کیا متحدہ عرب امارات اسرائیل کے ساتھ معاہدہ کرنے پر مجبور تھا؟ 2

  • ۴۰۶

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: گزشتہ سے پیوستہ۔
خیبر: موجودہ صورتحال کے پیش نظر بیروت میں ہوئے حالیہ دھماکے اور اس کے بعد حزب اللہ پر آنے والا شدید دباؤ ، اور پھر یہ اسرائیل امارات معاہدہ، کیا ان سب مسائل سے مزاحمتی محاذ کے لیے حالات زیادہ سخت نہیں ہو گئے ہیں اور کیا ان کو اس دباؤ سے باہر آنے کے لیے کوئی بڑا اقدام کرنا پڑے گا؟
۔ کسی خطے میں ایک موثر اداکار کو متاثر کرنے کی ایک حکمت عملی یہ ہے کہ اس کے خلاف سلسلہ وار مستقل اقدامات کیے جائیں جس سے دباؤ بڑھتا رہے اور بالآخر اس خطے میں اداکار کا حجم کم ہوجائے۔ ایسا لگتا ہے کہ مزاحمت پر دباؤ بڑھانے کا جو سلسلہ شام سے شروع ہوا اور اس کے بعد عراق میں اور اب بیروت میں کئی گنا اس میں اضافہ ہوا، دباؤ تو مزاحمتی محاذ پر ہر طرف سے ہے لیکن سوال یہ ہے کہ مزاحمت کو کیسے اس ہمہ گیر دباؤ سے باہر آنا ہو گا؟
میری نظر میں ، اس دباؤ سے نکلنے کے لئے مزاحمت کو ذہانت سے کام کرنا ہوگا۔ چونکہ ذرا سی خطا مزاحمت کو مزید نقصان پہنچا سکتی ہے انشاء اللہ امید ہے اسلامی مزاحمت صحیح حکمت عملی اپناتے ہوئے موجودہ صورتحال پر قابو پا لے گی۔ یہ حکمت عملی ، پوری ہوشیاری کے ساتھ، ڈپلومیسی، ملٹری سیکیورٹی اور میڈیا کے شعبوں میں ہونا چاہئے۔ کیونکہ دشمن کے اقدامات بھی ان تینوں شعبوں میں ہوتے ہیں۔

خیبر: آپ کی نظر میں اسرائیل امارات معاہدے سے متحدہ عرب امارات کو کیا فائدہ حاصل ہو گا؟
۔ خلیج فارس کے بیشتر حکمران سیکیورٹی اور دفاعی میدان میں بہت زیادہ امریکہ پر منحصر ہیں ۔ پہلی بات یہ ہے کہ میری نظر میں، شاید متحدہ عرب امارات کے حکمران اس طرح کا معاہدہ نہیں کرنا چاہتے ہوں گے ۔ متحدہ عرب امارات ایک تجارتی ملک ہے اور یہ تجارت لوگوں کے بل بولتے پر چلتی ہے۔ اگر عرب امارات کوئی ایسا کام کرتا ہے جس سے اسے معاشی دباؤ یا ممکنہ پابندیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے تو یقینا وہ مشکلات میں گرفتار ہوتا۔ ایسا لگتا ہے کہ متحدہ عرب امارات کا معاہدے کو قبول کرنا امریکی ایجنڈے میں شامل ہے۔ یہ دیکھتے ہوئے کہ ٹرمپ انتخابات سے پہلے اچھی پوزیشن میں نہیں ہیں اور ان کی فتح یقینی نہیں ہے ، متحدہ عرب امارات اگر تھوڑا سا ہوشیار ہوتا تو یہ منصوبہ اگلے امریکی صدر کے ساتھ آگے بڑھانے کی کوشش کرتا۔
لیکن ایسا لگتا ہے کہ ان ممالک میں امریکی اثر و رسوخ اتنا زیادہ ہے کہ ایک امریکی حکم کے ساتھ معاہدہ طے پا گیا۔ یعنی ، متحدہ عرب امارات کا معاہدے کو قبول کرنا امریکہ پر مکمل انحصار کی دلیل ہے۔  چونکہ متحدہ عرب امارات نے یہ ظاہر کیا ہے کہ وہ یمن کی جنگ اور خطے میں ہونے والی تبدیلیوں کی وجہ سے کافی متاثر ہوا ہے لہذا ایک طرح سے وہ اس معاہدے کے ذریعے مزید امریکی حمایت حاصل کرنا چاہتا ہے۔

دوسری طرف ، متحدہ عرب امارات فی الحال مزاحمتی محور ، خاص کر اسلامی جمہوریہ ایران اور اخوان المسلمین کے خلاف اپنے اتحاد کو مضبوط بنانے کی کوشش کر رہا ہے۔ چونکہ اخوان المسلمین ترکی اور اردوغان کی سربراہی میں صہیونی ریاست کے خلاف سخت موقف رکھتی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ متحدہ عرب امارات نے اپنے حالیہ اقدام کے ساتھ ، اپنے علاقائی حریفوں پر دباؤ ڈالنے کے لئے صیہونیوں کے ساتھ اتحاد کرنے کی کوشش کی۔

تیسرا مسئلہ یہ ہے کہ محمد بن زید جیسے شیخ اپنے مقام و منزلت کے اعتبار سے بھی متزلزل شخصیت کے مالک ہیں ، اور اگر انہیں امریکہ کی حمایت حاصل نہ ہو تو دیگر شہزادے ان سے اقتدار کی کرسی چھین سکتے ہیں۔ محمد بن سلمان کا بھی یہی حال ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ جب بھی بن سلمان ریاستہائے متحدہ یا مغرب کی مرضی کے خلاف کچھ کرتے ہیں تو ، ان کے ممکنہ حریفوں کو فوری طور پر کھڑا کیا جاتا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ متحدہ عرب امارات اور صہیونی ریاست کے مابین حالیہ معاہدے پر اس تناظر سے بھی غور کیا جانا چاہئے۔

خیبر: بہت بہت شکریہ

 

کیا متحدہ عرب امارات اسرائیل کے ساتھ معاہدہ کرنے پر مجبور تھا؟ 1

  • ۴۴۲

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: امریکہ، صہیونی ریاست اور متحدہ عرب امارات نے جمعرات (۱۳ اگست) کو ایک مشترکہ اعلامیہ کے ذریعے عرب امارات اور اسرائیل کے مابین تعلقات کو معمول پر لانے کے حوالے سے منعقدہ معاہدہ کی خبر دی۔ خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ کے نامہ نگار نے اس حوالے سے علاقے کے حالات کے ماہر ڈاکٹر حسین آجرلو سے گفتگو کی ہے جس کا ترجمہ درج ذیل ہے؛

خیبر: آپ جانتے ہیں کہ متحدہ عرب امارات کے اسرائیل کے ساتھ کافی عرصہ سے خفیہ تعلقات برقرار تھے تو کیا اب ان تعلقات کو آشکار کرنے اور مزید مضبوط بنانے کے لیے کئے گئے معاہدے کے بعد علاقے کے حالات میں کوئی تبدیلی رونما ہو گی؟
۔ بنیادی طور پر سفارتی تعلقات استوار کرنے کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ دونوں فریق ایک دوسرے کو تسلیم کرتے ہیں یہ در حقیقت ایک سیاسی اقدام ہے۔ ایک نیا سیاسی رشتہ قائم کرنے کا ایک سیاسی پیغام ہوتا ہے، خاص طور پر اگر یہ رشتہ برسوں سے قائم نہیں رہا ہو۔ لہذا ، ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ صہیونی ریاست، امریکہ اور متحدہ عرب امارات کے ذریعہ مشترکہ بیانیہ جو دو روز قبل اعلان کیا گیا اس میں پوری دنیا کے لیے ایک پیغام ہے اور وہ ایک نئے سیاسی روابط اور سفارتکاری کا آغاز ہے کہ جو قریب ۹۰ کی دہائی سے ادھر کبھی ایسا واقعہ رونما نہیں ہوا تھا۔ خاص کر ۲۰۰۲ میں شاہ عبد اللہ کے منصوبے کے بعد جو عرب ممالک میں تبدیلیاں آ رہی ہیں ایسا لگتا ہے کہ یہ سلسلہ اور آگے بڑھے گا اور دوسرے عرب ممالک بھی اس منصوبے پر عمل پیرا ہوں گے۔

خیبر: ان تعلقات کے معمول پر آنے سے اسرائیلی حکومت کو کیا فوائد حاصل ہوں گے؟
۔ صہیونی ریاست کے لیے سب سے بڑا چیلنج یہ ہے کہ مغربی ایشیا میں اس کے پڑوسی ممالک، خصوصا عرب ہمسایہ ممالک، اسے تسلیم نہیں کرتے۔ اگر دوسرے ممالک اسے سیاسی طور پر تسلیم کریں گے اور اسے سیاسی پہچان دیں گے تو اسرائیل علاقے میں قانونی حیثیت حاصل کر لے گا۔  اور اس طریقے سے صہیونی ریاست کا سب سے بڑا چیلنج حل ہو جائے گا۔ اسی لئے ہم دیکھتے ہیں کہ اسرائیل کے وزیر اعظم نے اس اقدام کو ایک تاریخی اقدام قرار دیا ہے۔ اگرچہ انہوں نے پہلے ہی اردن اور مصر میں اپنے سفارت خانے کھول رکھے ہیں۔ لیکن حالیہ اقدام تقریبا 30-40 سال بعد انجام پایا ہے۔
اردن اور صہیونی ریاست کے مابین میڈریڈ امن کے قیام کے دوران، فلسطینی ریاست کے قیام کے حوالے سے پیشرفت ہوئی۔ کیمپ ڈیوڈ معاہدے کے بعد، مصر نے اس معاہدے کو قبول کیا اور اپنی سرزمین ’سینا‘ کا کچھ حصہ واپس کیا۔ لیکن حالیہ اقدام میں ، متحدہ عرب امارات نے کچھ حاصل کئے بغیر صہیونی ریاست کے حق میں ایک تاریخی معاہدہ انجام دیا ہے۔

دوسری بات یہ ہے کہ ٹرمپ کی صدارت کے دوران ، صیہونیوں نے اپنے متعدد منصوبوں کو عملی جامہ پہنایا۔ جیسے بیت المقدس کو جعلی ریاست کا دارالحکومت قرار دینا، جولان (گولان) کی پہاڑیوں پر اسرائیل کو مسلط کرنا اور اس کے قبضے میں دینا، اور پھر آخر میں صدی کی ڈیل۔ ایک ایسے وقت میں جب صیہونیوں اور فلسطینیوں کے مابین فاصلے اور چیلینج زیادہ سے زیادہ حد تک پہنچ گیے ہیں - خصوصا 1990 کی دہائی کے اوائل میں ہونے والی سازش کے بعد، تو ایسے حالات میں صہیونی کامیاب ہو گئے ہیں ایک ایسے ملک کے ساتھ اپنے تعلقات معمول پر لے آئیں جو ایک عربی ملک بھی ہے اور مال و دولت کے اعتبار سے بھی امیر ملک ہے۔
نیز تیسری اہم بات یہ ہے کہ نیتن یاھو کی ٹیم اس اقدام کے ذریعے انتہا پسند صہیونیوں کو امریکی انتخابات میں ٹرمپ کی حمایت پر ابھاریں گے چونکہ آنے والے انتخابات میں ٹرمپ کے حالات کچھ مناسب نظر نہیں آ رہے تھے۔  در حقیقت ، ٹرمپ اندرونی سیاست میں حالیہ معاہدے سے فائدہ اٹھانے کے خواہاں ہیں۔
اور آخری بات یہ ہے کہ متحدہ عرب امارات اور اسرائیلی حکومت کے مابین سرکاری اور سفارتی تعلقات کے آغاز سے اسرائیل کے لیے خلیج فارس کے علاقے خصوصا اسلامی جمہوریہ ایران کے پڑوس میں گھسنے کے لیے راہ ہموار ہو چکی ہے اور یہ معاہدہ خلیج فارس کے اسٹریٹجک علاقوں میں صہیونیوں کے داخلے کا جواز فراہم کرے گا اور موجودہ صورتحال میں ایران پر دباؤ ڈالنے کے لیے صہیونیوں کے نزدیک یہ اقدام ایک تاریخی اقدام ہے۔

 

