-
Wednesday, 29 July 2020، 01:09 AM
خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: شیخ عبدالسلام الوجیہ نے علاقے میں سعودی فتنہ انگیزیوں اور حج کی بدانتظامی پر تنقید کرتے ہوئے کہا: عرصہ ایک صدی سے مناسکِ حج ـ سعودی انتظام کے تحت ـ اپنی حقیقی روح سے خالی ہوچکا ہے۔
انھوں نے کہا کہ بعض عرب حکمران آج ببانگ دھل یہودی ریاست کی حمایت کرتے ہیں اور اس کے ساتھ تعلقات کے قیام کے نغمے گاتے ہیں، تو ان کا اصل ہدف یہ ہے کہ اپنے لرزتے کانپتے تاج و تخت کو محفوظ اور اپنی حکمرانی کو قائم رکھ سکیں۔
انھوں نے کہا کہ سعودی حکمران حتی کہ ایک صدی سے حج کا انتظآم سعودیوں کے ہاتھ میں ہے لیکن وہ اس میں ناکام ہوجکے ہیں اور حج اپنی اصلی روح سے خالی ہوچکا ہے اور یہ حج مسلمانوں کے درمیان اتحاد و اتفاق قائم کرنے اور دشمنان دین و امت کے خلاف موقف اپنانے سے عاجز ہے؛ یہی نہیں بلکہ بنی سعود حرمین شریفین کو عربوں اور مسلمانوں کے درمیان فتنہ انگیزی اور نسل پرستی کی ترویج کے لئے استعمال کررہے ہیں۔
حوزہ نیوز نے حال ہی میں انجمن علمائے یمن، شیخ عبدالسلام الوجیہ کے ساتھ ایک مکالمہ ترتیب دیا ہے جس کا اردو ترجمہ پیش خدمت ہے:
سوال: عرب حکمران موجودہ صورت حال میں یہودی ریاست کے ساتھ عرب حکومتوں کے تعلقات قائم کرنے کا مقصد کیا ہے؟
– کٹھ پتلی اور وابستہ حکومتوں کی طرف سے یہودی ریاست کے ساتھ تعلقات قائم کرنے کا اصل مقصد ان حکمرانوں کے لرزتے کانپتے تاج و تخت کا تحفظ اور اپنے اقتدار کی بقاء ہے؛ وہی تاج و تخت جو ابتداء میں بھی مغربی استعمار نے اسلامی امت کے مقدرات اور وسائل پر تسلط جمانے کے لئے انہیں عطا کیا تھا؛ ان حکمرانوں کو اقتدار مغرب نے دیا ہے اور سب جانتے ہیں کہ ان کی اکثریت نے استعمار و استکبار کے ہاتھوں علاقوں کی تقسیم کی تاریخی سازش سے جنم لیا ہے تا کہ چھوٹی چھوٹی کٹھ پتلی ریاستیں معرض وجود میں آئیں، ان ہی سے وابستہ اور ان ہی کے دست نگر رہیں اور ان کی سازشوں پر بلا چون و چرا عملدرآمد کیا کریں اور عالم اسلام کی دولت، وسائل اور مستقبل کو اسلام دشمن طاقتوں کے سپرد کیا کریں؛ اسلام دشمنی کو اسلام اور فرقہ واریت کے لبادے اپنا نصب العین قرار دیں اور حریت پسند اسلامی تحریکوں اور اسلامی مزاحمت کا مقابلہ کریں اور ان کے دشمنوں کے اتحادی بنیں۔ یہ نظام ہائے حکومت اپنی تاسیس سے لےکر آج تک ایک تکلیف دہ پتھر کی مانند علاقے کی اصلاحی تحریکوں کی راہ میں پڑے ہیں اور ابتداء ہی سے عالمی استکباری طاقتوں کے اطاعت گزار ہیں۔
یہ نظام ہائے حکومت گمان کرتے ہیں کہ یہودی ریاست اور امریکہ کے ساتھ تعلقات کی بحالی انہیں اقوام کی بیداری اور مسلمانوں کے انقلاب غیظ و غضب کے آگے، ان کی بقاء کی ضمانت دے گی۔
