مکالمہ/امریکی سمجھتے تھے کہ انصار اللہ چھ مہینوں میں شکست کھائی گی

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: اسٹاک ہوم (Stockholm) مذاکرات کے بعد بنی سعود ذرائع ابلاغ کی جنگ میں اپنے آپ کو اس جنگ کا فاتح قرار دے رہے ہیں جبکہ یمنی عوام کی چار سالہ مزاحمت اور پامردی نے خلیج فارس کی عرب شیخ نشین ریاستوں کو اپنی ہوسناکیوں تک پہنچنے سے ناامید کیا۔
مغربی ایشیا اور شمالی افریقہ کے امور کے تجزیہ نگار اور لبنان میں اسلامی جمہوریہ ایران سابق ناظم الامور ڈاکٹر سید ہادی سید افقہی نے “رجا نیوز” ویب گاہ کو انٹرویو دیتے ہوئے حالیہ مذاکرات میں سعودیوں کی طرف سے کامیابی کے دعؤوں، یمن پر ان کی جارحیت کی تازہ ترین صورت حال، ملک یمن کے مستقبل اور مغربی ـ عربی محاذ کی سازشوں اور حالیہ اقدامات کا جائزہ لیا ہے:
سوال: ابتدائی سوال کے طور پر، آپ فرمائیں کہ اسٹاک ہوم کے امن مذاکرات کے سلسلے میں آپ کا تجزیہ کیا ہے، اور ان مذاکرات میں سعودیوں کی طرف سے ہونے والے فتح و کامیابی کے دعوے کس حد تک درست ہیں؟
جواب: سعودیوں اور منصورہادی سے وابستہ گروپوں کی طرف سے مذاکرات میں کامیابی کے دعوے بےبنیاد ہیں؛ وہ شیخیاں بگھارنے کے عادی ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اگر ان کا دعوی سچا ہے اور وہ مذاکرات میں کامیاب ہوئے ہیں تو پھر ابھی تک وہ یمن پر بمباری کیوں کررہے ہیں؟ ابھی تک مذاکرات میں طے پانے والے نکات کی خلاف ورزی کیوں کررہے ہیں؟ ابھی تک یمن کا محاصرہ جاری کیوں ہے؟ یہاں تک کہ اقوام متحدہ اور یمن کے لئے اس ولندیزی ایلچی نے بھی احتجاج کیا ہے، اور انھوں نے کہا کہ “بعض فریق روڑے اٹکا رہے ہیں”؛ اور ہم پوچھتے ہیں کہ کون روڑے اٹکا رہا ہے؟ کون ہے جو الحدیدہ کی طرف جانے والے بحری جہازوں کا راستہ روک رہا ہے؟ کون سا فریق ہے جو ابھی تک الحدیدہ اور اس کے اطراف پر بمباری کررہا ہے؟ جواب: سعودی عرب۔
دوسری طرف انصار اللہ اور انقلابی کمیٹیوں کی بالادستی ہے کیونکہ وہ اسٹاک ہوم میں ہونے والی مفاہمت پر خوش تھے اور ایک سفارتی کامیابی حاصل کرچکے تھے، کیونکہ اقوام متحدہ نے پہلی بار انہیں جنگ یمن کے ایک اہم فریق کے طور پر تسلیم کرلیا تھا اور ان کو مذاکرات کی دعوت دی تھی۔ وہ اسٹاک ہوم پہنچے اور ایک مفاہمت نامے کے فریق کے طور پر مذاکرات میں شریک ہوئے اور قیدیوں اور لاشوں کے تبادلے کے مفاہمت نامے پر دستخط کئے۔ چنانچہ ان مذاکرات میں کامیاب فریق وہ ہے جو اس کا پابند ہو اور ہم دیکھ رہے ہیں کہ انصار اللہ ابھی تک اس مفاہمت کی پابندی کررہا ہے جبکہ مخالف فریق روڑے اٹکا رہا ہے اور خلاف ورزی کررہا ہے۔ چنانچہ سعودی اور ان کے شرکاء اپنی شکست کا جواز تلاش کررہے ہیں اور اور کہتے ہیں کہ “ہم کامیاب ہوئے ہیں”، حالانکہ وہ اسٹاک ہوم میں ان مذاکرات پر مجبور ہوئے تھے اور انہیں بہ امر مجبوری مذاکرات کی میز پر آنا پڑا تھا۔
