ جو امریکی کہہ رہے ہیں کہ اس جنگ میں لاجیسٹک اور معلومات کے حوالے سے سعودیوں کی مدد کررہے ہیں، اس کا مطلب یہ ہے کہ امریکہ نے جدید ترین ہتھیار سعودیوں کو فروخت کئے ہیں لیکن وہ ان ہتھیاروں کے استعمال کا اختیار نہیں رکھتے۔

 

امریکی فلم (Beauty and the Beast) پر تنقیدی نظر

  • ۳۸۳

خیبر صیہون ریسرچ سینٹر: امریکی فلم ’’خوبصورتی اور جانور‘‘ (Beauty and the Beast) بل کانڈن (Bill Condon) کی ہدایت میں ڈسنی کمپنی کے ذریعے بنائی گئی یہ فلم رواں سال( ۲۰۱۷) کے شروع میں رلیز ہوئی۔ فلم دیکھنے سے قبل عام انسان اس فلم سے جو توقع رکھتا ہے دیکھنے کے بعد وہ اس توقع تک نہیں پہنچ پاتا اور ایک احساس مایوسی اس میں پیدا ہو جاتا ہے۔ اس فلم سے سوائے اس بات کے کہ انسان کے حوصلے پست ہوں کچھ بھی انسان کو حاصل نہیں ہوتا۔ اس سے قبل ڈسنی کمپنی کی فلم ’’جنگل بوک‘‘ (The Jungle Book) ایک بہترین اور عمدہ اثر تھا لیکن ’’پیٹ کے اژدھے‘‘ (Pete’s Dragon) فلم نے دوبارہ اس کمپنی سے مایوسی پیدا کر دی۔
البتہ ’’خوبصورتی اور جانور‘‘ ’’جنگل بوک‘‘ کے سلسلے ہی کی ایک فلم ہے۔ اس فلم میں رائٹر نے نہ صرف اپنی وفاداری کا ثبوت دینے کی کوشش کی بلکہ عجیب و غریب انداز میں معرکہ سر کرنے کی کوشش کی ہے۔
مغربی طرز زندگی ہمیشہ اس بات کی کوشش میں ہے کہ لوگوں کو زندگی کی مشکلات اور سختیاں برداشت کرنے کے بجائے انہیں مشکلات کو نظر انداز کر کے جینا سکھائے۔ در حقیقت خود پرستی اور اخلاقی فقر، اجتماعی زندگی کی وہ مشکلات ہیں جو ڈسنی کمپنی کی فملوں میں نمایاں نظر آتی ہیں۔
علاوہ از ایں، فمینیزم وہ اہم ترین عنصر ہے جو اس طرح کی فلموں میں باآسانی مشاہدہ کیا جا سکتا ہے۔ مغربی فلم انڈسٹری مرد و عورت کے حقوق کے مساوی ہونے کے مسئلے کو اس طرح سے بیان کرنے کی کوشش کرتی ہیں کہ یہ دو موجود اگر چہ جسمانی لحاظ سے مختلف ہیں لیکن سماج اور معاشرے میں ان کے حقوق کے درمیان کوئی فرق اور امتیاز نہیں۔ اس طرز تفکر کا نتیجہ یہ ہے کہ عورت اپنی تمام نزاکتوں اور مہربانیوں جو اس کی فطرت میں رچی بسی ہیں کو درکنار رکھ کے مردوں کے شانہ بشانہ زندگی کی مشکلات اور کٹھن راہوں میں دوڑ لگائے۔

 