سوال: آج عرب ممالک فلسطین اور قبلہ اول سے علی الاعلان غداری کررہے ہیں، آپ کے خیال میں امریکی صدر ٹرمپ اور ان کے [یہودی] داماد جیرڈ کوشنر (Jared Kushner) کا اس عربی رجحان میں کیا کردار کیا ہے؟
– امریکہ یہودی ریاست کا سب سے پہلا اتحادی تھا اور ہے، جبکہ برطانیہ اس کا بانی تھا جس کا کردار امریکہ نے سنبھالا اور آج بھی عالم اسلام کے قلب میں واقع اس سرطانی پھوڑے کی حمایت میں برطانیہ کے متبادل کا کردار ادا کررہا ہے؛ امریکی صدور اور حکومتیں یکے بعد دیگرے یہودی ریاست کی حامی رہی ہیں اور فلسطینی قوم کے خلاف مختلف حربے نیز اپنی ابلاغیاتی، عسکری، فکری، ثقافتی اور سیاسی طاقت استعمال کی ہے؛ اور انھوں نے آج تک تمام بین الاقوامی فیصلوں اور اقوام متحدہ کی قراردادوں کو ـ جن میں فلسطینیوں کا مفاد مد نظر رکھا گیا تھا ـ شکست سے دوچار کردیا ہے اور سلامتی کونسل میں اپنی خصوصی حیثیت سے ناجائزہ فائدہ اٹھا کر فلسطینی قوم سمیت دنیا کی مستضعف اور محروم اقوام کے خلاف اقدام کرچکے ہیں۔ مختصر یہ کہ بیسویں صدی عیسوی کے نصف دوئم سے لے کر آج تک اس سلسلے میں امریکہ نے اپنا خبیث اور پلید کردار جاری رکھا ہے۔ جن ممالک نے یہودی ریاست کے ساتھ تعلقات کی بحالی کے لئے قدم بڑھایا ہے وہ بھی امریکہ ہی کے دست نگر ہیں اور ٹرمپ اور ان کے داماد کا کردار اس سلسلے میں ناقابل انکار ہے۔
سوال: صدی ڈیل سمیت اسلام دشمن طاقتوں کی سازشوں کو کیونکر ناکام بنایا جاسکتا ہے؟ صدی ڈیل کا مقصد کیا ہے؟
– اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ فلسطینی عوام کی مزاحمت اور واپسی کے لئے ہونے والے احتجاجی مظاہرے، بدستور ٹرمپ کی راستے میں اہم رکاوٹ ہیں جس کے باعث اس شرمناک سودے کا باضابطہ اعلان مؤخر ہوا ہے اور امریکہ کے علاقائی غلام بھی زچ ہوچکے ہیں اور ان کے سامنے کوئی راستہ باقی نہیں رہا ہے۔ اور بےشک فلسطینی عوام نیز محاذ مزاحمت کی جدوجہد، نیز عراق اور شام اور یمن میں اس محاذ کی عظیم کامیابیاں بتا رہی ہیں کہ یہ ذلت آمیز معاہدہ نتیجہ خیز نہیں ہوگا اور فلسطین کی مجاہد عرب ملت اور مسلم اقوام کی بیداری نیز اسلامی جمہوریہ ایران کی کوششیں ناقابل تسخیر پہاڑ کی طرح ان سازشوں سے نمٹ لیں گی اور غاصب یہودی ریاست کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے کے لئے ہونے والی تمام تر سازشوں کو نیست و نابود کریں گی۔ گوکہ اس ہدف کے حصول کے لئے زیادہ سے زیادہ محنت نیز حریت پسندی اور خودمختاری کے لئے ہونے والی تحریکوں اور اسلامی مزاحمتی محاذ کی حمایت کی ضرورت ہے۔
سوال: کیا قدس کی آزادی کے لئے مسلمانوں کے اتحاد کی کوئی امید ہے؟ اس اتحاد کی راہ میں کونسی رکاوٹیں حائل ہیں؟
– اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ قدس ایک بنیادی محور و مرکز ہے اور یقینا عالم اسلام کی پوری توجہ اور اہتمام کا رخ اسی جانب ہونا چاہئے، کیونکہ قدس ایک مقدس حرم اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ کے معراج کی منزل ہے چنانچہ قدس صرف فلسطینی قوم یا عرب ممالک ہی کا نہیں بلکہ پورے عالم اسلام کا ہے اور واضح ہے کہ اگر حرمین شریفین ـ یعنی مکہ معظمہ اور مدینہ منورہ ـ استعمار کے کٹھ پتلی سعودیوں کے قبضے میں نہ ہوتے تو قدس شریف بھی یہودیوں کے زیر قبضہ نہ ہوتا۔
تقریبا ۱۰۰ برسوں سے مسجد الحرام اور مسجد نبوی کا انتظام ایسے افراد کے ہاتھ میں ہے جنہوں نے مسجد الاقصی پر یہودیوں کے تسلط کے اسباب فراہم کئے تھے اور جب سے برطانوی استعمار نے وہابی تحریک کو تقویت پہنچائی اور اس کی حمایت کی اور وہابیوں کو جزیرہ نمائے عرب پر مسلط کیا، اسی وقت سے اس کے اس اقدام کا ایک طویل المدت مقصد تھا؛ وہ یہ کہ مقدسات کے بنیادی کردار میں خلل ڈالا جائے اور مسلمانوں کو مقدسات اور اسلامی شعائر سے دور اور دور تر کیا جاسکے۔ کیونکہ انہیں معلوم تھا کہ شعائر اور مقدسات مسلمانوں کو گہری نیند سے بیدا کردیتے ہیں اور انہیں اپنے تشخص کا احساس دلاتے ہیں۔
عرصہ ایک صدی سے حج کے اعمال و مناسک اس کے اصل مضمون اور اصل روح سے خالی ہوچکے ہیں اور حج کا مقدس فریضہ موجود صورت میں مسلمانوں کے اتحاد اور دشمنان امت کے خلاف متحدہ موقف اختیار کرنے کے اسباب فراہم نہیں کرسکتا۔ حقیقت تو یہ ہے کہ بنی سعودی حج اور حرمین شریفین کو منبر کے طور پر استعمال کررہے ہیں اور اس منبر کو مسلمانوں اور عرب اقوام کے درمیان فتنہ انگیزی اور نسل پرستی کے فروغ کے لئے بروئے کار لارہے ہیں۔ بنی سعود نے مسلمانوں کی مقدس سرزمین میں امریکی اڈے قائم کئے ہوئے ہیں تاکہ امت مسلمہ کو امریکہ کی غلامی پر مجبور کرے اور انہیں ان کے دین و امت کے دشمنوں کے آگے خوار و ذلیل کردے۔ وہ اللہ تعالی کے اس کلام کو بھلا چکے ہیں کہ:
﴿یَا أَیُّهَا الَّذِینَ آمَنُواْ لاَ تَتَّخِذُواْ الْیَهُودَ وَالنَّصَارَى أَوْلِیَاء بَعْضُهُمْ أَوْلِیَاء بَعْضٍ وَمَن یَتَوَلَّهُم مِّنکُمْ فَإِنَّهُ مِنْهُمْ إِنَّ اللّهَ لاَ یَهْدِی الْقَوْمَ الظَّالِمِینَ * فَتَرَى الَّذِینَ فِی قُلُوبِهِم مَّرَضٌ یُسَارِعُونَ فِیهِمْ یَقُولُونَ نَخْشَى أَن تُصِیبَنَا دَآئِرَةٌ؛ اے ایمان لانے والو! یہودیوں اور عیسائیوں کو اپنا دوست نہ بناؤ، یہ لوگ آپس میں ایک دوسرے کے دوست ہیں اور جس نے تم میں سے ان سے دوستی کی تو وہ ان ہی میں سے ہے۔ یقینا اللہ ظالموں کو منزل مقصود تک نہیں پہنچاتا * تو دیکھو گے انہیں جن کے دلوں میں بیماری ہے کہ وہ ان کے حلقوں میں تیزی سے دوڑ دھوپ کر رہے ہیں۔ کہتے ہیں ہمیں ڈر ہے کہ ہم پر کوئی آفت نہ آئے﴾۔ (۱)
