کیوں ہم فلسطینیوں سے زیادہ فلسطینی بنیں؟

  • ۴۰۰

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ کے مطابق؛ مسئلہ فلسطین ایران کے اسلامی انقلاب کا ایک اہم اور بنیادی مسئلہ ہے۔ اگر چہ بعض پہلو کے اعتبار سے کچھ کوتاہیاں ہوئی ہیں لیکن بطور کلی اسلامی انقلاب کی تحریک کے آغاز سے ہی اس مسئلہ کو بانی انقلاب اسلامی حضرت امام خمینی (رہ) نے مورد توجہ قرار دیا اور انقلاب کی کامیابی کے بعد تاحال رہبر انقلاب اسلامی نے اسلامی جمہوریہ ایران میں اس کی اہمیت کو ذرہ برابر کم نہیں ہونے دیا۔
درج ذیل گفتگو “استاد حسن رحیم پور ازغدی” کی تقریر سے ماخوذ ہے جو انہوں نے عالم اسلام کے علماء کے ایک اجلاس میں بیان کی اور مسئلہ فلسطین کا مخلتف اعتبار سے جائزہ لیا ہے۔
خیبر: کیا اسلامی جمہوریہ ایران میں وقت کے گزرنے کے ساتھ ساتھ مسئلہ فلسطین کے حوالے سے اس کے موقف میں کوئی تبدیلی آئی ہے؟ کیا آج اسلامی جمہوریہ میں مسئلہ فلسطین کوئی نیا موضوع ہے؟
۔ اسلامی جمہوریہ ایران دنیا کے تمام حریت پسندوں اور انقلابیوں کا دوسرا وطن ہے۔ ہمارے انقلاب کی سرنوشت شروع سے ہی مسئلہ فلسطین کے ساتھ آمیختہ اور جڑی ہوئی ہے۔ امام خمینی (رہ) جہاں شاہ ایران کے خلاف شعار دیتے تھے وہاں امریکہ، اسرائیل اور برطانیہ کے خلاف بھی صدائے احتجاج بلند کرتے تھے۔ ابھی انقلاب کامیاب نہیں ہوا تھا کہ لوگ یہ نعرہ لگاتے تھے “آج ایران کل فلسطین”۔ انہی دنوں میں جب صہیونی ریاست تشکیل پا رہی تھی شہید سید مجتبیٰ نواب صفوی ایران سے قاہرہ گئے اور وہاں انہوں نے ایک تقریر کی اور تقریر کے دوران یہ اعلان کیا کہ ہم یہاں سے ہی اسرائیل کے خلاف جہاد کا آغاز کرتے ہیں۔ بعد میں یاسر عرفات نے کہا کہ میں نے اسی تقریر کے دوران جہاد کا ارادہ کر لیا تھا۔ نواب صفوی نے اس تقریر کے بعد مجھ سے پوچھا کہ آپ کہاں کے رہنے والے ہیں؟ میں نے کہا کہ فلسطین کا رہنے والا ہوں۔ انہوں نے کہا کہ یہاں( قاہرہ) میں کیا کرتے ہیں؟ میں نے کہا: میں یہاں انجینئرنگ کر رہا ہوں۔ شہید نواب نے کہا: “فلسطین کو اس وقت انجینئر کی ضرورت نہیں مجاہد کی ضرورت ہے”۔
لہذا تحریک انقلاب کے آغاز سے ہی مسئلہ فلسطین، اسلامی انقلاب کے اصول و مبانی کا حصہ قرار پا گیا۔
خیبر: کیا آپ کی نظر میں اسلامی جمہوریہ ایران مسئلہ فلسطین کے بارے میں ” ماں سے زیادہ دایہ مہربان” کی طرح نہیں ہے؟
۔ شروع سے ہی کچھ لوگ تھے جو یہ کہتے تھے کہ ” کیوں ہم فلسطینیوں سے زیادہ فلسطینی بنیں؟” جب خود فلسطینی ساز باز کر رہے ہیں اور اسرائیل کے مقابلے میں تسلیم ہونا چاہتے ہیں تو کیوں ہم ہمیشہ یہ نعرہ لگاتے رہیں “اسرائیل مردہ باد”؟ امام خمینی اور امام خامنہ ای دونوں بزرگوں نے اعلان کیا کہ مسئلہ فلسطین، فلسطینیوں کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ عالم اسلام کا مسئلہ ہے، ایک اسلامی مسئلہ ہے۔ دوسری طرف سے کچھ لوگوں نے کہا ہے کہ فلسطین عربوں کا مسئلہ ہے ہم ایرانی ہیں اور اس موضوع کا ہم سے کوئی ربط نہیں ہے۔ امام نے ان کے جواب میں فرمایا: “فلسطین اسلامی مسئلہ ہے نہ عربی”۔
خیبر: اگر فلسطین کے تمام لوگ کسی وقت صلح کر لیں اور تسلیم ہو جائیں ایسی صورت میں اسلامی انقلاب کا موقف کیا ہو گا؟
امام خمینی (رہ) نے فرمایا کہ اگر ایک دن فلسطین کے تمام لوگ قدس کو صہیونیوں کے حوالے کر دیں کہ البتہ ایسا دن نہیں آئے گا تو ہم تب بھی صہیونیت کے خلاف اپنی جنگ جاری رکھیں گے۔
امام خمینی (رہ) نے ابتداء میں ہی کہہ دیا تھا کہ فلسطین کے کمیونیسٹ گروہ کو مت دیکھیے گا البتہ ان کے ساتھ دشمنی بھی نہ رکھنا لیکن قدس کی آزادی ان کے ہاتھوں واقع نہیں ہو گی، اسی طرح بعض عرب ٹولیوں پر بھی فلسطین کے حوالے سے بھروسہ نہیں کیا جا سکتا ہے۔ صرف ایک اسلامی تحریک ‘اللہ اکبر’ کے شعار کے ساتھ وجود پانا چاہیے اور صرف کلمہ توحید اور نام اللہ کے ساتھ فلسطین کو آزاد کیا جا سکتا ہے ہمیں مدد کرنا چاہیے کہ فلسطین میں ایک اسلامی جماعت وجود میں آئے جس کی بنیاد صرف توحید پر ہو۔ امام قائل تھے کہ کامیابی اسلام کے نام کے بغیر ممکن نہیں۔ اور اسلام کے نام کے ساتھ حرکت کو حتیٰ اگر وقتی طور پر شکست کا بھی سامنا کرنا پڑے آخرکار کامیابی نصیب ہو گی۔
خیبر: آپ کی نظر میں اگر فلسطین اور اسرائیل کے درمیان سمجھوتہ ہو جائے کہ اس سرزمین پر دو حکومتیں حکومت کریں تو مسئلہ قدس کا حل کیا ہو گا؟
۔ امام خمینی(رہ) قائل تھے کہ تمام وہ لوگ جو کہتے ہیں کہ فلسطین بھی رہے اور اسرائیل بھی رہے یہ خائن ہیں۔ اسرائیل نام کی کوئی حکومت حتیٰ ایک کلومیٹر زمین پر بھی باقی نہیں رہنا چاہیے۔ اسلامی انقلاب کا اشعار یہ ہے کہ فلسطین فلسطینیوں کی جگہ ہے اور عیسائی اور یہودی فلسطینی مسلمانوں کے ساتھ زندگی بسر کریں اور اپنے مقدس مقامات پر بھی جائیں لیکن جو ہزاروں کی تعداد میں باہر سے آ کر اس سرزمین پر قابض ہوئے ہیں وہ واپس جائیں۔ فلسطین کی سرنوشت کو ملت فلسطین متعین کرے۔
امام خمینی (رہ) نے شاہ کے زمانے میں اعلان کیا تھا کہ حکومت ایران اور عرب ریاستوں نے ملت فلسطین کے حق میں خیانت کی ہے لہذا تمام مسلمانوں پر واجب ہے کہ وہ قیام کریں اور اپنی فاسد حکومتوں کو کہ جو امریکہ اور برطانیہ کے ہاتھوں کی پروردہ ہیں اور اسرائیل کے ساتھ ہم نوالہ و ہم پیالہ ہیں کو خاتمہ دیں اور اپنے ملکوں میں اسلامی اور عوامی حکومتیں تشکیل دیں۔
مجید رحیمی

 