آیت اللہ طائب سے گفتگو کا تیسرا حصہ/ کورونا وائرس اور امام زمانہ(عج) کا ظہور

  • ۶۶۶

گزشتہ سے پیوستہ

خیبر: کیا کورونا وائرس کی داستان کا آخری زمانے کے واقعات سے کوئی تعلق ہے؟
جواب: میں اپنے تمام مخاطبین سے عرض کرنا چاہوں گا کہ ہمیں اپنی شرعی تکلیف پر عمل کرنا ہے۔ امام خمینی نے فرمایا: ہماری ذمہ داری ہے کہ ظہور کے لیے زمین فراہم کریں۔ میں ہمیشہ یہی کہتا ہوں کہ جب تک زمین ظہور کے لیے فراہم نہیں ہو گی، علاقہ پرامن نہیں ہو گا امام زمانہ سے ظہور کا تقاضہ کرنا غیرمعقول چیز ہے۔
ظہور کے تقاضے کا لازمہ یہ ہے کہ ہم نے تمام شرائط مہیا کیے ہوئے ہوں سب تیاریاں کر رکھی ہوں تو امام تشریف لائیں، علاقے کے پرامن ہونے کا مطلب یہ ہے کہ علاقے پر جن اجنبی طاقتوں کا تسلط ہے ان سے علاقے کو واپس لیا جائے۔ اس جد و جہد کو امام خمینی (رہ) نے شروع کیا اور آپ نے یہ واضح کیا کہ امریکہ اوراسرائیل ہیں جو امام کے ظہور میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں۔
ان دشمنوں کے خلاف جد و جہد امام نے شروع کی اور چالیس سال سے اسلامی جمہوریہ ایران اس جد و جہد کو جاری رکھے ہوئے ہے اور آج ہم دیکھ رہے کہ دشمن میدان جنگ میں اس قدر شکست سے دوچار ہو چکا ہے کہ اب اس طرح کے وایرس پیدا کر کے دنیا کی دوتہائی آبادی کو نابود کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ دشمن کس قدر کمزور اور ناتوان ہو چکا ہے۔
وہ روایتیں جو ظہور سے پہلے کے زمانے کے بارے میں ہیں ان سے معلوم ہوتا ہے کہ امام علیہ السلام کے ظہور سے پہلے طاعون کی بیماری سے پوری دنیا متاثر ہو گی۔ ممکن ہے یہی بیماری مراد ہو۔ یا یہ بھی کہا گیا ہے کہ دنیا میں ایک بہت بڑا قتل عام ہو گا۔ لیکن جو بات عرض کرنا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ اس طرح کی تمام روایتیں وہ ہیں جو سند کے لحاظ سے زیادہ قابل یقین نہیں ہیں۔ یہ تمام امور اللہ کی مرضی و منشا کے مطابق ہیں۔ لہذا ہماری توبہ و استغفار اور ہمارے اعمال و کردار میں تبدیلی ان امور میں تبدیلی کا بھی باعث بن سکتی ہے۔ «إِنَّ اللَّهَ لَا یُغَیِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتَّى یُغَیِّرُوا مَا بِأَنْفُسِهِم.
جو چیز اس وقت روئے زمین پر رونما ہو رہی ہے وہ یہ ہے کہ ظہور کے مخالفین دن بدن کمزور سے کمزور تر ہوتے جا رہے ہیں۔ آج یہ وائرس ہماری نابودی کے لیے تیار کیا گیا ہے، ٹھیک ہے اس نے ہمارے بہت سارے قیمتی انسانوں کو موت کا شکار بنا دیا، ہماری معیشت کو شدید نقصان پہنچایا، «الشَّیْطَانُ یَعِدُکُمُ الْفَقْرَ» شیطان کا کام ہے فقر سے ڈرانا، مفلسی سے ڈرانا، لوگوں کے اندر نفسیاتی طور پر خوف و ہراس پیدا کر دینا، اور افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ بہت سارے اندرونی عوامل بھی اسی موج میں بہہ رہے ہیں اور عوام کو ان کی معیشت سے خوفزدہ کر رہے ہیں۔
کورونا وایرس نے یقینا ہماری معیشت پر کاری ضربت لگائی ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ لوگوں میں ہمدردی، ہمدلی اور انفاق کی روح بھی پیدا کی ہے۔ انشاء اللہ ایران سے اس وائرس کے خاتمہ کے بعد ملک کی معیشت دوبارہ ترقی کرے گی ہم کوئی کمزور قوم نہیں ہیں، امام زمانہ کا سایہ ہمارے سروں پر ہے۔
لیکن یاد رکھیں اس وباء سے صرف ہم نہیں، بلکہ پوری دنیا کی معیشت متاثر ہوئی ہے، آپ علاقے کے ممالک کو ہی دیکھ لیں سعودی عرب جس کی معیشت کا سارا دارومدار تیل اور حج و عمرہ پر تھا آج دونوں صفر ہو چکے ہیں، تیل ۲۰ ڈالر پر پہنچ چکا ہے اور حج و عمرہ مکمل طور پر بند۔ جبکہ سعودی عرب دوسری طرف یمن جنگ کے دلدل میں پھنسا ہوا ہے، عرب امارات کو دیکھ لیں، دبئی کی سٹاک مارکٹ کریش ہو چکی ہے، ترکی کا ایئرپورٹ جو اس ملک کے لیے سب بڑا درآمد کا ذریعہ تھا خالی ہو چکا ہے۔
تو دیکھیں وہ لوگ جو ایران کی معیشت کو نقصان پہنچانے کی کوشش میں تھے آج خود بھی سب کے سب ہم سے بدتر صورتحال میں گرفتار ہیں۔ یہ اللہ کا وعدہ ہے کہ «وَ مَکَرُوا وَ مَکَرَ اللَّهُ وَ اللَّهُ خَیْرُ الْمَاکِرِینَ»۔
خداوند متعال دوسری جگہ فرماتا ہے کہ تم دشمن کی طرف سے ایجاد کردہ مشکلات سے گھبرانا نہیں، کمزور نہیں پڑنا، «وَ لا تَهِنُوا فِی ابْتِغاءِ الْقَوْمِ» مشکلات بہت تمہارے راستے میں آئیں گی مشکلات سے خوفزدہ نہیں ہونا، دشمن نے جو تمہارے لیے گڈھا کھودا ہے وہ خود بھی اس میں گرے گا۔ «فَإِنَّهُمْ یَأْلَمُونَ کَما تَأْلَمُون» مجھے یقین ہے کہ وہ لوگ جنہوں نے یہ وائرس ہمارے لیے بنایا ہے وہ خود بھی شدت سے اس میں گرفتار ہوں گے ہم اللہ کی مدد اور امام زمانہ کے لطف و کرم سے اس پریشانی کو برداشت کر لیں گے لیکن دشمن جب اس میں گرے گا تو بری طرح متاثر ہو گا وہ برداشت نہیں کر پائے گا اس لیے کہ ہم مورچوں میں بیٹھے ہیں اور دشمن شیشے کے مکانوں میں بیٹھا ہے۔

 

آیت اللہ طائب کے ساتھ گفتگو کا دوسرا حصہ/ کورونا وائرس اور امریکی میڈیا کی نفسیاتی جنگ

