صہیونیت کے دو اہم منصوبے

  • ۴۸۷

خیبر صہیون ریسرچ سینٹر: اسرائیل کے قیام کے بعد صہیونیت کے پیش نظر منصوبہ جات میں بظاہر دو اہم منصوبے یہ ہیں:
۱: حضرت سلیمان(ع) کا تعمیر کردہ ہیکل سلیمانی (جو ایک دفعہ ۵۶۷ ق م میں نمرود بادشاہ بخت نصر نے گرایا تھا جس کے بعد انہوں نے دوبارہ تعمیر کر لیا تھا۔ دوسری مرتبہ رومی حملہ آور جرنیل ٹائٹس نے ۷۰ء میں گرایا تھا جو اب تک ۱۹۵۰ سال سے گرا پڑا ہے) کو تیسری مرتبہ تعمیر کرنا۔
۲: صہیونیت کا اسرائیل کے ذریعے ساری دنیا پر قبضہ اور قرضوں کی معیشت کے ذریعے عالمی حکومت کا قیام۔
ان دونوں منصوبوں پر مختصر نگاہ ڈالتے ہیں:
ہیکل سلیمانی کی تیسری تعمیر
یہود اور در اصل صہیونیت بزعم خویش حضرت موسی (علیہ السلام) کے بعد آنے والے بہت سارے پیغمبروں کے قتل اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) اور پیغمبر آخر الزمان حضرت محمد (صلی اللہ علیہ و آلہ) کے من حیث القوم انکار کے باوجود ارض مقدس یروشلم پر اپنا حق سمجھتی ہے( حالانکہ یہ کسی قاعدے اور قانون کے مطابق ان کا نہیں ہے) آسمانی ہدایات میں تو ان کے انکار مسیح(علیہ السلام) کے بعد ان کو سزا کے طور پر وہاں سے نکالا گیا تھا بعد از آں انبیائے کرام کی یادگاریں حضرت محمد (صلی اللہ علیہ و آلہ) پر تسلسل کے ساتھ ایمان لانے والوں کا ہی حق ہے اور ایسے مقامات مقدسہ اللہ تعالیٰ ہمیشہ بعد کے انبیاء کرام( علیہم السلام) کی امتوں کے ہی حوالے کرتا رہا ہے یہی سنت الہی ہے۔
تاہم ظلم، جبر، استحصال، جائز ناجائز ہتھکنڈوں، ابلیسی چالوں، شراب، عورت، جوا، بے حیائی اور سود کے ذریعے عالمی وسائل پر قبضہ کر کے صہیونیت نے حیلوں بہانوں سے گزشتہ تین صدیوں سے عالمی معیشت پر مکمل کنٹرول حاصل کر لیا ہے اور علمی اور سیاسی منظر پر سامنے آکر جنگ کے بعد کوئی علاقہ فتح کر کے حکومت بنانے کے بجائے سازشوں سے اسرائیل کی حکومت کی حفاظت عالمی طاقتوں اور “یو این او”، “آئی ایم ایف” اور “ڈبلیو بی” کے ذریعے کرا رہی ہے۔
صہیونیت کا پہلا اہم منصوبہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے ہیکل سلیمانی کی تیسری تعمیر ہے۔ یہود کے پاس مالی وسائل بہت ہیں۔ ٹیکنالوجی بھی ہے نقشہ جات بھی ۱۹۹۲ سے تیار شدہ ہیں۔ مگر وہ منصوبہ شروع اس وجہ سے نہیں ہو پا رہا ہے کہ عین اس جگہ جہاں وہ ہیکل تعمیر ہونا ہے وہاں مسلمانوں کی عظیم یادگار اور تاریخی مسجد مسجد اقصیٰ ہے جو مسلمانوں کا قبلہ اول بھی تھا اور جہاں سے آخری نبی نے معراج کا سفر میں بھی شروع کیا۔
لہذا ہیکل سلیمانی کی تعمیر اس صورت میں ممکن ہو سکتی ہے جب مسجد الاقصیٰ کو مسمار کیا جائے جبکہ فلسطین کے بہادر مسلمان گزشتہ کئی سالوں سے اس کام کی راہ میں رکاوٹ بنے ہوئے ہیں اور دنیا کے دیگر مسلمان بھی کبھی صہیونیوں کو اس بات کی اجازت نہیں دیں گے۔
عالمی حکومت کا قیام
صہیونیت کا دوسرا ابلیسی منصوبہ یہ ہے کہ آج دنیا کو جو انہوں نے بے حیائی، عریانی فحاشی کے جس موڑ پر لاکھڑا کر دیا ہے وہاں سے آگے لے جا کر بے حیائی اور بدکاری کو اتنا عام کر دیا جائے کہ انسان اور جانور میں تمیز مشکل ہو جائے اور لوگ جانوروں کی طرح سرراہ بدکاری اور بے حیائی کے کام کر رہے ہوں۔ مغرب میں تو ان قوموں کا یہ نقطہ کمال عام طور پر بھی نظر آتا ہے مگر خاص طور پر گرمی کے موسم میں جب دھوپ تاپنے کے بہانے ساحلوں کی ریت پر برہنا پڑے انسان نما جانوروں کی صورت میں بھی مشاہدہ کیا جا سکتا ہے۔ واقعا یہ معاشرہ حیوانی سطح تک اتر آیا ہے اور اس گراوٹ میں میڈیا کا بہت بڑا ہاتھ اور صہیونیت کے ماسٹر دماغ ( MASTER MINDS) فلم کلچر اور سیر و تفریح کے نام پر یہ سب کچھ کرا رہے ہیں۔
ایسی افسوسناک صورتحال کو انسانی معاشرے کے لیے وجود میں لانے کے بعد یہود کا چالاک ذہن آگے بڑھ کر یہ کہتا ہے کہ جب انسان اس طرح حیوانیت پر اتر آیا ہے تو وہ چونکہ معاملات دنیا کو کما حقہ نہیں چلا سکتا لہذا یہود ہیں جو دنیا کو بہترین انداز میں چلا سکتے ہیں۔
یہود کے دو طبقے ہیں ایک مذہبی یہودی اور دوسرے لبرل یہودی۔ لبرل یہودی قوم ہر طرح کی اخلاقی گمراہیوں میں غرق ہیں تاہم مذہبی یہودی عام طور پر اپنے آپ کو ان برائیوں سے بچاتے ہیں۔ ایک راوی کے مطابق امریکہ میں نیویارک سے باہر یہود کی بستیاں ہیں اور ان مذہبی یہودیوں کے گھروں میں ٹی وی تک بھی موجود نہیں ہے کہ یہ اخلاق خراب کرتا ہے ان کے ہاں پردہ ہے اپنے مذہبی شعائر ہیں۔ بظاہر یہ دو قسم کے یہودی ہیں مگر نظریات میں دونوں ایک ہیں۔ ایک عالمی یہودی ریاست کا قیام ان دونوں کا مشترکہ مطمع نظر ہے۔
منبع: کتاب صہیونیت قرآن مجید کے آئینہ میں