یمن کے لوگ فلسطینی مقاصد کے ساتھ خیانت نہیں کر سکتے: احمد القنع

  • ۳۶۴

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: گزشتہ دنوں یمنی فوج اور رضاکار فورس نے دشمن کی جارحیت کا منہ توڑ جواب دیتے ہوئے سعودی عرب کے شہر ریاض، جیزان اور نجران میں فوجی اڈوں کو اپنے میزائلوں سے نشانہ بنایا۔
خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ نے اس بارے میں یمن کی قومی حکومت کے مشیر ’’احمد القنع‘‘ سے گفتگو کی ہے جس کا ترجمہ حسب ذیل ہے؛
خیبر: ریاض پر کئے گئے میزائل حملوں کی آپ کی نظر میں کس قدر اہمیت ہے؟
یہ حملے اپنے ملک اور قوم کے دفاع کی خاطر جائز حق کی حدود میں انجام پائے ہیں نیز ان کا مقصد دشمن کو متنبہ بھی کرنا تھا کہ وہ یمن سے اپنا ظالمانہ محاصرہ ختم کرے اس لیے کہ یمنی عوام شدید قحط اور بھوک کے عالم میں بسر کر رہے ہیں۔ ہم نے جارحیت کو روکنے، محاصرہ ختم کرنے اور ایئرپورٹ کھولنے کے لیے مختلف منصوبے پیش کئے لیکن دشمن اور جارح ملکوں نے حتیٰ انہیں سننے سے بھی انکار کر دیا۔ لہذا یمنی قوم کسی قیمت پر بھی ذلت قبول نہیں کر سکتی، اور دشمن پر اپنے دفاعی حملے پوری قوت و توانائی کے ساتھ جاری رکھے گی۔
خیبر: یہ دفاعی حملہ کس وقت اور کس پیغام کے تحت انجام پایا، کیا آپ کچھ اس بارے میں بتا سکتے ہیں؟
یہ دفاعی حملے ایسے حالات اور ایسے وقت میں انجام پائے جب جارح ممالک یمن کی سرزمین پر ناجائز قبضے کو مسلسل بڑھانے کی کوشش میں جٹے ہوئے ہیں۔ یہ حملے اس موضوع پر تاکید کی غرض سے کیے گئے کہ ہم اپنے عزیز یمن کی ایک بالشت زمین بھی دشمن کے حوالے نہیں کر سکتے۔
خیبر: آپ سعودیوں کے اس جواب میں کیا کہیں گے جو یہ دعویٰ کر رہے ہیں کہ یہ حملے عام لوگوں پر کئے گئے ہیں؟
جب سے ہمارے ملک پر حملہ ہوا اور یہ جنگ شروع ہوئی تب سے لے کر آج تک ہم نے کبھی بھی عام لوگوں کو کسی حملے کا نشانہ نہیں بنایا ہم دشمن کو چلینج کرتے ہیں کہ وہ ثابت کریں کہ ہم نے عام انسانوں کو حملوں کا نشانہ بنایا ہو۔ لیکن اس کے برخلاف دشمن نے ہمارے بے گناہ لوگوں کا قتل عام کیا، ہمارے بنیادی ڈھانچوں کا نابود کر دیا یہاں تک کہ ہمارے ہسپتالوں کو بھی معاف نہیں کیا۔ اور کسی دینی، اخلاقی اور انسانی ضابطے اور قاعدے کی رعایت نہیں کی۔
خیبر: یہ سب جانتے ہیں کہ یمن میں جنگ کے پیچھے امریکی ہاتھ پوشیدہ ہے اور سعودی عرب خود اکیلا اس میں کوئی تصمیم نہیں لے پا رہا ہے۔ اس بنا پر کیسے جنگ کے خاتمے کے لیے کوئی راہ حل تلاش کیا جا سکتا ہے؟
راہ حل تو سادہ ہے جارح ممالک اپنے حملوں کو روک دیں اور جارحیت کا خاتمہ کر دیں۔ اس وقت ہم مذاکرات کے لیے مکمل طور پر آمادہ ہیں اور ایک جامع صلح کے حصول کے لیے گفتگو کر سکتے ہیں۔ اور یہ صلح بھی یمن سے مخصوص نہیں ہو گی بلکہ ہم ایک پورے علاقے میں ایک جامع صلح کے لئے اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔
خیبر: جنوبی یمن میں عرب امارات کی نقل و حرکت اور العیدروس الزبیدی کے صہیونیوں کے ساتھ تعلقات پر کیا تجزیہ کرتے ہیں؟ کیا اسرائیل جنوبی یمن میں مداخلت کا ارادہ رکھتا ہے؟
اس میں کوئی شک نہیں کہ عرب امارات عرب علاقے میں اسرائیل کا دائیاں ہاتھ ہے اور جنوبی یمن میں کچھ گروہ ہیں جو امارات کی زیر نگرانی مالی حمایت کرتے ہیں۔ لیکن یاد رکھیں جنوبی یمن کے حریت پسند لوگ کبھی بھی اسرائیل کی قربت کو قبول نہیں کریں گے۔ جنوبی یمن کے لوگوں نے فلسطینی مزاحمت کو ۸۰ کی دہائی میں قبول کیا اور عرفات، حبش اور حواتمہ کا استقبال کیا۔ جنوبی یمن کے لوگ ان لوگوں میں سے ہیں جنہوں نے خود فلسطینیوں کے ذریعے تعلیم و تربیت حاصل کی اور باثقافت بنے لہذا وہ کبھی بھی ان لوگوں کی طرح نہیں ہوں گے جو فلسطینی کاز کی پشت پر خنجر مارتے ہیں۔

 

 

شہید چمران کی سب سے بڑی تمنا قدس کی آزادی تھی: خلیل حمدان

  • ۳۷۲

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: انسان کے لیے اس بات پر یقین کرنا سخت ہے کہ ایک شخص امریکہ کی ایک اہم یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کرے اور پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد اسے امریکہ کی بڑی بڑی کمپنیوں کی جانب سے جاب کا آفر آئے لیکن وہ اسلامی انقلاب کی آواز سن کر اپنی تمام تر آسائشوں اور سہولیات کو نظر انداز کر کے، بڑی بڑی امریکی کمپنیوں کے آفرز کو ٹھکرا کر امام خمینی (رہ) کے ساتھیوں میں شامل ہو جائے۔ یہ کوئی اور شخص نہیں بلکہ ڈاکٹر مصطفیٰ چمران تھے۔ شہید چمران نے امام خمینی (رہ) کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے امریکہ چھوڑا اور لبنان جو صہیونی دشمن کے مقابلے میں فرنٹ لائن پر تھا کو راہ خدا میں مجاہدت کے لیے انتخاب کیا۔
حالیہ ایام ڈاکٹر چمران کی شہادت کے ایام ہیں اس حوالے سے خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ نے لبنان کی ’’امل تحریک‘‘ (Amal Movement) کی اعلی کونسل کے رکن  ڈاکٹر خلیل حمدان سے گفتگو کی ہے جو شہید چمران کے قریبی ساتھیوں میں سے ہیں؛
خیبر: امل تحریک کی تاسیس کے بعد، شہید چمران کا صہیونیوں کے خلاف مجاہدت میں کیا کردار رہا؟
شہید مصطفیٰ چمران اسرائیل کے خلاف جہادی کاروائیوں کے پیچھے ایک مضبوط فکری نظام کے حامل تھے، اور ہمیشہ صہیونی ریاست کے ذریعے فلسطین پر قبضہ کئے جانے سے سخت رنجیدہ خاطر ہوتے تھے۔ ان کی تقریروں اور نوشتوں میں واضح طور پر یہ دیکھا جا سکتا ہے کہ ان کی سب سے بڑی تمنا قدس شریف کی آزادی تھی۔ اور وہ نہ صرف نظریاتی طور پر یہ تمنا رکھتے تھے بلکہ عملی میدان میں بھی انہوں نے صہیونی دشمن کے خلاف لبنان کی سرحدوں پر جنگ لڑی اور امام موسی صدر کے ساتھ  ’امل تحریک‘ کی تاسیس میں بنیادی کردار ادا کیا۔
خیبر: اسرائیل کے خلاف مجاہدت میں شہید چمران اور امام موسی صدر کی طرز تفکر کے بارے میں آپ کچھ بتا سکتے ہیں؟
امام موسی صدر اور شہید چمران اسرائیل کو شر مطلق اور فلسطین کا دفاع واجب سمجھتے تھے، لہذا ان کی نظر میں سرزمین فلسطین کی حفاظت تمام مومنین کے دوش پر عائد ہوتی ہے۔ شہید چمران کی اس فکر کی بنیاد امام موسی صدر تھے جو از قبل میدان میں اترے ہوئے تھے اور ہمیشہ فرنٹ لائن پر دشمن کے خلاف صف آرا تھے انہوں نے امل تحریک کی بنیاد رکھ کر میدان عمل میں یہ ثابت کیا کہ اسرائیل کے خلاف جہاد کا مسئلہ ایک بنیادی اور اساسی مسئلہ ہے اور مظلوموں کی مدد کرنا اور ظالم کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرنا ہم سب کی ذمہ داری ہے لہذا شہید چمران کا طرز تفکر مستکبرین کے مقابلے میں مستضعفین کی کامیابی ہے۔
خیبر: حالیہ سالوں میں مزاحمتی محاذ کی تقویت کے حوالے سے امل تحریک اور حزب اللہ لبنان کا کیا کردار رہا ہے اس بارے میں آپ کیا کہتے ہیں؟
صہیونی دشمن ہمیشہ لبنان پر ہاتھ ڈالنے کے لیے اپنی طاقت میں اضافہ کر رہا ہے اور ہم ’امل‘ اور ’حزب اللہ‘ میں اس بات کے قائل ہیں کہ دشمن کے مقابلے میں اپنے پیر مضبوط کریں۔ اسرائیل لبنان کو نقصان پہنچانے کے لیے اپنی فوج کو طاقتور بناتا ہے اور مزاحمتی محاذ بھی یقینا مقابلے میں اپنی آمادگی ظاہر کرنے پر مجبور ہے۔ جنوبی لبنان پر حاکم امن و سکون مزاحمتی محاذ کی طاقت اور توانائی کا نتیجہ ہے نہ کہ اسرائیل کی بخشش کا۔