انسانوں کی اسمگلنگ، غلامی کا نیا ورژن ۲

  • ۳۵۹

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: گزشتہ سے پیوستہ

ترکی میں مقیم ایک ڈاکٹر جس کا پیشہ ہی پیوند کاری کا ہوتا ہے، اس کو گرفتار کر کے اس سے پوچھ گچھ کی جاتی ہے۔ وہ کہتا ہے: میں نے کوئی غلطی نہیں کی ہے اور اس بار میرے کندھوں پر کسی کا کوئی بوجھ نہیں ہے، وہ صرف آپریشن کے لئے میرے پاس آئے تھے۔ میں نے قانون کے مطابق کوئی غلطی نہیں کی۔
انسان شناسی کے ماہر استاد ڈاکٹر شیرہاف، اس موضوع پر تجزیہ کرنے کے بعد کہتے ہیں کہ کچھ زندہ افراد بھی اس خطرے میں ہیں کہ ان کے بدن کے اعضا نکال لیے جائیں عام طور پر ترقی پذیر ممالک جیسے امریکہ، اسرائیل اور سعودی عرب وغیرہ تیسری دنیا کے لوگوں کو اپنا شکار بناتے ہیں۔ اور انہیں دوسرے ملکوں میں جاب دلانے کے بہانے لے جاتے ہیں اور وہاں تشدد، طاقت اور وباؤ سے انہیں اعضا کا عطیہ کرنے پر مجبور کرتے ہیں۔  

ڈیوک نامی ایک شخص نیپال میں رہتا ہے اور چھوٹی عمر میں اپنے گاؤں سے کھٹمنڈو چلا جاتا ہے۔ وہ وہاں کام کرنے لگتا ہے؛ مالی اور معاشی دباؤ اسے اپنے گردے فروخت کرنے پر مجبور ہوتا ہے اور اس کے بعد وہ اس کام کے لیے دلالی شروع کر لیتا ہے۔
وہ تین آدمیوں کو اپنے اعضا بیچنے کی دعوت دیتا ہے اور انہیں موٹی رقموں اور جاب کی لالچ دیتا ہے۔ وہ تینوں آدمی اس کے کہنے میں آ جاتے ہیں اور وہ انہیں بیہوش کروا کر ان کے بدن سے گردے نکلوا لیتا ہے اور اس کے بعد نہ پیسہ اور نہ ہی جاب انہیں نصیب ہوتی ہے۔
اس ڈاکومنٹری میں پھر اس بات پر بحث ہوتی ہے کہ اس معاملے میں قصور وار کون ہے؟

اینکر: ڈاکٹر صاحب برائے مہربانی اس دستاویزی فلم کے بارے میں مزید وضاحت کیجیے۔
اس ڈاکومنٹری کے بارے میں مزید وضاحت کرنے سے پہلے ہمیں اسرائیل کو مختلف ذاویوں سے جانچنا ہو گا۔ چونکہ اسرائیل ہی اس کام کو مینیج کرتا ہے۔ پہلی دلیل ان کا عقیدتی نظریہ ہے یہودیوں کا ماننا ہے کہ یہودی کے علاوہ کوئی دوسرا شخص انسان نہیں ہے۔ اور باقی لوگ انہیں کاموں کے لیے پیدا کئے گئے ہیں۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ یہودی صرف دنیا کی زندگی کے لالچ میں ہیں اور وہ زندہ رہنے کے لئے کچھ بھی کرنے کو تیار ہیں۔
اینکر: کیا یہ یہودی وہی صہیونی ہیں اور کیا اس کام کو صرف صہیونی انجام دیتے ہیں یا یہودی بھی شامل ہیں؟
دیکھیے اگر کوئی یہودی نسل پرست نہیں ہے یا غاصب نہیں ہے یا آمرانہ افکار کا مالک نہیں ہے تو ہم اس کے لیے احترام کے قائل ہیں لیکن اگر مذکورہ خصلتوں کا حامل ہے تو وہ صہیونیوں کی فہرست میں آئے گا۔
کچھ سال قبل ’قصائی فرشتے‘‘ (Butcher Angels) نامی ایک فلم بنی تھی جس میں افغانستان میں یہودیوں کے ذریعے حالات کا جائزہ لیا گیا تھا۔ اس فلم کے علاوہ ہمارے پاس دیگر ثبوت بھی ہیں۔
اس فلم میں یہ دکھایا گیا ہے کہ انسانوں کی اسمگلنگ ہوتی ہے لیکن یہ نہیں بتایا گیا کہ اس پیچھے کس کا ہاتھ ہے فلم میں صہیونیوں کا کردار بالکل مخفی رکھا گیا ہے۔ یہ ان کی ایک چال ہے۔
خیبر: فلم قصائی فرشتے سہیل سلیمی کی بنائی ہوئی فلم ہے، جو متعدد بار ایرانی ٹی وی چینلز پر نشر کی جاچکی ہے۔  اس فلم میں کچھ اہم نقائص پائے جاتے ہیں جن کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ بہرحال صیہونیت اور انسانی سمگلنگ کے حوالے سے مزید مطالعے کے لیے سومبارٹ کی لکھی ہوئی کتاب ’یہودیوں کی اقتصادی زندگی‘ کی طرف رجوع کریں۔

 

انسانوں کی اسمگلنگ، غلامی کا نیا ورژن ۱

  • ۳۹۳

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: آج انسان جتنا دین سے دور ہو کر جدیدیت کی طرف بڑھ رہا ہے، انحراف اور گمراہی کے تاریکیوں میں اتنا زیادہ گم ہوتا جا رہا ہے۔ اس کے نتیجے میں عصر جاہلیت کے جرائم ایک نئی شکل و صورت اختیار کر رہے ہیں۔ جن میں سے اہم ترین غلامی ہے۔
انسانی سمگلنگ جدید غلامی کی ایک قسم ہے جس میں غریب اور فقیر لوگوں کو اسمگل کیا جاتا ہے۔ اسمگلنگ کی تین قسمیں ہیں:
۔ بدکاری کا رواج
۔ انسانوں کی اسمگلنگ
۔ بدن کے اعضا کی اسمگلنگ
اعدادوشمار کے مطابق ، دنیا کے 127 ممالک اس کاروبار میں ملوث ہیں۔ آئرش اخبار نے اس حقیقت کا انکشاف کیا ہے کہ بدن کے اعضاء دولت مند صہیونیوں کو فروخت کیے جاتے ہیں۔ ایران کے افق چینل نے انسانی اعضا کی اسمگلنگ کے حوالے سے  ایک ڈاکومنٹری نشر کی اور اس پر تبصرہ کے لیے ڈاکٹر ’علی رضا سلطان شاہی‘ کے ساتھ گفتگو کی ہے جسے چند حصوں میں قارئین کے لیے پیش کرنے کی کوشش کرتے ہیں؛
 
انسان نام کے سامان کی خرید و فروخت
اینکر: اسمگلنگ کی مختلف قسمیں ہیں۔ لیکن بدن کے اعضا کی اسمگلنگ غیر معقول کام ہے۔ ہم صہیونی حکومت کو اس میدان میں سرگرم کارکنوں کی حیثیت سے دیکھتے ہیں۔ آپ کی اس بارے میں کیا رائے ہے۔
ڈاکٹر سلطان شاہی: اس موضوع پر تفصیلی گفتگو کرنے سے پہلے مناسب سمجھتا ہوں کہ تمہیدی طور پر ایک مقدمہ بیان کروں۔ کچھ وجوہات کی بنا پر اگر کسی انسان کا کوئی عضو ناقص ہو جائے تو کوئی شخص جانفشانی اور فداکاری کرتے ہوئے اپنا کوئی عضو اسے عطیہ کر دے تو یہ اس انسان کی بزرگی اور کرامت ہے۔ لیکن اسمگلنگ کا مسئلہ بالکل الگ ہے۔ اس میں کوئی ایسی نیت نہیں ہوتی۔ اس کام میں زیادہ منفعت ہونے کی وجہ سے کچھ لوگ اپنا کوئی عضو دوسرے کو فروخت کر دیتے ہیں، اس کا نام تجارت ہے انسانی شرافت اور کرامت سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ مفاد پرست لوگ مختلف طریقوں سے چاہے وہ انسانوں کی اسمگلنگ کر کے یا ان کے اعضاء کی اسمگلنگ کر کے اپنے بازار کو رونق دینے کی کوشش کرتے ہیں۔
یہ ڈاکومنٹری جو نشر کی گئی در حقیقت دو ریٹائرڈ پولیس افسران سے شروع ہوتی ہے، جن میں سے ایک گیڈی نامی اسرائیلی افسر ہوتا ہے اور دوسرا ایوان نامی برازیل کا رہنے والا۔ اصل قضیہ یہ ہے کہ یہ دونوں اعضا کی اسمگلنگ کی جانچ پڑتال کرتے ہیں۔ اور حقائق کو برملا کرنے کے جرم میں کئی سال جیل میں بھیج دیے جاتے ہیں۔
یہ دو افراد اپنی تحقیقات کے دوران ایسے افراد کے پاس جاتے ہیں جو فقر و تنگدستی یا جہالت کی وجہ سے اپنے بدن کے اعضا خصوصا گردے بیچ ڈالتے ہیں۔ اس کے علاوہ وہ جنگیں جو اسرائیلیوں اور یہودیوں کے یہاں ہوتی رہی ہیں ان میں مارے جانے والوں کے بدن کا پوسٹ ماٹم کر کے ان کے سالم اعضا کو فروخت کیا جاتا تھا نہ صرف جنگ میں مارے جانے والے بلکہ وہ افراد جنہیں پھانسی دی جاتی تھی ان کے ساتھ بھی یہی سلوک ہوتا تھا۔
ان ریٹائرڈ افسران کی زبان سے وضاحت کے بعد دو چچازاد بھائیوں کے پاس جاتے ہیں کہ جنہوں نے فقر و ناداری کی وجہ سے اپنے گروں کو فروخت کیا ہوتا ہے، برازیلیوں کا کہنا ہے کہ ان کے بچوں کو مرنے کے بعد سردخانے میں منتقل کیا جاتا تھا اور ان کے بدن سے تمام اندرونی اعضا نکال لئے جاتے تھے تحقیق کے بعد معلوم ہوا کہ اس ہسپتال میں کام کرنے والا عملہ اسرائیلی تھا۔

