-
Monday, 23 March 2020، 05:30 PM
خیبر صیہون ریسرچ سینٹر: گزشتہ سے پیوستہ//
ڈاکٹر امیر عبد اللٰھیان کے ساتھ یمن کے موضوع پر اہم گفتگو:
سوال: پس امریکی کسی صورت میں سعودیوں پر اعتماد نہیں رکھتے، آپ جب نائب وزیر خارجہ کے طور پر سعودی عرب کے دورے پر گئے تھے، تو اس وقت کے وزیر خارجہ سعود الفیصل نے آپ سے کہا تھا کہ “ہم امریکیوں پر اعتماد نہیں رکھتے”، یہ کیونکر ممکن ہے کہ یہ دونوں ایک دوسرے پر اعتماد بھی نہیں رکھتے اور ساتھ ساتھ بھی رہتے ہیں۔
جواب: عرب ممالک میں میرا تجربہ بتاتا ہے کہ یہاں کے حکام جب ذرائع ابلاغ سے بات کرتے ہیں، ان کا موقف کچھ ہوتا ہے، جب بین الاقوامی فورموں میں بات کرتے ہیں، ان کا موقف کچھ اور ہوتا ہے اور جب آپ سے سفارتی اور رسمی بات کرتے ہیں تو ان کا موقف بالکل مختلف ہوتا ہے۔ جناب سعود الفیصل نے وہ موقف علاقے کی صورت حال کے زیر اثر اپنایا تھا۔
امریکیوں نے حسنی مبارک کا ساتھ کیوں چھوڑا؟ جب انھوں نے دیکھا کہ انہیں مزید برسراقتدار نہیں رکھ سکتے؛ میں صرف ایک مثال لاتا ہوں تاکہ آپ دیکھ لیں کہ سیاسی میدان میں انجام پانے والے کسی کام میں اس رویے کا اثر کتنا زیادہ ہے؟ مجھے یاد ہے کہ جب شام کے بحران میں شامی افواج اور ہمارے عسکری مشیر اور حزب اللہ مل کر کسی ایسے علاقے میں داخل ہوتے تھے ان لوگوں کو چھڑانے کے لئے جنہیں مسلح دہشت گردوں نے یرغمال بنایا ہوتا تھا، اور جب جبہۃ النصرہ سے لے کر داعش تک کے دہشت گرد گھیرے میں آجاتے تھے، تو تکفیری دہشت گردی کا پیکر تشکیل دینے والے یہ دہشت گرد پیغام دے دیتے تھے کہ ہم بھاری ہتھیار تحویل میں دے کر اس علاقے سے نکلنے کے لئے تیار ہیں آپ بس ہمیں ماریں نہیں۔
میں اعتماد کے مسئلے کی طرف اشارہ کررہا ہوں؛ جب یہ تکفیری جو براہ راست یہودی ریاست کے ساتھ کام کرتے تھے اور ان سے تنخواہیں لیتے تھے، کہتے تھے کہ کیا ضمانت ہے کہ ہم یہاں سے نکلیں اور شامی افواج ہمیں پیچھے سے نشانہ نہ بنائیں؟ پہلی مرتبہ جب یہ کام انجام پا رہا تھا ہم نے اقوام متحدہ کے ذریعے ان سے پوچھا کہ تمہیں کیسی ضمانت درکار ہے؟ تو کہنے لگے:
اگر ایرانی عسکری مشیران یا حزب اللہ ضمانت دیں کہ شامی افواج ہمیں نشانہ نہیں بنائیں گے تو ہم علاقہ تحویل دینے کے لئے تیار ہیں۔
دیکھئے یہ وہی لوگ ہیں جو حزب اللہ کے مجاہدین اور ہمارے مدافعین حرم کا سر قلم کرنے والی تنظیمیں ہیں لیکن ان کے ساتھ ہمارا برتاؤ یہ تھا اور ان کا ہم پر اعتماد تھا کہ “یہ لوگ مرد ہیں، جوانمرد ہیں، مسلمان ہیں اور ان کے قول پر بھروسہ کیا جاسکتا ہے”۔ یہی لوگ جو ہمارے ساتھ بیٹھ کر کہتے ہیں کہ “ہمیں امریکیوں پر بھروسہ نہیں ہے”۔ تاہم یہ لوگ آشکارا بیان بھی کرتے ہیں کہ ہم آپ کی طرح امریکیوں کو “نہ” نہیں کہہ سکتے۔
کہتے ہیں: آپ نے امریکہ کو “نہ” کہا اور انقلاب بپا کیا اور پوری قوت کے ساتھ ڈٹ گئے لیکن سعودی عرب میں ہمارا نظام کچھ اس طرح سے ہے کہ ہم انہیں “نہ” نہیں کہہ سکتے، اور ساتھ افسوس کا اظہار بھی کرتے ہیں؛ لیکن درحقیقت امریکیوں پر اعتماد بھی نہیں کرتے کیونکہ انہیں مسلسل یہ احساس رہتا ہے کہ جو کچھ عرب دنیا کے راہنماؤں کے ساتھ ہؤا اور وہ زوال پذیر ہوئے اور ان کے ملکوں میں تبدیلیاں آئیں، یہی کچھ سعودی عرب میں ہمارے ساتھ کسی بھی لمحے دہرایا جاسکتا ہے۔
