نفسیاتی جنگ اور ہمارا دشمن

خیبر صہیون ریسرچ سینٹر: موجودہ دور میں سامراجی عناصر کا قوموں پر اپنا دبدبہ بنانے اور انہیں اپنی یلغار کا شکار بنانے کا ایک حربہ نفسیاتی جنگ ہے .
اپنے استعماری اہداف کے حصول کے لئے دشمن جو سناریو تیار کرتا ہے اور جس طرح اپنی پروپیگنڈہ مشینری کا استعمال کرتا ہے جھوٹ کو سچ اور سچ کو جھوٹ جس مہارت کے ساتھ دشمن ثابت کر کے اپنے مطلوبہ اہداف کے حصول کے لئے جو چال چلتا ہے اسے ہی نفسیاتی جنگ سے تعبیر کیا جاتا ہے ۔
آمنے سامنے کی فزیکی جنگ کے بارے میں توسب جانتے ہیں اس کی تخریب کاریوں سے بھی واقف ہیں اس کے اسلحوں سے بھی آشنا ہیں لیکن نفسیاتی جنگ وہ ہے جس کے بل پر فیزیکلی جنگ پر بھی انسان غلبہ کر سکتا ہے ۔ آمنے سامنے کی جنگوں میں انسان سر زمینوں کو فتح کرتا ہوا آگے بڑھتا ہے لیکن نفسیاتی جنگ میں ذہن و دماغ پر تسلط پیدا کیا جاتا ہے اور جب ذہن و دل قابو میں آ جاتے ہیں تو اب زمین پر قبضہ کوئی بڑی بات نہیں رہ جاتی ۔نفسیاتی جنگ کا آغاز یوں تو تمدن بشری کی ابتدا سے ہے لیکن ماہرین کے خیال کے مطابق دوسری عالمی جنگ کے بعد سے اس طریقہ جنگ کو ایک خاص مقام حاصل ہوا ۔ نفسیاتی جنگ کے اپنے اصول و ضوابط اور اس کا ایک خاص طریقہ کار ہے جس پر کسی اور وقت گفتگو ہوگی لیکن وہ ایک اہم نکتہ جس کی وجہ سے نفسیاتی جنگ میں دشمن کو کامیابی ملتی ہے طرف مقابل کا جاہل ہونا ہوتا ہے ، جہالت کی بنیاد پر ہمیشہ ہی نقصان ہوا ہے اور اس قوم نے معیشتی ، معاشرتی ، اور سیاستی و قومی میدان میں ہمیشہ ہی نقصان اٹھایا ہے جو جاہل رہی یہی جہالت سبب بنتی ہے کہ نفسیاتی جنگ میں دشمن جس رخ پر چاہےقوم کو ڈھکیل کر اپنا الو سیدھا کرے ۔
نفسیاتی جنگ کا سب سے بڑا اسلحہ:
نفسیاتی جنگ کا سب سے بڑا اسلحہ میڈیا ہے اگرچہ پروپیگنڈہ کرنے کے دیگر وسائل جیسے کتاب، میگزین ، بروشرز، اور خاص کر سوشل میڈیا فیس بک و اٹس اپ سبھی اس مشینری کا حصہ بن جاتے ہیں اور انسے بوقت ضرورت بہت آسانی کے ساتھ اپنی بات لوگوں کے ذہنوں میں اتار دی جاتی ہے ۔
نفسیاتی جنگ ایک ایسا آزمودہ حربہ ہے جسے سامراج نے ہمیشہ ہی ترپ کے پتے کے طور پر استعمال کیا ہے چنانچہ ماہرین سیاست اس بات کو مانتے ہیں کہ نفسیاتی جنگ کے پیچیدہ اصولوں سے اگر کوئی واقف نہیں ہے تو بہت جلد اس جنگ میں دشمن سے زیر ہو کر ہاتھ اٹھا سکتا ہے اور یہ وہ حربہ ہے جس کے بل پر آپ کسی بھی مظلوم قوم کو ظالم اور ظالم کو مظلوم بنا سکتے ہیں قاتل کو مقتول مقتول کو قاتل بنانا اس جنگ کے ماہرین کے لئے کوئی بڑی بات نہیں ہے اور فلسطین کا وجود اسکا زندہ ثبوت ہے کہ کس طرح صہیونیوں نے ہلوکاسٹ کی کہانی گڑھ کر اپنے آپ کو مظلوم ثابت کرتے ہوئے دنیا کی ہمدردیاں بٹوری اور کس طرح آج یہ لوگ فلسطینیوں پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑ دینے کے بعد بھی نفسیاتی جنگ کے بل پر خود کو بجا و حق پیش کر رہے ہیں ۔ نفسیاتی جنگ کا مقصد اپنے حریف و مخالف پر پروپیگنڈہ کے ذریعہ تسلط حاصل کرنا سازشوں کا شکار بنا کر اپنے مفاد کی خاطر استعمال کرنا ہے نت نئی سازشیں ، ٹی وی پر ایسے پروگرام جو خاص کر کسی ایک قوم کو ٹارگٹ کر رہے ہیں ہوں ، کسی مذہب کے مقدسات سے کھلواڑ ،حکومت کی جانب سے بغیر ایک قوم کی رائے جانے اس سے مشورہ لیا بغیر اسکے مذہب میں مداخلت کرتے ہوئے ایسے بل پیش کرنا جو یکطرفہ ہوں جبکہ باہمی گفت و شنید کے ذریعہ مسئلہ کا حل ممکن ہو یہ وہ خطرناک پوائنٹ ہیں جن سے بھر پور استفادہ کرتے ہوئے دشمن ایک قوم احساس کمتری میں مبتلا کر سکتا ہے ۔اس جنگ میں زبردستی کسے کو مارنے کی ضرورت ہی نہیں ہے کسی بھی قوم سے کچھ لالچی لوگوں کو پکڑ کر انہیں کوئی چھوٹا موٹا منصب دیکر پوسٹ اور مقام کا لالچ دیکر درونی طور پر ایک ہی قوم میں سیاسی ،مذہبی اور علاقائی اختلافات ڈالا جا سکتا ہے اور جہاں اختلافات و آپسی تصادم ہوا وہاں بڑی سے بڑی قوم کی ہوا نکل جاتی ہے۔