جاری

مکالمہ/امریکی سمجھتے تھے کہ انصار اللہ چھ مہینوں میں شکست کھائی گی

  • ۴۰۳

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: اسٹاک ہوم (Stockholm) مذاکرات کے بعد بنی سعود ذرائع ابلاغ کی جنگ میں اپنے آپ کو اس جنگ کا فاتح قرار دے رہے ہیں جبکہ یمنی عوام کی چار سالہ مزاحمت اور پامردی نے خلیج فارس کی عرب شیخ نشین ریاستوں کو اپنی ہوسناکیوں تک پہنچنے سے ناامید کیا۔
مغربی ایشیا اور شمالی افریقہ کے امور کے تجزیہ نگار اور لبنان میں اسلامی جمہوریہ ایران سابق ناظم الامور ڈاکٹر سید ہادی سید افقہی نے “رجا نیوز” ویب گاہ کو انٹرویو دیتے ہوئے حالیہ مذاکرات میں سعودیوں کی طرف سے کامیابی کے دعؤوں، یمن پر ان کی جارحیت کی تازہ ترین صورت حال، ملک یمن کے مستقبل اور مغربی ـ عربی محاذ کی سازشوں اور حالیہ اقدامات کا جائزہ لیا ہے:
سوال: ابتدائی سوال کے طور پر، آپ فرمائیں کہ اسٹاک ہوم کے امن مذاکرات کے سلسلے میں آپ کا تجزیہ کیا ہے، اور ان مذاکرات میں سعودیوں کی طرف سے ہونے والے فتح و کامیابی کے دعوے کس حد تک درست ہیں؟
جواب: سعودیوں اور منصورہادی سے وابستہ گروپوں کی طرف سے مذاکرات میں کامیابی کے دعوے بےبنیاد ہیں؛ وہ شیخیاں بگھارنے کے عادی ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اگر ان کا دعوی سچا ہے اور وہ مذاکرات میں کامیاب ہوئے ہیں تو پھر ابھی تک وہ یمن پر بمباری کیوں کررہے ہیں؟ ابھی تک مذاکرات میں طے پانے والے نکات کی خلاف ورزی کیوں کررہے ہیں؟ ابھی تک یمن کا محاصرہ جاری کیوں ہے؟ یہاں تک کہ اقوام متحدہ اور یمن کے لئے اس ولندیزی ایلچی نے بھی احتجاج کیا ہے، اور انھوں نے کہا کہ “بعض فریق روڑے اٹکا رہے ہیں”؛ اور ہم پوچھتے ہیں کہ کون روڑے اٹکا رہا ہے؟ کون ہے جو الحدیدہ کی طرف جانے والے بحری جہازوں کا راستہ روک رہا ہے؟ کون سا فریق ہے جو ابھی تک الحدیدہ اور اس کے اطراف پر بمباری کررہا ہے؟ جواب: سعودی عرب۔
دوسری طرف انصار اللہ اور انقلابی کمیٹیوں کی بالادستی ہے کیونکہ وہ اسٹاک ہوم میں ہونے والی مفاہمت پر خوش تھے اور ایک سفارتی کامیابی حاصل کرچکے تھے، کیونکہ اقوام متحدہ نے پہلی بار انہیں جنگ یمن کے ایک اہم فریق کے طور پر تسلیم کرلیا تھا اور ان کو مذاکرات کی دعوت دی تھی۔ وہ اسٹاک ہوم پہنچے اور ایک مفاہمت نامے کے فریق کے طور پر مذاکرات میں شریک ہوئے اور قیدیوں اور لاشوں کے تبادلے کے مفاہمت نامے پر دستخط کئے۔ چنانچہ ان مذاکرات میں کامیاب فریق وہ ہے جو اس کا پابند ہو اور ہم دیکھ رہے ہیں کہ انصار اللہ ابھی تک اس مفاہمت کی پابندی کررہا ہے جبکہ مخالف فریق روڑے اٹکا رہا ہے اور خلاف ورزی کررہا ہے۔ چنانچہ سعودی اور ان کے شرکاء اپنی شکست کا جواز تلاش کررہے ہیں اور اور کہتے ہیں کہ “ہم کامیاب ہوئے ہیں”، حالانکہ وہ اسٹاک ہوم میں ان مذاکرات پر مجبور ہوئے تھے اور انہیں بہ امر مجبوری مذاکرات کی میز پر آنا پڑا تھا۔
سوال: آپ نے بھی اشارہ کیا اور یہ ایک عمومی خیال ہے کہ یمن کی جنگ اور خاشقجی کے قتل کے بعد سعودیوں کو شدید دباؤ کا سامنا تھا اور وہ اسی بنا پر مذاکرات پر مجبور ہوئے اور وہ اس اقدام کو ایک “چال” قرار دے رہے ہیں تاکہ بین الاقوامی دباؤ میں کمی آجائے؛ آپ اس بارے میں کیا کہنا چاہیں گے؟
جواب: میرے خیال میں بعید از قیاس نہیں ہے کہ سعودی اور اماراتی اس جنگ سے جان چھڑانا چاہتے ہیں کیونکہ بین الاقوامی دباؤ کے لحاظ سے بھی، اخلاقی لحاظ سے بھی، بین الاقوامی قوانین و ضوابط کے لحاظ سے بھی اور جانی نقصانات کے لحاظ سے بھی، وہ اس جنگ کے خاتمے کے خواہاں ہیں؛ علاوہ ازیں اس جنگ کے عظیم مصارف و اخراجات بھی سعودیوں اور کسی حد تک اماراتیوں کے لئے بھاری پڑ رہے ہیں۔ ہم دیکھ رہے ہیں کہ سعودی عرب دو سالوں سے بجٹ میں بڑے خسارے کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ سعودی اس جنگ کے خاتمے کے خواہاں ہیں لیکن وہ یہ نہیں چاہتے کہ اس جنگ کا فاتح فریق انصار اللہ ہو۔
کیونکہ یہ مسئلہ ایک طرف سے ان کے لئے بہت بڑی شکست کے طور پر ابھرے گا اور دوسری طرف سے سعودیوں کے لئے بہت زیادہ سیاسی اور علاقائی تزویری نقصانات کا سبب بنے گا؛ یہ مسئلہ سعودی عرب کے اندر بھی ایک بحران کا سبب بنے گا اور سعودی حکمرانوں سے پوچھا جائے گا کہ “تم نے چار سال تک یہ غیر مفید اور نقصان دہ جنگ کیوں لڑی جس کے نتیجے میں شکست کھا کر اور یمن کو ایران کے حامیوں کے سپرد کرکے واپس آئے ہو؟ پس یہ مسئلہ کہ یہ لوگ جنگ کا خاتمہ چاہتے ہیں اور ساتھ ہی چاہتے ہیں کہ انہیں اس جنگ کا فاتح مانا جائے، اور اگر نہیں تو کم از کم انہیں شکست خوردہ نہ دکھایا جائے! وہ یمن کو بھی جنگ اور امن کی درمیانی حالت میں رکھنا چاہتے ہیں کیونکہ وہ کسی حال میں بھی راضی نہیں ہوتے کہ انصار اللہ ـ جسے وہ اپنا شدید ترین دشمن سمجھتے ہیں ـ یمن میں اقتدار حاصل کرے یا یمن کی وفاق ملی (قومی اتحاد) کی حکومت کا ایک بڑا حصہ انصار اللہ کے ہاتھ میں ہو اور جنگ بندی کے بعد بننے والی حکومت میں ایسی قوت یمنی حکومت کے ایک حصے کے طور پر ان کے برابر آکر بیٹھ جائے جو کل تک ان کی شدید ترین دشمن تھی۔
چنانچہ کہا جاسکتا ہے کہ اس وقت ایک طرف سے سعودیوں کو شدید دباؤ کا سامنا ہے اور دوسری طرف سے ساکھ اور حیثیت کا مسئلہ بھی درپیش ہے اور وہ تمام اخراجات بھی ستا رہے ہیں جو انھوں نے اس جنگ کے لئے اٹھائے ہیں۔ چنانچہ انہیں شدید ترین مسائل اور چیلنجوں کا سامنا ہے، جو انہیں جنگ کے خاتمے پر مجبور کرتے ہیں، چنانچہ وہ بین الاقوامی دباؤ کم کرنے کے لئے مذاکرات پر رضامند ہوجاتے ہیں اور حتی کہ مذاکرات میں شریک ہوتے ہیں اور ممکن ہے کہ بعض مفاہمت ناموں پر دستخط بھی کرلیں لیکن وہ درحقیقت چاہتے یہ ہیں کہ انصار اللہ کو کسی بھی صورت میں یمن کی سیاست میں کردار ادا نہ کرنے دیا جائے اور یمن کی سیاست سے اس کو حذف کیا جائے۔ البتہ ممکن ہے کہ سعودی اتحاد شمالی صوبے “صعدہ” اور “الحدیدہ” وغیرہ میں ایک قسم کی خودمختاری دینا چاہے لیکن وہ فی الحال یہ برداشت کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں کہ انصار اللہ یمن کے مستقبل میں کوئی بنیادی کردار ادا کرے۔
سوال: آج کل یمن کی دو “شمالی اور جنوبی” حصوں میں تقسیم کے بارے میں چہ میگیوئیاں ہورہی ہیں؛ اور یمن کے مختلف علاقوں میں مختلف جماعتوں کی تعیناتی کی کیفیت سے بھی اس مسئلے کی تصدیق ہوتی ہے؛ آپ کی نظر میں کیا یہ درست ہے؟
جواب: یمن اسی وقت عملی طور پر تقسیم ہوچکا ہے گوکہ یہ تقسیم رسمی اور باضابطہ نہیں ہے۔ لیکن عالمی برادری اس تقسیم کو تسلیم نہیں کرے گی اور انصار اللہ بھی قبول نہیں کرتی کہ یمن کو ماضی کی طرح تقسیم کیا جائے ‌جب شمالی یمن کا دارالحکومت صنعا تھا اور جنوبی یمن کا دارالحکومت عدن۔
اس کو حتی یمن کی کانگریس پارٹی اور انصار اللہ میں سے کوئی بھی برداشت کرنے کے لئے تیار نہیں ہے لیکن بدقسمتی سے جنوبی یمن میں اس کے لئے ماحول تیار ہے اور کئی اطراف سے اس کو تقویت مل رہی ہے۔ جنوبی یمن خودمختاری کا اعلان کرے گا تو سعودی اور اماراتی کم از کم کہہ سکیں گے کہ “اگرچہ ہم پورے یمن پر قابض نہیں ہوسکے اور انصار اللہ کو یمن کی سیاست سے نکال باہر کرنے میں ناکام ہوئے لیکن اب اس سمت میں بڑھتے ہیں”۔
دوسری بات یہ ہے کہ جنوب کی علیحدگی پسند تحریک عدن میں یہی کچھ چاہتی ہے۔ وہ کہتی ہے کہ “ہم پلٹ کر آنا چاہتے ہیں اور اپنے جنوبی یمن کو ایک بار زندہ کردیتے ہیں”۔
تیسرا مسئلہ القاعدہ، داعش اور ان جیسی تنظیموں کا ہے جو اس وقت جنوبی یمن میں موجود ہیں اور پھر یہودی ریاست (اسرائیل) بھی یمن کے اتحاد کو نہیں چاہتی۔ امریکہ بھی چاہتا ہے کہ اس ملک میں جنگ کا سلسلہ اس قدر طویل ہوجائے کہ یہاں موجود تمام قوتیں فرسودگی سے دوچار ہوجائیں اور یہ استکباری اور استعماری طاقت یمن کے تیل کے کنؤوں اور اس کی حساس آبناؤں پر براہ راست قابو پا لے۔
