خیبر صہیون تحقیقاتی سینٹر کے سیاسی شعبے کی رپورٹ کے مطابق، کچھ عرصہ قبل امریکہ میں ایک کتاب منظر عام پر آئی اسکا نام تھا ” ایک سو ایک خطرناک پروفیسر” اس کتاب کا موضوع ایسے ایک سو ایک پروفیسرز کا تعارف کرانا تھا جنکا جرم ہلوکاسٹ اور یہودیوں کے کے بارے میں اپنی کلاسز میں زبان کھولنا تھا، اس کتاب کے منظر عام پر آنے کے ساتھ ساتھ یونیورسٹیز کے اساتید کو یہ انتباہ دیا گیا ہے کہ چونکہ ان لوگوں نے ریڈ لائن کو کراس کیا ہے لہذا انکے آثار سے استفادہ نہیں کیا جا سکتا ، مجموعی طور پر جب آزادی کو نامحدود کر دیا جائے تو یہ بات خود اپنے آپ میں کچھ مشکلات کا سبب بنے گی آزادی خود بخود محدودیت پر منتہی ہوگی اور یہی وہ مشکلات ہیں جو آزادی کے دائرہ کو تنگ کرنے کا سبب بنیں گی ۔
پروفیسرسامی الارین Professor Sami al-Arian بھی ان ایک سو ایک پروفیسروں میں سے ایک ہیں جنکے بارے میں صاحب کتاب نے اپنی رائے کا اظہار کچھ یوں کیا ہے ہم یہاں پر امانت میں رعایت کی خاطر پروفیسر سامی الارین Professor Sami al-Arian کی شخصیت کو صاحب قلم کے بیان شدہ مطالب کی روشنی میں پیش کر رہے ہیں اسکا مطلب ہرگز یہ نہیں ہے کہ انکی تمام باتیں ٹھیک ہیں یا پھر وہ تمام الزامات صحیح ہیں جو انہوں نے پروفیسر پر لگائے ہیں بلکہ اس تحریر کو قارئین کرام یہ سوچ کر پڑھیں کہ یہ تحریر نہ تو کسی مسلم دانشور کی ہے اور نہ ہی فلسطین کی حمایت کا نظریہ رکھنے والےکسی اسکالر کی بلکہ یہ تحریر بزعم خود ایک ایسے بے طرف انسان کی ہے جس نے امریکہ میں ہوتے ہوئے ایک پروفیسر کی زندگی کی حقیقت کو سامنے لانے کی کوشش کی ہے ایسا پروفیسر جو خطرناک ہے جیسا کہ کتاب کے عنوان سے واضح ہے ‘‘۔
پروفیسر سامی الارین ـProfessor Sami al-Arian
جنوبِ فلوریڈا یونیورسٹی (University of South Florida) یا USF [1]
USF میں انجیرئنگ کے استاد
جہاد اسلامی فلسطین [۲]کے مقامی سربراہ (ایک ایسا دہشت گرد گروہ جو و شمالی امریکہ میں ہونے والے خود کش بم دھماکے کا ذمہ دار ہے جس میں ۱۰۰ جانیں گئیں .)
