-
Tuesday, 30 June 2020، 09:57 PM
-
۵۰۷
خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ کے مطابق، ارض فلسطین کے تاریخی شہر الخلیل کی گود میں چھ ہزار سال سے آج تک کے ادوار کی تاریخی، دینی، ثقافتی اور تہذیبی یادگاریں موجود ہیں۔ یہ شہر تاریخی معالم وآثار اور تاریخی مقامات کے اعتبار سے ہر دور میں اہمیت کا حامل رہا ہے۔ اس شہر کی زمین اور فضائوں نے کنعانی، عناقین، بازنطینی، رومن صلیبی اور اسلامی ادوار کے عروج و زوال دیکھے۔ ان تمام ادوار میں الخلیل شہر میں کسی نا کسی شکل کی تہذیب وتمدن کی ترقی ہوتی رہی۔ الخلیل کی عظمت رفتہ کی گواہی دیتے تاریخی آثار میں ایک تاریخی مسجد بھی ہے جسے مسجد علی البکاء کے نام سے جانا جاتا ہے۔
جغرافیائی محل وقوع
مسجد علی البکاء محل وقوع کے اعتبار سے الخلیل شہر کے وسط میں مسجد ابراہیمی کے مغرب میں واقع ہے۔ اس کے قریب تاریخی حارہ الشیخ واقع ہے۔ مسجد علی البکاء کی تاریخ ۸ صدیاں پرانی ہے۔ اس کے اطراف میں یہودی کالونیوں کی تعداد میں اضافے کے باوجود آج بھی اس کے گنبد و مینار سے اذان کی صدا گونجتی سنی جا سکتی ہے۔
یہ مسجد مشہور صوفی بزرگ، عابد، مجاہد اور فدائی علی البکاء سے منسوب ہے۔ ان کا تعلق قوقاز سے تھا اور وہ جہاد کے لیے فلسطین میں آئے اور ہمیشہ کے لیے یہیں کے ہو رہے۔ مسجد کے متصل ایک چبوترے میں ان کی آخری آرام گاہ موجود ہے۔
ممالیک کا دور
الخلیل شہر کی تاریخ پر گہری نظر رکھنے والے مورخ ڈاکٹر عدنان ابو تبانہ کا کہنا ہے کہ مسجد علی البکاء ۶۷۰ھ میں تعمیر کی گئی۔ اس وقت فلسطین میں ممالیک فرمانروا الظاھر بیبرس کی حکومت تھی۔ انہوں نے فلسطین اور بلاد شام کے گورنر عزالدین ایدمر العلائی کو مسجد تعمیر کرنے کا حکم دیا۔ چونکہ الشیخ علی البکاء نے فلسطین میں ظاہر بیبرس کے ساتھ جہاد میں حصہ لیا تھا۔ اس لیے انہوں نے فلسطین میں اسی نام سے مسجد کی تعمیر کا حکم دیا۔
معرکے میں شامل علماء
ڈاکٹر عدنان ابو تبانہ نے مزید کہا کہ الشیخ علی البکاء قریبا ایک صدی زندہ رہے۔ انہوں نے ایوبی اور ممالیک کے ادوار دیکھے۔ ان کا شمار فلسطین کے عظیم اور بہادر مجاہدین میں ہوتا تھا۔ انہوں نے ارسوف کی جنگ میں اس وقت حصہ لیا جب ان کی عمر کم تھی۔ اس کے بعد وہ تحصیل علم اور زہد وتقویٰ کی طرف مائل ہوگئے۔ ایام جوانی ہی میں وہ الشیخ ربانی مشہور ہوئے اور اپنی کرامات کی وجہ سے فلسطین اور اطراف واکناف میں شہرت حاصل کی۔ ان کے عقیدت مند دور دور سے ان سے ملنے آتے۔ لوگ ان کے پاس دعائیں کرانے آتے۔ وہ بہت زیادہ گریا زاری کرتے اور عبادت میں مشغول رہتے۔ ان کے ایک دوست جنہوں نے کئی جنگوں میں ان کے ساتھ شرکت کی مگر ان کی موت نصرانیت پر ہوئی۔ بادشاہ نے ان کے لیے بھی ایک جگہ مختص کی تھی۔
تعمیراتی ارتقاء
ممالیک کے عہد میں الخلیل شہر بالخصوص الزاویہ میں کئی تعمیراتی ارتقائی مراحل دیکھنے میں آئے۔ مسجد علی البکاء کا مینار دوبارہ تعمیر کیا گیا۔ دوسری بار مسجد کے مینار کی تعمیر ممالیک گورنر حسام الدین طرنطاوی کو جاتا ہے۔ انہیں ممالیک بادشاہ المنصور بن قلاوون نے اس کی تعمیر کا حکم دیا تھا۔
مسجد علی البکاء کی تعمیر ومرمت فلسطین میں برطانوی انتداب کے دور میں بھی ہوئی۔ فلسطینی مورخ ڈاکٹر تیسیر جبارہ نے بھی اپنی کتاب میں مسجد علی البکاء کی تعمیر ومرمت کے بارے میں تفصیلات بیان کی گئی ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