ہالی ووڈ میں یہودیوں کے تابع رہو ورنہ دھمکائے جاؤ گے

  • ۵۰۵

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: ہسپانوی محقق و مصنف مانوئل گالیانا (Manuel Galiana) ان اہم شخصیات میں سے ہیں جنہوں نے صہیونیت سے متعلق مختلف شعبوں ـ جیسے اقتصاد اور سیاست ـ میں متعدد کتابیں تالیف کی ہیں۔ انہوں نے حالیہ برسوں میں سینما آرٹ، صہیونیت اور ہالی ووڈ کے سلسلے میں متعدد مضامین اور مقالات شائع کئے ہیں جن کی بنا پر انہیں خاص توجہ دی گئی ہے۔ گالیانا کی تازہ ترین کاوش “سینما اور صہیونیت” کی اشاعت کے سلسلے میں انھوں نے ایک پریس بریفنگ دی اور اس کے بعد ان سے ایک انٹرویو لیا گیا جس کا متن پیش خدمت ہے:
س۔ ایران میں جب کوئی ہالی ووڈ کے پس پردہ ماسونیوں اور صہیونیوں کے کردار پر بات کرتا ہے تو کچھ لوگ اس کا جواب سخت الفاظ میں دیتے ہیں اور اس پر الزام لگاتے ہیں کہ یہ آپ کا وہم ہے اور آپ ہر چیز کو سازش سمجھتے ہو، کیا آپ کے خیال میں بھی یہ ایک خودساختہ تصور اور وہم ہے؟
– جن نشستوں میں مجھے بلایا گیا ہے اور جن کانفرنسوں میں دوسرے ماہرین کے ساتھ شریک ہوتا رہا ہوں، وہاں میں نے “ہالی ووڈزم” کے بارے میں بات کی ہے اور ان امور پر بھی روشنی ڈالتا رہا ہوں۔ نتیجہ یہ رہا ہے کہ میں نے اس حقیقت کا ادراک کرلیا ہے کہ ہالی ووڈ کچھ منصوبہ بند اقدامات کر رہا ہے، مثلا کچھ اقدار کا خاتمہ کررہا ہے، خاندان اور گھرانے کی بنیادیں اکھاڑ رہا ہے وغیرہ وغیرہ۔۔۔ اسی بنا پر میں اور میرے جیسے دوسرے ماہرین کا ہرگز یہ تصور نہیں ہے کہ یہ صرف ایک ابہام یا ایک نظریۂ سازش (Conspiracy theory) ہے۔ ممکن ہے کہ ایک عام ایرانی یا ہسپانوی شہری ایسا تصور رکھتا ہو کہ یہ ایک حقیقی قضیہ نہیں ہے اور صرف ایک وہم ہے جس کا سبب یہ ہے کہ ان کی معلومات کافی نہیں ہیں۔
مغرب میں، یورپ اور امریکہ میں ایسی متعدد کتابیں اور مقالات کی اشاعت عمل میں آئی ہے جن میں اشارہ ہؤا ہے کہ اداکار، ہدایتکار اور دوسرے اہم افراد جو سینمائی صنعت میں کردار ادا کررہے ہیں، یہودیوں کے ساتھ رابطے میں ہیں یا پھر وہ خود یہودی ہیں۔ کِرک ڈاگلس (Kirk Douglas) اور آرنلڈ شوازینگر (Arnold Schwarzenegger) وہ اداکار ہیں جنہوں نے اپنے نام تک تبدیل کئے ہیں۔
 
س۔ ابلاغیاتی پیداوار (production) کے شعبے میں صہیونی اور ماسونی لابیوں کی کارکردگی کی کیفیت کیا ہے؟ کیا وہ براہ راست میدان میں کود جاتی ہیں یا پھر اپنا ایجنڈا خاص قسم کے افراد کے سپرد کرتے ہیں، یا پھر ماحول سازی کے ذریعے فنکاروں اور ذرائع ابلاغ سے وابستہ افراد کو اپنی طرف کھینچ لیتی ہیں اور انہیں خاص سمت میں کام کرنے کی ہدایات دیتی ہیں؟
– شاید ماسونیت کو صہیونیت کا بہت اچھا چہرہ اور اچھی شکل قرار دیا جاسکے۔ وہ تقریبا تمام ذرائع ابلاغ سے وابستہ افراد کو اپنے قابو میں رکھتے ہیں۔ ایک کانفرنس کے دوران میرا رابطہ ہالی ووڈ کے ایک ہدایت کار سے تھا۔ وہ اس بات کو جھٹلا رہا تھا کہ یہودیوں کا کوئی کنٹرول ہے اور کہتا تھا کہ “مسئلہ پیسے کا ہے، جس کے پاس دوسروں سے زیادہ پیسہ ہو، وہ بہتر فلم بنا دیتا ہے”۔ اسی وقت بھی متعدد یہودی ہدایتکار، پروڈیوسرز اور اداکار تھے جو کہتے تھے کہ “ہالی ووڈ ہمارا ہے”۔
س۔ کیا صہیونی اور ماسونی براہ راست ابلاغیات اور فن کے شعبوں میں افرادی قوت کی تربیت کے لئے براہ راست اقدام کرتے ہیں؟ کیا آپ نو وارد اور مشہور افراد میں سے کسی کو جانتے ہیں جو اس تربیتی عمل کا ثمرہ ہو؟
– نام سے تو میں کسی کو نہیں جانتا جو اس قسم کے حالات میں واقع ہؤا ہو، لیکن ابلاغیات سے وابستہ اکثر افراد یا تو یہودی ہیں یا پھر اگر یہودی نہیں ہیں تو ممکن ہے کہ انہیں بعض پس پردہ تنظیموں کی طرف سے ڈرایا دھمکایا جائے۔
گو کہ ٹام کروز (Tom Cruise) یہودی نہیں ہیں اور سائنٹالوجی کلیسا (Church of Scientology) کے پیروکار ہیں لیکن وہ کبھی بھی نہیں چاہتے تھے کہ یہ حقیقت آشکار ہوجائے کہ وہ ایک ہمجنس باز ہیں اور ان کا تعلق دوسرے ہم جنس باز جان ٹراولٹا (John Travolta) سے ہے اور ان کے ساتھ زندگی بسر کررہے ہیں۔ تاہم یہ مسئلہ فاش ہوگیا۔ اس کے باوجود کہ وہ یہودی نہیں ہیں اور خدا پر ایمان نہیں رکھتے لیکن وہ صہیونیوں اور ماسونیوں کے مفادات کے لئے کام کررہے ہیں۔
 
س۔ امریکی اور یورپی سینما میں ان خاص لابیوں کا کتنا حصہ ہے؟
ـ میری رائے یہ ہے کہ یورپ اور امریکہ میں جتنی بھی فلمی صنعت ہے، یا تو مکمل طور پر ان لابیوں اور یہودیوں کے ہاتھ میں ہے یا پھر ان کے مقاصد کی راہ میں سرگرم عمل ہے۔ یہ لابیاں زندگی کے لئے نئے معیار متعارف کرانے کے درپے ہیں، روایتی اقدار اور گھر اور خاندان، ماں اور باپ کے ساتھ اولاد کے تعلق کو نابود کرنا چاہتی ہیں؛ ادیان و مذاہب کی بےحرمتی کرتی ہیں اور یہودیوں کے سوا کسی بھی دین و مذہب پر حملہ آور ہوتی ہیں۔
س۔ سنا ہے کہ ان یہودی سرغنوں کی منظوری کے بغیر دنیا میں فلم کی نمائش ممکن نہیں ہے یا پھر بہت ہی دشوار ہے، کیا آپ کے خیال میں یہ درست ہے؟ کیا اس کے لئے کوئی مثال دی جاسکتی ہے؟ ہمارے ہاں تو مثال یہ ہے کہ مشہور ایرانی ہدایتکار مجید مجیدی نے “محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ ـ نامی فلم بنائی تو اس کی عالمی نمائش کے سلسلے میں ان کے خلاف شدید کوششیں ہوئیں۔
ـ جی ہاں! اگر کوئی فلم ان کے مفادات کی سمت میں نہ ہو تو اس کی نمائش بہت مشکل ہے۔ میل گبسن (Mel Gibson) نے فلم دی پیشن آف دی کرائسٹ (The Passion of the Christ) بنائی اور اس فلم کی نمائش ہوئی تو پانچ چھ سال تک انہیں فلم بنانے کی اجازت تک نہ ملی۔ میل گبسن اس فلم کی نمائش میں اس لئے کامیاب ہوئے کہ وہ ذاتی طور پر بہت زیادہ مشہور و مقبول انسان تھے اور ان کے دوستوں کا اچھا خاصا حلقہ تھا، بہت طاقتور تھے اور ماضی میں اچھے خاصے فنکارانہ کارناموں کے خالق رہ چکے تھے۔ ورنہ اگر کوئی اٹھنا چاہے اور ان لابیوں کی مرضی اور طرز فکر و اسلوب کے مقابلے میں نئے افکار اور نئے اسلوب کی بنیاد رکھنا چاہے تو تقریبا اس کی کامیابی کی امید تقریبا نہ ہونے کے برابر ہے۔
 
میل گبسن سے کہا گیا تھا کہ “تمہاری فلم فلاپ ہوجائے گی، کیونکہ تمہیں کسی بھی کمپنی کی حمایت حاصل نہیں ہے” لیکن یہ فلم بہت کامیاب رہی اور اچھی خاصی تجارتی سطح تک پہنچی۔ جیسا کہ کہا جارہا ہے حضرت عیسی علیہ السلام پر یہودیوں کے ہاتھوں ہونے والے مظالم بیان کرنے والی یہ فلم واحد فلم تھی جو کسی کمپنی کی مدد کے بغیر تیار کی گئی اور اس قدر بکی۔
جی ہاں! جہاں تک مجھے معلوم ہے میل گبسن اور ان کے دوستوں نے یہ فلم ذاتی خرچے پر بنائی تھی۔
س۔ کیا مستقل اور خودمختار فلمسازی سے کسی قسم کی امید رکھنا درست ہے؟ کیا یہ امید رکھنا درست ہے کہ ماسونی صہیونی طاقت کے حلقے سے باہر، ایک خودمختار سینما کو نشوونما دی جائے جو عالمی تہذیب اور عوامی سفارتکاری میں کردار ادا کرسکے؟
ـ موجودہ حالات کو مد نظر رکھا جائے تو میرا نہیں گیا کہ ایسا کچھ ممکن ہو؛ کیونکہ جس مالی بحران کی پیشنگوئی کی جاسکتی ہے، وہی رونما ہوجائے، اس طرح کے بحرانوں کا ازالہ کرنے کے لئے منظم تبدیلیوں کی ضرورت ہے اور اس ہدف تک پہنچنے کے لئے بھی بنیادی تبدیلیوں کی ضرورت ہے۔
خودمختار اور آزاد سینما ـ جس کی اس وقت دنیا میں مثال دی جاسکتی ہے ـ وہی سینما ہے جو ایران میں موجود ہے اور ہر کوئی یہاں منعقدہ فلم فیسٹیولوں میں اپنی مستقل اور آزاد کاوشیں نمائش کے لئے پیش کرسکتا ہے۔ وہ چیز جو اسی نام سے یورپ میں بھی موجود ہے، اس کے پس پردہ بھی بہرحال ایسا ہی کنٹرول پایا جاتا ہے جو امریکہ میں پایا جاتا ہے۔
منبع: http://resanehenghelab.com

