-
Saturday, 21 March 2020، 07:26 PM
گزشتہ سے پیوستہ
خیبر: ایران میں کورونا وائرس کے پھیلنے کے بعد امریکی صہیونی میڈیا کے ذریعے جو نفسیاتی جنگ کا آغاز ہوا اس کے بارے میں آپ کا کیا نظریہ ہے؟
جواب؛ وہ چیز جو امریکہ کے ذریعے کورونا وائرس کے پھیلائے جانے کو واضح تر کرتی ہے وہ نفسیاتی جنگ ہے جو اس وائرس کے حوالے سے پوری دنیا منجملہ ایران میں شروع ہو چکی ہے۔ میں اس بات کی طرف آپ کی توجہ مبذول کرانا چاہوں گا، جب یہ وائرس چین میں شروع ہوا تو ہمارے ملک کے لوگوں کی ذہنیت یہ تھی کہ کورونا وائرس ، چمگادڑ کے ذریعے چینیوں میں منتقل ہوا ہے۔
لیکن کیا چین میں یہ چیز ثابت ہوئی؟ جو افواہیں ’ووہان‘ شہر میں اس وائرس کے پھیلتے وقت پھیلیں وہ یہ تھیں کہ اس وائرس سے متاثرہ افراد وہ لوگ تھے جو سمندری خوراک کھاتے تھے لہذا یہ احتمال پایا جا رہا ہے کہ سمندری موجودات کے ذریعے انسانوں میں منتقل ہوا ہو۔ لیکن جب ڈاکٹروں نے تحقیقات کرنا شروع کیں تو معلوم ہوا وہ لوگ بھی اس بیماری سے متاثر ہوئے ہیں جنہوں نے نہ ہی سمندری غذائیں کھائی ہیں اور نہ ان لوگوں کے ساتھ ان کا اٹھنا بیٹھنا تھا جو اس بیماری میں مبتلا تھے۔
دوسرا مفروضہ یہ تھا کہ یہ وائرس چمگادڑ کے سوپ سے پھیلا ہے اس مفروضہ پر بھی تحقیقات کرنے کے بعد معلوم ہوا کہ سوپ تو پکا کر استعمال کیا جاتا ہے اور پکنے کے بعد کسی وائرس کے باقی رہنے کا احتمال بہت کم ہے۔ لیکن یہ احتمالات میڈیا میں اس طریقے سے بڑھا چڑھا کر پیش کئے گئے کہ گویا سوفیصد یہی دلائل ہیں۔ جبکہ ابھی تک خود چین کے اندر بھی اس وائرس کے وجود میں آنے کی وجہ معلوم نہ ہو سکی ہے۔
دوسری جانب ایران میں ٹھیک پارلیمانی انتخابات کی پچھلی رات قم میں اس کے پھیلے جانے کا اعلان کر دیا گیا اور کہا گیا کہ قم ہے جو اس وائرس کو پورے ایران میں پھیلا رہا ہے۔ جبکہ پوری دنیا جانتی ہے کہ اس وائرس کا اصلی مرکز چین ہے قم نہیں۔ لیکن قم کی بات آئی تو پوری دنیا کا میڈیا چین کو بھول کر قم کے پیچھے لگ گیا!
کچھ ہی دیر میں یہ خبریں بھی پھیلائی جانے لگیں کہ قم میں چونکہ چین کے طالب علم زیر تعلیم ہیں لہذا ان کے ذریعے یہ وائرس قم میں پھیلا ہے۔ حالانکہ جب سے چین میں کورونا وائرس پھیلا تھا چین کا ایک بھی طالب علم اپنے ملک میں نہیں گیا اور نہ ہی کوئی طالب علم وہاں سے اس دوران قم آیا۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ قم میں تقریبا ۱۳ لاکھ کی آبادی ہے۔ لیکن سارا نزلہ حوزہ علمیہ پر ڈالا جا رہا تھا اور کہا جا رہا تھا کہ قم کے طالب علم اور علماء ہیں جو اس وائرس کے پھیلاؤ کا باعث بنے ہیں۔ حالانکہ جس مرکز میں یہ چینی طالب علم زیر تعلیم تھے وہاں کا کوئی ایک بھی عالم دین یا طالب علم متاثر نہیں ہوا۔
اس طرح کی نفسیاتی جنگ جو اس وائرس کے حوالے سے شروع کی گئی یہ اس بات کی دلیل ہے کہ وائرس کا بنانا اور اس کا پھیلانا اور پھر اس کے پیچھے میڈیا کو منظم طریقے سے استعمال کرنا سب طے شدہ منصوبہ تھا۔
امریکہ کو یہ معلوم ہے کہ ایران میں صرف قم ہے جو امریکہ کے خلاف جنگ میں ڈٹا ہوا ہے۔ قم چونکہ حوزہ علمیہ کا مرکز ہے۔ آج جس فکر نے امریکہ اور اسرائیل کو مفلوج کیا ہے وہ انقلابی فکر اور سوچ ہے اور انقلابی فکر و سوچ کا مرکز شہر قم ہے جس انقلابی فکر کی بنیاد امام خمینی نے اسی شہر میں رکھی۔ لہذا دشمن کی نظر میں اس شہر کو منہدم ہونا چاہیے۔
دشمنوں کے لیے یہ اہم نہیں کہ اس مرکز کو مٹانے کے لیے کتنا خرچہ کرنا پڑے گا۔ اگر یہ وائرس دشمنوں نے بنایا ہو گا وہ اپنے حریف کو میدان سے ہٹانے کے لیے پوری انسانیت کو داؤ پر لگانے کے لیے تیار ہیں۔ لہذا جو معلومات فی الحال میسر ہیں ان سے یہ محسوس ہوتا ہے کہ اس وائرس کو بنانے والا امریکہ اور وائرس پھیلانے کے ساتھ ساتھ نفسیاتی جنگ چھیڑنے والا بھی امریکہ ہے۔