سوال: آپ نے بھی اشارہ کیا اور یہ ایک عمومی خیال ہے کہ یمن کی جنگ اور خاشقجی کے قتل کے بعد سعودیوں کو شدید دباؤ کا سامنا تھا اور وہ اسی بنا پر مذاکرات پر مجبور ہوئے اور وہ اس اقدام کو ایک “چال” قرار دے رہے ہیں تاکہ بین الاقوامی دباؤ میں کمی آجائے؛ آپ اس بارے میں کیا کہنا چاہیں گے؟
جواب: میرے خیال میں بعید از قیاس نہیں ہے کہ سعودی اور اماراتی اس جنگ سے جان چھڑانا چاہتے ہیں کیونکہ بین الاقوامی دباؤ کے لحاظ سے بھی، اخلاقی لحاظ سے بھی، بین الاقوامی قوانین و ضوابط کے لحاظ سے بھی اور جانی نقصانات کے لحاظ سے بھی، وہ اس جنگ کے خاتمے کے خواہاں ہیں؛ علاوہ ازیں اس جنگ کے عظیم مصارف و اخراجات بھی سعودیوں اور کسی حد تک اماراتیوں کے لئے بھاری پڑ رہے ہیں۔ ہم دیکھ رہے ہیں کہ سعودی عرب دو سالوں سے بجٹ میں بڑے خسارے کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ سعودی اس جنگ کے خاتمے کے خواہاں ہیں لیکن وہ یہ نہیں چاہتے کہ اس جنگ کا فاتح فریق انصار اللہ ہو۔
کیونکہ یہ مسئلہ ایک طرف سے ان کے لئے بہت بڑی شکست کے طور پر ابھرے گا اور دوسری طرف سے سعودیوں کے لئے بہت زیادہ سیاسی اور علاقائی تزویری نقصانات کا سبب بنے گا؛ یہ مسئلہ سعودی عرب کے اندر بھی ایک بحران کا سبب بنے گا اور سعودی حکمرانوں سے پوچھا جائے گا کہ “تم نے چار سال تک یہ غیر مفید اور نقصان دہ جنگ کیوں لڑی جس کے نتیجے میں شکست کھا کر اور یمن کو ایران کے حامیوں کے سپرد کرکے واپس آئے ہو؟ پس یہ مسئلہ کہ یہ لوگ جنگ کا خاتمہ چاہتے ہیں اور ساتھ ہی چاہتے ہیں کہ انہیں اس جنگ کا فاتح مانا جائے، اور اگر نہیں تو کم از کم انہیں شکست خوردہ نہ دکھایا جائے! وہ یمن کو بھی جنگ اور امن کی درمیانی حالت میں رکھنا چاہتے ہیں کیونکہ وہ کسی حال میں بھی راضی نہیں ہوتے کہ انصار اللہ ـ جسے وہ اپنا شدید ترین دشمن سمجھتے ہیں ـ یمن میں اقتدار حاصل کرے یا یمن کی وفاق ملی (قومی اتحاد) کی حکومت کا ایک بڑا حصہ انصار اللہ کے ہاتھ میں ہو اور جنگ بندی کے بعد بننے والی حکومت میں ایسی قوت یمنی حکومت کے ایک حصے کے طور پر ان کے برابر آکر بیٹھ جائے جو کل تک ان کی شدید ترین دشمن تھی۔