  • ۴۶۹

گزشتہ سے پیوستہ
خیبر: ایران میں کورونا وائرس کے پھیلنے کے بعد امریکی صہیونی میڈیا کے ذریعے جو نفسیاتی جنگ کا آغاز ہوا اس کے بارے میں آپ کا کیا نظریہ ہے؟
جواب؛ وہ چیز جو امریکہ کے ذریعے کورونا وائرس کے پھیلائے جانے کو واضح تر کرتی ہے وہ نفسیاتی جنگ ہے جو اس وائرس کے حوالے سے پوری دنیا منجملہ ایران میں شروع ہو چکی ہے۔ میں اس بات کی طرف آپ کی توجہ مبذول کرانا چاہوں گا، جب یہ وائرس چین میں شروع ہوا تو ہمارے ملک کے لوگوں کی ذہنیت یہ تھی کہ کورونا وائرس ، چمگادڑ کے ذریعے چینیوں میں منتقل ہوا ہے۔
لیکن کیا چین میں یہ چیز ثابت ہوئی؟ جو افواہیں ’ووہان‘ شہر میں اس وائرس کے پھیلتے وقت پھیلیں وہ یہ تھیں کہ اس وائرس سے متاثرہ افراد وہ لوگ تھے جو سمندری خوراک کھاتے تھے لہذا یہ احتمال پایا جا رہا ہے کہ سمندری موجودات کے ذریعے انسانوں میں منتقل ہوا ہو۔ لیکن جب ڈاکٹروں نے تحقیقات کرنا شروع کیں تو معلوم ہوا وہ لوگ بھی اس بیماری سے متاثر ہوئے ہیں جنہوں نے نہ ہی سمندری غذائیں کھائی ہیں اور نہ ان لوگوں کے ساتھ ان کا اٹھنا بیٹھنا تھا جو اس بیماری میں مبتلا تھے۔
دوسرا مفروضہ یہ تھا کہ یہ وائرس چمگادڑ کے سوپ سے پھیلا ہے اس مفروضہ پر بھی تحقیقات کرنے کے بعد معلوم ہوا کہ سوپ تو پکا کر استعمال کیا جاتا ہے اور پکنے کے بعد کسی وائرس کے باقی رہنے کا احتمال بہت کم ہے۔ لیکن یہ احتمالات میڈیا میں اس طریقے سے بڑھا چڑھا کر پیش کئے گئے کہ گویا سوفیصد یہی دلائل ہیں۔ جبکہ ابھی تک خود چین کے اندر بھی اس وائرس کے وجود میں آنے کی وجہ معلوم نہ ہو سکی ہے۔
دوسری جانب ایران میں ٹھیک پارلیمانی انتخابات کی پچھلی رات قم میں اس کے پھیلے جانے کا اعلان کر دیا گیا اور کہا گیا کہ قم ہے جو اس وائرس کو پورے ایران میں پھیلا رہا ہے۔ جبکہ پوری دنیا جانتی ہے کہ اس وائرس کا اصلی مرکز چین ہے قم نہیں۔ لیکن قم کی بات آئی تو پوری دنیا کا میڈیا چین کو بھول کر قم کے پیچھے لگ گیا!
کچھ ہی دیر میں یہ خبریں بھی پھیلائی جانے لگیں کہ قم میں چونکہ چین کے طالب علم زیر تعلیم ہیں لہذا ان کے ذریعے یہ وائرس قم میں پھیلا ہے۔ حالانکہ جب سے چین میں کورونا وائرس پھیلا تھا چین کا ایک بھی طالب علم اپنے ملک میں نہیں گیا اور نہ ہی کوئی طالب علم وہاں سے اس دوران قم آیا۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ قم میں تقریبا ۱۳ لاکھ کی آبادی ہے۔ لیکن سارا نزلہ حوزہ علمیہ پر ڈالا جا رہا تھا اور کہا جا رہا تھا کہ قم کے طالب علم اور علماء ہیں جو اس وائرس کے پھیلاؤ کا باعث بنے ہیں۔ حالانکہ جس مرکز میں یہ چینی طالب علم زیر تعلیم تھے وہاں کا کوئی ایک بھی عالم دین یا طالب علم متاثر نہیں ہوا۔
اس طرح کی نفسیاتی جنگ جو اس وائرس کے حوالے سے شروع کی گئی یہ اس بات کی دلیل ہے کہ وائرس کا بنانا اور اس کا پھیلانا اور پھر اس کے پیچھے میڈیا کو منظم طریقے سے استعمال کرنا سب طے شدہ منصوبہ تھا۔
امریکہ کو یہ معلوم ہے کہ ایران میں صرف قم ہے جو امریکہ کے خلاف جنگ میں ڈٹا ہوا ہے۔ قم چونکہ حوزہ علمیہ کا مرکز ہے۔ آج جس فکر نے امریکہ اور اسرائیل کو مفلوج کیا ہے وہ انقلابی فکر اور سوچ ہے اور انقلابی فکر و سوچ کا مرکز شہر قم ہے جس انقلابی فکر کی بنیاد امام خمینی نے اسی شہر میں رکھی۔ لہذا دشمن کی نظر میں اس شہر کو منہدم ہونا چاہیے۔
دشمنوں کے لیے یہ اہم نہیں کہ اس مرکز کو مٹانے کے لیے کتنا خرچہ کرنا پڑے گا۔ اگر یہ وائرس دشمنوں نے بنایا ہو گا وہ اپنے حریف کو میدان سے ہٹانے کے لیے پوری انسانیت کو داؤ پر لگانے کے لیے تیار ہیں۔ لہذا جو معلومات فی الحال میسر ہیں ان سے یہ محسوس ہوتا ہے کہ اس وائرس کو بنانے والا امریکہ اور وائرس پھیلانے کے ساتھ ساتھ نفسیاتی جنگ چھیڑنے والا بھی امریکہ ہے۔

 

فلم بھولبلییوں میں دوڑنے والا (The Maze Runner) ایک حیران کن مغربی تفکر

  • ۴۰۸

خیبر صیہون ریسرچ سینٹر: جب تھامس ((Thomas (Dylan O’Brien) نوجوانوں کے ایک ٹولے کے ساتھ ایک خوفناک اور ڈراؤنے علاقے میں نیند سے اٹھتا ہے تو باہر کی دنیا سے کچھ بھی اسے یاد نہیں ہوتا سوائے ایک عجیب و غریب تنظیم کے بارے میں خواب کے جس کا نام W.C.K.D ہوتا ہے اور پھر درندہ مکڑوں کے زہر سے خودکشی کے بعد اسے سب کچھ یاد آتا ہے۔
تھامس کو امید ہوتی ہے کہ وہ اس جگہ پر آنے اور پھر وہاں سے بھاگنے کا سبب معلوم کرے۔ تھامس اپنے گروہ کے ہمراہ آخر کار مجبور ہوتا ہے اس جگہ سے بھاگنے کے لیے کوئی راہ فرار تلاش کرے۔ لیکن ان لوگوں کو بھولبلییوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے کہ جس کے دونوں طرف اونچے اونچے پہاڑ ہوتے ہیں اور ان کے درمیان سے گزرنے کے دروازے کبھی کبھی کھلتے ہیں۔
اس فلم کے ڈائریکٹر ’’وس بال‘‘(Wes Ball) نے کوشش کی ہے کہ اس فلم کے ذریعے ناظرین کو یہ یقین دلائے کہ مشکلات کو برداشت کر لینا، یا مشکلات کو بھول جانا کسی مسئلہ کا راہ حل نہیں ہے بلکہ انسان کو چاہیے کہ وہ مشکلات کا ڈٹ کر مقابلہ کرے اور مشکلات کے سامنے اپنی ہار مان کر جھک نہ جائے۔
اس فلم میں ایک اہم چیز یہ ہے کہ کچھ ایسے افراد ہیں جو کسی مستقل ارادے کے مالک نہیں ہوتے ان کو اگر میدان میں ٹکا کر رکھا جائے تو بہادر نکلیں گے ورنہ ممکن ہے فرار ہوتے ہوئے موت کی آغوش میں چلے جائیں اور قربانی کا بکرہ بن جائیں۔
یہ فلم در حقیقت مغربی زندگی کی حیراں و سرگرداں بھوبلییوں کی عکاسی کرتی ہے کہ جہاں پر ہزار طرح کے پیچ و خم رکھنے والے راستے سے گزرنے کے بعد بھی انسان ایک بڑے بھولبلییاں میں داخل ہو جاتا ہے کہ جس سے نہ صرف اس کو نجات نہیں ملتی بلکہ اس کی پریشانیوں میں مزید اضافہ ہو جاتا ہے اور بجائے اس کے کہ وہ مشکلات سے خود کو چھٹکارا دلائے ختم نہ ہونے والے مشکلات اس کے دامن گیر ہو جاتی ہیں۔
مغرب کی دنیا میں جوانوں کی زندگی اکثر و بیشتر انہیں بھولبلییوں کا شکار ہے جن سے وہ کتنا بھی بھاگ کر باہر نکلنے کی کوشش کریں نہیں نکل پاتے۔ اور آخر کار خودکشی کے ذریعے خود کو مشکلات سے نجات دلانے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔

 

فلم نوح (Noah) پر تنقیدی جائزہ

  • ۴۷۴

خیبر صہیون ریسرچ سینٹر: ڈارن آرونوفسکی (Darren Aronofsky) کی ہدایتکاری میں بنائی گئی فلم نوح (Noah) جو دوہزار چودہ(۲۰۱۴) میں ہالی وڈ فلم انڈسٹری میں رلیز ہوئی اس میں جناب نوح علیہ السلام کی زندگی کے ایک اہم گوشہ یعنی مسئلہ نبوت کو منعکس کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ جناب نوح (ع) کی کہانی حقیقت پر مبنی ایک ایسی داستان ہے جو مختلف ادیان و مکاتب فکر کے نزدیک قابل قبول ہے یعنی کوئی بھی الہی دین اس تاریخی واقعہ کا انکار نہیں کرتا۔ اس حوالے سے ہالی وڈ کے فلمی اداکاروں اور صہیونی سرمایہ داروں نے اس عالمی تاریخی حقیقت کو اپنی مرضی اور منشاء سے فلمی صورت میں دنیا والوں کے لیے پیش کیا ہے۔ ہالی وڈ کے اداکاروں نے اس پیغمبر الہی پر نازل ہونے والی وحی اور ان کے الہی مکاشفوں کو صرف ایک خواب کی حد تک گرا کر پیش کیا ہے ایسی خواب جو انسان کو کبھی کبھی صرف کوئی دوا کھانے سے بھی دکھنے لگتی ہے۔ اس فلم میں جناب نوح کو امت کے رہبر اور الہی نمائندے کے بجائے صرف اپنے گھر والوں کو نجات دلانے والے کے عنوان سے پہچنوایا گیا ہے اور امت کی نسبت گویا وہ اتنے لاپرواہ تھے کہ بے سہارا لوگوں کو بھی ان کے اپنے حال پر چھوڑ دیتے تھے۔
فلم نوح کی کہانی
یہ فلم یہاں سے شروع ہوتی ہے کہ ’’لامخ‘‘( جناب نوح کے والد) سانپ کی کھال کو اپنے ہاتھوں کے اردگرد لپیٹتے ہیں اور اپنی انگلی کو جناب نوح کی انگلی کے قریب کرتے ہیں تاکہ نور نبوت کو ان کے اندر منتقل کریں۔ یاد رہے کہ توریت کی نگاہ میں سانپ، شیطان کی علامت ہے۔ جونہی جناب نوح کے باپ لامخ نور نبوت کو جناب نوح میں منتقل کرنا چاہتے ہیں تو بادشاہ ’’ٹوبل قابیل‘‘ اس راہ میں رکاوٹ بن کر کھڑا ہو جاتا اور لامخ کو قتل کر دیتا ہے۔
فلم کے اس حصے کا مقصد یہ ہے کہ مخاطب میں اس نقطہ نظر کو پروان چڑھایا جائے کہ جناب نوح کی نبوت صرف خیالی نبوت تھی اور وہ حقیقت میں معاذ اللہ نبی نہیں تھے! اور اس کے بعد فلم کی باقی کہانی اسی ایک نکتے سے تعلق رکھتی ہے۔
قابل غور بات یہ ہے کہ ہر نبی کی نبوت پر سب سے اہم دلیل اس کا معجزہ ہوا کرتی ہے جس کا اس پوری فلم میں کوئی تذکرہ نہیں ملتا۔ یہ اس حال میں ہے کہ جناب نوح کے دادا متوشلح معجزے کے مالک تھے اور انہوں نے معجزے سے ایلا (جناب نوح کے بیٹے سام کی بیوی) کے بانجھ ہونے کی مشکل کو حل کر دیا تھا۔
اس فلم میں جس ’’نوح‘‘ کو پیش کیا گیا ہے وہ صرف عالم خواب میں کچھ چیزوں کا مشاہدہ کرتے ہیں کہ جنہیں سمجھنے کے لیے اپنے داد متوشلح سے مدد لینا پڑتی ہے! یہ طرز تفکر کتاب مقدس کے مضامین اور مطالب کے ساتھ بھی تضاد رکھتا ہے۔
مختصر یہ کہ الہی رسولوں کے سلسلے میں اس طرح کی ہلکی پھلکی، بے بنیاد اور سیکولر دید اور نظر رکھنا، انبیاء کی حقیقی تاریخ میں تحریف ہے، پیغمبروں کی عصمت پر سوالیہ نشان اٹھانا ہے، رسولوں کا خداوند عالم سے کسی قسم کا کوئی رابطہ نہ ہونے اور وحی اور شہودی نگاہ کے بے معنی ہونے کا ثابت کرتا ہے یہ وہ مشترکہ مفاہیم ہیں جو انبیائے الہی کے حوالے سے بنائی گئی ہالی وڈ کی اکثر فلموں میں نظر آتے ہیں۔
یہاں پر یہ ذکر کرنا مناسب ہے کہ ہالی وڈ کے مورخین جیسے ’’نیل گویلر‘‘ جو یہودی ہیں اس بات کے قائل ہیں کہ ہالی وڈ انڈسٹری اسّی فیصد سے زیادہ سیکولر اور صہیونی کمپنیوں کے زیر اثر ہے جو خود دین یہود کی تعلیمات سے بھی کوسوں دور ہے۔
ڈارن آرونوفسکی کی منحرف کرنے والی فلم نوح کو مختلف ممالک میں دینداروں اور مسلمانوں کے شدید رد عمل کا سامنا کرنا پڑا یہاں تک کہ بعض اسلامی ممالک جیسے پاکستان، قطر، عرب امارات، بحرین، دیگر خلیجی ممالک ملیشیا، انڈونیشیا اور مشرق وسطیٰ کے دیگر اسلامی ممالک میں اس فلم کی نمائش پر قدغن لگا دی گئی۔ مصر کی الازہر یونیورسٹی نے بھی ایک بیان جاری کر کے فلم ’’نوح‘‘ کو اسلامی مخالف قرار دیا اور اس ملک میں اسے دکھلانے پر پابندی کا مطالبہ کیا۔
اسلامی جمہوریہ ایران کے بین الاقوامی فلمی ڈائریکٹر مجید مجیدی جنہوں نے ماضی قریب میں ’’محمد‘‘ نامی فلم بنائی اس حوالے سے کہتے ہیں: ’’ آج ہالی وڈ اور صہیونیت، میڈیا خاص طور پر فلمی میدان میں ایک پلیٹ فارم پر جمع ہیں اور حتی دینی موضوعات کی بھی اپنی مرضی سے منظر کشی کرتے ہیں کہ جس کی واضح مثال تازہ بنائی گئی فلم ’’جناب نوح‘‘ ہے۔ جب میں نے یہ فلم دیکھی تو میرا بدن لرز گیا۔ سچ میں پیغمبر خدا کو کیسا دکھلایا جا رہا ہے؟ اس عظیم واقع کے تئیں کتنی سطحی، تخریب کارانہ اور تعصب آمیز نگاہ کی گئی ہے کہ یقینا انسان افسوس کرتا ہے‘‘۔