 

تسخیر عالم کا صہیونی خواب

  • ۴۳۳

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: صہیونیوں کے دانا بزرگوں کی دستاویزات میں جگہ جگہ ایک سپر گورنمنٹ کا ذکر کیا گیا ہے۔ مثلاً چھٹی دستاویز میں کہا گیا ہے کہ” ہمیں ہر ممکنہ ذریعہ سے ایک ایسی سپر گورنمنٹ کی اہمیت کو اجاگر کرنا ہے جو رضاکارانہ طور پر اطاعت قبول کرنے والوں کو مکمل تحفظ کی ضمانت دے سکے”۔
وکٹر۔ ای۔ مارسڈن ( جس نے ان دستاویزات کا ترجمہ روسی زبان سے انگریزی میں کیا) نے ان دستاویزات کے تعارف میں اقوام متحدہ کو اسی سپر گورنمنٹ کی طرف ایک قدم قرار دیا ہے۔
اس منصوبہ کو بروئے کار لاتے ہوئے اول لیگ آف نیشنز قائم کی گئی اور بعد میں اقوام متحدہ کا قائم عمل میں لایا گیا۔
اس پس منظر میں اقوام متحدہ پر یہودیوں کے تسلط کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اقوام متحدہ کے دس اتنہائی اہم اداروں میں ان کے اہم ترین عہدوں پر ۷۳ یہودی فائز ہیں۔ اقوام متحدہ کے صرف نیویارک کے دفتر میں بائیس شعبوں کے سربراہ یہودی ہیں اور یہ سب کے سب انتہائی حساس شعبے ہیں جو اس بین الاقوامی تنظیم کی پالیسیاں مرتب کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر یونیسکو میں نو شعبوں کے سربراہ یہودی ہیں۔ آئی۔ ایل۔ او( I.L.O) کی تین شاخیں یہودی افسران کی تحویل میں ہیں۔ ایف۔ اے۔ او (F.A.O) کے گیارہ شعبوں کی سربراہی یہودیوں کے پاس ہے۔ عالمی بینک (WORLD BANK) میں چھ اور انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ (I.M.F) میں نو شعبوں کے سربراہ وہ لوگ ہیں جن کا تعلق یہودیوں کی عالمی تنظیم سے ہے۔ یہ تمام عہدے جو یہودیوں کے پاس ہیں انتہائی اہم اور حساس ہیں اور یہ لوگ ان کے ذریعے تمام بین الاقوامی امور پر اثر انداز ہو رہے ہیں۔ اس کے علاوہ بے شمار یہودی اور ان کے گماشتے ہرہر شعبے میں موجود ہیں۔ ذرا اندازہ لگائیے کہ اگر یہ افراد کسی مرکزی تنظیم کے زیر اثر کام کر رہے ہوں تو وہ عالمی سیاسیات، معاشیات اور مالیات کا رخ جس سمت چاہیں موڑ سکتے ہیں اور بعینہ یہی وہ کام ہے جو وہ سر انجام دے رہے ہیں۔
بہت سے لوگوں کو یہ معلوم ہو کر حیرت ہو گی کہ دنیا کے تمام ممالک میں یہودیوں کی خفیہ تنظیمیں کام کر رہی ہیں۔ بہت سے ملکوں میں انہیں اپنی علیحدہ کوئی تنظیم قائم کرنے کی بھی ضرورت محسوس نہیں ہوتی چونکہ ان کے اپنے آدمی خفیہ طور پر ان ملکوں میں اہم مناصب پر تعینات کروائے جا چکے ہیں جہاں بیٹھ کر وہ ہر کام کروا سکتے ہیں جس کی انہیں ضرورت ہے۔ مثال کے طور پر بدنام زمانہ سی۔ آئی۔ اے (C.I.A) ان کے انگوٹھے کے نیچے ہے جسے براہ راست اسرائیل سے ہدایات ملتی ہیں۔

 