 

مسئلہ فلسطین کا حل عالم اسلام کی مشکلات کی کنجی ہے: ڈاکٹر صفاتاج

  • ۳۹۵

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: فلسطین اور اسرائیل کے موضوع پر ہمارے سماج میں شاذ و نادر ہی مطالعہ کیا جاتا ہے مسلمانوں کے اندر اس بارے میں سوچنا پڑھنا یا جانکاری حاصل کرنا گویا ایک امر مہمل ہے ۔ فلسطین کی چند خبروں کے کانوں میں پڑ جانے اور میڈیا کے بے بنیاد تبصرے سن لینے کے علاوہ نہ کوئی بنیادی کام اس بارے میں ہمارے سماج میں انجام پایا ہے اور نہ سماج میں اس مسئلے کے حوالے سے جانکاری حاصل کرنے کا شعور ہے۔ البتہ سرزمین ایران میں پھر بھی چند ایک ماہر اساتید اور متخصص افراد ہیں جنہوں نے اس موضوع پر کافی کام کیا ہے اور زحمتیں اٹھائی ہیں ہم ان کی زحمتوں کو نظر انداز نہیں کر سکتے۔
اسلامی جمہوریہ ایران نے انقلاب اسلامی کی کامیابی کے بعد مسئلہ فلسطین کو خاص اہمیت کا حامل قرار دیا اور اس مسئلے کے خد و خال کو عوام الناس تک پہنچانا اور اس کے نشیب و فراز کی وضاحت کرنا ضروری سمجھا گیا۔ لہذا ڈاکٹر مجید صفاتاج جیسے اساتید کی علمی کاوشیں اس بات کا باعث بنیں کہ عوام کے اندر صہیونیت اور اس کے جرائم کو پہنچانے کا جذبہ پیدا ہو۔
 
ڈاکٹر صفاتاج نے فلسطین، اسرائیل، صہیونیت اور اسلامی انقلاب کے موضوعات پر ۸۰ سے زیادہ کتابیں تالیف کی ہیں کہ جن میں سے بعض کا انگریزی میں ترجمہ بھی ہوا ہے۔ آپ نے ۱۹۷۹ میں شام اور لبنان کا دورہ کیا اور اس دورے کے دوران فلسطینیوں کے کیمپوں میں حاضر ہو کر فلسطینیوں کی مشکلات کو قریب سے محسوس کیا۔ آپ نے لبنان یونیورسٹی سے ایم اے کی ڈگری حاصل کی ہے اور تقریبا چالیس سال سے اس میدان میں کام کر رہے ہیں۔ اس حوالے سے ڈاکٹر صفاتاج سے گفتگو ایک خاص اہمیت کی حامل ہے جو ذیل میں اپنے قارئین کے لیے پیش کی جاتی ہے۔
 
خیبر: مسئلہ فلسطین کے بارے میں آپ کیا کہتے ہیں؟
ڈاکٹر مجید صفاتاج: مسئلہ فلسطین ان نسل پرست افراد کے ذریعے وجود میں لایا گیا جن کا پیشہ ہی ظلم و ستم ڈھانا تھا انہوں نے وسعت طلب دھشتگردوں کے تعاون سے اس جال کو مزید پھیلایا اور ابھی تک مسلمان اس کی ڈوریوں میں الجھے ہوئے ہیں۔ لہذا صہیونی رژیم کے مقابلے میں ایک پلیٹ فارم پر ہم سب کا جمع ہونا ضروری ہے تاکہ عالم اسلام سرخرو صہیونیت کے پھیلائے ہوئے اس جال سے خود کو بچا کر باہر آ سکے۔
لہذا مسئلہ فلسطین عالم اسلام کا بنیادی ترین مسئلہ ہے اور میرا عقیدہ ہے کہ جب تک مسئلہ فلسطین حل نہیں ہو گا دنیا کی مشکلات حل نہیں ہو سکتیں۔ اور مجھے یقین ہے کہ اگر اسرائیل نہ ہوتا تو عراق، شام اور یمن کے بحران وجود میں نہ آتے، علاقے کی مشکلات اور مصائب کی اصلی جڑ یہی قدس کی غاصب رژیم ہے۔ میرا یہ ماننا ہے کہ جب تک اسرائیل کا نحس وجود صفحہ ہستی پر باقی ہے عالم اسلام کی ایک بھی مشکل حل نہیں ہو گی اور یمن جیسے مسائل ہمیشہ کے لیے علاقے میں رخ پاتے رہیں گے۔
خیبر: رہبر انقلاب اسلامی نے جو اسرائیل کی نابودی کی طرف اشارہ کیا اور فرمایا کہ اسرائیل آئندہ پچیس سال نہیں دیکھ پائے گا اس کے بارے میں آپ کیا کہتے ہیں؟
۔ رہبر انقلاب اسلامی نے یہ جو فرمایا کہ اسرائیل آئندہ ۲۵ سال نہیں دیکھ پائے گا یہ بات آپ نے بہت ساری تفسیروں کی بنیاد پر کہی ہے اور یقینا یہ اسرائیل کی نابودی کی طرف اشارہ ہے۔
اہم بات جو ہے وہ یہ کہ انقلاب اسلامی کی کامیابی تک مسئلہ فلسطین فراموشیوں کے حوالے ہو چکا تھا لیکن انقلاب اسلامی کی کامیابی کے بعد اس مسئلے کو آفاقی شہرت ملی۔ انقلاب اسلامی سے پہلے اسرائیل نے مسلمانوں کا مزاق اڑاتے ہوئے چھے دن میں لبنان کا اہم حصہ اپنے قبضے میں لے لیا لیکن انقلاب کی کامیابی کے بعد حزب اللہ نے اسرائیل کے زیر قبضہ اپنے علاقوں کو واپس لے لیا اور انقلاب اسلامی کے بعد اسرائیل مسلسل زوال کا شکار ہے اور انشاء اللہ اس کی موت قریب ہے۔
خیبر: ہمارے سماج میں دشمن شناسی کی طرف کوئی توجہ نہیں ہے کیا آپ کی نگاہ میں دشمن کو پہچاننا ضروری ہے یا نہیں؟
۔ امیر المومنین علی (ع) فرماتے ہیں کہ “العلم سلطان” علم طاقت ہے علم قدرت ہے۔ جب ہمارے مقابلے میں جابر اور سفاک دشمن کھڑا ہے جو ہمارے خون کا پیاسا ہے تو کیا ہمیں اس کو پہچانے بغیر اس سے ہاتھا پائی ہو جانا چاہیے یا پہلے اسے مکمل طور پر پہچاننا چاہیے، اس کی طاقت کا اندازہ لگانا چاہیے، اس کے ساتھ موجود لشکر کا اندازہ لگانا چاہیے؟ جیسا کہ واجب کا مقدمہ واجب ہے ایسے ہی صہیونی ریاست کا مقابلہ کرنے کے لیے اس کو ہر لحاظ سے پہچاننا ضروری ہے۔
صہیونی ریاست چونکہ نفسیاتی جنگ میں کافی مصروف کار ہے لہذا ہمیں اس کی کمزوریوں سے بھی آگاہی ہونا چاہیے تاکہ ہم دشمن کو شکست دینے میں کامیاب ہو سکیں۔

 

برصغیر میں کسی قسم کی مذہبی تفرقہ انگیزی صہیونیت کے مفاد میں ہے: ڈاکٹر سلطان شاہی

