ایران اور اسرائیل کی براہ راست لڑائی کے بارے میں سوچنا ہی نہیں چاہتا: ایرن اٹزیون

  • ۳۴۵

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: یہودی ریاست کی قومی سلامتی کے سابق نائب سربراہ نے ہاآرتص کے ساتھ اپنے مکالمے میں ایران کے ساتھ جنگ سے خوف، ایران کو شام سے نکال باہر کرنے میں اس ریاست کی بےبسی، ریاست کی تزویری کمزوریوں، ۷۰ سال گذرنے کے بعد بھی یہودی ریاستی ڈھانچے کے نقائص کی طرف اشارے ہوئے ہیں نیز کینیڈا کے حکام کے ساتھ ایک ایرانی سفارتکار کی پنجہ آزمائی کا قصہ بھی بیان ہوا ہے۔
“ایران کے ساتھ جنگ ایک ایسی چیز ہے جسے میں تصور ہی نہیں کرنا چاہتا”، یہ جملہ “ایرن اٹزیون” (Eran Etzion) کا ہے جو برسوں تک یہودی ریاست کی سلامتی کونسل اور وزارت خارجہ میں کام کرتے رہے ہیں۔ یہاں صہیونی اخبار “ہاآرتض” (Haarrestz) کے ساتھ “اتزیون” کا تفصیلی مکالمہ پیش خدمت ہے جس میں ایران اور یہودی ریاست کے درمیان جنگ کے امکان پر روشنی ڈالتے ہیں اور اپنی پوزیشن واضح کردیتے ہیں۔
لگتا ہے کہ سبکدوشی یا برطرفی اور دنیاوی منفعتوں سے ناامیدی کے بعد یا پھر انتقامی کاروائی کرتے ہوئے یہودی و نصرانی ماہرین سچ بولنا شروع کردیتے ہیں اور حقائق بیان کرنے لگتے ہیں، یا شاید ان کے مقاصد کچھ اور ہیں!!
اتزیون ۱۹۹۲ میں صہیونی وزارت خارجہ میں پہنچے اور بعد کے برسوں میں قومی سلامتی کونسل کے نائب سربراہ کے عہدے تک بھی ترقی کرگئے؛ ۲۰۱۳ میں انہیں واشنگٹن میں یہودی سفارتخانے کا ناظم الامور مقرر کیا جانا تھا لیکن ان ہی برسوں میں ان سفارتکاروں کے زمرے میں قابل سزا قرار پائے جنہوں نے تل ابیب کی مرضی کے بغیر ذرائع ابلاغ کے ساتھ بات چیت کی تھی۔
ہاآرتض کے ساتھ ان کے اس مکالمے پر نیتن یاہو کا دفتر بھی سیخ پا ہے جس نے اتزیون کی باتوں کو “بکواس” اور “سچائی سے عاری” جیسے خطابات سے نوازا ہے۔
حزب اللہ کے ساتھ جنگ کا خطرناک انجام، ایران کے ساتھ جنگ کے ناقابل تصور نتائج
۔ اس وقت شام سب سے زیادہ مشتعل نقطہ ہے جہاں ہم نچلی سطح کی جنگ میں مصروف ہیں لیکن اس میں شدت آسکتی ہے کیونکہ اس وقت ہمہ جہت لڑائی اور ہمارے درمیان روس حائل ہے اور نیتن یاہو مسلسل کہے جارہے ہیں کہ “ہمارا مقصد ایران کو شام سے نکال باہر کرنا ہے”؛ اور دوسرے حکام بھی ان ہی کی بات کو دہراتے رہتے ہیں۔ جبکہ اس ہدف تک پہنچنا ہماری قوت سے خارج ہے اور اگر ہم اصرار کریں تو جنگ چھڑ سکتی ہے اور وہ ایک غیر مستحکم ماحول میں، اور وہ بھی ایسے ماحول میں جہاں ایرانی بھی موجود ہیں اور وہ حزب اللہ کے حامی ہیں؛ اور ترکی بھی اس جنگ میں شریک ہے۔ اس وقت روشوں کا تعین روسیوں کے ہاتھ میں ہیں؛ اس لئے کہ وہ اس میدان کے تمام کھلاڑیوں کے ساتھ بات چیت کرسکتے ہیں؛ لیکن وہ ایرانیوں سے کچھ کہتے ہیں اور اسرائیلیوں سے کچھ۔ صرف ایک بات یقینی ہے اور وہ یہ کہ امریکہ اپنے فوجی دستے شام سے نکال رہا ہے، ایک ہلا دینے والا واقعہ رونما ہونے والا ہے: پہلی بار ایرانیوں اور اسرائیلیوں کے درمیان عسکری تصادم کا امکان پیدا ہوا ہے اور عین ممکن ہے کہ یہ صورت حال ہمہ جہت لڑائی میں بدل جائے۔
۔ کیا مطلب؟
مطلب یہ ہے کہ اگر حزب اللہ اس میدان میں اترے اور تل ابیب اور دوسرے شہری مراکز میں تباہی اور بربادی کا آغاز ہوجائے تو اس کی سطح بہت وسیع ہوگی، جس کی مثال اس سے پہلے ہم نے نہیں دیکھی ہے۔ ہمارے پاس حزب اللہ کو روکنے کے لئے کچھ بھی نہ ہوگا۔ صرف جواب دینے کا راستہ ہوگا۔ لیکن اگر بیروت تل ابیب کی بربادی کے بدلے میں تباہ ہوجائے، تو کیا اس سے کسی کو چین حاصل ہوسکے گا؟ لیکن جب اسرائیل اور حزب اللہ کی جنگ کا انجام کچھ ایسا ہو جس کی مثال گذشتہ تاریخ میں نہیں پائی جاتی تو اس صورت میں یقینا ایران اور اسرائیل کی براہ راست لڑائی کا انجام کچھ ایسا ہوگا جس کے بارے میں، میں سوچنا ہی نہیں چاہتا۔ اگرچہ بدقسمتی سے میں ایسے عہدوں پر فائز رہا ہوں جہاں مجھے اس کے بارے میں سوچنا پڑتا رہا ہے۔ اس کی ایک قابل اعتماد مثال ایران اور عراق کی آٹھ سالہ جنگ ہے جس میں ۱۰ لاکھ افراد کام آئے۔
تزویری گہرائی، ایران کی تاریخ اور کینیڈین حکام کو ایرانی سفارتکار کا طعنہ
۔ کیا اسرائیل ایران سے زیادہ طاقتور نہیں ہے؟
۔ اہم بات یہ ہے کہ آپ کس چیز کو طاقت کا معیار سمجھتے ہیں؟ ایک کلیدی جملہ ہے جس کو “تزویری گہرائی Strategic Depth” کہتے ہیں۔ ایرانیوں نے حال ہی میں موجودہ کشمکش کے دوران اس جملے کو استعمال کیا ہے۔ ایک اعلی ایرانی اہلکار نے کہا کہ “یہودی ریاست کو سوچنا چاہئے کہ اس کی کوئی تزویری گہرائی نہیں ہے”۔ حقیقت یہ ہے کہ ہمیں ابتدائی اصولوں کی طرف جانا چاہئے۔ اسرائیل کے پاس عسکری طاقت ہے لیکن ایران کے پاس ایک عظیم جغرافیہ، آٹھ کروڑ کی آبادی اور کئی ہزار سالہ تاریخ ہے۔ ایران ایک تہذیب ہے۔ تل ابیب میں مقیم ایک کینیڈین سفیر نے ایک دفعہ میرے ساتھ بات چیت کے دوران کہا: ایک مرتبہ کینیڈا کی وزارت خارجہ کے حکام اور وہاں مقیم ایرانی سفیر کے درمیان ملاقات ہوئی تو ایرانی سفیر نے کمرے میں پڑے ہوئے قالین کی طرف اشارہ کیا اور کہا: “ایران ایک پارسی قالین ہے جس کے بُننے میں ۵۰۰۰ سال کا طویل عرصہ لگا ہے جبکہ کینیڈا اس قالین پر پڑی ہوئی دھول کی باریک سی تہہ کی مانند ہے”۔
ایرانی ایک غرور آمیز وہم میں مبتلا ہیں، وہ عظمت رفتہ کے بارے میں سوچتے ہیں اور اب جبکہ علاقہ کمزور پڑ گیا ہے تو وہ محسوس کررہے ہیں کہ عظمت رفتہ کے احیاء کا امکان حاصل ہوا ہے؛ وہ جب اپنی تزویری حکمت عملیوں کے لئے منصوبہ بندی کرتے ہیں تو ان کی حد نظر جبل الطارق تک پہنچتی ہے؛ اور یہ جو ہم ابھی تک احتیاط کررہے تھے کہ ایران کے ساتھ براہ راست لڑائی سے بچے رہیں، یہ ایک حادثاتی موضوع نہیں تھا بلکہ ایک دانشمندانہ پالیسی تھی اور دانشمندی یہ ہے کہ ہم پھر بھی محتاط رہیں، میں فکرمند ہوں کیونکہ مجھے محسوس ہورہا ہے کہ احتیاط برتنے میں ماضی جیسی سختگیری کا فقدان ہے۔
۔ لگتا ہے کہ اسرائیل کی رائے عامہ آپ سے متفق نہیں ہے، یہاں بہت سوں کا خیال ہے کہ اسرائیل بہت طاقتور ہے اور کوئی غیر متوقعہ واقعہ رونما نہیں ہوگا۔
۔ غلط بات ہے؛ اگر آپ کو یاد ہو ایک دن وزیر اعظم نیتن یاہو نے اعلان کیا کہ سیکورٹی کابینہ کی نشست منعقد ہونے کو ہے، تو اس کے بعد پریشانی اور ذہنی و فکری افراتفری اور افواہوں نے پورے معاشرے کو گھیر لیا یہاں تک کہ ایک بیانیہ جاری ہوا اور اعلان ہوا کہ “فکرمندی کی ضرورت نہیں ہے، کوئی ناگوار حادثہ رونما نہیں ہوا ہے”۔ اس سے معلوم ہوا کہ ہماری رائے عامہ مکمل طور پر ہوشیار ہے، اور جانتی ہے کہ ہماری حالت اچھی ہے لیکن اس حقیقت کا ادراک بھی رکھتی ہے کہ برف کی جس تہہ پر ہم آگے بڑھ رہے ہیں کس قدر نازک اور زد پذیر ہے”۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