جناب عباس (ع) اور ثبات قدم

  • ۵۴۷

دنیا میں کتنے ہی ایسے لوگ ہیں جنکا ماضی بہت تابناک رہا لیکن وہ ماضی کی تابناکیوں کو حال تک قائم رکھنے میں ناکام رہے جسکی بنا پر حال بھی تاریک ہو گیا اور مستقبل بھی تاریکیوں میں گم ہو کر رہ گیا ۔
ماضی کے کامیاب اور حال کے ناکام نیزمستقبل کے بے نام و نشاں لوگوں کی ناکامی و بے نشانی کا ایک سبب یہ ہے کہ وہ کل کے اپنے اس عزم و حوصلہ ،اپنی استقامت و پائداری کو آج زندہ رکھنے میں ناکام رہے جس نے انہیں کل کامیابی کی چوٹیوں تک پہنچایا تھا ، گزرا ہوا کل کتنا ہی کامیاب ہو اگر انسان کل کی کامیابیوں کو آج تک باقی نہ رکھ سکے تو حال و مستقبل دونوں ہی میں بے نام و نشاں ہو جاتے ہیں ۔
ان لوگوں کی بات ہی کیا ہے جنکا ماضی تو درخشاں ہوتا ہی ہے حال تو تابناک ہوتا ہی ہے آنے والا زمانہ جیسے جیسے گزرتا ہے انکا وجود اور بھی درخشان ہوتا جاتا ہے ، اور کہا جا سکتا ہے کہ کہ زمانے کی یہ قیود انکے لئے بے معنی ہو جاتی ہیں کہ انکے لئے ماضی ، حال یامستقبل کی بات کی جائے یہ ایسے نابغہ روزگار لوگ ہوتے ہیں جو ہر زمانے میں حال بن کراس طرح جیتے ہیں کہ ہر دور کی ضرورت بن جاتا ہے ، اور زمانہ کی قید سے ماوراء مکان کی حدوں کے پار کائنات وجود پر یوں محیط ہو جاتے ہیں کہ کامیابی کا تصور جب بھی آتا ہے دنیا انہیں یاد کرتی ہے ۔
یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جنہیں انکا ایمان ثابت قدم رکھتا ہے ،اور خدا انکے ایمان کی وجہ سے انکا ہاتھ یوں پکڑتا ہے کہ انکے پاِیہ استقلال میں کبھی لغزش نہیں ہوتی ، بڑے سے بڑی مشکل میں انکے قدم جادہ حق سے نہیں ڈگمگاتے ارشاد ہوتا ہے :
یُثَبِّتُ اللہُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا بِالْقَوْلِ الثَّابِتِ فِی الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا وَفِی الْاٰخِرَۃِ وَیُضِلُّ اللہُ الظّٰلِــمِیْنَ وَیَفْعَلُ اللہُ مَا یَشَاۗءُ
اللہ ایمان والوں کو دنیاوی زندگی میں بھی اور آخرت میں بھی قول ثابت پر قائم رکھتا ہے اور ظالموں کو گمراہ کر دیتا ہے اور اللہ اپنی مشیت کے مطابق عمل کرتا ہے۔ ابراہیم ۲۷
یہی ثبات قدم انکے وجود میں اللہ پر بھروسہ و توکل کا سبب ہوتا ہے ، انکا وجود زمانے کے طوفان حوادث کے سامنے آواز دیتا ہے
مرے قدم کو زمانہ ہلا نہیں سکتا
کہ میرا ہاتھ کسی ذمہ دار ہاتھ میں ہے
اسی خدا پر توکل و بھروسہ کی بنیاد پر میدان شجاعت میں بھی انکا جواب نہیں ہوتا کہ خدا پر بھروسہ انہیں مضبوط و طاقت ور بنا دیتا ہے
من سرہ ان یکون من اقوی الناس فلیتوکل علی اللہ ، جوچاہتا ہے کہ طاقت ور بنے وہ اللہ پر بھروسہ کرے ،مشکاۃ الانوار ، ص ۱۸
یہی خدا پر بھروسہ و توکل تھا یہی ثبات قدم تھا جس نے ابو الفضل العباس علیہ السلام کی شخصیت کو اتنا عظیم بنا دیا کہ تمام شہدا ان پر رشک کرتے نظر آتے ہیں چنانچہ امام زین العابدین علیہ السلام کی حدیث میں ہے ۔ ان للعباس علیہ السلام عند اللہ تبارک و تعالی منزلۃ یغبطہ بھا جمیع الشہداء ،
ہمارے چچا ابو الفضل العباس کی خدا کی نزدیک اتنی منزلت ہے ک ہ تمام شہدا اس پر قیامت کے دن رشک کریں گے ۔
جناب ابو الفضل العباس علیہ السلام کی کی یہ منزلت یوں ہی نہیں ہے اس کے پیچھے ، آُپکی غیرت، وفا ، شجاعت، آپکا ثبات قدم ، اور لفظوں کو سمیٹ کر کہا جائے تو آپکا خلوص ہے، آپکے وجود میں پایا جانے والا جذبہ اطاعت امام ہے ، وہ جذبہ اطاعت امام جو بندگی سے فروغ حاصل کرتا ہے
جتنا جتنا انسان بندہ پروردگار ہوگا اتنا ہی امام وقت کے سامنے خاشع ہوگا اور جتنا ہی امام وقت کے سامنے خاشع ہوگا اتنا ہی ظالموں کے سامنےسخت و بے باک ہوگا ، آج جب حضرت ابا الفضل العباس کی ولادت کی ہم خوشیاں منا رہے ہیں ہمیں دعاء کرنی چاہیے کہ پروردگار قمر بنی ہاشم کے صدقے میں ہمارے اندر بھی وہی ، غیرت ، وہی شجاعت ، وہی عزم دے جو ہمارے مولا و آقا و سردار لشکر حسینی کے اندر تھا ، گرچہ وہ عزم و حوصلہ تو انکے خلوص و انکی بندگی اور معرفت امام کی بنیاد پر تھااور ہم اس مقام تک پہنچنے سے قاصر ہیں کہ ہمارے اندر نہ وہ خلوص ہے نہ وہ جذبہ ہے نہ وہ بندگی ہے نہ ہی وہ معرفت امام لیکن ہمارے وجود میں امام وقت سے محبت ہے ، ہمارے وجود میں کربلا والوں کا عشق ہے ، ہمارے وجود میں سرکار وفا ابوالفضل العباس ع کے لئے ایک تڑپ ہے ، ہمارے انہیں جذبوں کو پروردگار تو پاکیزہ بنا دے تو کسی حد تک ہم اپنے مولا و آقا سے قریب ہو سکتے ہیں
بالکل ویسے ہی جیسے آج قائد حریت اور محاذ مزاحمت کے سردار سید حسن نصر اللہ ہیں ، بالکل ویسے ہی جیسے آج آبروئے تشیع قاسم سلیمانی ہیں
اگر ہم اپنے معاصر دور میں سید حسن نصر اللہ اور قاسم سلیمانی جیسی شخصیتوں کے عزم و حوصلہ اور انکے ثبات قدم کے اصل سرچشمہ کو تلاش کریں تو وہ یہی ہے کہ وہ اس دور میں جب کہ انکا آقا پردہ غیبت میں ہے اپنے امام عج سے غافل نہیں ہیں بلکہ عصرانتظار میں بھی ایک واقعی منتظر کی صورت امام وقت کے نائب کی چشم و ابرو کے اشارے پر جان وار دینے پر آمادہ ہیں
اور اپنی تمام کامیابوں کو نائب امام ،سے منسوب کرتے ہوئے خود کو انکے مکتب کا ادنی سپاہی قرار دیتے ہیں ، یہی وجہ ہے کہ دشمن انکے نام سے ہراساں رہتا ہے ۔انکے ثبات قدم و انکی شجاعت کے چرچے دشمنوں کے درمیان ویسے ہی ہیں جیسے انکے آقا و مولا حضرت ابو الفضل العباس علیہ السلام کے چرچے دشمنوں کی صفوں میں تھے ۔
وہ علمدار کربلا کی منزل معرفت امام علیہ السلام تھی کہ جب دشمن کی جانب سے انکی نمائندگی کرتے ہوئے شمر امان نامہ لیکر آیا تو عباس جری نے یہ کہہ کر اسے واپس کر دیا کہ تجھ پر بھی لعنت تیرے امان نامہ پر بھی لعنت ، یہ ثبات قدم یہ عزم و استقلال محض کربلا میں محدود نہ رہا بلکہ اس کی جھلک ہم نے آج بھی دیکھی جب یزیدان وقت کی جانب سے ،سپاہ قدس کے سپہ سالار کو ایک مکتوب دنیا کی سب سے بڑی ظاہری طاقت کے نمائندے کی جانب سے دیا گیا تو قاسم سلیمانی جیسے غلام حضرت ابو الفضل العباس نے اسے کھول کر دیکھنا تک گوارا نہیں کیا اور جیسے آیا تھا ویسا ہی واپس کر دیا کہ قاسم سلیمانی کے پیش نظر یقینا ۶۱ ہجری کی کربلا ہوگی کہ جب میرے آقا و مولا ابو الفضل العباس ع نے اپنے دور کی سب سے بڑی ظاہری طاقت کے نمائندے کی جانب سے آنے والے امان نامہ کو قبول نہیں کیا تو آج کے دور کی کربلا میں میں انکا ایک ادنی غلام آج کی بڑی یزیدی طاقت کے نمائندے کے مکتوب کو کھول کر کیا کرےگا نہ حسینیت کی ریت بدلی ہے نہ یزیدیت کا انداز بدلا ہے نہ حسینت کا عزم بدلا ہے نہ یزیدیت کی کمینگی بدلی ہے ، بدلا ہے تو محض وقت اور وقت کے بدلنے سے انداز کوفی و شامی بدلتے ہیں حسین ع والے نہیں ،کل میرے آقا نے امان نامہ پر لعنت بھیج کر اپنے ثبات قدم کا اعلان کیا تھا تو آج میں انکے غلام کی صورت اس مکتوب کو واپس کر کے بتا رہا ہوں کہ کربلا زندہ ہے ، اور عاشقان حسینی کے ثبات قدم میں نہ کل کوئی لغزش تھی نہ آج لغزش پیدا ہو سکتی ہے ۔
رَبَّنَآ اَفْرِغْ عَلَیْنَا صَبْرًا وَّثَبِّتْ اَقْدَامَنَا وَانْصُرْنَا عَلَی الْقَوْمِ الْکٰفِرِیْنَ
: پروردگارا ! ہمیں صبر سے لبریز فرما، ہمیں ثابت قدم رکھ اور قوم کفار پر ہمیں فتح یاب کر
بقرہ ۲۵۰