 

قیدیوں کی تعداد میں امریکہ سر فہرست کیوں؟

  • ۳۸۶

خیبر صہیون ریسرچ سینٹر: امریکہ جو دنیا کا سب سے زیادہ ترقی یافتہ ملک کہلاتا ہے دوسرے ممالک کی بنسبت بہت ساری چیزوں میں کچھ امتیازات بھی رکھتا ہے۔ ایسا ملک جو اقتصادی اور معیشتی اعتبار سے اول درجہ پر فائز ہونے کا دم بھرتا ہے دوسرے ملکوں کے مقابلے میں اس کا ایک امتیازی پہلو، جیلوں میں قیدیوں کی کثرت ہے۔ اعداد و شمار کے مطابق، ۲۰۱۰ میں امریکہ کے دو ملین تین لاکھ افراد جیل کی سلاخوں کے پیچھے زندگی بسر کر رہے تھے۔ اس زمانے میں امریکی قیدیوں کی یہ تعداد دنیا کے بہت سارے دیگر ممالک سے زیادہ تھی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ امریکہ میں ہر ایک لاکھ میں ۷۱۶ افراد کو جیل بھیجا جاتا ہے اس طرح امریکہ اپنے شہریوں کو جیل بھیجنے میں پہلے درجے پر پے اس کے بعد برطانیہ کی باری آتی ہے اور پھر جرمنی، پرتگال اور دوسرے ممالک۔ جی ہاں، امریکی حکومت کا اپنے شہریوں کو معمولی سے معمولی باتوں کی وجہ سے جیل بھیجنے کا شوق وہ نکتہ امتیاز ہے جو صرف امریکہ سے مخصوص ہے۔
لیکن سوال یہ ہے کہ آخر کیوں؟ امریکہ میں کیوں اتنی کثیر تعداد میں افراد کو جیل کی سلاخوں کے پیچھے بند کیا جاتا ہے؟ آخر کیا امریکی ایک متمدن اور ترقی یافتہ قوم نہیں ہے جو پوری دنیا پر حکومت کرنے کا خواب دیکھ رہی ہے؟ اتنے زیادہ امریکیوں کو جیلوں میں بند کئے جانے کا سبب کیا ہے؟
حقیقت یہ ہے کہ امریکہ میں اسلحہ کا رواج، بے روزگاری اور مہنگائی، غیر مناسب تعلیمی نظام، صحیح قوانین کا نہ ہونا وغیرہ وغیرہ وہ اسباب و عوامل ہیں جو باعث بنتے ہیں کہ امریکی معاشرے میں جرائم دن بدن بڑھتے جائیں اور جیلیں بھرتی جائیں۔
حکومت کی طرف سے جرائم کے روک تھام کے لیے تجویز کیا گیا بہترین راہ حل، عدالت کے اجرا میں حد سے زیادہ سختی تھی۔ اس سختی کا امریکی انتخابات اور لوگوں کے حق رای دہی پر بھی گہرا اثر پڑتا ہے۔ یہاں تک کہ لوگ اس شخص کو ووٹ دینے کی کوشش کرتے تھے جو جرائم کا سد باب کر سکے۔ اور ان کی نظر میں بہترین راستہ مجرموں کو سزا دینا تھا۔ جب جرائم کا سلسلہ کم ہوتا تھا لوگ سزاؤں میں سختی کو اس کا سبب سمجھتے تھے اگر چہ دوسرے عوامل کی وجہ سے جرائم میں کمی واقع ہوئی ہو۔
لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان سختیوں نے الٹا نتیجہ دینا شروع کر دیا۔ سزاؤں میں زیادتی کی وجہ سے نہ صرف جرائم کا گراف نیچے نہیں آیا بلکہ اوپر چلا گیا۔ یہ صورتحال نہ صرف امریکہ میں پیش آئی بلکہ برطانیہ اور جاپان کی بھی یہی حالت تھی۔ یعنی سزاؤں میں شدت پیدا ہونے کی وجہ سے جرائم میں بھی اضافہ ہوتا گیا۔ جرائم بڑھنے کی ساتھ ساتھ لوگوں کی طرف سے پھر سزاؤں میں شدت کا مطالبہ سامنے آتا گیا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ سزاؤں میں شدت آنے کی وجہ سے جیلوں میں چار گنا قیدی اضافہ ہو گیے۔
سزاؤں میں شدت کی یہ کیفیت تھی کہ لوگ کو معمولی سے معمولی بہانے کی وجہ سے جیل میں بھیجا جانے لگا۔ مثال کے طور پر منشیات کے حوالے سے نہ صرف خرید و فروخت کرنے والوں پر سخت قوانین جاری نہیں ہوتے تھے بلکہ غیر قانونی دوا بیچنے والوں کو بھی اس زمرے میں لا کر کھڑا کیا جاتا تھا۔ یہ سختیاں اس قدر زیادہ تھیں کہ حتیٰ قاضی جہاں پر قانونی اعتبار سے مجرم کی سزا میں تخفیف دینے کا جواز بھی رکھتے تھے وہاں بھی تخفیف دینے سے گریز کرتے تھے۔ در حقیقت یہ راہ حل امریکی جیلوں میں زیادہ سے زیادہ بھرتی کا سبب بنا۔
اگرچہ حال میں امریکہ یہ کوشش رہا ہے کہ بہت سارے وفاقی قوانین اور جرمانوں میں اصلاح کرے لیکن پھر بھی اس ملک میں بہت کم ایسے لوگ ہیں جو کبھی حکومت کی طرف سے تشدد اور سزا کے مستحق واقع نہ ہوئے ہوں اور جیل کا انہوں نے منہ دیکھا ہو۔ مغربی دنیا سے اس کے علاوہ کسی بہتری کی امید رکھنا بھی بے جا ہے کیوں کہ ان کے یہاں قانون کی تدوین اور اس کے اجرا کا محور ان کی وہ آئیڈیالوجی ہے جو انسان اور انسانی زندگی کی نسبت وہ رکھتے ہیں۔

