ترکی-یہودی تعلقات؛ تاریخ اور موقف میں اتار چڑھاؤ

  • ۳۹۰

 ترکی-اسرائیلی تعلقات، بالخصوص حالیہ ایک عشرے کے درمیان اتار چڑھاؤ کا شکار رہے ہیں۔
اردوگان نے بار بار صہیونی ریاست کو شدید ابلاغیاتی حملوں کا نشانہ بنایا اور فلسطینیوں کے خلاف غاصب ریاست کے اقدامات کو مورد تنقید قرار دیا گیا ہے۔
تاریخ
۔ترکی اور صہیونی ریاست کے تعلقات 1949ع‍ میں قائم ہوئے اور اس زمانے میں ترکی نے پہلے اسلامی ملک کی حیثیت سے اس ریاست کو تسلیم کیا۔
۔فریقین کے درمیان تعلقات کو بہت تیزرفتاری سے فروغ ملا اور جب روابط تزویری (اسٹراٹجک) تعلقات کی سطح تک پہنچ گئے، ترک سفیر تل ابیب اور انقرہ میں اسرائیلی سفیر تعینات ہؤا اور بات سفارتکاروں کے تبادلہ ہؤا نیز مشترکہ اقتصادی اور عسکری مفادات کے خد و خال کے تعین کی نوبت بھی آن پہنچی۔
۔سنہ 2005ع‍ میں اس وقت کے ترک وزیر اعظم رجب طیب اردوگان نے مقبوضہ فلسطین کا دورہ کرکے فلسطینیوں کے قصاب، آنجہانی ایریل شیرون سے ملاقات کی۔
۔ نیز اردوگان نے مقبوضہ سرزمین میں غاصب یہودی ریاست کے بانی تئودور ہرتزل کی قبر - نیز ہالوکاسٹ میوزیم - پر حاضری دی!
۔سنہ 2009ع‍ میں، غزہ پر یہودی جارحیت پر وقت کے ترک وزیر اعظم اردوگان کی شدید تنقید کے بعد، فریقین کے درمیان ابلاغیات تناؤ کا آغاز ہؤا۔
۔سنہ 2010ع‍ میں غزہ کی طرف جانے والے "آزادی بحری جہاز" - جس کا نام "مرمرہ جہاز" تھا - پر یہودی ریاست کے حملے اور اس کے کئی مسافروں کے قتل ہوجانے کے بعد، فریقین کے تعلقات بحران سے دوچار ہوئے۔
۔اس کے برعکس، کہ ترکی عرب ممالک کی طرف سے یہودی ریاست کی تعلقات کی بحالی کی مذمت کرتا ہے، لیکن ترکی اور یہودی ریاست کے تعلقات بدستور قائم ہیں اور یہ تعلقات مختلف سطوح پر جاری و ساری ہے۔

عسکری
۔ امریکہ کے بعد ترکی دوسرا بڑا ملک ہے جہاں یہودی ریاست کے اسلحے کے کارخانے موجود اور سرگرم عمل ہیں۔
۔ تجربات کے تبادلے نیز ہوابازوں کے تبادلے کے سلسلے میں ایک سال کے دوران کئی مرتبہ فریقین کے درمیان معاہدے منعقد ہوئے۔

معاشی
۔ یہودیوں کا مقبوضہ عربی-فلسطینی علاقہ، - جو جعلی ریاست "اسرائیل" - کہلاتا ہے ترکی ساختہ مصنوعات کی پانچویں بڑی منڈی ہے۔
۔ سنہ 2019ع‍ میں ترکی اور یہودی ریاست کے درمیان تجارتی تبادلوں کا حجم 6 ارب ڈالر تک جا پہنچا۔

سیاسی
یہودی ریاست نے ترک دارالحکومت انقرہ میں اپنے سفارتخانے کو قائم رکھا ہے جیسا کہ ترکی نے صہیونی دارالحکومت تل ابیب میں اپنا سفارتخانہ قائم رکھا ہؤا ہے۔


نئی صورت حال
 کچھ عرب ممالک نے یہودی ریاستوں کو تسلیم کیا اور کچھ پر تول رہے ہیں، حالات فلسطینیوں کے لئے پہلے سے کہیں زیادہ دشوار ہیں؛ امریکہ میں صدارتی انتخابات کے نتیجے میں ٹرمپ ہار گیا ہے اور 76 سالہ بائڈن بطور صدر منتخب ہؤا ہے، اردوگان عرب ریاستوں کی طرف سے یہودی ریاست کے ساتھ تعلقات کے بحالی کی زبانی کلامی مذمت کررہے ہیں؛ لیکن چونکہ ترکی اور امریکہ کے درمیان تعلقات بھی چنداں دوستانہ نہیں رہے ہیں لہذا اخوانی صدر اردوگان نے اعلان کیا ہے کہ امریکہ کے نئے صدر کے ساتھ بہتر تعلقات اور یہودی ریاست کے ساتھ تعلقات میں استحکام لانے کے لئے تیار ہیں؛ گویا وہ بھی عرب ریاستوں کی طرح – جنہوں نے ٹرمپ کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے اسرائیل کو تسلیم کیا ہے - بائیڈن کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے یہودی ریاست کی قربت حاصل کررہے ہیں۔ بندگلی وہابیت کو بھی درپیش ہے اور اخوانیت کو بھی۔۔۔ اگلے ایام مسلم امہ کے لئے دشوار اور قبلہ اول کے لئے بہت سخت ہیں، مسلم آمہ خاموش ہے اور اس کے حکمران یکے بعد دیگرے خدا اور رسول صلی اللہ علیہ و آلہ کی خوشنودی حاصل کرنے کے بجائے یہود و نصاری کی خوشنودی کے خواہاں ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔
ترتیب: فرحت حسین مہدوی

یہودی مسلمین کے ازلی ابدی دشمن (3)