 

یہودی ریاست جعلی تشخص کی بازیابی کے درپے/ صہیونیوں کی جھوٹی طاقت کا راز

  • ۳۶۵

ہمارے بعض حکام سمجھتے ہیں کہ برطانیہ طاقت کا مرکز ہے، کیوں؟ اس لئے کہ انھوں نے جو انسانیات (Humanities) کا جو نظام مرتب کیا، اس کے ذریعے یہ اندازہ لگانے میں کامیاب ہوئے کہ لوگوں کے ذہنوں پر حکومت کی جاسکتی ہے اور بغیر اخراجات کے دوسروں کے ذہنوں پر حکومت کی جاسکتی ہے اور یوں وہ حکومت سے حاصلہ مفادات کو حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے۔ یہ روش انگریزوں نے سیکھ لی اور اچھی طرح سیکھ لی۔

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ کی رپورٹ کے مطابق، ڈاکٹر یعقوب توکلی اسرائیل کے صنفیاتی مطالعے اور پہچان کے شعبے میں وسیع تجربہ رکھتے ہیں؛ وہ حوزہ علمیہ کے فارغ التحصیل ہونے کے ساتھ ساتھ بین الاقوامی تعلقات کے شعبے میں پی ایچ ڈی کر چکے ہیں۔ وہ مجلہ زمانہ کے چیف ایڈیٹر، اسلامی فکر و ثقافت تحقیقاتی مرکز کے شعبے “تاریخ تمدن” گروپ کے ڈائریکٹر، مجلس شورائے اسلامی (پارلیمان) کے ارشاد و تبلیغ کے شعبے کے ڈائریکٹر اور دفاع مقدس کے دائرۃ المعارف کے منصوبے میں شہداء گروپ کے ڈائریکٹر کے عہدہ پر فائز رہے ہیں۔
کتاب “حقیقت سیمر” ان کی اہم ترین کاوشوں میں شمار ہوتی ہے جو حزب لبنان کے کمانڈر شہید سمیر قنطار کے حالات زندگی پر مشتمل ہے۔ شہید قنطار عشروں تک یہودی ریاست کے قیدخانوں میں اسیری کے زندگی گذار چکے تھے اور انھوں نے جناب توکلی کے ساتھ ایک تفصیلی مکالمے کے دوران اپنی یادیں ریکارڈ کرائیں تھیں جنہیں ڈاکٹر صاحب نے داستانی اسلوب میں مرتب کرکے کتاب کی صورت میں شائع کیا ہے۔ ذیل کا متن ڈاکٹر یعقوب توکلی کے ساتھ خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ کا انٹرویو ہے، جو قارئین و صارفین کی خدمت میں پیش کیا جارہا ہے:
– معاصر تاریخ میں یہودیوں کی عہد شکنیاں
بسم اللہ الرحمن الرحیم،
ایک حقیقت ـ جو انقلاب اسلامی اور تشیع کے عنوان سے اسلامی انقلاب کے بعد ظالمانہ یلغار کا نشانہ بنی ـ ہمارے ساتھ صہیونیت اور اسرائیل کی دشمنی کی حقیقت ہے جس کو توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ اس حقیقت کو کئی پہلؤوں سے دیکھنا چاہئے، ایک پہلو یہ ہے کہ صدر اول میں یہودیوں کی تاریخی دشمنی کا نشانہ مسلمان تھے اور یہ دشمنی بعد کے ادوار میں تشیع کے خلاف جاری رہی۔
یہ دشمنی کسی بھی دور میں تعطل کا شکار نہیں ہوئی، یعنی کبھی بھی صہیونیت اور یہود ہمارے دوست نہیں بنے، بلکہ اگر کسی دور میں ہمارے نا آگاہ دوستوں نے مسامحت کی سی کیفیت پیدا کی تو یہودیوں نے اس کیفیت سے اپنے حق میں فائدہ اٹھایا؛ یہاں تک کہ ایران میں پہلوی خاندان کی حکمرانی قائم ہوئی تو یہ خاندان آل سعود کو سواری دے رہا تھا اور مختلف اشکال میں ان کی مدد کررہا تھا؛ ایسی ناقابل انکار دستاویزات موجود ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ جعلی یہودی ریاست ہمارے اندرونی معاملات میں نہایت بےشرمی کے ساتھ مداخلت کرتی تھی۔
یہاں تک کہ یہودیوں کی مداخلت نے شاہ ایران کو بھی تھکا دیا تھا اور کبھی وہ بھی تنگ آ جاتا تھا اور ان مداخلتوں کو برداشت نہیں کرپا تھا تھا۔ کیونکہ ان کی مداخلت حتی شاہ کی حکومت کو بھی خطرے سے دوچار کر دیتی تھی۔ لیکن اس کے باوجود وہ شاہ کے قوم پرست اور کمیونسٹ مخالفین کے ساتھ رابطہ قائم کرتے تھے اور حکومت کی اندرونی تہوں تک پہنچنے کے درپے رہتے تھے۔ تاکہ ایران کے ایسے معاشی فیصلوں میں اپنی رائے مسلط کرسکیں جو شاہ کی خفیہ ایجنسی ساواک پر حاوی تھے۔
البتہ پہلوی حکومت اس مسئلے کی طرف توجہ رکھتی تھی لیکن ان کا تسلط پہلوی بادشاہ کی مرضی سے کہیں زیادہ تھا اور وہ ہر صورت میں مداخلت کرتے تھے۔ مثال کے طور پر مجھے ایران میں اسرائیل کے خفیہ اداروں کے نمائندہ “یعقوب نیمرودی” کی مداخلتیں یاد ہیں اور مجھے یاد ہے کہ وہ ایران میں مختلف سماجی اور سیاسی طبقوں سے رابطے برقرار کرچکا تھا۔
یہودی ریاست کے بھیجے ہوئے افراد کی تعداد ـ پہلوی حکومت کی مرضی کے بغیر ـ ایران میں بہت زیادہ تھی۔ اگر آپ تاریخ میں کہیں ایران اور یہودیوں کی دوستی کا تذکرہ دیکھتے ہیں تو دوستی نہیں تھی بلکہ ان ادوار میں یہودیوں نے ایرانیوں اور ایرانی حکومتوں سے فائدہ اٹھایا ہے اور دوستی کا مقصد بھی یہی رہا ہے۔ وہ قدیم تاریخ میں بھی اس موضوع کی طرف توجہ رکھتے ہیں، کوروش کی تعریف کرتے ہیں؛ کیونکہ انھوں نے کوروش کو بھی اپنے مفاد کے لئے استعمال کیا اور ان سے فائدہ اٹھایا۔ انھوں نے کوروش کو قائل کرلیا کہ جاکر سرزمین فلسطین میں ان کے لئے لڑیں اور فلسطین کو بخت النصر سے آزاد کرا کر یہودیوں کے حوالے کریں۔
لیکن دلچسپ امر یہ ہے کہ یہ واقعہ ایسے وقت رونما ہوا جب یہودی آکر بین النہرین اور بابل میں سکونت پذیر ہوچکے تھے، کیونکہ وہ یہاں سونے کی منڈی اور سودی کاروبار کو اپنے ہاتھ میں لئے ہوئے تھے؛ یہ وہ یہودی تھے جو فلسطین کی کوروش کے ہاتھوں آزادی کے بعد بھی بابل چھوڑنے پر تیار نہ ہوئے؛ چنانچہ آپ دیکھتے ہیں کہ بعد کے ادوار میں عراق اور بابل کے علاقے میں بہت سارے یہودی آباد تھے، عراقی یہودیوں کی تعداد بہت زیادہ تھی۔ بطور مثال پہلی عالمی جنگ میں صرف بغداد میں رہائش پذیر یہودیوں کی آباد دو لاکھ تک پہنچتی تھی۔
– کیا اب بھی عراق میں یہودی موجود ہیں؟
عراق میں ان کی سکونت بہت محدود ہوچکی ہے، یعنی جب اسرائیل نامی ریاست معرض وجود میں آئی، اس زمانے میں حکومت عراق کے خلاف دہشت گردانہ کاروائیاں شروع ہوئیں؛ دھماکے کئے جاتے تھے اور ان کی ذمہ داری یہودیوں پر ڈالی جاتی تھی تاکہ عراقی حکومت یہودیوں پر اپنا دباؤ بڑھا دیں اور نتیجے کے طور پر عراقی یہودی مقبوضہ فلسطین میں جاکر بسیں۔ چنانچہ نتیجہ یہ ہوا کہ عراق میں یہودیوں کی سکونت محدود ہوگئی۔ میری بات کا مقصد اعلی سطحی تعلقات ہیں، یکطرفہ تعلقات اور فریق مقابل کا یہودی مفادات کے لئے استعمال ہے، میری بات کا مقصد پڑوسی یہودی نہیں ہیں، یہ یہودی معاشرے کے لوگ ہیں، میرا مقصد صہیونی یہودی نہیں ہیں۔
یعنی سیاسی صہیونیت نے سیاسی شعبے میں ان لوگوں اور قوتوں کو استعمال کیا جن کے ساتھ ان کا بظاہر دوستانہ تعلق تھا۔ لیکن اس وقت سنجیدگی کے ساتھ ہم مسلمان اور شیعہ کے عنوان سے صہیونیت کی دشمنی کا ہدف ہیں؛ اسرائیل کے بارے میں تحقیق کرنے والے محققین کے ذہنوں میں اس تصور نے جنم لیا ہے، اور یہ مسئلہ آہستہ آہستہ ایک اعتقاد میں بدل چکا ہے کہ یہودی ایک جعلی طاقت کے مالک ہیں؛ ہاں وہ جعل و تحریف کرتے ہیں اور قرآن نے بھی اس کی طرف اشارہ کیا ہے اور فرمایا ہے کہ یہ جعل اور تحریف کرنے والے ہیں، یہ نہ صرف تاریخ میں تحریف کرتے ہیں بلکہ پوزیشن اور واقعات میں بھی تحریف کرتے ہیں۔
مثال کے طور پر اگر عسکری میدان میں ان کے پاس ایک میزائل ہے تو کہیں گے کہ “ہمارے پاس ۱۰۰۰ میزائل ہیں” تا کہ آپ ایک ہزار میزائلوں کا خواب دیکھیں اور پھر یقین کرلیں کہ آپ کے دشمن کے پاس ایک ہزار میزائل ہیں، اگر ان کے پاس تھوڑی سی طاقت ہو تو کہیں گے کہ یہ طاقت سو گنا زیادہ ہے؛ تو اس صورت میں انجام کار کیا ہوگا؟
ممکن ہے کہ کسی موضوع میں ان کا کوئی کردار نہ ہو لیکن یہ جتانے کی کوشش کریں گے کہ اس موضوع میں ان کا کردار تھا بلکہ دعوی کریں گے کہ وہی اس موضوع اور واقعے کا اصل کردار ہیں۔ نتیجہ یہ ہوگا کہ تصورات کی دنیا میں ایک عظیم طاقت کو اپنے سامنے پائیں گے اور تصور کریں گے کہ طاقت کا ایک عظیم سلسلہ آپ کے سامنے ہے، حالانکہ حقیقت میں وہ طاقت سرے سے موجود ہی نہیں ہے؛ یا پھر آپ صہیونیت کے عناصر کو کسی موضوع میں شریک دیکھتے ہیں جبکہ اس موضوع میں ان کا کوئی کردار نہیں تھا؛ ان مسائل کا نتیجہ کیا ہوگا؟
– حقائق اور واقعات میں تحریف کا فائدہ کیا ہے؟
اس کا فائدہ یہ ہے کہ آپ ایک حریف یا علیحدہ یا غیرجانبدار قوت کے طور پر جہاں بھی جاتے ہیں، اس طاقت کا سایہ اپنے پیچھے آتا ہوا دیکھتے ہیں؛ یہ وہی تجربہ ہے جو برطانیہ نے اپنی خارجہ پالیسی میں حاصل کیا اور اقوام عالم کے آگے طاقت کا ایک تصوراتی ہیولا کھڑا کرکے نہایت قلیل آبادی کے باوجود پوری دنیا پر حکومت کی۔ اس کی دوسری مثالیں بھی ہیں؛ اور یاددہانی کے لئے برطانیہ کی طرف اشارہ کرتا ہوں جو ہندوستان پر مسلط ہوا، وہاں کے کئی سو میلین ہندوستانیوں کو شکست دی اور ایران دنیا کے مختلف ممالک پر مسلط ہوا، لیکن ان ہی برطانویوں کو سوڈان میں شکست ہوئی؛ اس شکست کا سبب کیا تھا؟
سوڈان میں وہ ایسے وہ افراد اور اوزار تلاش نہیں کرسکے تھے جن کے ذریعے وہ وہم اور خوف کا وائرس عوام تک منتقل کرسکتے توہم کو اس ملک کے عوام میں منتقل کرسکتے تھے، چنانچہ سوڈانیوں نے تمام انگریزوں اور جنرل بورڈن کو ہلاک کرڈالا اور انگریز مدتوں تک سوڈان کی طرف جانے کی جرئت نہیں کرسکتے تھے۔ انیسویں صدی میں انگریزوں نے افغانستان کا رخ کیا؛ اور افغانستان میں بھی شکست سے دوچار ہوئے، نہایت ہولناک شکست کھانا پڑی۔
وہ مدتوں تک افغانستان جانے کی جرئت نہیں کرستے تھے؛ کیونکہ وہ افغانستان میں ایسے افراد کو تلاش نہیں کرسکے تھے جن کو وہ منوا سکیں کہ انگریز افغانیوں سے زیادہ طاقتور ہیں اور یہی خوف وہ عوام میں رائج کریں لیکن انھوں نے ایران میں یہی کام کیا؛ عسکر خان رومی سے لے کر میرزا ملکم خان اور حتی رضا خان نوری اور محمود محمود تک، جناب خان ملک ساسانی سے لے کر محمد علی خان فروغی اور دوسروں تک، اور ان جیسے بہت سے دوسرے یقین کرچکے ہیں کہ برطانیہ طاقتور ہے۔
ہمارے بعض حکام سمجھتے ہیں کہ برطانیہ طاقت کا مرکز ہے، کیوں؟ اس لئے کہ انھوں نے جو انسانیات (Humanities) کا جو نظام مرتب کیا، اس کے ذریعے یہ اندازہ لگانے میں کامیاب ہوئے کہ لوگوں کے ذہنوں پر حکومت کی جاسکتی ہے اور بغیر اخراجات کے دوسروں کے ذہنوں پر حکومت کی جاسکتی ہے اور یوں وہ حکومت سے حاصلہ مفادات کو حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے۔ یہ روش انگریزوں نے سیکھ لی اور اچھی طرح سیکھ لی۔
جو کچھ انھوں نے تاریخ کے تجربے سے سیکھا، اسے اگلوں کو منتقل کیا اور ان کے درمیان یہ تجربہ باقی رہا لیکن جس وقت آپ برطانیہ کے حقائق اور ان ظاہری واقعات کے پس پردہ دیکھتے ہیں تو دیکھتے ہیں کہ یہ برطانیہ کی حقیقت نہیں ہے، بلکہ برطانیہ تو اسرائیل کا ورثہ لیئے ہوئے ہے لیکن بعد میں ہم دیکھتے ہیں کہ برطانیہ ہی اسرائیل کو معرض وجود میں لاتا ہے، لہذا اسرائیل کے نزدیک خوف و ہراس پیدا کرنے کا تجربہ اسلحے، وسائل اور مختلف قسم کے اوزار دینے سے زیادہ اہم اور قابل قدر تھا؛ چنانچہ اسرائیل اپنی ابتداء ہی سے کوشاں رہا کہ اسرائیل کی برتری کے وہم کو منتقل کرے۔
بالفاظ دیگر طاقت کا وہم پیدا کرنے اور حقائق میں تحریف کے سلسلے میں انھوں نے اچھی خاصی مہارت کا مظاہرہ کیا، اسی بنا پر مختصر سی جنگیں ـ جو انھوں نے لڑیں ـ جنگ کا اچانک کا آغاز کرکے شوشہ چھوڑ دیتے تھے کہ “اسرائیل ناقابل شکست ہے”، حالانکہ اگر ۱۹۶۷ کی ۶ روزہ جنگ اگر ۱۶ دن تک پہنچتی تو اسرائیل کو شکست ہوتی؛ اگر جنگ کچھ ہی دن مزید جاری رہتی تو اسرائیلی شکست کھا جاتے، چنانچہ وہ عربوں کے ذہنوں پر مسلط ہوئے، اور چونکہ ان کے ذہنوں پر مسلط ہوئے تھے آسانی سے عربوں کو شکست دے سکے۔
مجھے یاد ہے کہ کسی زمانے میں سید محمد شیرازی نے ایک کتاب لکھی جس کا عنوان تھا “دنیا یہود کا بازیچہ”؛ جس میں وہ یہ کہنا چاہتے تھے کہ یہودی پوری دنیا پر مسلط ہیں، اور ہر جگہ موجود ہیں، یہودی ہر جگہ طاقتور ہیں، ذرائع ابلاغ ان کے ہاتھ میں ہیں، اور یہ سوچ ہمارے ہاں بھی یہودیت کے بارے میں تحقیق کرنے والے دانشوروں کے درمیان راسخ ہوئی۔
یہودیوں کے بارے میں جادو ٹونے کرنے والے گروہ بھی ہیں، افسانہ سازی کرتے ہیں، جھوٹ پھیلا دیتے ہیں، کیونکہ ان کے ہاں داستان پردازی رواج رکھتی ہے، سوال یہ ہے کہ لوگ دوسروں کی داستان پردازیوں سے کیوں نہیں ڈرتے؟ وہم و گمان کیوں پیدا نہیں ہوتا؟ اس لئے کہ ہم نے داستانوں کے اس وہم پردازی والے پہلو پر زور نہیں دیا۔ ہمارے ہاں کی ایک مشکل یہ ہے کہ یہود کے بارے میں تحقیق کرنے والے بعض محققین نے عجیب انداز سے اس طاقت ان کی اصل طاقت سے کہیں زیادہ دیکھا۔ میں نے اپنی کتاب “عقاب علیہ شیر (عقاب شیر کے خلاف)” میں بھی ایک مثال دی ہے اور کہا ہے کہ تسلط پسند استکباری نظام ایک اخطبوطی (octopuslike) نظام ہے۔ اخطبوط (یا اخبوط) کے آٹھ بازو ہیں اور اس کا حلیہ بہت ہولناک ہے لیکن جب جب وہ شکار کو آٹھ بازؤوں سے پکڑتا ہے لیکن کیا اس کی پوری طاقت یکجا ہوجاتی ہے؟