  • ۴۰۸

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: گزشتہ سے پیوستہ

خیبر: بھارت اسرائیل تعلقات اس ملک کے اسلامی معاشرے کو کن مشکلات سے دوچار کر سکتے ہیں؟
۔ ہندوستان اور پاکستان کے درمیان پہلے سے ایک زخمی ہڈی پائی جاتی ہے؛ مسئلہ کشمیر۔ برصغیر کو مذہب کے نام پر تقسیم کرنا یعنی ہندوستان اور پاکستان بنانا اور پھر تقسیم در تقسیم کرنا پاکستان اور بنگلادیش بنانا اور پھر اکثریتی مسلمان ریاست کشمیر کو متنازع چھوڑ کر ہمیشہ کے لیے ہند و پاک کو ایک دوسرے کے دست و گریبان کرنا اور دونوں کو اس مسئلے میں الجھا کر کمزور بنانا، یہ تمام مسائل کے پیچھے مجھے یقین ہے عالمی صہیونیت کا ہاتھ ہے اور یہ ان کے ذریعے مانیٹرنگ ہو رہے ہیں۔ اگر ہندوستان اور پاکستان کے عوام فرقہ واریت کے الجھاؤ سے باہر نکل آئیں اور سامراجی طاقتوں کے ذریعے مذہب کے نام پر پیدا کئے جانے والے اختلافات کو نظر انداز کر کے اپنے معیشتی مسائل پر توجہ دیں اور دونوں ریاستیں مل کر اپنے عوام کی ترقی اور بہتری کے لیے باہمی سرمایہ کاری کریں تو یقینا صہیونی مقاصد اس اقدام سے ناکام ہوں گے اور ان کے لیے یہ اقدام ناگوار گزرے گا۔
ہندوستان میں کسی بھی طرح کا مذہبی اختلاف چاہیے وہ مسلمانوں کے اندر آپسی طور پر ہو یا ہندو مسلم پلیٹ فارم پر ہو، یقینا صہیونیت کے فائدے میں ہے۔ صہیونی ہمیشہ اس کوشش میں رہتے ہیں کہ اس قسم کا اختلاف پیدا کرنے کے لیے کوئی نہ کوئی سوراغ ڈھونڈیں۔ مجھے یاد ہے کہ جب ہندوستان میں بابری مسجد کا مسئلہ ہوا اس دور میں بھی یہ کہا جاتا تھا کہ اس مسئلے کے پیچھے بھی صہیونیوں کا ہاتھ تھا کہ کچھ صہیونیوں نے غیر مستقیم طور پر ہندو کو ابھارا اور مسلمانوں کو ان کے خلاف اٹھنے پر مجبور کیا اور پھر جو قتل و غارت وجود میں آئی ان سب مسائل کا نتیجہ یہ ہوا کہ ایک ملت اور ایک قوم آپس میں دست و گریباں ہوئی۔ آپ دیکھیں کہ ایک طرف ہندوستان کو ایٹمی اسلحے سے لیس کیا جاتا ہے اور دوسری طرف پاکستان کو اور پھر دونوں کے ایک دوسرے کے مد مقابل کھڑا کیا جاتا ہے۔ آپ پاکستان کے عوام کی معیشتی صورتحال دیکھیں، آپ ہندوستان کے عوام کی غربت اور ناداری دیکھیں کبھی کسی نے اس صورتحال کی بہتری کے لیے کچھ نہیں کیا۔ لیکن ان دونوں کو عسکری اعتبار سے اس قدر مستحکم کیا جا رہا ہے اور ایک دوسرے کو آپس میں محاذ آراء کیا جا رہا ہے کہ یہ کبھی بھی ترقی اور پیشرفت کے لیے سلامتی اور امنیت کا احساس نہ کر سکیں۔
پاکستان میں اکثر جمہوری حکومتوں کے خلاف فوجی بغاوت یا دوسری پارٹیوں کی بغاوت سامنے آتی ہے۔ جونہی ملک میں استحکام پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں کوئی نہ کوئی مسئلہ کھڑا ہو جاتا ہے اس کے پیچھے کس کا ہاتھ ہے؟ آپ ایران کو دیکھ لیں، میں آپ کو ایک مثال دیتا ہے، ایران اور سعودی عرب کے درمیان جو کشمکش چل رہی ہے۔ امریکہ اور اسرائیل بالخصوص صہیونی یہ بھر پور کوشش کر رہے ہیں کہ علاقے کی تمام وہ فوجیں جو اسرائیل کے لیے خطرہ بن سکتی ہیں ان کو کمزور کریں یا نابود کریں۔ علاقے کی ہر طاقتور فوج کو کمزور بنائیں۔ مثال کے طور پر ایک زمانے میں سب سے طاقتور فوج مصر کی تھی لیکن آج وقت مصر کی کیا صورتحال ہے۔ لیبیا کو کس طرح کمزور بنایا گیا؟ شام کو کس طرح ختم کیا؟ عراق جو ایک طاقتور ملک تھا کو ایران کے خلاف کھڑا کیا، پھرعراق کے ذریعے کویت پر چڑھائی کروائی، اور آخر میں امریکہ نے عراق پر حملہ کیا اور آج داعش کو ان پر مسلط کیا، اب عراق میں کچھ بھی باقی نہیں بچا، یمن کو بھی ایسے ہی ختم کیا سعودی عرب کو یمن کے خلاف یمن کو سعودی عرب کے خلاف، اب وہ یہ چاہتے ہیں ایران اور سعودی عرب کے درمیان جنگ چھیڑیں کہ مسلمانوں کے پیسے سے مسلمان ملکوں کو نابود کریں، سعودی عرب کچھ بھی ہو ایک اسلامی ملک ہے اسلامی منابع کا حامل ہے۔ یہ جنگیں کس کے فائدے میں ہے؟ یقینا صہیونیوں کے فائدے میں ہیں۔ کچھ ایسی ہی صورتحال ہندوستان و پاکستان کی ہے عوام کی معیشت کا خیال رکھا جائے لوگوں کی مشکلات کا حل کیا جائے لوگ کتنے برے حالات میں زندگی گزار رہے ہیں لیکن حکومتیں ہمیشہ ایک دوسرے کے مقابلے محاذ آراء ہیں اور عالمی صہیونیت اس کا بھرپور فائدہ اٹھاتی ہے۔
خیبر؛ اس بات کے پیش نظر کہ بالیوڈ برصغیر کی ثقافت میں اہم کردار ادا کرتی ہے اور موجودہ حالات میں اسرائیل بالیوڈ کے اندر نفوذ حاصل کرنے کی کوشش کر رہا ہے تو اس کے کیا نتائج سامنے آ سکتے ہیں؟
میں آپ کو ایک مثال دیتا ہوں، شاہ کے دور میں ہمارے ایران میں کجھور کی پیداوار ہوتی تھی عالمی مارکیٹ میں ایران کا کجھور دوسرے نمبر پر تھا۔ شاہ، اسرائیل کے سابق سفیر برائے ایران ’مئیر عزری‘ سے کہتا ہے کہ جاؤ عالمی مارکیٹ میں کجھور کا کام کرنے والوں سے کہو کہ ہم کجھور کی برآمد میں پہلا درجہ حاصل کرنا چاہتے ہیں یعنی عراق سے آگے بڑھنا چاہتے ہیں کجھور کی پیداوار اور برآمدات میں۔ مئیر عزری جاتا ہے اور دنیا میں جو یہودی کجھور کا کام کرتے ہیں ان سے بات کرتا ہے اور کہتا ہے کہ ہم چاہتے ہیں اس کے بعد ایران کا کجھور پہلے نمبر پر ہو۔ عزری کہتا ہے کہ ہم نے یہودی تاجروں کے ذریعے ایران کو دنیا میں پہلا کجھور برآمد کرنے والا ملک بنا دیا۔ یہ ایک مثال۔ اس وقت دنیا میں اگر کوئی فلم بنانا چاہے تو فلم بنانا اہم نہیں ہے جو چیز اہم ہے وہ فلم کا پھیلاؤ اور دنیا میں اس کی مقبولیت ہے۔ یعنی اس وقت کچھ کمپنیاں ایسی ہیں جو سینما فلم بناتی ہیں اور کچھ کمپنیاں ایسی ہیں جو فلموں کو دنیا میں مقبولیت دیتی ہیں۔ اگر آپ بہترین فلم بھی بنا لیں اور وہ دنیا میں مقبولیت نہ حاصل کر پائے اور مثلا وہ صرف ایران میں رہ جائے، بالکل اس کی کوئی قیمت نہیں ہے۔ ممکن ہے ایک فلم، اسکار(Oscar) میں انعام پانے کی صلاحیت رکھتی ہو لیکن چونکہ دنیا میں خوب اس کی تشہیر نہیں ہو پائی مقبولیت حاصل نہیں کر پائی گویا اس کا کوئی وجود ہی نہیں۔ اس وقت پوری دنیا میں فلم بنانے والے اور فلم تشہیر کرنے والے اہم ترین افراد یہودی ہیں۔ مثلا ایرانی فلمیں ’’نادر کی سیمین سے جدائی‘‘ (A Separation) یا ’’آسمانی بچے‘‘ (Children of Heaven) جنہوں نے ’ Oscar‘ کا انعام حاصل کیا یہ اس وجہ اس مقام تک پہنچیں چونکہ ان کی بہت اچھے سے تشہیر ہوئی تھی پوری دنیا میں یہ فلمیں دیکھی گئی تھیں لیکن اگر اسکار میں اسے پیش بھی کیا جائے اور کسی نے اسے دیکھا نہ ہو تو کوئی فائدہ نہیں ہے، در اصل وہ اجازت دیں گے تو کوئی فلم عالمی سطح پر شہرت پائی گی مثلا مجیدی صاحب کی بنائی ہوئی فلم ’’محمد رسول اللہ (ص)‘‘، مجیدی صاحب کا کہنا تھا کہ بعض ممالک نے اصلا اس فلم کو ہمیں پلے کرنے کی اجازت نہیں دی کہ ہم اس فلم کو ان کے ملک میں ایک بار دکھلا سکیں۔ فلم تشہیر کرنے والی کمپنیاں ہمارے ساتھ دشمنانہ رویہ اپناتی تھی اور جس طریقے سے ہم چاہتے تھے کہ دنیا میں اسے منتشر کریں نہیں ہو پائی۔ لیکن اگر صحیح ڈھنگ سے دنیا میں منتشر ہو پاتی تو ممکن تھا Oscar میں بھی انعام حاصل کر لیتی۔ بالیوڈ ان تمام امکانات و ذرائع اور فلم سازی کی اتنی عظیم ظرفیت کا حامل ہونے کے باوجود اپنی فلموں کی دنیا میں تشہیر نہیں کر پاتی۔ بالیوڈ کی فلمیں بھی اگر ٹھیک ڈھنگ سے دنیا میں مقبولیت حاصل نہ کر پائیں تو ان سے فائدہ اٹھانے والے صرف بر صغیر کے عوام ہوں گے۔ لیکن اگر کوئی دنیا میں انہیں منتشر کرنے والا ہو تو ممکن ہے امریکا میں بھی دیکھی جائیں کون اس ذمہ داری کو اٹھا سکتا ہے یہودی اور صہیونی۔ بالیوڈ کے سربراہان کو اس کام کے لیے کس کے آگے ہاتھ پھیلانا ہو گا اسرائیل اور نیتن یاہو کے آگے۔ یہی وجہ ہے امیتابھ پچن نیتن یاہو کے ساتھ سیلفی بناتے ہیں اس امید کے ساتھ کہ نیتن یاہو ایک سفارش کردیں تاکہ بالیوڈ کی فلمیں صہیونیوں کے عالمی چینلز کے ذریعے شہرت حاصل کر لیں۔ اور اس کے علاوہ صہیونی خود بھی اس فلم انڈسٹری میں اپنی تاثیر پیدا کرنا چاہتے ہیں۔ یعنی کہنے کا مطلب یہ ہے کہ بالی ووڈ کی فلمیں گندی فلمیں نہیں ہیں بلکہ فیملی فلمیں ہیں اگر چہ دور حاضر میں وہ بھی اسی سمت چلی جا رہی ہیں لیکن پھر بھی ان کے اندر گھریلو عشق و محبت پائی جاتی ہے۔ صہیونی اس رابطے کے ذریعے درحقیقت بالیوڈ کی فلمسازی کیفیت پر بھی اثرانداز ہونا چاہتے ہیں کہ بالیووڈ جو ایک مستقل اور آزاد فلم انڈسٹری ہے کو اس طریقے سے انحراف کا شکار بنائیں۔
خیبر: بہت بہت شکریہ جو آپ نے اپنا قیمتی وقت دیا۔