ذرائع ابلاغ میں جاسوسوں کا کردار

  • ۳۵۵

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: سائبر اسپیس کے ماہر انجنیئر روح اللہ مؤمن نسب، جو عرصہ دراز سے ایرانی ٹی وی چینلوں اور مختلف قسم کے اجتماعات میں اسی حوالے سے کردار ادا کرتے رہے ہیں، “پاک انٹرنیٹ تک پہنچنے کے طریقہ کار” جیسے موضوعات کے موضوع پر خطابات کرتے رہے ہیں، اور اس شعبے میں اہم کورسز بھی کرواتے رہے ہیں۔
ذیل میں انجنیئر روح اللہ مؤمن نسب کے ساتھ خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ کا مکالمہ قارئین کی خدمت میں پیش کیا جارہا ہے:
خیبر: سائبر اسپیس پر دشمن شناسی کی اہمیت کیا ہے اور اس شعبے میں دشمن کا کیونکر مقابلہ کیا جاسکتا ہے؟
– ابتداء میں مجھے آپ کے صہیونیت شناسی کے عنوان سے منعقدہ کورس کے بارے میں کچھ کہنے دیجئے۔ رہبر معظم نے بارہا فرمایا ہے کہ اس طرح کے کورسوں کا انعقاد کیا جانا چاہئے، کیونکہ دشمن نے اس سلسلے میں بہت ساری سرگرمیاں دکھائی ہیں اور وہ ایسے منصوبوں کو عملی جامہ پہنانے میں ایسی کامیابی حاصل کرسکا ہے جن کے بارے میں وہ سوچ تک نہیں سکتا تھا، وہ آکر ہمارے ممالک میں بہت بڑے بڑے اقدامات کرنے میں کامیاب ہوا ہے؛ آج ہمارے ممالک ایک لحاظ سے مقبوضہ ممالک ہیں کیونکہ ہمارے ملکوں کے تمام افراد کے پاس انٹرنیٹ بھی ہے اور اسمارٹ فون بھی۔
ماضی میں رابطوں کے لئے ہمیں بہت سارے وسائل کی ضرورت ہوتی تھی لیکن آج ہم ایسی فضا میں کام کررہے ہیں جس کا تعلق یہودی ریاست سے ہے۔ یعنی یہ منصوبہ بندی اسرائیلیوں کی ہے اور آپ کو نہیں معلوم کہ ہم کن کن چیزوں سے ٹویٹر، انسٹاگرام، فیس بک وغیرہ وغیرہ کے ذریعے ہم چاہتے ہوئے یا نہ چاہتے ہوئے، اسرائیل کی جیبوں کو بھر رہے ہیں۔
آج حالات بدل چکے ہیں، یعنی کسی وقت سامنے جاکر دشمن سے لڑتے تھے لیکن آج ہم دشمن کے دامن میں ہی جنگ لڑ رہے ہیں اور اگر کچھ طاقت کا مظاہرہ کرنا چاہیں تو Delete بٹن کا شکار ہوکر حذف ہوجاتے ہیں۔ بہرحال دشمن شناسی بہت واجب موضوع ہے۔
دشمن تیرہویں یہودی پروٹوکول میں کہتا ہے کہ “تم جاکر ایک یہودی حاخام (رابی) کی بات کو مسلم دینی علماء کی زبان پر ڈال دو، کیونکہ کوئی بھی یہودی حاخام کی بات کو قبول نہیں کرتا لیکن اپنے علما کی بات سنتے اور مانتے ہیں”؛ وہ اپنی دشمنانہ پالیسیوں کو اس انداز سے نافذ کرتا ہے اور اپنی دشمنی کا اس ذریعے سے ظاہر کرتا ہے، تا کہ اپنی بات کو علماء کی زبان پر جاری کرے اور اس طرح مسلم معاشرے میں فکری دراندازی کرے۔
میں نے ایرانی ساختہ مصنوعات کا بہت خوبصورت اور متاثرکن پوسٹر دیکھا لیکن اس کے سائبر اسپیس کا پتہ یا برقی پتہ بیرونی پیغام رسانوں پر مشتمل تھا، اور یہ تمام ممالک میں رائج ایک بڑا تضاد ہے؛ اور ہم گویا ایک جاسوس کا کردار ادا کررہے ہیں جو نہ صرف اس جاسوسی کے بدلے کوئی اجرت نہیں لیتے کچھ رقم خرچ بھی کرتے ہیں۔
 