 

علاقے سے امریکہ کا انخلاء، اسرائیل کی نابودی کا پیش خیمہ

  • ۴۳۳

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: علاقے سے امریکہ کا انخلاء اگر چہ حالیہ دنوں کورونا وائرس کی وجہ سے میڈیا کی پہلے درجے کی سرخیوں میں شامل نہیں رہا لیکن حقیقت یہ ہےکہ قاسم سلیمانی کے قتل اور عراقی پارلیمنٹ میں امریکی فوج کے انخلاء پر بل منظور کیے جانے کے بعد امریکہ کا علاقے سے نکلنا اس کے لیے تاریخی شکست ہو گی۔
خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ نے اسی حوالے سے تہران یونیورسٹی کے ڈاکٹر فواد ایزدی کے ساتھ گفتگو کی ہے۔
خیبر: کچھ عرصے سے اس خطے سے امریکی انخلاء کی بحث چل رہی ہے، آپ کے خیال میں امریکی انخلا سے صہیونی حکومت پر کیا اثر مرتب ہوں گے؟
یقینا اس اقدام سے اسرائیل کے لیے اچھے نتائج ثابت نہیں ہوں گے۔ چونکہ علاقے میں صیہونی حکومت کا ایک اہم حامی امریکہ رہا ہے، اور اس میدان میں امریکہ کی عدم موجودگی کا اسرائیل کی طاقت پر براہ راست اثر پڑے گا اور اس کے اتحادیوں کے ساتھ تعلقات میں بھی کمی پیدا ہو گی۔
خطے سے امریکہ کے انخلاء کا معاملہ ایک انتہائی سنجیدہ معاملہ ہے۔ امریکہ کے لئے ایک اہم مسئلہ مغربی ایشیا میں ان کی طویل مدتی موجودگی ہے۔ بہت سارے امریکی سیاستدان، یہاں تک کہ خود ٹرمپ بھی اس بات پر متفق ہوگئے ہیں کہ ایشیاء سے امریکی فوج کی واپسی امریکہ کی مجبوری ہے، اسی وجہ سے افغانستان سے بھی انخلاء ٹرمپ کے نعروں میں شامل ہے۔
اس خطے میں امریکیوں نے بہت سارے اخراجات برداشت کیے ہیں اور بہت سے لوگوں کو اس کا احساس ہو چکا ہے۔ جو لوگ ابھی تک امریکہ کے نقصان کو نہیں سمجھتے ہیں وہ اسلامی جمہوریہ ایران کی طرف سے امریکہ کو مغربی ایشیاء سے نکالنے کی کوششوں کی وجہ سے سمجھ جائیں گے۔
حالیہ برسوں میں جس جس علاقے میں امریکیوں نے قدم رکھا سوائے جنگ، ہلاکت، اور پریشانی کے کچھ نظر نہیں آیا، چنانچہ اب امریکی متوجہ ہو گئے ہیں کہ اب یہاں سے رخصت ہونے کا وقت آ گیا ہے خطے کے عوام انہیں اب اس سے زیادہ تحمل نہیں کر سکتے۔
خیبر: کیا آپ کے خیال میں امریکی انخلاء کے وقت اپنے اخراجات پورا کرنے کی کوشش کریں گے؟ یا دوسرے لفظوں میں کیا وہ جنگ چھیڑ کر یا دوسرے اقدامات کے ذریعے اپنے اخراجات حاصل کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں؟  
کوئی ایسی جگہ نہیں ہے کہ امریکی وہاں سے اپنے اخراجات پورا کر سکیں۔ ایک زمانے تک سعودی امریکیوں کو خوب پیسہ دیا کرتے تھے، البتہ ابھی بھی دیتے ہیں لیکن چونکہ وہ خود جنگ میں گرفتار ہیں، اب امریکہ کے اخراجات پورے نہیں کر سکتے۔
اگرچہ امریکی بھتہ خوری کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، لیکن عملی طور پر وہ ایسا کرنے سے بھی عاجز ہیں۔
امریکہ کا ایک طریقہ یہ ہے کہ وہ نیابتی جنگیں (پراکسی وار) لڑتا اور دہشت گرد گروہوں کے ذریعے علاقے کو ناامن بناتا ہے۔ لیکن ان اقدامات کے لیے بھی امریکیوں کا خطے میں موجود ہونا ضروری ہے۔ اگر اس خطے میں امریکیوں کی موجودگی کم ہوجائے تو دہشت گردانہ اقدامات بھی کم ہو جائیں گے۔ لہذا امریکیوں کا خطے سے انخلاء بہت ضروری ہے تاکہ علاقہ میں امن و سکون پیدا ہو۔  
خیبر: اگر امریکہ خطہ چھوڑ دیتا ہے تو ہم اسرائیل کی تباہی کے کتنے قریب ہیں؟
اسرائیل نابودی کے دہانے پر ہے، اور یہ تباہی ضروری نہیں ہے کہ فوجی کارروائی کے ذریعے ہی ہو۔ مقبوضہ علاقوں سے یہودیوں کی الٹی نقل مکانی اب ایک اہم مسئلہ بنا ہوا ہے جس نے حکومت کو مشکلات سے دوچار کردیا ہے۔ اگر امریکی علاقے سے نکل کر عملی طور پر اسرائیل کی حمایت ختم کر دیں، تو صہیونیوں کی بڑی تعداد اسرائیل چھوڑ کر چلی جائے گی۔
نتیجہ میں اسرائیل کی تباہی اور اس حکومت کا خاتمہ یقینی ہوگا۔