چنانچہ کہا جاسکتا ہے کہ اس وقت ایک طرف سے سعودیوں کو شدید دباؤ کا سامنا ہے اور دوسری طرف سے ساکھ اور حیثیت کا مسئلہ بھی درپیش ہے اور وہ تمام اخراجات بھی ستا رہے ہیں جو انھوں نے اس جنگ کے لئے اٹھائے ہیں۔ چنانچہ انہیں شدید ترین مسائل اور چیلنجوں کا سامنا ہے، جو انہیں جنگ کے خاتمے پر مجبور کرتے ہیں، چنانچہ وہ بین الاقوامی دباؤ کم کرنے کے لئے مذاکرات پر رضامند ہوجاتے ہیں اور حتی کہ مذاکرات میں شریک ہوتے ہیں اور ممکن ہے کہ بعض مفاہمت ناموں پر دستخط بھی کرلیں لیکن وہ درحقیقت چاہتے یہ ہیں کہ انصار اللہ کو کسی بھی صورت میں یمن کی سیاست میں کردار ادا نہ کرنے دیا جائے اور یمن کی سیاست سے اس کو حذف کیا جائے۔ البتہ ممکن ہے کہ سعودی اتحاد شمالی صوبے “صعدہ” اور “الحدیدہ” وغیرہ میں ایک قسم کی خودمختاری دینا چاہے لیکن وہ فی الحال یہ برداشت کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں کہ انصار اللہ یمن کے مستقبل میں کوئی بنیادی کردار ادا کرے۔
سوال: آج کل یمن کی دو “شمالی اور جنوبی” حصوں میں تقسیم کے بارے میں چہ میگیوئیاں ہورہی ہیں؛ اور یمن کے مختلف علاقوں میں مختلف جماعتوں کی تعیناتی کی کیفیت سے بھی اس مسئلے کی تصدیق ہوتی ہے؛ آپ کی نظر میں کیا یہ درست ہے؟
جواب: یمن اسی وقت عملی طور پر تقسیم ہوچکا ہے گوکہ یہ تقسیم رسمی اور باضابطہ نہیں ہے۔ لیکن عالمی برادری اس تقسیم کو تسلیم نہیں کرے گی اور انصار اللہ بھی قبول نہیں کرتی کہ یمن کو ماضی کی طرح تقسیم کیا جائے ‌جب شمالی یمن کا دارالحکومت صنعا تھا اور جنوبی یمن کا دارالحکومت عدن۔
اس کو حتی یمن کی کانگریس پارٹی اور انصار اللہ میں سے کوئی بھی برداشت کرنے کے لئے تیار نہیں ہے لیکن بدقسمتی سے جنوبی یمن میں اس کے لئے ماحول تیار ہے اور کئی اطراف سے اس کو تقویت مل رہی ہے۔ جنوبی یمن خودمختاری کا اعلان کرے گا تو سعودی اور اماراتی کم از کم کہہ سکیں گے کہ “اگرچہ ہم پورے یمن پر قابض نہیں ہوسکے اور انصار اللہ کو یمن کی سیاست سے نکال باہر کرنے میں ناکام ہوئے لیکن اب اس سمت میں بڑھتے ہیں”۔
دوسری بات یہ ہے کہ جنوب کی علیحدگی پسند تحریک عدن میں یہی کچھ چاہتی ہے۔ وہ کہتی ہے کہ “ہم پلٹ کر آنا چاہتے ہیں اور اپنے جنوبی یمن کو ایک بار زندہ کردیتے ہیں”۔
تیسرا مسئلہ القاعدہ، داعش اور ان جیسی تنظیموں کا ہے جو اس وقت جنوبی یمن میں موجود ہیں اور پھر یہودی ریاست (اسرائیل) بھی یمن کے اتحاد کو نہیں چاہتی۔ امریکہ بھی چاہتا ہے کہ اس ملک میں جنگ کا سلسلہ اس قدر طویل ہوجائے کہ یہاں موجود تمام قوتیں فرسودگی سے دوچار ہوجائیں اور یہ استکباری اور استعماری طاقت یمن کے تیل کے کنؤوں اور اس کی حساس آبناؤں پر براہ راست قابو پا لے۔
ایک روئیداد یہ بھی کہ صوبہ المہرہ کے عوام اور قبائل اس وقت سعودی قبضے اور اس صوبے میں سعودی فوجی اڈوں کے قیام کے فیصلے کے خلاف احتجاجی مظاہرے کررہے ہیں۔