 

قبالہ کی رکن یہودی لڑکی کے لرزہ خیز اعترافات

  • ۴۸۶

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: ایک بہت اہم اور دلچسپ واقعہ مئی ۱۹۸۹ میں ‘اوپرا’ کے عنوان سے براہ راست ٹیلی ویژن پروگرام میں پیش آیا جس نے ناظرین کو حیران کردیا۔ پروگرام کے میزبان نے ایک نوجوان یہودی لڑکی “ویکی پیلن” عرف “ریچل” کا انٹرویو لیا۔ اس لڑکی کے اعترافات بہت دلچسپ اور غور طلب تھے۔
میزبان: میری اگلی مہمان شیطان کی پوجا سے تعلق رکھتی ہے اور اس نے انسان کی قربانی اور آدمخواری اور قبالہ کی رسومات میں شرکت کی ہے؛ وہ کہتی ہے کہ اس کا گھرانہ بھی کئی نسلوں سے اسی سلسلے سے تعلق رکھتا ہے۔ اور اس وقت اس کا علاج معالجہ ہورہا ہے اور ذاتی شخصیتی عدم توازن سے دوچار ہے۔ بچپن کی تمام ڈراؤنی یادوں کو کچل دینے کے مرحلے سے گذر رہی ہے؛ ریچل کو دیکھیں جس نے اپنے تحفظ کے لئے اپنا چہرہ تک بدل دیا ہے۔
سوال: کیا تم ان لوگوں کی نسل سے ہو جن کے ہاں بہت بھونڈی رسمیں رائج ہیں۔
جواب: جی ہاں! میرے خاندان کا ایک لمبا چوڑا شجرہ نامہ ہے۔ ہمارے ہاں ان لوگوں کے اعداد و شمار کو بھی محفوظ کیا جاتا ہے جو اس قسم کی رسمیں بجا لاتے ہیں اور ان لوگوں کے اعداد و شمار کو بھی، جو ان رسموں کو بجا نہیں لاتے اور ان کا یہ کام سنہ ۱۷۰۰ع‍ تک پلٹتا ہے۔
سوال: کیا تمہیں بھی ان رسومات میں شریک کیا جاتا تھا؟
جواب: جی ہاں! میں نے ایسے گھرانے میں آنکھ کھولی جو اس عمل پر یقین رکھتا تھا۔
سوال: کیا باقی لوگ تصور کرتے تھے کہ تمہارا خاندان ایک اچھا یہودی خاندان ہے؟ کیا باہر سے تم ایک اچھی یہودی لڑکی دکھائی دیتی رہی ہو؟ کیا تم لوگ گھر میں شیطان کی پوجا کرتے تھے؟
جواب: بہت سے یہودی خاندان پورے امریکہ میں ایسے ہیں، صرف میرا خاندان ہی نہیں ہے۔
سوال: واقعی؟
جواب: جی ہاں۔
سوال: کون اس سلسلے میں معلومات رکھتا ہے یعنی بہت سے لوگ؟
جواب: بہرصورت مین نے شکاگو پولیس کے تفتیشی افسر سے بات کی۔ میرے بہت سے دوست بھی جانتے ہیں اور میں نے اس سلسلے میں عام لوگوں سے بھی خطاب کیا ہے۔
سوال: گھرانوں کی رسومات میں کیا کچھ ہوتا ہے؟
جواب: وہ رسمیں جن میں بچوں کو قربان کیا جاتا ہے اور آپ مجبور ہیں کہ قربانی کی اس رسم کو دیکھ لیں۔
سوال: کن کے بچے؟
جواب: ہمارے خاندان میں ایسے لوگ تھے جو بچے پیدا کرتے تھے، کوئی بھی ان بچوں کے بارے میں کچھ نہیں جانتا تھا؛ خواتین بہت موٹی ہوجاتی تھیں اور معلوم نہیں ہوتا تھا کہ حاملہ ہیں۔ یا وہ کچھ عرصہ غائب ہوجاتی تھیں اور پھر پلٹ کر آتی تھیں۔ دوسرا نکتہ جو میں بتانا چاہتی ہوں یہ ہے کہ سارے یہودی بچوں کو قربان نہیں کرتے۔ میرا مطلب یہ ہے کہ یہ رسم بہت رائج نہیں ہے۔
سوال: میں نے پہلی بار سنا ہے کہ یہودی بچوں کو قربان کرتے ہیں، لیکن تم بہرحال بچوں کی قربانی کی گواہ رہی ہو۔
جواب: درست ہے۔ جب میں بہت چھوٹی تھی تو انھوں نے مجھے مجبور کیا کہ اس رسم میں شرکت کروں اور ایک شیرخوار بچے کو قربان کروں!
سوال: اس قربانی کا مقصد کیا تھا؟ تم کس لئے قربانی دیتے تھے؟
جواب: طاقت کے لئے۔
سوال: طاقت! کیا انھوں نے تم سے بھی کام لیا؟ یعنی تم سے بھی اس رسم میں استفادہ کیا؟
جواب: مجھے کئی مرتبہ ازار و اذیت اور جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا۔
سوال: تمہاری ماں کیا کررہی تھی؟ اس ماجرا میں اس کا کیا کردار تھا؟
جواب: ابھی تک میں نے اپنی تمام یادیں بیان نہیں کی ہیں لیکن میری ماں کا خاندان ان رسومات میں مکمل طور پر ملوث تھا۔ میری ماں نے مجھے ان اعمال اور رسومات کی طرف کھینچ لیا؛ میرے ماں باپ دونوں نے مجھے اس کام میں ملوث کیا۔
سوال: تمہاری ماں اس وقت کہاں ہے؟
جواب: وہ شکاگو میں رہائش پذیر ہے اور شہر کے انسانی تعلقات کمیشن کی رکن اور قابل احترام شخصیت ہے۔
ریچل نے اوپرا کے پروگرام میں کہا: میں نے بچوں کو قتل کرتے اور کھاتے ہوئے دیکھا، صرف “طاقت” کے حصول کے لئے جو کھانے والے حاصل کرتے تھے۔ ان بچوں کو گھرانے کے اندر اور اسی مقصد کے لئے پیدا کیا جاتا تھا۔ ریچل نے کہا: مجھے کئی بار جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا اور اپنے باپ کی جنسی زیادتی کی وجہ سے مجھے پانچ بار اسقاط حمل کروانا پڑا ہے۔
ریچل کا معالج ڈاکٹر بھی اوپرا نامی اس پروگرام میں موجود تھا لیکن یوٹیوب میں نشر ہونے والے اس کلپ سے اس کی باتیں حذف کی گئی ہیں۔ ڈاکٹر نے کہا کہ اب تک وہ اس قسم کے فرقوں کا شکار ہونے والے چالیس مریضوں کا علاج کرچکا ہے جن کا تعلق ریاست ہائے متحدہ امریکہ اور کینیڈا کی مختلف ریاستوں سے ہے اور وہ ایک دوسرے کو نہیں جانتے لیکن ان سب کے تجربات بالکل ایک ہی طرح کے ہیں۔

 