شہری حقوق کی آزادی کے سرگرم کارکن
اسامہ (سامی) سامی الارین ایک ایسے فلسطینی ہیں جو اپنی سرگرمیوں کے چلتے گرفتار ہونے سے قبل USF میں انجیئرنگ کے استاد تھے پروفیسر سے دو غیر منافع بخش ادارے بھی قائم کئے ہوئے تھے ایک یونیورسٹی سے متعلق تحقیقاتی مرکز ، جسکا نام اسلامی تعلیمات کا عالمی مطالعہ اور فلسطین کی اسلامی کمیٹی کے نام سے جانا جاتا ہے جس کا کام فلسطین کے لئے مالی منابع ذخائر کو فراہم کرنا اور جہاد اسلامی کے لئے جنگجووں کو جوڑ کر انہیں جہاد اسلامی سے وابستہ کرنا تھا۔
پروفیسر سامی الارین در حقیقت شمالی امریکہ میں جہاد اسلامی کے سربراہ تھے جنہیں امریکہ کی حکومت کی جانب سے خود کش حملوں کے الزام کا ملزم قرار دیا گیا ہے۔
ایف بی آئی کی جانب سے ایک نظارتی ویڈیو میں جسے پروفیسر سامی الارین کی جانب سے امریکہ کی مساجد میں لوگوں سے چندہ وصول کرتے دکھایا گیا ہے ، پروفیسر کو جہاد اسلامی تحریک کے ایک بازو کی حیثیت رکھنے والی فلسطین اسلامی کمیٹی کے سربراہ کے طور پر پیش کیا گیا ہے ۔
پروفیسر سامی الارین یہاں پر اس طرح کہتے ہیں : خدا نے ان لوگوں پر جو اسرائیل کے فرزند ہیں داود اور عیسی بن مریم کے ذریعہ لعنت کی ہے آئیں ان پر اور انکے متحدین پر وقتِ موت تک لعنت کریں ۔
ایک اور تقریر میں پروفیسر یہ کہتے نظر آتے ہیں : آج ہم شہیدوں کی آرزءوں کے احترام میں اور اس تحریک سے جڑی زنجیر کی کڑیوں کی صورت جو قتل سے قتل ، شہادت سے شہادت تک جہاد سے جہاد تک جاری و ساری ہے اور کبھی یہ تحریک رکے گی نہیں ،ہم ہرگز رکیں گے نہیں آگے ہی بڑھتے رہیں گے اسی بات کا عہد کرنے کے لئے ہم شہیدوں کی آرزوں کے احترام کے ساتھ یہاں جمع ہوئے ہیں ، اسی طرح ایک کیسٹ میں منظر بھی قید ہے کہ جہاں پروفیسر کے اوپر گل افشانی کی ایک رسم میں شہدائے فلسطینی کی حمایت میں ایک بولنے والے نے ایک یہودی کو مارنے کے لئے ۵۰۰ ڈالر کی درخواست کی ۔) یہ وہ چیز ہے جس کے بارے میں یقین سے کہا جا سکتا ہے ایسا ہرگز نہیں ہوا ہوگا اور کتاب کے مصنف نے امریکہ میں صہیونیت کے مخالف یہودیوں کے درمیان فلسطینی مجاہدین کی تخریب کی خاطر یہ بات بیان کی ہے،اگر چندہ و امداد کی بات درست بھی ہوگی تو اس بھونڈے انداز میں تو ہرگز نہیں)عیاں راچہ بیاں (
پروفیسر سامی الارین کے تھاٹ روم کا ایک رکن بھی خلیل شقاقی نامی یونیورسٹی کا ایک فلسطینی استاد ہے ، جو فتحی شقاقی[۳] کا بھائی ہے جو کہ مشہور فلسطین کی جہاد اسلامی تنظیم کے معمار اور جہاد اسلامی کی عسکری شاخ کے شام میں رہبر تھے ۔
جب فتحی شقاقی کو صہیونیوں کی جانب سے شہید کر دیا گیا تو جہاد اسلامی تنظیم کی سربراہی کا عہدہ اور فتحی شقاقی کی جانشینی رمضان عبد اللہ صالح کے حصہ میں آئی جو کہ خود پروفیسر سامی الارین کے تھاٹ روم کی سابقہ منتظمہ میں سے ہونے کے ساتھ جنوبِ فلوریڈا یونیورسٹی (University of South Florida) یا USF کے اساتید میں بھی تھے ۔
پروفیسر سامی الارین نے ۱۹۹۷ ء میں سیاسی آزادی کے لئے ایک متحدہ محاذ کی تشکیل دی، اسکا اصلی مقصد دہشت گردی اور کار آمد پھانسی کے خلاف قانون کی مخالفت کرنا تھا جو بعد میں) پیٹریوٹ[۴] کے نام سے تبدیل ہو گیا ( یہ قانون ۱۹۹۶ میں اوکلاھما شہر کی فیڈرل بلنڈنگ میں بم دھماکے کے بعد ہوا جسکی بنیاد پر ۱۷۵ لوگ ہلاک ہوئے تھے