ملک کی موجودہ صورت حال اور نفسیاتی جنگ:
ہمارے ملک ہندوستان میں جو مسلمانوں کی صورت حال ہے اسے دیکھ کر نفسیاتی جنگ کی شدت دشمن کے نت نئے حربوں کا جتنا اندازہ ہوتا ہے اتنا ہی اس بات کا بھی کہ ہمارے پاس اس نفسیاتی جنگ سے ابھرنے کے لئے کچھ نہیں ہے بلکہ ہمارے ہاتھوں میں زہریلے لالی پاپ تھما دئے جاتے ہیں مثلا فلاں حکومت میں فلاں قوم کی شراکت زیرو تھی اور ایک خاص حکومت میں مثلا ہر طر ف ایسے ناموں کی بارش ہے جن سے ایک خاص مسلک کی نمائندگی کا پتہ چلتا ہے اب ایسے میں ہم سوچتے ہیں کہ چلو موجودہ حکومت میں ہمارا منسٹر ہمارا نمائندہ تو ہے فلاں پارٹی میں ہمارے آدمی تو ہیں جبکہ ہم کبھی یہ نہیں سوچتے کہ ان ہمارے اپنوں نے ہمیں کیا دیا ہے اور یہ کونسے اپنے ہیں کہ دیر و خانقاہ سے لیکر مندر و گرودواروں تک میں یہ وہی عمل انجام دیتے ہیں جس کے لئے اوپر سے انہیں کہا جاتا ہے ، یہ اگر اپنے ہی ہوتے تو اپنے ائمہ کی سیرت پر چل کر اپنوں کے لئے کچھ کرتے ۔
نفسیاتی جنگ کا ایک خطرناک رخ جو ہمارے یہاں چل رہا ہے وہ یہ ہے سوشل میڈیا پر اختلافی مسائل چھیڑ کر پوری قوم کو الجھا دیا گیا ہے رات کے نصف حصہ میں گروجی اپنا ایک چمتکار فیس بک پر ڈالتے ہیں جس کا تعلق نہ دین سے ہے نہ مذہب سے نہ قوم سے صبح تک ہزاروں کی تعداد میں لائیک سجدہ ریز نظر آتے ہیں اور کبھی ایسی متنازعہ بات واٹس اپ گروپ پر یا فیس بک پر ہوجاتی ہے کہ پورے ہفتہ اسی پر گفتگو ہوتی رہتی ہے اور باتیں ختم بھی ہو جائیں تو چیلے چپاٹے ختم نہیں ہونے دیتے ایک نیا شگوفہ چھوڑ کر سب کو پھنسائے رہتے ہیں اور قوم حاشیہ میں الجھی رہتی ہے ۔
یہ تو خیر آپسی طور پر گتھم گھتا کی بات تھی جہاں بے سود بحثیں ہوتی ہیں اور اس نفسیاتی جنگ میں دشمن زیادہ انرجی بھی نہیں لگاتا کسی ایک کو اس نے دوست کی چادر اڑھا کر ایک گروپ میں ڈالا ہوتا ہے اور بس اسکا کام ہو رہا ہوتا ہے …
جبکہ اس سے منظم طور پر جہاں کام ہوتا ہے وہاں کبھی ایک قوم کو مسلسل ہراساں کرنے کی منصوبہ بندی ہوتی ہے اور سوچے سمجھے طریقے اپنا کر ایسی باتیں پیش کی جاتی ہیں جنکے بل پر ہم اپنی کم تعداد کی بات کرتے رہیں اور جب بھی کچھ کرنے کی بات ہو غیرت ایمانی کی بات ہو تو ہم کہیں کہ ہماری تعداد بہت کم ہے ایسا ہوا تو یہ ہو جائے گا ویسا ہوا تو یہ ہو جائے گا ، ہمارا گھر بار لٹ جائے گا ہم کہیں کے نہیں رہیں گے ہمارے کھیت کھلیان تباہ و برباد ہو جائیں گے و۔۔۔ کبھی اس نفسیاتی جنگ میں ہمیں خوش کرنے کے لئے ایسے باتیں پھیلائی جاتی ہیں جن پر ہم خوش ہو جاتے ہیں لیکن بعد میں پتہ چلتا ہے کہ یہ خبر ہی جھوٹی تھی اس کے برخلاف کبھی ایسی خبر نشر ہوتی ہے جس سے ہم ڈر جاتے ہیں اور بعد میں پتہ چلتا ہے کہ خبر ہی کی کوئی اصلیت نہیں تھی

 

آراء: (۰) کوئی رائے ابھی درج نہیں ہوئی
ارسال نظر آزاد است، اما اگر قبلا در بیان ثبت نام کرده اید می توانید ابتدا وارد شوید.
شما میتوانید از این تگهای html استفاده کنید:
<b> یا <strong>، <em> یا <i>، <u>، <strike> یا <s>، <sup>، <sub>، <blockquote>، <code>، <pre>، <hr>، <br>، <p>، <a href="" title="">، <span style="">، <div align="">
تجدید کد امنیتی