امام خمینی (رہ) نے سیاسی اسلام زندہ کر دیا/ مسئلہ فلسطین امام کی ترجیحات میں شامل تھا

  • ۴۹۳


خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: ۴ جون اسلامی انقلاب کے بانی رہبر کبیر امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کا یوم وفات ہے۔ اسی مناسبت سے ہم نے لبنان کے عالم دین حجۃ الاسلام و المسلمین ’’زیاد سلمان‘‘ سے گفتگو کی؛
خیبر: معاصر سیاسی اور سماجی تحریکوں میں نئی روح پھونکنے کے حوالے سے امام خمینی(رہ) کا کیا کردار ہے؟
امام خمینی نے پہلی بار نئی تاریخ میں ایک منظم اور مہدوی اسلام کو عملی شکل میں پیش کیا اور اسے اسلامی جمہوریہ ایران کے ڈھانچے میں ڈال دیا تاکہ اس طرح سے سیاسی اسلام کو دوبارہ زندہ کر سکیں اور علاقائی اور عالمی سطح پر اسے پہچنوا سکیں۔
خیبر؛ امام خمینی (رہ) نے کس طرح لوگوں کو مغربی اور مشرقی تسلط کا مقابلہ کرنے پر آمادہ کیا اور تیسری دنیا کے ان پر انحصار کے خاتمہ کا مطالبہ کیا؟
امام خمینی ایک انتہائی اہم اور عظیم شخصیت کے مالک تھے جنہوں نے ایرانی عوام کو ظلم ، استبداد اور استعمار کے خلاف جنگ کی راہ پر گامزن کیا۔ لہذا اس نایاب رہنما کے بارے میں گفتگو کرنا کافی اہمیت کا حامل ہے۔ جو کچھ امام کے ہاتھوں انجام پایا وہ نہ صرف تاریخ اسلام بلکہ تاریخ جہان میں ایک سرنوشت ساز تبدیلی کا نقطہ آغاز تھا آپ کا اصلاح پسند، مہدوی اور اسلامی منصوبہ پہلی بار تاریخ میں نفاذ کے مرحلے تک پہنچا۔

 خیبر: امام خمینی کا ایک اہم نظریہ دین کو سیاست سے الگ نہ کرنا تھا۔ اس مسئلے کی اہمیت کے بارے میں آپ کا تجزیہ کیا ہے؟
دین اور سیاست میں عدم جدائی امام خمینی کا ایک اہم نظریہ تھا جو معاشرے کی اصلاح کے لیے بنائے گئے اسلامی منصوبے کا حصہ تھا اسی وجہ سے امام کے افکار و نظریات پر کام کرنے والے تمام محققین کا یہ ماننا ہے کہ امام کے اس نظریے نے سیاسی دنیا میں ایک بڑا انقلاب برپا کر دیا۔
امام خمینی نے در حقیقت اس تفکر پر اسلامی انقلاب کی تحریک کا آغاز کیا جو عوام پسند بھی تھا اور عقل و منطق کے ترازو پر بھی پورا اتر رہا تھا۔ آپ نے معاشرے میں خالص اسلام کے نفاذ کا منصوبہ پیش کر کے عالمی سطح پر اس فکر کی بیخ کنی کر دی کہ دین کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں ہوتا بلکہ یہ ثابت کیا کہ دین عین سیاست ہے۔

خیبر: امام خمینی نے یہ کیوں اعلان کیا کہ بیت المقدس کو اسلامی موضوعات کے سرفہرست قرار پانا چاہیے؟
مسئلہ فلسطین امام خمینی کے نزدیک اہم ترجیحات میں شامل تھا اور وہ ہمیشہ اسے اپنے دل و دماغ میں محسوس کرتے تھے۔ ایران میں انقلاب کی کامیابی، ایرانی عوام کی قربانی اور طاغوت کی سرنگونی بالخصوص ایران میں امریکہ کے خاتمے کے بعد ، قدس اور فلسطین کی آزادی ایران کی پہلی ترجیحات میں شامل ہو گیا۔ اور یوم القدس کا اعلان کر دیا گیا تاکہ اس طرح سے دنیا کے حریت پسند متحد ہو جائیں۔
امریکہ ہمیشہ غاصب صہیونی ریاست کی حمایت کرتا ہے اور امام خمینی اسرائیل کی نابودی کو اسلامی انقلاب کی تکمیل سمجھتے تھے۔ اسی بنا پر آپ نے صہیونی دشمن کے خلاف جد و جہد کو دینی اور عقیدتی عمل قرار دیا ۔ امام خامنہ ای نے بھی امام خمینی کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اس بات پر ہمیشہ زور دیا کہ سب کو مل کر فلسطین کی آزادی اور اسرائیل کی تباہی کے لیے قربانی دینا چاہیے۔ پروردگار عالم امام خامنہ ای کی عمر طولانی کرے تاکہ دنیا کے آزادی خواہان کے ساتھ قدس میں نماز ادا کر سکیں۔ قدس کی آزادی ایک خدائی وعدہ ہے۔

 

 

رہبر انقلاب کے فرمودات پر عمل سے اسرائیل کی تباہی ممکن

  • ۳۹۳

فلسطین اسٹیڈی سنٹر کے سابق چیئرمین ڈاکٹر صادق رمضانی نے خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ کے نامہ نگار سے گفتگو کرتے ہوئے یوم القدس کے موقع پر عالم اسلام کو کئے گئے رہبر انقلاب اسلامی کے خطاب پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا:
رہبر انقلاب اسلامی کے فرمودات سے جو چیز سمجھ میں آتی ہے وہ یہ ہے کہ صہیونی ریاست روز بروز اپنی نابودی کے قریب ہوتی جا رہی ہے، شہید قاسم سلیمانی اور ان کے ساتھیوں کے پاک خون کی بے شمار برکتوں میں سے ایک برکت یہ ہے کہ عالمی سامراج، بین الاقوامی صہیونیزم اور غاصب اسرائیل کے پیکر پر طاری خوف و دھشت مزید بڑھ چکا ہے۔
آج جو فلسطینی معاشرے میں استقامت، پائیداری اور مزاحمتی محاذ میں نظم و انسجام پایا جاتا ہے اس میں شہید قاسم سلیمانی کا بہت بڑا کردار ہے۔ جیسا کہ اسلامی تحریک حماس کے رہنما اسماعیل ہنیہ نے خود شہید قاسم سلیمانی کے تشییع جنازہ کے دن اپنی تقریر میں تین مرتبہ دھرا کر انہیں شہید القدس کا لقب دیا۔ اور اس طرح سے دنیا والوں خصوصا صہیونیوں کو یہ سمجھا دیا کہ اگر قاسم سلیمانی نہ ہوتے تو آج غزہ کی پٹی صہیونیوں کے مقابلے میں ڈٹائی کا مظاہر نہ کر پاتی۔ جیسا کہ رہبر انقلاب نے بھی اس نکتے کی طرف اشارہ کیا اور اسے الحاج قاسم کے وجود کی برکت قرار دیا۔
ڈاکٹر رمضانی نے رہبر انقلاب کے بیانات پر مزید تبصرہ کرتے ہوئے کہا: آپ نے یہ خوشخبری بھی دی کہ مزاحمتی گروہوں کی تشکیل اور فلسطین کے مختلف نقطوں پر رہ کر مقابلہ کرنا ہمیں حقیقی کامیابی سے ہمکنار کر سکتا ہے۔
انہوں نے صہیونی ریاست کی داخلی صورتحال کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے کہا: "آج، صیہونی دشمن شدید بحران اور مایوسی کا شکار ہے، اور جرائم پیشہ امریکہ اور پاگل ٹرمپ کے علاوہ کوئی اس کا مضبوط حامی نہیں ہے۔ رہبر انقلاب کے بیانات میں فلسطینی اتھارٹی کے بارے میں جو اہم نکتہ تھا وہ یہ کہ فلسطینی اتھارٹی مزاحمتی محاذ کا ساتھ دے اور کسی غلطی کا ارتکاب نہ کرے۔ اس لیے کہ کسی بھی طرح کی اسٹریٹجک غلطی یا ان طاقتوں کی طرف معمولی سا جھکاؤ یا ان سے وابستہ عربی ممالک کی طرف جھکاؤ فلسطین کےلیے پریشان کن ثٓابت ہو سکتا ہے۔
 ڈاکٹر رمضانی نے شام کی موجودہ صورتحال اور مزاحمتی محاذ کے لیے اس کی اہمیت پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا: رہبر انقلاب کے بیانات سے جو چیز ہماری سمجھ میں آتی ہے وہ یہ ہے کہ فلسطین کی بقا کا راز مزاحمتی محاذ کی بقا ہے۔ اور مزاحمتی محاذ آج شام میں سرگرم عمل ہے اور دیگر اوقات سے زیادہ آج مضبوط اور مستحکم ہے۔ حالیہ سالوں میں شام میں عالمی یوم القدس کی رسومات کھلی فضا اور سائبری اسپیس میں منعقد ہوئیں شام کے ثقافتی اداروں نے والینٹیئر طور پر حیرت انگیز سرگرمیاں انجام دیں، منجملہ شام میں عرب رائٹر یونین نے دس روز سے زیادہ عرصے میں سو سے زیادہ سیاسی لیڈروں اور اثر و رسوخ رکھنے والے افراد کو کیمرے کے سامنے لایا اور فلسطین کے حوالے سے گفتگو اور بحث و مباحثہ ہوا جس کا اندرونی اور بیرونی میڈیا پر کافی چرچا رہا۔
انہوں نے آخر میں امام خمینی (رہ) اور رہبر انقلاب کے دشمن شناسی کے حوالے سے مشترکہ موقف کی طرف اشارہ کیا اور کہا: یہ امام خمینی (رہ) کی عمیق نگاہ تھی جس کی وجہ سے آج پوری دنیا میں صہیونیت کے خلاف ایک تحریک وجود میں آ چکی ہے۔ رہبر انقلاب نے اپنے خطاب میں اس نکتے کی طرف اشارہ کیا کہ علاقے سے سرطانی پھوڑے کی نابودی تمام ملتوں کی ہمت و شجاعت کی بدولت ممکن ہو گی کہ خوش قسمتی سے دنیا کی ملتیں جاگ چکی ہیں لیکن دوسری طرف سے اسلام کے دشمنوں کی دشمنی بھی اپنی جگہ مضبوط ہے اور اس دشمنی کے مقابلے میں صبر نہیں کیا جا سکتا۔ ایک متفقہ منصوبہ بندی اور رہبر انقلاب کے فرمودات پر عمل کے ذریعے ہی صہیونی ریاست کو نابودی کے گڑھے میں ڈالا جا سکتا ہے۔