جہاں تک عدن کا تعلق ہے تو یہاں مختلف تنظیموں کے درمیان خونریز لڑائیاں جاری ہیں اور نام نہاد یمنی صدر منصور ہادی عدن سے دور سعودی عرب میں رہائش پذیر ہیں، کیونکہ وہ یمن میں طویل عرصے تک قیام کرنے سے خوفزدہ رہتے ہیں کہ کہیں انہیں کسی قاتلانہ حملے کا نشانہ بنا کر قتل نہ کیا جائے۔ شمال میں بیرونی حملوں کے علاوہ، اندرونی سطح پر مکمل امن قائم ہے جبکہ جنوبی یمن شدید بدامنی کا شکار ہے۔
شمال میں کم ہی ایسا کوئی واقعہ رونما ہوتا ہے۔ شمال میں مختلف گروپوں کے درمیان جنگ کی صورت حال نہیں ہے۔ شمال میں انصار اللہ، انقلابی کمیٹیاں اور یمنی افواج متحد ہیں اور ان کا مقابلہ سعودی حملہ آوروں سے ہے اور یہ معمول کی لڑائی ہے لیکن غیر معمولی لڑائیاں جنوب میں جاری ہیں۔ ہر تنظیم کسی بندرگاہ یا کسی جزیرے پر مسلط ہونا چاہتی ہے جس کی وجہ سے ان کے درمیان لڑائیاں چھڑ جاتی ہیں۔ جیسا کہ ہم جانتے ہیں منصور ہادی نے امارات کے ساتھ ایک سو سالہ معاہدے پر دستخط کئے ہیں جس کے تحت یمن کے سقوطرا (Socotra) جزائر ایک صدی تک امارات کے سپرد کئے گئے ہیں۔ امارات نے ان جزائر میں فوجی دستے بھی اتارے ہیں اور فوجی اڈوں کی تعمیر میں مصروف ہے۔ لہذا یمن کی تقسیم کا مسئلہ سنجیدہ اور باعث تشویش ہے؛ یہ الگ بات ہے کہ کیا عالمی برادری اس اماراتی اقدام کو تسلیم کرتی ہے یا نہیں، اور مسقبل میں کیا واقعات رونما ہونے والے ہیں، یہ سب اگلے سیاسی مذاکرات پر منحصر ہے۔
سوال: ڈاکٹر صاحب! آپ نے یمن میں امریکہ کے تباہ کن کردار کی طرف اشارہ کیا۔ کیا آپ یمن میں امریکہ، برطانیہ اور فرانس سمیت عالمی طاقتوں کے کردار کی وضاحت کریں گے؟
جواب: جی ہاں! اصل کھلاڑی یہی ممالک ہیں لیکن پس پردہ۔
سوال: کیا یہ ممالک میدان میں بھی موجود ہیں؟
جواب: جی ہاں میدان میں بھی موجود ہیں۔ آپ کو یقینا معلوم ہوگا کہ بہت سے امریکی، فرانسیسی، برطانوی اور مصری اور دوسرے ممالک کے ہوابازوں (پائلٹوں) کو سعودی عرب اور امارات نے بھرتی کرلیا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے۔ اسی بنا پر اب امارات اور سعودی عرب میں ان پائلٹوں کے درمیان جھگڑا چل رہا ہے اور مصری پائلٹ کہتے ہیں کہ امریکی اور برطانوی پائلٹوں کو ۲۵۰۰۰ ڈالر ماہانہ تنخواہ دی جارہی ہے لیکن انہیں صرف ۸۰۰۰ ڈالر دیئے جارہے ہیں، ایسا کیوں ہے؟ یہ بہت بڑی رسوائی ہے جارح ملکوں کے لئے۔
حدیدہ کے مسئلے میں یہ سب اکٹھے ہیں۔ عرصہ چار مہینوں سے ان تمام ممالک نے مل کر حدیدہ کی بندرگاہ، شہر اور ہوائی اڈے پر قبضہ کرنے کی کوششیں کی ہیں لیکن ناکام ہوچکے ہیں۔ اس حملے کے لئے امریکی، برطانوی، فرانسیسی اور اسرائیلی سب آئے ہیں اور ہمیں موثق ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ انصار اللہ نے ان جھڑپوں کے دوران فرانسیسی اور اسرائیلی قیدی بھی پکڑ لئے ہیں۔