ایک روئیداد یہ بھی کہ صوبہ المہرہ کے عوام اور قبائل اس وقت سعودی قبضے اور اس صوبے میں سعودی فوجی اڈوں کے قیام کے فیصلے کے خلاف احتجاجی مظاہرے کررہے ہیں۔
جہاں تک عدن کا تعلق ہے تو یہاں مختلف تنظیموں کے درمیان خونریز لڑائیاں جاری ہیں اور نام نہاد یمنی صدر منصور ہادی عدن سے دور سعودی عرب میں رہائش پذیر ہیں، کیونکہ وہ یمن میں طویل عرصے تک قیام کرنے سے خوفزدہ رہتے ہیں کہ کہیں انہیں کسی قاتلانہ حملے کا نشانہ بنا کر قتل نہ کیا جائے۔ شمال میں بیرونی حملوں کے علاوہ، اندرونی سطح پر مکمل امن قائم ہے جبکہ جنوبی یمن شدید بدامنی کا شکار ہے۔
شمال میں کم ہی ایسا کوئی واقعہ رونما ہوتا ہے۔ شمال میں مختلف گروپوں کے درمیان جنگ کی صورت حال نہیں ہے۔ شمال میں انصار اللہ، انقلابی کمیٹیاں اور یمنی افواج متحد ہیں اور ان کا مقابلہ سعودی حملہ آوروں سے ہے اور یہ معمول کی لڑائی ہے لیکن غیر معمولی لڑائیاں جنوب میں جاری ہیں۔ ہر تنظیم کسی بندرگاہ یا کسی جزیرے پر مسلط ہونا چاہتی ہے جس کی وجہ سے ان کے درمیان لڑائیاں چھڑ جاتی ہیں۔ جیسا کہ ہم جانتے ہیں منصور ہادی نے امارات کے ساتھ ایک سو سالہ معاہدے پر دستخط کئے ہیں جس کے تحت یمن کے سقوطرا (Socotra) جزائر ایک صدی تک امارات کے سپرد کئے گئے ہیں۔ امارات نے ان جزائر میں فوجی دستے بھی اتارے ہیں اور فوجی اڈوں کی تعمیر میں مصروف ہے۔ لہذا یمن کی تقسیم کا مسئلہ سنجیدہ اور باعث تشویش ہے؛ یہ الگ بات ہے کہ کیا عالمی برادری اس اماراتی اقدام کو تسلیم کرتی ہے یا نہیں، اور مسقبل میں کیا واقعات رونما ہونے والے ہیں، یہ سب اگلے سیاسی مذاکرات پر منحصر ہے۔
سوال: ڈاکٹر صاحب! آپ نے یمن میں امریکہ کے تباہ کن کردار کی طرف اشارہ کیا۔ کیا آپ یمن میں امریکہ، برطانیہ اور فرانس سمیت عالمی طاقتوں کے کردار کی وضاحت کریں گے؟
جواب: جی ہاں! اصل کھلاڑی یہی ممالک ہیں لیکن پس پردہ۔
سوال: کیا یہ ممالک میدان میں بھی موجود ہیں؟
جواب: جی ہاں میدان میں بھی موجود ہیں۔ آپ کو یقینا معلوم ہوگا کہ بہت سے امریکی، فرانسیسی، برطانوی اور مصری اور دوسرے ممالک کے ہوابازوں (پائلٹوں) کو سعودی عرب اور امارات نے بھرتی کرلیا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے۔ اسی بنا پر اب امارات اور سعودی عرب میں ان پائلٹوں کے درمیان جھگڑا چل رہا ہے اور مصری پائلٹ کہتے ہیں کہ امریکی اور برطانوی پائلٹوں کو ۲۵۰۰۰ ڈالر ماہانہ تنخواہ دی جارہی ہے لیکن انہیں صرف ۸۰۰۰ ڈالر دیئے جارہے ہیں، ایسا کیوں ہے؟ یہ بہت بڑی رسوائی ہے جارح ملکوں کے لئے۔
حدیدہ کے مسئلے میں یہ سب اکٹھے ہیں۔ عرصہ چار مہینوں سے ان تمام ممالک نے مل کر حدیدہ کی بندرگاہ، شہر اور ہوائی اڈے پر قبضہ کرنے کی کوششیں کی ہیں لیکن ناکام ہوچکے ہیں۔ اس حملے کے لئے امریکی، برطانوی، فرانسیسی اور اسرائیلی سب آئے ہیں اور ہمیں موثق ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ انصار اللہ نے ان جھڑپوں کے دوران فرانسیسی اور اسرائیلی قیدی بھی پکڑ لئے ہیں۔
جی ہاں یہ سب یمن میں موجود ہیں، مغرب اور یہودی ریاست کے مشترکہ کنٹرول رومز سعودی عرب اور امارات اور یمن کے بعض مقبوضہ علاقوں میں قائم ہیں۔ جو ہتھیار وہ اعلانیہ فروخت کرچکے ہیں، ان کے علاوہ اسلحے کے خفیہ سودے بھی ہورہے ہیں۔ امریکہ کانگریس کی شدید مخالفت کے باوجود سعودی عرب اور امارات کو اسلحہ فراہم کررہا ہے۔
بنیادی موضوع امریکی لالچ ہے اور وہ بحیرہ احمر اور نہر سوئز پر کنٹرول حاصل کرنا چاہتا ہے۔ وہ حتی کہ آبنائے باب المندب اور آبنائے ہرمز کے درمیان ایک آبی حفاظتی انتظام کو عملی جامہ پہنانے کی کوشش کررہا ہے تا کہ ایران کے تیل بردار اور تجارتی جہازوں کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کرسکے۔ یعنی کھیل ایک امریکی کھیل ہے، ورنہ سعودیوں کی کیا جرأت کہ وہ امریکہ کی اجازت کے بغیر یمن میں اتنی خونریزی کرے؟ یقینا وہ جو بھی کرتے ہیں امریکی اجازت سے کرتے ہیں۔
سوال: آپ نے یمن میں استکباری طاقتوں کے تباہ کن کردار کی طرف اشارہ کیا اور پھر مذاکرات کا مسئلہ بھی حساس مرحلے تک پہنچ چکا ہے، کیا آپ سمجھتے ہیں کہ امریکہ جیسے ممالک کا کردار جنگ کے بعد بھی اس ملک میں سیاسی اور اقتصادی سانچوں میں جاری رہے گا؟ اگر یمنی آپس میں صلح کرلیں تو وہ اس امریکی کردار سے نمٹنے کے لئے کیا کچھ کرسکتے ہیں؟
جواب: اس موضوع کو سمجھنے کے لئے ہمیں ان کے پروگراموں اور منصوبوں پر غور کرنا پڑے گا۔ امریکی تین قسم کے منصوبوں پر کام کرتا ہے: ہنگامی منصوبہ، وسط مدتی منصوبہ اور طویل المدت منصوبہ۔ مثال کے طور پر عراق میں امریکہ نے ہنگامی منصوبے کے تحت داعش کو مسلط کیا؛ پروگرام یہ تھا کہ داعش آکر چھ مہینوں کے عرصے میں عراق پر مسلط ہوجائے، اور شام اور عراق میں اسلامی خلافت کا اعلان کرے اور پھر شام پر حملہ کرے اور اپنی خلافت کو وسعت دے اور پھر ایران کی طرف آجائے۔ [اور جب داعش ظہور پذیر ہوئی تو امریکہ نے داعش کے خلاف نام نہاد لڑائی کے لئے ایک اتحاد بھی قائم کیا اور اعلان کیا کہ داعش کے مکمل خاتمے کے لئے دو عشرے وقت درکار ہے]؛ یہ الگ بات ہے کہ یہ ہنگامی امریکی منصوبہ کامیاب نہیں ہوسکا، عراق میں الحشد الشعبی قائم ہوئی، اسلامی جمہوریہ ایران نے مدد کی اور ایران عراقی عوام اور مسلح افواج کے ساتھ مل کر داعش کو شکست دینے میں کامیاب ہوا۔
یعنی یہ کہ امریکہ معمول کے مطابق وسط مدتی منصوبہ پیش کرنے میں بھی ناکام ہوا، اور اب وہ اس منصوبے کے لئے داعش کے دوسرے جنم کا انتظام کررہا ہے۔ امریکہ نے داعش کی کمانڈ کو محفوظ رکھا اور کمانڈروں اور اہم افراد کو دوسرے ممالک میں منتقل کیا اور کچھ کو عراق اور شام کے مختلف علاقوں میں بسایا۔ اس وقت وہ داعش کو ہر قسم کی امداد پہنچا رہا ہے اور داعش کے مستقبل کی ریشہ دوانیوں کے لئے منصوبہ سازی کررہا ہے۔ عراقی علاقوں “کرکوک، دیال اور الانبار” کے نواحی علاقوں میں ـ خصوصا عراق اور شام کے سرحدی علاقوں میں ـ ان کی خاطر تواضع کررہا ہے؛ وہ عراق اور شام کے درمیان زمینی سرحد کو بند کرنا چاہا ہے، ایران کو محدود کرنے کی سازشیں کررہا ہے اور ایران کی بحیرہ روم تک رسائی کی راہ میں رکاوٹ ڈالنا چاہتا ہے۔ یہ سب یہاں ہورہا ہے چنانچہ یمن میں بھی ان کا ایک ہنگامی منصوبہ ہے۔
ہنگامی منصوبے کے تحت، ان کے بزعم، انصار اللہ کو ہتھیار ڈالنے پر مجبور کیا جانا تھا، لیکن یہ منصوبہ ناکام ہوچکا ہے جنانچہ اب انصار اللہ کو مذاکرات کی دعوتیں دی جارہی ہیں؛ اور اس سے بڑھ کر ممکن ہے کہ وہ اگلی یمنی حکومت میں انصار اللہ کو اچھا خاصا حصہ دلوانے کے لئے بھی تیار ہوجائیں اور انہیں توقع ہوگی کہ انصار اللہ حکومت کے انتظام و انصرام میں ناکام ہوجائے، یمن کی تعمیر نو میں ناکام ہوجائے، اور عوامی مطالبات کی تکمیل نہ کرسکے اور یوں عوام اور انصار اللہ کے درمیان فاصلہ پڑے۔
وہ درحقیقت یہاں وہی کچھ کرنا چاہتے ہیں جو انھوں نے مصر میں کیا، ابتداء میں انھوں نے اخوان المسلمین کو اقتدار تک پہنچایا تا کہ وہ آکر اپنے تمام پتے خرچ کرے، اور انہیں روزمرہ کے مسائل میں الجھایا یہاں تک کہ عوام ناراض ہوگئے اور احتجاجی مظاہرے ہوئے، اور پھر ایک بغاوت کے مشابہ اقدام کے ذریعے اخوانی حکومت کا تختہ الٹ دیا اور جنرل السیسی کو میدان میں لا کھڑا کیا جو جنرل سادات اور جنرل حسنی مبارک سے کہیں زیادہ خطرناک آمر ہیں، ممکن ہے کہ یمن کے لئے بھی ان کا ایسا ہی کوئی منصوبہ ہو جس کے لئے انصار اللہ اور انقلابی قوتیں پہلے سے تیار ہیں، اسی لئے وہ کبھی بھی اقوام متحدہ، امریکہ یا خلیجی ریاستیں کی دی ہوئی تجاویز کو من و عن قبول نہیں کریں گے، کیونکہ یہ سب ایک جیسے ہیں؛ وہ اسی بنا پر ہوشیاری اور زیرکی کے ساتھ حالات پر نظر رکھے ہوئے ہیں؛ یقینا انہیں اپنے شہیدوں کے خون کا پاس رکھنا پڑے گا اور ہمدرد قوتوں کے مشورے سے فائدہ اٹھانا پڑے گا۔
۔ڈاکٹر صاحب آپ کا بہت شکریہ۔
۔میں بھی آپ کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ترجمہ: فرحت حسین مہدوی