 

خاکہ/ دشمن آپ کو کیا دے کر کیا لینا چاہتا ہے؟ ذرا غور کریں

  • ۶۶۳

مشرقی محاذ پر انصاراللہ یمن کی شاندار کامیابیاں

  • ۴۲۵

بقلم محمد انصاری

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: یمن میں عوامی رضاکار فورس انصاراللہ اور یمن آرمی کی شاندار فوجی کامیابیوں کا سلسلہ جاری ہے۔ یمن کے مشرقی صوبوں پر سابق صدر منصور ہادی کے حامیوں کا کنٹرول تھا۔ انصاراللہ اور منصور ہادی کے درمیان امن مذاکرات جاری تھے لیکن منصور ہادی کے حامیوں نے یکطرفہ طور پر مذاکرات ختم کرنے کا اعلان کر دیا۔ لہذا یمن آرمی اور انصاراللہ عوامی رضاکار فورس نے بڑے پیمانے پر مشرقی صوبوں میں فوجی آپریشن کا آغاز کر دیا۔ گذشتہ چند ہفتوں کے دوران انصاراللہ یمن اور یمن آرمی نے تیزی سے پیشقدمی کی ہے۔ دارالحکومت صنعا کے شمال مشرق اور صوبہ الجوف کے شمال مغربی اور جنوب مغربی علاقوں میں عظیم کامیابیوں کے بعد اب سب کی توجہ صوبہ مارب کے اہم اور اسٹریٹجک صوبے پر جمی ہوئی ہیں۔ صوبہ مارب میں بھرپور فوجی آپریشن شروع کرنے سے پہلے صنعا میں قومی نجات حکومت نے آخری بار پرامن طریقے سے مسائل کو حل کرنے کیلئے صوبہ مارب کے تمام قبائل کو مذاکرات کی دعوت دی۔ حالیہ چند ہفتوں میں انصاراللہ یمن نے امن مذاکرات کو کامیاب بنانے کی بھرپور کوشش انجام دی ہے لیکن بعض قبائل آپس میں شدید اختلافات کے باعث حتمی فیصلے تک پہنچنے میں ناکام رہے ہیں۔

سابق صدر منصور ہادی کی فورسز کو سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کی حمایت حاصل ہے جبکہ امریکہ اور مغربی ممالک بھی ان کی حمایت کرتے ہیں۔ یہ ممالک یمن کے مشرقی صوبوں میں قبائلی رہنماوں پر بھی اپنا اثرورسوخ استعمال کرتے ہیں اور پرامن طریقے سے مسائل کو حل کرنے کیلئے انجام پانے والی کوششوں میں روڑے اٹکاتے رہتے ہیں۔ انصاراللہ یمن کی جانب سے صوبہ مارب میں قبائلی رہنماوں سے مذاکرات کی کوشش بھی اسی زمرے میں آتی ہے۔ جب یمن آرمی اور انصاراللہ یمن نے محسوس کیا کہ بعض قبائلی رہنما امن مذاکرات میں دلچسپی نہیں رکھتے تو انہوں نے اس علاقے میں بھرپور فوجی آپریشن انجام دینے کا فیصلہ کر لیا۔ عرب ممالک کے حمایت یافتہ قبائلی رہنماوں کی جانب سے مذاکرات کی پیشکش ٹھکر دینے کے بعد فوجی راہ حل کے علاوہ کوئی چارہ باقی نہیں بچا تھا۔ لہذا آخرکار یمن آرمی اور انصاراللہ فورسز نے دو دن پہلے صوبہ البیضاء کی شمالی سرحد کے ساتھ ساتھ صوبہ مارب میں فوجی آپریشن کا آغاز کر دیا۔ موصولہ رپورٹس کے مطابق انصاراللہ یمن اور یمن آرمی نے صوبہ مارب کے مغرب میں واقع وادی الملح، حید الاشقری اور ہیلان پہاڑی سلسلوں اور صرواح کے علاقے سے آپریشن کا آغاز کیا ہے اور وہ مارب شہر کی جانب پیشقدمی کر رہے ہیں۔