 

سعودی ولی عہد کا امریکی جریدے ’دی اٹلانٹک‘ کو انٹرویو

  • ۴۱۵

خیبر صیہون ریسرچ سینٹر: سعودی ولیعہد نے کہا ہے کہ سعودی عرب اور اسرائیل کے درمیان بہت سارے مشترکہ مفادات موجود ہیں اور اگر امن قائم ہو جائے تو اسرائیل اور خلیجی عرب ممالک کے درمیان روابط میں استحکام آ سکتا ہے۔
محمد بن سلمان نے اس انٹرویو میں مزید کہا کہ اسرائیلیوں کو بھی اپنی مستقل سرزمین رکھنے کا حق حاصل ہے جس میں وہ پرامن طریقے سے زندگی بسر کر سکیں۔
پیر کے روز شائع ہونے والے امریکی جریدے دی اٹلانٹک میں سعودی شہزادے نے اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ سعودی عرب اور اسرائیل کے درمیان تعلقات بتدریج بہتری کی طرف جا رہے ہیں۔
بن سلمان سے پوچھے گئے اس سوال کے جواب میں کہ کیا یہودیوں کو ایک مستقل جگہ پر جینے اور اپنا ملک بنانے کا حق حاصل نہیں ہے؟ کہا: فلسطینیوں اور اسرائیلیوں دونوں کو اپنی اپنی سرزمین رکھنے کا حق حاصل ہے لیکن ان دونوں ملکوں کو چاہیے کہ ایک پرامن معاہدے پر اتفاق کر لیں جس سے علاقے میں استحکام پیدا ہو اور باہمی تعلقات بھی معمول پر آئیں۔
سعودی ولیعہد کا اپنے انٹرویو کے دوران مزید کہنا تھا کہ ان کی کسی قوم کے ساتھ کوئی لڑائی نہیں ہے بلکہ ان کے تمام خدشات یروشلم میں واقع مسجد الاقصیٰ کے مستقبل اور فلسطینی عوام کے حقوق سے متعلق ہیں۔ اس کے علاوہ ہمیں اسرائیل سے کوئی مشکل نہیں ہے۔
انہوں نے اس بات پر تاکید کرتے ہوئے کہ ہمارا یہودیوں سے کوئی جھگڑا نہیں ہے کہا: ہمارے اور اسرائیل کے ساتھ مشترکہ مفادات ہیں اور اگر امن حاصل ہو جاتا ہے تو اسرائیل اور خلیج تعاون کونسل کے رکن ملکوں جیسے مصر اور اردن کے ساتھ بہت سارے مشترکہ مفادات حاصل ہوں گے۔
حالیہ برسوں کے دوران سعودی عرب کے اسرائیل کے ساتھ بڑھتے تعلقات کی خبریں سامنے آ رہی تھی لیکن سعودی ولیعہد محمد بن سلمان نے اقتدار کی کرسی سنبھالتے ہی ان تعلقات میں مزید استحکام پیدا کر دیا ہے۔ انہوں نے گزشتہ ماہ اسرائیلی پروازوں کے لیے اپنی فضائی حدود کھول کر یہودیوں کے دل خوش کر دئے اور صہیونی ریاست نے بھی بڑی گرم جوشی سے ان کے اس اقدام کا خیر مقدم کیا۔
گزشتہ سال نومبر کے مہینے میں اسرائیل کابینہ کے ایک وزیر نے اسرائیل کے سعودیہ کے ساتھ خفیہ روابط کا پردہ چاک کرتے ہوئے کہا تھا کہ اسرائیل کے سعودی اعلیٰ حکام سے گہرے اور قریبی تعلقات ہیں۔
خیال رہے کہ سعودی شہزادہ بن سلمان جو حالیہ دنوں طویل امریکی دورے پر ہیں نے امریکہ میں یہودی لابی سرغنوں سے ملاقاتیں کی ہیں جبکہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے داماد کوشنر سے ملاقات کے دوران امریکی مجوزہ امن منصوبہ ’’صدی کی ڈیل‘‘ کے حوالے سے بھی بات چیت کی ہے۔

 

کیا سعودی عرب کو امریکہ پر واقعا بھروسہ ہے؟ امیر عبد اللھیان

  • ۳۹۰

خیبر صیہون ریسرچ سینٹر: گزشتہ سے پیوستہ//
ڈاکٹر امیر عبد اللٰھیان کے ساتھ یمن کے موضوع پر اہم گفتگو:
سوال: پس امریکی کسی صورت میں سعودیوں پر اعتماد نہیں رکھتے، آپ جب نائب وزیر خارجہ کے طور پر سعودی عرب کے دورے پر گئے تھے، تو اس وقت کے وزیر خارجہ سعود الفیصل نے آپ سے کہا تھا کہ “ہم امریکیوں پر اعتماد نہیں رکھتے”، یہ کیونکر ممکن ہے کہ یہ دونوں ایک دوسرے پر اعتماد بھی نہیں رکھتے اور ساتھ ساتھ بھی رہتے ہیں۔
جواب: عرب ممالک میں میرا تجربہ بتاتا ہے کہ یہاں کے حکام جب ذرائع ابلاغ سے بات کرتے ہیں، ان کا موقف کچھ ہوتا ہے، جب بین الاقوامی فورموں میں بات کرتے ہیں، ان کا موقف کچھ اور ہوتا ہے اور جب آپ سے سفارتی اور رسمی بات کرتے ہیں تو ان کا موقف بالکل مختلف ہوتا ہے۔ جناب سعود الفیصل نے وہ موقف علاقے کی صورت حال کے زیر اثر اپنایا تھا۔
امریکیوں نے حسنی مبارک کا ساتھ کیوں چھوڑا؟ جب انھوں نے دیکھا کہ انہیں مزید برسراقتدار نہیں رکھ سکتے؛ میں صرف ایک مثال لاتا ہوں تاکہ آپ دیکھ لیں کہ سیاسی میدان میں انجام پانے والے کسی کام میں اس رویے کا اثر کتنا زیادہ ہے؟ مجھے یاد ہے کہ جب شام کے بحران میں شامی افواج اور ہمارے عسکری مشیر اور حزب اللہ مل کر کسی ایسے علاقے میں داخل ہوتے تھے ان لوگوں کو چھڑانے کے لئے جنہیں مسلح دہشت گردوں نے یرغمال بنایا ہوتا تھا، اور جب جبہۃ النصرہ سے لے کر داعش تک کے دہشت گرد گھیرے میں آجاتے تھے، تو تکفیری دہشت گردی کا پیکر تشکیل دینے والے یہ دہشت گرد پیغام دے دیتے تھے کہ ہم بھاری ہتھیار تحویل میں دے کر اس علاقے سے نکلنے کے لئے تیار ہیں آپ بس ہمیں ماریں نہیں۔
میں اعتماد کے مسئلے کی طرف اشارہ کررہا ہوں؛ جب یہ تکفیری جو براہ راست یہودی ریاست کے ساتھ کام کرتے تھے اور ان سے تنخواہیں لیتے تھے، کہتے تھے کہ کیا ضمانت ہے کہ ہم یہاں سے نکلیں اور شامی افواج ہمیں پیچھے سے نشانہ نہ بنائیں؟ پہلی مرتبہ جب یہ کام انجام پا رہا تھا ہم نے اقوام متحدہ کے ذریعے ان سے پوچھا کہ تمہیں کیسی ضمانت درکار ہے؟ تو کہنے لگے:
اگر ایرانی عسکری مشیران یا حزب اللہ ضمانت دیں کہ شامی افواج ہمیں نشانہ نہیں بنائیں گے تو ہم علاقہ تحویل دینے کے لئے تیار ہیں۔
دیکھئے یہ وہی لوگ ہیں جو حزب اللہ کے مجاہدین اور ہمارے مدافعین حرم کا سر قلم کرنے والی تنظیمیں ہیں لیکن ان کے ساتھ ہمارا برتاؤ یہ تھا اور ان کا ہم پر اعتماد تھا کہ “یہ لوگ مرد ہیں، جوانمرد ہیں، مسلمان ہیں اور ان کے قول پر بھروسہ کیا جاسکتا ہے”۔ یہی لوگ جو ہمارے ساتھ بیٹھ کر کہتے ہیں کہ “ہمیں امریکیوں پر بھروسہ نہیں ہے”۔ تاہم یہ لوگ آشکارا بیان بھی کرتے ہیں کہ ہم آپ کی طرح امریکیوں کو “نہ” نہیں کہہ سکتے۔
کہتے ہیں: آپ نے امریکہ کو “نہ” کہا اور انقلاب بپا کیا اور پوری قوت کے ساتھ ڈٹ گئے لیکن سعودی عرب میں ہمارا نظام کچھ اس طرح سے ہے کہ ہم انہیں “نہ” نہیں کہہ سکتے، اور ساتھ افسوس کا اظہار بھی کرتے ہیں؛ لیکن درحقیقت امریکیوں پر اعتماد بھی نہیں کرتے کیونکہ انہیں مسلسل یہ احساس رہتا ہے کہ جو کچھ عرب دنیا کے راہنماؤں کے ساتھ ہؤا اور وہ زوال پذیر ہوئے اور ان کے ملکوں میں تبدیلیاں آئیں، یہی کچھ سعودی عرب میں ہمارے ساتھ کسی بھی لمحے دہرایا جاسکتا ہے۔
یہ واقعہ کیونکر پیش آیا کہ علی عبداللہ صالح یمن میں کسی وقت انصار اللہ کے ساتھ متحد ہوئے، اور بعد میں غداری پر اتر آئے اور آخرکار ان حالات سے دوچار ہوئے۔
یمن میں علی عبداللہ صالح ایک سیاستدان کھلاڑی تھے اور حکمرانی کو خوب سیکھ چکے تھے۔ یمن میں علی عبداللہ صالح سے یہ جملہ نقل کیا جاتا ہے کہ: یمن میں حکمرانی ایک سات سروں والے سانپ کے سر پر چلنے کے مترادف ہے اور آپ کو ہر لمحے خیال رکھنا پڑتا تھا کہ سانپ کے کسی ایک سر کی گزیدگی آپ کو اوپر سے نیچے نہ پھینک دے۔
سعودیوں کا خیال تھا کہ علی عبداللہ صالح کو پیسہ دے کر یمن کو سعودی عرب کے پچھواڑے میں تبدیل کیا جاسکتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ یہاں کے لوگ سعودی عرب سے اس قدر نفرت کیوں کرنے لگے؟ اور کیا ہؤا کہ علی عبداللہ صالح ـ جنہوں نے اربوں ڈالر سعودی عرب سے لے لئے اور عوام کے لئے خرچ کرنے کی بجائے بیرونی بینکوں میں رکھ لئے ـ اچانک فیصلہ کرتے ہیں کہ سعودی عرب سے علیحدگی اختیار کرکے انصار اللہ کے حلیف کے طور پر کردار ادا کریں؟
صالح نے دیکھا کہ انصار اللہ نامی ایک طاقتور سیاسی اور معاشرتی قوت یمن میں موجود ہے۔ میں یہ نہیں کہہ رہا ہوں کہ انصار اللہ پورے یمن پر تسلط رکھتی ہے یا پورے یمن کو اپنے لئے چاہتی ہے؛ نہیں ایسا نہیں ہے۔ کہنا چاہتا ہوں کہ انصاراللہ کی جڑیں یمنی معاشرے میں بہت گہری ہیں اور ایک حقیقی یمنی قوت ہے اور آج سعودی جارحیت کے آگے کامیاب مزاحمت کے نتیجے میں ایک مرکزی قوت میں بدل گئی ہے جس کے یمن میں بہت سارے متحدین اور حلفاء ہیں؛ یمن کی کمیونسٹ پارٹی سے لے کر مختلف دینی اور قومی جماعتیں انصار اللہ کے ساتھ ہیں اور انصار اللہ ایک اہم طاقت بن چکی ہے۔
علی عبداللہ صالح کے لئے ان کے ساتھ کام کرنا، اہم تھا۔ کل تک سوچ رہے تھے کہ اصل قوت سعودی عرب ہے لیکن کل سمجھ چکے کہ ایسا نہیں ہے بلکہ طاقت یہاں انصاراللہ اور اس کی حلیف جماعتوں کے پاس ہے۔ دوسری طرف سے سعودی عرب کے برتاؤ سے بھی نالاں تھے چنانچہ انھوں نے سوچ لیا کہ انہیں عمر کے اس آخری حصے میں انصار اللہ کی طرف مائل ہونا چاہئے، اسی میں بہتری ہے۔
لیکن کچھ عرصہ گذرجانے کے بعد انہیں بڑی رقوم کی پیشکش ہوئی اور وعدہ دیا گیا کہ ان کے بیٹے کو یمن کا صدر بنایا جائے گا، اور وہ خود یمن کے مستقبل میں اہم اور مرکزی رہنما کے طور پر کردار ادا کرسکیں گے۔ سعودیوں نے کہا: ہم نے کئی مرتبہ بڑی کاروائیاں کرکے دارالحکومت صنعا پر قبضہ کرنے اور انصار اللہ کو نکال باہر کرنے کی کوشش کی لیکن کامیاب نہیں ہوسکے، آپ (علی عبداللہ صالح) اندر سے کاروائی کریں، صنعا کے نظام کو درہم برہم کریں، خانہ جنگی کی کیفیت پیدا کریں تاکہ دارالحکومت انصار اللہ کے ہاتھ سے نکل جائے اور بعد میں ہماری افواج داخل ہوجائے!
علی عبداللہ صالح نے دھوکہ کھایا۔ وہ خود زیدی شیعہ تھے اور ایک زمانے میں تاکتیکی حکمت عملی کے تحت انصاراللہ کے قریب گئے اور انصاراللہ کا طے شدہ پروگرام بھی یہی ہے کہ یمن کی تمام جماعتوں کے ساتھ کام کرے۔ یعنی اگر اسی وقت عبدربہ منصور کی مستعفی حکومت کہہ دے کہ ہم انصار اللہ کے ساتھ ملکی آئین اور سیاسی مفاہمت کے دائرے میں کام کرنا چاہتے ہیں تو انصاراللہ “نہ” نہیں کہے گی اور کہے گی کہ آجائیں بیٹھتے ہیں، مذاکرہ کرتے ہیں ۔۔ یہ انصار اللہ کی وسیع النظری ہے۔ کیونکہ اسے یقین ہے کہ یمن یمنیوں کے لئے ہے۔