 

نفسیاتی جنگ اور ہمارا دشمن

  • ۵۲۹

خیبر صہیون ریسرچ سینٹر: موجودہ دور میں سامراجی عناصر کا قوموں پر اپنا دبدبہ بنانے اور انہیں اپنی یلغار کا شکار بنانے کا ایک حربہ نفسیاتی جنگ ہے .
اپنے استعماری اہداف کے حصول کے لئے دشمن جو سناریو تیار کرتا ہے اور جس طرح اپنی پروپیگنڈہ مشینری کا استعمال کرتا ہے جھوٹ کو سچ اور سچ کو جھوٹ جس مہارت کے ساتھ دشمن ثابت کر کے اپنے مطلوبہ اہداف کے حصول کے لئے جو چال چلتا ہے اسے ہی نفسیاتی جنگ سے تعبیر کیا جاتا ہے ۔
آمنے سامنے کی فزیکی جنگ کے بارے میں توسب جانتے ہیں اس کی تخریب کاریوں سے بھی واقف ہیں اس کے اسلحوں سے بھی آشنا ہیں لیکن نفسیاتی جنگ وہ ہے جس کے بل پر فیزیکلی جنگ پر بھی انسان غلبہ کر سکتا ہے ۔ آمنے سامنے کی جنگوں میں انسان سر زمینوں کو فتح کرتا ہوا آگے بڑھتا ہے لیکن نفسیاتی جنگ میں ذہن و دماغ پر تسلط پیدا کیا جاتا ہے اور جب ذہن و دل قابو میں آ جاتے ہیں تو اب زمین پر قبضہ کوئی بڑی بات نہیں رہ جاتی ۔نفسیاتی جنگ کا آغاز یوں تو تمدن بشری کی ابتدا سے ہے لیکن ماہرین کے خیال کے مطابق دوسری عالمی جنگ کے بعد سے اس طریقہ جنگ کو ایک خاص مقام حاصل ہوا ۔ نفسیاتی جنگ کے اپنے اصول و ضوابط اور اس کا ایک خاص طریقہ کار ہے جس پر کسی اور وقت گفتگو ہوگی لیکن وہ ایک اہم نکتہ جس کی وجہ سے نفسیاتی جنگ میں دشمن کو کامیابی ملتی ہے طرف مقابل کا جاہل ہونا ہوتا ہے ، جہالت کی بنیاد پر ہمیشہ ہی نقصان ہوا ہے اور اس قوم نے معیشتی ، معاشرتی ، اور سیاستی و قومی میدان میں ہمیشہ ہی نقصان اٹھایا ہے جو جاہل رہی یہی جہالت سبب بنتی ہے کہ نفسیاتی جنگ میں دشمن جس رخ پر چاہےقوم کو ڈھکیل کر اپنا الو سیدھا کرے ۔
نفسیاتی جنگ کا سب سے بڑا اسلحہ:
نفسیاتی جنگ کا سب سے بڑا اسلحہ میڈیا ہے اگرچہ پروپیگنڈہ کرنے کے دیگر وسائل جیسے کتاب، میگزین ، بروشرز، اور خاص کر سوشل میڈیا فیس بک و اٹس اپ سبھی اس مشینری کا حصہ بن جاتے ہیں اور انسے بوقت ضرورت بہت آسانی کے ساتھ اپنی بات لوگوں کے ذہنوں میں اتار دی جاتی ہے ۔
نفسیاتی جنگ ایک ایسا آزمودہ حربہ ہے جسے سامراج نے ہمیشہ ہی ترپ کے پتے کے طور پر استعمال کیا ہے چنانچہ ماہرین سیاست اس بات کو مانتے ہیں کہ نفسیاتی جنگ کے پیچیدہ اصولوں سے اگر کوئی واقف نہیں ہے تو بہت جلد اس جنگ میں دشمن سے زیر ہو کر ہاتھ اٹھا سکتا ہے اور یہ وہ حربہ ہے جس کے بل پر آپ کسی بھی مظلوم قوم کو ظالم اور ظالم کو مظلوم بنا سکتے ہیں قاتل کو مقتول مقتول کو قاتل بنانا اس جنگ کے ماہرین کے لئے کوئی بڑی بات نہیں ہے اور فلسطین کا وجود اسکا زندہ ثبوت ہے کہ کس طرح صہیونیوں نے ہلوکاسٹ کی کہانی گڑھ کر اپنے آپ کو مظلوم ثابت کرتے ہوئے دنیا کی ہمدردیاں بٹوری اور کس طرح آج یہ لوگ فلسطینیوں پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑ دینے کے بعد بھی نفسیاتی جنگ کے بل پر خود کو بجا و حق پیش کر رہے ہیں ۔ نفسیاتی جنگ کا مقصد اپنے حریف و مخالف پر پروپیگنڈہ کے ذریعہ تسلط حاصل کرنا سازشوں کا شکار بنا کر اپنے مفاد کی خاطر استعمال کرنا ہے نت نئی سازشیں ، ٹی وی پر ایسے پروگرام جو خاص کر کسی ایک قوم کو ٹارگٹ کر رہے ہیں ہوں ، کسی مذہب کے مقدسات سے کھلواڑ ،حکومت کی جانب سے بغیر ایک قوم کی رائے جانے اس سے مشورہ لیا بغیر اسکے مذہب میں مداخلت کرتے ہوئے ایسے بل پیش کرنا جو یکطرفہ ہوں جبکہ باہمی گفت و شنید کے ذریعہ مسئلہ کا حل ممکن ہو یہ وہ خطرناک پوائنٹ ہیں جن سے بھر پور استفادہ کرتے ہوئے دشمن ایک قوم احساس کمتری میں مبتلا کر سکتا ہے ۔