یہ واقعہ کیونکر پیش آیا کہ علی عبداللہ صالح یمن میں کسی وقت انصار اللہ کے ساتھ متحد ہوئے، اور بعد میں غداری پر اتر آئے اور آخرکار ان حالات سے دوچار ہوئے۔
یمن میں علی عبداللہ صالح ایک سیاستدان کھلاڑی تھے اور حکمرانی کو خوب سیکھ چکے تھے۔ یمن میں علی عبداللہ صالح سے یہ جملہ نقل کیا جاتا ہے کہ: یمن میں حکمرانی ایک سات سروں والے سانپ کے سر پر چلنے کے مترادف ہے اور آپ کو ہر لمحے خیال رکھنا پڑتا تھا کہ سانپ کے کسی ایک سر کی گزیدگی آپ کو اوپر سے نیچے نہ پھینک دے۔
سعودیوں کا خیال تھا کہ علی عبداللہ صالح کو پیسہ دے کر یمن کو سعودی عرب کے پچھواڑے میں تبدیل کیا جاسکتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ یہاں کے لوگ سعودی عرب سے اس قدر نفرت کیوں کرنے لگے؟ اور کیا ہؤا کہ علی عبداللہ صالح ـ جنہوں نے اربوں ڈالر سعودی عرب سے لے لئے اور عوام کے لئے خرچ کرنے کی بجائے بیرونی بینکوں میں رکھ لئے ـ اچانک فیصلہ کرتے ہیں کہ سعودی عرب سے علیحدگی اختیار کرکے انصار اللہ کے حلیف کے طور پر کردار ادا کریں؟
صالح نے دیکھا کہ انصار اللہ نامی ایک طاقتور سیاسی اور معاشرتی قوت یمن میں موجود ہے۔ میں یہ نہیں کہہ رہا ہوں کہ انصار اللہ پورے یمن پر تسلط رکھتی ہے یا پورے یمن کو اپنے لئے چاہتی ہے؛ نہیں ایسا نہیں ہے۔ کہنا چاہتا ہوں کہ انصاراللہ کی جڑیں یمنی معاشرے میں بہت گہری ہیں اور ایک حقیقی یمنی قوت ہے اور آج سعودی جارحیت کے آگے کامیاب مزاحمت کے نتیجے میں ایک مرکزی قوت میں بدل گئی ہے جس کے یمن میں بہت سارے متحدین اور حلفاء ہیں؛ یمن کی کمیونسٹ پارٹی سے لے کر مختلف دینی اور قومی جماعتیں انصار اللہ کے ساتھ ہیں اور انصار اللہ ایک اہم طاقت بن چکی ہے۔
علی عبداللہ صالح کے لئے ان کے ساتھ کام کرنا، اہم تھا۔ کل تک سوچ رہے تھے کہ اصل قوت سعودی عرب ہے لیکن کل سمجھ چکے کہ ایسا نہیں ہے بلکہ طاقت یہاں انصاراللہ اور اس کی حلیف جماعتوں کے پاس ہے۔ دوسری طرف سے سعودی عرب کے برتاؤ سے بھی نالاں تھے چنانچہ انھوں نے سوچ لیا کہ انہیں عمر کے اس آخری حصے میں انصار اللہ کی طرف مائل ہونا چاہئے، اسی میں بہتری ہے۔
لیکن کچھ عرصہ گذرجانے کے بعد انہیں بڑی رقوم کی پیشکش ہوئی اور وعدہ دیا گیا کہ ان کے بیٹے کو یمن کا صدر بنایا جائے گا، اور وہ خود یمن کے مستقبل میں اہم اور مرکزی رہنما کے طور پر کردار ادا کرسکیں گے۔ سعودیوں نے کہا: ہم نے کئی مرتبہ بڑی کاروائیاں کرکے دارالحکومت صنعا پر قبضہ کرنے اور انصار اللہ کو نکال باہر کرنے کی کوشش کی لیکن کامیاب نہیں ہوسکے، آپ (علی عبداللہ صالح) اندر سے کاروائی کریں، صنعا کے نظام کو درہم برہم کریں، خانہ جنگی کی کیفیت پیدا کریں تاکہ دارالحکومت انصار اللہ کے ہاتھ سے نکل جائے اور بعد میں ہماری افواج داخل ہوجائے!
علی عبداللہ صالح نے دھوکہ کھایا۔ وہ خود زیدی شیعہ تھے اور ایک زمانے میں تاکتیکی حکمت عملی کے تحت انصاراللہ کے قریب گئے اور انصاراللہ کا طے شدہ پروگرام بھی یہی ہے کہ یمن کی تمام جماعتوں کے ساتھ کام کرے۔ یعنی اگر اسی وقت عبدربہ منصور کی مستعفی حکومت کہہ دے کہ ہم انصار اللہ کے ساتھ ملکی آئین اور سیاسی مفاہمت کے دائرے میں کام کرنا چاہتے ہیں تو انصاراللہ “نہ” نہیں کہے گی اور کہے گی کہ آجائیں بیٹھتے ہیں، مذاکرہ کرتے ہیں ۔۔ یہ انصار اللہ کی وسیع النظری ہے۔ کیونکہ اسے یقین ہے کہ یمن یمنیوں کے لئے ہے۔