 

ہندوستان کے اسلامی معاشرے کی اہم ترین ذمہ داری دشمن کی شناخت ہے: دستمالچیان

  • ۴۰۱

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ نے لبنان اور اردن میں رہے ایران کے سابق سفیر ڈاکٹر دستمالچیان کے ساتھ ہندوستان اور اسرائیل کے باہمی تعلقات پر ایک مختصر گفتگو کی ہے جو قارئین کے لیے پیش کی جاتی ہے۔
خیبر: اسرائیل کو ہندوستان سے سیاسی تعلقات قائم کرنے ضرورت کیا ہے؟
۔ صہیونی ریاست چونکہ بین الاقوامی سطح پر تنہا ہو چکی ہے اور وہ اس تنہائی سے خود کو باہر نکالنے کے لیے علاقے کے ہر اس ملک سے روابط قائم کرنے کی کوشش کرے گی جہاں اس کو اپنا مفاد نظر آئے گا۔ اور ہندوستان اس اعتبار سے کہ اس کی خارجہ پالیسی میں کافی تبدیلی آچکی ہے وہ خود بھی اسرائیل سے تعلقات برقرار کرنا چاہتا ہے اور پھر اسرائیل کو ہندوستان کی وسیع مارکٹ پر نظر ہے کہ وہ اپنا اسلحہ ہندوستان کو بیچ سکتا ہے اور ہندوستان سے نئی ٹیکنالوجی خرید سکتا ہے، علاوہ از ایں اسرائیل اگر ہندوستان کے ساتھ اپنے تعلقات کو مزید مضبوط بنانے میں کامیاب ہو جاتا ہے تو وہ بھارت کے ثقافتی، سیاسی، سماجی اور دیگر میدانوں میں گہرا اثر چھوڑے گا۔ اور ایسی صورت میں اگر اسرائیل واقعا ہندوستان پر اثر انداز ہو جاتا ہے تو وہ یقینا اپنے کام کر دکھائے گا۔
اب اس وقت اسرائیل کی ہندوستان میں موجودگی کا جو واضح مقصد نظر آ رہا ہے وہ فی الحال بھارت کو اپنا اسلحہ پیچنا اور بھارت سے نئی ٹیکنالوجی حاصل کرکے اپنے مفاد میں استعمال کرنا ہے، لیکن اس کا یہ مقصد وقتی طور پر ہے اصل مقصد اسرائیل کا ہندوستان میں اپنا گہرا اثر و رسوخ پیدا کرنا ہے۔ میری نظر میں بھارتی حکمرانوں کو ہوشیار رہنا چاہیے کہ اسرائیل کی ہندوستان میں موجودگی مستقبل میں مختلف مکاتب فکر اور مختلف ادیان کے ماننے والوں کے لیے بڑی مشکلات کھڑی کر سکتی ہے۔ اس لیے کہ صہیونی ریاست ایسی خبیث رژیم ہے جس کے بنیادی اصول میں یہ چیز شامل ہے کہ قوم یہود کے علاوہ کوئی دوسری قوم انسان ہی شمار نہیں ہوتی۔ لہذا یہی وجہ ہے کہ وہ اتنی آسانی سے دوسروں کا قتل عام کرتی ہے دوسروں پر جارحیت روا رکھتی ہے بچوں کو تہہ تیغ کرتی ہے چونکہ ان کے نزدیک انسان کا قتل مچھر کو مارنے کے برابر ہے وہ اپنے علاوہ کسی کے لیے قدر و قیمت کے قائل نہیں ہیں۔ اس فکر کی مالک یہ قوم جہاں بھی اپنا اثر و رسوخ پیدا کرے گی وہاں اس فکر کو عملی جامہ پہنانے کی کوشش کرے گی۔ ہندوستانی برادران کو اس موضوع کے حوالے سے انتہائی ہوشیاری سے کام لینا چاہیے۔
خیبر: جیسا کہ آپ نے اشارہ کیا کہ اسرائیل کی ہندوستان میں موجودگی مختلف مکاتب فکر کے لیے مشکلات کھڑی کر سکتی ہے تو کیا چند ایک مشکلات کی طرف اشارہ کر سکتے ہیں؟
۔ قومی اختلافات پیدا کرنا، مختلف مکاتب فکر کو ایک دوسرے کے خلاف مشتعل کرنا، ان کے اندر ایک دوسرے کے لیے جاسوسی چینل قائم کرنا، ملکی معیشت کو کمزور بنانا، سماجی اور سیاسی دراڑیں پیدا کرنا، اور ہر وہ کام جو نفرت اور اختلاف کی بو دے وہ صہیونی ریاست کی پالیسی کا حصہ ہے۔ ہندوستان اس اعتبار سے بہت زیادہ نقصان اٹھا سکتا ہے چونکہ اس میں مختلف قومیں، مختلف مکاتب فکر اور کئی ادیان و مذاہب کے ماننے والے موجود ہیں۔ اور اسرائیل کا اثر و رسوخ ہندؤوں کو مسلمانوں کے خلاف، مسلمانوں کو ہندؤوں کے خلاف، سکھوں کو ہندؤوں کے خلاف وغیرہ اکسا سکتا ہے لہذا اس اعتبار سے ہندوستان کو بہت احتیاط سے کام کرنا چاہئے۔
خیبر: ہندوستان ایک جانب سے روس اور اسرائیل کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھاتا ہے اور دوسری طرف ایران کے ساتھ بھی اپنے تاریخی روابط قائم رکھنے کی کوشش کرتا ہے۔ اس کا کیا مطلب ہے؟
۔ ہندوستان جغرافیائی اعتبار سے ایک خاص اہمیت کا حامل ملک ہے اور اقتصادی اور سیاسی اعتبار سے کافی مضبوط ہے لیکن آبادی کے لحاظ سے ایک ایسا ملک ہے جس کو چلانا بہت دشوار کام ہے اس کے علاوہ وہ ایک طرف سے چین کا پڑوسی ملک ہے جو اس وقت دنیا کی سب سے بڑی اقتصادی طاقت ہے دوسری طرف سے وہ پاکستان کے ساتھ کشمیر پر مسئلے پر الجھا ہوا ہے اور پھر وہ خود بھی چاہتا ہے کہ ایشیا میں ایک بڑی طاقت ابھر کر سامنے آئے اور اس کے لیے وہ بنیادی ڈھانچے تیار بھی کر رہا ہے اس اعتبار سے ہندوستان کو ایک ہمہ جھت اور وسیع نگاہ رکھنا ہو گی تاکہ وہ وسعت نظر کے ساتھ ساتھ اپنے اندر سیاسی و معیشتی استحکام بھی پیدا کر سکے لہذا ہم دیکھتے ہیں کہ ہندوستان ایک ہی وقت میں کئی جوانب پر نگاہ رکھتا ہے امریکہ کے ساتھ تعلقات، روس کے ساتھ، صہیونی ریاست کے ساتھ، ایران کے ساتھ، سعودی عرب کے ساتھ، تمام ان ممالک کے ساتھ تعلقات برقرار رکھنے کی کوشش کرتا ہے جہاں سے اس کا مفاد پورا ہو سکے۔ ان تمام ممالک کے ساتھ تعلقات برقرار رکھنے کا مقصد ملک میں ایک قسم کا اعتدال اور وزن پیدا کرنے کی کوشش ہے تاکہ اپنے انواع و اقسام کی فکریں رکھنے والے معاشرے کو پرامن طریقے سے محفوظ رکھ سکے اس لیے کہ ایک ایسے معاشرے اور سماج کو جس میں اتنے مکاتب فکر اور اتنے ادیان اور مذاہب پائے جاتے ہوں اسے پرامن رکھنا ایک انتہائی دشوار کام ہے۔