 

سعودی، یہودی اور صہیونی لابیاں یمن کے دلدل میں گرفتار: امیر عبد اللھیان

  • ۴۵۳

خیبر صیہون ریسرچ سینٹر: ڈاکٹر امیر عبد اللٰھیان کے ساتھ یمن کے موضوع پر اہم گفتگو:
س: بات کا آغاز یہاں سے کرتے ہیں کہ امریکیوں نے یمن میں انصار اللہ کے مجاہدین کی میزائل قوت کے سلسلے میں ایک نفسیاتی جنگ جاری رکھی ہوئی ہے۔ ان کا دعوی ہے کہ یہ میزائل انصار اللہ کو ایران نے بطور تحفہ دے دیئے ہیں تاکہ سعودی عرب کو نشانہ بنا دے۔ بعض اوقات وہ کچھ تصاویر بھی دکھاتے ہیں اور حال ہی میں نیتن یاہو نے میونخ اجلاس میں ایک ڈرون کا ٹکڑا لہراتے ہوئے دعوی کیا کہ “یہ ایرانیوں کے لئے ہے” اس کے پس پردہ منظرنامہ کیا ہے؟
ج: حقیقت یہ ہے کہ یمن کے مسئلے میں، ہم انصاراللہ کی اخلاقی حمایت کرتے ہیں۔ ہم انصار اللہ کے ساتھ اس لئے رابطے میں ہیں کہ وہ یمنی عوام کے حقوق کے حصول اور امریکہ اور یہودی ریاست کی غلط پالیسیوں کا مقابلہ کرنے کے سلسلے میں سیاسی جماعت اور ایک عوامی تحریک کے طور پر اہم کردار ادا کررہی ہے؛ ہم ان کی اخلاقی حمایت کرتے ہیں اور ان کے ساتھ رابطے میں ہیں، یہ ایسی حقیقت ہے جو کسی سے چھپی ہوئی نہیں ہے۔
لیکن یہ جو دعوی کیا جارہا ہے کہ ہم ان کو میزائل دے رہے ہیں، تو میں یہاں ایک نکتہ بیان کرنا چاہوں گا اور وہ یہ کہ: جس وقت جناب اسماعیل ولد الشیخ کو یمن میں اقوام متحدہ کے ایلچی کے طور پر تعینات کیا گیا، میں نے تہران میں اور اس کے دو ہفتے بعد برسلز میں ان کے ساتھ ملاقات کی۔ اسی وقت سعودی دعوی کررہے تھے کہ ایران انصار اللہ کو ہتھیار فراہم کررہا ہے۔
ولد الشیخ نے گفتگو کا آغاز کرتے ہوئے کہا: میں ایک واقعہ بیان کرتا ہوں اور بعد میں آپ اس کا جواب دیں۔ اور انھوں نے جو واقعہ سنایا وہ یوں تھا کہ “چند سال قبل میں اقوام متحدہ کے غذائی پروگرام کے نمائندے کے طور پر یمن میں تعینات تھا اور میں اس وقت اس نتیجے پر پہنچا تھا کہ یمن میں ہر شہری کے مقابلے میں چار ہتھیار پائے جاتے ہیں” یعنی آبادی: ۲۳۸۳۳۳۷۶ افراد، ہتھیاروں کی تعداد: ۹۵۳۳۳۵۰۴۔
حقیقت یہ ہے کہ ہم یمن کے زمینی حقائق کی رو سے ایک مثلث دیکھ رہے ہیں جس کا ایک بازو امریکہ، دوسرا بازو یہودی ریاست اور تیسرا بازو ـ جس نے اپنی دولت کو بھی اور اپنی عزت و آبرو کو بھی اس بساط پر ڈال دیا ہے ـ سعودی عرب ہے۔
میرا خیال ہے کہ سعودی عرب یہودی لابی کی منصوبہ بندی کے تحت شروع ہونے والے ایک خطرناک کھیل میں الجھا ہؤا ہے۔ میں سعودی حکام اور علاقے کے ممالک کے نمائندوں سے اپنی ملاقاتوں میں ـ جو آج تک جاری ہیں ـ اپنی تشویش ظاہر کرتا رہا ہوں کہ یہودی ریاست کا منصوبہ یہ ہے کہ علاقے کے ممالک کو تقسیم در تقسیم کردے اور اس یہودی منصوبے میں سعودی عرب بھی شامل ہے۔
عرب دنیا کے مفکرین، صاحبان نقد و نظر اور سیاستدان ـ جو کہ عرب معاشروں کے منورالفکر طبقے سے تعلق رکھتے ہیں ـ کہتے ہیں کہ سعودی عرب اپنے غلط اندازوں کی وجہ سے ایسے جال میں پھنس چکا ہے جو اس ملک کے مستقبل کو خطرات سے دوچار کررہا ہے، اور یہ مغربی ایشیا اور عالم اسلام کے ایک ملک کے طور پر مستقبل میں مزید بحرانوں اور بالآخر تقسیم کے خطرے کا شکار ہوسکتا ہے۔
سوال: سعودی عرب طویل عرصے سے یمن میں الجھا ہؤا ہے، کیا وہ یمن کا مسئلہ ختم نہیں کرنا چاہتا یا پھر ایسا کرنے سے عاجز ہے؟
جواب: میرا تصور یہ ہے کہ سعودی عرب یمن میں ایک بہت بڑی دلدل میں دھنسا ہؤا ہے؛ یمن پر سعودی عرب کی ٹھونسی ہوئی جنگ کا تیسرا ہفتہ شروع ہوچکا تھا اور جناب عادل الجبیر کی وزارت خارجہ کے وزیر خارجہ بننے کا بھی تیسرا ہفتہ شروع ہوچکا تھا کہ میں نے اسلامی ممالک کے وزرائے خارجہ کے اجلاس میں شرکت کے لئے جدہ کے دورے پر تھا۔ وہاں میری ملاقات عادل الجبیر سے ہوئی تو میں نے ان سے یہی کہا کہ “تم غلطی کے مرتکب ہوچکے ہو، اور یمن کے بحران کا حل سیاسی ہی ہے”۔ الجبیر نے غصے کی حالت میں کہا: دیکھ لوگے کہ ہم تین مہینوں سے بھی کم عرصے میں انصار اللہ کو شمالی یمن میں نیست و نابود کریں گے و۔۔۔” میں کھسیانی سی ہنسی ہنسا اور مسکرا کر کہا: “میرا نہیں خیال۔۔۔” لیکن آپ کہتے ہیں تو آنے والے دنوں کا انتظار کرتے ہیں۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ سعودی عرب میں بہت سے وہ لوگ جو بہ زعم خویش یمن پر حملے کے حوالے سے عقلیت کے راستے پر گامزن تھے، سوچ رہے تھے کہ سعودی زیادہ سے زیادہ تین مہینوں کے عرصے میں یمن میں قطعی طور پر کامیاب ہوجائے گا اور یمن کا بحران اسی انداز سے ختم ہوگا جس طرح کہ سعودی عرب کی آرزو ہے۔
سعودیوں کو امریکہ سے بہت توقعات تھیں۔ ایک بار میں نے علاقے کے ایک عسکری ماہر سے کہا: میں فوجی نہیں ہوں اور فوجی مسائل کا زیادہ ادراک نہیں رکھتا اور میرا جنگی تجربہ دفاع مقدس کے دور میں ایک رضاکار بسیجی کا تجربہ ہی ہے، یہ جو امریکی کہہ رہے ہیں کہ یمن کی جنگ میں سعودیوں کی مدد کررہے ہیں، اس کی حقیقت کیا ہے تو اس نے کہا: امریکی کہتے ہیں کہ ہم سیارچوں کے ذریعے یمن میں سعودی کاروائیوں کی نگرانی کرتے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ امریکہ بہت بڑی قیمت وصول کرکے اپنے پیشرفتہ ترین جنگی طیارے سعودیوں کو فراہم کرتا ہے لیکن امریکہ کی یہودی ـ صہیونی لابیوں اور امریکی سلامتی کے اداروں کے درمیان مسلسل تشویش پائی جاتی ہے کہ اگر سعودی عرب میں بھی اچانک مصر کی طرح کا انقلاب آجائے اور حالات تبدیل ہوجائیں تو یہ جنگی سازوسامان کسی طور پر بھی یہودی ریاست کے خلاف استعمال نہیں ہونا چاہئے۔ چنانچہ امریکہ نے جدیدترین طیارے تو سعودیوں کو دے دیئے ہیں لیکن انہیں کئی مسائل کا سامنا ہے:
۱۔ یہ طیارے جب صنعا پر بمباری کے لئے جاتے ہیں تو واپسی میں یمن کی فضائی حدود سے نکلنے سے پہلے ہی ان جدید طیاروں کا ایندھن ختم ہوجاتا ہے لہذا انہیں یمن سے نکلنے سے قبل ہی ایندھن وصول کرنا پڑتا ہے۔ ایندھن لینے کی کاروائی کے لئے ایک خاص قسم کا پٹرول چاہئے جو امریکیوں نے سعودیوں کو فراہم نہیں کیا ہے، اور بحر ہند میں اس قسم کے ایندھن کا حامل ایک جہاز تعینات ہے جس سے انتقال پذیر ایندھن بھرنے کی صورت میں ان طیاروں کو ایندھن فراہم کیا جاتا ہے لیکن جو طیارے یہ ایندھن اس جہاز سے اٹھا کر اس طیاروں کو منتقل کرتے ہیں، بھی سعودی عرب کو فراہم نہیں کئے گئے ہیں اور وہ روش نیز وسائل امریکی ایندھن رساں طیاروں کے پاس ہیں۔ پس ان طیاروں کا ایندھن اور اس کی منتقلی کا کام ہر لحاظ سے اور ۱۰۰ فیصد امریکیوں نے اپنے پاس رکھا ہوا ہے۔
۲۔ یہ طیارے بہت جدید ہیں اور جب یہ مثلا صنعا میں کسی ہدف کو نشانہ چاہیں تو اس سے پہلے ایک ڈرون پرواز کرتا ہے، علاقے کو دیکھ لیتا ہے اور ریکی کرتا ہے، مختصات کو سعودی فضائی کمانڈ کے لئے بھیجتا ہے، کمانڈ اسے طیارے کے پائلٹ کے لئے بھیجتی ہے جس کے بعد وہ جاکر کسی اسکول، پانی کی کسی ٹینکی، کسی چھاؤنی یا کسی بازار کو نشانہ بنانے چلا جاتا ہے۔ یہ ڈرون بھی سعودیوں کے پاس نہیں ہیں؛ چنانچہ یہ جو امریکی کہہ رہے ہیں کہ اس جنگ میں لاجیسٹک اور معلومات کے حوالے سے سعودیوں کی مدد کررہے ہیں، اس کا مطلب یہ ہے کہ امریکہ نے جدید ترین ہتھیار سعودیوں کو فروخت کئے ہیں لیکن وہ ان ہتھیاروں کے استعمال کا اختیار نہیں رکھتے۔