  • ۳۶۳


خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: یورپ میں یہودیوں سے نفرت کو ضد سامیت (Anti-Semitism یا یہودی دشمنی) کہا جاتا ہے جو مغربی قوانین میں جرم ہے اور یہودی ضد سامیت کے مسئلے کو اٹھا کر اپنی مظلومیت کی اداکاری کرتے رہے ہیں لیکن شاید آج تک کسی نے یہ سوچنے اور سمجھنے کی کوشش نہیں کی کہ یہودیوں سے نفرت میں خود یہودیوں کا کتنا کردار ہے؟ اور کیا دنیا والوں کی یہودی دشمنی میں ان کا کوئی کردار ہے یا واقعی وہ مظلوم ہیں؟
اس میں شک نہیں ہے کہ یہودیت ایک دین نہیں بلکہ قومیت ہے اور ایک ایک امت نہیں بلکہ ایک قبیلہ یا ایک قوم ہے اور یہ وہ بات ہے جس پر یہودی خود اصرار کرتے ہیں اور جو نسلا بنی اسرائیل میں سے نہ ہو وہ یہودی نہیں ہوسکتا۔ ان کی نسل ماں سے چلتی ہے اور یہودی جب نسلی تفاخر پر اتر آتے ہیں تو کہتے ہیں: میں اپنی ماں کا بیٹا ہوں، میں یہودی ہوں"؛ اور نسل پرستی گویا کہ یہود کی بقاء کا مسئلہ ہے چنانچہ یہودی نسل پرستی اہم ترین یہودی تعلیمات میں شمار ہوتی ہے؛ یہاں تک کہ یہود کی تاریخ میں یہود اور نسل پرستی کو کہیں بھی الگ الگ نہیں دیکھا جاسکا ہے اور جہاں بھی یہودی تھے وہاں نسل پرستی بھی تھی۔
یہ یہودی عقیدہ ـ کہ وہ اپنے آپ کو سب سے بہتر نسل اور برتر نسل سمجھتے ہیں ـ ان کے دوسرے عقائد پر چھتر کی طرح سایہ فگن ہے یہاں تک کہ انھوں نے دین موسی علیہ السلام کو اپنی نسل پرستی میں محصور کررکھا ہے اور اگر کوئی غیر یہودی [اور غیر اسرائیلی] شخص دین یہود قبول کرنا چاہے تو قابل قبول نہیں ہے؛ اسی بنا پر وہ دوسری اقوام میں جاکر اپنی تعلیمات کی تبلیغ نہیں کرتے [اور اگر کہیں نفوذ و رسوخ کرنا مقصود ہو تو عیسائیت کی تبلیغ کرواتے ہیں کیونکہ عیسائیت یہود کے چنگل میں اسیر ہے اور وہاں سے وہ اپنے اہداف و مقاصد بآسانی حاصل کرلیتے ہیں] وہ دین یہود کو بنی اسرائیل تک محدود گردانتے ہیں۔ اس خاص قسم کے رویے کی بنا پر دوسری اقوام و ملل میں انہیں نفرت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے اور چونکہ وہ دوسروں کو نفرت و تذلیل کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور اپنے آپ کو نسل برتر سمجھتے ہیں اسی بنا پر ان سے نفرت ایک فطری امر ہے اور  دنیا کے لوگ ہرگز اس شخص اور جماعت سے محبت نہیں کرسکتے جو اپنی نسل کو دوسروں سے اعلی و افضل سمجھتی ہے [نفرت محبت نہیں لایا کرتی]۔ اسلام نسل پرستی کے خلاف شدید جدوجہد کا قائل ہے اور نسل پرستی کو شرک کا ایک شعبہ سمجھتا ہے۔ (8)
یہودی نسلی برتری کے زعم کی نفی کرنے والی آیات میں سے ایک آیت میں خداوند متعال کا ارشاد ہے:
*"قُلْ یَا أَیُّهَا الَّذِینَ هَادُوا إِن زَعَمْتُمْ أَنَّکُمْ أَوْلِیَاء لِلَّهِ مِن دُونِ النَّاسِ فَتَمَنَّوُا الْمَوْتَ إِن کُنتُمْ صَادِقِینَ؛*
کہہ دیجئے کہ ای یہودیو! اگر تم گمان کرتے ہو کہ  سب لوگوں کو چھوڑ کر [صرف] تم ہی اللہ کے دوست ہو لوگوں کے بغیر تو پھر موت کی تمنا کرو [اور اپنے محبوب کے پاس جانے کی آرزو کرو] اگر تم [اپنے دعوے میں] سچے ہو۔ (9)
ارشاد ہوتا ہے:
*"وَقَالَتِ الْیَهُودُ وَالنَّصَارَى نَحْنُ أَبْنَاء اللّهِ وَأَحِبَّاؤُهُ قُلْ فَلِمَ یُعَذِّبُکُم بِذُنُوبِکُم بَلْ أَنتُم بَشَرٌ مِّمَّنْ خَلَقَ یَغْفِرُ لِمَن یَشَاء وَیُعَذِّبُ مَن یَشَاء وَلِلّهِ مُلْکُ السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضِ وَمَا بَیْنَهُمَا وَإِلَیْهِ الْمَصِیرُ؛*
اور یہود و نصاریٰ کہتے ہیں کہ ہم اللہ کے بیٹے اور اس کے چہیتے ہیں۔ ان سے کہئے (پوچھئے) پھر خدا تمہیں تمہارے گناہوں پر سزا کیوں دیتا ہے؟ (کہہ دیجئے کہ نہیں) بلکہ تم بھی اس کی مخلوقات میں سے محض بشر (انسان) ہی ہو۔ وہ جسے چاہتا ہے، بخش دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے۔ سزا دیتا ہے اور اللہ ہی کے لئے ہے، سلطنت آسمانوں کی، زمین کی اور  اس کی جو کچھ ان کے درمیان ہے، اور سب کی بازگشت اسی کی طرف ہے"۔ (10)
مذکورہ آیت کے کی تفسیر میں بیان ہؤا ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ نے یہودیوں کی ایک جماعت کو اسلام کی دعوت دی اور انہیں اللہ کے عذاب سے خبردار کیا تو انھوں نے کہا: ہمیں دھمکی نہ دیں کیونکہ ہم تو اللہ کے بیٹے اور اس کے چہیتے ہیں؛ اگر وہ ہم پر غضبناک ہو بھی جائے تو اس کا غضب اس باپ کی طرح ہے جو اپنے بیٹے پر غضبناک ہوجاتا ہے یعنی یہ غصہ جلد ہی ٹھنڈا ہوجائے گا۔ (11)