اس قانون کے بننے کے بعد ہی فلسطین کی جہاد اسلامی جماعت کو دہشت گردانہ گروہوں کی فہرست میں قرار دیتے ہوئے اعلان کر دیا گیا کہ جہاد اسلامی تنظیم دہشت گرد ہے ، مازن النجار، پروفیسر آل اریان کے ہم زلف کو بھی جو کہ الرین کے تھاٹ روم کے ایک رکن تھے اسی قانون کی بنیاد پر ساڑے تین سال تک گرفتار کر کے رکھا گیا اورانجام کار ۱۱ ستمبر کے بعد ملک سےنکال دیا گیا
پروفیسر سامی الارین شہری و مدنی حقوق کی آزادی کے لئے سرگرم عمل محاذ کے لیڈر و قاٗئد کے طور پر جانے جاتے تھے جسکی داغ بیل پیٹرائٹ قانون کی مخالفت میں پڑی تھی جو کہ حقیقت میں دہشت گردانہ سرگرمیوں کے خلاف بننے والے کلنٹن کے قانون ہی کے ایک نئی تشریح کے طور پر سامنے آیا تھا
پروفیسر سامی الارین کے محاذ کے ہمراہوں میں جو نام آتے ہیں وہ کچھ یوں ہیں :
وکیلوں کا قومی محاذ، امریکہ میں شہری حقوق کی آزادی کا محاذ، بنیادی حقوق کا مرکز ، کہ جسکے ترجمان جارج ٹاون یونیورسٹی کے استاد قانون پروفیسر سامی الارین کے ہم زلف} اور امریکیوں کے بقول{ دہشت گرد پروفیسر مازن النجار کے وکیل معروف قانون داں ڈیوڈ کول تھے ۔
پروفیسر سامی الارین کو ۱۹۹۶ میں ایف بی آئی کی جانب سے تفتیش کا سامنا کرنا پڑا اور مایامی ہیرالڈ کی جانب سے پیش کی جانے والی رپورٹوں نیز اسٹون امرسن کی زیر نگرانی چلنے والے میامی ہیرالیڈ کے ایک تحقیقاتی پراجیکٹ کے پیش نظر ایک زمانہ ہوا کہ کھلم کھلا طور پر پروفیسر سامی الارین کو فلسطین جہاد اسلامی تحریک سے وابستہ ایک دہشت گرد کے طور پر جانا جاتا رہا ہے ۔
جب سے امرسن نے لوگوں کو پروفیسر سامی الارین کی جانب سے دہشت گردانہ کاروائیوں کے سلسلہ سے انتباہ دیا ہے تب سے بائیں بازو سے متعلق نمایاں سیاسی چہروں کی جانب سے انہیں مخالفت کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے چونکہ انکے اور پروفیسر سامی الارین کے درمیان ایک مشترکہ تعاون تھا اور دونوں ہی طرف ایک دوسرے کے ساتھ تعلقات قائم کئے ہوئے تھے یہی وجہ ہے کہ امرسن کی جانب سے پروفیسر سامی الارین کو دہشت گردانہ کاروائیوں سے جوڑ کر پیش کر نے کی وجہ اسلام مخالف عنصر کے بہانے کے تحت اذیتیوں کا سامنا کرنا پڑا ۔ پروفیسر سامی الارین کی سب سے بڑی غلطی یہ تھی کہ ۲۶ ستمبر ۲۰۰۱ کو فاکس نیوز کے ایک پروگرام O’Reilly Factor میں وہ شریک ہوئے اور یہاں پر پروفیسر سامی الارین نے ویڈیو کالنگ کے ذریعہ تحریک جہاد اسلامی کو ایک دہشت گرد تنظیم کے طور پر پیش کرتے ہوئے اس بات کا اعلان کر دیا کہ اگر میں سی آئی اے میں ہوتا تو پروفیسر کے ہر مقام پر تعاقب میں رہتا اور ان پر نظر رکھتا ، اس پروگرام کے بعد عمومی طور پر اس طرح اعتراضات شرو ع ہوئے کہ فلوریڈا یونیورسٹی کے ذمہ داروں کو خفت کا سامنا کرنا پڑا جسکا نتیجہ یہ ہوا کہ پروفیسر سامی الارین کو یونیورسٹی کی جانب سے دی جانے والی رعایتوں کو برقرار رکھتے ہوئے انکے منصب سے معلق کر دیا۔
پروفیسر سامی الارین نے اپنی مظلومیت کی تشہیر کرتے ہوئے اپنے منصب سے معلق ہو جانے پر رد عمل کا اظہار کیا اور کہا ’’ میں اقلیت سے تعلق رکھتا ہوں اور عرب ہوں ،میں ایک فلسطینی ہوں ، میں ایک مسلمان ہوں ، یہ وہ چیز نہیں جو آج کل لوگوں کو پسند ہو ، کیا میرے بھی کچھ حقوق ہیں یا نہیں‘‘ ؟ جب یہ بات سامنے آئی تو بائیں بازو کے امریکیوں نے پروفیسر سامی الارین کی حمایت کی اور انکے دفاع میں کود پڑے ، اور انکی طرف سے پروفیسر کو کی جانے والی حمایت کے سلسلہ میں The Nation اور Salon.com جیسے جرائید میں مقالات کا شایع ہونا بھی تھا جن کے تحت اریک بولٹر نامی نامہ نگار نے پروفیسر سامی الارین کو بدنام کرنے کی منصوبہ بند سازش سے پردہ اٹھاتے ہوئے انکے خلاف ماحول بنانے کی بات کرتے ہوئے اس بات کی وضاحت کی کہ کس طرح NBC، فاکس نیوز، میڈیا جنرل اور کلیر رادیو چینل سب نے مل کر عربی وحشت و دہشت کو ہوا دیکر اپنی ہی رسوائی کا سامان فراہم کیا اور ایک پروفیسر کی زندگی کو تباہ و برباد کر دیا ، جارجیا ٹاون میں مشرق وسطی مطالعات کے سربراہ پروفیسر جان اسپوزیٹو نے اس بات پر رنج و غم کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ہرگز پروفیسر سامی الارین کو عرب مخالف اور اسلام مخالف تعصب کی بھینٹ نہیں چڑھانا چاہیے پرفیسر آلن اسچکر نے بھی جو کہ مک کارٹی دور میں ( ایسا دور جسے امریکین کمیونسٹوں کو ایک اجتماعی اصلاح پسندوں اور حکومت وقت کی جانب سے بے گناہ قربان ہونے والوں اور بلا وجہ ٹارچر ہونے والوں کے طور پر پیش کیا جاتا ہے ) ممتاز علمی مہارت رکھنے والی نمایاں شخصیت کے طور پر جانا جاتا تھا انہوں نے بھی پروفیسر سامی الارین کو انکے منصب سے معلق کرنے دینے کو ایک سیاسی طور پر انہیں کچل کر رکھ دینے کا نام دیا تھا ۔
ACLU، قانون حقوق کا مرکز، جنوبی فلوریڈا یونیورسٹی کا محاذ ، یونیورسٹی کےامریکی اساتید کی انجمن ، وغیرہ یہ وہ دوسرے نام ہیں جنہوں نے پروفیسر سامی الارین کی حمایت کرتے ہوئے پروفیسر سامی الارین نامی دفاع کا ایک محاذ قائم کیا اور اس سے جڑ گئے اور اس بات کی بھی دھمکی دی کہ پروفیسر سامی الارین کی یونیورسٹی سے ملنے والی آزادی کو محدود و سلب کرنے کی بنیاد پر ہم یونیورسٹی کے اعتبار کو چیلنج کریں گے ، اور اسی دوران دوک یونیورسٹی کی ایک فیکلٹی نے پروفیسر سامی الارین کو شہری و مدنی آزادی کے حقوق اور قومی سلامتی کے موضوع کے تحت ہونے والی ایک علمی نشست میں مہمان خصوصی کے طور پر تقریر کی دعوت دی ، چنانچہ پروفیسر سامی الارین دوک یونیورسٹی کی حمایت میں شہری حقوق پر ہونے والے علمی سمینار کے ایک خاص مہمان مقرر تھے۔
پروفیسر سامی الارین کو انکی دہشت گردانہ کاروائیوں کی وجہ سے ۳۰۰۳ میں گرفتار کر لیا گیا اور دسمبر ۲۰۰۵ میں ان پر لگے ۱۷ الزامات میں سے ۸ میں بری کر دیا گیا اور عدالتی پینل نے باقی ماندہ ۹ الزامات میں بھی بے گناہ قرار دیا ، پروفیسر سامی الارین کے وکیل نے اپنے ہی خواہوں کے درمیان اس بات کی التبہ تصدیق کی کہ پروفیسر سامی الارین فلسطین کی جہاد اسلامی تنظیم کے لئے کام کر رہے تھے جسکے بعد خبرنگاروں نے پروفیسر پر لگائے گئے الزامات اور پورے مقدمہ کے نتیجہ کو یوں پیش کیا ’’ہم ایسے شخص کی عدالتی کاروائی کے نتائج کو پیش کر رہے ہیں جس کا فلسطین کی تنظیم جہاد اسلامی سے گہرا تعلق رہا ہے جو کہ ایک دہشت گرد تنظیم ہے اور جس نے من مانے خود کش حملوں کے ذریعہ اسرائیل ، غزہ اور باختری پٹی میں سو سے زیاہ لوگوں کو ہلاک کیا ہے ۔
تحقیق: ڈیویڈ هورویٹز
ترجمہ و تالیف : خیبر گروپ
حواشی :
[۱] ۔ جنوبِ فلوریڈا یونیورسٹی (University of South Florida) یا USF ریاستہائے متحدہ امریکا کا ایک جامعہ و ریاستہائے متحدہ کا عوامی تعلیمی ادارہ جو ٹیمپا، فلوریڈا میں واقع ہے جسکی بنیاد ۱۹۵۶ میں ڈالی گئی رک : “UCF System Facts 2014-2015” (PDF). University of South Florida. Retrieved ۵ August2015.