جی ہاں یہ سب یمن میں موجود ہیں، مغرب اور یہودی ریاست کے مشترکہ کنٹرول رومز سعودی عرب اور امارات اور یمن کے بعض مقبوضہ علاقوں میں قائم ہیں۔ جو ہتھیار وہ اعلانیہ فروخت کرچکے ہیں، ان کے علاوہ اسلحے کے خفیہ سودے بھی ہورہے ہیں۔ امریکہ کانگریس کی شدید مخالفت کے باوجود سعودی عرب اور امارات کو اسلحہ فراہم کررہا ہے۔
بنیادی موضوع امریکی لالچ ہے اور وہ بحیرہ احمر اور نہر سوئز پر کنٹرول حاصل کرنا چاہتا ہے۔ وہ حتی کہ آبنائے باب المندب اور آبنائے ہرمز کے درمیان ایک آبی حفاظتی انتظام کو عملی جامہ پہنانے کی کوشش کررہا ہے تا کہ ایران کے تیل بردار اور تجارتی جہازوں کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کرسکے۔ یعنی کھیل ایک امریکی کھیل ہے، ورنہ سعودیوں کی کیا جرأت کہ وہ امریکہ کی اجازت کے بغیر یمن میں اتنی خونریزی کرے؟ یقینا وہ جو بھی کرتے ہیں امریکی اجازت سے کرتے ہیں۔
سوال: آپ نے یمن میں استکباری طاقتوں کے تباہ کن کردار کی طرف اشارہ کیا اور پھر مذاکرات کا مسئلہ بھی حساس مرحلے تک پہنچ چکا ہے، کیا آپ سمجھتے ہیں کہ امریکہ جیسے ممالک کا کردار جنگ کے بعد بھی اس ملک میں سیاسی اور اقتصادی سانچوں میں جاری رہے گا؟ اگر یمنی آپس میں صلح کرلیں تو وہ اس امریکی کردار سے نمٹنے کے لئے کیا کچھ کرسکتے ہیں؟
جواب: اس موضوع کو سمجھنے کے لئے ہمیں ان کے پروگراموں اور منصوبوں پر غور کرنا پڑے گا۔ امریکی تین قسم کے منصوبوں پر کام کرتا ہے: ہنگامی منصوبہ، وسط مدتی منصوبہ اور طویل المدت منصوبہ۔ مثال کے طور پر عراق میں امریکہ نے ہنگامی منصوبے کے تحت داعش کو مسلط کیا؛ پروگرام یہ تھا کہ داعش آکر چھ مہینوں کے عرصے میں عراق پر مسلط ہوجائے، اور شام اور عراق میں اسلامی خلافت کا اعلان کرے اور پھر شام پر حملہ کرے اور اپنی خلافت کو وسعت دے اور پھر ایران کی طرف آجائے۔ [اور جب داعش ظہور پذیر ہوئی تو امریکہ نے داعش کے خلاف نام نہاد لڑائی کے لئے ایک اتحاد بھی قائم کیا اور اعلان کیا کہ داعش کے مکمل خاتمے کے لئے دو عشرے وقت درکار ہے]؛ یہ الگ بات ہے کہ یہ ہنگامی امریکی منصوبہ کامیاب نہیں ہوسکا، عراق میں الحشد الشعبی قائم ہوئی، اسلامی جمہوریہ ایران نے مدد کی اور ایران عراقی عوام اور مسلح افواج کے ساتھ مل کر داعش کو شکست دینے میں کامیاب ہوا۔