قرآن کریم کی بعض آیات نیز یہودی ذرائع میں یہودیوں کی نسلی برتری کے دعؤوں کی طرف اشارہ ہؤا ہے: "برگزیدہ قوم" وہ عنوان ہے جو تورات اور تلمود میں دکھائی دیتا ہے، یہاں تک کہ دنیا کے لوگوں کے یہودی قاموس میں دو حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے: اسرائیلی اور غیر اسرائیلی۔۔۔ یہ یہودی عقیدہ کہ وہ "برگزیدہ قوم" ہیں، یہودی مذہب میں ایک بنیادی اصول ہے: تلمود میں ہے کہ "یسرائیل (بنی اسرائیل) زیتون کے دانے کی مانند ہیں کیونکہ زیتون دوسرے مواد کے ساتھ مخلوط ہونے کا امکان نہیں رکھتا"۔ (12)
یہ یہودی عفیدہ ان کے اعمال اور  فردی و معاشرتی سلوک میں ظاہر ہوچکا ہے یہاں تک کہ قرآن کریم اس کے کچھ نمونوں کا تذکرہ کرتا ہے؛ منجملہ سورہ مائدہ میں ان کے ایک بےبنیاد دعوےے اور موہوم امتیازی خصوصیت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتا ہے:
*"وَقَالَتِ الْیَهُودُ وَالنَّصَارَى نَحْنُ أَبْنَاء اللّهِ وَأَحِبَّاؤُهُ؛؛*
اور یہود و نصاریٰ کہتے ہیں کہ ہم اللہ کے بیٹے اور اس کے چہیتے ہیں۔ (13)
یہی ایک ہی ان موہوم امتیازی خصوصیت نہیں ہے جو یہودی اپنے لئے بیان کرتے ہیں بلکہ دوسری آیات میں بھی ان کے اس قسم کے دعؤوں کی طرف اشارہ ہؤا ہے۔ مثال کے طور پر سورہ بقرہ کی آیت 111 میں ان کا یہ دعوی بیان ہؤا ہے کہ "ہمارے سوا کوئی بھی جنت میں داخل نہیں ہوسکتا اور قرآن نے ہی ان کا یہ دعوی باطل کردیا ہے:
*"وَقَالُواْ لَن یَدْخُلَ الْجَنَّةَ إِلاَّ مَن کَانَ هُوداً أَوْ نَصَارَى تِلْکَ أَمَانِیُّهُمْ قُلْ هَاتُواْ بُرْهَانَکُمْ إِن کُنتُمْ صَادِقِینَ؛*
اور وہ (یہود و نصاریٰ) کہتے ہیں کہ کوئی ہرگز جنت میں داخل نہیں ہو گا مگر وہی جو یہودی یا نصرانی ہو گا۔ یہ ان کی خیال بندیاں اور خالی تمنائیں ہیں۔ ان سے کہہ دیجئے کہ اگر تم (اپنے دعوے میں) سچے ہو تو اپنی کوئی دلیل پیش کرو۔"
اور اسی سورہ مبارکہ کی آیت 80 میں یہودیوں کے اس دعوے کی طرف اشارہ ہؤا ہے کہ "جہنم کی آگ معدودے چند روز ہی انہیں جلا سکے گی" اور خداوند متعال ان پر اس حوالے سے ملامت کرتا ہے:
*"وَقَالُواْ لَن تَمَسَّنَا النَّارُ إِلاَّ أَیَّاماً مَّعْدُودَةً قُلْ أَتَّخَذْتُمْ عِندَ اللّهِ عَهْداً فَلَن یُخْلِفَ اللّهُ عَهْدَهُ أَمْ تَقُولُونَ عَلَى اللّهِ مَا لاَ تَعْلَمُونَ؛*
اور یہ لوگ کہتے ہیں کہ گنتی کے چند دنوں کے سوا دوزخ کی آگ ہمیں چھو بھی نہیں سکتی (اے رسول) آپ ان سے کہیے! کیا تم نے خدا سے کوئی عہد و پیمان لے لیا ہے کہ خدا کبھی اپنے عہد کی خلاف ورزی نہیں کرے گا؟ یا اللہ کے ذمے وہ بات لگا رہے ہو جس کا تمہیں کوئی علم نہیں ہے"۔
زیر بحث آیات کریمہ سے معلوم ہوتا ہے کہ یہود میں نسلی امتیاز کی روح ـ جو دنیا بھر میں بہت زیادہ بدبختیوں کا سبب بنی ہوئی ہے ـ ابتداء ہی سے ان کے اندر موجود ہے اور وہ ابتداء ہی سے بنی اسرائیل کی نسل کے لئے موہوم امتیازی خصوصیات کے قائل تھے اور ہیں۔ بدقسمتی سے یہ روح آج بھی یہودیوں پر حکمرانی کررہی ہے اور یہ حقیقت ہے کہ اسرائیل نامی غاصب ریاست ہی اسی نسل پرستانہ روح کی تخلیق ہے۔
وہ نہ صرف اس دنیا میں اپنے لئے برتری کے قائل ہیں بلکہ ان کا وہم ہے کہ نسلی امتیاز آخرت میں بھی ان کی مدد کو آئے گی اور ان کے گنہگار لوگ دوسری قوموں کے گنہگاروں کے برعکس کچھ ہی دن سزا پائیں گے اور یہی غلط وہمیات ہی ہیں جن کی بنیاد پر ان کے ہاتھ مختلف قسم کے جرائم سے آلودہ ہوچکے ہیں اور دنیا بھر میں انسانیت کی بدبختیوں کا سبب بنے ہوئے ہیں۔ (14)
امر مسلّم ہے کہ جو قوم اتنے سارے دعؤوں اور سراسر غرور و تکبر میں ڈوبی ہوئی ہو وہ کبھی بھی ایسے پیغمبر کی اطاعت نہیں کریں گے جو ان کی قوم و قبیلے سے تعلق نہ رکھتا ہو اور اگر کوئی پیغمبر ان کے قبیلے کا ہو بھی تو وہ اسی صورت میں اس کی اطاعت کریں گے کہ ان کے مفادات کا تحفظ کرے ورنہ وہ اسے قتل بھی کرسکتے ہیں اور اس حقیقت کے ثبوت بھی قرآن نے بیان کئے ہیں۔ (15)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
8۔ تفسیر نمونہ، ناصر مکارم شیرازی، دار الکتب الإسلامیة - تهران، چاپ اول، 1374 ش ، ج1، ص 358 ۔
9۔ سورہ جمعہ، آیت 6۔
10۔ سورہ مائدہ، آیت 18۔
11۔ مجمع البیان فی تفسیر القرآن، فضل بن حسن طبرسی، انتشارات ناصر خسرو، تهران، چاپ سوم، 1372 ش، ج 3، ص 272۔ ذیل آیه 18 سوره مائده۔
12۔ موسوعه الیهود، ج5، ص 72 به نقل از پیامبر و یهود حجاز، ص 37 ۔
13۔ سورہ مائده، آیت 18۔
14۔ تفسیر نمونہ ، ج 1، ص 324 و 325۔
15۔ سورہ آل عمران، آیت 112؛ سورہ مائدہ، آیت 70۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ابو اسد