خیبر: ہمیں اس وقت کس چیز کے بارے میں فکرمند ہونا چاہئے اور ہم کس قسم کے استعمار کا سامنا کررہے ہیں؟
ـ ہم آج جدید استعمار کے دور سے گذر رہے ہیں۔ جس کو آیت اللہ حائری شیرازی (رہ) نے “فکری استعمار” کا نام دیا، آج بےزبانی کی زبان میں ہم سے کہہ رہے ہیں کہ “آپ کو مزید سوچنے کی ضرورت نہیں ہے، ہم آپ کی جگہ سوچتے ہیں”۔ ہم نے کسی سے بھی سوشل میڈیا کی درخواست نہیں کی لیکن انھوں نے بڑی آسانی سے اسے ہمارے لئے فراہم کیا۔ ہم میں سے جو لوگ کچھ کچھ ذمہ داری محسوس کرتے ہیں وہ روزانہ کچھ باتیں کہیں سے اٹھا کر کہیں نشر کردیتے ہیں اور ہماری تخلیقی سرگرمیوں کی انتہا صرف اتنی ہے کہ کچھ بیرونی سافٹ ویئرز کو لے کر اسی شکل میں، تیار کریں اور یہ وہی پیچیدہ جنگ ہے جس کا عام جنگوں سے اختلاف اسلحے کے حوالے سے ہے۔ آج کا اسلحہ مختلف ہے۔
اس پیچیدہ لڑائی کا پیچیدہ ترین پہلو یہ ہے کہ ہم دشمن کی زمین میں بیٹھ کر لڑرہے ہیں۔ ہمارے اچھے اور نیک نوجوان جانے بوجھے بغیر اپنے موقف کے ذریعے اپنے اوپر ہی حملہ کرتے ہیں۔ رہبر معظم کی رائے یہ ہے کہ “دشمن کی زمین پر نہیں کھیلنا چاہئے کیونکہ اس میں ہار اور جیت دونوں کا فائدہ دشمن کو پہنچتا ہے”؛ جیسے کہ ہم کھیل کے میدان میں یہودی ریاست کے کھلاڑیوں سے نہیں کھیلتے، کیونکہ کھیلنے کی صورت میں کوئی فرق نہیں پڑتا کہ ہم جیتیں یا ہاریں، اہم بات یہ ہے کہ گویا ہم ان کے ساتھ کھیل کر یہودی ریاست کو تسلیم کرلیا ہے۔
ہماری جنگ کی روش کچھ یوں ہے کہ جب کسی چیز کو دیکھتے ہیں اس کی طرف لپکتے ہیں اور مشکل کا خاتمہ کرنا چاہتے ہیں جبکہ باقی محاذ خالی رہتا ہے اور دوسرے نقاط سے نقصان اٹھاتے ہیں؛ جس طرح کہ یہودی ریاست کے وزیر اعظم نیتن یاہو نے ۲۰۱۳ میں بی بی سی کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا تھا کہ “اگر ایران کے عوام آزاد ہوتے تو جینز کے پتلون پہنتے!” جبکہ ہمارے ذرائع ابلاغ کے پاس بی بی سے کہیں زیادہ افرادی قوت ہے لیکن وہ ہمیں اس طرح کے قصوں سے چیلنج کرتے ہیں اور یہ در حقیقت کاروائی کی روش میں وہ خلا ہے جس کا ہمیں سامنا ہے۔
خیبر: اس بات کا سبب کیا ہے کہ ہمارے پاس تربیت یافتہ افرادی قوت بھی ہے اور تخلیقی صلاحیت بھی ہے لیکن پھر بھی کوئی کام انجام نہیں پاتا؟
– ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم حملہ کرنے کی صلاحیت حاصل کریں اور جان لیں کہ کس وقت کونسا کام کرنا چاہئے۔
خیبر: کیا ہم کوئی ہمآہنگ تھنک ٹینک قائم کرنے میں کامیاب ہوسکے ہیں جو اس قسم کی سرگرمیوں کو منظم کرے اور حملے اور دفاع کے لئے منصوبہ بندی کرے؟
– رہبر معظم نے نوجوانوں سے فرمایا کہ “اپنے اختیار سے اٹھ کر دشمن کا مقابلہ کرو اور خود جاکر منصوبہ بندی کرو”، اس وقت اس لحاظ سے تقریبا تمام اسلامی ممالک کا کمانڈ روم خلل کا شکار ہے، اسی بنا پر بہت سے مقامات پر مختلف قسم کے کام ہورہے ہیں۔ دشمن ہمارے اگلے قدم کو نہیں بھانپ سکتا اور یوں نقصان نہیں پہنچا سکتا۔ جو کام دشمن کرسکتا ہے یہ ہے کہ وہ نیٹ ورک بنا لیتا ہے اور ایک ایسی فکر کو اندر لے کر آتا ہے جو کہ بہت ہی زیادہ کامیاب ہے۔
وہ ہماری ترجیحات بدلنے کی کوشش کرتا ہے، ہر روز ملکی ساختہ مصنوعات کے استعمال کے رجحان کے مقابلے میں ایک نئی ترجیح لاتا ہے تا کہ اندرونی مصنوعات کی عوامی حمایت کے لئے متعینہ ایک سال کا عرصہ گذر جائے۔ دشمن نے ایران کے خلاف آٹھ سالہ جنگ کے دوران، ہر بار نئے ہتھکنڈے استعمال کئے۔ عراق نے ایران پر حملہ کیا تو ہمارے دشمن “اسرائیل” نے افواہ اڑا دی کہ “ایران اسرائیل کا دوست ہے”۔
ایران نے بھی اپنے کچھ سپاہی اسرائیل کے خلاف براہ راست لڑائی کے لئے شام بھجوا دیئے اور امام خمینی(رہ) نے اس حوالے سے ان سے فرمایا: “قدس کا راستہ کربلا سے گذرتا ہے”؛ یعنی وہ زمانہ یہودی ریاست کے خلاف براہ راست لڑائی کا زمانہ نہیں تھا اور ہمیں چاہئے تھا کہ پہلا قدم زیادہ مضبوطی کے ساتھ اٹھائیں۔

 

ائمہ طاہرین اور مسلمانوں کے بائیولوجیکل قتل میں یہودیوں کا کردار/ حسین پور کے ساتھ گفتگو

  • ۴۱۳

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: تاریخی دستاویزات سے معلوم ہوتا ہے کہ ابتدائے اسلام میں بھی بائیولوجیکل ہتھیاروں کا استعمال کیا جاتا تھا البتہ اس میں یہودیوں کا کردار زیادہ واضح نظر آتا ہے اسی موضوع کے حوالے سے خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ نے حجۃ الاسلام ڈاکٹر سید محمد مہدی حسین پور سے گفتگو کی ہے:
خیبر: کیا صدر اسلام میں بائیولوجیکل ہتھیاروں کا استعمال ہوتا تھا؟ اور اس کے استعمال میں یہودیوں کا کیا کردار تھا؟
۔ ابتداء میں ہی یہ بات عرض کر دوں کہ تاریخ میں کچھ ایسے یہودی نظر آتے ہیں جو اپنے حریفوں کے قتل کے لیے کچھ حربے اپناتے تھے۔ یہاں تک کہ قرآن کریم انہیں انبیاء کے قتل کے ماہرین قرار دیتا ہے۔ لیکن قتل کا طریقہ کیا تھا وہ مختلف حالات و شرائط میں مختلف ہوتا تھا۔
کبھی کبھار یہ قاتلانہ حملہ جنگی ہتھیاروں مثلا تلوار وغیرہ کے ذریعے ہوتا تھا۔ کبھی بائیولوجیکل ہتھیاروں کے ذریعے حملہ کیا جاتا تھا۔ یعنی اپنے دشمن کو زہریلے مادے کے ذریعے مٹایا جاتا تھا۔ یہ چیز اس قدر اہم تھی کہ رسول خدا(ص) کے دور میں بعض لوگوں نے واضح طور پر اعلان کیا ہے کہ وہ اس لیے مسلمان نہیں ہو رہے ہیں کہ انہیں یہودیوں کی جانب سے قاتلانہ حملے کا خوف ہے۔
تاریخ میں نقل ہوا ہے کہ یمن کا ایک یہودی مدینے آیا اور اس نے اسلام قبول کیا، جب اپنے وطن واپس لوٹ کر گیا تو قبیلے کے سردار کے حکم سے اس کے ٹکڑے ٹکڑے کر دئے گئے۔ (۱) بہرحال کسی کو صفحہ ہستی سے مٹانا یہودیوں کے نزدیک معمولی کام تھا۔ یہاں تک کہ رسول خدا (ص) سے روایت نقل ہوئی ہے:اگر دو یہودی ایک مسلمان کے ساتھ کہیں تنہائی میں نظر آئیں تو یقینا وہ اس مسلمان کے قتل کا منصوبہ بنائیں گے‘‘۔
امیر المومنین علی علیہ السلام سے مروی ہے کہ آپ نے فرمایا: ’’مسلمان چھے طرح کے لوگوں سے امان میں نہیں ہیں ان میں سے ایک یہودی ہیں‘‘۔
بہرحال تاریخ اسلام میں یہودیوں نے اپنے دشمنوں کو مٹانے کے لیے دونوں حربوں یعنی جنگی ہتھیاروں اور بائیولوجیکل ہتھیاروں کا استعال کیا ہے اور دونوں کے ذریعے کبھی انفرادی قتل بھی کیا ہے اور کبھی اجتماعی قتل عام بھی۔
صدر اسلام میں یہودیوں کی جانب سے اجتماعی قتل عام معمولا زہر کے ذریعے انجام پاتا تھا۔ تاریخ میں اس دعوے پر دستاویزات موجود ہیں۔ بعض افراد نے اس دور میں زہر کے ذریعے قتل عام کو بائیولوجیکل وار قرار دیا ہے۔
جیسا کہ بعض مورخین قائل ہیں کہ خود پیغمبر اکرم (ص) کی شہادت ایک یہودی عورت ’زینب بن حارث‘ کے زہر سے انجام پائی جو مرحب کی بہن تھی اس نے گوسفند کے گوشت میں زہر ملا کر پیغمبر اکرم کو دیا اور یہ زہر جلدی اثر کرنے والا نہیں تھا بلکہ اس نے دھیرے دھیرے اثر کیا اور اسی کی وجہ سے تین سال کے بعد آپ کی شہادت واقع ہوئی۔ بہت سارے شیعہ اور سنی مورخین نے اس واقعہ کو نقل کیا ہے۔
ہم نے ’’دشمن شدید‘‘ کتاب میں مختلف دلائل کے ساتھ ثابت کیا ہے کہ یہودی امیر شام اور بطور کلی بنی امیہ کے ذریعے اسلام میں گہرا اثر و رسوخ پیدا کرنے میں کامیاب ہوئے اور بنی امیہ کے تمام حکمران یہودیوں کے مہرے تھے۔ اسی وجہ سے ان  کی جانب سے اکثر قاتلانہ حملے بائیولوجیکل ہتھیاروں سے انجام پاتے تھے جو در حقیقت یہودیوں کا حربہ تھا۔
امیر شام جب بھی اپنے دشمن کو مٹانے میں ناکام ہوتا تھا تو اپنے دوست ابن اثال جو یہودی تھا کو زہر تیار کرنے کا حکم دیتا تھا اور اس زہر کے ذریعے اپنے حریفوں کا صفایا کرتا تھا۔