 

آیت اللہ طائب سے گفتگو کا تیسرا حصہ/ کورونا وائرس اور امام زمانہ(عج) کا ظہور

  • ۶۶۶

گزشتہ سے پیوستہ

خیبر: کیا کورونا وائرس کی داستان کا آخری زمانے کے واقعات سے کوئی تعلق ہے؟
جواب: میں اپنے تمام مخاطبین سے عرض کرنا چاہوں گا کہ ہمیں اپنی شرعی تکلیف پر عمل کرنا ہے۔ امام خمینی نے فرمایا: ہماری ذمہ داری ہے کہ ظہور کے لیے زمین فراہم کریں۔ میں ہمیشہ یہی کہتا ہوں کہ جب تک زمین ظہور کے لیے فراہم نہیں ہو گی، علاقہ پرامن نہیں ہو گا امام زمانہ سے ظہور کا تقاضہ کرنا غیرمعقول چیز ہے۔
ظہور کے تقاضے کا لازمہ یہ ہے کہ ہم نے تمام شرائط مہیا کیے ہوئے ہوں سب تیاریاں کر رکھی ہوں تو امام تشریف لائیں، علاقے کے پرامن ہونے کا مطلب یہ ہے کہ علاقے پر جن اجنبی طاقتوں کا تسلط ہے ان سے علاقے کو واپس لیا جائے۔ اس جد و جہد کو امام خمینی (رہ) نے شروع کیا اور آپ نے یہ واضح کیا کہ امریکہ اوراسرائیل ہیں جو امام کے ظہور میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں۔
ان دشمنوں کے خلاف جد و جہد امام نے شروع کی اور چالیس سال سے اسلامی جمہوریہ ایران اس جد و جہد کو جاری رکھے ہوئے ہے اور آج ہم دیکھ رہے کہ دشمن میدان جنگ میں اس قدر شکست سے دوچار ہو چکا ہے کہ اب اس طرح کے وایرس پیدا کر کے دنیا کی دوتہائی آبادی کو نابود کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ دشمن کس قدر کمزور اور ناتوان ہو چکا ہے۔
وہ روایتیں جو ظہور سے پہلے کے زمانے کے بارے میں ہیں ان سے معلوم ہوتا ہے کہ امام علیہ السلام کے ظہور سے پہلے طاعون کی بیماری سے پوری دنیا متاثر ہو گی۔ ممکن ہے یہی بیماری مراد ہو۔ یا یہ بھی کہا گیا ہے کہ دنیا میں ایک بہت بڑا قتل عام ہو گا۔ لیکن جو بات عرض کرنا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ اس طرح کی تمام روایتیں وہ ہیں جو سند کے لحاظ سے زیادہ قابل یقین نہیں ہیں۔ یہ تمام امور اللہ کی مرضی و منشا کے مطابق ہیں۔ لہذا ہماری توبہ و استغفار اور ہمارے اعمال و کردار میں تبدیلی ان امور میں تبدیلی کا بھی باعث بن سکتی ہے۔ «إِنَّ اللَّهَ لَا یُغَیِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتَّى یُغَیِّرُوا مَا بِأَنْفُسِهِم.
جو چیز اس وقت روئے زمین پر رونما ہو رہی ہے وہ یہ ہے کہ ظہور کے مخالفین دن بدن کمزور سے کمزور تر ہوتے جا رہے ہیں۔ آج یہ وائرس ہماری نابودی کے لیے تیار کیا گیا ہے، ٹھیک ہے اس نے ہمارے بہت سارے قیمتی انسانوں کو موت کا شکار بنا دیا، ہماری معیشت کو شدید نقصان پہنچایا، «الشَّیْطَانُ یَعِدُکُمُ الْفَقْرَ» شیطان کا کام ہے فقر سے ڈرانا، مفلسی سے ڈرانا، لوگوں کے اندر نفسیاتی طور پر خوف و ہراس پیدا کر دینا، اور افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ بہت سارے اندرونی عوامل بھی اسی موج میں بہہ رہے ہیں اور عوام کو ان کی معیشت سے خوفزدہ کر رہے ہیں۔
کورونا وایرس نے یقینا ہماری معیشت پر کاری ضربت لگائی ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ لوگوں میں ہمدردی، ہمدلی اور انفاق کی روح بھی پیدا کی ہے۔ انشاء اللہ ایران سے اس وائرس کے خاتمہ کے بعد ملک کی معیشت دوبارہ ترقی کرے گی ہم کوئی کمزور قوم نہیں ہیں، امام زمانہ کا سایہ ہمارے سروں پر ہے۔
لیکن یاد رکھیں اس وباء سے صرف ہم نہیں، بلکہ پوری دنیا کی معیشت متاثر ہوئی ہے، آپ علاقے کے ممالک کو ہی دیکھ لیں سعودی عرب جس کی معیشت کا سارا دارومدار تیل اور حج و عمرہ پر تھا آج دونوں صفر ہو چکے ہیں، تیل ۲۰ ڈالر پر پہنچ چکا ہے اور حج و عمرہ مکمل طور پر بند۔ جبکہ سعودی عرب دوسری طرف یمن جنگ کے دلدل میں پھنسا ہوا ہے، عرب امارات کو دیکھ لیں، دبئی کی سٹاک مارکٹ کریش ہو چکی ہے، ترکی کا ایئرپورٹ جو اس ملک کے لیے سب بڑا درآمد کا ذریعہ تھا خالی ہو چکا ہے۔
تو دیکھیں وہ لوگ جو ایران کی معیشت کو نقصان پہنچانے کی کوشش میں تھے آج خود بھی سب کے سب ہم سے بدتر صورتحال میں گرفتار ہیں۔ یہ اللہ کا وعدہ ہے کہ «وَ مَکَرُوا وَ مَکَرَ اللَّهُ وَ اللَّهُ خَیْرُ الْمَاکِرِینَ»۔
خداوند متعال دوسری جگہ فرماتا ہے کہ تم دشمن کی طرف سے ایجاد کردہ مشکلات سے گھبرانا نہیں، کمزور نہیں پڑنا، «وَ لا تَهِنُوا فِی ابْتِغاءِ الْقَوْمِ» مشکلات بہت تمہارے راستے میں آئیں گی مشکلات سے خوفزدہ نہیں ہونا، دشمن نے جو تمہارے لیے گڈھا کھودا ہے وہ خود بھی اس میں گرے گا۔ «فَإِنَّهُمْ یَأْلَمُونَ کَما تَأْلَمُون» مجھے یقین ہے کہ وہ لوگ جنہوں نے یہ وائرس ہمارے لیے بنایا ہے وہ خود بھی شدت سے اس میں گرفتار ہوں گے ہم اللہ کی مدد اور امام زمانہ کے لطف و کرم سے اس پریشانی کو برداشت کر لیں گے لیکن دشمن جب اس میں گرے گا تو بری طرح متاثر ہو گا وہ برداشت نہیں کر پائے گا اس لیے کہ ہم مورچوں میں بیٹھے ہیں اور دشمن شیشے کے مکانوں میں بیٹھا ہے۔

 

آیت اللہ طائب کے ساتھ گفتگو کا دوسرا حصہ/ کورونا وائرس اور امریکی میڈیا کی نفسیاتی جنگ