یہودی مسلمین کے ازلی ابدی دشمن (2)

  • ۳۴۵

حسد زوال کا سبب
حسد الحاد اور دین سے فررار کی جڑوں میں سے ہے اور اس کو دنیا پرستی کا ایک شعبہ سمجھا جاسکتا ہے، یہاں تک امام جعفر صادق علیہ السلام اس کو کفر کی جڑ قرار دیتے ہیں اور فرماتے ہیں:
*"وَاِیَّاکُمْ اَنْ یَحْسُدَ بَعْضُکُمْ بَعْضاً فَإِنَّ الْکُفْرَ أَصْلُهُ الْحَسَد؛*
کہیں ایسا نہ ہو کہ تم میں سے کوئی دوسرے پر حسد برتے کیونکہ کفر کی جڑ حسد ہے۔ (2)
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ کی بعثت سے قتل یہودی ایسے پیغمبر کا انتظار کررہے تھے جن کے سائے میں وہ مستقبل میں اپنی سیادت و زعامت کی توقع رکھے ہوئے تھے۔؛ چنانچہ وہ کفار سے کہا کرتے تھے "کہ ہم بہت جلد خاتم الانبیاء کی نبوت تسلیم کرکے تم پر فتح پائیں گے"؛ لیکن پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ کی  بعثت ہوئی تو انھوں نے آپ(ص) کی بیعت قبول کرنے سے انکار کیا اور حیلوں بہانوں سے کام لینے لگے۔ چنانچہ خداوند متعال قرآن کریم میں ارشاد فرماتا ہے:
*"وَلَمَّا جَاءهُمْ کِتَابٌ مِّنْ عِندِ اللّهِ مُصَدِّقٌ لِّمَا مَعَهُمْ وَکَانُواْ مِن قَبْلُ یَسْتَفْتِحُونَ عَلَى الَّذِینَ کَفَرُواْ فَلَمَّا جَاءهُم مَّا عَرَفُواْ کَفَرُواْ بِهِ فَلَعْنَةُ اللَّه عَلَى الْکَافِرِینَ؛*
اور جب ان کے پاس اللہ کی طرف سے وہ کتاب آگئی جو ان کے پاس والی کتاب (تورات) کی تصدیق کرتی ہے باوجودیکہ اس کے آنے سے پہلے خود یہ لوگ کافروں کے خلاف اس کے ذریعے سے فتح و ظفر طلب کیا کرتے تھے۔ مگر جب وہ (پیغمبر) ان کے پاس آگئے جنہیں وہ پہچانتے تھے تو اس کے منکر ہوئے۔ پس کافروں پر اللہ کی لعنت ہو"۔ (3)
اس آیت کریمہ میں خداوند متعال یہودیوں کی ہٹ دھرمیوں اور ہواپرستیوں کی طرف اشارہ فرماتا ہے وہ یہ کہ یہ لوگ تورات کی بشارتوں کی روشنی میں پیغمبر آخرالزمان صلی اللہ علیہ و آلہ کے منتظر تھے اور حتی کہ ایک دوسرے کو بھی فتح و نصرت کی خوشخبریاں دے رہے تھے اور مدینہ میں ان کے قیام کا ایک سبب بھی یہی تھا کہ وہ جانتے تھے کہ پیغمبر خاتم (ص) اسی شہر میں ہجرت کرکے تشریف فرما ہونگے؛ لیکن جب اسلام کا طلوع ہوچکا اور پیغمبر آخرالزمان صلی اللہ علیہ و آلہ نے ظہور فرمایا اور یہودی آپ(ص) کی حقانیت سے بھی آگاہ ہوئے اور دین اسلام کو تورات کی نشانیوں کے موافق پایا تو منکر ہوگئے۔ (4)
اگلی آیت میں خداوند متعال یہودیوں کے کفر کا سبب بیان کرتے ہوئے ارشاد فرماتا ہے:
*"بِئْسَمَا اشْتَرَوْاْ بِهِ أَنفُسَهُمْ أَن یَکْفُرُواْ بِمَا أنَزَلَ اللّهُ بَغْیاً أَن یُنَزِّلُ اللّهُ مِن فَضْلِهِ عَلَى مَن یَشَاء مِنْ عِبَادِهِ فَبَآؤُواْ بِغَضَبٍ عَلَى غَضَبٍ وَلِلْکَافِرِینَ عَذَابٌ مُّهِینٌ"؛*
[سو] کس قدر بری ہے وہ چیز جس کے عوض ان لوگوں نے اپنی جانیں بیچ ڈالی ہیں کہ ناروا انداز سے ضد اور سرکشی کی بنا پر اللہ کی اتاری ہوئی آیات کا انکار کردیا اور معترض تھے کہ خداوند متعال کیوں اپنے فضل سے اپنے بندوں میں سے جس پر چاہے اپنی آیات اتارتا ہے، تو وہ اس رویے کے نتیجے میں (خدا کے ) غضب بعد از غضب کے سزاوار ہوئے اور کافروں کے لئے خوار کردینے والا عذاب ہے۔ (5)
اس سلسلے میں روایات و احادیث بھی موجود ہیں جن میں سے یہاں دو نمونوں پر اکتفا کرتے ہیں:
الف) "جب عیسائی راہب بحیرا نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ کو طفولت میں ہی پہچان لیا تو ابوطالب علیہ السلام کو شام کا سفر جاری رکھنے سے منع کیا اور کہا: اس کو یہود سے بچائے رکھیں کیونکہ وہ عرب ہیں اور یہودی چاہتے ہیں کہ نبی موعود بنی اسرائیل سے ہوں چنانچہ وہ ان پر حسد کریں گے"۔ (6)
ب) مورخین اور مفسرین ابن عباس سے نقل کرتے ہیں کہ یہود اسلام سے قبل اوس و خزرج سے کہا کرتے تھے: "ہم پیغمبر خاتم یا پیغمبر موعود کے واسطے سے تم پر غلبہ کریں گے؛ لیکن پیغمبر(ص) کی بعثت کے بعد اپنی ہی بات کے انکاری ہوئے۔ معاذ بن جبل اور بشر بن براء نے ان سے کہا: تقوا سے کام لو اور اسلام قبول کرو! کیونکہ تم خود ہی ـ اس وقت جب ہم مشرک تھے ـ محمد صلی اللہ علیہ و آلہ کی شخصیت کی توصیف کیا کرتے تھے اور کہتے تھے کہ وہ مبعوث ہونگے اور ان کی مدد سے ہم تم پر غلبہ پائیں گے۔ سلام بن مشکم یہودی نے ان کا جواب دیتے ہوئے کہا: جس کی بات ہم کرتے تھے وہ محمد(ص) نہیں ہیں، وہ ہمارے لئے کوئی ایسی چیز نہیں لائے ہیں جو ہمارے لئے جانی پہچانی ہو! یہیں سورہ بقرہ کی آیت 89 نازل ہوئی۔ (7)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