 

پیغمبر اکرم (ص) کی معراج؛ مکہ سے قدس تک

  • ۴۱۹

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ، مسئلہ قدس کا جائزہ اور سرزمین فلسطین کے ماضی اور حال پر تبصرہ، ان اہم موضوعات میں سے ہیں جن کو ہمیشہ علمی تحریروں اور گفتگوؤں میں مورد بحث قرار پانا چاہیے۔ اس مقصد کے پیش نظر خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ کے نامہ نگار نے حجت الاسلام و المسلمین سید حسن موسوی زنجانی جو فلمنامہ حضرت موسی(ع) کے مشیر ہیں سے مسئلہ قدس پر قرآنی زاویہ نگاہ سے گفتگو کی ہے۔
خیبر: آپ کی نظر میں قرآن کریم مسئلہ قدس اور فلسطین کو کس قدر اہمیت دیتا ہے اور کیا یہ مسئلہ صرف ایک نظریہ کی حد تک ہے؟
بسم اللہ الرحمن الرحیم؛ تین براعظموں کو آپس میں ملانے والا مغربی ایشیا ہے اور مغربی ایشیا کا قلب عبارت ہے ایک مثلث سے؛ بیت المقدس، مسجد کوفہ اور مسجد الحرام۔ خداوند عالم نے حضرت آدم سے کہا کہ اس مثلث سے ارادہ الہی دنیا میں تحقق پانا چاہیے۔
اس مثلث کی حضرت ابراہیم نے حفاظت کی۔ خداوند عالم نے حضرت ابراہیم کو حکم دیا کہ دنیا کو یہ بتلائیں کہ پوری دنیا میں ایک نظم برقرار رہنا چاہیے، یہ کون سا نظم تھا؟ یعنی یہ کہ جس شخص کے لیے ممکن ہو مکہ جائے تاکہ مکہ کو تعمیر کرے۔ سورہ حج میں آیا ہے کہ لوگوں کو اعلان کرو کہ سب مکہ جائیں۔ سب سے پہلے خود حضرت ابراہیم مکہ گئے، اسی وجہ سے حضرت ابراہیم مکہ کی علامت اور نشان قرار پائے۔ مسجد کوفہ میں بھی مقام ابراہیم ایسی جگہ پر ہے کہ جو شخص مسجد کوفہ میں جاتا ہے وہاں دو رکعت نماز ادا کرتا ہے۔
مکہ کو حضرت ابراہیم کے ایک بیٹے حضرت اسماعیل نے آباد کیا اور بیت المقدس کو انکے دوسرے بیٹے جناب اسحاق نے آباد کیا اور انہیں کی نسل سے بنی اسرائیل کا سلسلہ شروع ہوا۔ مکہ میں بنی اسماعیل بر سر اقتدار آئے اور انہیں کی نسل سے پیغمبر اسلام(ص) تشریف لائے۔ اسلام آنے کے بعد ان دونوں بھائیوں (اسماعیل اور اسحاق) کی آباد کردہ بستیوں کو آپس میں جوڑا گیا، اب بیت المقدس نہ صرف بیت المقدس رہا بلکہ مسلمانوں کا قبلہ قرار پایا۔ اس لیے مسلمانوں کو پہلے بیت المقدس کی طرف نماز پڑھنے کا حکم دیا گیا تھا اس کے بعد حکم ہوا کہ بنی اسماعیل کے قبلے کی طرف نماز ادا کریں یعنی خانہ کعبہ کی طرف۔
 
خیبر: یعنی پیغمبر اکرم ایک مدت تک صرف بیت المقدس کی طرف اپنی نماز ادا کرتے تھے؟
۔ میں یہاں پر ایک اہم نکتے کی طرف اشارہ کروں جو شیعہ سنی کتابوں میں معمولا بیان نہیں ہوتا وہ یہ ہے کہ پیغمبر اکرم اپنی پوری زندگی یعنی اس سے قبل کہ انہیں خانہ کعبہ کی طرف نماز ادا کرنے کا حکم ملتا مکہ میں خانہ کعبہ کی مشرقی سمت کھڑے ہوتے تھے تاکہ کعبہ اور بیت المقدس دونوں کی طرف رخ کر کے ایک ساتھ نماز ادا کریں۔
جتنا عرصہ آپ(ص) مکہ میں تھے اور مدینے ہجرت کے بعد بھی ابتدائی چند مہینے تک آپ اس طریقے سے نماز کے لیے کھڑے ہوتے تھے کہ اگر کوئی آپ کی نیت سے باخبر نہ ہوتا تھا تو یہی سوچتا تھا کہ آپ خانہ کعبہ کی طرف رخ کر کے نماز پڑھ رہے ہیں۔ امام باقر اور امام صادق علیہما السلام نے اس مسئلے کو یوں واضح کیا ہے کہ پیغمبر اسلام اس طریقہ سے نماز ادا کیا کرتے تھے کہ خانہ کعبہ اور بیت المقدس دونوں ایک ہی سمت میں واقع ہوتے تھے۔
لہذا بیت المقدس کی اہمیت اس حد تک ہے کہ خداوند عالم نے مسلمانوں کو اس کی طرف رخ موڑ کر نماز پڑھنے کا حکم دیا۔ اور پھر بنی اسرائیل کے ۴۸ پیغمبر بیت المقدس میں مدفون ہیں۔ جبکہ بنی اسرائیل کا کوئی ایک بھی نبی حجاز میں نہیں ہے۔
یہ مثلث جس کا تذکرہ کیا گیا حضرت ابراہیم سے مخصوص ہے۔ اور ہم حضرت ابراہیم کے وارث ہیں۔ آپ تمام مسلمان اپنے جد حضرت ابراہیم کے وارث ہیں۔ اور یہ روایت تواتر کے ساتھ ہے۔ یعنی حجاز، کوفہ اور بیت المقدس مسلمانوں کا ہے اور اس مثلث کا ایک دائرہ ہے اور وہ دائرہ فردوس ہے؛ فدک اور ام القریٰ۔
آپ پرکار کی ایک نوک کو کعبہ پر رکھیں۔ اور پرکار کی دوسری نوک کو عراق اور فلسطین پر گمائیں تو دریائے نیل سے لے کر بحر ہند، نہر سوئز، باب المندب، جبل الطارق اور ابنائے ہرمز تک کا علاقہ اس دائرے میں سمٹ جائے گا کہ اس دائرے کو ام القریٰ کہتے ہیں، یہ وہ فدک اعظم ہے جو پیغمبر اکرم نے حضرت زہرا (س) کو تحفہ دیا تھا۔ ورنہ فدک صرف ایک باغ نہیں تھا بلکہ ام القریٰ تھا۔
رسول خدا نے فرمایا کہ بیت المقدس اتنی اہمیت کا حامل ہے کہ قرآن کے سورہ اسراء میں اس کا یوں تذکرہ ہوا ہے: «سبحان الذی اسری بعبده لیلا من المسجد الحرام الی مسجد الاقصی».
اس سورہ کے دو نام ہیں ایک اسراء اور دوسرا بنی اسرائیل۔ تاریخ بشریت کی سب سے بڑی جنگ جو اقوام عالم کی تقدیر کو بدل دے گی اس خطے میں ہو گی۔ سورہ بنی اسرائیل کی پہلی سات آیتوں میں مسلمانوں اور بنی اسرائیل کے درمیان اس خطے میں جنگ کا تذکرہ ہے اور دوسری جنگ مسلمانوں کی اسرائیل سے ہے اور اس جنگ کے بعد یہودی اس قدر بکھر جائیں گے کہ مسلمان اگر انہیں ڈھونڈنا بھی چاہیں گے تو نہیں ڈھونڈ پائیں گے۔
بیت المقدس کی فتح، اسلام کی طاقت کا عروج
بیت المقدس کی فتح کے بعد اسلام کی طاقت کو عروج ملے گا۔ پیغمبر اکرم جو ’’قاب قوسین او ادنی‘‘ کی منزل تک خداوند عالم کے قریب ہوئے ان کی معراج کے سفر کا آغاز بیت اللہ الحرام سے بیت المقدس تک ہوا۔
قرآن کریم کے اکثر مقامات پر ’’اہل الکتاب‘‘ کا تذکرہ ہے اس لیے جو مسلمان بھی قرآن کریم کا مطالعہ کرتا ہے دیکھتا ہے کہ اسلام کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ اہل الکتاب ہیں وہ نہیں چاہتے کہ اسلام ترقی کرے۔ قرآن کریم میں اہل کتاب کے علاوہ کسی قوم و ملت کا تذکرہ نہیں۔ لہذا پورا قرآن اس بات کی طرف متوجہ کر رہا ہے کہ بیت المقدس اور یہود کا مسئلہ، عالم اسلام کے اہم ترین مسائل میں سے ہے، «و لتجدن اشد الناس عداوه للذین آمنوا الیهود» ۔ یہود کو مومنین کا شدید ترین دشمن پاؤ گے۔