یعنی یہ کہ امریکہ معمول کے مطابق وسط مدتی منصوبہ پیش کرنے میں بھی ناکام ہوا، اور اب وہ اس منصوبے کے لئے داعش کے دوسرے جنم کا انتظام کررہا ہے۔ امریکہ نے داعش کی کمانڈ کو محفوظ رکھا اور کمانڈروں اور اہم افراد کو دوسرے ممالک میں منتقل کیا اور کچھ کو عراق اور شام کے مختلف علاقوں میں بسایا۔ اس وقت وہ داعش کو ہر قسم کی امداد پہنچا رہا ہے اور داعش کے مستقبل کی ریشہ دوانیوں کے لئے منصوبہ سازی کررہا ہے۔ عراقی علاقوں “کرکوک، دیال اور الانبار” کے نواحی علاقوں میں ـ خصوصا عراق اور شام کے سرحدی علاقوں میں ـ ان کی خاطر تواضع کررہا ہے؛ وہ عراق اور شام کے درمیان زمینی سرحد کو بند کرنا چاہا ہے، ایران کو محدود کرنے کی سازشیں کررہا ہے اور ایران کی بحیرہ روم تک رسائی کی راہ میں رکاوٹ ڈالنا چاہتا ہے۔ یہ سب یہاں ہورہا ہے چنانچہ یمن میں بھی ان کا ایک ہنگامی منصوبہ ہے۔
ہنگامی منصوبے کے تحت، ان کے بزعم، انصار اللہ کو ہتھیار ڈالنے پر مجبور کیا جانا تھا، لیکن یہ منصوبہ ناکام ہوچکا ہے جنانچہ اب انصار اللہ کو مذاکرات کی دعوتیں دی جارہی ہیں؛ اور اس سے بڑھ کر ممکن ہے کہ وہ اگلی یمنی حکومت میں انصار اللہ کو اچھا خاصا حصہ دلوانے کے لئے بھی تیار ہوجائیں اور انہیں توقع ہوگی کہ انصار اللہ حکومت کے انتظام و انصرام میں ناکام ہوجائے، یمن کی تعمیر نو میں ناکام ہوجائے، اور عوامی مطالبات کی تکمیل نہ کرسکے اور یوں عوام اور انصار اللہ کے درمیان فاصلہ پڑے۔
وہ درحقیقت یہاں وہی کچھ کرنا چاہتے ہیں جو انھوں نے مصر میں کیا، ابتداء میں انھوں نے اخوان المسلمین کو اقتدار تک پہنچایا تا کہ وہ آکر اپنے تمام پتے خرچ کرے، اور انہیں روزمرہ کے مسائل میں الجھایا یہاں تک کہ عوام ناراض ہوگئے اور احتجاجی مظاہرے ہوئے، اور پھر ایک بغاوت کے مشابہ اقدام کے ذریعے اخوانی حکومت کا تختہ الٹ دیا اور جنرل السیسی کو میدان میں لا کھڑا کیا جو جنرل سادات اور جنرل حسنی مبارک سے کہیں زیادہ خطرناک آمر ہیں، ممکن ہے کہ یمن کے لئے بھی ان کا ایسا ہی کوئی منصوبہ ہو جس کے لئے انصار اللہ اور انقلابی قوتیں پہلے سے تیار ہیں، اسی لئے وہ کبھی بھی اقوام متحدہ، امریکہ یا خلیجی ریاستیں کی دی ہوئی تجاویز کو من و عن قبول نہیں کریں گے، کیونکہ یہ سب ایک جیسے ہیں؛ وہ اسی بنا پر ہوشیاری اور زیرکی کے ساتھ حالات پر نظر رکھے ہوئے ہیں؛ یقینا انہیں اپنے شہیدوں کے خون کا پاس رکھنا پڑے گا اور ہمدرد قوتوں کے مشورے سے فائدہ اٹھانا پڑے گا۔
۔ڈاکٹر صاحب آپ کا بہت شکریہ۔
۔میں بھی آپ کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ترجمہ: فرحت حسین مہدوی

 

آراء: (۰) کوئی رائے ابھی درج نہیں ہوئی
ارسال نظر آزاد است، اما اگر قبلا در بیان ثبت نام کرده اید می توانید ابتدا وارد شوید.
شما میتوانید از این تگهای html استفاده کنید:
<b> یا <strong>، <em> یا <i>، <u>، <strike> یا <s>، <sup>، <sub>، <blockquote>، <code>، <pre>، <hr>، <br>، <p>، <a href="" title="">، <span style="">، <div align="">
تجدید کد امنیتی