2۔ علامه مجلسی، بحار الأنوار، مؤسسة الوفاء، بیروت - لبنان، 1404ھ‍  ج 78، ص 217۔
3۔ سورہ بقرہ، آیت 89۔
4۔ تفسیر نور، قرائتی محسن، مرکز فرهنگی درسهایی از قرآن، تهران، چاپ یازدهم، 1383، ج 1، ص345۔ به نقل از تفسیر نور الثقلین۔
5۔ سورہ بقرہ، آیت 90 ۔
6۔ الطبقات الکبری، محمد بن سعد بن منیع أبو عبدالله البصری الزهری، دار صادر، بیروت، ج1، ص123۔
7۔ سیرة ابن هشام، ج1، ص547؛ التبیان، ج1، ص365؛ درالمنثور، ج1، ص 196۔ به نقل از پیامبر و یهود حجاز،ص 99۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ابو اسد

یہودی مسلمین کے ازلی ابدی دشمن (۱)

  • ۳۸۵

گوکہ آج کل کئی مسلم ممالک پر مسلط حکمرانوں نے امریکی ـ اسرائیلی بساط پر جوا کھیلتے ہوئے اسرائیل نامی یہودی ریاست کے ساتھ پیار کی پینگیں بڑھانا شروع کی ہیں لیکن اس سے یہود کی ازلی ابدی دشمنی پر کوئی اثر نہیں پڑتا صرف اتنا ہوا ہے کہ یہودیوں کی ریشہ دوانیوں کو تقویت ملی ہے اور زیادہ آسانی سے اپنے مقاصد حاصل کررہے ہیں اور اس وقت ان کا سب سے بڑا مقصد فلسطین پر قابض یہودی ریاست کا بچاؤ ہے جس کے زوال کی پیشینگوئیاں اب تل ابیت تک بھی پہنچ چکی ہیں۔
آج یہود امریکہ اور یورپ کی پشت پناہی کی بدولت زیادہ اعلانیہ انداز سے تمام انسانی حدود کو پامال کرتے ہوئے مسلمانوں کے ساتھ وحشیانہ سلوک روا رکھ رہے ہیں؛ یہاں تک کہ جہاں بھی مسلمانوں پر دینی امتیاز کی بنا پر اور حتی کہ فرقہ وارانہ بنیادوں پر کوئی ظلم ہورہا ہے، جہاں بھی انہیں تنگ کیا جارہا ہے، ان کی معیشت تنگ کی جارہی ہے یا انہیں دہشت گردی جیسے اقدامات کا نشانہ بنایا جاتا ہے یہودیوں کا نقش پا بوضوح نظر آتا ہے۔
یہودی بطور خاص اسرائیل نامی غاصب اور طفل کش اور نسل پرست ریاست کے ظلم و ستم کا ایک نمایاں ترین نمونہ فلسطین کے مظلوم مسلمانوں پر ظلم ہے جو سالہا سال سے جاری اور سیاسی اور ابلاغی حلقوں کی زینت ہے۔ ایسا ظلم جس کی طرف سب سے پہلے اور سب سے زیادہ توجہ امام سید روح اللہ خمینی (قدس سرہ) نے دی۔ انھوں نے انقلاب اسلامی کی کامیابی کے آغاز سے ہی نہیں بلکہ 1963 میں تحریک اسلامی کے آغاز سے مسلمانوں کے درمیان یہودی ریاست کے مظالم کے فراموش ہونے کے سلسلے میں خبردار کیا، مسلمانان عالم کو یہودی صہیونیت کی ریشہ دوانیوں کے سامنے فروعی اختلافا کو بالائے طاق رکھتے ہوئے متحد ہونے کی دعوت دی اور اس امر کو ہمیشہ زندہ رکھنے کے لئے رمضان المبارک کے آخری روز جمعہ [جمعۃ الوداع] کو یوم القدس منانے کا اعلان کیا جو سال بسال وسیع سے وسیع تر سطح پر منایا جارہا ہے اور فلسطینی ملت سمیت دنیا بھر کے مسلمانوں کی بیداری کا سبب بنا ہؤا ہے۔  
یہودیوں نے ـ غیر دینی اور غیر انسانی اقدامات اور مسلم ممالک کے استبدادی حکام کو امریکہ اور یورپ کی مدد سے سرتسلیم خم کرنے پر مجبور کرکے مسلم اقوام اور محاذ مزاحمت کے خلاف اندرونی محاذ قائم کرکے اور بظاہر مسلمان دہشت گردوں کی ہمہ جہت مدد و حمایت کرکے ـ علاقے کو حساس بحرانی صورت حال سے دوچار کردیا ہے اور اور علاقائی بحران کو صرف اپنی مذموم اور موذی بقاء کی خاطر بین الاقوامی بحران میں تبدیل کردیا ہے۔ اگرچہ بہت سے یہودیوں کا کہنا ہے کہ ان کا صہیونیت اور اسرائیل سے کوئی تعلق نہیں ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ کے دور میں بھی تھے ایسے منصف یہودی جو بعد میں مسلمان ہوگئے یا مسلمانوں کے ساتھ ان کا رویہ دشمنی پر مبنی نہ تھا لیکن حقیقت یہ ہے کہ زیادہ تر معاملات میں دونوں قسموں کے یہودی کردار ایک جیسے تھے اور انہیں ایک دوسرے سے الگ کرنا ممکن نہیں ہے اور پھر قرآن نے یہود کو مؤمنین کا شدید ترین دشمن قرار دیا ہے اور کسی بھی منبع نے یہ نہیں کہا ہے کہ یہ آیت کسی خاص زمانے تک محدود تھی اور اس کی افادیت کا دور گذر چکا ہے۔
خداوند متعال قرآن کریم میں یہود کے بارے میں ارشاد فرماتا ہے: "لَتَجِدَنَّ أَشَدَّ النَّاسِ عَدَاوَةً لِّلَّذِینَ آمَنُواْ الْیَهُودَ وَ الَّذِینَ أَشْرَکُواْ؛ یقیناً آپ یہودیوں اور مشرکین کو ایمان والوں کا شدید ترین دشمن پائیں گے"۔ (1)
جی ہاں، یہودی مسلمانوں کے دشمن ہیں لیکن اس دشمنی کے اسباب کیا ہیں؟ مسلم امت اور قوم یہود کے درمیان ایسا کیا مسئلہ گذرا ہے کہ اسلام کو 14 صدیوں سے اس قدر شدید یہودی غضب کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے؟ اور آخر کار یہ کہ اسلام کے ساتھ یہودی عداوت کی جڑ کیا ہے؟
اس مقالے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ اور مؤمنین کے ساتھ یہود کی دشمنی کو قرآن کی روشنی میں زیر غور لانے کی کوشش ہوئی ہے؛ کہ یہ قوم ـ جو حضرت موسی علیہ السلام کی تعلیمات اور تورات کے متن کی روشنی میں صدیوں سے سرزمین حجاز میں آپ(ص) کے ظہور کا انتظار کرتی رہی تھی ـ آپ(ص) کی بعثت کے بعد آپ(ص) سے دشمنی کیوں کرنے لگی، اور بکثرت رکاوٹیں کھڑی کرکے اسلام کے فروغ کا راستہ روکنے کے لئے کوشاں ہوئی، یہاں تک اللہ تعالی نے مذکورہ بالا آیت میں اسے مشرکین کے برابر مسلمانوں کا بدترین اور شدید ترین دشمن قرار دیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ابو اسد
...........
1۔ سورہ مائدہ، آیت 82۔