اس جنگ میں زبردستی کسے کو مارنے کی ضرورت ہی نہیں ہے کسی بھی قوم سے کچھ لالچی لوگوں کو پکڑ کر انہیں کوئی چھوٹا موٹا منصب دیکر پوسٹ اور مقام کا لالچ دیکر درونی طور پر ایک ہی قوم میں سیاسی ،مذہبی اور علاقائی اختلافات ڈالا جا سکتا ہے اور جہاں اختلافات و آپسی تصادم ہوا وہاں بڑی سے بڑی قوم کی ہوا نکل جاتی ہے۔
ملک کی موجودہ صورت حال اور نفسیاتی جنگ:
ہمارے ملک ہندوستان میں جو مسلمانوں کی صورت حال ہے اسے دیکھ کر نفسیاتی جنگ کی شدت دشمن کے نت نئے حربوں کا جتنا اندازہ ہوتا ہے اتنا ہی اس بات کا بھی کہ ہمارے پاس اس نفسیاتی جنگ سے ابھرنے کے لئے کچھ نہیں ہے بلکہ ہمارے ہاتھوں میں زہریلے لالی پاپ تھما دئے جاتے ہیں مثلا فلاں حکومت میں فلاں قوم کی شراکت زیرو تھی اور ایک خاص حکومت میں مثلا ہر طر ف ایسے ناموں کی بارش ہے جن سے ایک خاص مسلک کی نمائندگی کا پتہ چلتا ہے اب ایسے میں ہم سوچتے ہیں کہ چلو موجودہ حکومت میں ہمارا منسٹر ہمارا نمائندہ تو ہے فلاں پارٹی میں ہمارے آدمی تو ہیں جبکہ ہم کبھی یہ نہیں سوچتے کہ ان ہمارے اپنوں نے ہمیں کیا دیا ہے اور یہ کونسے اپنے ہیں کہ دیر و خانقاہ سے لیکر مندر و گرودواروں تک میں یہ وہی عمل انجام دیتے ہیں جس کے لئے اوپر سے انہیں کہا جاتا ہے ، یہ اگر اپنے ہی ہوتے تو اپنے ائمہ کی سیرت پر چل کر اپنوں کے لئے کچھ کرتے ۔
نفسیاتی جنگ کا ایک خطرناک رخ جو ہمارے یہاں چل رہا ہے وہ یہ ہے سوشل میڈیا پر اختلافی مسائل چھیڑ کر پوری قوم کو الجھا دیا گیا ہے رات کے نصف حصہ میں گروجی اپنا ایک چمتکار فیس بک پر ڈالتے ہیں جس کا تعلق نہ دین سے ہے نہ مذہب سے نہ قوم سے صبح تک ہزاروں کی تعداد میں لائیک سجدہ ریز نظر آتے ہیں اور کبھی ایسی متنازعہ بات واٹس اپ گروپ پر یا فیس بک پر ہوجاتی ہے کہ پورے ہفتہ اسی پر گفتگو ہوتی رہتی ہے اور باتیں ختم بھی ہو جائیں تو چیلے چپاٹے ختم نہیں ہونے دیتے ایک نیا شگوفہ چھوڑ کر سب کو پھنسائے رہتے ہیں اور قوم حاشیہ میں الجھی رہتی ہے ۔
یہ تو خیر آپسی طور پر گتھم گھتا کی بات تھی جہاں بے سود بحثیں ہوتی ہیں اور اس نفسیاتی جنگ میں دشمن زیادہ انرجی بھی نہیں لگاتا کسی ایک کو اس نے دوست کی چادر اڑھا کر ایک گروپ میں ڈالا ہوتا ہے اور بس اسکا کام ہو رہا ہوتا ہے …
جبکہ اس سے منظم طور پر جہاں کام ہوتا ہے وہاں کبھی ایک قوم کو مسلسل ہراساں کرنے کی منصوبہ بندی ہوتی ہے اور سوچے سمجھے طریقے اپنا کر ایسی باتیں پیش کی جاتی ہیں جنکے بل پر ہم اپنی کم تعداد کی بات کرتے رہیں اور جب بھی کچھ کرنے کی بات ہو غیرت ایمانی کی بات ہو تو ہم کہیں کہ ہماری تعداد بہت کم ہے ایسا ہوا تو یہ ہو جائے گا ویسا ہوا تو یہ ہو جائے گا ، ہمارا گھر بار لٹ جائے گا ہم کہیں کے نہیں رہیں گے ہمارے کھیت کھلیان تباہ و برباد ہو جائیں گے و۔۔۔ کبھی اس نفسیاتی جنگ میں ہمیں خوش کرنے کے لئے ایسے باتیں پھیلائی جاتی ہیں جن پر ہم خوش ہو جاتے ہیں لیکن بعد میں پتہ چلتا ہے کہ یہ خبر ہی جھوٹی تھی اس کے برخلاف کبھی ایسی خبر نشر ہوتی ہے جس سے ہم ڈر جاتے ہیں اور بعد میں پتہ چلتا ہے کہ خبر ہی کی کوئی اصلیت نہیں تھی

 

