-
Sunday, 9 August 2020، 10:44 PM
خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: آج انسان جتنا دین سے دور ہو کر جدیدیت کی طرف بڑھ رہا ہے، انحراف اور گمراہی کے تاریکیوں میں اتنا زیادہ گم ہوتا جا رہا ہے۔ اس کے نتیجے میں عصر جاہلیت کے جرائم ایک نئی شکل و صورت اختیار کر رہے ہیں۔ جن میں سے اہم ترین غلامی ہے۔
انسانی سمگلنگ جدید غلامی کی ایک قسم ہے جس میں غریب اور فقیر لوگوں کو اسمگل کیا جاتا ہے۔ اسمگلنگ کی تین قسمیں ہیں:
۔ بدکاری کا رواج
۔ انسانوں کی اسمگلنگ
۔ بدن کے اعضا کی اسمگلنگ
اعدادوشمار کے مطابق ، دنیا کے 127 ممالک اس کاروبار میں ملوث ہیں۔ آئرش اخبار نے اس حقیقت کا انکشاف کیا ہے کہ بدن کے اعضاء دولت مند صہیونیوں کو فروخت کیے جاتے ہیں۔ ایران کے افق چینل نے انسانی اعضا کی اسمگلنگ کے حوالے سے ایک ڈاکومنٹری نشر کی اور اس پر تبصرہ کے لیے ڈاکٹر ’علی رضا سلطان شاہی‘ کے ساتھ گفتگو کی ہے جسے چند حصوں میں قارئین کے لیے پیش کرنے کی کوشش کرتے ہیں؛
انسان نام کے سامان کی خرید و فروخت
اینکر: اسمگلنگ کی مختلف قسمیں ہیں۔ لیکن بدن کے اعضا کی اسمگلنگ غیر معقول کام ہے۔ ہم صہیونی حکومت کو اس میدان میں سرگرم کارکنوں کی حیثیت سے دیکھتے ہیں۔ آپ کی اس بارے میں کیا رائے ہے۔
ڈاکٹر سلطان شاہی: اس موضوع پر تفصیلی گفتگو کرنے سے پہلے مناسب سمجھتا ہوں کہ تمہیدی طور پر ایک مقدمہ بیان کروں۔ کچھ وجوہات کی بنا پر اگر کسی انسان کا کوئی عضو ناقص ہو جائے تو کوئی شخص جانفشانی اور فداکاری کرتے ہوئے اپنا کوئی عضو اسے عطیہ کر دے تو یہ اس انسان کی بزرگی اور کرامت ہے۔ لیکن اسمگلنگ کا مسئلہ بالکل الگ ہے۔ اس میں کوئی ایسی نیت نہیں ہوتی۔ اس کام میں زیادہ منفعت ہونے کی وجہ سے کچھ لوگ اپنا کوئی عضو دوسرے کو فروخت کر دیتے ہیں، اس کا نام تجارت ہے انسانی شرافت اور کرامت سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ مفاد پرست لوگ مختلف طریقوں سے چاہے وہ انسانوں کی اسمگلنگ کر کے یا ان کے اعضاء کی اسمگلنگ کر کے اپنے بازار کو رونق دینے کی کوشش کرتے ہیں۔
یہ ڈاکومنٹری جو نشر کی گئی در حقیقت دو ریٹائرڈ پولیس افسران سے شروع ہوتی ہے، جن میں سے ایک گیڈی نامی اسرائیلی افسر ہوتا ہے اور دوسرا ایوان نامی برازیل کا رہنے والا۔ اصل قضیہ یہ ہے کہ یہ دونوں اعضا کی اسمگلنگ کی جانچ پڑتال کرتے ہیں۔ اور حقائق کو برملا کرنے کے جرم میں کئی سال جیل میں بھیج دیے جاتے ہیں۔
یہ دو افراد اپنی تحقیقات کے دوران ایسے افراد کے پاس جاتے ہیں جو فقر و تنگدستی یا جہالت کی وجہ سے اپنے بدن کے اعضا خصوصا گردے بیچ ڈالتے ہیں۔ اس کے علاوہ وہ جنگیں جو اسرائیلیوں اور یہودیوں کے یہاں ہوتی رہی ہیں ان میں مارے جانے والوں کے بدن کا پوسٹ ماٹم کر کے ان کے سالم اعضا کو فروخت کیا جاتا تھا نہ صرف جنگ میں مارے جانے والے بلکہ وہ افراد جنہیں پھانسی دی جاتی تھی ان کے ساتھ بھی یہی سلوک ہوتا تھا۔
ان ریٹائرڈ افسران کی زبان سے وضاحت کے بعد دو چچازاد بھائیوں کے پاس جاتے ہیں کہ جنہوں نے فقر و ناداری کی وجہ سے اپنے گروں کو فروخت کیا ہوتا ہے، برازیلیوں کا کہنا ہے کہ ان کے بچوں کو مرنے کے بعد سردخانے میں منتقل کیا جاتا تھا اور ان کے بدن سے تمام اندرونی اعضا نکال لئے جاتے تھے تحقیق کے بعد معلوم ہوا کہ اس ہسپتال میں کام کرنے والا عملہ اسرائیلی تھا۔
جاری