آج وحدت اسلامی کی طرف کوئی راستہ نہیں ہے سوائے اس کے کہ مسلمانان عالم اللہ کی طرف پلٹیں، فتنہ اور تکفیر سے دوری اختیار کریں، وحشی، درندہ خو اور خونخوار دہشت گرد ٹولوں کی تشکیل سے پرہیز کریں جن کا کام قتل عام اور انسانوں کو ذبح کرنے اور انسانیت کے لئے باعث شرم جرائم کے ارتکاب کے سوا کچھ بھی نہیں ہے۔
اگر مسلمان اپنی عظمت رفتہ کو حاصل کرنے کے لئے سنجیدہ ہیں تو انہیں فرقہ واریت سے دوری کرکے ان تمام اجرتیوں کا مقابلہ کرنا پڑے گا جو مذہب، دین، فرقہ پرستی اور نسل پرستی کے بہانوں کے تحت امت اسلامیہ میں دراڑیں ڈالتے ہیں؛ تمام مسلمانوں کو جاننا چاہئے کہ امت کی بقاء، قبلہ اول کی آزادی، اسلامی سرزمینوں کو غاصبوں سے چھڑانے کے لئے اتحاد بین المسلمین کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے اور اتحاد بین المسلمین موجودہ صورت حال میں ممکن نہیں ہے سوائے اس کے کہ دین اسلام کے ثابت اور دائمی و ابدی اصولوں کی طرف پلٹنے اور اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھامنے کے سوا کوئی راستہ نہیں ہے۔
سوال: اقوام متحدہ نے فلسطینیوں کے حق میں اور یہودی غاصبوں کے خلاف چھ اہم فیصلے کئے ہیں۔ کیا ان فیصلوں پر عملدرآمد ممکن ہے یا یہ فیصلے سب کاغذ کے اوپر کچھ الفاظ اور سطور کی صورت میں باقی رہیں گے؟
– اقوام متحدہ امریکہ اور برطانیہ جیسے استعماری ممالک کے قابو میں ہے اور وہ صرف ان ممالک کے مفادات کے تحفظ کو اپنا نصب العین بنائے ہوئے ہے۔ چنانچہ وہ کسی کو بھی اس کا حق پلٹانے اور مظلوموں کی پشت پناہی کرنے یا انسانی حقوق کے تحفظ سے عاجز ہے؛ وہ حتی اپنے ہی منظور کردہ بین الاقوامی قوانین نافذ کرنے سے عاجز ہے، سوائے اس صورت کے کہ یہ طاقتیں اسے ایسا کرنے کی اجازت دیں اور ان کے مفادات ایسا کرنے کا تقاضا کریں؛ ایسی صورت میں یہ بین الاقوامی ادارہ کچھ کرنے کا قابل ہوجاتا ہے۔
ہم آج ایک وحشی دنیا میں بس رہے ہیں، جہاں ظلم و ستم اور سرکشی، لالچ اور بعض ممالک کے مفادات پوری انسانیت پر مسلط ہیں اور یہ ممالک دنیا کے مستضعفین اور کے حقوق کے لئے کسی قسم کے احترام کے قائل نہیں ہیں اور آج عالم اسلام میں رونما ہونے والے مسلسل اور متعدد واقعات کی رو سے یہ حقیقت بالکل عیاں ہوچکی ہے کہ اقوام متحدہ اور انسانی حقوق کے بین الاقوامی اداروں کو تمام نعرے اور فیصلوں مستضعف ممالک میں قابل نفاذ نہیں ہیں اور ہم اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں کہ بڑی طاقتیں تمام انسانی اصولوں اور بین الاقوامی اور انسانی قوانین کے ذریعے تجارت کررہی ہیں تا کہ زیادہ سے زیادہ دولت اور طاقت حاصل کریں اور ہمارے اس مدعا کا واضح ترین ثبوت جمال خاشقجی