خیبر: ہندوستان کے اسلامی معاشرے کو کیا نصیحت کرنا چاہیں گے؟
۔ میری نظر میں ہندوستان کے اسلامی سماج کی اہم ترین ذمہ داری، خودشناسی ہے، معرفت ہے اپنی نسبت اور اپنے دشمن کی نسبت، ہندوستان کے مسلمانوں کو یہ جاننا چاہیے کہ تاریخ کے اس دور میں وہ کیا خدمات انجام دے سکتے ہیں اپنے دین کی ترویج کے لیے، اپنے اسلامی اقدار کے تحفظ کے لیے اور اپنے مقام و منزلت کو پائیدار رکھنے کے لیے۔
میری نظر میں ہندوستان کے مسلمانوں کو اپنے ملک میں ایسی تنظیمیں بنانا چاہیے جو مسلمانوں کے اندر سیاسی اور معیشتی شعور پیدا کریں ان کے اندر آگہی پیدا کریں، اگر ہندوستان کا ہر مسلمان اسلامی شعور اور بصیرت رکھتا ہو اور اپنے مقام کو پہچانتا ہو اور اپنے دشمن کو پہچانتا ہو تو یہ سماج ایک کامیاب اور سربلند سماج ہو گا۔
ہمیں یہ جان لینا چاہیے کہ کسی بھی صورت میں اختلاف کی گھنٹی نہ بجائیں وَاعتَصِموا بِحَبلِ اللَّهِ جَمیعًا وَلا تَفَرَّقوا۔ ہمیں یہ جان لینا چاہیے کہ ہم شیعہ سنی ایک ہی دین کے پیروکار ہیں ایک خدا ایک رسول اور ایک کتاب کے ماننے والے ہیں۔ ہمیں جان لینا چاہیے کہ ہمارے پڑوسی دوسرے مکاتب فکر کے لوگ ہیں اور ہمیں ان کے ساتھ رواداری سے کام لینا ہے۔ دین اسلام ایک جملہ میں خلاصہ ہوتا ہے لا إِکْراهَ فِی الدِّینِ قَدْ تَبَیَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَیِّ ‘‘ دین اسلام فرماتا ہے فَبَشِّرْ عِبَادِ الَّذینَ یَسْتَمِعُونَ الْقَوْلَ فَیَتَّبِعُونَ أَحْسَنَهُ. اس لیے کہ دین اسلام دین فطرت ہے۔ امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں: ھل الدین الا الفطرہ؟ دین فطرت کے علاوہ کیا ہے؟ انسانوں کی فطرت ایک ہے لہذا ہمیں اپنے فطری امور سے آگاہ ہونا چاہیے۔ تمام امت مسلمہ خصوصا ہندوستان کے اسلامی سماج کی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ انسانوں کی فطرتوں کو بیدار کریں جیسا کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے صدر اسلام میں انسانوں کو بیدار کیا انسانوں کی فطرتوں کو بیدار کیا آپ نے عرب جاہلوں سے سلمان، ابوذر اور مقداد جیسوں کو بنایا اور اتنے گرانقدر اصحاب تیار کیے۔ لہذا میرا یہ ماننا ہے کہ ہندوستان کے مسلمانوں کو چاہیے کہ اپنے باطنی اور اندرونی وجود کو تقویت بخشیں۔
خیبر: بہت بہت شکریہ جو آپ نے اپنا قیمتی وقت ہمیں دیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

یوم قدس حق و باطل کے مابین معرکہ آرائی کو ظاہر کرنے کا دن ہے: ڈاکٹر ہمایون

  • ۳۹۲

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: ماہ مبارک کا آخری جمعہ امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کی جانب سے یوم القدس کے نام سے موسوم ہوا تاکہ مسلمانان عالم صہیونیت کے خلاف اتحاد اور یکجہتی کا ثبوت دیں اور قدس شریف کی آزادی کے لیے قدم اٹھائیں۔ خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ نے یوم القدس کے موقع پر امام صادق (ع) یونیورسٹی کے پروفیسر ڈاکٹر ’محمد ہادی ہمایون‘ کے ساتھ گفتگو کی ہے جس کا خلاصہ قارئین کے لیے پیش کرتے ہیں؛
خیبر: مسئلہ فلسطین خصوصا عالمی یوم القدس اور اس کی اہمیت کے حوالے سے آپ کا کیا تجزیہ ہے؟
انقلاب اسلامی کی کامیابی کے ابتدائی ایام میں ہی امام خمینی (رہ) کی جانب سے ماہ مبارک کے آخری جمعہ کو یوم القدس قرار دیا جانا ایک انتہائی حکیمانہ اقدام تھا جس سے نہ صرف دنیا کے مسلمانوں کو مسئلہ فلسطین اور قدس کی جانب متوجہ کیا بلکہ اسلامی انقلاب کی آواز کو بھی دنیا کے کونے کونے میں پہنچا دیا۔
اگر ہم یہاں پر یوم قدس کے بارے میں امام خمینی (رہ) کے بیانات پر غور کریں تو دیکھیں گے کہ آپ نے کتنی وضاحت سے اس مسئلے کو بیان کیا ہے جیسا کہ آپ نے فرمایا: ’’یوم قدس کا مسئلہ صرف فلسطین کا مسئلہ نہیں ہے۔۔۔‘‘، اگر چہ اس دن مرکزیت اسی مسئلے کو ہے لیکن منحصرا یہی مسئلہ یوم قدس کا مسئلہ نہیں ہے، ’’یوم قدس وہ دن ہے جس دن اسلامی انقلاب جو ایران میں تشکیل پایا ہے کو ایک نمونے کے طور پر پیش کیا جائے، ایک مزاحمتی تحریک کے طور پر جانا جائے اور تمام اسلامی ممالک میں یہ انقلاب پہنچنوایا جائے‘‘۔
میری نظر میں یوم القدس کی فکر ایک آسمانی فکر ہے اسے ہمیشہ تاریخ میں باقی رہنا چاہیے جب تک کہ امام علیہ السلام کا ظہور ہوتا یہ دن پوری شان و شوکت سے منایا جانا چاہیے اس لیے کہ یہ حق و باطل کے مابین معرکہ آرائی کو ظاہر کرنے والا دن ہے جیسا کہ قیامت کی ایک صفت یہ ہے کہ اس دن حق و باطل ایک دوسرے سے الگ ہو جائیں گے حق و باطل کے درمیان یہ ملاوٹ ہے جو بہت ساروں کی گمراہی کا باعث بنتی ہے اور بہت سارے لوگ اس سے درست تجزیہ و تحلیل نہیں کر سکتے ۔
میری نظر میں یہ اہم ترین کنجی ہے جو ہمیں ظہور کی جانب رہنمائی کرتی ہے اور ظہور کا راز بھی اسی میں پوشیدہ ہے۔ ظہور کا مطلب یہ ہے کہ حق ظاہر اور آشکار ہو گا، ظہور کے بارے میں ہمارا عقیدہ یہ نہیں ہے کہ معاذ اللہ امام چھپ گئے ہیں اور ایک دم ظاہر ہو جائیں گے، نہیں، امام تو ہمارے درمیان اسی دنیا میں زندگی گزار رہے ہیں ہمارے اندر ان کو پہچاننے کی صلاحیت نہیں ہے ظہور کے وقت جو چیز رونما ہو گی وہ یہ ہے کہ حق جو باطل کے ساتھ گڈ مڈ ہو چکا ہے وہ ظاہر و آشکار ہو گا۔
آج ہم دیکھتے ہیں کہ جعلی صہیونی ریاست ایک ملک سے وہاں کے رہنے والے لوگوں کو نکال کر باہر کر دے اور دوسرے ملکوں سے اپنے ہم فکر لوگوں کو اکٹھا کر کے اپنی حکومت قائم کر لے اور دنیا خاموش تماشا دیکھتی رہے بلکہ اس کی حمایت کرے کہ تم نے اچھا کیا ہے تو ایسے میں آپ سوائے اس کے اور کیا کہیں گے کہ حق اور باطل آپس میں گڈ مڈ ہو چکے ہیں۔ ایک غاصب حکومت ۷۰ سال سے ایک ملت کے اوپر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑ رہی ہو بچوں عورتوں بوڑھوں کا قتل عام کر رہی ہو اور دنیا کا کوئی انسان حتیٰ الہی ادیان کے ماننے والے مسلمان اور غیر مسلمان سب اس جعلی حکومت کی حمایت کرنے لگیں اور اس کے ظلم و ستم سے چشم پوشی کر لیں یہ حق وباطل میں آمیزش نہیں تو اور کیا ہے؟
یوم قدس حق و باطل کے ایک دوسرے سے الگ کرنے کا نام ہے حق و باطل کے مابین معرکہ آرائی دنیا والوں کے سامنے پیش کرنے کا دن ہے۔ دنیا والے اس دن پہچانیں کہ حق کیا ہے اور باطل کیا ہے۔ اور یہ بھی دیکھیں کہ دنیا میں حق کے حامی کتنے ہیں اور باطل کا ساتھ دینے والے کتنے ہیں؟