مقامی ذرائع کا کہنا ہے کہ یمن آرمی اور انصاراللہ فورسز شدید جھڑپوں کے بعد کوفل چھاونی پر قبضہ کرنے میں کامیاب ہو گئی ہیں۔ یاد رہے یہ چھاونی صوبہ مارب میں سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے حمایت یافتہ ملیشیا اور مسلح گروہوں کا اہم گڑھ تصور کی جاتی ہے۔ اس وقت اس چھاونی پر انصاراللہ کا کنٹرول قائم ہو چکا ہے۔ یمنی فورسز نے اپنا آپریشن آگے بڑھاتے ہوئے مخالف قوتوں کو پیچھے دھکیل دیا اور پیشقدمی جاری رکھتے ہوئے غبیرا اور اتیاس نامی پہاڑی چوٹیوں پر بھی قبضہ کر لیا۔ صرواح کے علاقے میں المشجح اور ہیلان کے محاذوں پر بھی کئی پہاڑی چوٹیاں مخالف قوتوں کے کنٹرول سے آزاد کروا لی گئیں۔ گذشتہ چند گھنٹوں میں انجام پانے والی پیشقدمی کے دوران یمنی مجاہدین مارب شہر کے مغرب میں 13 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع الطلعہ الحمراء کے علاقے تک پہنچ چکے ہیں۔ مارب شہر صوبہ مارب کا مرکز ہے۔ اس عظیم کامیابی نے سعودی عرب کی حمایت یافتہ فورسز کو شدید خوف و ہراس کا شکار کر دیا ہے۔ یمن آرمی اور انصاراللہ فورسز آزاد ہونے والے علاقوں میں اپنی پوزیشن مضبوط بنانے میں مصروف ہیں۔

انصاراللہ اور یمن آرمی کی جانب سے مشرقی صوبوں میں فوجی آپریشن کے آغاز سے ہی سعودی عرب کی سربراہی میں عرب اتحاد نے شدید ہوائی حملوں کے ذریعے ان کی پیشقدمی روکنے کی بھرپور کوشش کی لیکن ناکام رہے۔ سعودی اتحاد کی جانب سے ان ہوائی حملوں کا مقصد انصاراللہ اور یمن آرمی کو مارب شہر کی جانب پیشقدمی سے روکنا تھا۔ مقامی ذرائع کا کہنا ہے کہ اس آپریشن میں اب تک سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کی حمایت یافتہ فورسز کا بھاری جانی اور مالی نقصان ہو چکا ہے۔ دوسری طرف بڑی تعداد میں مسلح افراد ہتھیار پھینک کر خود کو یمن آرمی کے حوالے کر چکے ہیں۔ مخالف فورسز کے بعض اعلی سطحی فوجی کمانڈرز بھی مارب شہر سے بھاگ گئے ہیں اور صوبہ شبوہ کی جانب پسماندگی اختیار کر گئے ہیں۔ صوبہ البیضاء کی شمالی سرحد سے متصل صوبہ مارب کے جنوبی علاقوں سے بھی موصول ہونے والی رپورٹس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یمن آرمی اور انصاراللہ فورسز کو قانیہ کے علاقے میں انتہائی اہم کامیابیاں حاصل ہوئی ہیں۔ اس وقت اس محاذ پر انصاراللہ یمن اور سعودی عرب کی حمایت یافتہ فورسز کے درمیان شدید جھڑپیں جاری ہیں۔ قانیہ ایک انتہائی اہم اور اسٹریٹجک قصبہ ہے جو صوبہ مارب کا جنوبی دروازہ کہلاتا ہے جبکہ صوبہ البیضاء کا شمالی دروازہ بھی تصور کیا جاتا ہے۔

خاکہ/ ہاتھی کے دانت کھانے کے اور دکھانے کے اور

  • ۹۶۶

خاکہ/ طفل کش اسرائیل

  • ۶۱۰

ہندوستان میں بڑھتی مذہبی منافرت اور ہماری ذمہ داری

  • ۵۱۸

بقلم سید نجیب الحسن زیدی


خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: اگر ہم صفحہ گیتی پر نظر ڈالیں تو ہمیں ملے گا کہ اس دنیا میں موجود۲۰۵ / ممالک میں مختلف مذاہب سے تعلق رکھنے والے لوگ مل جل کر  محبت ، عزت تعاون و اشتراک کے ساتھ  رہ رہے ہیں اور تعاون و اشتراک کی وجہ بھی یہ ہے کہ  ایک دوسرے کے مزاج کو پہچانتے ہیں دینی نزاکتوں کو سمجھتے ہیں اور قومی نفسیات کو جانتے ہیں  یہی سبب ہے مختلف مذاہب سے متعلق ہونے کے باوجود ایک ملک کے پرچم تلے  آئین میں دئیے گئے حقوق کی بنیادوں پر مل جل کر ہنسی خوشی زندگی بسر کرتے نظر آتے ہیں.
کبھی کبھی ضرور ایسا ہو جاتا ہے کہ کوئی مذہب کے جنون میں گرفتار فرد دوسرے مذاہب کے لوگوں کو نشانہ بنا لے لیکن  اسکے لئے بھی ایسے قوانین موجود ہیں کہ اسکے جرم کی سزا اسے دیر یا زود مل جاتی ہے ، یہ محض دنیا  ہی کی بات نہیں ہے  بلکہ ایسے بہت سے اسلامی ممالک موجود ہیں جہاں  غیر مسلم عرصہ دراز سے جی رہے ہیں اور کوئی انہیں مذہب کی بنیاد پر نشانہ نہیں بناتا، افسوس کہ حالیہ کچھ برسوں میں اس ملک میں اقلیتوں پر ایک خوف  و ہراس کی کیفیت طاری ہے جہاں ہمیشہ مختلف مذاہب کے ماننے والے مل جل کر ہنسی خوشی رہتے آئے تھے، سوال یہ اٹھتا ہے کہ ملک کی موجودہ صورت حال میں ہم کیا کریں کہ ملک بھی ترقی کرے اور مختلف مذاہب سے متعلق افراد بھی ملک کی ترقی میں حصہ ادا کریں اور کسی کے حقوق کو مذہب کی بنیاد پر نہ چھینا جائے۔
اسکا جواب یہ ہے کہ  پہلی منزل پر ہم سب کے لئے ضروری ہے کہ آئین میں دئیے گئے حقوق کو جانیں اور دیکھیں کہ آئین نے ہمیں کیا تحفظ فراہم کیا ہے اور پھر اسی کی روشنی میں اپنے حقوق کی بازیابی کے لئے آواز بلند کریں اور اگر ملک کی انتظامیہ آئین سے ہٹ کر کوئی فیصلہ مذہب کی بنیاد پر لیتی ہے تو اسے عدالت میں چیلنج کریں، نیز آئین ہی کی رو سے ہر اس فیصلہ کے خلاف مظاہرہ ہمارا حق ہے جس سے ہماری حق تلفی کی بو آتی ہےدوسری بات یہ ہے کہ لوگوں کے درمیان یہ بتانے کی ضرورت ہے کہ ہم نے ملک کے لئے کیا کیا ہے اور کتنی قربانیاں ہم نے دی ہیں تاکہ بعض منفی پروپیگنڈوں کے ذریعہ  ہمارے خلاف  بے بنیاد پھیلائی گئی باتوں کا ہم جواب دے سکیں، کیا ہمارے لئے ضروری نہیں ہے کہ  اپنے غیر مسلم بھائیوں کو بتائیں کہ ہم نے  کلچر و تمدن ، علم و حکمت ، اور اقتصادی میدانوں میں اس ملک کو کیا دیا ہے ؟ یقینا اگر ہم اپنی خدمات صحیح طور پر لوگوں کے سامنے رکھنے میں کامیاب ہوں تو انسانی جذبہ کے تحت ہم بہت سے حریت پسند افراد کو اپنے  ساتھ لینے میں کامیاب ہو جائیں گے  جو ہماری ہی طرح ہمارے حقوق کی بازیابی کی ہر تحریک میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے کو تیار ہو جائیں گے جیسا کہ ابھی   شہریت کے متنازعہ قانون کو لیکر ہو رہا ہے۔
لیکن اس کے لئے ضروری ہے کہ ہم پہلے خود اپنی خدمات سے واقف ہوں ہمیں پتہ ہو ہمارا ماضی کس قدر درخشاں رہا ہے اور ساتھ ہی ساتھ ہم منطقی انداز میں اپنی بات رکھ سکیں ، شک نہیں کہ سخت ترین حالات میں بھی اگر ہم جزوی اختلافات کو بھلا کر ایک وسیع النظر پلیٹ فارم تیار کریں گے تو آئین کی بالادستی کے محور تلے ہم بہت سے ان لوگوں کو اپنے ساتھ شامل کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے جو ہماری طرح ہی ستائے ہوئے ہیں اور ان کا دم بھی ہماری ہی طرح اس زہریلی فضا میں گھٹ رہا ہے لیکن یہ تب ہی ہو سکتا ہے جب ہم من و تو کے جھگڑوں سے باہر نکل کر مل جل کر عظیم مقصد کے لئے آگے بڑھیں ۔