 

عرب حکمرانوں کی یہود نوازی کا مقصد اپنے تاج و تخت کا تحفظ

  • ۳۷۴

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: شیخ عبدالسلام الوجیہ نے علاقے میں سعودی فتنہ انگیزیوں اور حج کی بدانتظامی پر تنقید کرتے ہوئے کہا: عرصہ ایک صدی سے مناسکِ حج ـ سعودی انتظام کے تحت ـ اپنی حقیقی روح سے خالی ہوچکا ہے۔
انھوں نے کہا کہ بعض عرب حکمران آج ببانگ دھل یہودی ریاست کی حمایت کرتے ہیں اور اس کے ساتھ تعلقات کے قیام کے نغمے گاتے ہیں، تو ان کا اصل ہدف یہ ہے کہ اپنے لرزتے کانپتے تاج و تخت کو محفوظ اور اپنی حکمرانی کو قائم رکھ سکیں۔
انھوں نے کہا کہ سعودی حکمران حتی کہ ایک صدی سے حج کا انتظآم سعودیوں کے ہاتھ میں ہے لیکن وہ اس میں ناکام ہوجکے ہیں اور حج اپنی اصلی روح سے خالی ہوچکا ہے اور یہ حج مسلمانوں کے درمیان اتحاد و اتفاق قائم کرنے اور دشمنان دین و امت کے خلاف موقف اپنانے سے عاجز ہے؛ یہی نہیں بلکہ بنی سعود حرمین شریفین کو عربوں اور مسلمانوں کے درمیان فتنہ انگیزی اور نسل پرستی کی ترویج کے لئے استعمال کررہے ہیں۔
حوزہ نیوز نے حال ہی میں انجمن علمائے یمن، شیخ عبدالسلام الوجیہ کے ساتھ ایک مکالمہ ترتیب دیا ہے جس کا اردو ترجمہ پیش خدمت ہے:
سوال: عرب حکمران موجودہ صورت حال میں یہودی ریاست کے ساتھ عرب حکومتوں کے تعلقات قائم کرنے کا مقصد کیا ہے؟
– کٹھ پتلی اور وابستہ حکومتوں کی طرف سے یہودی ریاست کے ساتھ تعلقات قائم کرنے کا اصل مقصد ان حکمرانوں کے لرزتے کانپتے تاج و تخت کا تحفظ اور اپنے اقتدار کی بقاء ہے؛ وہی تاج و تخت جو ابتداء میں بھی مغربی استعمار نے اسلامی امت کے مقدرات اور وسائل پر تسلط جمانے کے لئے انہیں عطا کیا تھا؛ ان حکمرانوں کو اقتدار مغرب نے دیا ہے اور سب جانتے ہیں کہ ان کی اکثریت نے استعمار و استکبار کے ہاتھوں علاقوں کی تقسیم کی تاریخی سازش سے جنم لیا ہے تا کہ چھوٹی چھوٹی کٹھ پتلی ریاستیں معرض وجود میں آئیں، ان ہی سے وابستہ اور ان ہی کے دست نگر رہیں اور ان کی سازشوں پر بلا چون و چرا عملدرآمد کیا کریں اور عالم اسلام کی دولت، وسائل اور مستقبل کو اسلام دشمن طاقتوں کے سپرد کیا کریں؛ اسلام دشمنی کو اسلام اور فرقہ واریت کے لبادے اپنا نصب العین قرار دیں اور حریت پسند اسلامی تحریکوں اور اسلامی مزاحمت کا مقابلہ کریں اور ان کے دشمنوں کے اتحادی بنیں۔ یہ نظام ہائے حکومت اپنی تاسیس سے لےکر آج تک ایک تکلیف دہ پتھر کی مانند علاقے کی اصلاحی تحریکوں کی راہ میں پڑے ہیں اور ابتداء ہی سے عالمی استکباری طاقتوں کے اطاعت گزار ہیں۔
یہ نظام ہائے حکومت گمان کرتے ہیں کہ یہودی ریاست اور امریکہ کے ساتھ تعلقات کی بحالی انہیں اقوام کی بیداری اور مسلمانوں کے انقلاب غیظ و غضب کے آگے، ان کی بقاء کی ضمانت دے گی۔
سوال: آج عرب ممالک فلسطین اور قبلہ اول سے علی الاعلان غداری کررہے ہیں، آپ کے خیال میں امریکی صدر ٹرمپ اور ان کے [یہودی] داماد جیرڈ کوشنر (Jared Kushner) کا اس عربی رجحان میں کیا کردار کیا ہے؟
– امریکہ یہودی ریاست کا سب سے پہلا اتحادی تھا اور ہے، جبکہ برطانیہ اس کا بانی تھا جس کا کردار امریکہ نے سنبھالا اور آج بھی عالم اسلام کے قلب میں واقع اس سرطانی پھوڑے کی حمایت میں برطانیہ کے متبادل کا کردار ادا کررہا ہے؛ امریکی صدور اور حکومتیں یکے بعد دیگرے یہودی ریاست کی حامی رہی ہیں اور فلسطینی قوم کے خلاف مختلف حربے نیز اپنی ابلاغیاتی، عسکری، فکری، ثقافتی اور سیاسی طاقت استعمال کی ہے؛ اور انھوں نے آج تک تمام بین الاقوامی فیصلوں اور اقوام متحدہ کی قراردادوں کو ـ جن میں فلسطینیوں کا مفاد مد نظر رکھا گیا تھا ـ شکست سے دوچار کردیا ہے اور سلامتی کونسل میں اپنی خصوصی حیثیت سے ناجائزہ فائدہ اٹھا کر فلسطینی قوم سمیت دنیا کی مستضعف اور محروم اقوام کے خلاف اقدام کرچکے ہیں۔ مختصر یہ کہ بیسویں صدی عیسوی کے نصف دوئم سے لے کر آج تک اس سلسلے میں امریکہ نے اپنا خبیث اور پلید کردار جاری رکھا ہے۔ جن ممالک نے یہودی ریاست کے ساتھ تعلقات کی بحالی کے لئے قدم بڑھایا ہے وہ بھی امریکہ ہی کے دست نگر ہیں اور ٹرمپ اور ان کے داماد کا کردار اس سلسلے میں ناقابل انکار ہے۔
سوال: صدی ڈیل سمیت اسلام دشمن طاقتوں کی سازشوں کو کیونکر ناکام بنایا جاسکتا ہے؟ صدی ڈیل کا مقصد کیا ہے؟
– اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ فلسطینی عوام کی مزاحمت اور واپسی کے لئے ہونے والے احتجاجی مظاہرے، بدستور ٹرمپ کی راستے میں اہم رکاوٹ ہیں جس کے باعث اس شرمناک سودے کا باضابطہ اعلان مؤخر ہوا ہے اور امریکہ کے علاقائی غلام بھی زچ ہوچکے ہیں اور ان کے سامنے کوئی راستہ باقی نہیں رہا ہے۔ اور بےشک فلسطینی عوام نیز محاذ مزاحمت کی جدوجہد، نیز عراق اور شام اور یمن میں اس محاذ کی عظیم کامیابیاں بتا رہی ہیں کہ یہ ذلت آمیز معاہدہ نتیجہ خیز نہیں ہوگا اور فلسطین کی مجاہد عرب ملت اور مسلم اقوام کی بیداری نیز اسلامی جمہوریہ ایران کی کوششیں ناقابل تسخیر پہاڑ کی طرح ان سازشوں سے نمٹ لیں گی اور غاصب یہودی ریاست کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے کے لئے ہونے والی تمام تر سازشوں کو نیست و نابود کریں گی۔ گوکہ اس ہدف کے حصول کے لئے زیادہ سے زیادہ محنت نیز حریت پسندی اور خودمختاری کے لئے ہونے والی تحریکوں اور اسلامی مزاحمتی محاذ کی حمایت کی ضرورت ہے۔
سوال: کیا قدس کی آزادی کے لئے مسلمانوں کے اتحاد کی کوئی امید ہے؟ اس اتحاد کی راہ میں کونسی رکاوٹیں حائل ہیں؟
– اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ قدس ایک بنیادی محور و مرکز ہے اور یقینا عالم اسلام کی پوری توجہ اور اہتمام کا رخ اسی جانب ہونا چاہئے، کیونکہ قدس ایک مقدس حرم اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ کے معراج کی منزل ہے چنانچہ قدس صرف فلسطینی قوم یا عرب ممالک ہی کا نہیں بلکہ پورے عالم اسلام کا ہے اور واضح ہے کہ اگر حرمین شریفین ـ یعنی مکہ معظمہ اور مدینہ منورہ ـ استعمار کے کٹھ پتلی سعودیوں کے قبضے میں نہ ہوتے تو قدس شریف بھی یہودیوں کے زیر قبضہ نہ ہوتا۔
تقریبا ۱۰۰ برسوں سے مسجد الحرام اور مسجد نبوی کا انتظام ایسے افراد کے ہاتھ میں ہے جنہوں نے مسجد الاقصی پر یہودیوں کے تسلط کے اسباب فراہم کئے تھے اور جب سے برطانوی استعمار نے وہابی تحریک کو تقویت پہنچائی اور اس کی حمایت کی اور وہابیوں کو جزیرہ نمائے عرب پر مسلط کیا، اسی وقت سے اس کے اس اقدام کا ایک طویل المدت مقصد تھا؛ وہ یہ کہ مقدسات کے بنیادی کردار میں خلل ڈالا جائے اور مسلمانوں کو مقدسات اور اسلامی شعائر سے دور اور دور تر کیا جاسکے۔ کیونکہ انہیں معلوم تھا کہ شعائر اور مقدسات مسلمانوں کو گہری نیند سے بیدا کردیتے ہیں اور انہیں اپنے تشخص کا احساس دلاتے ہیں۔
عرصہ ایک صدی سے حج کے اعمال و مناسک اس کے اصل مضمون اور اصل روح سے خالی ہوچکے ہیں اور حج کا مقدس فریضہ موجود صورت میں مسلمانوں کے اتحاد اور دشمنان امت کے خلاف متحدہ موقف اختیار کرنے کے اسباب فراہم نہیں کرسکتا۔ حقیقت تو یہ ہے کہ بنی سعودی حج اور حرمین شریفین کو منبر کے طور پر استعمال کررہے ہیں اور اس منبر کو مسلمانوں اور عرب اقوام کے درمیان فتنہ انگیزی اور نسل پرستی کے فروغ کے لئے بروئے کار لارہے ہیں۔ بنی سعود نے مسلمانوں کی مقدس سرزمین میں امریکی اڈے قائم کئے ہوئے ہیں تاکہ امت مسلمہ کو امریکہ کی غلامی پر مجبور کرے اور انہیں ان کے دین و امت کے دشمنوں کے آگے خوار و ذلیل کردے۔ وہ اللہ تعالی کے اس کلام کو بھلا چکے ہیں کہ:
﴿یَا أَیُّهَا الَّذِینَ آمَنُواْ لاَ تَتَّخِذُواْ الْیَهُودَ وَالنَّصَارَى أَوْلِیَاء بَعْضُهُمْ أَوْلِیَاء بَعْضٍ وَمَن یَتَوَلَّهُم مِّنکُمْ فَإِنَّهُ مِنْهُمْ إِنَّ اللّهَ لاَ یَهْدِی الْقَوْمَ الظَّالِمِینَ * فَتَرَى الَّذِینَ فِی قُلُوبِهِم مَّرَضٌ یُسَارِعُونَ فِیهِمْ یَقُولُونَ نَخْشَى أَن تُصِیبَنَا دَآئِرَةٌ؛ اے ایمان لانے والو! یہودیوں اور عیسائیوں کو اپنا دوست نہ بناؤ، یہ لوگ آپس میں ایک دوسرے کے دوست ہیں اور جس نے تم میں سے ان سے دوستی کی تو وہ ان ہی میں سے ہے۔ یقینا اللہ ظالموں کو منزل مقصود تک نہیں پہنچاتا * تو دیکھو گے انہیں جن کے دلوں میں بیماری ہے کہ وہ ان کے حلقوں میں تیزی سے دوڑ دھوپ کر رہے ہیں۔ کہتے ہیں ہمیں ڈر ہے کہ ہم پر کوئی آفت نہ آئے﴾۔ (۱)
آج وحدت اسلامی کی طرف کوئی راستہ نہیں ہے سوائے اس کے کہ مسلمانان عالم اللہ کی طرف پلٹیں، فتنہ اور تکفیر سے دوری اختیار کریں، وحشی، درندہ خو اور خونخوار دہشت گرد ٹولوں کی تشکیل سے پرہیز کریں جن کا کام قتل عام اور انسانوں کو ذبح کرنے اور انسانیت کے لئے باعث شرم جرائم کے ارتکاب کے سوا کچھ بھی نہیں ہے۔
اگر مسلمان اپنی عظمت رفتہ کو حاصل کرنے کے لئے سنجیدہ ہیں تو انہیں فرقہ واریت سے دوری کرکے ان تمام اجرتیوں کا مقابلہ کرنا پڑے گا جو مذہب، دین، فرقہ پرستی اور نسل پرستی کے بہانوں کے تحت امت اسلامیہ میں دراڑیں ڈالتے ہیں؛ تمام مسلمانوں کو جاننا چاہئے کہ امت کی بقاء، قبلہ اول کی آزادی، اسلامی سرزمینوں کو غاصبوں سے چھڑانے کے لئے اتحاد بین المسلمین کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے اور اتحاد بین المسلمین موجودہ صورت حال میں ممکن نہیں ہے سوائے اس کے کہ دین اسلام کے ثابت اور دائمی و ابدی اصولوں کی طرف پلٹنے اور اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھامنے کے سوا کوئی راستہ نہیں ہے۔
سوال: اقوام متحدہ نے فلسطینیوں کے حق میں اور یہودی غاصبوں کے خلاف چھ اہم فیصلے کئے ہیں۔ کیا ان فیصلوں پر عملدرآمد ممکن ہے یا یہ فیصلے سب کاغذ کے اوپر کچھ الفاظ اور سطور کی صورت میں باقی رہیں گے؟
– اقوام متحدہ امریکہ اور برطانیہ جیسے استعماری ممالک کے قابو میں ہے اور وہ صرف ان ممالک کے مفادات کے تحفظ کو اپنا نصب العین بنائے ہوئے ہے۔ چنانچہ وہ کسی کو بھی اس کا حق پلٹانے اور مظلوموں کی پشت پناہی کرنے یا انسانی حقوق کے تحفظ سے عاجز ہے؛ وہ حتی اپنے ہی منظور کردہ بین الاقوامی قوانین نافذ کرنے سے عاجز ہے، سوائے اس صورت کے کہ یہ طاقتیں اسے ایسا کرنے کی اجازت دیں اور ان کے مفادات ایسا کرنے کا تقاضا کریں؛ ایسی صورت میں یہ بین الاقوامی ادارہ کچھ کرنے کا قابل ہوجاتا ہے۔
ہم آج ایک وحشی دنیا میں بس رہے ہیں، جہاں ظلم و ستم اور سرکشی، لالچ اور بعض ممالک کے مفادات پوری انسانیت پر مسلط ہیں اور یہ ممالک دنیا کے مستضعفین اور کے حقوق کے لئے کسی قسم کے احترام کے قائل نہیں ہیں اور آج عالم اسلام میں رونما ہونے والے مسلسل اور متعدد واقعات کی رو سے یہ حقیقت بالکل عیاں ہوچکی ہے کہ اقوام متحدہ اور انسانی حقوق کے بین الاقوامی اداروں کو تمام نعرے اور فیصلوں مستضعف ممالک میں قابل نفاذ نہیں ہیں اور ہم اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں کہ بڑی طاقتیں تمام انسانی اصولوں اور بین الاقوامی اور انسانی قوانین کے ذریعے تجارت کررہی ہیں تا کہ زیادہ سے زیادہ دولت اور طاقت حاصل کریں اور ہمارے اس مدعا کا واضح ترین ثبوت جمال خاشقجی کا قتل کیس ہے؛ ہم نے دیکھا کہ ذرائع ابلاغ کے دباؤ کے تحت پوری دنیا کی توجہ اس واقعے اور سعودی عرب کی جرائم پیشگی کی طرف مبذول ہوئی ـ جبکہ اس سے قبل کے چار برسوں میں سعودیوں نے اس طرح کے ہزاروں جرائم کا ارتکاب کیا تھا اور یمن پر حملہ کرکے لاکھوں بچوں، خواتین، بوڑھوں اور مریضوں کو خاک و خون میں لت پت کردیا، اور یہ جرائم بدستور جاری ہیں لیکن دنیا والوں کو یہ سب کچھ نظر نہیں آرہا اور انسانی حقوق اور آزادی کے جھوٹے علمبرداروں کی آنکھوں سے اوجھل ہے۔ حریت پسند انسانیت سے ہمارا سوال یہ ہے کہ یہ کیا رویہ ہے کہ ترکی میں ایک سعودی باشندے کا قتل تو ناقابل معافی جرم ہے مگر ایک قوم کا یکسر قتل عام ایک غیر اہم مسئلہ سمجھا جاتا ہے؟ ڈوب مرنا چاہئے اس دنیا کو جس کے بڑے مقتدر حکمران بد دیانت گوالے (Dishonest cowboys) ہیں اور یک بام و دو ہوا کی پالیسی کی رو سے دنیا کا انتظام سنبھالے ہوئے ہیں، جہاں عدل و انصاف کا دور دور تک کوئی اتہ پتہ نہیں ہیں۔
سوال: یہودی ریاست کے ساتھ تعلقات کی بحالی کے انسداد اور مسلم اقوام کو آگہی اور بصیرت دینے میں علماء کا کیا کردار ہے/ ہوسکتا ہے؟
– بےشک علمائے اسلام کا فریضہ اسلام کی تبلیغ و تشریح، اقوام کو آگاہ و بیدار کرنا اور ان سازشوں اور مکاریوں سے انہیں خبردار کرنا ہے جو دشمنان اسلام امت اور دین اسلام کے خلاف کررہے ہیں تاکہ مسلمین عالم ان عظیم ذمہ داریوں سے آگاہ ہوجائیں جو ان کے کندھوں پر رکھی گئی ہیں۔
قرآن کریم میں متعدد ایسی آیات ہیں جو علماء کو اپنے فرائض کی انجام دہی کی دعوت دیتی ہیں اور فرائض کی انجام دہی میں کوتاہی سے خبردار کرتی ہیں۔ بطور مثال خداوند متعال قرآن کریم میں ارشاد فرماتا ہے:
﴿وَلْتَکُن مِّنکُمْ أُمَّةٌ یَدْعُونَ إِلَى الْخَیْرِ وَیَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَیَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنکَرِ وَأُوْلَـئِکَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ؛ اور تم میں سے ایک جماعت ایسی ہونا چاہئے جو بھلائی کی دعوت دیتی ہو، بھلائی کی ہدایت کرتی ہو اور برائیوں سے منع کرتی ہو اور یہی وہ ہیں جو ہر طرح کی بھلائی حاصل کرنے والے ہیں﴾ (۲)
علماء کی ایک عظیم ذمہ داری یہ ہے کہ قرآن کو عوامی زندگی میں واپس لے کر آئیں، سنت نبوی کے مفہوم کی اصلاح کریں اور عوام کو امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے احیاء کی ترغیب دلائیں، سوئی ہوئی مسلم قوموں کو خواب غفلت سے بیدار کریں اور امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کو عملی طور پر نافذ کریں، اور خود بھی لوگوں کو بھلائی کی دعوت دیں اور برائی سے منع کریں۔

ترجمہ: فرحت حسین مہدوی
.............

