خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: لبنان کے ایک اخبار نے انکشاف کیا ہے کہ چار ممالک، اردن، مصر، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات فلسطینیوں کی تحریک فتح اور اسلامی مزاحمتی تحریک (حماس) کے مابین امن کے مخالف ہیں اور مفاہمت کے عمل میں رکاوٹ کھڑی کررہے ہیں۔
لبنانی اخبار "الاخبار" کی رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ چار عرب ممالک فلسطینی مزاحمتی گروہوں "فتح" اور اسلامی تحریک "حماس" کے مابین اس معاہدے پر عمل درآمد کرنے کی راہ میں بڑی رکاوٹ ہیں جو حالیہ دنوں استنبول میں ہوا تھا۔
الاخبار نے اپنی رپورٹ میں لکھا ہے کہ جبکہ فلسطینی اتھارٹی کے سربراہ ، محمود عباس ، حماس اور فتح کی تحریکوں کے مابین طے پانے والے افہام و تفہیم کی بنیاد پر، چھ ماہ کے شیڈول کے مطابق فلسطینی عام انتخابات کی تاریخ کا اعلان کرنے کی توقع کی جا رہی ہے، کئی عرب ممالک عام انتخابات کو روکنے اور فلسطینی گروہوں کے درمیان اختلاف ڈالنے کی مسلسل کوشش کر رہے ہیں۔
الاخبار نے بتایا کہ یہ اطلاع ملی ہے کہ حالیہ افہام و تفہیم کے ساتھ چند عرب ملکوں کی مخالفت عام انتخابات کے حوالے سے محمود عباس کے حکم صادر کرنے میں تاخیر کا باعث بنی ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ خاص طور پر ، مصر اور اردن کے دباؤ اور اس کے بعد کچھ خلیجی عرب ریاستوں کے دباؤ کے بعد ، سیکریٹریوں کا اجلاس جو اس ماہ کی تیسری تاریخ کو ہونا طے پایا تھا پیچھے ہو گیا ہے وہ اجلاس جس کی توقع کی جارہی تھی کہ اس میں دیگر گروہوں کے ساتھ بات چیت کے بعد انتخابات کی تاریخ کے حوالے سے حکم صادر کر دیا جائے گا۔
بعض ذرائع نے الاخبار کو بتایا کہ فتح تنظیم کے وفد کے گذشتہ ہفتے قاہرہ کے دورے کے دوران (استنبول معاہدے کے بعد)، اس تحریک کو معلوم ہوا ہے کہ ترکی میں معاہدے کے طے پانے سے مصری متفق نہیں ہیں۔ تاہم ، فتح نے استدلال کیا کہ یہ معاہدہ ترکی کی نگرانی یا ثالثی کے بغیر استنبول میں واقع فلسطینی قونصل خانے میں ہوا ہے۔
تاہم ، ذرائع نے انکشاف کیا کہ مصریوں کو ان کے یہ بیانات پسند نہیں آئے، کیونکہ انہوں نے نہ صرف معاہدے کی مخالفت کی بلکہ انتخابات کے انعقاد کی بھی مخالفت کی ہے۔
اس رپورٹ کے مطابق، مصر کی مخالفت کی ابتدائی وجہ یہ تھی کہ قاہرہ کی نگرانی سے دور فلسطینی گروہوں کے درمیان کسی بھی طرح کا باہمی مصالحت اور تعاون پر مبنی معاہدہ در حقیقت مصر کی ۱۴ سالہ زحمتوں پر پانی پھیرنے کے مترادف ہے جو وہ ان گزشتہ سالوں سے کرتا آیا ہے اور سب سے اہم بات یہ کہ مصر کے نزدیک یہ وقت انتخابات کے لیے مناسب نہیں ہے چونکہ ان انتخابات میں امریکہ کی حمایت حاصل نہیں ہے۔