امریکہ اور اس کے اتحادی دہشت گرد ہیں، نہ کہ انصار اللہ

  • ۵۱۸

آسٹریلیائی صحافی کیتھلین جانسن نے ایک یادداشت میں لکھا، " سعودی عرب، امریکہ، اسٹریلیا، کینیڈا، فرانس اور ہر وہ ملک جو یمن میں مل کر جرائم کا ارتکاب کر رہا ہے وہ دھشتگرد ہیں۔
اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی۔ابنا۔ آسٹریلیائی صحافی نے امریکہ، برطانیہ، سعودی عرب اور ان کے اتحادیوں کو دھشتگرد قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ انصار اللہ دھشتگرد تنظیم نہیں ہے بلکہ وہ اپنے وطن کے تحفظ کے لیے لڑ رہی ہے دھشتگرد وہ ہوتا ہے جو دوسرے کے گھر پر حملہ کرے نہ وہ جو اپنے گھر کو حملے سے بچائے۔
گزشتہ ہفتوں متعدد امریکی ذرائع ابلاغ نے یہ اطلاع دی کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ جنوری ۲۰۲۱ میں اقتدار چھوڑنے سے قبل یمن کی انقلابی تنظیم انصار اللہ کو دھشتگرد تنظیم قرار دے کر انہیں عالمی دھشتگردوں کی فہرست میں شامل کر دیں گے۔
میلبورن میں مقیم آسٹریلیائی صحافی کیتھلین جانسن نے اس ممکنہ امریکی اقدام کی مذمت کرتے ہوئے ، امریکہ، سعودی عرب، امارات اور مغربی باشندوں کو دھشتگرد قرار دیا ہے جو یمن میں آ کر لوگوں کا قتل عام کر رہے ہیں۔
خیال رہے کہ ۲۰۱۵ میں سعودی عرب کے زیر قیادت حکومت کے صدر منصور الہادی کو یمنی عوام کے ذریعے اقتدار سے برکنار کرنے کے بعد تاحال سعودی عرب امریکی، عربی اور مغربی اتحادیوں کے بل بوتے پر یمن کو محاصرہ کئے ہوئے ہے اور مسلسل انہیں حملوں کا نشانہ بنا رہا ہے جس کے نتیجے میں تاحال ہزاروں بے گناہ جانیں ضیاع ہو چکی ہیں اور موجودہ صورتحال یہ ہے کہ لوگ فقر و فاقہ سے مر رہے ہیں جبکہ ان کے پاس نہ کھانے پینے کے لیے کچھ ہے اور نہ ہی دارو دوا کا کوئی انتظام ہے۔
جانسن نے نیوزی لینڈ کی ویب سائٹ پر اس عنوان کے تحت کہ "ہم دھشتگرد ہیں" لکھا ہے کہ یمن کی عوامی تنظیم انصار اللہ دھشتگرد نہیں ہے بلکہ دھشتگرد وہ ہیں جو ان کے ملک میں مسلسل حملے کر رہے ہیں۔
آسٹریلیائی صحافی نے مزید لکھا ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ ایسے وقت میں یمنی تنظیم انصار اللہ کو دھشتگردوں کی فہرست میں شامل کرنے کی کوشش کر رہی ہے کہ اقوام متحدہ کے ورلڈ فوڈ کے سربراہ نے انتباہ کیا ہے اگر یہ ظالمانہ جنگ اسی طرح جاری رہی تو اڑھائی لاکھ سے زیادہ افراد یمن میں بھوک کی وجہ سے ہلاک ہو جائیں گے۔ اور جنگ و محاصرے کی وجہ سے یمنی عوام کے لیے انسانی امداد فراہم کرنا ممکن نہیں ہے"۔
انہوں نے یہ بھی لکھا ہے کہ اقوام متحدہ نے تاحال یمن میں امریکہ کے حمایت یافتہ سعودی اتحاد کے ذریعے چھیڑی گئی جنگ کے نتیجے میں دو لاکھ تینتیس ہزار عام یمنی ہلاک ہو چکے ہیں۔

آسٹریلیائی صحافی نے مزید لکھا ، "ہم دہشت گرد ہیں (اس سے ہمارا مطلب یہ ہے) سعودی عرب ، ریاستہائے متحدہ ، برطانیہ، آسٹریلیا ، کینیڈا ، فرانس اور کوئی دوسرا ملک جس نے یمن میں ہولناک بڑے پیمانے پر جرائم کے ارتکاب کی سہولت فراہم کی ہے دھشتگرد ہیں۔ طاقت کا یہ گہرا عالمی اتحاد ایک دہشت گرد تنظیم ہے جس کی مثال دنیا میں کہیں نہیں ملتی۔ "حوثیوں کو ایک دہشت گرد تنظیم کے طور پر پیش کرنے کے لئے ایک خوفناک اور خونخوار امریکی سلطنت کا نظریہ اب تک کا سب سے دلچسپ مذاق ہے۔"

آسٹریلیائی صحافی نے کہا ، "ہم دہشت گرد ہیں۔" میں اپنی حکومتوں کی بجائے "ہم" کا لفظ استعمال کرتا ہوں ، کیوں کہ اگر ہم اپنی سویلین آبادی کے ساتھ ایماندار ہیں تو مجھے یہ کہنا چاہیے کہ ہم اس قتل عام (یمن میں) میں ملوث ہیں۔ "بلاشبہ ، یمن میں خوفناک اور بدترین صورتحال ہے جو اس وقت دنیا میں ہورہی ہے ، لیکن ہمارے معاشرتی شعور میں اس کا کوئی مقام نہیں ہے۔"
انہوں نے لکھا ، "ہم میں سے بیشتر افراد نے بھوکے یمنی بچوں کی تصاویر اور ویڈیوز دیکھی ہیں اور اپنے آپ سے کہا ، 'واہ ، یہ بہت افسوسناک ہے' اور پھر ہم نے دوبارہ کھیلوں اور دیگر بکواسوں کی طرف اپنی توجہ مبذول کروائی۔

