-
Sunday, 16 August 2020، 01:50 PM
خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: امریکہ، صہیونی ریاست اور متحدہ عرب امارات نے جمعرات (۱۳ اگست) کو ایک مشترکہ اعلامیہ کے ذریعے عرب امارات اور اسرائیل کے مابین تعلقات کو معمول پر لانے کے حوالے سے منعقدہ معاہدہ کی خبر دی۔ خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ کے نامہ نگار نے اس حوالے سے علاقے کے حالات کے ماہر ڈاکٹر حسین آجرلو سے گفتگو کی ہے جس کا ترجمہ درج ذیل ہے؛
خیبر: آپ جانتے ہیں کہ متحدہ عرب امارات کے اسرائیل کے ساتھ کافی عرصہ سے خفیہ تعلقات برقرار تھے تو کیا اب ان تعلقات کو آشکار کرنے اور مزید مضبوط بنانے کے لیے کئے گئے معاہدے کے بعد علاقے کے حالات میں کوئی تبدیلی رونما ہو گی؟
۔ بنیادی طور پر سفارتی تعلقات استوار کرنے کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ دونوں فریق ایک دوسرے کو تسلیم کرتے ہیں یہ در حقیقت ایک سیاسی اقدام ہے۔ ایک نیا سیاسی رشتہ قائم کرنے کا ایک سیاسی پیغام ہوتا ہے، خاص طور پر اگر یہ رشتہ برسوں سے قائم نہیں رہا ہو۔ لہذا ، ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ صہیونی ریاست، امریکہ اور متحدہ عرب امارات کے ذریعہ مشترکہ بیانیہ جو دو روز قبل اعلان کیا گیا اس میں پوری دنیا کے لیے ایک پیغام ہے اور وہ ایک نئے سیاسی روابط اور سفارتکاری کا آغاز ہے کہ جو قریب ۹۰ کی دہائی سے ادھر کبھی ایسا واقعہ رونما نہیں ہوا تھا۔ خاص کر ۲۰۰۲ میں شاہ عبد اللہ کے منصوبے کے بعد جو عرب ممالک میں تبدیلیاں آ رہی ہیں ایسا لگتا ہے کہ یہ سلسلہ اور آگے بڑھے گا اور دوسرے عرب ممالک بھی اس منصوبے پر عمل پیرا ہوں گے۔
خیبر: ان تعلقات کے معمول پر آنے سے اسرائیلی حکومت کو کیا فوائد حاصل ہوں گے؟
۔ صہیونی ریاست کے لیے سب سے بڑا چیلنج یہ ہے کہ مغربی ایشیا میں اس کے پڑوسی ممالک، خصوصا عرب ہمسایہ ممالک، اسے تسلیم نہیں کرتے۔ اگر دوسرے ممالک اسے سیاسی طور پر تسلیم کریں گے اور اسے سیاسی پہچان دیں گے تو اسرائیل علاقے میں قانونی حیثیت حاصل کر لے گا۔ اور اس طریقے سے صہیونی ریاست کا سب سے بڑا چیلنج حل ہو جائے گا۔ اسی لئے ہم دیکھتے ہیں کہ اسرائیل کے وزیر اعظم نے اس اقدام کو ایک تاریخی اقدام قرار دیا ہے۔ اگرچہ انہوں نے پہلے ہی اردن اور مصر میں اپنے سفارت خانے کھول رکھے ہیں۔ لیکن حالیہ اقدام تقریبا 30-40 سال بعد انجام پایا ہے۔
اردن اور صہیونی ریاست کے مابین میڈریڈ امن کے قیام کے دوران، فلسطینی ریاست کے قیام کے حوالے سے پیشرفت ہوئی۔ کیمپ ڈیوڈ معاہدے کے بعد، مصر نے اس معاہدے کو قبول کیا اور اپنی سرزمین ’سینا‘ کا کچھ حصہ واپس کیا۔ لیکن حالیہ اقدام میں ، متحدہ عرب امارات نے کچھ حاصل کئے بغیر صہیونی ریاست کے حق میں ایک تاریخی معاہدہ انجام دیا ہے۔
دوسری بات یہ ہے کہ ٹرمپ کی صدارت کے دوران ، صیہونیوں نے اپنے متعدد منصوبوں کو عملی جامہ پہنایا۔ جیسے بیت المقدس کو جعلی ریاست کا دارالحکومت قرار دینا، جولان (گولان) کی پہاڑیوں پر اسرائیل کو مسلط کرنا اور اس کے قبضے میں دینا، اور پھر آخر میں صدی کی ڈیل۔ ایک ایسے وقت میں جب صیہونیوں اور فلسطینیوں کے مابین فاصلے اور چیلینج زیادہ سے زیادہ حد تک پہنچ گیے ہیں - خصوصا 1990 کی دہائی کے اوائل میں ہونے والی سازش کے بعد، تو ایسے حالات میں صہیونی کامیاب ہو گئے ہیں ایک ایسے ملک کے ساتھ اپنے تعلقات معمول پر لے آئیں جو ایک عربی ملک بھی ہے اور مال و دولت کے اعتبار سے بھی امیر ملک ہے۔
نیز تیسری اہم بات یہ ہے کہ نیتن یاھو کی ٹیم اس اقدام کے ذریعے انتہا پسند صہیونیوں کو امریکی انتخابات میں ٹرمپ کی حمایت پر ابھاریں گے چونکہ آنے والے انتخابات میں ٹرمپ کے حالات کچھ مناسب نظر نہیں آ رہے تھے۔ در حقیقت ، ٹرمپ اندرونی سیاست میں حالیہ معاہدے سے فائدہ اٹھانے کے خواہاں ہیں۔
اور آخری بات یہ ہے کہ متحدہ عرب امارات اور اسرائیلی حکومت کے مابین سرکاری اور سفارتی تعلقات کے آغاز سے اسرائیل کے لیے خلیج فارس کے علاقے خصوصا اسلامی جمہوریہ ایران کے پڑوس میں گھسنے کے لیے راہ ہموار ہو چکی ہے اور یہ معاہدہ خلیج فارس کے اسٹریٹجک علاقوں میں صہیونیوں کے داخلے کا جواز فراہم کرے گا اور موجودہ صورتحال میں ایران پر دباؤ ڈالنے کے لیے صہیونیوں کے نزدیک یہ اقدام ایک تاریخی اقدام ہے۔