  • ۴۷۰

گزشتہ سے پیوستہ
خیبر: ایران میں کورونا وائرس کے پھیلنے کے بعد امریکی صہیونی میڈیا کے ذریعے جو نفسیاتی جنگ کا آغاز ہوا اس کے بارے میں آپ کا کیا نظریہ ہے؟
جواب؛ وہ چیز جو امریکہ کے ذریعے کورونا وائرس کے پھیلائے جانے کو واضح تر کرتی ہے وہ نفسیاتی جنگ ہے جو اس وائرس کے حوالے سے پوری دنیا منجملہ ایران میں شروع ہو چکی ہے۔ میں اس بات کی طرف آپ کی توجہ مبذول کرانا چاہوں گا، جب یہ وائرس چین میں شروع ہوا تو ہمارے ملک کے لوگوں کی ذہنیت یہ تھی کہ کورونا وائرس ، چمگادڑ کے ذریعے چینیوں میں منتقل ہوا ہے۔
لیکن کیا چین میں یہ چیز ثابت ہوئی؟ جو افواہیں ’ووہان‘ شہر میں اس وائرس کے پھیلتے وقت پھیلیں وہ یہ تھیں کہ اس وائرس سے متاثرہ افراد وہ لوگ تھے جو سمندری خوراک کھاتے تھے لہذا یہ احتمال پایا جا رہا ہے کہ سمندری موجودات کے ذریعے انسانوں میں منتقل ہوا ہو۔ لیکن جب ڈاکٹروں نے تحقیقات کرنا شروع کیں تو معلوم ہوا وہ لوگ بھی اس بیماری سے متاثر ہوئے ہیں جنہوں نے نہ ہی سمندری غذائیں کھائی ہیں اور نہ ان لوگوں کے ساتھ ان کا اٹھنا بیٹھنا تھا جو اس بیماری میں مبتلا تھے۔
دوسرا مفروضہ یہ تھا کہ یہ وائرس چمگادڑ کے سوپ سے پھیلا ہے اس مفروضہ پر بھی تحقیقات کرنے کے بعد معلوم ہوا کہ سوپ تو پکا کر استعمال کیا جاتا ہے اور پکنے کے بعد کسی وائرس کے باقی رہنے کا احتمال بہت کم ہے۔ لیکن یہ احتمالات میڈیا میں اس طریقے سے بڑھا چڑھا کر پیش کئے گئے کہ گویا سوفیصد یہی دلائل ہیں۔ جبکہ ابھی تک خود چین کے اندر بھی اس وائرس کے وجود میں آنے کی وجہ معلوم نہ ہو سکی ہے۔
دوسری جانب ایران میں ٹھیک پارلیمانی انتخابات کی پچھلی رات قم میں اس کے پھیلے جانے کا اعلان کر دیا گیا اور کہا گیا کہ قم ہے جو اس وائرس کو پورے ایران میں پھیلا رہا ہے۔ جبکہ پوری دنیا جانتی ہے کہ اس وائرس کا اصلی مرکز چین ہے قم نہیں۔ لیکن قم کی بات آئی تو پوری دنیا کا میڈیا چین کو بھول کر قم کے پیچھے لگ گیا!
کچھ ہی دیر میں یہ خبریں بھی پھیلائی جانے لگیں کہ قم میں چونکہ چین کے طالب علم زیر تعلیم ہیں لہذا ان کے ذریعے یہ وائرس قم میں پھیلا ہے۔ حالانکہ جب سے چین میں کورونا وائرس پھیلا تھا چین کا ایک بھی طالب علم اپنے ملک میں نہیں گیا اور نہ ہی کوئی طالب علم وہاں سے اس دوران قم آیا۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ قم میں تقریبا ۱۳ لاکھ کی آبادی ہے۔ لیکن سارا نزلہ حوزہ علمیہ پر ڈالا جا رہا تھا اور کہا جا رہا تھا کہ قم کے طالب علم اور علماء ہیں جو اس وائرس کے پھیلاؤ کا باعث بنے ہیں۔ حالانکہ جس مرکز میں یہ چینی طالب علم زیر تعلیم تھے وہاں کا کوئی ایک بھی عالم دین یا طالب علم متاثر نہیں ہوا۔
اس طرح کی نفسیاتی جنگ جو اس وائرس کے حوالے سے شروع کی گئی یہ اس بات کی دلیل ہے کہ وائرس کا بنانا اور اس کا پھیلانا اور پھر اس کے پیچھے میڈیا کو منظم طریقے سے استعمال کرنا سب طے شدہ منصوبہ تھا۔
امریکہ کو یہ معلوم ہے کہ ایران میں صرف قم ہے جو امریکہ کے خلاف جنگ میں ڈٹا ہوا ہے۔ قم چونکہ حوزہ علمیہ کا مرکز ہے۔ آج جس فکر نے امریکہ اور اسرائیل کو مفلوج کیا ہے وہ انقلابی فکر اور سوچ ہے اور انقلابی فکر و سوچ کا مرکز شہر قم ہے جس انقلابی فکر کی بنیاد امام خمینی نے اسی شہر میں رکھی۔ لہذا دشمن کی نظر میں اس شہر کو منہدم ہونا چاہیے۔
دشمنوں کے لیے یہ اہم نہیں کہ اس مرکز کو مٹانے کے لیے کتنا خرچہ کرنا پڑے گا۔ اگر یہ وائرس دشمنوں نے بنایا ہو گا وہ اپنے حریف کو میدان سے ہٹانے کے لیے پوری انسانیت کو داؤ پر لگانے کے لیے تیار ہیں۔ لہذا جو معلومات فی الحال میسر ہیں ان سے یہ محسوس ہوتا ہے کہ اس وائرس کو بنانے والا امریکہ اور وائرس پھیلانے کے ساتھ ساتھ نفسیاتی جنگ چھیڑنے والا بھی امریکہ ہے۔

 

آیت اللہ طائب کے ساتھ گفتگو کا پہلا حصہ: عنقریب امریکہ کورونا وائرس کے پھیلاؤ کا اعتراف کرے گا

  • ۵۵۶

مجھے یقین ہے کہ یہ وائرس دشمنوں نے بنا کر پھیلایا ہے۔ ہمارے پاس اس بات پر دلائل ہیں لیکن فی الحال ہم انہیں پیش نہیں کر سکتے۔ عنقریب امریکی خود اس بات کا اعتراف کریں گے کہ انہوں نے یہ وائرس خود بنا کر پھیلایا ہے۔ البتہ جب وائرس چین میں پھیلنا شروع ہوا تھا تو دنیا کے بعض ماہرین جیسے روس نے یہ اعلان کیا تھا کہ یہ وائرس امریکہ میں بنایا گیا ہے۔
خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: حالیہ دنوں پوری دنیا اس بیماری کی لپیٹ میں آ چکی ہے اور ہر انسان ایک طرح کی دھشت میں مبتلا ہے لیکن بعض ممالک میں یہ بیماری جنگی صورت اختیار کر چکی ہے جن میں چین، اٹلی اور ایران سر فہرست ہیں۔
اس حوالے سے خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ نے حجۃ الاسلام و المسلمین مہدی طائب سے گفتگو کی ہے جو قارئین کے لیے پیش کرتے ہیں۔
خیبر: یہ جو بیماری یا وائرس آج انسان کے دامن گیر ہوا ہے اور خاص طور پر اس وقت اس نے ہمارے ملک کو کافی نقصان پہنچایا ہے اس کے بارے میں آپ کا کیا تجزیہ ہے؟
آیت اللہ طائب: خداوند عالم فرماتا ہے: «أَمْ حَسِبْتُمْ أَنْ تَدْخُلُوا الْجَنَّةَ وَلَمَّا یَأْتِکُمْ مَثَلُ الَّذِینَ خَلَوْا مِنْ قَبْلِکُمْ» کیا تم خیال کرتے ہوئے کہ یونہی جنت میں داخل ہو جاؤ گے حالانکہ ابھی تمہیں اس قسم کے حالات پیش نہیں آئے جو تم سے پہلوں کو پیش آئے تھے‘‘ (سورہ بقرہ ۲۱۴)۔ یعنی تم سوچتے ہو کہ جنت کا راستہ اتنا آسان ہے؟ تم خیال کرتے ہو کہ جنت میں داخل ہونا بہت آسان ہے؟ تم یہ سوچتے ہو کہ ان مصائب و آلام سے تم دچار نہیں ہو گے جن میں گزشتہ اقوام دوچار ہوئے تھے کیا تم نہیں سوچتے کہ جنت میں جانے کے لیے انسان کو بہت پاپڑ بیلنا پڑتے ہیں؟
خداوند عالم اس آیت میں آگے فرماتا ہے: «مَسَّتْهُمُ الْبَأْسَاءُ وَ الضَّرَّاءُ وَزُلْزِلُوا حَتَّى یَقُولَ الرَّسُولُ وَالَّذِینَ آمَنُوا مَعَهُ مَتَى نَصْرُ اللَّهِ»  ’’انہیں سختیاں اور تکالیف پہنچیں اور وہ اس وقت تک جھنجھوڑے گئے کہ (وقت کا) رسول اور اس کے مومن ساتھی پکار اٹھے کہ آخر اللہ کی نصرت کب آئے گی؟
گذشتہ اقوام نے جنت کی راہ میں اس قدر سختیاں اور پریشانیاں اٹھائیں کہ اپنے راستے سے منحرف ہو گئے اور شک میں مبتلا ہو گئے کہ کہیں ایسا تو نہیں کہ خدا کا وعدہ جھوٹا تھا( نعوذ باللہ)۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ اللہ باطل کو نابود کرنے میں ناتوان ہے؟ معاملہ یہاں تک پہنچ گیا کہ وہ مومنین جو اللہ کے رسول کے ساتھ ہوتے تھے اگر چہ منحرف نہیں ہوئے لیکن ان کی زبانیں بھی کھلنا شروع ہو گئیں اور کہنے لگے: پس اللہ کی نصرف کب پہنچے گی؟ اس کے بعد اللہ نے فرمایا: أَلَا إِنَّ نَصْرَ اللَّهِ قَرِیب ’’جان لو کہ اللہ کی نصرت عنقریب آنے والی ہے‘‘۔ در حقیقت خداوند عالم اس راستے کو جاری رکھنے کا حکم دیتا ہے۔
آج ہمارا ایک ایسے وائرس سے سامنا ہے جو پورے ملک بلکہ پوری دنیا میں پھیل رہا ہے یہ ایسا وائرس ہے کہ اس نے ہر انسان کی زندگی کو متاثر کر دیا ہے۔ بہت سارے کام کاج بند ہو چکے ہیں، مسجدیں، امام بارگاہیں، نماز جمعہ و جماعت بند ہو چکی ہیں، لوگوں کی اکثریت خانہ نشین ہو چکی ہے اور بیماری اور موت سے جوجھ رہے ہیں۔