 

آیت اللہ طائب کے ساتھ گفتگو کا پہلا حصہ: عنقریب امریکہ کورونا وائرس کے پھیلاؤ کا اعتراف کرے گا

  • ۵۷۷

مجھے یقین ہے کہ یہ وائرس دشمنوں نے بنا کر پھیلایا ہے۔ ہمارے پاس اس بات پر دلائل ہیں لیکن فی الحال ہم انہیں پیش نہیں کر سکتے۔ عنقریب امریکی خود اس بات کا اعتراف کریں گے کہ انہوں نے یہ وائرس خود بنا کر پھیلایا ہے۔ البتہ جب وائرس چین میں پھیلنا شروع ہوا تھا تو دنیا کے بعض ماہرین جیسے روس نے یہ اعلان کیا تھا کہ یہ وائرس امریکہ میں بنایا گیا ہے۔
خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: حالیہ دنوں پوری دنیا اس بیماری کی لپیٹ میں آ چکی ہے اور ہر انسان ایک طرح کی دھشت میں مبتلا ہے لیکن بعض ممالک میں یہ بیماری جنگی صورت اختیار کر چکی ہے جن میں چین، اٹلی اور ایران سر فہرست ہیں۔
اس حوالے سے خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ نے حجۃ الاسلام و المسلمین مہدی طائب سے گفتگو کی ہے جو قارئین کے لیے پیش کرتے ہیں۔
خیبر: یہ جو بیماری یا وائرس آج انسان کے دامن گیر ہوا ہے اور خاص طور پر اس وقت اس نے ہمارے ملک کو کافی نقصان پہنچایا ہے اس کے بارے میں آپ کا کیا تجزیہ ہے؟
آیت اللہ طائب: خداوند عالم فرماتا ہے: «أَمْ حَسِبْتُمْ أَنْ تَدْخُلُوا الْجَنَّةَ وَلَمَّا یَأْتِکُمْ مَثَلُ الَّذِینَ خَلَوْا مِنْ قَبْلِکُمْ» کیا تم خیال کرتے ہوئے کہ یونہی جنت میں داخل ہو جاؤ گے حالانکہ ابھی تمہیں اس قسم کے حالات پیش نہیں آئے جو تم سے پہلوں کو پیش آئے تھے‘‘ (سورہ بقرہ ۲۱۴)۔ یعنی تم سوچتے ہو کہ جنت کا راستہ اتنا آسان ہے؟ تم خیال کرتے ہو کہ جنت میں داخل ہونا بہت آسان ہے؟ تم یہ سوچتے ہو کہ ان مصائب و آلام سے تم دچار نہیں ہو گے جن میں گزشتہ اقوام دوچار ہوئے تھے کیا تم نہیں سوچتے کہ جنت میں جانے کے لیے انسان کو بہت پاپڑ بیلنا پڑتے ہیں؟
خداوند عالم اس آیت میں آگے فرماتا ہے: «مَسَّتْهُمُ الْبَأْسَاءُ وَ الضَّرَّاءُ وَزُلْزِلُوا حَتَّى یَقُولَ الرَّسُولُ وَالَّذِینَ آمَنُوا مَعَهُ مَتَى نَصْرُ اللَّهِ»  ’’انہیں سختیاں اور تکالیف پہنچیں اور وہ اس وقت تک جھنجھوڑے گئے کہ (وقت کا) رسول اور اس کے مومن ساتھی پکار اٹھے کہ آخر اللہ کی نصرت کب آئے گی؟
گذشتہ اقوام نے جنت کی راہ میں اس قدر سختیاں اور پریشانیاں اٹھائیں کہ اپنے راستے سے منحرف ہو گئے اور شک میں مبتلا ہو گئے کہ کہیں ایسا تو نہیں کہ خدا کا وعدہ جھوٹا تھا( نعوذ باللہ)۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ اللہ باطل کو نابود کرنے میں ناتوان ہے؟ معاملہ یہاں تک پہنچ گیا کہ وہ مومنین جو اللہ کے رسول کے ساتھ ہوتے تھے اگر چہ منحرف نہیں ہوئے لیکن ان کی زبانیں بھی کھلنا شروع ہو گئیں اور کہنے لگے: پس اللہ کی نصرف کب پہنچے گی؟ اس کے بعد اللہ نے فرمایا: أَلَا إِنَّ نَصْرَ اللَّهِ قَرِیب ’’جان لو کہ اللہ کی نصرت عنقریب آنے والی ہے‘‘۔ در حقیقت خداوند عالم اس راستے کو جاری رکھنے کا حکم دیتا ہے۔
آج ہمارا ایک ایسے وائرس سے سامنا ہے جو پورے ملک بلکہ پوری دنیا میں پھیل رہا ہے یہ ایسا وائرس ہے کہ اس نے ہر انسان کی زندگی کو متاثر کر دیا ہے۔ بہت سارے کام کاج بند ہو چکے ہیں، مسجدیں، امام بارگاہیں، نماز جمعہ و جماعت بند ہو چکی ہیں، لوگوں کی اکثریت خانہ نشین ہو چکی ہے اور بیماری اور موت سے جوجھ رہے ہیں۔