"ہم دہشت گرد ہیں ،" جانسن نے اس عنوان پر گفتگو جاری رکھتے ہو لکھا: ہاں ، یہ سچ ہے کہ ہم اس دھشت گردی میں پروپیگنڈا کرنے میں ملوث ہوچکے ہیں ، اور اگر نیوز میڈیا اپنا کام صحیح طریقے سے انجام دیتا تو یمن ہماری توجہ میں سب سے آگے ہوتا ، لیکن نہ ہمارا میڈیا حقائق کو بیان کرتا ہے اور نہ ہم کبھی حقائق کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں ہم ایسے معاشروں میں رہتے ہیں جو قتل و غارتگری کے خلاف کبھی نہیں اٹھتے بلکہ کبھی سوچتے بھی نہیں۔
انہوں نے مزید لکھا: "ہم دہشت گرد ہیں ، لیکن ہمیں دہشت گرد نہیں بننا چاہئے۔ ہمارے پاس جاگنے کے لیے ابھی بھی وقت ہے ہم خود کو جگائیں، اپنے دوستوں کو بیدار کریں، اپنے پڑوسیوں کو بیدار کریں کہ ہمارے حکمران انسانیت کی خدمت کے بجائے یمن اور اس طرح کے دیگر ممالک میں ہولناک کاروائیاں کرتے ہیں اور ہزاروں افراد کی زندگیاں ان سے چھینتے ہیں ۔"

آسٹریلیائی نامہ نگار نے کہا ، "اگر امریکی حکومت چاہے تو یمن کی خوفناک صورتحال کو فوری طور پر ختم کر سکتی ہے۔" لیکن امریکہ ایسا کر نہیں سکتا چونکہ اگر امریکہ یمن میں جنگ بندی کا حکم دے دے تو یمن میں حوثی اپنے ملک میں اپنی حکومت بنانے میں کامیاب ہو جائیں گے اور اس جنگ کے فاتح کہلائیں گے جبکہ سعودی عرب اور اس کے اتحادی پسپائی کرنے پر مجبور ہوں گے جو امریکہ کے مفاد میں نہیں چونکہ سعودی عرب امریکہ کا اتحادی ہے۔
"یمن کے بارے میں خاموشی توڑ دو"۔ بائیڈن (جو امریکی میڈیا کے مطابق ، ملک کے اگلے صدر ہیں) پر دباؤ ڈالیں کہ وہ اس جنگ کے خاتمے کے اپنے انتخابی وعدے کو پورا کریں۔ جو جنگ بائیڈن اوبامہ انتظامیہ میں شروع ہوئی تھی اسے امریکہ کو ہی خاتمہ دینا ہو گا ۔
ترجمہ جعفری

 

صہیونی معاشرے میں فقر و تنگدستی

  • ۴۲۱

بقلم سعید ابوالقاضی
خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: اسرائیل میں فقر و تنگدستی کا ایک بڑا مسئلہ ہے۔ یہاں تک کہ اسرائیلی اعلی عہدیداروں نے بارہا نیتن یاہو سے ملک میں غربت کے گراف کو کم کرنے کی تاکید کی ہے۔
اسرائیلی بچے کوڑے دانوں میں کھانے پینے کی چیزیں تلاش کرتے ہیں
اسرائیلی اخبار یدیعوت احرونوت نے ایک تحقیقاتی انسٹی ٹیوٹ کی رپورٹ کو شائع کر کے مقبوضہ فلسطین میں غربت کے حیران کن اعداد و شمار پیش کئے ہیں۔
اس ادارے کی رپورٹ میں آیا ہے کہ لاکھوں بچے اس علاقے میں غربت اور مفلسی کی زندگی بسر کر رہے ہیں۔
لیٹٹ ادارے کی رپورٹ کے مطابق مقبوضہ فلسطین کی آبادی میں سے ۲ ملین سے زائد افراد غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کر رہے ہیں جن میں ایک ملین تین لاکھ ادھیڑ عمر کے افراد ہیں اور بقیہ بچے ہیں۔ بطور کلی ایک چہارم صہیونی یہودی معیشتی مشکلات کا شکار ہیں جبکہ ایک چوتھائی صہیونی بچے رفاہی فلاح و بھبود کے محتاج ہیں۔ اور ان میں سے ایک تہائی سے زیادہ کو ایک وقت کا کھانا نصیب نہیں ہوتا۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ۵/۷ فیصد بچے کوڑے دانوں اور سڑکوں کے کناروں پر کھانے پینے کی چیزیں تلاش کرنے پر مجبور ہیں۔
اسرائیلی بچوں کی حالت زار
لیٹٹ ادارہ جو دس سال سے زیادہ عرصے سے اسرائیل کی معیشت اور اس ریاست میں پائی جانے والی غربت پر تحقیقات انجام دے رہا ہے، اس نے ۲۰۱۵ میں ایک رپورٹ میں شائع کیا کہ اسرائیل کی کل آبادی میں سے ایک ملین ۷۰۹ ہزار ۳۰۰ افراد جو تقریبا ۲۲ فیصد کا گراف ہے غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کر رہے ہیں۔
اس رپورٹ کے مطابق یہودی گھرانوں میں بچوں کی صورتحال تشویشناک ہے اس لیے کہ ہر تین اسرائیلی بچوں میں ایک بچہ غریب ہے۔ اور یہاں تک کہ ۴ / ۳۴ فیصد بچے بغیر ناشتہ کئے اسکولوں میں جاتے ہیں۔ جبکہ ۱ / ۱۱ فیصد بچوں کے والدین انہیں تین وقت کا کھانا کھلانے کی توانائی نہیں رکھتے۔ نیز ۱ / ۱۱ فیصد والدین اپنے بچوں کے لیے طبی سہولیات فراہم کرنے کی توانائی بھی نہیں رکھتے۔
سیاسی پارٹیوں کا حکومت سے غربت کے خاتمے کا مطالبہ
پچھلے کچھ سالوں میں بہت سارے اسرائیلی جرمنی اور امریکہ جا چکے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ اسرائیلی معاشی پریشانیوں کی وجہ سے مقبوضہ فلسطین چھوڑ رہے ہیں۔ حالیہ برسوں میں زیادہ ٹیکسوں اور کم اجرت کی وجہ سے اسرائیلیوں پر منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں۔
لیبر پارٹی کے ایک سینئر عہدیدار اسحاق ہرٹزک نے کہا کہ اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاھو کا غربت کے مسئلے سے نمٹنے کا کوئی منصوبہ نہیں ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ غربت اسرائیل کے لئے اسٹریٹجک خطرہ ہے۔
لیبر پارٹی کے ایک اور سینئر عہدیدار ، ایسٹک شمولی نے بھی اقتصادی مسائل کا ذمہ دار حکومت کو ٹھہرایا۔ شمولی نے کہا ، “اعدادوشمار بتاتے ہیں کہ غریبوں کی اکثریت محنت کش لوگ ہیں ، اور ۵٪ غریب بچے ہیں جو باہر جا کر کام کرتے ہیں۔” غربت کے خاتمے اور عدم مساوات کو کم کرنے کے لئے حکومت کو چاہیے کہ معاشرتی اہداف کو قانون میں شامل کرے۔ ہمارے پاس حکومت کے کافی کھوکھلے بیانات ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