الہی امتحان
ہم ایسی قوم ہیں جب کسی مشکل میں گرفتار ہوتے ہیں یا حالات غیرمعمولی شکل اختیار کرتے ہیں تو آسمان کی طرف متوجہ ہوتے اور خدا و اہل بیت(ع) سے متوسل ہوتے ہیں۔ یہاں پر خداوند عالم کا یہ قول ہمیں سہارا دیتا ہے : «أَلَا إِنَّ نَصْرَ اللَّهِ قَرِیب» جان لو کہ اللہ کی نصرت قریب ہے۔
لیکن ایسا کیوں ہے؟
اس کے جواب میں اس نکتے کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ خداودند عالم کلی طور پر مومنین کو یوں خطاب کرتا ہے کہ کمال کی راہ میں اور جنت تک پہنچنے کے لیے دنیا کی سختیوں اور پریشانیوں سے عبور کرنا پڑے گا۔ یعنی بغیر مشکلات اٹھائے ہوئے یہ سفر طے کرنا ممکن نہیں ہے۔ «یَا أَیُّهَا الْإِنْسَانُ إِنَّکَ کَادِحٌ إِلَى رَبِّکَ کَدْحًا فَمُلَاقِیهِ» ’اے انسان تو مشقت اٹھا کر اپنے رب کی طرف جانے والا ہے اور اس سے ملاقات کرنے والا ہے‘ (سورہ انشقاق آیت ۶)۔ لہذا جب تک انسان اللہ سے ملاقات نہ کر لے یہ سختیاں اس کے دامنگیر رہیں گی۔
خداوند عالم اسی طرح سورہ عنکبوت میں فرماتا ہے: «أَحَسِبَ النَّاسُ أَنْ یُتْرَکُوا أَنْ یَقُولُوا آمَنَّا وَهُمْ لَا یُفْتَنُونَ»  ’کیا لوگ یہ خیال کر رہے ہیں کہ وہ صرف اتنا کہہ دینے سے چھوڑ دیے جائیں گے کہ ہم ایمان لائیں اور یہ کہ وہ آزمائے نہیں جائیں گے‘۔ یعنی لوگ یہ سوچتے ہیں کہ ہم نے جب کلمہ پڑھ لیا اور زبان سے کہہ دیا ہے کہ ہم ایمان لے آئے تو کافی ہے اب ان سے کوئی امتحان نہیں لیا جائے گا انہیں آزمایا نہیں جائے گا، خدا فرماتا ہے کہ ایسا نہیں ہے ایمان کے بعد ہی منزل امتحان شروع ہوتی ہے۔ اور یہ سنت الہی ہے اس قبل بھی اللہ نے ایسا ہی کیا «وَ لَقَدْ فَتَنَّا الَّذِینَ‌ مِنْ‌ قَبْلِهِمْ» ’اور بتحقیق ہم ان سے پہلوں کو بھی آزما چکے ہیں‘ یعنی یہ امتحان اور آزمائش کوئی ایسی چیز نہیں ہے جو صرف تمہارے لیے ہو بلکہ تم سے پہلے بھی جو قومیں آئیں وہ بھی اس منزل امتحان و آزمائش سے گزری ہیں۔
کیا آزمائش صرف مومنین کے لیے ہے؟
اب یہاں پر ایک اور سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ آزمائش صرف مومنین کے لیے ہے؟ یا سب لوگ اس آزمائش میں مبتلا ہوتے ہیں؟ تو جواب میں یہ کہا جائے گا کہ یہ امتحان و آزمائش سب لوگوں کے لیے ہے۔ اس لیے کہ دین الہی تمام لوگوں سے مربوط ہے۔ لیکن آزمائشیں مختلف ہیں۔ اللہ مومنین کو الگ طریقہ سے آزمائش کرتا ہے اور کفار کو الگ طریقہ سے۔
چونکہ لوگ دو طرح کے ہیں ایک مومن ہیں جو اللہ کو مانتے ہیں اس پر ایمان رکھتے ہیں دوسرے وہ ہیں جو اللہ کو نہیں مانتے ہیں اور اللہ کا انکار کرتے ہیں۔ انہیں کفار کہا جاتا ہے۔ خداوند عالم کفار کو نعمتیں دے کر امتحان لیتا ہے یعنی انہیں نعمتوں میں غرق کر دیتا ہے اور اللہ کی طرف کوئی توجہ نہیں کر پاتے اور وہ اسی کو اپنے لیے بہشت سمجھ بیٹھتے ہیں اور دینداروں پر ہسنتے ہیں جبکہ وہ خود منزل امتحان پر ہوتے ہیں۔ اور نعمتوں کی فراوانی اس لیے ان پر ہوتی ہے کہ وہ اسی دنیا میں اپنی مختصر زندگی میں عیش و نوش کر لیں اور آخرت کی ابدی زندگی میں خدا سے کچھ مطالبہ نہ کر سکیں۔ لیکن اس کے باوجود چونکہ اللہ بہت مہربان ہے کبھی کبھی کافروں کو بھی جگانے کے لیے انہیں مشکلات میں گرفتار کرتا ہے تاکہ آخرت میں خدا کو یہ نہ کہہ سکیں کہ خدایا تو نے ہمیں متنبہ کیوں نہیں کیا؟ جیسا کہ خداوند عالم نے آل فرعون کو قحط میں مبتلا کیا تاکہ بیدار ہو جائیں۔
لہذا یہ جان لینا چاہیے کہ اللہ کی آزمائشیں ہمارے لیے قطعی ہیں اور ان کا مقصد صرف یہ ہے کہ اس کے در سے جڑے رہیں اس سے غافل نہ ہوں اس کی یاد میں رہیں اور یہ چیز مومن کے لیے ترقی اور کمال کا باعث بنے گی اور اس معنوی کمال اور ترقی کا صلہ آخرت میں نظر آئے گا۔

امریکہ کی سائبری مکھیاں شیعہ مقدس مقامات کی توہین میں جٹی ہوئی ہیں

  • ۴۲۲

امریکی سائبر مکھیوں نے جمع ہو کر شیعہ مقدس مقامات کو حملے کا نشانہ بنایا اور وہ اس کوشش میں ہیں کہ اہل بیت(ع) اطہار کے تقدس اور ان کی کرامتوں پر سوال اٹھائیں، نیز وہ شیعوں کے ان کے رہبروں کے ساتھ معنوی روابط کو بھی خراب کرنے کی کوشش کرتے ہیں، لہذا ان حملوں کے خلاف موقف اختیار کرنے اور حقائق کو واضح بیان کرنے کی ضرورت ہے۔  

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: ایران میں کورونا وائرس کے پھیلاؤ کی وجہ سے صہیونی امریکی میڈیا نے اسلامی جمہوریہ کو شدید حملوں کا نشانہ بنانا شروع کر دیا ہے، حالیہ مطالعات سے یہ بات سامنے آ رہی ہے کہ انقلاب مخالف میڈیا ملک کے حالات کو بحرانی شکل میں دکھا رہا ہے۔
خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ نے شیعہ مقدس مقامات پر صہیونی میڈیا کے حملوں کا مقابلہ کرنے کے حوالے سے عالم اسلام کے مسائل کے ماہر ڈاکٹر سید ہادی افقہی کے ساتھ گفتگو کی ہے۔
خیبر: ایران میں کورونا وائرس کے پھیلاؤ کے بارے میں امریکہ اور صہیونی حکومت اور انقلاب مخالف میڈیا کے کردار کے بارے میں آپ کا کیا تجزیہ ہے؟ ان حملوں کے خلاف کیا کیا جانا چاہئے؟
ابھی کچھ بھی پوری طرح سے ثابت نہیں ہوا ہے اور ابھی تک کوئی حتمی ثبوت ہمارے پاس موجود نہیں ہے۔ روسی وزارت دفاع کے ترجمان نے محض بیان دیا کہ: "ہمارے پاس یہ کچھ ایسے دلائل موجود ہیں جن کی بنا پر ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ کورونا وائرس کے پھیلاؤ میں امریکہ کا ہاتھ ہے۔ انہوں نے کورونا وائرس سے آلودہ کیڑے مکوڑوں کو مخصوص ڈرونز کے ذریعے بعض ملکوں میں منتقل کیا ہے‘‘۔ لیکن خود امریکہ اور اسرائیل میں بھی اس وائرس کے پھیلاؤ کے بعد یہ قیاس آرائی کرنا درست نہیں ہے۔
لیکن امریکہ کا کورونا وائرس کے پھیلاؤ سے غلط استعمال اور اس مسئلے کو لے کر بعض ملکوں کے خلاف پروپیگنڈے کرنا اس کا غیرانسانی طریقہ کار ہے۔ اس مسئلے کو لے کر نفسیاتی دباؤ ڈالنا اور غیر اخلاقی اور غیر انسانی کردار پیش کرنا امریکہ کے ایجنڈے میں شامل ہے۔ یہ وہ مسائل ہیں کہ امریکی جن کا پیچھا کر رہے ہیں اور اس حساس موقع اور سخت حالات میں بھی مکمل طور پر اپنی دشمنی کا ثبوت دے رہے ہیں۔  
ملک کے اندر متعدد مشہور شخصیات اور مغربی ممالک سے وابستہ افراد بھی اس معاملے کو بڑھاوا دے رہے ہیں۔ وہ مسلمانوں اور شیعوں کے تقدس کی توہین کررہے ہیں۔ مثال کے طور پر ، وہ دعوی کرتے ہیں کہ امام رضا علیہ السلام اپنے مریضوں اور حجاج کرام کو صحتیاب کریں۔
عوام کو اس بارے میں آگاہ کرنا بہت ضروری ہے۔ علمائے کرام کو عوام کو سمجھانا چاہئے کہ مراجع تقلید نے بھی ڈاکٹروں کی طرف سے دی گئی ہدایات کی رعایت کرنے پر زور دیا ہے اور اس بات کی وضاحت  بھی کی ہے کہ صفائی ستھرائی رکھنا اور مبینہ صحت کے نکات پر عمل کرنا اہل بیت(ع) کی کرامات اور ان کی جانب سے شفا عطا کیے جانے کے ساتھ تضاد نہیں رکھتا۔ عوام کو طبی ہدایات کی پیروی اور اہل بیت(ع) کے کرامات کے اصولوں سے آگاہ کرنا چاہیے۔
آج کورونا وائرس کو لے کر شیعہ مقدس مقامات پر سوشل میڈیا میں ہر طرح کے حملے کئے جا رہے ہیں اور ان کی توہین کی جا رہی ہے۔ ائمہ طاہرین کی روضوں، امام بارگاہوں، مسجدوں اور مذہبی تقریبات کو شدت سے حملوں کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔
حقائق کو بیان کرنا حوزہ علمیہ کی ذمہ داری ہے
میری رائے میں، حوزہ علمیہ کے بزرگ اساتید اور علمائے کرام کو اس مسئلے میں میدان میں اترنا چاہیے اور دشمن کے حملوں کا جواب دینا چاہیے اور عوام کو ان شبہات سے آگاہ کرنا چاہیے۔  
بدقسمتی سے، سائبری فورس، یا امریکہ کی سائبری مکھیاں جمع ہو چکی ہیں تاکہ شیعہ مقدس مقامات کو حملے کا نشانہ بنائیں اور کوشش کریں کہ اہل بیت(ع) اطہار کے مقدس مقامات پر سوال اٹھائیں، شیعوں اور ان کے رہبروں کے درمیان پائے جانے والے معنوی رشتے کو خدشہ دار کریں، لہذا ان چیزوں کا ڈٹ کر مقابلہ کرنے اور حقائق کو بیان کرنے کی ضرورت ہے۔
کچھ لوگ جو صادق شیرازی کے فرقہ ضالہ کے پیروکار ہیں پہلے خود ان سے ملاقات کرتے اور اس کے بعد حضرت معصومہ (س) کے حرم میں جا کر ضریح کو چاٹتے ہیں، اور کورونا کا انکار کرتے ہیں یہ لوگ در حقیقت مراجع کے فتووں کی توہین ہے۔ اکثر مراجع کرام نے یہ فتویٰ دیا ہے کہ ماہر ڈاکٹروں کی ہدایات پر عمل کیا جائے۔