 

اسرائیلی ریاست کی اندرونی دراڑیں

  • ۴۲۴

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ کے شعبے “فلسطین اور مزاحمت” کی رپورٹ کے مطابق، اسرائیل میں موجودہ دراڑوں کے جائزے اور اس مسئلے میں غور و فکر کے بموجب اسرائیل اور فلسطین کے شعبے کے محققین اس مسئلے کی طرف متوجہ ہوئے ہیں اور جامع تحقیقات کے ذریعے ان دراڑوں کو آشکار کر رہے ہیں اور نظریات کو منصوبہ سازی کے ہمراہ میدان میں عمل میں لا رہے ہیں۔ ڈاکٹر علی رضا سلطان شاہی طویل عرصے سے صہیونیت اور اسرائیل کے سلسلے میں مطالعے اور تحقیق میں مصروف ہیں۔
ذیل کا متن ڈاکٹر سلطان شاہی کے ساتھ خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ کے نمائندے کا مکالمہ ہے جو قارئین و صارفین کی خدمت میں پیش کیا جارہا ہے:
خیبر: اسرائیل نامی ریاست کی دراڑیں آج کے ایام میں ماضی سے کہیں زیادہ قابل مشاہدہ ہیں؛ اس ریاست میں موجود اہم ترین دراڑوں کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟
سلطان شاہی: میں نے صہیونی ریاست کے وحود کے اندر کی دراڑوں میں زیادہ تر کام اس کی آبادی سے متعلق کیا ہے اور میرا خیال ہے کہ آبادی کا مسئلہ اس ریاست کا سب سے اہم مسئلہ ہے۔ دنیا کے ۱۰۲ ممالک سے اٹھاون لاکھ یہودی مقبوضہ فلسطین میں آن بسے ہیں؛ جب ہم کہتے ہیں کہ ۱۰۲ ممالک سے، یعنی ۱۰۲ مختلف ثقافتی، کرداری، سیاسی، سماجی، مذہبی، قومی اور زبانی خصوصیات، جنہیں ایک ریاست کی عملداری میں اکٹھا کیا گیا ہے۔
یہاں ہجرت کرنے والے اکثر یہودی عبرانی زبان نہیں بول سکتے ہیں بلکہ صرف کچھ لوگ عبرانی میں بات چیت کرسکتے ہیں۔ بطور مثال مقبوضہ فلسطین میں یہودی ریاست کے تحت ایرانی یہودیوں کی تعداد تقریبا دو لاکھ ہے لیکن اس قدر دوسرے یہودیوں سے بیگانہ ہیں کہ ایرانی یہودیوں کی اپنی کتابیں اور اپنے رسالے اور اخبارات ہیں اور اتنا طویل عرصہ گذرنے کے باوجود جبرا بنائی گئی تہذیب میں گھل مل نہیں سکے ہیں۔
البتہ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اس ریاست میں معمول کے معنوں میں کوئی خاص تہذیب موجود نہیں ہے بلکہ سب یورپی روش اپنائے ہوئے ہیں کیونکہ زیادہ تر یہودی یورپ سے یہاں آ گئے ہیں۔ مشہد کے یہودی صہیونی ریاست میں حتی دوسرے ایرانی یہودیوں سے بھی بیگانے ہیں، چہ جائےکہ وہ اسرائیلی بن جائیں۔ اس وقت نیویارک میں مقیم مشہد کے یہودیوں کی اپنی الگ تنظیم ہے۔
یہ دراڑیں جس قدر کہ زبانی، قومی، ثقافتی اور اعتقادی لحاظ سے زیادہ ہوں، صہیونی معاشرے کی سطح پر اتنی ہی دراڑیں معرض وجود میں آئیں گی۔ اسی بنا پر صہیونی اپنے منصوبوں میں مسائل کا شکار ہوگئے ہیں۔ کیونکہ المختصر: “یہاں آبادی کا مسئلہ ہے”؛ جب سے یہودی ریاست بنی ہے، اب تک اسقاط حمل کے ۲۰ لاکھ واقعات سامنے آئے ہیں۔
یہودی ریاست کی آبادی میں اضافے کی شرح بمشکل ۱٪ ہے؛ الٹی ہجرت [اور یہودیوں کی اپنے آبائی ممالک میں واپسی] میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے اور فلسطین کی طرف یہودیوں کی ہجرت مسلسل کم ہورہی ہے۔ یہودی نوجوانوں میں امریکی اور یورپی طرز زندگی اپنانے کے رجحان میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے یعنی یہ کہ یہودی ریاست میں رہنے کے لئے ان کے ہاں کوئی محرک نہیں ہے۔
یہاں کے مردوں اور عورتوں کو فوج میں جبری خدمت کرنا پڑتی ہے، اس کے باوجود ان کے مردوں اور عورتوں میں جنگ کی طرف رغبت بالکل نہیں پائی جاتی اور آسائش طلبی کا شوق ان کے اوپر مکمل طور پر غالب آچکا ہے۔ یہودی ریاست کی افواج میں نافرمانی کے واقعات بہت زیادہ ہیں۔
ادھر آبادی میں اضافے کا رجحان کم ہونے کے ساتھ ساتھ، فلسطینیوں کی آبادی میں اضافے کی شرح ۴ فیصد تک پہنچ چکی ہے؛ وہ قدس کی آزادی کی آرزو سے لیس ہیں، یہودیوں کے خلاف ہیں اور اس وقت [ملینوں فلسطینیوں کو ملک سے نکال باہر کئے جانے کے باوجود] فلسطینیوں کی آبادی تقریبا یہودی آبادی کے برابر ہے۔
خیبر: کیا مذکورہ فلسطینی آبادی میں آپ نے بیرون ملک مقیم فلسطینی پناہ گزینوں کو شمار نہیں کیا؟
– نہیں! اگر پناہ گزینوں کو بھی فلسطینیوں کی اندرونی آبادی میں شامل کریں تو ان کی آبادی یہودیوں کے دو گنا ہوجائے گی؛ اور یہی یہودی ریاست کے لئے بہت بڑی آفت ہے جس کا وہ اعلانیہ اظہار نہیں کرتے لیکن بہت سے ادارے ہیں جو اس مسئلے کے حل کے درپے ہیں؛ اور وہ خود بھی کہہ رہے ہیں کہ اگر آبادی میں توازن بحال نہ کرسکیں تو انہیں شکست کا سامنا کرنا پڑے گا۔
خیبر: آبادی کی بنیاد پر اہم دراڑ کے علاوہ کیا فلسطین پر قابض یہودی ریاست میں مزید دراڑیں بھی ہیں؟
– کسی وقت جب یہاں اشکنازی یہودی تھے تو ان میں سے ہر کسی کا اپنا ایک رتبہ ہوتا تھا اور بہتر اقتصادی اور معاشرتی پوزیشن کے ساتھ حساس اور کلیدی مناصب تک رسائی ممکن تھی لیکن ۱۹۷۰ کے عشرے سے ۱۹۸۰ کے عشرے تک ایتھوپیا کے یہودی بھی ہجرت کرکے مقبوضہ فلسطین آگئے اور یوں یہاں بڑی تعداد میں سیاہ فام باشندے بھی آباد ہوئے جس کے نتیجے میں صہیونی ـ یہودی ریاست کے مسائل میں نسلی دراڑ بھی شامل ہوگئی۔
ابتداء میں تو افریقی کوئی خاص توقع نہیں رکھتے تھے لیکن جب انھوں نے دیکھا کہ فلسطین میں بہت سے طبقے ہیں جو اپنے حقوق کے لئے ہڑتالیں کرتے ہیں، احتجاج کرتے ہیں اور سڑکوں کو بند کرتے ہیں تو وہ بھی اپنے حقوق کے لئے سڑکوں پر آئے اور دوسرے یہودیوں کے برابر کے شہری حقوق کا مطالبہ کیا۔ اب صورت حال یہ ہے کہ اشکنازی، کالے اور سفارادی یہودیوں کے درمیان کشمکش اور تنازعے کی صورت حال حکمفرما ہے۔
علاوہ ازیں میزبان [مقبوضہ] ملک “عرب” اور “دروزی” نامی قوم کا ملک ہے جن کی آبادی میں اضافہ ہو رہا ہے؛ اور پھر یہاں “عرب یہودی” بھی ہیں جو پوچھ رہے ہیں کہ انہیں فوج میں کیوں نہیں جانے دیا جاتا اور انہیں فوج کے فوائد سے مستفید کیوں نہیں ہونے دیا جاتا؟ اب آپ خود اسرائیل نامی جعلی ریاست کے اندر ایک نگاہ ڈالیں اور دیکھ لیں کہ یہودیوں کے درمیان کیا واقعات رونما ہو رہے ہیں اور غیر یہودی، یہودیوں کی نسبت کس طر عمل کررہے ہیں؟
بعض یہودی نوجوان کہتے ہیں کہ اگر یہاں کا حکمران نظام صہیونیت اور قومی یہودی تحریک ہے تو پھر یہودی ریاست کے کنیسے میں ایک عرب اذان کیوں دیتا ہے؟ اس کا کیا جواز ہوسکتا ہے؟ اسی بنا پر دائیں بازو کی یہودی جماعتوں کا خیال ہے کہ اب وہ زمانہ گذر گیا ہے جب ہمارا اپنا آپ دنیا کو دکھانے کا دور گذر چکا ہے، اسی بنا پر انھوں نے کچھ اقدامات کا منصوبہ بنایا ہے کہ کنیسے کو ایسے افراد سے خالی کرایا جائے۔ “اپنا آپ لوگوں کو دکھانے کا زمانہ گذر چکا ہے” سے مراد یہ ہے کہ اب وہ وقت گذر گیا ہے کہ ہم دنیا کو بتاتے رہیں کہ اگر ایک غیر یہودی بھی آیا تو کوئی حرج نہیں ہے اور ہم اسے شہریت دے دیں۔
اس وقت فلسطینیوں کی آبادی میں اضافہ ہورہا ہے، دوسری طرف سے دروزیوں کی آبادی میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ ادھر ۲۰ لاکھ عرب ۱۹۴۸ کی فلسطینی سرزمین میں سکونت پذیر ہیں، تو کیا یہودی انہیں دریابرد کریں گے؟ قتل کریں گے؟ نکال باہر کریں گے؟ اصولی طور پر وہ کچھ بھی نہیں کرسکتے جس کا مطلب یہ ہے کہ یہودی ریاست کو مختلف قسم کی بند گلیوں کا سامنا ہے جنہوں نے اسے شکست و ریخت سے دوچار کردیا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