یہودی ریاست کی تشکیل کے مراحل

  • ۴۴۵

خیبر صہیون ریسرچ سینٹر: فلسطین پر انگریزوں کے قبضے اور لارڈ بالفور کے اعلان سے یہودیوں کے طویل المیعاد منصوبے کا پہلا مرحلہ مکمل ہو گیا۔ ۱۸۸۰ء سے شروع پر کر ۱۹۱۷ء تک اس مرحلے کی تکمیل میں سینتیس سال صرف ہوئے۔ اس کے بعد اس منصوبے کا دوسرا دور شروع ہوا جس میں مجلس اقوام اور اس کی اصل کار فرا دو بڑی طاقتوں، برطانیہ اور فرانس نے بالکل اس طرح کام کیا گویا وہ آزاد سلطنتیں نہیں ہیں۔ بلکہ محض صہیونی تحریک کی ایجنٹ ہیں۔ ۱۹۲۲ء میں مجلس اقوام نے فیصلہ کیا کہ فلسطین کو انگریزوں کے انتداب (Mandate) میں دے دیا جائے۔ اس موقع پر فلسطین میں جو مردم شماری کرائی گئی تھی اس میں مسلمان عرب ۶۶۰۶۴۱ عیسائی عرب ۱۵۶۴ اور یہودی ۸۲۷۹۰ تھے اور یہودیوں کی اتنی آبادی بھی اسی وجہ سے تھی کہ وہ دھڑا دھڑ وہاں جا کر آباد ہو رہے تھے۔ اس پر بھی مجلس اقوام نے برطانیہ کو انتداب کا پروانہ دیتے ہوئے پوری بے شرمی کے ساتھ یہ ہدایت کی کہ یہ اس کی ذمہ داری ہو گی کہ فلسطین کو یہودیوں کا قومی وطن بنانے کے لیے ہر طرح کی آسانیاں فراہم کرے۔ صہیونی تنظیم کو سرکاری طور پر باقاعدہ تسلیم کر کے اسے نظم و نسق میں شریک کرے اور اس کے مشورے اور تعاون سے یہودی قومی وطن کی تجویز کو عملی جامہ پہنائے۔ اسکے ساتھ وہاں کے قدیم اور اصل باشندوں کے لیے صرف اتنی ہدایت پر اکتفا کیا گیا کہ ان کے مذہبی اور شہری حقوق کا تحفظ کیا جائے۔ یہ انتداب حاصل کرنے کے بعد یہودیوں کو فلسطین میں لا کر بسانے کا باقاعدہ سلسلہ شروع کر دیا گیا۔ فلسطین کا پہلا برطانوی ہائی کمشنر سرہربرٹ سیمویل خود ایک یہودی تھا۔ صہیونی تنظیم کو عملاً حکومت کے نظم و نسق میں شریک کیا گیا اور اس کے سپرد نہ صرف تعلیم اور زراعت کے محکمے کے گئے بلکہ بیرونی ملکوں سے لوگوں کے داخلے اور قومیت کے معاملات بھی اس کے حوالے کر دئے گئے۔ ایسے قوانین بنائے گئے جس کے ذریعے باہر کے یہودیوں کو فلسطین میں آکر زمینیں حاصل کرنے کی پوری سہولتیں دی گئیں۔ مزید برآں ان کو زمینیں کاشت کرنے کے لیے قرضوں اور دوسری سہولتوں سے بھی نوازا گیا۔ عربوں پر بھاری ٹیکس لگائے گئے اور ٹیکسوں کے بقایا پر ہر بہانے عدالتوں نے زمینیں ضبط کرنے کی ڈگریاں دینی شروع کر دیں۔ ضبط شدہ زمینیں یہودیوں کے ہاتھ فروخت کی گئیں اور سرکاری زمینیوں کے بھی بڑے بڑے رقبے یہودی نوآباد کاروں کو کہیں مفت اور کہیں برائے نام پیسے لے کر دئے گئے۔ بعض مقامات پر کسی نہ کسی بہانے پورے عرب گاؤں صاف کر دئے گئے اور وہاں یہودی بستیاں بسائی گئیں۔ ایک علاقے میں تو آٹھ ہزار عرب کاشتکاروں اور زرعی کارکنوں کو پچاس ہزار ایکٹر زمینوں سے حکماً بے دخل کر دیا گیا اور ان کو فی کس تین پونڈ دس شلنگ دے کر چلتا کیا گیا۔ ان تدبیروں سے سترہ سال کے اندر یہودی آبادی میں غیر معمولی اضافہ ہوا۔ ۱۹۲۲ء میں وہ بیاسی ہزار سے کچھ زائد تھے ۱۹۳۶ء میں ان کی تعداد ساڑھے چار لاکھ تک پہنچ گئی۔ اس سے صاف ظاہر ہے کہ انگریز فلسطین میں صرف صہیونیت کی خدمت انجام دیتے رہے اور ان کے ضمیر نے ایک دن بھی ان کو یہ احساس نہ دلایا کہ کسی ملک کی حکومت پر اس کے اصل باشندوں کے بھی کچھ حقوق ہوتے ہیں جن کی نگہداشت کرنا اس کی اخلاقی ذمہ داری ہے۔
جنگ عظیم دوم کے زمانے میں معاملہ اس سے بہت آگے بڑھ گیا۔ ہٹلر کے مظالم سے بھاگنے والے یہودی ہر قانونی اور غیر قانونی طریقے سے بے تحاشا فلسطین میں داخل ہونے لگے۔ صہیونی ایجنسی نے ان کو ہزاروں اور لاکھوں کی تعداد میں ملک کے اندر گھسانا شروع کیا اور مسلح تنظمیں قائم کیں جنہوں نے ہر طرف مار دھاڑ کر کے عربوں کو بھگانے اور یہودیوں کو ان کی جگہ بسانے میں سفاکی کی حد کر دی۔ انگریزی انتداب کی ناک کے نیچے یہودیوں کو ہر طرح کے ہتھیار پہنچ رہے تھے اور وہ عربوں پر چھاپے مار رہے تھے۔ مگر قانون صرف عربوں کے لیے تھا جو انہیں ہتھیار رکھنے اور ظلم کے جواب میں مدافعت کرنے سے روک رہا تھا۔ البتہ برطانوی حکومت جان بچا کر بھاگنے والے عربوں کو نقل مکانی کی سہولتیں فراہم کرنے میں بڑی فراخ دل سے کام لے رہی تھی تھی۔ اس طرح ۱۹۱۷ء سے ۱۹۴۷ء تک تیس سال کے اندر یہودی منصوبے کا دوسرا مرحلہ مکمل ہوا جس میں وہ اس قابل ہو گئے کہ فلسطین میں ان کی “قومی ریاست” قائم کر دیں۔