شہید فخری زادے کے قتل پر صہیونی جنرل کا اعتراف

  • ۴۲۱

صہیونی ریاست کے ایک ریٹائرڈ جنرل نے اعتراف کیا ہے کہ ایران کے جوہری اور دفاعی سائنسداں ایک پیچیدہ کاروائی کے ذریعے ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنائے گئے۔

اسرائیلی فوجی انٹلیجنس سروس (آمان) کے سابق سربراہ اور اسرائیل انسٹی ٹیوٹ برائے داخلی سیکیورٹی اسٹڈیز (آئی این ایس ایس) کے موجودہ سربراہ "عاموس یادلن" نے کہا ہے کہ ایران سائنسدان محسن فخری زادے کے قتل کا بدلہ لینے کے لیے شائد موجودہ امریکی انتظامیہ کے خاتمے تک انتظار کرے۔

اخبار " یروشلم پوسٹ " نے لکھا ہے کہ "یادلین" نے ہفتے کی شام ایک پریس کانفرنس میں اسرائیلی میڈیا سے بات کرتے ہوئے وضاحت کی: "جنرل قاسم سلیمانی کے قتل کے فورا بعد امریکہ نے ذمہداری قبول کی تو ایران نے دسیوں میزائل عراق میں امریکی اڈے پر داغ دئیے، لیکن ابھی کوئی بھی فخری زادے کے قتل کی ذمہ داری قبول نہیں کر رہا ہے لہذا یہ امکان پایا جا رہا ہے کہ ایران ٹرمپ انتظامیہ کے خاتمے تک صبر کرے اس لیے کہ وہ نہیں چاہے گا کہ ٹرمپ جاتے جاتے ایران کے لیے کوئی بڑی مشکل کھڑی کر دے"۔
انہوں نے اس بات کی نشاندہی کرتے ہوئے کہ ایران کے خیال میں، صہیونی حکومت شہید فخری زادے کے قتل کی ذمہ دار ہے ، کہا: "تل ابیب نے اس کارروائی کی ذمہداری قبول نہ کر کے تہران کو موقع دے دیا ہے کہ وہ ردعمل کا اظہار کرنے کے لیے عجلت سے کام نہ لے"۔

جوہری پروگرام کو مستحکم کرنے کی شکل میں رد عمل

یروشلم پوسٹ کے مطابق "یادلن" نے یہ دعوی کرتے ہوئے کہ شاید ایران کا سخت ردعمل اسرائیل پر میزائل حملہ ہوگا ، مزید کہا: "البتہ، ایران صرف اپنے جوہری پروگرام میں تیزی لا کر رد عمل ظاہر کرسکتا ہے ، جیسا کہ محسوس ہو رہا ہے، اور مئی 2019 کے بعد سے ایران ایسا کر رہا ہے. وہ موجودہ سطح سے کہیں زیادہ [یورینیم] کی افزودگی کرسکتے ہیں اور زیادہ جدید سینٹرفیوج انسٹال کرسکتے ہیں۔ "یہ ایک اسٹریٹجک اقدام یا رد عمل ہوگا۔"

انہوں نے کہا کہ اسرائیلی سفارت خانوں یا کلیدی شخصیات پر حملہ کرنے کے آپشن کو سنہ 2010-2011 میں کئے گئے متعدد ایرانی جوہری سائنسدانوں کے قتل پر ہونے والے رد عمل سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔
 انہوں نے مزید کہا کہ لبنان ، شام ، عراق ، یمن یا کسی اور جگہ پر ایران کے حامی گروہوں کے ذریعے حملہ کروا کر بھی ایران اپنا انتقام لے سکتا ہے۔  

صہیونی حکام اپنا منہ بند رکھیں!

اس رپورٹ کے مطابق ، صہیونی حکومت کے اس سابق سیکیورٹی اہلکار نے شہید فخری زادے کے قتل کے چند گھنٹوں بعد "بنیامن نیتن یاہو" کے ذوق دار تبصرے کا ذکر کرتے ہوئے ، حکومت کے موجودہ عہدیداروں کو مشورہ دیا کہ وہ اپنا منہ بند کردیں اور کچھ ظاہر نہ کریں کیونکہ اب تک انہوں نے حد سے زیادہ بول دیا ہے۔

انھوں نے اس دعوے کا اعادہ کرتے ہوئے کہ ایران میں ایک خفیہ جوہری پروگرام موجود ہے اور کوئی بھی ایران کے خفیہ جوہری پروگرام سے واقف نہیں ہے، کہا کہ "بغیر شک کے فخری زادہ جوہری سائنسداں اور ایران کے ایٹمی پلانٹ کو منظم کرنے والا شخص تھا"۔

اس ریٹائرڈ صہیونی جنرل نے شہید فخری زادہ کا موازنہ شہید حج قاسم سلیمانی سے کرتے ہوئے کہا ، "اس حقیقت کے باوجود کہ ایرانیوں کو اس کا کوئی متبادل مل جائے گا ، لیکن اس کی صلاحیتوں اور مہارتوں کا بدل نہیں ملے گا۔"

"ایرانی جوہری سائنسدان کے قتل کے وقت کے بارے میں ، یادلن نے کہا ،" وہ اس وقت متعدد اور پیچیدہ کاروائی کے نتیجے میں مارا گیا ہے چونکہ اس طرح کی منظم کاروائی کرنے کے لیے طویل مدت اور وسیع منصوبے کی ضرورت تھی" ۔

انہوں نے اس قتل میں اسرائیل کے کردار کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: "اگر دوسرے فریق جیسے امریکہ، سعودی عرب یا دیگر ایران مخالف اس کاروائی میں شامل ہوتے تو زیادہ وقت لگتا اور کچھ خصوصی شرائط کی ضرورت ہوتی، تاکہ سب فریق گرین سیگنل دکھاتے"۔

خیال رہے کہ ایک مغربی انٹیلیجنس عہدیدار نے ہفتے کی شام یہ بات واضح کردی تھی کہ صہیونی حکومت نے ایران کے جوہری پروگرام کو سبوتاژ کرنے کے لئے فخری زادہ کا قتل ایک طویل مدت منصوبہ کے بعد کیا۔