حماس کے سابق رکن کے ساتھ خیبر کی گفتگو/اسلامی ممالک کے حکمرانوں پر اسرائیلی جادو کارساز

  • ۴۸۶

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: عصر حاضر میں صہیونیزم مکڑے کے جال کی طرح پوری دنیا میں پھیل چکی ہے اور حتیٰ ان ملکوں جو عرصہ دراز سے اسرائیل کے ساتھ معرکہ آرائی میں فرنٹ لائن پر تھے میں بھی اپنا تسلط قائم کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ نے اس حوالے سے حماس کے سابق رکن اور محقق ڈاکٹر مصطفیٰ یوسف الداوی کے ساتھ ایک گفتگو کی ہے۔ الداوی غزہ پٹی کے رہنے والے ہیں اور تاحال ۹ مرتبہ اسرائیلی فوج کے ہاتھوں گرفتار ہو کر جیل جا چکے ہیں۔
سوال؛ اسلامی ممالک میں اسرائیل کس حد تک اپنا اثر و رسوخ پیدا کرنے میں کامیاب ہوا ہے کیا آپ اس حوالے سے کچھ وضاحت کریں گے۔
۔ اس میں کوئی شک نہیں فلسطین کے غصب ہونے اور صہیونی ریاست کی تشکیل پانے کے ابتدائی ایام سے لے کر آج تک کا یہ پیریڈ اس حکومت کے لیے ایک سنہری پیریڈ تھا۔ اس لیے کہ دشمن یہ احساس کرتا آ رہا ہے کہ وہ اپنی زندگی کی راہ میں پائی جانے والی تمام رکاوٹوں کو دھیرے دھیرے ختم کر رہا ہے اور عرب ممالک کے ساتھ اس کے تعلقات معمول پر آ رہے ہیں اور مزاحمتی محاذ روز بروز کمزور ہوتا جا رہا ہے۔
دشمن کو یہ بھی سوچ کر خوشی ہو رہی ہے کہ اب اسے بہت سارے عرب ممالک کے ساتھ اپنے تعلقات کو برملا کرنے میں کوئی مشکل درپیش نہیں ہے۔
دوسری جانب عرب ممالک بھی اپنی سیاسی، ثقافتی اور کھیل کود کی سرگرمیوں میں اسرائیل کو شرکت کی دعوت دینے میں کسی شرم و حیا کا احساس نہیں کر رہے ہیں اور اسرائیل کا پرچم عرب ممالک میں دیگر ملکوں کے پرچموں کے ساتھ بلند ہو رہا ہے۔
یہاں تک کہ اسرائیل کا قومی ترانہ بھی عرب ملکوں میں گایا جانے لگا ہے! اسرائیلیوں کا عربی دار الحکومتوں میں والہانہ استقبال ہونے لگا ہے!، اس کے علاوہ اسرائیل تاجروں کا عرب تاجروں کے درمیان بغیر کسی خوف و ہراس کے لین دین شروع ہو چکا ہے۔
البتہ یہ بات یاد رہے کہ یہ تمام طرح کے تعلقات اور روابط سرکاری سطح پر ہیں عرب ملکوں کے عوام ان سے فی الحال بیزار ہیں۔
حکومتیں اور حکمران ہمیشہ سے خیانتوں کا ارتکاب کرتے اور اسلامی اصولوں کو پامال کرتے رہے ہیں۔ صہیونی دشمن اس بات کو بخوبی جانتے ہیں کہ عرب قوموں اور اسلامی ملتوں کی جانب سے مزاحمت اور مخالفت اپنی جگہ پر پوری قوت کے ساتھ باقی ہے اور تاحال وہ ان ملتوں کے درمیان اثر و رسوخ پیدا نہیں کر پائے ہیں۔ ابھی تک وہ جس میدان میں کامیاب ہوئے ہیں وہ صرف عرب حکام کے ساتھ تعلقات کو کسی حد تک معمول پر لانے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ وہ بھی ان عرب حکمرانوں کے ساتھ جو یہ سوچتے ہیں کہ صہیونی ریاست ان کی دوست ہے اور ان کی حفاظت کے لیے اپنی جان چھکڑنے کو تیار ہے۔

جاری

امریکہ کے صدور یہودیوں کے اشاروں پر چلنے میں مجبور ہیں: ڈاکٹر صفاتاج

  • ۴۱۶

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: امریکہ میں حکومتی عہدیداروں کو اپنے کنٹرول میں رکھنے کے لیے یہودیوں کی طرف سے لابیاں تشکیل دینا اس ملک میں رائج امور کا حصہ ہے۔ امریکی حکومت پر صہیونی لابیوں کا اثر و رسوخ اتنا زیادہ ہے کہ امریکی حکومت میں یہودیوں کو پوشیدہ حکمران سمجھا جا سکتا ہے۔
خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ نے اسی حوالے سے امریکی حکومتی نظام میں صہیونیت کے نفوذ کے موضوع پر ڈاکٹر مجید صفاتاج سے گفتگو کی ہے۔