الہی امتحان
ہم ایسی قوم ہیں جب کسی مشکل میں گرفتار ہوتے ہیں یا حالات غیرمعمولی شکل اختیار کرتے ہیں تو آسمان کی طرف متوجہ ہوتے اور خدا و اہل بیت(ع) سے متوسل ہوتے ہیں۔ یہاں پر خداوند عالم کا یہ قول ہمیں سہارا دیتا ہے : «أَلَا إِنَّ نَصْرَ اللَّهِ قَرِیب» جان لو کہ اللہ کی نصرت قریب ہے۔
لیکن ایسا کیوں ہے؟
اس کے جواب میں اس نکتے کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ خداودند عالم کلی طور پر مومنین کو یوں خطاب کرتا ہے کہ کمال کی راہ میں اور جنت تک پہنچنے کے لیے دنیا کی سختیوں اور پریشانیوں سے عبور کرنا پڑے گا۔ یعنی بغیر مشکلات اٹھائے ہوئے یہ سفر طے کرنا ممکن نہیں ہے۔ «یَا أَیُّهَا الْإِنْسَانُ إِنَّکَ کَادِحٌ إِلَى رَبِّکَ کَدْحًا فَمُلَاقِیهِ» ’اے انسان تو مشقت اٹھا کر اپنے رب کی طرف جانے والا ہے اور اس سے ملاقات کرنے والا ہے‘ (سورہ انشقاق آیت ۶)۔ لہذا جب تک انسان اللہ سے ملاقات نہ کر لے یہ سختیاں اس کے دامنگیر رہیں گی۔
خداوند عالم اسی طرح سورہ عنکبوت میں فرماتا ہے: «أَحَسِبَ النَّاسُ أَنْ یُتْرَکُوا أَنْ یَقُولُوا آمَنَّا وَهُمْ لَا یُفْتَنُونَ»  ’کیا لوگ یہ خیال کر رہے ہیں کہ وہ صرف اتنا کہہ دینے سے چھوڑ دیے جائیں گے کہ ہم ایمان لائیں اور یہ کہ وہ آزمائے نہیں جائیں گے‘۔ یعنی لوگ یہ سوچتے ہیں کہ ہم نے جب کلمہ پڑھ لیا اور زبان سے کہہ دیا ہے کہ ہم ایمان لے آئے تو کافی ہے اب ان سے کوئی امتحان نہیں لیا جائے گا انہیں آزمایا نہیں جائے گا، خدا فرماتا ہے کہ ایسا نہیں ہے ایمان کے بعد ہی منزل امتحان شروع ہوتی ہے۔ اور یہ سنت الہی ہے اس قبل بھی اللہ نے ایسا ہی کیا «وَ لَقَدْ فَتَنَّا الَّذِینَ‌ مِنْ‌ قَبْلِهِمْ» ’اور بتحقیق ہم ان سے پہلوں کو بھی آزما چکے ہیں‘ یعنی یہ امتحان اور آزمائش کوئی ایسی چیز نہیں ہے جو صرف تمہارے لیے ہو بلکہ تم سے پہلے بھی جو قومیں آئیں وہ بھی اس منزل امتحان و آزمائش سے گزری ہیں۔
کیا آزمائش صرف مومنین کے لیے ہے؟
اب یہاں پر ایک اور سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ آزمائش صرف مومنین کے لیے ہے؟ یا سب لوگ اس آزمائش میں مبتلا ہوتے ہیں؟ تو جواب میں یہ کہا جائے گا کہ یہ امتحان و آزمائش سب لوگوں کے لیے ہے۔ اس لیے کہ دین الہی تمام لوگوں سے مربوط ہے۔ لیکن آزمائشیں مختلف ہیں۔ اللہ مومنین کو الگ طریقہ سے آزمائش کرتا ہے اور کفار کو الگ طریقہ سے۔
چونکہ لوگ دو طرح کے ہیں ایک مومن ہیں جو اللہ کو مانتے ہیں اس پر ایمان رکھتے ہیں دوسرے وہ ہیں جو اللہ کو نہیں مانتے ہیں اور اللہ کا انکار کرتے ہیں۔ انہیں کفار کہا جاتا ہے۔ خداوند عالم کفار کو نعمتیں دے کر امتحان لیتا ہے یعنی انہیں نعمتوں میں غرق کر دیتا ہے اور اللہ کی طرف کوئی توجہ نہیں کر پاتے اور وہ اسی کو اپنے لیے بہشت سمجھ بیٹھتے ہیں اور دینداروں پر ہسنتے ہیں جبکہ وہ خود منزل امتحان پر ہوتے ہیں۔ اور نعمتوں کی فراوانی اس لیے ان پر ہوتی ہے کہ وہ اسی دنیا میں اپنی مختصر زندگی میں عیش و نوش کر لیں اور آخرت کی ابدی زندگی میں خدا سے کچھ مطالبہ نہ کر سکیں۔ لیکن اس کے باوجود چونکہ اللہ بہت مہربان ہے کبھی کبھی کافروں کو بھی جگانے کے لیے انہیں مشکلات میں گرفتار کرتا ہے تاکہ آخرت میں خدا کو یہ نہ کہہ سکیں کہ خدایا تو نے ہمیں متنبہ کیوں نہیں کیا؟ جیسا کہ خداوند عالم نے آل فرعون کو قحط میں مبتلا کیا تاکہ بیدار ہو جائیں۔
لہذا یہ جان لینا چاہیے کہ اللہ کی آزمائشیں ہمارے لیے قطعی ہیں اور ان کا مقصد صرف یہ ہے کہ اس کے در سے جڑے رہیں اس سے غافل نہ ہوں اس کی یاد میں رہیں اور یہ چیز مومن کے لیے ترقی اور کمال کا باعث بنے گی اور اس معنوی کمال اور ترقی کا صلہ آخرت میں نظر آئے گا۔