242

 

عالمی صہیونیت کی نظریاتی اور عملی نشانیوں پر ایک نظر

  • ۴۰۴

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: عالمی صہیونیت ایک ایسی اصطلاح ہے جو عرصہ دراز سے دنیا کی تاریخ سیاست میں استعمال ہوتی چلی آ رہی ہے۔ درج ذیل گفتگو اسی موضوع پر مشتمل ہے جو “خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ” نے موساد کے جاسوسی چینلز اور ایران و حزب اللہ میں جاسوسی کے واقعات کو داستانوں کی صورت میں پیش کرنے والے داستان نگار اور “حیفا”، “کف خیابان” اور “نہ” کتابوں کے مولف حجۃ الاسلام و المسلمین “محمد رضا حداد پور جہرمی” کے ساتھ انجام دی ہے۔
خیبر: کیا آپ بتا سکتے ہیں کہ عالمی صہیونیت سے کیا مراد ہے؟ اور عالمی صہیونیت اور عالمی استکبار کے درمیان کیا فرق ہے؟
استاد جہرمی: بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ میں اپنی گفتگو کو دو مختصر مقدموں کے ذریعے شروع کرنا چاہوں گا۔
پہلا مقدمہ؛ صہیونیت ایک ایسی فکری تنظیم کا نام ہے جو موجودہ دور میں سو فیصد انحرافی عقائد پر مشتمل ہے اور یہودیت کے مقدسات سے ناجائز فائدہ اٹھا کر پوری دنیا پر اپنا تسلط جمانا چاہتی ہے۔ یقینا اس تنظیم کی جڑیں بہت پھیلی ہوئی ہیں لیکن یہاں پر ہم اس موضوع پر گفتگو نہیں کر سکتے۔ عالمی صہیونیت ایک تاریخی اور وسیع تحریک ہے۔  بہت سارے لوگوں نے اس کے بارے میں بہت کچھ کہا ہے اور عالمی صہیونیت سے مراد کیا ہے اسے تفصیل سے بیان کیا ہے اور مختلف تعریفیں کی ہیں۔ لیکن ان کی کسی ایک تعریف پر قانع ہونا مشکل ہے۔ بطور کلی یہ کہا جا سکتا ہے کہ یہ ایک ایسا طرز تفکر ہے جو مکمل طور پر انحرافی ہے لیکن دینی مقدسات کو وسیلہ بنا کر سیاسی اغراض و مقاصد کی خاطر میدان سیاست و ثقافت میں داخل ہوا ہے۔ وہ سیاسی اغراض و مقاصد جو پورے یقین کے ساتھ کہا جا سکتا ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے زمانے میں ان کے مخالفین کے ذریعے منصوبہ بندی کئے گئے تھے اور جن کی بنیادیں انحرافی عقائد پر رکھی گئی تھیں۔ لیکن قابل توجہ بات یہ ہے کہ یہ انحرافی طرز تفکر صرف یہودیوں میں ہی منحصر نہیں ہے بلکہ عیسائیت اور اسلام کے اندر بھی یہ انحرافی اور صہیونی تفکر وجود پا چکا ہے اور آج ہم عیسائی صہیونیت اور اسلامی صہیونیت سے روبرو ہیں۔
عیسائی اوراسلامی صہیونیت
دوسرا مقدمہ یہ ہے کہ تقریبا چالیس سال قبل صہیونیت صرف یہودیوں پر ہی اطلاق ہوتی تھی اور عیسائی صہیونیت یا اسلامی صہیونیت کو کوئی نہیں پہچانتا تھا اور عام طور پر قوم حضرت موسیٰ کی ایک شاخ جو یہودی ہی تھے کو صہیونی کہا جاتا تھا لیکن عصر حاضر میں یہ انحرافی تفکر عالمی سطح پر پھیل چکا ہے اب صہیونیوں سے مراد صرف یہودی ہی نہیں ہوتے بلکہ انحرافی فکر رکھنے والی وہ عالمی تنظیم ہے جس میں صہیونیت کی جڑیں پیوستہ ہیں۔
عالمی صہیونیت اب یہودیوں سے مخصوص نہیں ہے بلکہ یہ عیسائیوں میں بھی سرایت کر چکی ہے اور اس کی خطرناک ترین شکل اسلامی معاشرے میں انتہا پسند گروہوں کی شکل میں سامنے آ رہی ہے۔
یہ انتہا پسند گروہ جو اسلامی معاشرے میں پنپ رہے ہیں تکفیری گروہ ہیں جو اس سے پہلے اہل سنت اور وہابیت سے جنم لیتے تھے اب شیعوں میں بھی کام کیا جا رہا ہے اور شیعوں میں تکفیری ٹولہ کو سامنے لانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
عالمی صہیونیت
لیکن بنیادی سوال جس پر ہمیں غور کرنے کی ضرورت ہے وہ یہ ہے کہ ہم کیسے عالمی صہیونیت کو پہچانیں، اسے پہچنوائیں اور اس کا مقابلہ کریں۔ لہذا ضروری نہیں ہے کہ ہم اپنا ٹارگٹ صرف اسرائیل کو بنائیں اور اسرائیل پر تمرکز اختیار کر لیں اور باقی مسائل سے آنکھیں بند کر لیں۔ بلکہ یہ انحرافی تفکر آج ہر معاشرے میں سرایت کر چکا ہے اور پوری دنیا صہیونی تفکر کی لپیٹ میں آچکی ہے۔
اب اگر کوئی یہ سوال کرے کہ یہ صہیونی تفکر جس کی منشا یہودیت ہے اور اب عیسائیت اور اسلام کے اندر بھی پھیلتا جا رہا ہے اس کی بنیادی نشانیاں کیا ہیں؟ تو کم سے کم تین بنیادی نشانیوں کی طرف اشارہ کیا جا سکتا ہے۔
خیبر: یعنی ان تین نظریاتی نشانیوں کے ذریعے عالمی صہیونیت کو پہچانا جا سکتا ہے؟
استاد جھرمی: جی ہاں، تین نظریاتی اور دو علمی نشانیوں کے ذریعے عالمی صہیونیت کو پہچانا جا سکتا ہے؛
عالمی صہیونیت کی نظریاتی نشانیاں
۱۔ تکفیریت
تکفیریت پہلی نظریاتی نشانی ہے جس کے ذریعے صہیونی اور افراطی فکر رکھنے والے گروہ کو پہچانا جا سکتا ہے تکفیریت کا مطلب یہ ہے کہ صرف ہم اہل ایمان اور اہل نجات ہیں اور ہمارے علاوہ دوسرے کافر ہیں اور انہیں نجات نہیں مل سکتی لہذا انہیں روئے زمین پر جینے کا حق نہیں ہے انہیں صفحہ ھستی سے مٹانا چاہیے۔
۲۔ مخالفین کو مٹانا
دوسری نظریاتی علامت مخالفین کو مٹانے کی کوشش ہے یعنی اس طرز فکر میں مذاکرات کرنا، ایک دوسرے سے سمجھوتے کی بات کرنا، گفتگو کی میز پر بیٹھنا بالکل ممنوع ہے اور مخالف شخص کو صرف مٹانے اور راستے سے ہٹانے کی سوچ بچار کی جاتی ہے۔ اور اس کام کو مقدس اور چوقدس سمجھا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر بارہا سنا اور دیکھا کہ کہ اسرائیل ٹی وی چینل سے اعلان کیا جاتا ہے کہ ہم فلاں جنرل کو مٹانے کا منصوبہ رکھتے ہیں۔ اور حتیٰ وہ اس کام کو دھشتگردی بھی نہیں سمجھتے۔
۳۔ عالمگیر سوچ رکھنا
تیسری نشانی اور علامت یہ ہے کہ صہیونی تفکر کے مالک افراد کوشش کرتے ہیں کہ عالمگیر اور گلوبل سوچ رکھتے ہوں وہ اپنے ہر کام اور منصوبے میں گلوبل فکر کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ وہ اپنی کلاسوں میں کہتے ہیں گلوبل فکر کرو لیکن ایک محلے سے کام شروع کرو۔
یہ تین نشانیاں ان کی نظریاتی نشانیاں اور علامتیں ہیں جن کے ذریعے ہم صہیونی گروہوں کو پہچان سکتے ہیں۔ البتہ ممکن ہے کوئی دسیوں علامتیں بھی بیان کرے لیکن یہ وہ موارد ہیں جو مسلّم و یقینی اور عملی طور پر بھی قابل مشاہدہ ہیں یعنی ہم سب ان مسائل کے روبرو ہیں۔
عالمی صہیونیت کی عملی نشانیاں
ان کی دو عملی نشانیاں ایسی ہیں کہ جو انہیں دیکھتا ہے فورا اس کا ذہن اس عالمی صہیونیت کی طرف منتقل ہو جاتا ہے۔
۱۔ سمبل پرستی
پہلے تو یہ بے انتہا سمبل پرست ہیں۔ جیسا کہ جب شیطان پرستی سماج میں پھیل رہی تھی تو اس سے پہلے ایک عرصے تک شیطانی سمبل پر کام کیا جا رہا تھا۔ اسی طرح داعش نے اپنے آغاز میں اپنے سمبلز پر کام کرنا شروع کیا تھا۔
۲۔ رعب و دبدبہ کے ذریعے حکومت کی تشکیل
دوسری عملی علامت یہ ہے کہ یہ سماج میں رعب و دبدبہ اور دھشت پیدا کر کے حکومت قائم کرنا چاہتے ہیں۔ یعنی لوگوں کو ڈراؤ اور ان پر حکومت کرو ان کا نعرہ ہے۔
دیگر تمام مسائل چاہے وہ اقتصادی ہوں یا ثقافتی، سیاسی ہوں یا سماجی انہیں پانچ مرکزی نکات کے اردگرد گھومتے ہیں۔ اس وقت ہم پوری دنیا میں انہیں مسائل کے روبرو ہیں۔ میں اسی زاویہ نگاہ سے صہیونیت پر کام کر رہا ہوں۔ لہذا میری پہلی کاوش جو داعش کے حوالے سے منظر عام پر آئی ہے “ایک تکفیری کی آدھی جلی ہوئی کاپی” ہے اور پہلا بین الاقوامی سطح کا پروجیکٹ جس پر قومی حدود سے بالاتر فکر کے ساتھ کام ہوا ہے وہ کتاب “حیفا” ہے۔ بریکٹ میں عرض کروں کہ ’’حیفا‘‘ ایک شخص کا نام ہے اور ’’ہیفا‘‘ جو شہر کا نام سے اس سے مختلف ہے۔ اور دوسرا ہمارا بین الاقوامی سطح کا کام کہ جس میں، میں نے کوشش کی ہے کہ مخاطب کا ہاتھ پکڑ کو دھیرے دھیرے اسے زمان و مکان کی حدود سے باہر لاؤں اور مخاطب زمان و مکان کی قیود سے ماوراء آکر سوچے وہ کتاب “نہ” ہے۔ یہ چند ایک مقدماتی باتیں تھی جو بیان کیں۔
خیبر: آپ کی مذکورہ گفتگو کے پیش نظر ہم عالمی صہیونیت کو گویا ایک طرح کا مکتب فکر مان لیں؟
استاد جہرم:۔ جی ہاں یہ ایک ایسا مکتب فکر ہے جو اقتصادیات و سیاسیات کے میدانوں سے باہر نکل چکا ہے۔ یعنی اس نے انسانیت سے سب سے بڑا انتقام لے لیا ہے۔ اس لیے کہ امام خمینی (رہ) اور انقلاب اسلامی سے پہلے صہیونیوں نے سنا تھا کہ وہ زوال اور نابودی کی طرف گامزن ہیں۔ لہذا اہم ترین کام جو انہوں نے کیا وہ یہ تھا کہ انہوں نے اپنی فکر کو دیگر ممالک اور دیگر ادیان کے اندر ٹھونس دیا۔ لہذا جب وہ اس کام کو انجام دینے میں کامیاب ہو گئے ہیں اب اگر جعلی ریاست جو اسرائیل ہے وہ نابود بھی ہو جائے تو صہیونی فکر ختم نہیں ہو پائے گی۔ جیسا کہ حال میں داعش کے ساتھ ہوا۔ داعش کو عراق و شام میں تو شکست مل گئی وہاں اسے نابود کر دیا لیکن فکر داعش تو پوری دنیا میں پھیل چکی ہے مثال کے طور پر گزشتہ ۸، ۹ ماہ کے دوران ایران میں جو دھشتگردانہ حملے ہوئے ہیں یہ سب داعشی فکر کا نتیجہ ہیں۔ لہذا اس بات کو نہیں بھولنا چاہیے جیسا کہ ہمارے بہت سارے دوست صرف اسرائیل کی نابودی کے بارے میں سوچتے ہیں کہ اسرائیل مٹ گیا تو صہیونی فکر ختم ہو جائے گی۔ در حقیقت اسرائیل کی نابودی پہلا مرحلہ ہے اور ہمارا اصلی کام اسرائیل کی نابودی کے بعد شروع ہو گا۔
خیبر: بہت بہت شکریہ جو آپ نے اپنا قیمتی وقت ہمیں دیا۔
ترتیب و تدوین؛ مجید رحیمی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۲۴۲