خیبر: امریکی حکومت پر صہیونی اثر و رسوخ اور اس ملک کے حکمراں طبقے میں صہیونی لابیوں کی تشکیل کے حوالے سے آپ کا کیا نظریہ ہے؟
۔ امریکی حکومت کے تنظیمی ڈھانچے نے ابتدا سے ہی بہت سارے بااثر افراد اور گروپوں کی پالیسیوں کے اثرات قبول کرنے کی راہ ہموار کر رکھی ہے، اس ملک میں مفاد پرست گروہ منتخب نمائندوں اور ایگزیکٹو برانچ کے ممبروں پر اثر انداز ہوسکتے ہیں۔ امریکہ میں ہمیشہ سے ہی دو جماعتیں؛ ڈیموکریٹک اور ریپبلکن رہی ہیں اور وقت گزرنے کے ساتھ ہر ایک ایکزیکیٹو پاور اور سیاسی اقتدار استعمال کرنے میں کامیاب رہی ہے۔ لہذا، صہیونیوں کے لئے ہمیشہ ریاستہائے متحدہ امریکہ پر حکمرانی کرنے اور امریکی خارجہ پالیسیوں میں ایک اہم کردار ادا کرنے کا موقع فراہم رہا ہے۔
اس سلسلے میں، یہودی لابی اور صیہونی گروپوں نے ہر مرحلے اور ہر دور میں صیہونی منصوبوں کی حمایت کرنے کے لئے اپنی خواھش کے مطابق امریکی حکومتیں قائم کیں۔ اصولی طور پر، ریاستہائے متحدہ میں اقتدار میں آنے والی مختلف حکومتوں میں بااثر یہودی جماعتیں ہمیشہ سے شامل تھیں جو امریکی حکومت سے وابستہ تمام تنظیموں، اداروں ، معیشتوں اورحتیٰ فوجی امور میں کلیدی اور حساس عہدوں پر موجود تھیں۔ ان میں سے کچھ لوگوں نے وائٹ ہاؤس کے فیصلہ سازی کے ان مراکز میں بھی کام کیا جو امریکی حکومت کے پالسیوں کو متاثر کر سکتے ہیں۔
یوں تو امریکی حکومت میں یہودیوں کا اثر و رسوخ ہمیشہ سے تھا مگر ۱۹ویں صدی عیسوی کے بعد تو امریکہ کی خارجہ پالیسی تقریبا یہودیوں کے ہی اختیار میں چلی گئی۔
ریاستہائے متحدہ کے صدور اپنی حکومت میں یہودیوں کی موجودگی کے بارے میں مختلف رائے رکھتے تھے اور ہیں۔ کچھ حکومت میں یہودیوں کی موجودگی کی مخالفت کرتے تھے ، جبکہ دوسرے یہودیوں میں سے اپنے نائبوں اور مشیروں کا انتخاب کرتے تھے۔ لیکن ایسا لگتا ہے کہ وہ صدور جو یہودیوں مشیروں کو انتخاب بھی کرتے تھے وہ صہیونی لابیوں کے دباؤ کی وجہ سے ہوتا تھا۔

در حقیقت، امریکی صدر ’روزویلٹ‘ کے دور حکومت میں اس وقت صہیونی لابی کا گہرا اثر و رسوخ شروع ہوا جب ۱۹۱۲ میں اسرائیل کی تشکیل کے لیے بالفور منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کے لیے امریکی صدر کی تصدیق درکار تھی۔ کیونکہ اگر امریکہ کی حمایت حاصل نہ ہوتی تو برطانیہ کی حکومت کبھی بھی بالفور اعلامیہ کو منظور کروانے میں کامیاب نہ ہوتی۔  
پہلی جنگ عظیم کے دوران، وائٹ ہاؤس میں یہودیوں کا ایک مضبوط دباؤ گروپ سامنے آیا، جو امریکہ کا سب سے طاقتور یہودی گروپ تھا۔  یہ گروپ فلسطین میں یہودی ریاست کی تشکیل کے لیے برطانوی اور امریکی حکومت کی حمایت حاصل کرنے میں موثر ثابت ہوا۔
دوسری جنگ عظیم کے بعد ریاست ہائے متحدہ امریکہ میں صہیونی اثر و رسوخ اس حد تک بڑھ گیا کہ ان کی حمایت کے بغیر کسی صدر کا انتخاب یا اس کی بقا ناممکن نظر آنے لگی۔

جاری
https://chat.whatsapp.com/HiMcVN8LrmFEjqVx12pmen

 

صہیونی ریاست کا وجود ناجائز ہے ہم اس کا زوال چاہتے ہیں: یہودی ربی

  • ۳۸۸

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ؛ یہودی ربی یسرائیل ڈیوڈ ویس(Yisroel Dovid Weiss)  جو عالمی صہیونیت کے خلاف کام کرنے والی بین الاقوامی یہودی تنطیم نیٹوری کارٹا (International Neturei Karta) کے فعال رکن ہیں کے ساتھ خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ نے ایک مختصر گفتگو کی جو قارئین کے لیے پیش کی جاتی ہے:
خیبر: صہیونیوں کا اسرائیل کے دار الحکومت کو بیت المقدس منتقل کرنا کس قدر اہمیت کا حامل ہے؟
۔ میں نیٹوری کارٹا تحریک کا ایک دینی رکن ہوں۔ میں یہودیوں کا ربی ہوں۔ میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ اسرائیل ہماری سرگرمیوں میں کوئی مداخلت نہیں رکھتا۔ اور ہم پوری آزادی سے صہیونیزم کے خلاف سرگرمیاں انجام دے رہے ہیں۔ میں یہ کہوں گا کہ صہیونیوں نے بنیادی طور پر ہی یہ غلطی کی ہے کہ انہوں نے اپنے لیے ایک الگ ملک بنایا اور اس کا نام اسرائیل رکھا۔
حتیٰ کہ انہوں نے ہمارے داؤؤد کے ستارے کو بھی ہم سے چھین لیا اور اسے اپنے لیے مخصوص کر لیا اور انہوں نے کوشش کی کہ ہماری آواز کو دبائیں۔ البتہ ان علاقوں میں ہمارے بھی کچھ افراد ہیں جو ان کا مقابلہ کر رہے ہیں۔ ہم حضرت موسی کے دین کے پیروکار ہیں لیکن وہ صہیونیسٹ ہیں۔ یہاں تک کہ میں نے اسرائیل کے وزیر اعظم نیتن یاہو سے بھی کہا کہ یہ چیز ہمارے نزدیک قابل قبول نہیں ہے کہ آپ ملک بنائیں اور یہاں تک کہ ہم اپنی دستاویزات اقوام متحدہ میں بھی لے گئے اور ہم کوشش کر رہے ہیں کہ اسرائیل کے ناجائز وجود کو دنیا والوں کے لئے ثابت کریں۔
خیبر: اسرائیل کی طرف سے فلسطینی عوام پر جاری ظلم و تشدد کے بارے میں آپ کیا کہتے ہیں؟
۔ ہم فلسطینی مظلوم عوام کے ساتھ اظہار ہمدردی کرتے ہیں اور دنیا کو یہ پیغام دینا چاہتے ہیں کہ پوری دنیا کے یہودی جو مذہب یہود اور توریت پر ایمان رکھتے ہیں، وہ اسرائیلی ریاست کے وجود کے سخت خلاف ہیں۔ صیہونی ریاست کا وجود توریت کی تعلیمات کے یکسر منافی اور خدا کے ساتھ بغاوت کے مترادف ہے۔
ظلم تو یہ ہے کہ صیہونی اس سرزمین پر قابض ہوئے جو دراصل مسلمانوں، عیسائیوں اور یہودیوں کی آبائی سرزمین ہے اور وہ اس قبضے کے شدید مخالف ہیں۔ میرے پاس ایک تاریخی خط ہے، جو ۱۹۴۷ء میں فلسطین کے چیف ربی نے اقوام متحدہ کو لکھا اور مطالبہ کیا کہ پوری دنیا کی آرتھوڈاکس یہودی کمیونٹی جو ساٹھ ہزار نفوس پر مشتمل ہے صیہونی ریاست کے قیام کے سخت خلاف ہے اور یروشلم کو یہودی ریاست میں شامل کرنے کی شدید مخالفت کرتی ہے۔ ہمارا مطالبہ ہے کہ یروشلم کو بین الاقوامی زون قرار دیا جائے، تاکہ وہاں کے باسی آزادی سے اپنے زندگی بسر کر سکیں۔ لیکن جب فلسطین کے چیف ربی نے دیکھا کہ ان کے مطالبے کو رد کر دیا گیا ہے تو اس دن سے یہودی مذہبی پیشواؤں نے صیہونیت کے خلاف احتجاج شروع کیا جو تاحال جاری ہے اور اسرائیل کے زوال تک جاری رہے گا۔