[۲] ۔ تحریک جہاد اسلامی در فلسطین (حرکة الجهاد الإسلامی فی فلسطین) ایک فلسطینی اسلام پسند تنظیم ہے جس کا قیام سنہ ۱۹۸۱ء میں ہوا، اس تنظیم کا بنیادی مطمع نظر ریاست اسرائیل کو ختم کر کے ایک آزاد و خود مختار فلسطینی اسلامی ریاست کے قیام کی کوشش کرنا ہے
انگریزی میں اس تنظیم کا نام Isslamic Jihad Movement in Palestine اور اسے (PIJ) کے نام سے جانا جاتا ہے اور امریکہ و اسکے حلیف ممالک نے دہشت گرد گروہوں کی فہرست میں اسے شامل کیا ہے ۔دہشت گرد تنظیموں کی فہرست کے لئے ملاحظہ ہو : https://2001-2009.state.gov/s/ct/rls/fs/2002/9014.htm ۔ www.state.gov.
[۳] ۔ تحریک جہاد اسلامی تنظیم Isslamic Jihad Movement in Palestine (PIJ) کے بانی و معمار Fathi Shaqaqi (1981–۱۹۹۵) Atkins, Stephen E. (2004). Encyclopedia of Modern Worldwide Extremists and Extremist Groups. Greenwood Publishing Group. pp. 301–۳۰۳٫ ISBN 0-3133-2485-9. Retrieved 10 March 2011.
[۴] ۔ پیٹرائٹ قانون ریاست متحدہ ہائے امریکا کی کانگریس کا منظور کیا ہوا ایسا قانون ہے جسے اس وقت کے صدر جارج بش نے ۲۶ اکتوبر ۲۰۱۱ء کو منظور کیا۔ لفظ پیٹرائٹ اصل PATRIOT= Providing Appropriate Tools Required to Intercept and Obstruct Terrorism سے ماخوذ ہے ، مگر اگثر اسے حُب الوطن کے معنی میں لیا جاتا ہے اور عام لوگ یہی سمجھتے ہیں ۔ اس قانون کا مقصد امریکی حکومت کو رعایا پر جاسوسی کرنے کے وسیع اختیارات دینا ہے، جس میں پولیس اور ریاست کو لوگوں کی نجی مواصلاتی، موبائل فون، برقی خطوط گفتگو کو سننا اور تلاش کرنا، مالیاتی اور طبی وثائق تک رسائی، مالیاتی لین دین پر اختیار اور لوگوں کو بآسانی گرفتار کرنا شامل ہیں۔ سرکار اس قانون کے دائرہ کو بہت وسیع سمجھتی ہے ۔ USA PATRIOT Act (U.S. H.R. 3162, Public Law 107-56), Title IX, Sec. 904.
USA PATRIOT Act (U.S. H.R. 3162, Public Law 107-56), Title IX, Sec. 908.
USA PATRIOT Act (U.S. H.R. 3162, Public Law 107-56), Title X, Sec. 1012.
USA PATRIOT Act (U.S. H.R. 3162, Public Law 107-56), Title X, Sec. 1001.
“History of the Patriot Act”. Electronic Privacy Information Center. Retrieved July 11, 2008. Though the Act made significant amendments to over 15 important statutes, it was introduced with great haste and passed with little debate, and without a House, Senate, or conference report. As a result, it lacks background legislative history that often retrospectively provides necessary statutory interpretation.
“EFF Analysis Of The Provisions Of The USA PATRIOT Act That Relate To Online Activities”. Electronic Frontiers Foundation. October 31, 2001. Archived from the original on October 12, 2007. Retrieved October 12, 2007. …it seems clear that the vast majority of the sections included were not carefully studied by Congress, nor was sufficient time taken to debate it or to hear testimony from experts outside of law enforcement in the fields where it makes major changes.
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