-
Sunday, 8 March 2020، 06:36 PM
خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: قرآن کریم بنی اسرائیل اور قوم یہود جو حضرت موسی (ع) کے واسطے نجات یافتہ ہوئے اور اللہ کی ان پر نعمتیں نازل ہوئی کی کمزوریوں کو بیان کرتا ہے کہ یہ بچھڑے کی پوجا کرنے لگے اللہ کی نشانیوں کا انکار کرنے لگے ان کے دل پتھر کے مانند ہو گئے انہوں نے انبیائے بنی اسرائیل کا قتل کیا اور آخر کار خداوند عالم کے غضب کا نشانہ بنے اور خدا نے انہیں ذلت و رسوائی سے دوچار کیا۔
مقدمہ
قرآن کریم قوم یہود کو مسلمانوں کا بدترین دشمن قرار دیتا ہے۔ عصر حاضر میں بھی اس کی مثال یہودی ریاست ہے جو عالم اسلام کی بدترین دشمن ہے۔ اس یہودی ریاست اور قوم یہود کا سرانجام کیا ہو گا؟ اس کو جاننے کے لیے درج ذیل تحریر ملاحظہ فرمائیں۔
قرآن کریم سورہ یوسف میں بنی اسرائیل کی پیدائش اور کنعان سے سرزمین مصر ان کی ہجرت کے واقعات کو بیان کرتا ہے، سورہ یوسف کے بعد سورہ اسراء میں ان کی گمراہی اور سرزمین موعود میں ان کے ظلم و فساد اور ان کی وعدہ خلافیوں کا تذکرہ کرتا ہے اور آخر میں ان پر نازل ہونے والے الہی قہر و غضب کی خبر دیتا ہے کہ اس قوم نے جو عہد شکنیاں کیں، زمین میں جو فساد و تباہی پھیلائی اس کی وجہ سے ان کی ’’ارض موعود‘‘ ’’ارض ہلاکت‘‘ میں تبدیل ہو گئی۔ اور ان کا سرانجام بھی ابلیس کے جیسا انجام ہوا کہ اس نے بھی الہی نعمتوں کی قدردانی نہیں کی اور طغیان و تکبر سے کام لیا اور راندہ درگاہ ہو گیا۔ جیسا کہ سورہ بقرہ میں بھی ابلیس کے قصے کے بعد بنی اسرائیل کے عناد و استکبار کا تذکرہ ہوا ہے کہ یہ قوم بھی مجسم شیطان اور دجال زمانہ ہے۔
سورہ اسراء جس کا دوسرا نام ہی بنی اسرائیل ہے قرآن کریم کے حیرت انگیز سوروں میں سے ایک ہے اور اس میں بہت ہی اہم نکات کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔
پیغمبر اسلام کا ارض موعود میں داخلہ
خداوند عالم اس سورہ کی پہلی آیت جو لفظ ’’سبحان‘‘ سے شروع ہوتی ہے اور اس کے مطالب کی عظمت اور اہمیت کی طرف اشارہ کرتی ہے میں پیغمبر اسلام کے ایک ہی رات میں مسجد الحرام سے مسجد الاقصیٰ کے سفر اور انہیں الہی نشانیوں کو دکھلانے کی خبر دیتا ہے۔ اس آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ خداوند عالم اپنے نبی کو سرزمین مکہ؛ جو توحید ابرہیمی کا مرکز ہے سے پیغمبروں کی ارض موعود جو سرزمین فلسطین ہے کا سفر کرواتا ہے اور در حقیقت ان دونوں سرزمینوں پر اپنے نبی کی حاکمیت کو بیان کرتا ہے جیسا کہ احادیث معراج سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ اس مقام پر تمام پیغمبر رسول خدا(ص) کے حضور میں حاضر ہوتے ہیں اور آپ کی رسالت و امامت کا اقرار کرتے ہیں اور تمام انبیائے الہی کے واسطے اس سرزمین موعود پر امت واحدہ تشکیل پاتی ہے گویا وہ سرزمین جس پر تمام پیغمبر حکومت الہی کی تشکیل اور شریعت الہی کے نفاذ کے لیے سعی و تلاش کرتے رہے اس پر پیغمبر اسلام کی امامت میں امت واحدہ تشکیل پانے کی نوید دیتے ہیں۔
لہذا اس سورہ کی سب سے پہلی آیت اس سرزمین میں عدل الہی کے قیام کی بشارت دیتی ہے اور پیغمبر اسلام اور ان کے اصحاب و انصار و ان کے کلمہ گو کو اس سرزمین کے وارث قرار دیتی ہے۔
تورات کا نزول عدالت کی حاکمیت کے لیے
قرآن کریم اس سورہ مبارکہ کی دوسری آیت میں حضرت موسی علیہ السلام کی رسالت کا تذکرہ کرتا ہے اور بیان کرتا ہے کہ خداوند عالم نے موسی کو مقام نبوت پر فائز کیا اور ان پر تورات نازل کی اور تورات کو بنی اسرائیل کی ہدایت کا منشور قرار دیا تاکہ وہ شریعت الہی کا نفاذ عمل میں لائیں، تورات پر عمل کریں، شریعت کو اپنا حاکم بنائیں اور خدا کو اپنا مولا اور ولی قرار دیں۔ (۱۴۴۷ ق۔ م)