 

انٹرویو/ بہائیت کا مقابلہ ان کے مبانی پر تنقید سے ممکن نہیں: حدادپور جہرمی

  • ۴۹۸

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: بہائیت اور صہیونیت کے باہمی تعلقات کے موضوع سے متعلق اس سے قبل بھی خیبر نے کچھ مضامین تحریر کئے ہیں اور اس بار ایک علمی شخصیت جناب حجۃ الاسلام و المسلمین محمد رضا حدادپور جہرمی سے گفتگو کا موقع حاصل کیا ہے امید ہے کہ قارئین کو پسند آئے گی:
خیبر: کیا آپ ہمارے قارئین کو فرقہ ضالہ ’بہائیت‘ کے بارے میں آگاہ کریں گے اور خاص طور پر اس حوالے سے کہ بہائیت اور صہیونیت کے درمیان تعلقات کس حد تک ہیں؟
۔ بہائیوں اور صہیونیوں کے درمیان تعلقات کے عنوان سے بس اتنا عرض کر دینا کافی ہے کہ بہائیوں کا اصلی مرکز ’بیت العدل‘ اسرائیل میں واقع ہے اور اسرائیلی حکومت ہر سال اس کے لیے بجٹ منظور کرتی ہے۔ لیکن میں اس حوالے سے اس موضوع پر گفتگو نہیں کرنا چاہوں گا کہ ان کا چونکہ مرکز وہاں ہے لہذا وہ فرقہ گمراہ شدہ ہے بلکہ میں دوسرے زاویہ سے اس موضوع پر گفتگو کرنا چاہتا ہوں۔
دنیا میں سب سے بڑا خیانتکار اور شیطان صفت کوئی ملک اگر ہے تو وہ برطانیہ ہے۔ برطانیہ بہت اطمینان سے بغیر شور و واویلا کئے اپنی ثقافتی سرگرمیاں انجام دیتا ہے۔ جہاں بھی دین و مذہب کی لڑائی اور فرقہ واریت کی بات آتی ہے برطانیہ کا ہاتھ اس کے پیچھے ضرور پوشیدہ ہوتا ہے۔ انگریز ایشیا پر گہرا مطالعہ کرنے کے بعد اس نتیجے تک پہنچے کہ مسلمانوں کو اندر سے ٹکڑے ٹکڑے کر کے ہی کامیابی حاصل کی جا سکتی ہے، لہذا انہوں نے اہل سنت میں وہابیت کو جنم دیا اور اہل تشیع میں بہائیت کو۔
بہائیت کو پہچاننے کے لیے ہمارے پاس دو راستے ہیں۔ یک، ہم علمی اور سیاسی پہلو سے گفتگو کریں، دوسرا ہم علاقے کا گہرا مطالعہ کریں اور دیکھیں کہ بہائیت کے جال میں کون کون لوگ پھنسے ہیں۔ عام طور پر لوگ اس موضوع پر علمی گفتگو کرتے ہیں اور میدانی گفتگو کی طرف توجہ نہیں کرتے ہم یہاں پر اس حوالے سے گفتگو کرنا چاہیں گے۔
میدانی اعتبار سے بہائیت کے موضوع پر گفتگو کرنے سے پہلے ہم چار موارد کی طرف اشارہ کرتے ہیں جن کی طرف توجہ کرنا بہت ضروری ہے:
ایک۔ بہائی سکیورٹی اور سالمیت کے اعتبار سے بہت حساس ہیں اور انٹیلیجنس میں ان کا گہرا اثر و رسوخ ہے۔ میں اس سے زیادہ اس مسئلہ کو زیر بحث نہیں لاؤں گا، صرف اتنا عرض کروں گا کہ بہائیت تنہا ایسا فرقہ ہے جس کے بارے میں رہبر انقلاب اسلامی کا فتویٰ ہے کہ وہ نجس ہیں اور ان کے ساتھ خرید و فروخت درست نہیں ہے۔
دو۔ دوسرا مسئلہ اقتصادی اور معاشی مسئلہ ہے۔ کوئی بہائی مالی اعتبار سے کبھی مشکل میں گرفتار نہیں ملے گا۔ ان کے یہاں فقیر لفظ نہیں ہوتا۔ بڑے بڑے شاپنگ مال اور سپر مارکیٹوں کے مالک بہائی ہیں۔ وہ اپنی کمیونٹی میں کسی کو اقتصادی اعتبار سے کمزور نہیں ہونے دیتے بلکہ دوسروں کو بھی پیسے سے خرید لیتے ہیں۔
تین۔ بہائیوں کے لیے سچائی بہت اہمیت کی حامل ہے، کوئی بھی بہائی کبھی اپنے بہائی ہونے کا انکار نہیں کرے گا۔
چار۔ بہائی بیت العدل سے بتائی جانے والی تعلیمات کے بہت پابند ہیں، خیال رہے کہ ان کا مرکز بیت العدل آنلائن اور چوبیس گھنٹے بہائیوں کے لیے تعلیمی پروگرام نشر کرتا ہے اور یہ اس سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔ اور جو آنلائن تعلیم حاصل نہیں کر سکتے وہ فیسبوک اور ٹیلیگرام کے ذریعے مرکز سے جڑے رہتے ہیں۔

 

اسرائیل عراق، لبنان، شام اور ایران کو کمزور کرنا چاہتا ہے: سی آئی اے کے سابق افیسر

  • ۳۸۷

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: سی آئی اے کے سابق افیسر ’’فلپ ایم گرالڈی‘‘ کے ساتھ خیبر صہیون تحقیقاتی سینٹر نے اسرائیل کے عدم استحکام کے بارے میں گفتگو کی جس میں انہوں نے کہا:  میں بیس سال سے CIA کے لیے دھشتگردی سے مقابلے کے شعبے میں کام کر رہا ہوں۔ اسرائیل کی پالیسی یہ ہے کہ وہ چار ملکوں عراق، لبنان، شام اور ایران کو کمزور کرنا چاہتا ہے تاکہ اپنی قدرت کا لوہا منوا سکے اور ہماری پالیسی یہ ہے کہ ہم کیسے اس کے ساتھ مقابلہ کریں؟ اس طرح کی کانفرانسوں کا انعقاد بہت اچھا ہے تاکہ ان میں ان مسائل پر غور و خوض کیا جائے۔
اسرائیل اپنا دار الحکومت تبدیل کر کے اپنی کمزوری چھپانا چاہتا ہے، قدس عیسائیوں، یہودیوں اور مسلمانوں سب کا ہے اسے اسرائیل کے لیے سیاسی دار الحکومت میں تبدیل نہیں ہونا چاہیے۔
خیبر: اسرائیل کے عدم استحکام کا اہم ترین سبب جو اسرائیل کی نابودی کا باعث بنے کیا ہے؟
۔ ہمیں دنیا کو یہ بتانا ہو گاکہ اسرائیل بین الاقوامی قوانین کے خلاف کون کون سے کام انجام دیتا ہے انہیں دنیا والوں کے لیے برملا کرنا ہو گا اور جتنا لوگ اسرائیل سے نفرت کریں گے بغیر شک کے اتنا جلدی اسرائیل کی نابودی ممکن ہو گی۔
خیبر: صہیونی ریاست کا اہم ترین چیلنج کیا ہے اور قدس کی غاصب موجودہ حکومت کن مشکلات سے دوچار ہے؟
اسرائیل کی مشکلات بہت زیادہ ہیں انتہا پسندی جو اسرائیل میں پائی جاتی ہے اسرائیل کی ایک اہم مشکل ہے، نیتن یاہو کے بے انتہا مالی گپھلے بھی موجودہ حکومت کی اہم ترین مشکلات میں ایک ہے۔