میرا بھائی شہید راہ قدس ہے اسے صہیونیوں نے شہید کیا : الہام بہرامی

  • ۳۷۹

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: گزشتہ سال یعنی ۲۰۱۹ میں سوئٹزرلینڈ میں ’’بہنام بہرامی‘‘ نامی ایک ایرانی کارٹونسٹ کی مشکوک حالت میں موت واقع ہوئی تھی۔ لیکن ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ اس مشکوک موت کے پیچھے کسی ایجنسی کا ہاتھ ہے، اس حوالے سے خیبر صہیون تحقیقاتی سینٹر نے بہنام بہرامی کی بہن محترمہ ’الہام بہرامی‘ کے ساتھ گفتگو کی ہے جو حسب ذیل ہے؛
خیبر: سب سے پہلے آپ اپنا تعارف کروائیں اور اس کے بعد بہنام بہرامی کی شخصیت، ان کی اخلاقی خصوصیات اور سرگرمیوں کے بارے میں کچھ بتائیں۔
میں الہام بہرامی، صہیونیت مخالف معروف کارٹونسٹ بہنام بہرامی کی بہن ہوں۔ ہم دو بہنیں اور دو بھائی اپنی فیملی کے افراد تھے۔ میں سب سے چھوٹی ہوں، اور بہنام تیسرے نمبر کے تھے بہنام نے ایسا کام اختیار کیا جس سے وہ مظلوموں کی آواز کو دنیا والوں کے کانوں تک پہنچا سکیں، میری نظر میں اس کا یہ کام کسی جہاد سے کم نہیں تھا۔
میرا بھائی بہت مہربان، باادب اور ہنس مکھ مزاج کا آدمی تھا۔ جس محفل میں وہ ہوتا تھا اپنی مزاحیہ گفتگو سے اس محفل کو گرم کر دیتا تھا، سب اسے دوست رکھتے تھے۔ ہماری پوری فیملی ایک دوسرے سے سخت وابستہ تھی۔
بہنام ایک فعال اور ایکٹو آدمی تھا، مجھے یاد نہیں ہے کہ وہ کبھی بے کار بیٹھا ہو اور اس نے اپنا وقت ضائع کیا ہو، بچپنے سے ہی اسے مسجد سے لگاؤ تھا، اور مذہبی سرگرمیاں انجام دیتا تھا۔ قرآن کے دروس کو کبھی ترک نہیں کرتا تھا اور ’’راہیان نور‘‘ کاروان کے ساتھ شہداء کی لاشوں کو تلاش کرنے کے پروگراموں میں بھی شرکت کرتا تھا۔
بہنام شروع سے ہی ثقافتی کاموں کے پیچھے رہتا تھا، اس کے کارٹونوں اور خاکوں کے موضوعات بھی ثقافتی ہوتے تھے۔ وہ روزنامہ قدس، اخبار شہرآرا، ابرار اور تہران کے کچھ جریدوں کے ساتھ منسلک تھا۔ اس کے ثقافتی کام اتنے زیادہ تھے کہ میں بہن ہونے کے عنوان سے بھی اس کے تمام کاموں سے آگاہ نہیں تھی۔ وہ خود بھی کچھ نہیں بتاتا تھا۔ وہ ایسا آدمی نہیں تھا کہ اپنی تعریف کرے۔ ہمیشہ خدا کا نام اس کی زبان پر تھا اور کہتا تھا: انسان کو صرف خدا کے لیے کام کرنا چاہیے۔ اس کے تمام دوست سنجیدہ، مذہبی اور ثقافتی میدان میں ایکٹو افراد تھے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ جب بہنام نے صہیونیت مخالف معروف کارٹون بنایا تو اس کے اندر ایک عجیب و غریب خوشی کا احساس پیدا ہوا اور کہہ رہا تھا کہ میں اسی کارٹون کے لیے پیدا ہوا ہوں میری زندگی کا پہلا اور آخری یہی کارٹون ہے۔ بہنام نے سلمان رشدی کے بارے میں بھی خاکے بنائے تھے۔

خیبر: آپ کے بھائی نے موت سے پہلے کسی طرح کے دباؤ یا دھمکی کے بارے میں آپ سے کچھ نہیں کہا تھا؟
میرے بھائی کا تقریبا ۱۰۰ کلو وزن تھا اور قد بھی کافی لمبا تھا، ایک بار وہ مجھے کہنے لگا کہ مجھے کوئی ایسی دوائی ڈریپ میں ڈال کر چڑھا دی ہے کہ میرا وزن نہیں بڑھ رہا ہے اور میری کھال سیاہ ہو رہی ہے، مجھے یقین ہے کہ مجھے تیزاب والا پانی چڑھا دیا ہے۔
بہنام کو مستقل زیر نظر رکھا جا رہا تھا۔ یہاں تک کہ وہ باہر جانے کے قابل بھی نہیں تھا.جیسے ہی وہ گھر سے باہر نکلتا تھا مجھے یقین ہے کہ اس کا پیچھا کیا جاتا تھا۔ یہاں تک کہ ایک مرتبہ اس کے گھر کی چابی بھی چرا لی گئی لہذا وہ ہمیشہ بہت احتیاط کرتا تھا اور ہوشیار رہتا تھا۔
اب بھی ہمیں اس کے ذاتی سامان میں سے کچھ بھی نہیں ملا ہے، نہ لیپ ٹاپ نہ موبائل ، اور سوئٹزرلینڈ کی حکومت ایسے سلوک کرتی ہے جیسے کہ بہنام نامی کوئی شخص تھا ہی نہیں۔ البتہ میرے لیے یہ چیز عجیب نہیں ہے چونکہ ایسے واقعات تاریخ میں بہت تکرار ہوئے ہیں۔

خیبر: اس حوالے سے قانونی کاروائی جو آپ نے کی اس کے بارے میں کچھ بتائیں گی؟
 میرے والد نے وزارت خارجہ کے ذریعے کافی پیچھا کیا، لیکن حقیقت یہ ہے کہ کسی نتیجہ تک نہیں پہنچے، یہاں تک کہ میرے والد کو یہ کہہ دیا کہ ہم کسی پر دباؤ نہیں ڈال سکتے۔
جب ہمیں اس کی موت کی اطلاع دی تو ساتھ ساتھ ہم پر یہ دباؤ ڈالا کہ ہم اجازت دیں بہنام کو سوئٹزرلینڈ میں ہی دفن کریں، ہم موت کی وجہ پوچھتے تھے لیکن کوئی معقول جواب نہیں دیتا تھا وہ ایسا وقت تھا جب ہماری ماں کا بھی انہیں دنوں انتقال ہوا تھا۔
مجھے یہ پورا یقین ہے کہ میرے بھائی کو صہیونیوں نے قتل کیا، اس لیے کہ صہیونیوں کی سرخ لکیر ہولوکاسٹ ہے وہ کسی کو اس بارے میں ایک لفظ بولنے کی اجازت نہیں دیتے۔ اور بہنام نے ٹھیک ان کی اسی دکھتی ہوئی رگ پر انگلی رکھی تھی اور ہولوکاسٹ کا آخری کارٹون بنایا تھا جس کے بعد اس کی موت ہو گئی۔
افسوس اس بات کا ہے کہ یورپ میں آزادی اظہار کی آڑ میں پیغمبر اسلام کا کارٹون بنایا جاتا ہے، اسلامی مقدسات کی توہین کی جاتی ہے لیکن کسی کو اس بات کا حق نہیں ہے وہ ہولوکاسٹ کے بارے میں گفتگو کر سکے، ہولوکاسٹ ان کی ریڈ لائن ہے، اور مغربی ممالک صرف اپنے اور اسرائیل کے مفاد کے لیے ایسا کرتے ہیں۔
رہبر انقلاب ہمیشہ اپنی تقریروں میں اس نکتے کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ مغربی ممالک؛ سوئٹزرلینڈ ، فرانس، جرمنی وغیرہ سب اسرائیل کو تحفظ دینے کے لیے کچھ بھی کر سکتے ہیں۔ جب کسی ملک کی جغرافیائی سرحد کو محفوظ رکھنا ہو تو وہ الگ مسئلہ ہے لیکن جب اسرائیل کو نفسیاتی امنیت بھی فراہم کرنا ہو تو پھر جغرافیائی حدود ختم ہو جاتی ہیں۔
میرے بھائی ہمیشہ صہیونیت مخالف سرگرمیاں انجام دیتا تھا اور اس کا آخری کارٹون ہولوکاسٹ کے خلاف تھا، اور وہ انہیں ملکوں میں سے ایک میں تھا جن کے بارے میں رہبر انقلاب نے اشارہ کیا تھا لہذا مجھے یقین ہے کہ میرا بھائی راہ قدس کا شہید ہے اور اصلی دشمن یعنی صہیونیت کے ہاتھوں شہید ہوا ہے۔
خیبر: پروردگار آپ کو صبر عطا کرے اور انہیں غریق رحمت کرے۔

 

امام سیستانی کی توہین ایک شیطانی عمل ہے، صہیونی پروپیگنڈوں کی شکست میں مرجعیت کا اہم کردار

  • ۴۰۱

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: سعودی اخبار شرق الاوسط نے گزشتہ جمعہ کو ایک توہین آمیز کارٹون چھاپ کر آیت اللہ العظمیٰ سیستانی کو قومی اتحاد میں خلل ڈالنے کا سبب پہچنوانے کی ناکام کوشش کی۔ جس کے خلاف عراق میں متعدد سیاسی، سماجی اور مذہبی تنظیموں اور گروہوں نے سخت رد عمل ظاہر کیا۔
اسی سلسلے میں ’’دولۃ القانون‘‘ نامی پارٹی کے سربراہ نوری المالکی، ’’الفتح‘‘ کے سربراہ ہادی العامری، ’’حکمت ملی‘‘ کے سربراہ سید عمار حکیم، سائرون کے سربراہ مقتدا صدر کے علاوہ اہل سنت کی مذہبی تنظیموں نے بھی اس توہین کی شدید مذمت کی۔
آیت اللہ سیستانی کی توہین ایسے حال میں کی گئی کہ آپ کے فتویٰ جہاد کی برکت سے داعشی دھشتگردوں کو عراق و شام میں شکست سے دوچار کیا گیا۔ اور اس فتوے سے امت اسلامی میں نہ صرف اختلاف پیدا نہیں ہوا بلکہ عراق کے تمام شیعہ سنی عوام نے اس فتویٰ پر عمل کرتے ہوئے داعش کے خلاف مکمل اتحاد کا ثبوت دے کر جہاد کیا تھا۔
اسی موضوع کے پیش نظر، خیبر صہیون ریسرچ سنٹر کے ایک رپورٹر نے عراق کے دار الافتاء برائے اہل سنت کے ترجمان شیخ عامر البیاتی سے گفتگو کی ہے۔  