امریکہ کی سائبری مکھیاں شیعہ مقدس مقامات کی توہین میں جٹی ہوئی ہیں

  • ۴۴۴

امریکی سائبر مکھیوں نے جمع ہو کر شیعہ مقدس مقامات کو حملے کا نشانہ بنایا اور وہ اس کوشش میں ہیں کہ اہل بیت(ع) اطہار کے تقدس اور ان کی کرامتوں پر سوال اٹھائیں، نیز وہ شیعوں کے ان کے رہبروں کے ساتھ معنوی روابط کو بھی خراب کرنے کی کوشش کرتے ہیں، لہذا ان حملوں کے خلاف موقف اختیار کرنے اور حقائق کو واضح بیان کرنے کی ضرورت ہے۔  

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: ایران میں کورونا وائرس کے پھیلاؤ کی وجہ سے صہیونی امریکی میڈیا نے اسلامی جمہوریہ کو شدید حملوں کا نشانہ بنانا شروع کر دیا ہے، حالیہ مطالعات سے یہ بات سامنے آ رہی ہے کہ انقلاب مخالف میڈیا ملک کے حالات کو بحرانی شکل میں دکھا رہا ہے۔
خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ نے شیعہ مقدس مقامات پر صہیونی میڈیا کے حملوں کا مقابلہ کرنے کے حوالے سے عالم اسلام کے مسائل کے ماہر ڈاکٹر سید ہادی افقہی کے ساتھ گفتگو کی ہے۔
خیبر: ایران میں کورونا وائرس کے پھیلاؤ کے بارے میں امریکہ اور صہیونی حکومت اور انقلاب مخالف میڈیا کے کردار کے بارے میں آپ کا کیا تجزیہ ہے؟ ان حملوں کے خلاف کیا کیا جانا چاہئے؟
ابھی کچھ بھی پوری طرح سے ثابت نہیں ہوا ہے اور ابھی تک کوئی حتمی ثبوت ہمارے پاس موجود نہیں ہے۔ روسی وزارت دفاع کے ترجمان نے محض بیان دیا کہ: "ہمارے پاس یہ کچھ ایسے دلائل موجود ہیں جن کی بنا پر ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ کورونا وائرس کے پھیلاؤ میں امریکہ کا ہاتھ ہے۔ انہوں نے کورونا وائرس سے آلودہ کیڑے مکوڑوں کو مخصوص ڈرونز کے ذریعے بعض ملکوں میں منتقل کیا ہے‘‘۔ لیکن خود امریکہ اور اسرائیل میں بھی اس وائرس کے پھیلاؤ کے بعد یہ قیاس آرائی کرنا درست نہیں ہے۔
لیکن امریکہ کا کورونا وائرس کے پھیلاؤ سے غلط استعمال اور اس مسئلے کو لے کر بعض ملکوں کے خلاف پروپیگنڈے کرنا اس کا غیرانسانی طریقہ کار ہے۔ اس مسئلے کو لے کر نفسیاتی دباؤ ڈالنا اور غیر اخلاقی اور غیر انسانی کردار پیش کرنا امریکہ کے ایجنڈے میں شامل ہے۔ یہ وہ مسائل ہیں کہ امریکی جن کا پیچھا کر رہے ہیں اور اس حساس موقع اور سخت حالات میں بھی مکمل طور پر اپنی دشمنی کا ثبوت دے رہے ہیں۔  
ملک کے اندر متعدد مشہور شخصیات اور مغربی ممالک سے وابستہ افراد بھی اس معاملے کو بڑھاوا دے رہے ہیں۔ وہ مسلمانوں اور شیعوں کے تقدس کی توہین کررہے ہیں۔ مثال کے طور پر ، وہ دعوی کرتے ہیں کہ امام رضا علیہ السلام اپنے مریضوں اور حجاج کرام کو صحتیاب کریں۔
عوام کو اس بارے میں آگاہ کرنا بہت ضروری ہے۔ علمائے کرام کو عوام کو سمجھانا چاہئے کہ مراجع تقلید نے بھی ڈاکٹروں کی طرف سے دی گئی ہدایات کی رعایت کرنے پر زور دیا ہے اور اس بات کی وضاحت  بھی کی ہے کہ صفائی ستھرائی رکھنا اور مبینہ صحت کے نکات پر عمل کرنا اہل بیت(ع) کی کرامات اور ان کی جانب سے شفا عطا کیے جانے کے ساتھ تضاد نہیں رکھتا۔ عوام کو طبی ہدایات کی پیروی اور اہل بیت(ع) کے کرامات کے اصولوں سے آگاہ کرنا چاہیے۔
آج کورونا وائرس کو لے کر شیعہ مقدس مقامات پر سوشل میڈیا میں ہر طرح کے حملے کئے جا رہے ہیں اور ان کی توہین کی جا رہی ہے۔ ائمہ طاہرین کی روضوں، امام بارگاہوں، مسجدوں اور مذہبی تقریبات کو شدت سے حملوں کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔
حقائق کو بیان کرنا حوزہ علمیہ کی ذمہ داری ہے
میری رائے میں، حوزہ علمیہ کے بزرگ اساتید اور علمائے کرام کو اس مسئلے میں میدان میں اترنا چاہیے اور دشمن کے حملوں کا جواب دینا چاہیے اور عوام کو ان شبہات سے آگاہ کرنا چاہیے۔  
بدقسمتی سے، سائبری فورس، یا امریکہ کی سائبری مکھیاں جمع ہو چکی ہیں تاکہ شیعہ مقدس مقامات کو حملے کا نشانہ بنائیں اور کوشش کریں کہ اہل بیت(ع) اطہار کے مقدس مقامات پر سوال اٹھائیں، شیعوں اور ان کے رہبروں کے درمیان پائے جانے والے معنوی رشتے کو خدشہ دار کریں، لہذا ان چیزوں کا ڈٹ کر مقابلہ کرنے اور حقائق کو بیان کرنے کی ضرورت ہے۔
کچھ لوگ جو صادق شیرازی کے فرقہ ضالہ کے پیروکار ہیں پہلے خود ان سے ملاقات کرتے اور اس کے بعد حضرت معصومہ (س) کے حرم میں جا کر ضریح کو چاٹتے ہیں، اور کورونا کا انکار کرتے ہیں یہ لوگ در حقیقت مراجع کے فتووں کی توہین ہے۔ اکثر مراجع کرام نے یہ فتویٰ دیا ہے کہ ماہر ڈاکٹروں کی ہدایات پر عمل کیا جائے۔