کا قتل کیس ہے؛ ہم نے دیکھا کہ ذرائع ابلاغ کے دباؤ کے تحت پوری دنیا کی توجہ اس واقعے اور سعودی عرب کی جرائم پیشگی کی طرف مبذول ہوئی ـ جبکہ اس سے قبل کے چار برسوں میں سعودیوں نے اس طرح کے ہزاروں جرائم کا ارتکاب کیا تھا اور یمن پر حملہ کرکے لاکھوں بچوں، خواتین، بوڑھوں اور مریضوں کو خاک و خون میں لت پت کردیا، اور یہ جرائم بدستور جاری ہیں لیکن دنیا والوں کو یہ سب کچھ نظر نہیں آرہا اور انسانی حقوق اور آزادی کے جھوٹے علمبرداروں کی آنکھوں سے اوجھل ہے۔ حریت پسند انسانیت سے ہمارا سوال یہ ہے کہ یہ کیا رویہ ہے کہ ترکی میں ایک سعودی باشندے کا قتل تو ناقابل معافی جرم ہے مگر ایک قوم کا یکسر قتل عام ایک غیر اہم مسئلہ سمجھا جاتا ہے؟ ڈوب مرنا چاہئے اس دنیا کو جس کے بڑے مقتدر حکمران بد دیانت گوالے (Dishonest cowboys) ہیں اور یک بام و دو ہوا کی پالیسی کی رو سے دنیا کا انتظام سنبھالے ہوئے ہیں، جہاں عدل و انصاف کا دور دور تک کوئی اتہ پتہ نہیں ہیں۔
سوال: یہودی ریاست کے ساتھ تعلقات کی بحالی کے انسداد اور مسلم اقوام کو آگہی اور بصیرت دینے میں علماء کا کیا کردار ہے/ ہوسکتا ہے؟
– بےشک علمائے اسلام کا فریضہ اسلام کی تبلیغ و تشریح، اقوام کو آگاہ و بیدار کرنا اور ان سازشوں اور مکاریوں سے انہیں خبردار کرنا ہے جو دشمنان اسلام امت اور دین اسلام کے خلاف کررہے ہیں تاکہ مسلمین عالم ان عظیم ذمہ داریوں سے آگاہ ہوجائیں جو ان کے کندھوں پر رکھی گئی ہیں۔
قرآن کریم میں متعدد ایسی آیات ہیں جو علماء کو اپنے فرائض کی انجام دہی کی دعوت دیتی ہیں اور فرائض کی انجام دہی میں کوتاہی سے خبردار کرتی ہیں۔ بطور مثال خداوند متعال قرآن کریم میں ارشاد فرماتا ہے:
﴿وَلْتَکُن مِّنکُمْ أُمَّةٌ یَدْعُونَ إِلَى الْخَیْرِ وَیَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَیَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنکَرِ وَأُوْلَـئِکَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ؛ اور تم میں سے ایک جماعت ایسی ہونا چاہئے جو بھلائی کی دعوت دیتی ہو، بھلائی کی ہدایت کرتی ہو اور برائیوں سے منع کرتی ہو اور یہی وہ ہیں جو ہر طرح کی بھلائی حاصل کرنے والے ہیں﴾ (۲)
علماء کی ایک عظیم ذمہ داری یہ ہے کہ قرآن کو عوامی زندگی میں واپس لے کر آئیں، سنت نبوی کے مفہوم کی اصلاح کریں اور عوام کو امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے احیاء کی ترغیب دلائیں، سوئی ہوئی مسلم قوموں کو خواب غفلت سے بیدار کریں اور امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کو عملی طور پر نافذ کریں، اور خود بھی لوگوں کو بھلائی کی دعوت دیں اور برائی سے منع کریں۔
ترجمہ: فرحت حسین مہدوی
.............
242