خیبر: آیت اللہ سیستانی کے بارے میں سعودی اخبار الشرق الاوسط کے توہین آمیز کارٹون سے متعلق آپ کا کیا موقف ہے؟
عراق میں اعلیٰ مرجعیت سرخ لکیریں ہیں کہ کوئی بھی گروپ، طائفہ، قبیلہ، منصب ان سرخ لکیروں کو پار نہیں کر سکتا ۔ آیت اللہ سیستانی عراقیوں کے سر کا تاج ہیں جنہوں نے عراق میں داعش کے منصوبے کو شکست دی ہے۔ خداوند متعال نے ہمارے اوپر احسان کیا کہ امام سید علی سیستانی کے جہاد کفائی پر مبنی فتوے کے توسط سے داعش کو شکست ملی۔ آپ کے فتوے کے ۳۶ دن بعد اہل سنت کے مفتی علامہ ڈاکٹر الصمیدعی نے جہاد کا فتویٰ دیا۔ مرجعیت صرف شیعوں سے مخصوص نہیں، بلکہ تمام عراقیوں جن میں عیسائی، ترک اور حتیٰ ایزدی بھی شامل ہیں سے متعلق ہے بنابرایں آپ نے در حقیقت عراق کو نجات دی اور آج ہم اس موجودہ حالت میں ہیں۔

ہم اس کارٹون کی اشاعت کی شدید مذمت کرتے ہیں اور اسے عراق کے خلاف تباہ کن اور شیطانی سازش قرار دیتے ہیں۔ ہم حکومت سے بھی مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ اس مسئلے پر مضبوط موقف اپنائے۔ کیونکہ مرجعیت کی کوئی توہین عراقیوں کی توہین ہے۔

خیبر: آپ کے خیال میں میڈیا حملوں اور مراجع و عمائدین کی توہین کے پیچھے کس کا ہاتھ ہے؟

پشت پردہ کن لوگوں کا ہاتھ ہے سب کو معلوم ہے وہ عراق کو تباہ کرنا چاہتے ہیں۔ مذہبی رہنماؤں اور عمائدین کے توہین بھی عراقی عوام اور قوم کے خلاف سلسلہ وار مجرمانہ کارروائیوں کا ایک حصہ ہے۔ ہم ملک کی مخلص قوتوں خصوصا حشد الشعبی، عراقی فوج اور سکیورٹی فورسز کا شکریہ ادا کرتے ہیں کہ انہوں نے داعشی قابضین اور ملک کے خلاف دیگر سازشوں کا مقابلہ کیا اور ہم امید کرتے ہیں کہ خدا ان کی مزید نصرت کرے گا۔

خیبر: کیا مرجعیت عراق میں حکومتی امور میں مداخلت کرتی ہے یا ان کی موجودگی عراق کے لئے صرف حفاظتی پہلو رکھتی ہے؟

ہم نے مرجعیت سے عراق میں صرف اچھائی اور خوبی دیکھی ہے۔ اب تک انھوں نے ملک کی حکمرانی میں بالکل مداخلت نہیں کی بلکہ سیاسی رہنماؤں کو مشورے دئیے اور نصیحتیں کیں۔ عراق میں اعلی مرجعیت ملک اور قوم دونوں کے لیے حفاظتی پہلو شمار ہوتی ہے اور انشاء اللہ خدا کی نصرت و مدد سے عراق کے خلاف اٹھنے والی ہر سازش کو نقش بر آب کریں گے۔  

خیبر: عراق اور عالم اسلام کے خلاف صہیونی اور مغربی سازشوں کو نقش بر آب کرنے میں عراقی اعلیٰ مرجعیت کے کردار کے بارے میں کچھ بیان کریں گے؟

عراق میں اعلی مرجعیت نے دشمنوں کے تمام منصوبوں اور پروپیگنڈوں خصوصا صہیونی اور مغربی سازشوں کو شکست دینے میں اہم کردار ادا کیا ہے اور پوری توانائی کے ساتھ ان کا مقابلہ کیا ہے۔ صہیونیوں کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کی سعودیوں کی کوشش کی ہم مذمت کرتے ہیں  خدا نے ایسا کرنے کی اجازت ہمیں نہیں دی ہے۔ ہم امید کرتے ہیں کہ قدس شریف مسلمانوں کی طرف لوٹ آئے گا، اور اسلامی جمہوریہ ایران نے قدس کی بحالی اور فلسطین کی آزادی کی راہ میں اہم کردار ادا کیا ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

 

شام میں ایران کی موجودگی اسرائیلی حملوں کے لیے صرف ایک بہانہ ہے: شامی بریگیڈیئر

  • ۳۸۷

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: منگل کی رات شام کے ’’السویداء، حمص اور دیرالزور‘‘  علاقوں میں شامی فوج کے ٹھکانوں کو صہیونی دشمن نے فضائی حملے کا نشانہ بنایا۔ شامی وزارت دفاع نے کہا ہے کہ منگل کی شب فضائی حملوں میں شامی فوج کے دو فوجی ہلاک اور چار دیگر زخمی ہوگئے۔ مغربی شام کے صوبہ حما کو بھی اسرائیلی فضائی حملوں نے نشانہ بنایا، جبکہ شام کی سرزمین میں متعدد دیگر مقامات کو  بھی دشمن نے حالیہ راتوں حملوں کا نشانہ بنایا۔
اسی موضوع کے پیش نظر خیبر صہیون تحقیقاتی سینٹر نے شامی فوج کے ماہر اور ریٹائرڈ بریگیڈیئر جنرل "محمد عباس" کے ساتھ گفتگو کی ہے جسے ذیل میں بیان کرتے ہیں؛

خیبر: آپ شام میں پارلیمانی انتخابات کا اندازہ کیسے لگاتے ہیں اور آپ کے خیال میں آئندہ شام کی پارلیمنٹ کی ترجیحات کو کیا ہونا چاہئے؟
۔ حالیہ برسوں میں شام مضبوط اداروں کے وجود اور معاشرتی یکجہتی کی وجہ سے دشمنوں کے مقابل میں کھڑ ہونے کی کافی صلاحیت رکھتا ہے اور دوسری طرف ، شام کے دوستوں اور اتحادیوں نے ہمارے ملک کی حمایت کی ہے ، اور اس طرح ہم بین الاقوامی مسلح جنگ کے خلاف کھڑے ہیں۔ اس جنگ کا مقصد ملک کو تباہ کرنا تھا اور اب یہ جنگ معاشی جنگ کے مرحلے میں داخل ہوچکی ہے۔ وہ ہماری اسلامی اور قومی شناخت کو بھی ختم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اسی دوران، ہمارے دشمن ، جیسے اسرائیل اور ترکی ، شام کے قبیلوں کو آپس میں بھڑکا کر فرقہ وارانہ جنگ چھیڑنے کی کوشش کر رہے تھے۔

ابھی ضروری ہے کہ ملک اور شامی عوام کے استحکام کے حصول کے لئے پارلیمنٹ پوری طاقت کے ساتھ تشکیل پائے، اور شامی عوام آنے والے دنوں اور ہفتوں میں اپنے نمائندوں کا انتخاب کرنے کے لئے اقدامات کریں گے تاکہ اپنی سرنوشت اپنے ہاتھوں سے رقم کی جا سکے اور نئی قومی پیشرفتوں کا تعین کیا جاسکے۔ اس طرح سے معاشی، معاشرتی اور مقبول پالیسیاں زیادہ مکمل ہوں گی اور عوام کو چیلنجوں اور پریشانیوں کا سامنا کرنے کی طاقت میں اضافہ ہوگا۔ پارلیمنٹ ملک کی تعمیر نو کے ساتھ ساتھ ان لوگوں کی تعمیرنو میں بھی اہم کردار ادا کرے گی جو کہ زیادہ اہم ہے۔

خیبر: شام کے خلاف حالیہ امریکی پابندیوں، خصوصا قیصر قانون کے بارے میں آپ کا کیا تجزیہ ہے؟
شام کے خلاف امریکی پابندیاں 1970 کی دہائی سے موجود ہیں اور ان میں کوئی بدلاؤ نہیں آیا ہے اور اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ شام نے معاشرتی ترقی کی طرف قدم بڑھایا ہے۔ پابندیاں قانونی نہیں ہیں۔ کیونکہ قانون منصفانہ ہونا چاہئے، لیکن ہم اسے شامی عوام کے ساتھ امریکہ کی دشمنی کا نام دیتے ہیں، حقیقت یہ ہے کہ وہ معاشی جارحیت اور شام کا محاصرہ کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں تاکہ شام کو اپنے دوستوں اور اتحادیوں کے ساتھ تعاون کرنے سے روکیں لہذا وہ پابندیوں کا سہارا لیتے ہیں۔
 حالیہ امریکی پابندیاں اس بات کی علامت ہیں کہ وہ شام کے خلاف داعش اور دیگر دہشت گرد گروہوں کی حمایت کے ذریعے کیے گئے حملوں میں ناکام ہو چکے ہیں۔ اور اس طرح شامی عوام کی مزاحمت اور ان کی فتح کو ختم کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ انہوں نے عوام کو بھوک اور افلاس کی حالت میں رکھنے کی پالیسی پر عمل کیا تاکہ شامی عوام اپنی حکومت کے مخالف ہو جائیں لیکن وہ اس پالیسی میں بھی ناکام ہوئے۔

خیبر: شام کی معیشت کو امریکی پابندیوں سے بچانے کے لئے آپ کے پاس کون سے متبادل راستے ہیں؟
شام کے پاس متنوع معیشت اور وسیع جغرافیہ ہے، اور شامی عوام باشعور اور با بصیرت ہیں۔ یہ لوگ باخبر، مضبوط اور متبادل راستے تلاش کرنے اور موجودہ صورتحال کا مقابلہ کرنے کے قابل ہیں اور تمام چیلنجوں کا مقابلہ کرنے کے لئے تیار ہیں۔ قیصر قانون در حقیقت قیصر وائرس ہے ، اور شامی عوام اس کا مقابلہ کر رہے ہیں ، اور ہمارے پاس متبادل حل ہیں ، خاص طور پر زراعت کے میدان میں ، ریاستہائے متحدہ کا مقابلہ کرنے کے لئے۔ شامی ماہر معاشیات امریکی دہشت گرد معاشی وائرس کے خلاف اپنی پوری طاقت کے ساتھ کھڑے ہیں۔
شام کو پہلے خود کفیل ہونا چاہئے اور پھر اتحادی اور ہمسایہ ممالک کے ساتھ معاشی معاہدے طے کرنا ہونگے جو داعش کے خلاف کھڑے ہیں، تاکہ ڈالر کو حاشیے میں لایا جا سکے۔  لہذا ، مزاحمتی محور ممالک اور امریکی دھشتگردی کے خلاف ممالک  کو اپنی مقامی کنسیوں کا تبادلہ کرنا ہو گا۔ مقامی طور پر بھی ، شامی حکومت کو لوگوں کے لئے سہولیات فراہم کرنے کے لئے چھوٹے کاروباروں اور منصوبوں کی حمایت کرنا چاہئے۔ البتہ یہ کام کچھ عرصے سے جاری ہے۔

خیبر: اس ملک کی سرزمین پر ہونے والی وقتا فوقتا اسرائیلی جارحیت پر شام کا کیا رد عمل ہے خاص طور پر اس ملک میں جو ایرانی افواج کو خطرہ لاحق ہے اس کے حوالے سے آپ کا کیا کہنا ہے۔

سب سے پہلے ، میں یہ کہنا ضروری سمجھتا ہوں کہ شام میں ایرانی افواج نہیں ہیں، بلکہ ایرانی مشیر موجود ہیں جو ہمارے اتحادی ہیں اور امریکہ ، ترکی اور اسرائیل جیسے ممالک شامی مسلح افواج پر حملہ کر رہے ہیں، لیکن ان کے پاس بہانہ یہ ہے کہ شام میں ایرانی افواج موجود ہیں۔  شام میں ایران کی موجودگی شامیوں کے قومی فیصلے اور شام و ایران کے درمیان اتحاد کی وجہ سے ہے، تاکہ صہیونی اور امریکی جارحیت کا ڈٹ کر مقابلہ کیا جا سکے۔
امریکی اور صہیونی یہ اعلان کرکے شام کے عوام کو ایران کے خلاف بھڑکانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ وہ شام میں ایرانیوں پر حملہ کر رہے ہیں ، لیکن در حقیقت مزاحمتی ممالک کے مابین اتحاد ایک تاریخی اور مضبوط اتحاد ہے۔ امریکہ اور صیہونیوں کے یہ اقدامات بیکار ہیں۔ کیونکہ مزاحمت استحکام اور ثبات کا ایک عنصر ہے۔ خطے میں مزاحمتی قوتوں کے پاس طاقتور عناصر موجود ہیں جبکہ دہشت گرد اور امریکی تنظیموں میں ان عناصر کی کمی ہے۔